الجمعة، 20 جمادى الأولى 1446| 2024/11/22
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

سوال و جواب

گبون میں فوجی بغاوت

(ترجمہ)

 

سوال:

 

گبون میں فوج کے صدارتی گارڈز اور سیکورٹی فورسز میں سے افسران کے ایک گروپ نے30 اگست، 2023 کو  اقتدار پر قبضہ کرنے کا اعلان کر دیا اور انہوں نے الیکشن کمیشن کی جانب سے  تیسری بار علي بونغو کو صدر منتخب ہونے کے اعلان کے چند گھنٹے بعد ہی ان کو ہاؤس اریسٹ کردیا۔ انتخابات کو کالعدم کرنے، ریاستی اداروں کو تحلیل کرنے، اور تاحکم ثانی سرحدوں کو بند کرنے کا اعلان کردیا گیا۔ صدارتی گارڈز کے سربراہ  نگیما کو ملک کے عبوری صدر بنانے کا اعلان کیا گیا۔اس فوجی بغاوت کے پیچھے کیا راز چُھپا ہے؟ خطے میں بین الاقوامی رسہ کشی کے ساتھ اس معاملے کا کیا تعلق ہے؟

 

جواب:

 

اس انقلاب کے بارے میں جواب کو واضح کرنے کےلیےہم مندرجہ ذیل امور کو پیش نظر رکھیں گے:

 

1۔ گبون مغربی افریقہ کے وسط میں بحرالکاہل تک پھیلا ہوا ایک ملک ہے، جس پر فرانسیسی استعمار نے 1885میں قبضہ کیا اور اس کو 1960میں بظاہر سرکاری آزادی دی۔ یاد رہے کہ گبون کے دارالحکومت لیبر ویل میں ایک فوجی اڈہ ہے جہاں ایک ہزار(1000)فرانسیسی فوجی موجود ہیں جو اس گبون میں فرانسیسی مفادات کی حفاظت پر مامور ہیں اور یہاں فرانسیسی اثرورسوخ کی حفاظت کر رہے ہیں۔  اس ملک کے رقبے کے لحاظ سے گبون کی آبادی خاصی کم ہے؛2022 کی مردم شماری کے مطابق تقریباً 2.3ملین افراد، اس کا رقبہ 2 لاکھ 70 ستر ہزار مربع کلومیٹر ہے،اعداد وشمار کے مطابق یہاں مسلمانوں کی آبادی  بہت کم ہے جن میں معزول صدر  اور نئے عبوری صدر بھی شامل ہیں، مسلمانوں کی آبادی 10سے 12فی صد کے درمیان ہے جن کی اکثریت دار الحکومت لیبر ویل میں رہتی ہے۔  گبون قدرتی وسائل سے مالامال ملک ہے، یہ میگنیزدھات کی پیداور میں دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے جو کہ فولاد لوہا اور بیڑیوں کی صنعت میں استعمال ہوتا ہے، اور اس کے ساتھ ساتھ یہاں سونا، ہیرا اور یورینیم بھی بڑی مقدار میں پایاجاتاہے، یہاں تیل اور گیس کے بےشمار بڑے ذخائرموجود ہیں۔

 

یہی وجہ ہے کہ گبون اوپیک کا ممبر ہے۔ ان وسائل کے بیشتر حصے پر فرانسیسی کمپنیوں کا کنٹرول ہے، فرانسیسی وزارتِ خارجہ کی ویب سائٹ پر موجود رپورٹوں کے مطابق گبون میں ان کمپنیوں کی تعداد 110کے قریب ہے۔ ان کمپنیوں میں سے ایک، فرانسیسی مائننگ کمپنی ارامیٹErametبھی ہے جو زمین سے میگنیز دھات نکالتی ہے، اور فرانسیسی انرجی کمپنی " ٹوٹل-TOTAL"  ہے جو زمین سے تیل اور گیس نکالتی ہے۔    نائیجر، مالی، سنیگال اور چاڈ کی طرح گبون بھی ان چودہ ممالک میں سےایک ہےجن کی کرنسی افریقی فرانک کے نام سے فرانسیسی کرنسی سے منسلک ہے جو کہ یورو سے منسلک ہے، کیونکہ یہ فرانس اور یورپ کے مفاد میں ہے، اور ان ممالک کا سرمایہ فرنچ سنٹرل بینک منتقل ہوکر کرنسیوں میں  ان کے زرمبادلہ کے ذخائر کی شکل اختیار کرلیتا ہے اور پھربدلے میں فرانس ان کو چند کوڑیاں دے دیتا ہے۔ یوں ان ممالک کے باشندے غریب ہیں اور فرانس ان کی دولت لوٹ لیتا ہے۔ ان ممالک میں لوگ  کرنسی کے اس کنکشن کو  منقطع کرکے اپنے سرمائے کو اپنے ملکی بنکوں میں منتقل کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں تاکہ ان کی دولت ان کے درمیان تقسیم ہوسکے۔

 

2۔ معزول صدر علی بونغو نے 2009 کے عام انتخابات میں اپنے والد عمر بونغو کی وفات کے بعد اقتدار حاصل کیا تھاجنہوں نے 41سال تک حکومت کی تھی۔ یوں اس بچے کو فرانس کی دلالی  اپنے والد سے میراث میں ملی تھی،  اور پھرانہوں نے 2016 کے انتخابات میں اپنی کامیابی کا اعلان کیا۔  گبون کے دستور کے مطابق ان کو تیسری بارامید وار بننے کا حق حاصل نہیں تھا ، تاہم انہوں نےدوسری جماعتوں کے ساتھ ساز باز کی اور دیگر جماعتوں نے ان کے انتخابات میں حصہ لینے کی حامی بھرلی۔  پھر 26 اگست 2023 کو ہونے والے انتخابات کے نتائج کے مطابق علی بونغو 64.27 فی صد ووٹ لے کر کامیاب قرار پائے۔ ان نتائج کے اعلان کے دن  ہی صدارتی گارڈز اور سیکورٹی فورسز کے افسران کے گروپ نےصدر کے خلاف بغاوت کی اور ان کو گھر میں نظر بند کردیا۔گروپ نے اپنے پہلے بیان میں کہا جس کو ایک کرنل رینک کے افسر نے صدارتی محل سے  "گبون  24 "چینل کے ذریعے پڑھ کر سنایا:"ہم ڈیفنس اور امن فورسز اکٹھے عبوری کمیٹی اور اداروں کی بحالی  کے ضمن میں گبون قوم کی طرف سے امن وامان بحال رکھنے اور موجودہ حکومت کو ختم کرنے کا اعلان کرتے ہیں۔  اسی لیے 26.8.2023کو ہونے والے انتخابات کے نتائج کو ہی نہیں بلکہ انتخابات کو بھی کالعدم کیا جاتا ہے"۔

 

حکومت کو ختم کرنے والےسکیورٹی افسران کے ترجمان نے  کہا کہ" نور الدین بونغو، صدر کے بیٹے اور ان کے مشیر کو حراست میں لیا گیا ہے، اس کے علاوہ ان کے آفس کے سربراہ اور نائب کو بھی۔ اسی طرح ان کے کئی مشیروں اور صدر کے ترجمان، حکمران جماعت، گبونی ڈیموکریٹک پارٹی  جس کے سربراہ صدر علی بونغو ہیں، کے دو نہایت اہم افراد کو ریاستی اداروں کے خلاف بڑی غداری کرنے، عوامی اخراجات میں ہیراپھیری کرنے، عالمی مالیاتی کرپشن  مافیا کے ذریعے لوٹ مار  کرنے، صدر کی جعلی مہر بنانے  اور منشیات کی تجارت کے الزامات میں گرفتار کیا گیاہے"۔  اس لیے ایسا لگ رہا ہے کہ یہ بغاوت ملک کی تمام عسکری قوتوں کی منصوبہ بندی کے ساتھ کی گئی ہے، اور اگر ہمیں یہ معلوم ہو جائے کہ عسکری عناصر فرانس کے زیرِ کنٹرول ہیں تو  الزام دینے کو انگلی اسی کی طرف اٹھتی ہے۔

 

3۔ دوسری طرف صدر علی بونغو نے برطرف کیے جانے کے بعد اپنے گھر سے  سوشل میڈیا کے ذریعے ایک پیغام   ارسال کیا ،ان پر پریشانی کے آثار بھی نمایاں تھے کہ"میں گبون کا صدر، علی بنگو اوندیمبا، دنیا بھر میں اپنے دوستوں کو یہ پیغام دیتا ہوں اور ان سے یہ مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ ان افراد کے بارے میں آواز اٹھائیں جنہوں نے مجھے اور میری فیملی کو گرفتار کیا ہے"۔۔۔سکائی نیوز عرب 30 اگست، 2023۔ مگر کسی نے بھی اس کو اہمیت نہیں دی، نہ ہی فرانس اور نہ امریکہ، نہ ہی افریقی یونین نے اور کسی نے ان سے رابطہ تک نہ کیا، بالکل اسی طرح جیسا کہ نائجیریا کے صدر محمد بازوم کے ساتھ ہوا تھا۔  بلکہ فرانسیسی اخبارات نے بغاوت کی قیادت کرنے والے لیڈر کو اہمیت دی گویا کہ اس نے انہی کے اشارے پر یہ سب انجام دیا ہو اوروہ اس بغاوت  کے حوالے سے اس کو حق بجانب قرار دیتے رہے۔  چنانچہ 30 اگست ، 23 کو فرانسیسی جریدے لی موند( Le Monde) نے اس بغاوت کے سربراہ اور گبون میں جمہوری گارڈ کے قائدبریس اولیگی نگیما (Brice Oligui Nguema)کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان کا قول نقل کیا کہ"صدر علی بونغو نے آئین توڑا ہےاس کو تیسری بار صدارت کے امیدوار بننے کا حق نہیں تھا، ووٹنگ کا طریقہ کار بھی درست نہیں تھا، اسی لیے فوج نے اپنی ذمہ داری نبھانے کا فیصلہ کیا۔  علی بونغو اب سابق صدر  ہیں اورکسی بھی شہری کی طرح ان کو بھی تمام حقوق حاصل ہیں "۔  یہ بات قابل ذکر ہے کہ صدارتی گارڈ کے سربراہ نگیما، صدر علی بونغو کے خاصے قریب رہے تھےاور وہ ان کے چچا زاد بھائی بھی ہیں، وہ ان کے والد عمر بونغو کے بھی قریبی تھے، وہ ان کی وفات تک ان کے مشیر خاص رہےتھے۔ اس کے بعد وہ سینگال اور مراکش میں اپنے ملک کے سفارت خانے میں ملٹری اتاشی رہنے کے بعداکتوبر 2018  میں علی بونغو کو برین ہیمبرج  ہونے پرواپس آئے تھے، جس سے   علی بونغو دس مہینے تک غیر فعال رہےتھے۔ یوں ان کو دو سال باہر رکھا گیا پھر واپس لاکر صدارتی گارڈز کا سربراہ مقرر کیا گیا یعنی ان کی سرپرستی کرنے والوں نے چاہا کہ وہ واپس آکر معذور صدر کے بعد کے مرحلے کی تیاری کریں۔ چنانچہ اپوزیشن کے صدارتی امیدوار البرٹ اوندو اوسا Albert Ondo Ossa نے 31 اگست، 2023 کو فرانسیسی "ٹی وی 5 بونڈTV5 Bond "کو بیان دیتے ہوئے کہا کہ"ہمیں معاملات کو اپنے تناظر میں رکھنا چاہیے۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ یہ عسکری بغاوت نہیں بلکہ محلاتی انقلاب ہے۔  اولیگی نگیما علی بونغو کے کزن ہیں... بونغو کیمپ اس حد تک پہنچ گیا تھا کہ بونغو خاندان کی حکمرانی برقرار رکھنے کےلیے علی بونغو کو برطرف کرنا ضروری تھا... اور اولیگی نگیما نے یہی کیا، اور اس کے پیچھے اس کا پورا خاندان ہے جس نے اقتدار پر قبضہ کر رکھا ہے"۔

 

4۔ جہاں تک فرانس کے سرکاری مؤقف کا تعلق ہے تو بی بی سی(BBC) نے30.8.2023 کوفرانسیسی عہدہ داروں کے بیانات نشر کرتے ہوئے کہا کہ فرانس کی وزیر اعظم الزبتھ بورن Elizabeth Borneنے بیان دیا؛ "پیرس، گبون کی صورت حال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے"۔ فرانس کے صدارتی محل الیزےElyseeکے ذرائع نے کہا ہے کہ "پیرس ،گبون  میں فوجی بغاوت کی واضح مذمت کرتا ہے۔ صدر میکرون نے صدر بونغو سے کوئی رابطہ نہیں کیا اور فرانس امید کرتا ہے کہ گبون میں جلد دستوری نظام بحال ہوجائے گا تاہم وہ اس ملک کے اندرونی سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کرتے۔ معاملات کا حل عسکری بغاوت  نہیں بلکہ گبونی عوام کی امنگوں کے مطابق صاف شفاف انتخابات ہی ان کا حل ہیں"۔  اگرچہ فرانس کے اس مؤقف میں بظاہر فوجی بغاوت پر تنقید نظر آتی ہے لیکن بہرحال یہ مؤقف اس بغاوت کی حمایت کرتا ہے ، اور یہ ظاہری تنقید عسکری بغاوت کے خلاف موجود عوامی رائے عامہ کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کےلیے ہے۔

 

فرانسیسی صدر کے اقدامات ہی اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ گبون میں بغاوت پر ان کی تنقید سنجیدہ نہیں ہے۔ کیونکہ انہوں نے معزول صدر کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں کیا جیسا کہ نائیجیریا کے صدر محمد بازوم کے ساتھ کیا تھا۔ انہوں نے خود ذاتی طور پرنہ ہی اس بغاوت کی مذمت کی اور نہ ہی کوئی دھمکی یا مداخلت کرنےکی بات کی، جیسا کہ نائیجیریا میں مداخلت کرنےکی بات کی تھی۔ بلکہ انہوں نے اس کو اندرونی معاملہ کہہ کر  یہ بیان دیا کہ مداخلت کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔  یہ معاملہ فرانس کے نائیجیریا کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنے کے برعکس ہے، جہاں فرانس نے انقلاب کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا، اور انہوں نے انقلابیوں کی جانب سے فرانسیسی سفیر کو بے دخل کرنے کے مطالبہ کو مسترد کردیا تھا۔  میکرون کا یہ کہنا، کہ حل صاف شفاف انتخابات ہیں، گبون کےانقلابیوں کو جواز فراہم کرنا اور ان کی حمایت کرنا ہے۔ یہ بات ہرگز بعید ازامکان نہیں کہ گبون میں اس بغاوت کے پسِ پردہ فرانس کا ہاتھ ہے، خاص طور پر اس لئے کہ گبون فرانس کےلیے خاص اہم حیثیت رکھتا ہے۔ فرانسیسی ریڈیو، مونٹی کارلو نے 31.8.2023کو پیرس میں بین الاقوامی تعلقات اور اسٹریٹیجی انسٹیٹیوٹ کی ڈائریکٹر ،کیرولین روسیCaroline Rossi کا بیان نقل کیا جس میں وہ کہتی ہے کہ "فرانس گبون کے بغیر ایسا ہی ہے جیسے فیول کے بغیرکوئی گاڑی ، اور گبون فرانس کے بغیر ایسےہے جیسا کہ ڈرائیور کے بغیر ایک گاڑی "۔

 

5۔یورپی یونین کے مؤقف سے بھی اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ اس بغاوت کے پیچھے فرانس کا ہاتھ تھا۔ یورپی یونین میں خارجہ پالیسی کے عہدہ دار جوزف بوریلJosep Borrellنے31.8.2023  کو اسپین کے شہر طلیطلہToledoمیں یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کے  ستائیسویں اجلاس کے موقع پر  کہا "گبون میں ہونے والے واقعات کا موازنہ نائیجیریا میں ہونے والے واقعات سے کرنا ممکن نہیں ہے"۔ یاد رہے کہ گبون کے دارالحکومت ،لیبر ویل میں فوج نے معزول صدر علی بونغو کی دھاندلی زدہ  الیکشن میں کامیاب ہونے کے بعد مداخلت کی تھی"۔ جوزف بوریل نے مزید کہا کہ "عسکری بغاوت کوئی حل نہیں ہے مگر ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ گبون میں انتخابات میں بھرپور دھاندلی ہوئی ہے۔ جعلی ووٹ ڈالنا بھی ایک سول اداراتی بغاوت ہے"۔ انہوں نے کہا کہ "کچھ بغاوتیں عسکری اور کچھ ادارہ جاتی ہوتی ہیں"۔ انہوں نے مزید کہا کہ "فی الحال اس افریقی ملک(گبون) سے یورپی یونین کے شہریوں کو نکالنے کا کوئی ارادہ نہیں"۔ (روزنامہ الشرق الاوسط ، اور  المیادین ، شمارہ 31.8.2023

 

  یوں جوزف بوریل گبون میں ہونے والی بغاوت کا جواز پیش کر رہا ہے، بلکہ وہ اس بغاوت کی حمایت کر رہا ہے جیسے کہ اس سے پہلے دھاندلی ہوتی  رہی تھی اور وہ اس کے خلاف اب تک احتجاج نہیں کررہا تھا! ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ابتداء میں یورپی عہدہ داراس بغاوت کی حقیقت سے آگاہ نہیں تھا، اور یہی وجہ ہے کہ اس نے اس بغاوت کے فوراً بعد یہ کہاتھا "یونین کے وزراء گبون کے معاملات کے بارے میں تبادلۂ خیال کریں گے اور مغربی افریقہ میں جو کچھ ہورہا ہے، وہ یورپ کےلئے باعثِ تشویش ہے۔  اگر یہ بغاوت ثابت ہو جاتی ہے تو یہ ایک اور ایسی عسکری بغاوت ہو گی جس سے پورے خطے کی پریشانی میں اضافہ ہوگا" (الجزیرہ 30.8.2023)۔ مگر ایک دن بعدہی جب جوزف بوریل کی ملاقات یورپی یونین کے وزراء سے ہوئی ، اس ملاقات میں فرانس کے وزیر خارجہ بھی موجودتھے تب اسے اس حقیقت کا پتہ چلا کہ یہ بغاوت یورپ کے مفاد میں ہے اور اس بغاوت سے ان کے لئے فکر کی کوئی بات نہیں ، تب پھر جوزف نے اپنا بیان بدل ڈالا۔

 

6۔ گبون اور افریقہ کےدیگرممالک میں عوام بکثرت فرانس کو مسترد کرتے ہیں۔  چند مہینے پہلے فرانسیسی صدر میکرون نے کئی افریقی ممالک کا دورہ کیا اور اس نے خود مشاہدہ کیاکہ افریقہ میں لوگ فرانسیسی استعمار پر لعنت  بھیجتے ہیں اور فرانس کو مسترد کرتے ہیں۔صدرمیکرون نے 2 مارچ، 2023 کو گبون کا دورہ کیا تو لوگ اس پر حملہ آور ہو گئے اور اس پربونغو  کی حکومت اور اس کے کرپشن کرنے کی پشت پناہی کا الزام لگایا۔ میکرون نے فرانس کے حوالے سے بڑھتی  نفرت کو تسلیم کیا اور  اس نے افریقہ کے ساتھ نئے متبادل، متوازن اور  ذمہ دارانہ تعلقات کو پروان چڑھانے کی بات کی۔  لوگ خاص طور پر نوجوان نسل، دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بہانے فرانسیسی فوج کی موجودگی کو فرانسیسی استعمار کا ہی تسلسل سمجھتے ہیں اور نئے سرے سے آزادی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔  ایسا معلوم ہوتا ہے کہ فرانس نے خطے کے ممالک جیسے مالی، برکینا فاسو اورنائیجر ...میں انقلاب کو دیکھتے ہوئے اپنے اثرورسوخ اور مفادات کی حفاظت کےلیے خود اس انقلاب کا منصوبہ بنایا ہے اور وہ اس بغاوت کے ذریعے ان ممالک میں فوجی انقلابات کے لیڈران کی طرز پر انہی جیسے ایک فوجی لیڈر کے ذریعے  اپنے کنٹرول کو مضبوط کرنا چاہتا ہے، یہ فوجی لیڈر انہیں میں سے ہو مگر فرانس کی طرف سے ان کے سامنے ڈٹ جائے اور فرانس کے مفادات کی حفاظت کرے، بلکہ شاید ان لوگوں کے درمیان گھل مل کر ان کے لیے مسائل پیدا کرے اگر وہ متحد ہو کر فرانس کے خلاف  اتحاد بنا لیں اور یا پھر وہ ان لوگوں میں مداخلت کی کوششیں کرے۔ یاد رہے کہ علی بونغو علیل رہے ہیں، ان کو برین ہیمبرج ہوا اور وہ دس مہینے تک بستر پر پڑےرہے۔  یہ افواہ بھی گردش میں ہے کہ وہ ذہنی اور جسمانی دونوں لحاظ سے تندرست نہیں ہیں اور اسی لیے فرانس ان کی جگہ انہی کے خاندان سے دوسرا ایجنٹ لانا چاہتا تھا۔  بغاوت کرنے والے اہلکاروں نے جن افراد کو گرفتار کیا ہے وہ وہی لوگ تھے جو سابق حکومت میں کرتا دھرتا تھے اور ان میں سرفہرست ان کے بیٹے نور الدین بونغو ہیں۔ ان کی گرفتاری کی وجہ یہ ہے کہ لوگ ان پر کرپشن کے الزامات لگاتے تھے، اسی لیے باغی اہلکار لوگوں کو دھوکہ دینے میں کامیاب ہوگئے  اورانہوں نے خود کو مخلص افسران کے طور پر ظاہرکیا۔

 

7۔ جہاں تک گبون میں ہونے والی فوجی بغاوت کے بارے میں امریکی مؤقف کاتعلق ہے توالجزیرہ سائٹ نے 30.8.2023 کو وائٹ ہاؤس کے ترجمان کایہ بیان نقل کیا کہ "ہم حالات کا بغور جائزہ لے رہے ہیں، اور جو کچھ ہو رہا ہے یہ تشویشناک امرہے۔ ہم اپنے افریقی شراکت داروں اور خطہ کی اقوام کے ساتھ مل کر جمہوریت کی بحالی کےلیے ان کی مدد پر توجہ مرکوزرکھیں گے"۔الجزیرہ سائٹ نے اقوام متحدہ میں امریکی مندوب  لینڈا تھامس گرینلن فیلڈLinda Thomas Greenlenfeldکا بیان نقل کیا جس میں انہوں نے کہا کہ "امریکہ گبون میں فوجی بغاوت اور فوج کی جانب سے طاقت کے ذریعے اقتدار پر قبضے کی کسی بھی کوشش کی مذمت کرتاہے... سلامتی کونسل کے ممبران سے گبون میں انقلاب کے بارے میں مشاورت کی جارہی ہےاور جو کچھ ہو رہا ہے اس کے بارے میں تحقیق سے قبل ہم کوئی قدم نہیں اٹھائیں گے"۔  ایک امریکی فوجی اہلکار نےالجزیرہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ"امریکی انتظامیہ  گبون  میں ہونے والی پیش رفت سے آگاہ ہے  اور بھر پور توجہ سے اس پر نظر رکھے ہوئے ہے، تاہم گبون میں امریکہ کی  عسکری موجودگی  صرف سفارت خانے کی حفاظت کی حد تک محدود ہے"۔  امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان  میتھیو ملرMatthew Millerنے کہا "گبون میں رونما ہونے والے واقعات پر امریکہ کو شدید تشویش ہے۔ ہم بدستور اقتدار پر فوج کے قبضہ کرنے یا اقتدار کی غیر آئینی منتقلی کی مخالفت کرتے رہے ہیں"۔(بی بی سی- BBC30.8.2023

 

یہ صورتحال نائیجر کے بارے میں امریکی مؤقف کے بالکل برعکس ہے جس کی تفصیل ہم نے 15.8.2023کو ایک سوال کے جواب میں بیان کی ہے۔ گبون کی حقیقت یہ ہے کہ اس کے تمام سیاسی، اقتصادی اور فوجی معاملات پر فرانس کا کنٹرول ہے اور اب تک امریکہ یہاں پر اپنا تسلط حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا؛ اسی لئے یہ صورتحال نائیجر سے یکسرمختلف ہے جہاں 2010 میں ہونے والی فوجی بغاوت کے ساتھ ہی امریکہ، محمد بازوم اور اس کے پیش رو  محمد یوسفو کے ذریعے اپنی مداخلت کرنے میں کامیاب ہوا۔  گبون میں ہونے والی بغاوت کی قیادت کرنے والے آفیسر، نگیما، مراکش میں امریکی اثر سے دورایک ملٹری  کالج، مکناس  کے گریجویٹ ہیں،اور وہ  سابق صدر عمر بونغو کے تاحیات مشیرِخاص کے طور پر کام کرتے رہے۔ جیسا کہ پہلے ذکر ہوچکا ہے کہ وہ اور معزول صدر علی بونغو آپس میں چچا زاد ہیں۔  اس کے باوجود یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ  اپوزیشن اور اس کے نمائندے ان کے آلہ کار اور حمایتی ہیں،  بلکہ صرف یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ (نگیما) فرانسیسی ایجنٹوں کے حلقۂ ٔمیں ہے۔ امریکہ نے بھی اپوزیشن کے نمائندے البرٹ اوندو اوساAlbert Ondo Ossaکی حمایت کا اعلان نہیں کیا بلکہ امریکہ صرف جمہوریت کی حمایت کا اعلان کررہا ہے اور اس نے فوجی بغاوت کی شدت سے مخالفت کی۔

 

8۔ اس وقت جو کچھ ہم گبون میں دیکھ رہے ہیں، افریقہ اور ایشیا کے تمام ممالک میں تقریباً یہی حال ہے، جمہوریت، آزادی، قومیت اور وطنیت کی ڈینگیں مارنے والے ایجنٹ  اقتدار تک پہنچنے  یا اپنا اقتدار بچانے کےلیےاستعماری ممالک کے مفادات کی حفاظت کرتے ہیں۔ یہ ایجنٹ نہ ہی استعمار کی غلامی کو عار سمجھتے ہیں اور نہ ہی استعماری ممالک کی کمپنیوں کی جانب سے اپنے ملک کے وسائل کی لوٹ مار پر  ان کے کانوں پر جوں رینگتی ہے۔بلکہ یہ  ان کمپنیوں سے کمیشن وصول کرتے ہیں جو ان کے ملک کی دولت کو لوٹتی ہیں اور ان کی عوام کو غربت، بھوک اور امراض کی دلدل میں جھونک  ڈالتی ہیں۔   اس کے بجائے یہ ایجنٹ حکمران اپنے بجٹ کو سہارا دینے کے لئے اپنے ہی اہل وطن پر ٹیکس عائد کردیتے ہیں اورجس کو وہ جلد ہی اپنی شہ خرچیوں سے کنگال بھی کر لیتے ہیں۔ گبون کے لئے یا کسی بھی جگہ کے لوگوں کے لئے کوئی بھی نجات نہیں ہے سوائے اس کے کہ وہ ان ایجنٹوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں اور سیاسی میدان سمیت ہر جگہ سے ان کا صفایا کرڈالیں، پھر خالقِ کائنات، القوی والعزیز پر  پختہ ایمان رکھیں اور حق وعدل کی ریاست، خلافت راشدہ  میں اللہ رب العزّت کی شریعت کا نفاذ  کریں۔ صرف   تب ہی یہ ممکن ہو گا کہ گبون کے لوگ ،امن وامان  خیر اور سلامتی میں زندگی گزارنے کے قابل ہو پائیں گے، اور اسی طرح جو بھی اسلام، حق وہدایت اور رحمت کے دین کے زیرِ سایہ آئے گا وہ  پرسکون زندگی گزارنے کے قابل ہوگا۔

 

ارشادِ باری تعالیٰ ہے،   

 

﴿يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَتْكُمْ مَوْعِظَةٌ مِنْ رَبِّكُمْ وَشِفَاءٌ لِمَا فِي الصُّدُورِ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ

اے لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نصیحت اور دلوں کی بیماریوں کےلیے شفا آچکی، جو ایمان لانے والوں کےلیے ہدایت اور رحمت ہے ۔ (یونس؛10:57)

 

بیس صفر 1445 ہجری

بمطابق5 ستمبر، 2023

Last modified onجمعہ, 06 اکتوبر 2023 20:01

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک