الأحد، 22 جمادى الأولى 1446| 2024/11/24
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

 سوال وجواب: کیا خلیفہ کی محدود بیعت جا ئز ہے؟ یعنی مخصوص وقت تک خلیفہ کی بیعت کی جائے۔

سوال:

ہمارے  محترم ومکرم شیخ ! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ  ۔

 سلام کے بعد، میرا سوال بیعت سے متعلق ہے،چونکہ یہ  اُمت اور خلیفہ کے درمیان رضامندی کا  معاملہ ہے، تو کسی معین وقت تک بیعت کرنا جائز ہے؟ مثلاً چار یا پانچ سال تک کے لیے بیعت کی  جائے،جیسا کہ موجودہ نظاموں میں ہوتا ہے ؟  اس قسم کے تصورات  رکھنے والوں کے پاس اس پر کوئی دلیل یا  شبہ دلیل موجود ہے یا نہیں؟

 اللہ آپ کو برکت  دے اور ہمیں اور آپ کو  اسلام کی نصرت اور اس کو غلبہ دلانے   میں  استعمال فرمائیں۔

 

جواب

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،

1۔ وہ نصوص جو خلیفہ کی بیعت سے متعلق وارد ہوئے ہیں ، کسی متعینہ مدت تک  بیعت کرنے   کے مناقض ہیں ، کیونکہ رسول اللہﷺ کی بیعت اور خلفائے راشدین کی بیعت کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ کے مطابق حکومت کرنے پر ہوئی تھی،  اِس میں اسی  شرط وقید کی ضرورت ہے، اس کا مطلب یہ ہے  کہ جب خلیفہ کتاب الٰہی  اور سنت رسول اللہ ﷺ کے مطابق حکومت  کرنے سے گریز کرے ، تو  اس کو دی گئی بیعت اسی وقت  اپنے اختتام کو پہنچ جاتی ہےاور یہ ان  شرعی احکامات  کے مطابق ہوتا ہے جو اس معاملے میں وارد ہوئے ہیں اور جو خلیفہ کو معزول کرنے  کی کیفیت اور محکمہ مظالم کی صلاحیتِ کار کی تفصیلات  پر مشتمل ہیں۔۔ ۔۔ چنانچہ اس کے علاوہ کوئی اور شرط رکھنا جائز نہیں، کیونکہ یہ بیعت کی نص کے خلاف ہے، اور وہ ہے: کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ کے مطابق حکومت کرنا، اس کا ثبوت سنت اور اجماع صحابہ سے ہے۔

 

جہاں تک سنت کا تعلق ہے ، تو اس حوالے سے بخاریؒ نے عبادہ بن الصامت رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے، وہ فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے ہمیں بلالیا ، پھر ہم نے آپ ﷺ کو بیعت دی، یہ بیعت کچھ اس طرح ہوئی کہ ، أَنْ بَايَعَنَا عَلَى السَّمْعِ وَالطَّاعَةِ فِي مَنْشَطِنَا وَمَكْرَهِنَا، وَعُسْرِنَا وَيُسْرِنَا، وَأَثَرَةٍ عَلَيْنَا، وَأَنْ لَا نُنَازِعَ الْأَمْرَ أَهْلَهُ" ہمیں پسند وناپسند ، آسانی اور سختی ،اور ہم پر(دوسروں کو )ترجیح دیے جانے  کی حالتوں میں  سمع وطاعت ( سننے اور ماننے) پر بیعت کیا اور یہ کہ ہم  اہل لوگوں سے  حکومت چھیننے کی کوشش نہیں کریں  گے، آپ ﷺ نے یہ بھی کہا :إِلَّا أَنْ تَرَوْا كُفْرًا بَوَاحًا عِنْدَكُمْ مِنَ اللهِ فِيهِ بُرْهَانٌ"مگر یہ کہ تمہیں ایسا واضح کفر نظر آئے جس کا کفر ہونا  شرعی دلیل سےثابت ہو"۔مسلم ؒ نے بھی اسی طرح روایت کی ہے۔

 

مسلم ؒ نے ایک اور حدیث یحییٰ بن حُصین سے ،انہوں نے اپنی دادی ام حصین سے روایت کی ہے ، حصین کہتے ہیں میں نے اپنی والدہ سے یہ کہتے ہوئے سنا: اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: إِنْ أُمِّرَ عَلَيْكُمْ عَبْدٌ مُجَدَّعٌ - حَسِبْتُهَا قَالَتْ - أَسْوَدُ، يَقُودُكُمْ بِكِتَابِ اللهِ تَعَالَى، فَاسْمَعُوا لَهُ وَأَطِيعُوا "اگر تم پر کوئی نکٹا  غلام امیر بنایا جائے ، (میرا خیال ہے کہ (دادی نے) "کالا "کا لفظ بھی ذکر کیا )، جو کتاب  اللہ کے ساتھ تمہاری  قیادت کرے، تو اس کی بات سنو اور اس کی  بات مانو"۔

ان تمام سے یہ واضح ہے کہ جب تک کتاب اللہ اور سنت رسول ﷺ کے ذریعے حکمرانی  چلتی رہے  ، بیعت واطاعت کا حکم   برقرار رہتا ہے  سوائے یہ کہ  کفرِ بواح ، یعنی شرع کی یقینی مخالفت نظر آئے ۔

 

جہاں تک اجماع صحابہ کا تعلق ہے  تو خلفائے راشدین کی بیعت  کتاب اللہ اور سنت رسول ﷺ پر ہوئی تھی ، ان کی بیعت میں کسی متعین مدت  تک  بیعت کی کوئی بات نہیں ہوئی ، ان کی  بیعت صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین  کی موجودگی میں ہوئی تھی۔ اس سے جو بات ثابت ہوتی ہے وہ یہ  کہ  مخصوص وقت تک بیعت نہ کرنے پر صحابہ  کا اجماع ہے اور یہ کہ  خلیفہ  اپنے منصب پر اس وقت تک برقرار رہتا ہے جب تک وہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت  کرتا رہے، یعنی ماانزل اللہ کے مطابق حکومت کرتا رہے۔

 

 معمر بن راشد نے اپنے جامع میں  ایک صحابی سے حدیث نقل کی ہے: ہمیں ابوبکر رضی اللہ عنہ  نے خطبہ دیا اور فرمایا: "لوگو! مجھے تمہارا سرپرست مقرر کیا گیا ہے ،حالانکہ میں تم سے بہتر نہیں ہوں۔۔۔۔ میں جب تک اللہ اور اس کے  رسول ﷺ کی اطاعت کرتا رہوں تم بھی میرے فرمانبردار رہو، جب میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی کروں تو  تم پر میری کوئی اطاعت  نہیں، اب نماز کے لیے کھڑے ہوجاؤ، اللہ تم پر رحم کرے۔"

 

مذکورہ بالا دلائل سے یہ واضح ہوتا ہے کہ مدتِ بیعت محدود نہیں ہوتی،  بلکہ خلیفہ کی طرف سےصرف اللہ ورسول ﷺ کی اطاعت ہی کی تصریح آئی ہے، پس وہ جب تک اللہ کے نازل کردہ کے مطابق  حکومت کرے گا ، اس کی ولایت وسرپرستی باقی رہتی ہے، اور جب کسی قطعی نص ( آیت وحدیث) کی مخالفت کرے ، تب اس کی ولایت ختم ہوجاتی ہے ،چاہے ایک مہینے یا دو مہینے تک اس کی حکومت  رہی ہو۔۔۔۔یہ خلیفہ کے عزل ونصب  اور قاضی مظالم کی صلاحیتوں بارے وارد شدہ شرعی احکامات کے مطابق انجام پاتا ہے۔

 

2- رہی یہ بات کہ کیا  خاص مدت تک  بیعت کے قائلین کے پاس کوئی دلیل یا ہم شبہ  دلیل کوئی شے موجود ہے؟ تو ان کی کوئی دلیل یا شبہ دلیل کا علم ہمیں نہیں، ہم نے ایک سوال کے جواب میں اس مسئلے پر تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی  ہے جو ہم نے  1434 ہجری مطابق6 اپریل2014  کو جاری کیا تھا،  آپ اس کو  دیکھ سکتے ہیں۔

 

آپ کا بھائی

عطاء بن خلیل ابو الرشتہ

26محرم الحرم 1438ہجری مطابق27 اکتوبر 2016 عیسوی      

Last modified onبدھ, 25 جنوری 2017 22:10

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک