بسم الله الرحمن الرحيم
پاکستان نیوز ہیڈ لائنز30اگست 2019
-کشمیر اقوام متحدہ سے اپیلیں کر کے نہیں بلکہ افواج پاکستان کے جہاد سے آزاد ہوگا
-مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کے لیے جمعہ کے دن ترانے بجانے اور مظاہروں کا حکومتی اعلان مضحکہ خیز ہے
-پاکستان کی زراعت ٹیکنالوجی کے فروغ سے نہیں بلکہ اسلام کے نفاذ سے بہتر ہو گی
تفصیلات:
کشمیر اقوام متحدہ سے اپیلیں کر کے نہیں بلکہ افواج پاکستان کے جہاد سے آزاد ہوگا
24 اگست 2019 کو پاکستان کے وزیر خارجہ نے بتایا کہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انٹونیو گٹرس نے وعدہ کیا ہے کہ وہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ کشمیر کا مسئلہ اٹھائیں گے۔ قریشی صاحب نے مزید بتایا کہ انہوں نے گٹرس کی توجہ دہلی کی جانب سے غیر قانونی انضمام کے بعد مقبوضہ کشمیر میں پیدا ہونے والےانسانی بحران کی جانب ایک بار پھردلائی۔
ہر صاحب عقل پر یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ مقبوضہ کشمیر اقوام متحدہ، عالمی برادری کی مددیا امریکا یا کسی بھی دوسری عالمی طاقت کی ثالثی سے آزاد نہیں ہوگا لیکن یہ بات اگر کسی کو سمجھ نہیں آتی تو وہ پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت ہے۔ درحقیقت اس بات سے پاکستان سیاسی و فوجی قیادت بھی پوری طرح سے باخبر ہے مگر بدقسمتی سے ان کے اعمال کا پیمانہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا حکم نہیں بلکہ بین الاقوامی قوانین، اقوام متحدہ اورسب سے بڑھ کر امریکا کا حکم ہے، لہٰذا مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے لیے امریکا نے پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت کو اس بات کی اجازت نہیں دی کہ وہ لائن آف کنٹرول پار کر کے اپنے کشمیر ی مسلمان بہن بھائیوں کی مدد کریں تو وہ افواج پاکستان کو حرکت میں آنے کا حکم نہیں دیتے۔ لیکن عوام اور افواج پاکستان میں موجود مخلص افراد کی جانب سے لڑائی کے مطالبے کے شدید دباؤ سے مجبور ہو کر پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت ایسے اقدامات لیتی اور بیانات جاری کرتی ہے جس سے وہ ہمیں یہ دھوکہ دے سکیں کہ وہ مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے لیے فکر مند اور بھر پور کوشش کررہے ہیں۔ پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت اس بات سے بھی پوری طرح آگاہ ہے کہ اگر آج وہ افواج پاکستان کو سرینگر کی جانب مارچ کا حکم دیں تو ہندو فوج یا تو مقبوضہ کشمیر سے سر پر پیر رکھ کر بھاگ کھڑی ہو گی یا اس کی تکا بوٹی ایک ہوجائے گی۔ لیکن چونکہ اعمال کا پیمانہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا حکم نہیں لہٰذا مقبوضہ کشمیر کو شہہ رگ کہنے کے باوجودپاکستان کی سیاسی وفوجی قیادت اس کی آزادی کے لیے افواج پاکستان کو جہاد کا حکم جاری نہیں کررہی۔
صرف اور صرف نبوت کے طریقے پر خلافت ہی پاکستان کی مسلم افواج کو سرینگر کی جانب مارچ کا حکم دے گی اور مقبوضہ کشمیر اور اس کے مسلمانوں کو ہندو افواج ظلم و ستم سے آزاد کرائے گی کیونکہ خلافت کے لیے اعمال کا دارومدار صرف اور صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا حکم ہوتا ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
وَقَاتِلُوۡا فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ الَّذِيۡنَ يُقَاتِلُوۡنَكُمۡ وَلَا تَعۡتَدُوۡاؕ
"اور جو لوگ تم سے لڑتے ہیں تم بھی اللہ کی راہ میں ان سے لڑو"(البقرۃ 2:190)۔
اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا مَا لَـكُمۡ اِذَا قِيۡلَ لَـكُمُ انْفِرُوۡا فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ اثَّاقَلۡتُمۡ اِلَى الۡاَرۡضِؕ اَرَضِيۡتُمۡ بِالۡحَيٰوةِ الدُّنۡيَا مِنَ الۡاٰخِرَةِۚ فَمَا مَتَاعُ الۡحَيٰوةِ الدُّنۡيَا فِىۡ الۡاٰخِرَةِ اِلَّا قَلِيۡلٌ
"مومنو! تمہیں کیا ہوا ہے کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کی راہ میں (جہاد کے لیے) نکلو تو تم زمین پر گرے جاتے ہو (یعنی گھروں سے نکلنا نہیں چاہتے) کیا تم آخرت (کی نعمتوں) کو چھوڑ کر دینا کی زندگی پر خوش ہو بیٹھے ہو۔ دنیا کی زندگی کے فائدے تو آخرت کے مقابل بہت ہی کم ہیں" (التوبۃ 9:38)۔
تو پاکستان کے مسلمانوں کو افواج پاکستان میں موجود مخلص افسران سے جہاد کشمیر کے لیے حرکت میں آنے کا مطالبہ کرنا چاہیے بلکہ ان سے نبوت کے طریقے پر خلافت کے قیام کے لیے خلافت کے مخلص داعیوں کو نصرہ دینے کا بھی مطالبہ کرنا چاہیے۔ اور پھر خلیفہ راشد اللہ کے حکم کی پیروی کرتے ہوئے پاکستان کی مسلم افواج کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے سرینگر کی جانب مارچ کا حکم دے گا۔ اور کیا ہی شاندار وہ منظر ہوگا جب مسلم فوج سرینگر پر کلمہ طیبہ کا پرچم لہرائے گی اور مسلمانوں کے دل شکر ، خوشی اور طمانیت کے جذبات سے لبریز ہوجائیں گے۔
مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کے لیے
جمعہ کے دن ترانے بجانے اور مظاہروں کا حکومتی اعلان مضحکہ خیز ہے
25 اگست 2019 کو وزیرِ اعظم عمران خان نے عوام سے اپنے خطاب میں اعلان کیا کہ کشمیری عوام سے اظہارِ یکجہتی کیلئے ہر ہفتے تقریبات کا انعقاد کیا جائے گا اور اس جمعہ پاکستانی قوم دوپہر 12:30- 12:00 تک یکجہتی کے اظہار کیلئے گھروں، دفاتر، اسکولوں ، کالجز اور یونیورسٹیوں سے نکلے گی ۔ آئی ایس پی آر کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور نے بھی اعلان کیا کہ "کشمیر آور" کے حکومتی اعلان کے مطابق 30 اگست کو پاکستانی اور کشمیری ترانے بجائیں جائیں گے۔
یہ پہلی دفعہ نہیں ہے کہ حکومت نے کسی سنجیدہ مسئلے پر عوام کے جذبات کو ٹھنڈا کرنے کے لیے اس طرح کے غیر سنجیدہ اقدامات کا اعلان کیا ہے۔ اس سے قبل جب امریکہ میں گستاخانہ فلم پرپاکستانی عوام کی جانب سے امریکہ کے خلاف کارروائی کے مطالبات بڑھنے لگےتھے تواس وقت بھی حکومت نے جمعہ کو عام تعطیل کا اعلان کر کہ یومِ احتجاج منانے کا اعلان کیا تھا۔ اور آج جب پاکستانی مسلمان اپنے کشمیری مسلمان بھایئوں کی مدد کیلئے مسلم امہ کی سب سے بڑی فوج افواجِ پاکستان کوحرکت میں لانے کا مطالبہ کر رہے ہیں تو سیاسی و فوجی قیادت کی جانب سے اس بےمعنی اور بے سود اقدامات کا اعلان مضحکہ خیزہے ۔ سوال یہ ہے کہ وہ ریاست جو دنیا کی سب سے قابل افواج، بین البراعظمی (انٹر کانٹینٹل) بلیسٹک میزائل اور ایٹمی قوت سے لیس ہے کیا وہ اپنے معاملات اس طرح عوامی مظاہرے کر کے حل کرتی ہے؟۔ اگر حجاج بن یوسف نے سندھ سے آنے والے ایک مسلمان عورت کے خط پر ترانے بجائے ہوتے تو آج ہم بھی گائے کا پیشاب پیتے اور سانپ اور بندروں کی پوجا پاٹ کررہے ہوتے۔ اگرصلاح الدین ایوبی اپنی فوج کو لے کر آدھے گھنٹے کا احتجاج کرتے تو کبھی ہم قبلہِ اول کو صلیبیوں سے آزاد نہ کروا پاتے ۔ لیکن یہ باجوہ-عمران حکومت یہود و ہنود اورنصاریٰ کی چاکری میں اتنے آگے نکل گے ہیں کہ ان کی آنکھ پر پردے پڑے ہوئے ہیں
(( صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لاَ يَرْجِعُونَ))
"(یہ) بہرے ہیں، گونگے ہیں، اندھے ہیں کہ (کسی طرح سیدھے رستے کی طرف) لوٹ ہی نہیں سکتے"(البقرۃ 2:18) ۔
تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے لے کرسلطان عبدالحمیددوئم تک تمام مسلم حکمرانوں کواللہ سبحانہ تعالیٰ نے جب بھی اپنے دشمنوں پر فتح عطا فرمائی تووہ مسلمانوں کی تعداد اور تیاری کے بل بوتے پر نہیں بلکہ مسلمانوں کی اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے حکم کو بجا لانے اور صرف اسی ذاتِ پاک پر توکل کرنے کے نتیجے میں عطا فرمائی۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے مسلم افواج کو اس بات کا حکم دیا ہے کہ وہ مظلوموں کی پکار پر لبیک کہیں اور مقبوضہ علاقوں کو آزاد کرائیں۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا
((وَمَا لَكُمْ لاَ تُقَاتِلُونَ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ وَٱلْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ ٱلرِّجَالِ وَٱلنِّسَآءِ وَٱلْوِلْدَانِ ٱلَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَآ أَخْرِجْنَا مِنْ هَـٰذِهِ ٱلْقَرْيَةِ ٱلظَّالِمِ أَهْلُهَا ))
"اور تمھیں کیا ہوا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اور اُن بےبس مردوں اور عورتوں اور بچوں کی خاطر نہیں لڑتے جو دعائیں کرتے ہیں کہ اے پروردگار ہمیں اس شہر سے نکال لے کہ جس کے لوگ ظالم ہیں "(الانفال 4:75)۔
لہٰذاپاکستان کی مسلم افواج پر فرض ہے کہ وہ کشمیر کی آزادی کیلئے حرکت میں آئیں اور کشمیری مسلمانوں کو بھارتی مظالم سے نجات دلائیں۔
پاکستان کی زراعت ٹیکنالوجی کے فروغ سے نہیں بلکہ اسلام کے نفاذ سے بہتر ہو گی
25 اگست 2019 کو ٹریبیون اخبار نے یہ خبر شائع کی کہ اسلام آبادایوانِ تجارت و صنعت (ICCI) نے حکومت کو چھوٹے کسانوں کے لئے چھوٹے قرضوں کا مشورہ دیا ہے۔ چیمبر کے عہدیداران نے کہا، "پاکستان ایک زرعی ملک ہے لیکن جدید ترین مشینری اور ٹیکنالوجی کی عدم فراہمی کی وجہ سے اس کی فصلوں کی فی ایکڑ پیداوار دوسرے ممالک کے مقابلے میں بہت کم ہے"۔ ICCI کے صدر احمد حسن مغل نے حکومت پر زور دیا کہ وہ پیداوار اور کسانوں کی آمدن بڑھانے کیلئے یہ اقدامات کرے۔ انھوں نے مزید کہا، "اس مسئلے کے فوری حل کیلئے حکومت کو چاہیے کہ وہ کسانوں کو کیڑے مار دوائیں اور کھاد کم قیمت پر مہیا کرے"۔
پاکستان کی معیشت میں زراعت ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ زراعت کا شعبہ ملکی پیداوار میں 21فیصد کا حصہ دار ہے اور 45فیصد لوگوں کا روزگار اس شعبے سے جڑا ہے۔ پاکستان زراعت سے نہ صرف اپنے ملک کے لوگوں کا پیٹ بھرتا ہے بلکہ چاول، آم اور کینو جیسی پیداوار کی برآمدات سے زرِمبادلہ بھی کماتا ہے۔ پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے چار موسموں سے نوازا ہے اوراس کے پاس دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام بھی ہے۔ پاکستان کی گندم کاشت کرنے کی موجودہ صلاحیت اس کی گندم کی اپنی ضرورت سے زیادہ ہے۔ فی الوقت پاکستان اپنے کل رقبے کےصرف 40فیصد پر کاشت کرتا ہے۔ ٹیکنالوجی میں پیچھے ہونے کی وجہ سے پاکستان فی ایکڑ پیداوار میں دنیا سے کافی پیچھے ہے۔ فرانس کی 8.1 ٹن فی ایکڑ گندم کے مقابلے میں پاکستان صرف 3.1 ٹن فی ایکڑ پیدا کرتا ہے۔ چین کی 4.8 ٹن فی ایکڑ کپاس کے مقابلے میں پاکستان صرف 2.5 ٹن فی ایکڑ پیدا کرتا ہے۔ امریکہ کی 9.2 ٹن فی ایکڑ چاول کے مقابلے میں پاکستان صرف 2.7 ٹن فی ایکڑ پیدا کرتا ہے۔
ان حقائق سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ ٹیکنالوجی میں پیچھے رہ جانے کی وجہ سے پاکستان کی فی ایکڑ پیداوار ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں تقریباً آدھی ہے۔ لیکن اللہ نے پاکستان کو جو وسائل عطا کیے ہیں، ان کا پورا فائدہ اٹھانے کی راہ میں رکاوٹ صرف اور صرف اس ملک کا زرعی نظام ہے جو استحصالی پالیسیوں پر مبنی ہے۔ ٹیکنالوجی میں ترقی پاکستان کو اپنی پیداوار تقریباً دگنی کرنے میں تو مدد دے سکتی ہے، لیکن پاکستان کی زراعت کا اولین مسئلہ ٹیکنالوجی نہیں ہے۔ آج بھی جاگیردار طبقہ غریب کسانوں کا استحصال کرتے ہوئے انہیں غیر یقینی پیداوار کے ایک حصے کے عوض کھیتوں میں کام کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ پاکستان میں جاگیردار طبقہ زمین کے ایک ایسے بڑے حصے پر قابض ہے جس کو نہ تو کاشت کیا جاتا ہے، نہ ہی کسی اور استعمال میں لایا جاتا ہے۔ ایسے حالات میں غریب کسان چند چھوٹے قرضوں کے عوض زراعت میں کیسے جدت لا سکتا ہے، جبکہ پیداواری زمین جاگیرداروں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے قبضے میں رکھی جاتی ہے۔
ملکی پیداوار کو بڑھانے کیلئے اسلام واضح احکامات دیتا ہے، جو اگر پاکستان میں نافذ کیے جائیں تو یہ ملک اپنے سمیت کئی دیگر ممالک کو بھی خوراک مہیا کر سکتا ہے۔ حکومت ٹیکنالوجی کے فروغ میں براہِ راست کردار ادا کرے گی تاکہ کسانوں کو مناسب مشینیں اور ہنر دستیاب ہو۔ اس کے علاوہ اسلامی ریاست جاگیرداروں کے ہاتھوں کسانوں کے استحصال کے خاتمے کیلئے مزارعت اور زمین کاشت کیلئے ٹھیکے پر دینے کو ممنوع قرار دے گی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،
(من کانت لہ ارض فلیزرعھا اخاہ، ولایکاریھا بثلث ولابربع ولا بطعام مسمی)
"جس کے پاس زمین ہو تو وہ خود کاشت کرے یا اپنے بھائی کو کاشت کرنے کیلئے دے دے، اس کو ایک تہائی یا ایک چوتھائی یا کسی بھی کھانے کی چیز کیلئے کرایہ یعنی اجرت پر نہ دے" (ابوداؤد)۔
اسی طرح ابنِ عمر سے روایت ہے کہ
(ما کنا نری بالمزارعۃ باسا حتی سمعنا رافع بن خدیج یقول: نھی رسول اللہ ﷺ عنھا)
"ہم مزارعت میں کوئی برائی نہیں دیکھتے تھے یہاں تک کہ ہم نے رافع بن خدیج کو یہ کہتے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے مزارعت سے منع فرمایا ہے"۔
اس کے علاوہ، اللہ سبحان وتعالیٰ کے حکم کے مطابق اگر کوئی قابلِ کاشت زمین تین سال تک استعمال نہ کی جائے، تو وہ اس کے مالک سے لے کر کسی اور کی ملکیت میں دے دی جاتی ہے تاکہ وہ اس کو قابلِ استعمال بنائے۔ رسول اللہ ﷺ نے مزینہ یا جہینہ (قبیلے) کے لوگوں کو کچھ زمین دی جو استعمال نہ کرنے کی وجہ سے حضرت عمر نے تین سال بعد ان سے واپس لے لی۔ ریاستِ خلافت اس طرح کی تمام زمین جسے جاگیردار استعمال میں نہیں لاتے، وہ ان مزدوروں اور کسانوں کو دے گی جو اس کو کاشت کریں گے اور براہِ راست اس کا فائدہ اٹھائیں گے۔اسلام کے اس حکم اور زراعت سے متعلق دیگر اسلامی احکامات کا نفاذ ہی حقیقت میں پاکستان کی زراعت کو آگے لے کر جاسکتا ہے جہاں پاکستان نہ صرف اپنی ضروریات پوری کر سکے گا بلکہ دنیا میں افریقہ جیسے غریب ممالک میں بھی خوراک کا مسئلہ حل کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔