الأحد، 22 جمادى الأولى 1446| 2024/11/24
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

سوال کا جواب

دریاوں سےمتعلق شرعی قواعد

سوال:

کیا دریاوں سے متعلق کوئی شرعی قواعد ہیں، چاہے  یہ دریا ریاست خلافت میں شروع ہو کر اسی میں ختم ہوجاتے ہوں یا  وہاں سے نکل  کر دوسری ریاستوں میں جاتے ہوں ؟ اللہ آپ کو بہترین جزا دے۔

 

جواب:

اسلام میں ہر مسئلے کا حل موجود ہےچاہے وہ موجودہ مسئلہ ہو یا پہلے گزر چکا ہو یا آنے والے دور کا ہو ، اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اس دین کو  مکمل کیا ہے:

 

﴿الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا

"آج میں  نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کیا ہے  اور تم پر اپنی نعمت مکمل کی ہے اور تمہارے لیے بطور دین اسلام کو پسند کیا ہے"(المائدہ:3)۔

 

  پھر اللہ تعالیٰ  نے ہر چھوٹے بڑے مسئلے میں شریعت سے رجوع کرنے کو فرض قرار دیا چنانچہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا:

 

﴿وَأَنِ احْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ وَاحْذَرْهُمْ أَنْ يَفْتِنُوكَ عَنْ بَعْضِ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ إِلَيْكَ

"اور ان کے درمیان اللہ کے نازل کردہ کے ذریعے فیصلے کیجئے اور ان کی خواہشات کی پیروی مت کیجئے اور ان سے ہو شیار رہیئے کہ یہ آپ کو   اللہ کی طرف سے آپ پر نازل کیے گئے بعض احکامات کے بارے میں آپ کو فتنے میں نہ ڈال دیں"(المائدہ:49)۔

 

 اور لفظ "ما" جیسا کہ معلوم ہے عموم کے صیغوں میں سے ہے، پس اللہ سبحانہ وتعالٰی نے بلا استثنیٰ  یعنی بغیر  تکڑوں میں بانٹے ہر معاملے میں اسلام کے ذریعے حکمرانی کو فرض قرار دیا: 

 

﴿وَاحْذَرْهُمْ أَنْ يَفْتِنُوكَ عَنْ بَعْضِ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ إِلَيْكَ

"اور ان سے ہو شیار رہیں کہ  اللہ کی طرف سے آپ پر نازل کردہ بعض احکامت کے بارے میں آپ کو فتنے میں نہ ڈالیں"۔

 

لہٰذا  اللہ غالب اور حکمت والے نے  کوئی ایسا مسئلہ نہیں چھوڑا  جو اس دنیا میں انسانوں کو پیش آتا ہے  جس کا حل اسلام نےشرعی  نص یا  شرعی اصولوں  کے مطابق استنباط سے نہ دیا ہو۔  اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ہی ہمیں پیدا کیا اور ہمارے لیے یہ واضح کیا کہ  ہمارے لیے کیا مناسب ہے کیونکہ  وہی مہربان اور خبردار ہے 

 

 

﴿أَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ

" کیا وہی نہ جانے   جس نے پیدا کیا؟ پھر وہ باریک بین اور باخبر بھی ہو "(الملک:14)۔

 

یہی وجہ ہے کہ دریاوں سے متعلق شرعی احکامات  موجود ہیں   چاہے یہ ریاست خلافت کے اندر ہوں یا اس سے  گزر کر دوسری ریاستوں میں جاتے ہوں ۔۔۔میں ان میں سے بعض امور کو مختصر طور پر آپ  کےلیے ذکر کروں گا  اور اس کے متعلق مکمل تفصیلات اس وقت بیان کیں جائیں گی جب خلافت قائم ہو گی، انشاء اللہ، جس  کے لیے ہم اللہ کے سامنے گڑ گڑا رہے ہیں کہ اس کا قیام قریب ہو، اللہ ہی غالب اور حکمت والا ہے:

 

1۔ بڑے دریا جو کہ عوامی ملکیت ہیں اور یہ عوامی ملکیت کی دوم اقسام کے ماتحت ہیں۔  ایک طرف یہ جماعت کی اجتماعی ضرورت میں داخل ہیں جس پر دلالت رسول اللہ ﷺ کا یہ قول کرتا ہے کہ

 

 

«الْمُسْلِمُونَ شُرَكَاءُ فِي ثَلَاثٍ: فِي الْكَلَإِ، وَالْمَاءِ، وَالنَّارِ»

"مسلمان تین چیزوں میں شریک ہیں : چراگاہ، پانی اور آگ"

 

اس کو ابو داود نے روایت کیا ہے۔  اسی طرح یہ ان اعیان میں سے بھی ہیں  جن کی ہیت یا حجم افراد کی ذاتی ملکیت ہونے سے مانع ہے جس کو رسول اللہ ﷺ کی اس حدیث سے اخذ کیا گیا ہے  «مِنًى مُنَاخُ مَنْ سَبَقَ» "منیٰ میں  جس نے پہلے  جہاں اونٹ بٹھایا  وہ اس کی جگہ ہے" اس کو ترمذی نے روایت کیا ہے۔۔۔اس سب کی تفصیل کتاب "ریاست خلافت کے اموال" میں ہے، اور اسی طرح کتاب  "اسلام کا اقتصادی نظام "  سے بھی استفادہ جاسکتا ہے۔

 

2۔نبی ﷺ کے زمانے سے لے کر آج تک مسلمان یہ جانتے ہیں کہ بڑے دریا جیسے دجلہ، فرات اور نیل عوامی ملکیت ہیں  اور کسی کو شخصی طور پر ان کا مالک یا ان سے فائدہ اٹھانے کے لیے مخصوص نہیں کیا جاسکتا۔ ریاست لوگوں کو بڑے دریاوں سے فائدہ اٹھانے  کے قابل بناتی تھی جیسے پینے  کے لیے، گھر کی ضروریات پوری کرنے ، جانوروں کو پلانے (اس کو  الشفہ کا نام دیا جاتا ہے)، زرعی  زمین کو سیراب کرنے کے لیے ( جس کو شِّرب کا نام دیا جاتا ہے)،  سفر  میں استعمال کرنے کے لیے ۔۔۔ ریاست ہی دریاوں کناروں کی دیکھ بھال اور  صفائی کا انتظام کرتی تھی( جس کو "بل صفائی"کا نام دیا جاتا ہے ) تاکہ لوگ اس سے فائدہ اٹھا سکیں۔۔۔ تاریخ کی کتابوں اور اسلامی فقہ کی کتابوں سے رجوع کرنے سے یہ سب واضح ہو جاتا ہے۔۔۔ میں آپ کے لیے بعض فقہی نصوص کا ذکر کرتا ہو جو  مسلمانوں کی جانب سے بڑے دریاوں کے موضوع اور ان سے فائدہ اٹھانے کو آسان  بنانے پر دلالت کرتے ہیں:

 

-            سمرقندی (المتوفی 540ہجری) کی کتاب تحفۃ الفقہاء  میں یوں آیا ہے:

"۔۔۔ بڑے دریا جیسے فرات، دجلہ اور جیحون وغیرہ میں کسی فرد کا کوئی خصوصی حق نہیں بلکہ یہ عوام کا حق ہے۔ اس لیے جو بھی اس سے اپنی زمین سیراب کرنا چاہے کر سکتا ہےاسی طرح  اس میں چکی بنانا یا ڈول لٹکانا وغیرہ سب  تب جائز ہے اگر اس سے بڑے دریا کو نقصان نہ ہو۔   اگر اس سے دریا کو نقصان پہنچتا ہو تو اس سے منع کیا جائے گا۔ پھر دریاوں کی دیکھ بھال حکمران کا کام ہے جو بیت المال کے خرچے پر ہو گا  کیونکہ اس کے فوائد عوام تک پہنچتے ہیں اس لیے اس کا خرچہ بھی اموال عامہ پر ہے جو کہ بیت المال ہے۔۔۔"ختم شد۔

 

-کویت کے فقہی انسائیکلو پیڈیا میں یہ آیا ہے:

" کری(بل صفائی): دریا سے مٹی نکالنا اور کھدائی کرنا اور اس کے کناروں کی مرمت کرنا، کری کے آلات  اور اصلاح و مرمت کا تمام خرچہ  مسلمانوں کے بیت المال پر ہو گا،  کیونکہ یہ مفاد عامہ ہے۔ اگر بیت المال میں مال نہ ہو تو حکمران لوگوں کو دریاوں کی صفائی پر مجبور کر سکتا ہے   کیونکہ یہ عمل کرنے سے مفاد عامہ  حاصل  ہوتا ہے  اوراگر وہ ایسا نہ کریں تو اس سے نقصان پہنچے گا ۔۔۔

 

عام دریاروں جیسے نیل، دجلہ اور فرات کی صفائی اوراندر سے مٹی اور ریت نکالنے کا بندوبست حکومت مسلمانوں کے بیت المال سے کرے گی،  کیونکہ اس کے فوائد عام مسلمانوں کو ہی پہنچتے ہیں، اس لیے اس کے آلات کی ذمہ داری بھی بیت المال پر ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ :

 

الْخَرَاجُ بِالضَّمَانِ... وَلَوْ خِيفَ مِنْ هَذِهِ الأَنْهَارِ الْغَرَقُ فَعَلَى السُّلْطَانِ إِصْلاَحُ مَسَنَاتِهَا مِنْ بَيْتِ الْمَال.)

" (نقصان) ضامن کے ذمہ ہے۔۔۔ اگر ان دریاوں کے  ضائع ہونے کا خطرہ ہو تو حکمران پر  بیت المال سے ان کی مرمت اور صفائی لازم ہے"۔

 

-کتاب مجلۃ الاحکام کی شرح درر الحکام میں یوں ہے:

٭(شق 1238 ) عام دریا جو کسی کی ملکیت نہیں)

شق(1238)۔   دریا جوعوامی ملکیت میں نہیں  اور یہ وہ دریا ہیں جو  مقاسم میں داخل نہیں  یعنی  جماعت  کی مشترکہ ملکیت میں اوریہ بھی مباح ہیں جیسے نیل، فرات، طونہ اور طونجہ۔  دریا جو کسی کی ملکیت نہیں  ، اور یہ وہ دریا ہیں  جو مقاسم میں داخل نہیں  یعنی  جماعت کی مشترکہ ملکیت میں،  یہ کسی ایک شخص کی ملکیت میں  نہیں آتے، جیسے  سمندر اور جھلیں بلکہ یہ سب کے لیے مباح ہیں۔ اس لیے ہر کوئی اس شرط پر ان سے فائدہ اٹھا سکتا ہے کہ  اس سے عوام کو ضرر نہ پہنچے جیسا کہ شق( 1254) میں بیان کیا گیا ہے۔  کوئی بھی ان سے نالاکھود کر اپنی زمین کو سیراب کر سکتا ہے،  ان سے چکی بنا سکتا ہے،  اس سے واٹر اسکوب اور واٹر ہول بنا سکتا ہے۔

 

تاہم اگر اس سے عوام کو نقصان پہنچتا ہو  کہ پانی ضائع ہو یا لوگوں کی حق تلفی ہو  یا ان کی وجہ سے کشتی چلانا ممکن نہ ہو  تو تمام لوگوں کو اس سے منع کرنے کا حق حاصل ہے۔ یہ تو دریاوں کے بارے میں ہے مگر سمندر  سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں چاہے اس سے نقصان ہو تا ہو ۔ اس کی وضا حت قھستانی نے بھی واضح طور پر یہی کی ہے اور شق 1263 اور 1264 کی تشریح میں اس  مسئلے پر بحث کی جائے گی۔

 

تمام لوگوں کا ان عام دریاوں  میں الشفہ (جانوروں کو پانی پلانا، گھریلوں ضروریات اور پینے کے لیے)کا حق ہے چاہے اس سے عوام کو نقصان پہنچتا ہو یا نہیں اور یہ عام دریا کسی کی ملکیت نہیں جیسے نیل جو مصر میں بہتا ہے اور فرات اور دِجلہ (جس کو دال کے فتحہ اور کسرہ سے پڑھا جا سکتا ہے) جو عراق میں بہتا ہے، شطَ العرب (جو دجلہ اور فرات کے یکجا ہونے سے حاصل ہوتا ہے اور طونہ کا دریا(دانوب) جس کا ایک حصہ رومانیا میں ہے، طونجہ جس کو مریج بھی کہا جاتا ہے جو ادرنہ شہر میں بہتا ہے یہ سب بڑے دریا کسی کی ملکیت نہیں کیونکہ شق 1249 کے مطابق ملکیت کسی چیز کو قبضے میں لینے اور اس پر ہاتھ رکھنے سے حاصل ہوتی ہے جبکہ ان دریاوں پر قبضہ کرنا اور ان پر ہاتھ  رکھنا ممکن نہیں۔  چونکہ ان کو قبضے میں لینا ممکن نہیں اس لیے یہ شق (1234 )کے مطابق لوگوں کے درمیان مشترک ہیں اورشق(1265) کے مطابق  تمام لوگوں کو اس سے فائدہ اٹھانے کا حق حاصل ہے(التنویر اور رد المختار فی اوائل الشرب اور الزیلعی فی الشرب)۔۔۔

(شق 1265 ) کوئی بھی شخص غیر مملوکہ دریاوں (جن کا کوئی مالک نہیں بن سکتا) سے اپنی زمینوں کو سیراب کر سکتا ہے۔

شق(1265) ۔ کوئی بھی شخص غیر مملوکہ دریاوں سے اپنی زمینوں کو سیراب کر سکتا ہے  ،وہ اپنی زمینوں کو سیراب کرنے کے لیے ان سے نالا کھود سکتا ہے اور اسی طرح چکی چلانے کے لیے بھی۔  مگر اس کے لیے یہ شرط ہے کہ اس سے دوسروں کو نقصان نہ پہنچے۔  یہی وجہ ہے کہ  اگر اس سے پانی کے بہاؤ کو نقصان پہنچے یا اس سے خلقت کو تکلیف ہو یا دریا کا پانی  رک جا ئے جس پر کشتیاں چلانا ناممکن ہو تو اس سے منع کیا جائے گا۔ 

 

ہر ایک کو  غیر مملوکہ  دریاوں سے شرب(پینے) اور الشفہ(شراکت) کا حق حا صل ہے یعنی وہ اس سے آب پاشی کر سکتا ہے۔وہ اس طرح کہ کوئی شخص ان دریاوں کے قریب کسی بنجر زمین کو آباد کرے تو وہ اس دریا سے نالا نکال کر اس زمین کو سیراب کر سکتا ہے(شرح المجمع فی الشرب)۔  یہ تب ہے کہ  وہ زمین بھی اس کی ہے جس سے نہر (نالہ) گزر تا ہو  ، ہر شخص کو مذکورہ  دریا سے  پانی پینے،  وضو کرنے  اور کپڑے دھونے کا حق ہے ، وہ اس سے نہر اور نالہ کھود کر اپنی زمین سیراب کر سکتا ہے  جس کو اس نے آباد کیا ہو یا اپنی زمین کو سیراب کرنے میں اضافہ کر سکتا ہے یا چکی بنا سکتا ہے یعنی اس نہر (یا پائپ) کے تین وال ہوں  ان کو چار یا یا پانچ کر سکتا ہے(الہندیۃ فی الباب الثانی من الشرب)۔

 

اسی طرح اگر  غیر مملوکہ بڑا دریا کسی کے انگوروں کے باغ کے قریب ہو  اور باغ کا مالک  اپنے باغ کو سیراب کرنے کے لیے  دریا میں آب پاشی کے آلات(پانی کی موٹر وغیرہ) نصب کرنا چاہے  اور اس سے کسی کو کوئی نقصان بھی نہ ہو  تو دوسرے باغوں کے مالکان  اور زراعت کرنے والے  اس کو یہ کہہ کر روک نہیں سکتے کہ یہ ان کو منظور نہیں۔

یقینا آپ جانتے ہیں کہ  مجلۃ الاحکام عثمانی خلافت میں نافذ تھا یعنی  یہ مذکورہ بالا احکام  ریاست میں نافذ تھے اور ریاست ان پر اعتماد کرتی تھی۔  یہی چیز اسلامی ریاست کی جانب سے  بڑے دریاوں سے متعلق اقدامات کی کیفیت اور ان سے فائدہ اٹھانے کو واضح کرتی ہے۔۔۔

 

3۔  اگر بڑا دریا  کی ابتدا ءاور انتہاء  اسلامی ریاست کے حدود کے اندر ہی ہو تو مذکورہ بالا شرعی احکام کے موافق اس پانی سے استفادہ کرنے اور اس  کو منتقل کرنے میں کسی قسم کا شک نہیں۔۔۔اس میں کوئی مشکل نہیں کہ یہ دریا  کئی ولایات(صوبوں) میں بہتا ہو  کیونکہ سارے ولایات  ریاست کے  اقتدار اعلیٰ کے ماتحت ہوتے ہیں  اور ان کی   مخصوص جعرافیائی تقسیم صرف انتظامی طور پر ہوتی ہے۔۔۔ جس وقت بڑے دریاوں سے استفادہ کرنے کے لیے  ولایات کے مابین ترتیب کی ضرورت ہو تو  خلیفہ ہم آہنگی پر مبنی انتظامی تدابیر اختیار کرے گا تاکہ مختلف ولایات کے لیے  اس سے بہتر سے بہتر انداز میں استفادہ کرنا آسان ہو۔۔۔

 

4۔ جس وقت بڑے دریا    کو استعمال کرنے اور اس  کے پانی سے استفادہ کرنے کے معاملات کو منظم کرنے کی ضرورت ہو  تو ریاست  اس میں مداخلت کرتے ہوئے اس کے لیے تفصیلی نظام وضع کرے گی   اوراس لیے  ریاست آب پاشی  اور واٹر سپلائی کے امور کے لیے نظام وضع کرے گی۔۔۔ٹیکنالوجی کی موجودہ  ترقی کے سائے میں  راجح یہی ہے کہ ریاست ہی آب پاشی ،  آب نوشی   اور پانی  کی نقل وحرکت کے منصو بوں کی تنظیم کرے گی۔۔۔ریاست  دریاوں کے اس استعمال  اور اس سے استفادہ کرنے پر ٹیکس لگا کر اس سے حاصل ہونے والے محصولات کو  مسلمانوں کے بیت المال میں عوامی ملکیت کے آمدن کے مد میں رکھ سکتی ہے۔

 

5۔ اگر بڑے دریا کا کچھ حصہ  اسلامی ریاست کے دائرہ اختیار سے باہر ہو  تو ریاست ضرورت پڑھنے پر متعلقہ ملک کے ساتھ شریعت کے مطابق  دوطرفہ معاہدے کرے گی  جس کا مقصد اسلامی ریاست کے مفادات  پر سودا بازی کیے بغیر عوامی ملکیت سے متعلق   احکام شرعیہ  کے لحاظ سے دریا کے استعمال کو منظم کرنا ہوتا ہے۔۔۔اگر دوسری ریاستوں کی جانب سے  اسلامی ریاست کا پانی  ناجائز طور پر بند کرنے  یا اس سے اس طرح غلط فائدہ اٹھانے کی کوشش کی گئی کہ جس سے  مسلمانوں کے مفادات کو نقصان پہنچے  تو ریاست   ایسے سیاسی، اقتصادی اور عسکری ہرقسم کے اقدامات اٹھائے گی  جس سے دوسری ریاست کی جانب سے پہنچنے والے نقصان کا ازالہ کیا جا سکے حتی کہ اگر بات  حد سے تجاوز کرنے والے ملک کے ساتھ جنگ کے ذریعے اپنا حق چھیننے تک بھی پہنچ جائے۔

 

6۔  میں اس جانب توجہ دلاتا ہوں کہ بڑے دریاوں کے ساحلوں پر واقع ریاستیں  گزشتہ زمانے میں  کبھی  ایک دوسرے کو  بڑے دریا (بین الاقوامی دریا)کے پانی سے استفادہ کرنے سے نہیں روکتی تھیں بلکہ تمام ساحلی ممالک بغیر کسی شک وشبہ کے دریاوں سے استفادہ کرتے تھے۔۔۔ دریاوں کے مسائل صرف مغربی  استعمار کے زمانے میں رونما ہوئے کیونکہ استعماری ممالک نے اس کو اپنی استعماریت اور دوسرے ممالک پر سیاسی اور اقتصادی دباؤ  ڈالنے کے لیے استعمال کیا۔

 

7۔عوامی ملکیت میں اسلامی ریاست کے شہریوں کا حق ہے  اوردوسری ریاستوں کا کوئی حق نہیں۔  اس لیے ریاست دوسری ریاستوں کی جانب سے اسلامی ریاست کی حدود میں آنے والے دریاوں سے فائدہ اٹھانے پر ٹیکس لگاسکتی ہے  اور ان کا پانی فروخت کر سکتی ہے  یا اس پانی سے پیدا ہونے والی بجلی فروخت کر سکتی ہے وغیرہ۔۔۔اور اس سے حاصل ہونے والے منافع کو  بیت المال میں رکھے گی  تاکہ ان کو احکام شرعیہ کے مطابق خرچ کیا جا سکے۔

 

8۔ریاست بڑے دریاوں  سے فائدہ اٹھانے ،  ان کے پانیوں کو تقسیم کرنے  اور اس کی نقل وحرکت میں اس بات کا لحاظ رکھے گی کہ دریار خشک نہ ہو، اس کے نہریں خشک نہ ہو جائیں یا اس کا پانی آلودہ نہ ہو یا ان کو کوئی اور نقصان نہ پہنچے،  اور غیر ارادی طور پر بھی پہنچنے والے کسی بھی نقصان کا ازالہ کرے گی۔۔۔پانی کی تقسیم کی پالیسی عادلانہ ہو گی اور  اس بات کا بھی لحاظ رکھا جائے گا کہ پانی کے ان ذخائر  کی بہتر سے بہتر انداز میں حفاظت ہو۔۔۔ یہ سب ریاست کی عمومی اقتصادی اور ماحولیاتی پالیسی سے الگ نہیں۔

 

9۔پہلے جو کچھ کہا گیا اس میں ریاست کی جانب سے  مچھلیوں کی پیداوار سے فائدہ اٹھانا اور اور لوگوں کو بڑے دریاوں میں مچھلی کے شکار کی سہولیات فراہم کرنا بھی شامل ہے۔۔۔الخ

 

امید ہے یہ مختصر جواب کافی ہے۔۔۔اس کی تکمیل انشاء اللہ اپنے وقت پر ہی ہو گی۔

 

2 صفر الخیر 1438ہجری

بمطابق 12 نومبر2016 

Last modified onبدھ, 21 دسمبر 2016 19:06

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک