10جون 2014 کو انقلابیوں کے موصل میں داخل ہونے کے بعد سے اب تک عراق میں پے درپے بظاہر خوفناک واقعات رونما ہو رہے ہیں، چنانچہ موصل اور تکریت میں عراقی فوج کی پسپائی ایسے ہوئی جیسے کسی کو کوئی چیز حوالے کی جارہی ہو اور ایسا فوج کی اعلی قیادت کے حکم سے ہوا۔ اس کے بعد المالکی کی جانب سے فوج کی بجائے عوامی جنگجوؤں کو جمع کرنے کا حکم دینا، دیالی بلکہ بغداد کے قریب آنکھ مچولی کھیلنا حتی کہ بیجی میں سب سے بڑی آئل ریفائنری پر راکٹ لانچروں، توپخانے اور جہازوں سے حملے۔۔۔پھر تلعفر میں جھڑپیں اور یہ سب کچھ اتنے مختصر وقت میں ہوا کہ جیسے اس کے لیے وقت مقرر کیا گیا تھا۔۔۔ پھر ان واقعات کے ساتھ ساتھ قائدین اور مذہبی شخصیات کی جانب سے فوراً مسلکی اور فرقہ وارانہ بیانات دینا کہ جس کے نتیجے میں یہ فتنہ اپنی انتہا کو پہنچ گیا اور سرچڑھ کر بولنے لگا اور سب سے افسوسناک بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ بہادروں کی اس سرزمین میں ہوا جو دنیا کا دار الحکومت ہوا کرتا تھا اور جس کا خلیفہ بادلوں سے خطاب کر تا تھا!
اگرچہ یہ واقعات بہت خوفناک تھے لیکن بین الاقوامی رد عمل اس سطح کا نہیں تھا، چنانچہ سیاسی مبصرین کے بیانات نپے تلے اور واقعات کی اہمیت کے اعتبار سے بہت کم تھے۔ لہٰذابعض نےان واقعات کی ذمہ داری شامی بحران پر ڈال دی ، بعض نے عراق میں اہل سنت کے حقوق کی پامالی کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا اورکچھ نے المالکی کے ظلم وجبر کو اس کا سبب قرار دیا۔۔۔ حالانکہ یہ سب باتیں پہلے بھی تھیں اورایسا پہلی بار نہیں ہوا! یوں ان واقعات کو بین الاقوامی طور پر ان کی اہمیت کے مطابق اہمیت نہیں دی گئی لہٰذا ایسا لگتا ہے کہ اس کی پہلے سے منصوبہ بندی کی گئی تھی یا سیاسی میدان میں مؤثر کردار ادا کرنے والوں کو اس کا پہلے سے علم تھا۔ سب سے اہم بیان جو سامنے آیا وہ اوبامہ کی زبان سے تھا جب 13 جون 2014 کو جمعہ کے دن اس نے یہ کہہ کر دنیا کو تسلی دی کہ اگر عراق سے تیل کی سپلائی متاثر بھی ہو تی ہے تو خلیجی ریاستوں کے ذخائر سے تیل کی سپلائی جاری رکھی جائے گی۔ اس سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ جو کچھ واقعات رونما ہو رہے ہیں ان سے امریکہ کو کوئی تعجب نہیں ہوا اور یہ اس کے لیے اچانک نہیں بلکہ اس نے تیل کے کسی ممکنہ بحران پر قابو پانے کا پہلے سے ہی منصوبہ بنا رکھا تھا۔ پھر13 جون 2014 کو ہی اوبا مہ نے یہ بیان جاری کیا کہ "عراقیوں کی جانب سے کوئی سیاسی منصوبہ پیش کیے بغیر واشنگٹن کسی فوجی کاروائی میں شریک نہیں ہو گا" حالانکہ عراق اور امریکہ کے درمیان سکیورٹی معاہدہ ہے اور باوجود یکہ کہ عراقی وزیر خارجہ زیباری نے بدھ کی شام 18جون 2014 کو جدہ میں کہا کہ "بغداد نے واشنگٹن سے مسلح افراد پر فضائی حملے کرنے کی درخواست کی ہے"۔ اس بات کی تصدیق امریکی جائنٹ چیف آف اسٹاف جرنیل ڈیمپسی نے کانگریس کے اراکین کے سامنے کی جس کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ کو مداخلت کی جلدی نہیں بلکہ وہ اس کو التواء میں ڈال رہا ہے تا کہ دوسرے اہداف کو حاصل کرسکے۔ رہی بات برطانیہ کی تو باوجود اس کے کہ عراق میں اس کے مفادات امریکہ کے مفادات سے بالکل مختلف ہیں مگر وہ بھی اسی امریکی طریقہ کار پر گامزن ہے کیونکہ یہاں معاملہ مسلمانوں کے ملک کو چیر پھاڑنے کا ہے۔چنانچہ برطانوی وزیر خارجہ ویلیم ہیگ سے جب 16 جون 2014 کو برطانوی نشریاتی ادارے نے عراق میں مداخلت نہ کرنے کے حوالے سے سوال کیا تو اس نے کہا کہ "عراق میں مداخلت کے امکان کے حوالے سے برطانیہ کی نسبت امریکہ کے پاس زیادہ صلاحیت اور وسائل ہیں "۔
جو شخص بھی رونماہونے والے واقعات پر غور کر رہا ہو وہ یہ دیکھ سکتا ہے کہ اس سلسلے کی کڑیوں کی ابتدا امریکہ کی جانب سے عراق پر قبضے سے نہیں ہوئی بلکہ قبضے سے بھی پہلے اس وقت سے ہوئی جب امریکہ نے 1991 میں شمالی عراق میں نو فلائی زون قائم کیے جس سے کردستان کا علاقہ ایک الگ ریاست کی طرح بن گیا! پھر جب 2013 عراق پر قبضہ کر لیا تو عراق کے لیے امریکی گورنر جنرل پال بریمر نے ایک ایسا دستور بنوایا جس میں عراق کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کا بیج بودیا گیا تھا، جس میں مذہبی اور فرقہ وارانہ تشخص کی بات کی گئی تھی پھر یہ بیج نشونما پاتا رہا یہاں تک کہ دسمبر 2012 کو امریکہ عسکری لحاظ سے بظاہر عراق سے نکل گیا لیکن سکیورٹی اور سیاسی لحاظ سے موجود رہا جس کی وجہ سے فتنے کا وہ بیج تناور دخت بن گیا۔ پھر اس درخت کی آبیاری امریکہ نے یوں کی کہ ایک جنونی فرقہ پرست سرکش کو حکومت کا سربراہ بنا یا اور سرکش مالکی عراق کے شمالی اور مغربی علاقوں کے لیے قہر بن گیا اور ظلم وجبر اور تشدد کا ایسا بازار گرم کیا کہ جس کی مثال نہیں ملتی اورجب بھی یہ آگ ٹھنڈی ہونے لگتی تو مالکی نئی کرتو توں اور اشتعال انگیز بیانات کے ذریعے ان علاقوں میں اس آگ کو پھر بھڑکا دیتا۔۔۔ جلتی پر تیل کا کام اس کی جانب سے مسلح شیعہ ملیشاؤں کی تشکیل نے کیا اوراس کے مقابلے میں آئی سیس(ISIS) عراق و شام کی الدولۃ السلامیہ تنظیم پر اس طرح توجہ مرکوز کی گئی کہ یہ ایک سنی دہشت گرد تنظیم ہے حالانکہ جو تنظیمیں موصل اور تکریت میں داخل ہوئیں آئی سیس(ISIS) بھی ان میں سے ایک تھی۔۔۔بات یہاں پر بھی نہیں رکی بلکہ ہمسایہ ممالک فرقہ واریت کو ہوا دینے میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرنے لگے۔۔۔یہ سب کچھ اس امریکی پالیسی کو عملی جامہ پہنانے کے لیے تھا جس پر برطانیہ بھی عمل پیرا ہے اور ان کے ایجنٹ اور ان کے پیروکار یہ سب عراق کو ایک اکائی کے طور پر نہیں دیکھنا چاہتے بلکہ اس کے اس طرح ٹکڑے کر نے پر تلے ہوئے ہیں کہ ایک ٹکڑا دوسرے کو قتل کرنے کے درپے ہو! ہر ایک اپنے لیے الگ ملک چاہتا ہے اور اعلانیہ طور پر صوبوں اور تقسیم کی باتیں کی جا رہی ہیں۔۔۔اور چونکہ یہ واقعات اصل مقصد کو چھپائے بغیر تسلسل کے ساتھ ہو رہے ہیں لہٰذاکردستان کے علاقے نے ان واقعات کی حقیقت کو سمجھ لیا، اسی لیے جب انقلابیوں نے موصل پر قبضہ کر لیا تو کردستانی فورسز نے کرکوک اور اس کے ارد گرد علاقوں پر مکمل قبضہ کر لیا۔ رائٹرز نے 15 جون 2014 کو البرزانی کے نمائندے فواد حسین کا بیان نقل کیا کہ "عراق ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے جو موصل پر قبضے سے پہلے کی صورت حال سے مختلف ہے اور کرد اس نئے عراق کے معاملات پر بات چیت کریں گے"۔
اے مسلمانو۔۔۔اے اہلِ عرب۔۔۔اے اہلِ کرد۔۔۔اے اہلِ سنت۔۔۔اے اہلِ تشیع۔ ۔۔اے اہلِ عراق۔۔۔
بلا شبہ تمہارا خون بہایا گیا، تمہاری دولت لوٹ لی گئی، تمہارے گھر تباہ کردیئے گئے، تمہاری مسجدیں منہدم کی گئیں اور عراق ایک ایسی ناکام ریاست بن گیا ہے جو ظلم کرنے والے ہاتھ کو کاٹ نہیں سکتا۔۔۔کیا تم میں وہ ذہین آدمی نہیں جو اس تمام پر غور وفکر کرے جو کچھ ہو رہا ہے؟ کیا امریکہ، اس کے اتحادی، اس کے ایجنٹ اور پیروکار نظر نہیں آرہے ہیں۔۔۔ہر کوئی فتنے کو بھڑکا رہا ہے اور پھر تم ایک ہجوم کی طرح منقسم ہو کر تین اطراف کی جانب چلے جاتے ہو، تین ٹکڑے بن جاتے ہو، تین ملکوں کی بات کرتے ہو : کرد، سنی اور شیعہ اور ایسا لگ رہا ہے کہ گویا ان کے درمیان کوئی چیز مشترک نہیں۔۔۔کیا ایسا نہیں ہو رہا ؟ کیا تم نہیں سوچتے کہ کس طرح امریکہ نے کردستان کے علاقے کو تحفظ فراہم کیا ہے؟ اور کس طرح بریمر نے اپنے بنائے ہوئے آئین میں فرقہ واریت کا بیج بویا؟ کیا تم ایک دوسرے سے یہ نہیں پوچھتے ہو کہ کس طرح امریکہ ایک ایسے جابر کو اقتدار میں لایا جس نے بغیر کسی شرم و حیا کے فرقہ واریت کو ہوا دی؟ کیا تم یہ سوال نہیں کرتے کہ کس طرح امریکہ صورت حال کی نگرانی کر رہا ہے اور کردوں کو عربوں سے دور کر رہا ہے، شیعہ کو سُنّیوں سے دور کر رہا ہے؟ تم ایک دوسرے سے یہ نہیں پوچھتے ہو کہ کس طرح امریکہ اور برطانیہ اور ان کے ایجنٹ اور پیروں کار اکھٹے ہو گئے، سب اس فتنے کو بھڑکا نے کی راہ پر گامزن ہیں، جبکہ یہ یاد رہے کہ امریکہ اور برطانیہ کے مفادات مختلف ہیں لیکن وہ مسلمانوں کے علاقوں کی بندر بانٹ پر متفق ہیں ؟!
اسلام نے صدیوں تمہیں وحدت بخشی اور ایک زمانے تک اس کا جھنڈا تمہارے سروں پر سائبان بنا رہا، لہٰذا تم طاقتور اور عزتمند تھے۔ تم ایک ہو کر خیر سے مستفید ہوتے اور شر کے خلاف لڑتے تھے۔۔۔تمہاری سرزمین بہادروں کی سرزمین ہے، قادسیہ کی سرزمین ہے، فارسی یرموک البویب کی سرزمین ہے، یہ ہارون الرشید اور معتصم با للہ کا دیس ہے، یہ صلاح الدین ایوبی کا نشیمن ہے ، یہ اگلے اور پچھلے فاتحین کا مسکن ہے ان شاء اللہ۔ ایک غیر منقسم عراق اہل عراق کے ذریعے ہی مضبوط ہے اور منقسم عراق بہت کمزور ہو گا۔ ۔۔ اگر کرد یہ گمان کرتے ہیں کہ کردستان کو الگ ملک بنانا ان کے لیے کسی عزت کا سبب ہو گا تو یہ بہت تھوڑے عرصے کے لیے ہو گا اور کچھ عرصے کے بعد وہی ان کا مقتل ہو گا۔۔۔اگر سُنی اس خوش فہمی کا شکار ہیں کہ عراق کے شمال اور مغرب میں ان کے ملک کا وجود میں آنا ان کے لیے خوشحالی کا باعث بن سکتا ہے تو یہ بھی زیادہ دیر کے لیے نہیں ہو گا پھر ان کو بدبختی اور تنگ دستی کا سامنا ہو گا۔۔۔اگر شیعہ اس ظن میں مبتلا ہیں کہ جنوب میں ان کے لیے ایک ملک کا وجود میں آنا ان کے لیے تقویت کا باعث ہو گا تو یہ بھی مختصر مدت کے لیے ہو گا اورپھر ان کو بھی ذلت اور بے بسی کا سامنا ہو گا۔
اے مسلمانو۔۔۔اے اہلِ عرب۔۔۔اے اہلِ کرد۔۔۔اے اہلِ سنت۔۔۔اے اہلِ تشیع۔ ۔۔اے اہلِ عراق۔۔۔
قائد اپنے لوگوں سے جھوٹ نہیں بولتا، حزب التحریر تمہاری خیر خواہ ہے، لہٰذاامریکہ اور یورپ کی طرف مت جھکو کہ وہ تمہیں کوئی اہمیت نہیں دیں گے بلکہ وہ تمہیں قتل کرنے کے لیے سنجیدہ ہیں۔۔۔وہ عراق میں تین ایسے علاقے قائم کرنا چاہتے ہیں جو ایک برائے نام ریاست میں برائے نام ہی اکٹھے ہوں تاکہ آگے مر حلے میں اس ربط کو بھی کاٹ دیا جائے۔۔۔امریکہ اور مغرب کی جانب سے زہر آلود تیروں کا رخ ہماری طرف ہو نا تو ہم سمجھ سکتے ہیں۔ ۔۔لیکن اہل عراق کا یہ قبول کرنا بلکہ اس کے حصول میں جلد بازی کرنا جبکہ ان میں سے ہر ایک اس حوالے سے امریکہ سے مدد مانگے گا، تو یہ ایک بہت بڑا شر ہے۔ وَلاَ تَرْكَنُوۤاْ إِلَى ٱلَّذِينَ ظَلَمُواْ فَتَمَسَّكُمُ ٱلنَّارُ وَمَا لَكُمْ مِّن دُونِ ٱللَّهِ مِنْ أَوْلِيَآءَ ثُمَّ لاَ تُنصَرُونَ "ظالموں کی طرف مت جھکو ورنہ آگ تمہیں چھو لے گی اللہ کے سوا تمہارا کوئی کارساز نہیں، ایسا کرو گے تو تمہاری مدد بھی نہیں کی جائے گی" (ہود:113)۔ تم ایک امت ہو تفرقہ تمہارے لیے حرام ہے۔ وَٱعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ ٱللَّهِ جَمِيعاً وَلاَ تَفَرَّقُواْ "سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اورتفرقے میں نہ پڑو" (آلِ عمران:103)۔ اور تمھیں باہمی تنازعات میں پڑنے سے منع کیا گیا ہے ورنہ تمہاری قوت پارہ پارہ ہو جائے گی اور تمہارا دشمن تمہارے بارے میں لالچ کرے گا۔ وَلاَ تَنَازَعُواْ فَتَفْشَلُواْ وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ "آپس میں مت لڑو ورنہ ناکام ہو گے اور تمہارے قدم ڈگمگائیں گے" (الانفال:46)۔
اے اہلِ عراق! اس امت کی اصلاح اسی طرح ہو گی جس طرح ابتدا میں ہوئی تھی اور وہ ہے اللہ کے نازل کردہ کے ذریعے حکومت اور اللہ کی راہ میں جہاد۔۔۔اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنا اور اللہ کے دشمنوں سے تعلق توڑ نا۔ ۔۔تعصب اور فرقہ واریت کو دفن کرنا ((دعوھا فانھا منتنۃ)) "اس کو دور کرو یہ بدبو دار ہے" اس کو بخاری نے جابر سے روایت کیا ہے۔۔۔فرقہ ورانہ اور مسلکی ناموں کو چھوڑ دو اور اپنا وہ نام رکھو جو اللہ نے رکھا ہے هُوَ سَمَّاكُمُ ٱلْمُسْلِمِينَ "اسی نے تمہارا نام مسلمان رکھا ہے" (الحج:78)۔ اسی کی طرف لوٹو۔ اسی کی ریاست، خلافت راشدہ ، کو قائم کرو۔ اسی سے تم عزت دار بنو گے۔ اسی کے ذریعے ہی تم ایک بار پھر بادلوں کو مخاطب کرو گے اور اسی کے ذریعے اللہ کے بندے اور آپس میں بھائی بھائی بن جاؤ گے۔ إِنَّ فِى ذٰلِكَ لَذِكْرَىٰ لِمَن كَانَ لَهُ قَلْبٌ أَوْ أَلْقَى ٱلسَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ "بے شک اس میں اس شخص کے لیے نصیحت ہے جس کے پاس دل ہے یا وہ سن کر گواہی دے سکتا ہے" (ق:37)۔