الإثنين، 28 صَفر 1446| 2024/09/02
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية
Super User

Super User

تفسیر سورۃ البقرۃ 101 تا 103

مشہور فقیہ اور رہنما، امیر حزب التحریر، شیخ عطا بن خلیل ابو الرَشتہ کی کتاب "التیسیرفی اصول التفسیر" سے اقتباس

(ترجمہ)

 

وَلَمَّا جَاءَهُمْ رَسُولٌ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ مُصَدِّقٌ لِمَا مَعَهُمْ نَبَذَ فَرِيقٌ مِنْ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ كِتَابَ اللَّهِ وَرَاءَ ظُهُورِهِمْ كَأَنَّهُمْ لاَ يَعْلَمُونَ (البقرة: 101)
وَاتَّبَعُوا مَا تَتْلُو الشَّيَاطِينُ عَلَى مُلْكِ سُلَيْمَانَ وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَانُ وَلَكِنَّ الشَّيَاطِينَ كَفَرُوا يُعَلِّمُونَ النَّاسَ السِّحْرَ وَمَا أُنزِلَ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبَابِلَ هَارُوتَ وَمَارُوتَ وَمَا يُعَلِّمَانِ مِنْ أَحَدٍ حَتَّى يَقُولاَ إِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلاَ تَكْفُرْ فَيَتَعَلَّمُونَ مِنْهُمَا مَا يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ وَمَا هُمْ بِضَارِّينَ بِهِ مِنْ أَحَدٍ إِلاَّ بِإِذْنِ اللَّهِ وَيَتَعَلَّمُونَ مَا يَضُرُّهُمْ وَلاَ يَنفَعُهُمْ وَلَقَدْ عَلِمُوا لَمَنْ اشْتَرَاهُ مَا لَهُ فِي الآخِرَةِ مِنْ خَلاَقٍ وَلَبِئْسَ مَا شَرَوْا بِهِ أَنفُسَهُمْ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ (البقرة: 102)
وَلَوْ أَنَّهُمْ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَمَثُوبَةٌ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ خَيْرٌ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ (البقرة: 103)

"جب کبھی ان کے پاس اللہ کا کوئی رسول ان کی کتاب کی تصدیق کرنے والا آیا، ان اہل کتاب کے ایک فرقے نے اللہ کی کتاب کو اس طرح پیٹھ پیچھے ڈال دیا گویا جانتے ہی نہ تھے " (البقرۃ:101)
"اور اس چیز کے پیچھے لگ گئے جسے شیاطین سلیمان کی حکومت میں پڑھتے تھے۔ سلیمان نے کفر نہ کیا تھا بلکہ یہ کفر شیطانوں کا تھا، وہ لوگوں کو جادو سِکھایا کرتے تھے اور بابل میں ہاروت اور ماروت دو فرشتوں پر جو اتارا گیا تھا وہ دونوں بھی کسی شخص کو اس وقت تک نہیں سِکھاتے تھے جب تک یہ نہ کہہ دیں کہ ہم تو ایک آزمائش ہیں، تو کفر نہ کر، پھر لوگ ان سے وہ سیکھتے جس سے خاوند و بیوی میں جدائی ڈال دیں اور دراصل وہ بغیر اللہ تعالٰی کی مرضی کے کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے ، یہ لوگ وہ سیکھتے ہیں جو انھیں نقصان پہنچائے اور نفع نہ پہنچا سکے اور وہ جانتے ہیں کہ اس کے لینے والے کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ اور وہ بدترین چیز ہے جس کے بدلے وہ اپنے آپ کو فروخت کررہے ہیں ، کاش کہ یہ جانتے ہوتے" (البقرۃ:102)
"اگر یہ لوگ صاحب ایمان متقی بن جاتے تو اللہ کی طرف سے انہیں بہترین ثواب ملتا، اگر یہ جانتے ہوتے" (البقرۃ:103)

 

ان آیات میں اللہ سبحانہ وتعالٰی یہ بیان فرماتے ہیں:
1 ۔ یہود رسول اللہﷺ کی مخالفت کرتے تھے اور تورات کے ذریعے بحث کرتے تھے اور اس کے ذریعے سوال کیا کرتے تھے جیسا کہ آپﷺ سے روح، اہل کہف اور ذو القرنین کے بارے میں سوال کیے۔ رسول اللہﷺ کو اللہ کی طرف سے وحی کی گئی اور آپ ﷺ قرآن سے ان کو جواب دیتے، اور مزید براں ان کی بعض تحریفات کو بے نقاب کرتےجیسا کہ انہوں نے زانی کے سنگسار اور رسول اللہﷺ کے اوصاف جو تورات میں مذکور ہیں، کو تبدیل کیا۔ تورات میں بھی رسول اللہﷺ کی بعثت کی بشارت دی گئی تھی۔ جس وقت وہ دیکھتے تھے کہ تورات کے ذریعے حجت بازی بھی ان کی خواہشات کے برعکس ہے تو اس سے بھی منہ موڑتے اور اس کو پس پشت ڈال دیتے (گویا وہ جانتے ہی نہیں ) یعنی وہ تورات کو بھی اس طرح پھینک دیتے کہ گویا وہ اس پر ایمان ہی نہیں رکھتے اور اس میں موجود رسول اللہﷺ کے اوصاف کی سچائی کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ یہ ان کی جانب سے روگردانی میں حد سے زیادتی کا ذکر ہے کہ تورات میں رسول اللہﷺ کی نبوت کے جو دلائل ہیں، وہ جان بوجھ کر ان سے منہ پھیر لیتے تھے۔
جب ان کو علم ہو گیا کہ وہ تورات کے ذریعے حجت بازی کر کے رسول اللہﷺ کی مخالفت میں ناکام ہوچکے ہیں تو انہوں نے تورات کے علاوہ دوسرے وسائل کی تلاش شروع کردی تاکہ ان کے ذریعے رسول اللہﷺ سے حجت بازی کی جاسکے۔
2۔ جب اللہ نے اپنے رسولﷺ پر یہ آیت نازل کی کہ سلیمان نبی تھے إِنَّا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ كَمَا أَوْحَيْنَا إِلَى نُوحٍ وَالنَّبِيِّينَ مِنْ بَعْدِهِ وَأَوْحَيْنَا إِلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالأَسْبَاطِ وَعِيسَى وَأَيُّوبَ وَيُونُسَ وَهَارُونَ وَسُلَيْمَانَ وَآتَيْنَا دَاوُودَ زَبُورًا " ہم ہی نے تمہاری طرف وحی بھیجی جس طرح کہ ہم نے نوح اور اس کے بعد آنے والے نبیوں کی طرف وحی بھیجی۔ ہم نے ابراہیم اور اسماعیل اور اسحاق اوریعقوب اور ان کی اولاد پر اورعیسی اورایوب اوریونس اورہارون اور سلیمان کی طرف وحی بھیجی اور ہم نے داود کو زبور عطا فرمائی" (النساء: 163)، اس پر یہود نے کہا: سلیمان تونبی نہیں بلکہ جادوگر تھے،پھر انہوں نے وہ کتابیں جمع کیں جن کو جادوگروں نے شیاطین کی مدد سے سلیمان کے دور حکومت میں لکھا تھا۔ یہ کتابیں مدینہ منورہ میں پھیلی ہوئی تھیں۔ یہود نے کہا کہ یہ وہ کتابیں ہیں جن کے ذریعے سلیمان حکومت کیا کرتے تھے اور انہی کو رسول اللہﷺ کے ساتھ حجت بازی کا مواد بنا یا وَاتَّبَعُوا مَا تَتْلُو الشَّيَاطِينُ عَلَى مُلْكِ سُلَيْمَان "اور اس چیز کے پیچھے لگ گئے جسے شیاطین سلیمان کی حکومت میں پڑھتے تھے"۔
مَا تَتْلُو الشَّيَاطِينُ " جو شیاطین پڑھتے تھے" یعنی جو وہ پڑھتے یا وحی کرتےیا وسوسہ کر تے جادوگروں کو تاکہ وہ اس کو اپنی کتابوں میں لکھ لیں، يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُورًا "ان میں سے بعض بعض کو دھوکے سے مزیّن کی گئی باتیں وحی کرتے ہیں (الانعام:112)۔ اسلام سے قبل شیاطین آسمان سے کچھ باتیں چھپ کر سنتے تھے اور اس میں کئی ایک قسم کی جھوٹی باتیں شامل کر کے اپنے اولیاء (دوستوں) کو وحی (القاء) کرتے تھے، آسمان والے ایک دوسرے سے باتیں پوچھتے تھے یہاں تک کہ کوئی خبر دنیا کے آسمان تک آتی تو جِن اس کو چھپ کر سن لیتے اور اس کو اپنے اولیاء تک پہنچاتے۔ اس میں جو کچھ حق اور سچ ہو تا اس میں اپنی طرف سے کچھ اضافہ کرتے۔ اسلام کے بعد جنات کو اس طرح چھپ کر سننے سے منع کیا گیا، وَأَنَّا كُنَّا نَقْعُدُ مِنْهَا مَقَاعِدَ لِلسَّمْعِ فَمَنْ يَسْتَمِعْ الآنَ يَجِدْ لَهُ شِهَابًا رَصَدًا "اس سے پہلے ہم باتیں سننے کے لیے آسمان میں جگہ جگہ بیٹھ جایا کرتے تھے، اب جو بھی کان لگاتا ہے وہ ایک شعلے کو اپنی تاک میں پاتا ہے" (الجن:9)۔
عَلَى مُلْكِ سُلَيْمَانَ "یعنی سلیمان کے عہد میں"۔
3۔ جادو کی ان کتابوں کوجادوگروں نے دوطریقے سے لکھا تھا:
پہلا:شیاطین سے جو جادو ان کو وسوسہ کرتے تھے،
دوسرا: جو دوفرشتوں، ہاروت اور ماروت نے لوگوں کو سِکھایا تھا۔ ان دونوں کو اللہ نے بابل میں اتارا تھا۔ یہ لوگوں کو سحر سِکھاتے تھے اور ان کو تنبیہ بھی کرتے تھے کہ اس پر عمل نہ کرنا۔ وہ بتاتے تھے کہ ان کو لوگوں کی آزمائش اور امتحان کے لیے اتارا گیا ہے، وَمَا يُعَلِّمَانِ مِنْ أَحَدٍ حَتَّى يَقُولاَ إِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلاَ تَكْفُرْ " وہ دونوں بھی کسی شخص کو اس وقت تک نہیں سیکھاتے تھے جب تک یہ نہ کہہ دیں کہ ہم تو ایک آزمائش ہیں، تو کفر نہ کر"۔ اللہ ہی نے اس زمین پر خیر وشر کو نازل کیا تا کہ اپنے بندوں کو خیر اور شر کے ذریعے آزمائے، وَنَبْلُوكُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً " ہم امتحان کے لیے تمہیں خیر و شر سے آزمائیں گے" (الانبياء: 35)۔
لوگوں کو جادو سِکھانا بھی ان کی آزمائش کے لیے تھا چنانچہ جو جادو (سحر) پر ایمان لایا اور اس پر عمل کیا تو اس نے کفر کیا۔ جو جادو (سحر) پر ایمان نہیں لایا اور عمل نہیں کیا تواس نے نجات حاصل کرلی، إِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلاَ تَكْفُرْ "ہم تو ایک آزمائش ہیں، تو کفر نہ کر" (ابقرۃ: 102)۔
4۔ اللہ سبحانہ و تعالٰی اپنے نبی سلیمان علیہ السلام کو یہود کے جھوٹ اور بہتان سے بری قرار دیتے ہیں۔ سلیمان علیہ السلام نے کوئی کفر نہیں کیا کیونکہ آپ جادوگر (ساحر) یا جادو پر ایمان لانے والے نہیں تھے اس وجہ سے کافر بھی نہیں تھے بلکہ اللہ کے نبی تھے، اللہ کی سلامتی ہو ان پر، وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَانُ "سلیمان نے کفر نہیں کیا" یعنی آپ جادوگر یا جادو پر ایمان رکھنے والے نہیں تھے۔ ان دلائل میں اس بات کاتعین ہو گیا کہ یہود نے سلیمان علیہ السلام پر جادوگر ہونے کی تہمت لگائی تھی۔ ابن جریر نے شہر بن حوشب سے روایت کی ہے کہ: "یہودیوں نے کہا کہ دیکھو محمد حق اور باطل کو خلط ملط کر رہے ہیں اور سلیمان کا ذکر انبیاء کے ساتھ کررہے ہیں حالانکہ وہ تو ایک جادوگر تھے جو ہوا پر سوار ہوتے تھے" انہوں نے سلیمان علیہ السلام کو کافر نہیں کہا تھا لیکن اللہ نے ان کو جواب دیا کہ وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَانُ "سلیمان نے کفر نہیں کیا" یعنی جادو (سحر) نہیں کیا، لیکن اس آیت میں (کفر) کامجازی استعمال اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ جو جادو پر ایمان رکھتا ہے اور جادو کرتا ہے جیسا کہ ہم نے کہا کہ عربی لغت کے لحاظ سے اس تعلق (سبب ) کی وجہ سے کافر ہو جاتا ہے۔
اسی طرح سلیمان نے کفر نہیں کیا بلکہ جنہوں نے کفر کیا وہ شیاطین ہیں، وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَانُ وَلَكِنَّ الشَّيَاطِينَ كَفَرُوا يُعَلِّمُونَ النَّاسَ السِّحْرَ وَمَا أُنزِلَ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبَابِلَ هَارُوتَ وَمَارُوتَ وَمَا يُعَلِّمَانِ مِنْ أَحَدٍ حَتَّى يَقُولاَ إِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلاَ تَكْفُرْ" سلیمان نے کفر نہ کیا تھا بلکہ یہ کفر شیطانوں کا تھا، وہ لوگوں کو جادو سِکھایا کرتے تھےاور بابل میں ہاروت اور ماروت دو فرشتوں پر جو اتارا گیا تھا وہ دونوں بھی کسی شخص کو اس وقت تک نہیں سِکھاتے تھے جب تک یہ نہ کہہ دیں کہ ہم تو ایک آزمائش ہیں، تو کفر نہ کر"۔
5۔ سحر(جادو) کسی شے کو اس کی حقیقت کے برعکس ظاہر کرنے کو کہتے ہیں۔اللہ تعالٰی کے اس قول کا بھی یہی معنی ہے کہ، سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ "لوگوں کی آنکھوں پر جادو کیا" (الاعراف: 116)، يُخَيَّلُ إِلَيْهِ مِنْ سِحْرِهِمْ أَنَّهَا تَسْعَى "ان کے سحر سے ایسال خیال کرنے لگا کہ وہ دوڑ رہا ہے" (طہ: 66)، یعنی لاٹھی حقیقت میں لاٹھی ہی رہی لیکن دیکھنے والے کی نظروں میں وہ ایک سانپ بن کر دوڑ رہی تھی۔ لغت میں جوہری نے کہا ہے کہ: سحر اخذ (یا پکڑ) کو کہتے ہیں اور ہر وہ چیز جس کا اخذ لطیف اور دقیق ہو وہ سحر ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سحرت الصبي إذا خدعته "میں نے بچے پر جادو کیا جب اس کو دھوکہ دیا" عرب کے بعض دیوانوں میں سحر العضۃ کے معنی میں وارد ہے اور العضۃ عرب کے ہاں بہتان کی شدت اور جھوٹ کی انتہا کرنے کو کہتے ہیں،شاعر کہتا ہے کہ :
أعوذ بربي من النافثات من عضة العاضة المُعِضة
میں جھاڑ پھونک والیوں سے اپنے رب کی پناہ مانگتا ہوں جو بہتان تراش اور حد درجے کے جھوٹے ہیں۔
عربوں نے اسی طرح اس کا استعمال کیا ہے یعنی سحر کو خفاء (چھپانے)کے معنی میں کیونکہ ساحر بھی اس کو چھپاکے کرتا ہے۔ رہی یہ بات کہ سحر کیا ہے تو سحر وہ علم ہے جس کے ذریعے اس علم کا ماہر لوگوں کی آنکھوں کو مسحور کرتا ہے جس سے وہ کسی چیز کو اس کی حقیقت کے برعکس دیکھتے ہیں، یعنی چیز کی حقیقت تبدیل ہو کر کوئی اور حقیقت نہیں بنتی بلکہ چیز وہی پہلے والی ہی ہو تی ہے ۔ اس لیے اگر کوئی انسان اس سانپ کو پکڑتا ہے جو دراصل لاٹھی ہے لیکن جادو سے وہ سانپ بن کر دوڑ رہی ہے تو وہ لاٹھی ہی ہو گی اگر چہ وہ لوگوں کو سانپ دِکھتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب جادوگروں نے اپنی لاٹھیوں کو پھینکا تو وہ ان کو لاٹھیا ہی نظر آرہی تھیں لیکن انہوں نے چونکہ لوگوں کی آنکھوں پر جادو کیا تھا اس لیے وہ ان کو سانپ سمجھ رہے تھے۔ اسی لیے جب موسی علیہ السلام نے اپنی لاٹھی پھینکی تو جادوگروں نے دیکھ لیا کہ وہ تو حقیقی سانپ ہے لاٹھی نہیں اور جب اس نے ان سب کو نگل لیا تو بلاآخر ان سب کی حقیقت آشکار ہوگئی ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کو اس بات کا ادراک ہو گیا کہ یہ جادو نہیں کیونکہ جادو اشیاء کی حقیقت کو تبدیل نہیں کر سکتا اسی لیے وہ سمجھ گئے کہ یہ جادو نہیں بلکہ جیسا کہ موسی علیہ السلام کہتے ہیں، یہ رب العالمین کی طرف سے حق ہے، اس وجہ سےوہ ایمان بھی لے آئے اور ان کا ایمان کیا حیران کن تھا۔
6۔ اللہ کا یہ فرمان کہ وَاتَّبَعُوا مَا تَتْلُو الشَّيَاطِينُ "انہوں نے اس کی پیروی کی جو شیاطین تلاوت کرتے تھے" اور اللہ کا یہ فرمان کہ وَلَكِنَّ الشَّيَاطِينَ كَفَرُوا يُعَلِّمُونَ النَّاسَ السِّحْرَ "لیکن شیاطین نے کفر کیا کہ لوگوں کو سحر سکھایا" یہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ سحر کوئی کفریہ کلام پڑھنے سے ہی ہو تا ہے، یعنی سحر ایسا علم ہے جس پر عمل ارادتاَ َ کفریہ الفاظ کے استعمال سے ہو تا ہے۔ اس کے علاوہ جس چیز کو سحر عرفی (روایتی) معنی میں جادو کہا جاتا ہے وہ اس آیت میں مذکور سحر میں داخل نہیں جیسے فنکاری (فنی وسائل) کے ذریعے بعض امور کو غیر حقیقی دِکھا نا جیسے ہاتھ کو چھپانا وغیرہ یا بات چیت میں ایسے الفاظ کے استعمال کے ذریعے جن میں کفرنہ ہو لوگوں وہم میں مبتلا کرنا جیسے کہ بعض پیروں کے چیلے کرتے رہتے ہیں یہ سحر کے مذکورہ معنی میں داخل نہیں۔
7۔ جہاں تک ساحر (جادوگر) کی سزا کا تعلق ہے ، جیسا کہ ہم نے بیان کیا کہ اس کی سزا وہی ہے جو مرتد کی سزا ہے کیونکہ سابقہ مذکورہ معنی کے لحاظ سے وہ بھی کافر ہےاور صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم نے انھیں سزائے موت دی ۔ ام المومنین حفصہ رضی اللہ عنہا نے اس جادوگرنی کو قتل کرنے کا حکم صادر کیا جس نے جادوکرنے کا اعتراف کیا۔
رہی بات اس روایت کی جس میں عثمان رضی اللہ عنہ کی جانب سے حفصہ رضی اللہ عنہا کے اس عمل کو مسترد کرنے کی بات ہے تو یہ اس وجہ سے تھا کہ ام المومنین نے خلیفۃ المسلمین سے اجازت لیے بغیر اس کو قتل کیا تھا، خلیفہ نے قتل میں اختلاف نہیں کیا بلکہ بلا اجازت قتل کرنے پر اختلاف کیا۔ عمر رضی اللہ عنہ کے عہد میں بھی ساحر کو قتل کی سزادی گئی تھی،اسی لیے یہ اجماع صحابہ ہے کیو نکہ اتنا اہم کام ان کے سامنے کیا گیا اورکسی نے انکار نہیں کیا۔ احمد نے سفیان سے الاحنف بن قیس کے چچا کے حوالے جزء بن معاویہ سے روایت کی ہے کہ "عمر کی وفات سے ایک سال پہلے ان کا کاتب یہ حکم لے کر ہمارے پاس آیا کہ ہر جادو گر کو قتل کرو، شاید سفیان نے کہا تھا کہ اور ہر جادوگرنی کو"۔
جہاں تک ان بعض خفیہ فنکارانہ اعمال کا تعلق ہے جن کا ہم نے ذکر کیا ہے اور جن سے وہ لوگوں کو اَن جانے میں دھوکہ دیتے ہیں اور پیروں اور ان کے شعبدہ بازیوں کا جہاں تک تعلق ہے ان سب لوگوں کے ساتھ ان کے فراڈ اور لوگوں کے نقصانات کے لحاظ سے تعزیری سزائیں دی جائیں گی ۔ یہ سب کو معلوم ہے کہ اسلام میں تعزیر جرم کی نوعیت کے اعتبار سے قتل تک ہو سکتا ہے ۔
لیکن حد میں قتل اور تعزیر میں قتل کے درمیان فرق یہ ہے کہ پہلا مرتد ہے اس لیے اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھی جائے گی اور اس کو مسلمانوں کے قبرستان میں نہیں دفنا یا جائے گا۔ جبکہ دوسرا مسلمان اپنے جرم کی نوعیت کے اعتبار سے فاسق و فاجر ہے اس کی نماز پڑھی جائے گی اور اس کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفنا یا جائے گا۔
8۔ فَلاَ تَكْفُرْ فَيَتَعَلَّمُونَ مِنْهُمَا مَا يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ وَمَا هُمْ بِضَارِّينَ بِهِ مِنْ أَحَدٍ إِلاَّ بِإِذْنِ اللَّهِ "تو کفر نہ کر، پھر لوگ ان سے وہ سیکھتے جس سے خاوند و بیوی میں جدائی ڈال دیں اور دراصل وہ بغیر اللہ تعالٰی کی مرضی کے کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے"۔
اللہ سبحانہ و تعالٰی یہ بیان فرماتے ہیں کہ جو لوگ جادو سیکھتے ہیں اور اس کے ذریعے طرح طرح کے کام کرتے ہیں اور ان لوگوں کے لیے بھی کرتے ہیں جو ان سے واسطہ رکھتے ہیں اور وہ ان کے اور ان کی بیویوں کے درمیان مسائل پیدا کرتے ہیں یہاں تک کہ نوبت طلاق اور جدائی تک پہنچتی ہے، پھر اللہ سبحانہ وتعالٰی نے عقیدے سے متعلق ایک انتہائی اہم امر کو بیان کیا تاکہ اس بات کا زالہ کیا جاسکے جس کا لوگوں کے ذہنوں میں داخل ہونے کا امکان ہے جو یہ ہے کہ ساحر کے پاس بھی اللہ تعالٰی جیسی کوئی قدرت ہے یا وہ اللہ کی مشیّت کے بغیر کچھ رونما کرسکتا ہے۔ اس لیے اللہ نے اس آیت میں یہ بیان کیا کہ اللہ کی مرضی کے بغیر اس کے قلمرو میں کچھ نہیں ہو سکتا ، یعنی اللہ کی مرضی کے خلاف، اللہ کی مشیّت یا ارادے کا یہی معنی ہے، یعنی اس کائنات میں اللہ کی مرضی ، اس کی مشیّت اور ارادے کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا وَمَا تَشَاءُونَ إِلاَّ أَنْ يَشَاءَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ "وہ نہیں ہو سکتا جو تم چاہتے ہو مگر وہی ہوگا جو اللہ رب العالمین چاہتاہے" (التكوير: 29)۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اللہ اس عمل سے راضی ہے کیونکہ اللہ کفر اور معاصیّت پر راضی نہیں ہو تا، إِنْ تَكْفُرُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنْكُمْ وَلاَ يَرْضَى لِعِبَادِهِ الْكُفْرَ "اگر تم کفر کرو تو اللہ تم سے بے نیاز ہے اور وہ اپنے بندوں کے کفر پر راضی نہیں ہو تا" (الزمر: 7)۔ یہ تو صرف ایک اصطلاح ہے جس کا ایک یہ معنی ہے جو نصوص کی چھان بین سے معلوم ہو تا ہے۔ اللہ کے اذن، مشیّت اور ارادے کی لغوی حقیقت کی تفسیر نہیں کی جاسکتی کیونکہ لغت میں اس کا معنی کسی کام کو کرنے کی اجازت ،مطالبہ یا رضامندی ہے۔ اس لیے اس کی تفسیر اہل لغت، اہل فقہ ، اہل اصول یا کسی بھی علم کی کسی بھی عرفی حقیقت کی طرح اصطلاحی دلالت سے ہی کی جائے گی۔
اور بِإِذْنِ اللَّهِ "اللہ کی اجازت سے" اس مقام پر اس کی دلالت بہت عظیم ہے کیونکہ لوگوں کے سامنے جادوگروں کے بعض کاموں اور لوگوں کی آنکھوں کو دھوکہ دینے اور بعض امور کو ان کے حقائق سے ہٹ کر دیکھنے سے یہ غلط فہمی پیدا ہو سکتی تھی کہ یہ لوگ (جادوگر) بھی کچھ پید ا کر سکتے ہیں یا ایسے کام کر سکتے ہیں جس سے اللہ بھی ان کو روک نہیں سکتا اس لیے اللہ نے اس کی تاکید کردی کہ یہ اللہ کے اذن سے ہی ہو تا ہے اور اس کے ارادے اور مشیّت کے خلاف کچھ بھی نہیں ہو سکتا، اللہ چاہے تو ان کے سحر کو ناکام بنادے کیونکہ کائنات میں اللہ کی مرضی کے خلاف کچھ نہیں ہو سکتا ۔
یہاں کوئی کہنے والا کہہ سکتا ہے کہ : پھر اللہ ان کے سحر کو ناکام کیوں نہیں کرتا؟!
اللہ سبحانہ نے خیر اور شر دونوں کو بیان کر دیا اور یہ بھی ہمیں بتا دیا کہ انسان کو خیر پر خیر ہی کی شکل میں بدلہ دیا جائے گا اور شر پر شرہی کی صورت میں بدلہ دیا جائے گا۔ اس کے بعد ہمیں سمجھادیا کہ اگر اللہ چاہے تو ہم سب انسانوں کو ایک ہی امت خیر یا امت شر بنا دے۔ وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلاَ يَزَالُونَ مُخْتَلِفِينَ "اگر تیرا رب چاہتا تو لوگوں کو ایک ہی امت بنا دیتا لیکن وہ تو اب بھی ایک دوسرے سے اختلاف کر رہے ہیں" (ہود: 118)۔لیکن اللہ سبحانہ نے اپنی حکمت سے ، جس کو وہی جانتا ہے، ہمیں بااختیار چھوڑ دیا کہ ہم جو چاہیں اختیار کر لیں خیر یا شر، دونوں صورتوں میں ہمیں بدلہ دیا جائے گا کچھ لوگ جنت جائیں گے اور کچھ جہنم میں داخل کیے جائیں گے، وَلَوْ شِئْنَا لَآتَيْنَا كُلَّ نَفْسٍ هُدَاهَا وَلَكِنْ حَقَّ الْقَوْلُ مِنِّي لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنْ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ "اگر ہم چاہتے تو ہر شخص کو اس کی ہدایت دیتے لیکن میرا فرمان حق ہے کہ میں جہنم کو جنات اور انسانوں سے بھر دوں گا" (السجدہ: 13)۔ اس لیے اس سوال کا کوئی جواز ہی نہیں کہ اللہ سحر کے اس شر انگیز کام کو باطل کیوں نہیں کرتا؟یا اللہ ہمیں اس خیر میں ہی لگا کر کیوں نہیں رکھتا جس کا ہمیں حکم دیا ہے ؟ یا اللہ ہمیں شر کے کاموں سے کیوں نہیں روکتا کہ ہم خیر کے علاوہ کچھ کر ہی نہ سکتے؟۔۔۔اللہ نے تو ہمارے سامنے خیر اور شر کو بیان کر دیا اور ہمیں چھوڑ دیا کہ ہم ان میں سے ایک کو اپنائیں یہی اللہ سبحانہ وتعالٰی کی حکمت کا تقاضا ہے لاَ يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْأَلُونَ "اللہ جو کرتا ہے اس کے بارے میں اس سے کوئی نہیں پوچھ سکتا جبکہ یہ جوابدہ ہیں" (الانبياء: 23)۔ لیکن بہر حال ہمیں یہ عقیدہ رکھنا چا ہیے کہ اللہ کی حکمرانی میں کوئی بھی چیز اس کی مرضی ، ارادے اور مشیّت کے خلاف نہیں ہو سکتی۔
9۔ وَلَقَدْ عَلِمُوا لَمَنْ اشْتَرَاهُ مَا لَهُ فِي الآخِرَةِ مِنْ خَلاَقٍ " وہ جانتے ہیں کہ اس کے لینے والے کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں"
اس کا یہ معنی ہے کہ سحر شر ہی شر ہے یہ اس چیز کا وصف ہے جس کو یہ سیکھتے ہیں یعنی سحر يُعَلِّمُونَ النَّاسَ السِّحْرَ "لوگوں کو سحر سکھاتے ہیں" اس وصف کی دلالت واضح ہے کہ یہ سیکھنا ان کے لیے نقصان دہ ہے فائدہ مند نہیں۔ سحر سراپا شر اور نقصان ہے اس میں کوئی فائدہ نہیں۔
پھر اللہ نے یہ بیان کیا کہ جو مذکورہ طریقے سے سحر کا عمل کرتا ہے آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہیں کیونکہ وہ اللہ اور اس کی آیات کا کافر (چھپانے والا) ہے۔
اشْتَرَاهُ "اس کو خریدا" یہ استعمال مجازی ہے یعنی اس کو اپنا پیشہ بنایا کیونکہ کسی چیز کو خریدنا اس کے عین کو استعمال کرکے یا اس کا معاوضہ لے کر اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے ہوتا ہے، سحر کو پیشہ بنا کر ذریعہ معاش بنا نا گویا اس کو خریدنا ہے۔
وَلَقَدْ عَلِمُوا لَمَنْ اشْتَرَاهُ مَا لَهُ فِي الآخِرَةِ مِنْ خَلاَقٍ "وہ جان چکے ہیں کہ جو بھی اس کو مول لے گا اس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہو گا" یہ خبر بمعہ ترک طلب ہے یعنی نہی جازم کے معنی میں ہے جو سحر کے تباہ کن ہو نے دلیل ہے۔
وَلَبِئْسَ مَا شَرَوْا بِهِ أَنفُسَهُمْ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ "اورکیا ہی بری چیز ہے جو انہوں نے خود خریدی ہے اگر یہ سمجھ دار ہو تے " (البقرہ: 102) یعنی کیا ہی بری چیز ہے وہ جس کے لیے انہوں نے اپنے آپ کو بیچا کیونکہ انہوں نے اپنے آپ کو اللہ کے عذاب کے لیے پیش کردیا اور جہنم کی آگ کے بدلے اس کو کھو دیا، مَا لَهُ فِي الآخِرَةِ مِنْ خَلاَقٍ "اس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں"۔ اپنے آپ کو سحر کے بدلے بیچ ڈالنے کا جو معاوضہ ان کے لیے تیار کر کے رکھا گیا ہے وہ اللہ کا غضب، اس کا عذاب، جہنم کی آگ ہے اور یہ واقعی بری اور نقصان دہ تجارت ہے۔
لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ "اگر وہ سمجھ رکھتے" یعنی اپنے علم سے فائدہ اٹھانے والے ہو تے کیونکہ جو کوئی علم رکھتا ہے لیکن اس کی دلالت کی پابندی نہیں کر تا (عمل نہیں کرتا) تو گویا وہ علم ہی نہیں رکھتا۔ جس شخص کو سحر کے تباہ کن انجام کا علم بھی ہو اور وہ اس میں ملوث بھی ہو جائے تو گویا وہ جانتا ہی نہیں۔ یہ موضوع پر پُرقوت دلالت کا زبردست نمونہ ہے سبحان اللہ سبحان اللہ!
رسول اللہﷺ ایسے علم سے اللہ کی پناہ مانگتے تھے جو بے فائدہ ہوفرمایا: أعوذ بالله من علم لا ينفع، وقلب لا يخشع، وعين لا تدمع "میں ایسے علم سے جو بے فائدہ ہے، ایسے دل سے جس میں خشوع نہیں اور ایسی آنکھ سے جو آنسو نہیں بہاتی اللہ کی پناہ مانگتا ہوں"۔ جیسا کہ ہم نے کہا کہ قوت کا استعمال ہے اور کتاب اللہ میں یہ دیگر موضوعات میں بھی موجود ہے اور دوسری دلالت میں بھی مستعمل ہے جیسے کہ أَفَلَمْ يَسِيرُوا فِي الأَرْضِ فَتَكُونَ لَهُمْ قُلُوبٌ يَعْقِلُونَ بِهَا أَوْ آذَانٌ يَسْمَعُونَ بِهَا فَإِنَّهَا لاَ تَعْمَى الأَبْصَارُ وَلَكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ "کیا یہ لوگ زمین پر نہیں چلتے کہ اپنے دل و دماغ سے سمجھتے یا اپنے کانوں سے سنتے یہ تو آنکھوں سے نابینا نہیں بلکہ سینے میں موجود دل کے اندھے ہیں" (الحج: 46)،یا جیسے ومثل اللذین کفرو کمثل الذی ینعق بما لا یسمع الا دعا ونداء صم بکم عمی فھم لا یعقلون "اور ان لوگوں کی مثال جنہوں نے کفر کیا اس جانور کی طرح ہے جو سوائے بلانے اور پکارنے کے کچھ نہیں سنتا یہ گونگے بہرے اور اندھے ہیں یہ سمجھتے ہی نہیں" (البقرۃ: 171)۔
جو شخص اپنی سماعت سے فائدہ نہیں اٹھا تا تو گویا وہ سنتا ہی نہیں
جو شخص اپنی آنکھوں سے فائدہ نہیں اٹھا تا تو گویا وہ دیکھتا ہی نہیں
جو شخص اپنے بولنے سے فائدہ نہیں اٹھا تا تو گویا وہ بولتا ہی نہیں
جو شخص اپنی عقل سے فائدہ نہیں اٹھا تا تو گویا وہ ہے ہی بے عقل
جو شخص اپنے علم سے فائدہ نہیں اٹھا تا تو گویا وہ ہے ہی بے علم
اور اول و آخر اللہ ہی کا امر ہے۔
وَلَوْ أَنَّهُمْ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَمَثُوبَةٌ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ خَيْرٌ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ "اگر یہ ایمان لاتے اور تقوی اختیار کرتے تو اللہ کا اجر بہت بہتر تھا اگر یہ جانتے" یعنی اگر یہ ایمان لاتے، اطاعت کرتے اور سحر کو ترک کرتے تو ان کے حق میں بہت بہتر ہوتا، لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ یعنی اگر یہ لوگوں کو پہنچانے والے سحر کا دنیاوی تباہ کن ضرر اور نقصان اور اس کی سزا میں آخرت کے دن جہنم کی آگ کے عذاب کے بارے میں اپنے علم سے فائدہ اٹھاتے ۔

سَيُصِيْبُ الَّذِيْنَ اَجْرَمُوْا صَغَارٌ عِنْدَ اللّٰهِ وَعَذَابٌ شَدِيْدٌۢ بِمَا كَانُوْا يَمْكُرُوْنَ "عنقریب مجرموں کو ان کی سازشوں کے سبب اللہ کی طرف سے ذلت اور سخت عذاب کا سامنا ہو گا" (الانعام: 124)


شامی اتحاد کے سربراہ الجربا نے آج ہفتے کی رات 19 جنوری 2014 کو کیری اور فورڈ کے حکم سے جنیوا -2 میں شرکت کا علان کر دیا اور اس سے قبل بشار حکومت کے ساتھ مذاکرات نہ کرنے کے اپنے اعلان کو بھی بالائے طاق رکھ دیا بلکہ اتحاد کے اس قانون کو بھی پیروں تلے روند ڈالا جس کی رو سے کسی فیصلے کے لیے اس کے 121 ارکان میں سے دو تہائی کی حمایت ضروری ہے۔ وہ یہ سب بھول گیا بلکہ اس کے آقا کے دباؤ نے اس سے بھلا دیا اس لیے اس نے 81 کی بجائے صرف 58 ارکان کی حمایت کرنے پر ہی جنیوا-2 میں شرکت کا اعلان کر دیا۔ حمایت کرنے والے ارکان کی تعداد جس قدر بھی ہوتی یہ ذلیل اور رسوائے زمانہ اتحاد امریکہ کے حکم سے سرتابی کی ہمت نہیں کر سکتا کیونکہ یہ اتحا د امریکہ ہی کا بنایا ہوا ہے اور غلام اپنے آقا کے حکم کی خلاف ورزی کہاں کر سکتا ہے؟!
اتحاد کے سرغنہ نے کہا کہ ہم اپنے موقف پر قائم ہیں حالانکہ ان کا کوئی موقف ہی نہیں! بشار حکومت کے ساتھ مذاکرات نہ کرنے کی ان کی پکار اب بے نقاب ہو چکی ہے۔اب وہ صرف بشار کی برطرفی کی ضمانت پر اپنے موقف سے پسپائی اختیار کرچکے ہیں۔ اس ضمانت کے متعلق زبان حال بھی یہ کہہ رہی ہے کہ یہ طاق نسیان کی نظر ہو گی! کوئی شرائط اور کوئی ضمانت نہیں بلکہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے سامنے سربہ خم اور سرتسلیم خم کرنا ہے تاکہ نئی حکومت قائم کی جائے اور حسب سابق امریکہ کا تسلط قائم رہے اور پرانے بشار کی جگہ نیا بشار لے گا! اس اتحاد نے پہلے دن سے ہی اللہ، اس کے رسولﷺ اور مؤمنوں کے ساتھ خیانت کی ہے۔ اس کے اراکین ان ہی اہداف کا راگ الاپتے ہیں جس پر موجودہ سرکش بشار کاربند ہے یعنی سیکولر جمہوریت اور اسی طر ح امریکہ کے گن گانا جیسا کہ پہلا سرکش کرتا ہے...جن لوگوں کی آنکھوں پر پردہ تھا اور اس اتحاد کے وجود میں آتے وقت وہ اس کو نہیں سمجھ سکے اب تو ان کی آنکھیں کھلنی چاہیے کیونکہ اب تاریکی چھٹ چکی ہے اور بہائے گئے خون اور دی گئی قربانیوں کو پاؤں تلے روند نے کی وجہ سے یہ اتحاد اندھوں کے سامنے بھی بے نقاب ہو چکا ہے۔ انھوں نے خون کے سیل رواں اور کھنڈرات پر کھڑے ہو کر اقتدار کی بندر بانٹ کے لیے انسان، درخت اور پتھروں کو بھی جلا کر راکھ کرنے والی بشار حکومت سے مذاکرات کرنے کو قبول کیا، وہ سرکش جس نے میزائلوں، جلاکر راکھ کرنے والے مائع مواد کے ڈرموں بلکہ کیمیائی ہتھیاروں سےتباہی مچادی اورجلاؤ گھیراؤ، لوٹ مار اور عزتیں پامال کر نا اس کے علاوہ ہے...
اے سرزمین شام کے مخلص مسلمانو...اے وہ لوگو جن کا خون بہایا گیا، جن کی عزتیں پامال کی گئیں، جن کے اموال اورگھربار کو تباہ کیا گیا...!
اس اتحاد نے تمہاری پیٹھ پر ہی نہیں بلکہ سینے میں چھرا گھونپ دیا ہے۔ اس نے اپنی خیانت کو پوشیدہ نہیں رکھا بلکہ بھرے بازار میں اس کی نمائش کردی...اس نے کسی اِدھر اُدھر کی چیز سے اپنے ستر کو بھی نہیں چھپایا بلکہ شرم وحیا کو سرے عام بیچ ڈالا، دن دھاڑے اپنے منہ پر جرم کی کالک مل لی، یہاں تک کہ ان کے منہ ان کے جرائم کی وجہ سے اللہ کے اس فرمان کے مطابق بن گئے، ﴿يُعْرَفُ الْمُجْرِمُونَ بِسِيمَاهُمْ فَيُؤْخَذُ بِالنَّوَاصِي وَالْأَقْدَامِ﴾ "مجرموں کو ان کی پیشانیوں سے پہچانا جائے گا اور ان کو سر کے بال اور ٹانگوں سے گھسیٹا جائے گا"۔ اے شام کے مسلمانو! اس اتحاد کا ہاتھ روک لو اور اس کو گٹھلی کی طرح نکال کر پھینک دو، اسلام کے مسکن شام کی سرزمین میں قدم رکھنے یا یہاں سے گزرنے بھی مت دو اوراس انقلاب کا اختتام بھی اسی طرح کرو جس طرح اس کی ابتدا کی تھی کہ یہ "اللہ کے لیے ہے، یہ اللہ کے لیے ہے"...یاد رکھو کہ جنیوا-1 اور جنیوا-2 دونوں امریکہ کے بُنے ہوئے جال ہیں جس کے بعد امریکی ساختہ حکومت کے قیام کے لیے، موجودہ بشارحکومت کی طرح ا مریکہ کے ساتھ وفاداری کی ضمانت لے کر، عسکری مداخلت کی جائے گی...ان تاروں کو ہی کاٹ دو اور بین الاقوامی مداخلت کے خلاف مزاحمت کرو۔ یہ مداخلت تم میں سے مخلص لوگوں کے خلاف ہے۔ امریکہ اور اس کے حاشیہ برداروں سے دوستی مت کر و کیونکہ صرف خائن اور ناشکرا شخص ہی ان سے دوستی کرتا ہےجو تھوڑی سے دنیا بلکہ کسی اور کی دنیاکے لیے اپنی آخرت کو بیچ ڈالتا ہے، اس کو بالآخر اس کے نتیجے میں کانٹوں کے سوا کچھ نہیں ملے گا، اس کے ساتھ بھی وہی ہو گا جو اس جیسوں کے ساتھ اس پہلے ہو چکا ہے، دنیا کی زندگی میں بھی رسوا ہو گا اور آخرت کا دن اس کے لیے انتہائی دردناک ہوگا، اللہ سبحانہ نے فرمایا:﴿وَلَعَذَابُ الْآخِرَةِ أَخْزَى وَهُمْ لَا يُنْصَرُونَ﴾ "اور آخرت کا عذاب اور بھی رسواکن ہے اور ان کی کوئی مدد نہیں کی جائے گی"۔
اے سرزمین شام کے مخلص مسلمانو...اے وہ لوگو جن کا خون بہایا گیا، جن کی عزتیں پامال کی گئیں، جن کے اموال اورگھربار کو تباہ کیا گیا...!
تین سال سے تم اس حالت میں سرکش سے دو دو ہاتھ کر رہے ہو کہ عالمی سازشوں کے گہرے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ امریکہ ، اس کے اتحادی اور اس کے علاقائی عرب اور عجمی ایجنٹ لمحہ بہ لمحہ ان سازشوں میں اس کے شانہ بشانہ ہیں۔ ان عرب اور عجم میں سے جنہوں نے تمہاری مدد کے لیے آواز بلند کی تھی ان کی آوازیں بھی اُس چکی کی آواز ثابت ہوئی جس میں سے کوئی آٹا نہیں نکلتا۔ اس کے باوجود تم نے صبر کیا اور ڈٹے رہے، تمہاری فلک شگاف تکبیروں نے فضاء کو معطر کر دیا، تم نے طرح طرح کے مظالم کا سامنا کیا مگر پھر بھی تم نے انتہائی عزم اور حوصلے سے دشمن کو للکار...اھر یہ ایسا اتحاد جو کسی مؤمن کے بارے میں رشتہ داری اور قرابت کا بھی لحاظ نہیں رکھتا کس طرح اقتدار کی بندر بانٹ کے لیے سرکش سے مذاکرات کرتا ہے جیسا کہ کچھ ہوا ہی نہیں؟! اے اہل شام تم یقیناً امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی سازشوں کو ناکام بنا نے پر قادر ہو، تم جنیوا -2 کانفرنس کو ناکام اور نامراد کر سکتے ہو...شام کے اندر صابر اور ثابت قدم رہو ...تم ہی اس دھرتی بیٹے ہو...شام کی باگ ڈور تمہارے ہاتھ میں ہے، فائیوسٹار ہوٹلوں میں رہائش کی خواہش رکھنے والا یہ اتحاد خواہ خیانت میں کوئی بھی حد پار کرے، جرم میں جس درجے کو پہنچے، اگر تم اللہ کے ساتھ اخلاص اور رسول اللہﷺ کے ساتھ صدق کا ثبوت دیتے ہوئے ثابت قدمی سے ان کے سامنے ڈٹے رہےتو یہ کچھ نہیں کر سکتے اور تب ہی یہ اتحاد ذلیل و خوار ہو کر پسپا ہو گا...لیکن مصیبت یہ ہے کہ یہ اتحاد تم میں سے کچھ لوگوں کی صفوں میں دراڑیں ڈالنے میں کا میاب ہو جاتا ہے اور اس سے بھی زیادہ تلخ بات یہ ہوگی کہ وہ بعض گروپوں کو راہ ِراست سے ہٹانے میں کامیاب ہو اور ان کو قابو کرلے اور ان کے بل بوتے پر پرانے ایجنٹ حکمران کی جگہ نیا ایجنٹ حکمران لائیں، پھر بہایا گیا پاک خون اور دی گئی قربانیاں ان گرپوں پر لعنت کریں گی اور یہ گروپ اس اتحاد کے نرغے میں آئیں گے، ﴿كَالَّتِي نَقَضَتْ غَزْلَهَا مِنْ بَعْدِ قُوَّةٍ أَنْكَاثًا﴾ "اس (دھاگہ کاتنے والی) کی طرح جس نے بھرپور طریقے سے اپنے دھاگے کو کاتنے کے بعد برباد کرڈالا" یوں یہ دنیا اور آخرت کے خسارے سے دوچار ہوں گے جو کہ کھلا خسارہ ہے۔
اے سرزمین شام کے مخلص مسلمانو...اے وہ لوگو جن کا خون بہایا گیا، جن کی عزتیں پامال کی گئیں، جن کے اموال اورگھربار کو تباہ کیا گیا...!
قائد اپنے پیروکاروں سے جھوٹ نہیں بولتا اور حزب التحریر ڈرانے والے اور خوشخبری دینے والے کے طور پر تمہاری طرف متوجہ ہو رہی ہے:
تمہیں جنیوا-2 کی آگ میں گرنے سے ڈراتی ہے کیونکہ اتحاد کا حکومت کے ساتھ مذاکرات، طے شدہ طریقہ کار کے مطابق ہیں جس سے یہ بالکل انحراف نہیں کر سکتے اور جس کے نتیجے میں ایک نیا سرکش وجود میں آئے گا جو پرانے سرکش سے سوائے نام اور چہرے کی رنگت کے علاوہ کسی چیز میں مختلف نہیں ہو گا، جس پر امریکہ سوار ہو گا جیسا کہ وہ اس پہلے والے پر سوار تھا، یوں ایک بار پھر لعنت اور بدبختی تمہارا مقدر ہو جائے گی، تم ندامت کا اظہار کرو گے لیکن ندامت کا اس وقت کوئی فائدہ نہیں ہوگا، تم میں سے کوئی کہنے والا یہ بھی نہیں کہہ پائے گا کہ میں تو اپنی جان کا ذمہ دار ہوں گناہ اور ہلاکت جنیوا جانے والوں کے لیے ہے...یہ نہیں کہہ سکے گا ، کیونکہ کسی قوم میں منکر کا ارتکاب ہو اور وہ اس کا سدباب نہ کرےتو اس کا وبال سب پر ہوگا...ابوداؤد نے اپنی سنن میں ابو بکر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے اللہ کی حمد وثنا کے بعد فرمایا : اے لوگو...میں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے ((مَا مِنْ قَوْمٍ يُعْمَلُ فِيهِمْ بِالْمَعَاصِي، ثُمَّ يَقْدِرُونَ عَلَى أَنْ يُغَيِّرُوا، ثُمَّ لَا يُغَيِّرُوا، إِلَّا يُوشِكُ أَنْ يَعُمَّهُمُ اللَّهُ مِنْهُ بِعِقَابٍ)) "جس قوم میں اللہ کی نافرمانی کے کام ہو رہے ہوں اور اس قوم کے لوگ اس کا سدباب کرنے پر قادر بھی ہوں مگر پھر بھی وہ اس کا سدباب نہ کریں تو قریب ہے کہ اللہ اپنی طرف سے ان سب کو عذاب میں مبتلا کردیں"، اس لیے شام کے مسلمانوں اپنے آپ کو اللہ کے عذاب سے بچاؤ...۔
حزب تمہیں یہ خوشخبری بھی سناتی ہے کہ اگر تم نے اللہ کے ساتھ اخلاص ، اس کے رسولﷺ کے ساتھ صداقت ، اپنے قول وفعل سے ریاست خلافت راشدہ کے قیام کے ذریعے اللہ کی شریعت کی حکمرانی پر اصرار کیا اور پکا عزم کر لیا کہ امریکہ اور اس کے حواریوں کی بالادستی کو اکھاڑ پھینکیں گے ...تو اللہ سبحانہ وتعالٰی تمہارا مددگا رہو گااور تمہارے دشمن کو ہلاک کردے گا، ﴿وَكَانَ حَقًّا عَلَيْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِينَ﴾ "اور مؤمنوں کی مدد کرنا ہماری ذمہ داری ہے"، اور اللہ سے سچی بات کس کی ہو سکتی ہے؟
إِنَّ فِي ذَلِكَ لَذِكْرَى لِمَنْ كَانَ لَهُ قَلْبٌ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَ هُوَ شَهِيدٌ
"بے شک اس میں اس شخص کے لیے نصیحت ہے جو دل ودماغ رکھتا ہے یا کان لگا کر سنتا ہے اور گواہ ہے"

سوال کا جواب: خلافت قائم کرنے کیلئے مسلمانوں کوکتنے عرصے تک مہلت دی جائے گی

(Muafa Abu Haura کی طرف سے)

 

سوال: آپ نے میرے سوال کاجواب دیا،اللہ آپ کوجزا دے ...کیایہ ممکن ہے کہ اس گفتگو کو کھل کر سامنےلایا جائے تاکہ دوسرے مسلمان اس سے مستفید ہوسکیں اور یہ جان سکیں کہ اگر کسی فکرکی کمزوری آشکاراہوجائے تو حزب التحریر اوراس کاامیر حق وصداقت کوقبول کرنےمیں کتنے مخلص ہیں؟
پہلی فکرجس پرہم بحث کرناچاہتے ہیں، اس مدت کے تعین سے متعلق ہے، جو مسلمانوں کوخلافت قائم کرنے کے لئے دی گئی ہے۔ ایک بھائی نے، جس کانام Aang Yulius ہے، مجھے یہ مضمون لکھ کر بھیجا:
خلافت کوقائم کرنے کیلئے مسلمانوں کودی گئی مہلت کےحوالے سےحزب التحریرنے جس روایت کودلیل بنایاہے، کیاوہ صحیح ہے؟
حزب التحریر کے اختیارکردہ افکارمیں سےہے کہ تمام مسلمانوں پرخلیفہ کومقررکرنافرض ہے اور وہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں کا تین دن سے زائد عرصہ خلیفہ کے بغیررہنا جائز نہیں ۔ اگران پرتین دن ایسے گزر جائیں کہ ان میں کسی کو خلیفہ متعین نہ کیا جائے توتمام مسلمان گناہ گار ہوں گے۔ عثمانی خلافت کے خاتمے کے بعد سے لے کر آج تک اسّی(80) برس کازمانہ ان پر ایسا بیت چکاہےکہ ان کی گردنوں پر خلیفہ کی بیعت کاطوق نہیں۔ لہٰذاہر وہ شخص جو خلافت کے قیام کے لئے جدوجہد میں حصہ نہیں لیتاوہ گناہ گار ہے ۔ حزب التحریر نے تین دن کی مدت کے تعین پراجماع صحابہ کودلیل بنایاہے، چنانچہ روایت کیا گیا ہے کہ حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کو جب زخمی کر دیا گیا اور ان کی وفات ہونے لگی، تو انھوں نے کبار صحابہ میں سے چھ کو نامزد کیا تاکہ اُن کی وفات کے بعد باہمی مشورے سے وہ اپنے میں سے کسی شخص کو خلیفہ منتخب کریں۔ آپ رضی اللہ عنہ نےوصیت کی کہ تیسرے دن کے گزر جانے کے بعد اگر کوئی ان میں سے فیصلے کی مخالفت کرے تواسے قتل کر دیا جائے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے پچاس دیگر صحابہ کو اس وصیت پر عمل کرنے کیلئے مقرر کیا۔ اکابر صحابہ کواس وصیت کے بارے میں آگاہی ہوئی، مگر ان میں سے کسی نے اس کا انکار نہیں کیا، اس بات کے باوجود کہ یہ معاملہ ایسا تھا جس سے انکار کیا جا سکتا تھا۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ خلافت کوقائم کرنے کیلئے تین دن کی مہلت کے تعین پرصحابہ کا اجماع ہے ۔ اس فکر کی بنیاد تاریخ طبری کی وہ روایت ہے جو اس طرح سے ہے کہ: (فان اجتمع خمسۃ ورضوارجلاً وابیٰ واحد فاشدخ راسہ اواضرب راسہ بالسیف وان اتفق اربعۃ فرضوارجلاً ،منھم وابیٰ اثنان فاضرب روؤسھم......) "تواگرپانچ آدمی کسی ایک شخص پرمتفق ہوجائیں، جبکہ ان میں سے ایک انکار کرے تو اس کا سر تلوار سے توڑ دو یا تلوار سے مار دو اور اگر چار متفق ہوجائیں جبکہ دو اختلاف کریں تو ان دونوں کی گردن مار دو......" یہ حزب التحریرکی باضابطہ فکرہے، جواس کی تبنی کردہ کتب میں بیان کی گئی ہے، اس کوشباب نے حزب التحریر یا اپنے ذاتی نام کے ساتھ شائع کیاہے ۔ یہی فکر کتاب 'اجھزۃ دولۃ الخلافۃ' میں 'باب المدۃ التی یمھل فیھاالمسلمون لاقامۃ الخلافۃ' صفحہ/53 پر بیان کی گئی ہے۔ اسی طرح نظام الاسلام میں خلیفہ کو فائز کرنے کے طریقے کے بیان میں ذکر گیا ہے اور دیگر کتابوں میں بھی یہی فکر موجود ہے۔
یہاں جوسوال ہے وہ اس روایت کاضعیف ہونا ہے، کیونکہ اس کی سند میں 'ابو مخنف' آیا ہے جو کہ رافضی شیعہ تھا، اس کے بارے میں امامِ جرح و تعدیل ابن معین نے کہا ہے 'لیس بثقۃ' یعنی اس کاکوئی بھروسہ نہیں۔ نیزاس کی سند میں مجہول راوی ہیں، کچھ راوی مدلس ہیں، جنہوں نے 'عن' کے لفظ کے ساتھ روایت کیا ہے ۔
ایک روایت اور بھی ہے جس کا مفہوم طبری کی روایت کے مطابق ہے، لیکن سند منقطع ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔ ابن سعد نے طبقات کبریٰ میں اسی طرح کی روایت نقل کی ہے، جس میں 'سماک ابن حرب الذُھَلی البکری' شامل ہے ،جس کو حفاظ الحدیث نے'صدوق وقد تغیر' بتلایاہے، یعنی وہ سچے ہیں مگر وہ بعد میں بدل گئے تھے اور چونکہ عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ اس کی ملاقات ممکن نہیں، اس لئے یہ روایت منقطع ہے۔
معنوی طور پر ہم دیکھتے ہیں کہ طبری کی روایت اور اس کی مثل دیگر روایات کی تصدیق ممکن ہی نہیں کیونکہ ان کی روایات صحیح روایات کے مخالف ہیں، ہمیں مندرجہ ذیل نکات کودیکھناچاہئے :
یہ کیسے ممکن ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ کبار صحابہ کو قتل کرنے کا حکم دیں اور یہ کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کیونکر ایسی بات کرتے جبکہ وہ جانتے تھے کہ یہ آپ ﷺ کے برگزیدہ صحابہ ہیں۔
اس بنا پر یہ واضح ہے کہ یہ روایت ضعیف ہے ...چنانچہ خلافت کے قیام کیلئے مسلمانوں کو تین دن کی مہلت پر اس روایت سے استدلال نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح ان لوگوں کاقول بھی باطل ہو جاتا ہے جو خلافت کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ "عمر رضی اللہ عنہ نے خلیفہ کے تقرر سے اختلاف کرنے والے کے قتل کاحکم دیاتھا"۔ تواس کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے ؟ تسلی بخش جواب کا انتظار رہے گا۔

جواب: آپ نے سوال کی ابتداء میں چند امورکاذکر کیاہےجومیری توجہ کاباعث بنے، جن کی طرف میں جواب دینےسے پہلے اشارہ کرناچاہوں گا۔
ا۔سوال Muafa Abu Haura کی طرف سے ہے اور اس میں جس آرٹیکل کو استعمال کیا ہے وہ Aang Yulius کے نام سے ہے ۔
ب۔ آپ نے پوچھا ہے کہ کیایہ ممکن ہے کہ اس گفتگو کو کھل کر سامنےلایا جائے تاکہ دوسرے مسلمان اس سے مستفید ہوسکیں اور یہ جان سکیں کہ اگر کسی فکرکی کمزوری آشکاراہوجائے تو حزب التحریر اوراس کاامیر حق وصداقت کوقبول کرنےمیں کتنے مخلص ہیں، تو بات کیسے ہوگی جبکہ آپ حزب کی رائے کی کمزوری طے ہی کرچکے ہیں۔اور آپ گفتگو کے اختتام کاانتظار کیوں نہیں کرتے تاکہ فکرکی کمزوری اورقوت دیکھ لی جائے...کیا یہ بہتر نہیں کہ بحث کے اختتام سے قبل ہی رائے کی کمزوری کوطے نہ کیا جائے ؟
ج۔ آپ نے ہمیں السلام و علیکم نہیں کہا، ہاں ! آپ نے دعا دی ہے، وہ بھی ایسی کہ ہم جانتے ہی نہیں کہ دعا ہمارے حق میں کی جار ہی ہے یا ہمارے خلاف، آپ نے کہا ہے کہ اللہ آپ کو جزاء (بدلہ) دے...لیکن اس بدلے کی نوعیت نہیں بتائی کہ یہ اچھا ہوگا یا بُرا۔
بہرحال ان تمام باتوں کے باوجود سابقہ نکتوں کا مطلب کچھ بھی ہو، میں اس کے بارے میں یوں ہی فرض کرلیتا ہوں کہ آپ کی نیت اچھی ہوگی اور آپ کے ساتھی کے مضمون کا جواب دیتا ہوں، اور توفیق تو اللہ ہی کی طرف سے ہے:
1۔ حزب التحریر اور اس کا امیر کسی ایسی گفتگو کو مسترد نہیں کرتے جو اس لئے کی جائے کہ حق کوبیان کیا جائے اور اس کی پیروی کی جائے اور پھر اس کی بنیاد پر خلافت کے قیام کے ذریعے اسلامی زندگی کے از سرنو آغاز کیلئے کام کیا جائے جو ایک عظیم فرض ہے، یعنی مسلمانوں کیلئے جائز نہیں کہ وہ منصب خلافت کے خالی ہونے کے بعد تین دن سے زیادہ عرصے تک خلیفہ کے تعین میں سستی دکھائیں، ورنہ جو شخص اس کام کی قدرت رکھتے ہوئے بھی اس کو نہ کرے گا تو وہ گناہ گار ہوگا۔
2 ۔ مضمون لکھنے والے نے طبری کی روایت کو لیا ہے جس میں 'ابو مخنف' ہے اور اس کے بارے میں نقل کیا ہے کہ وہ غیر ثقہ ہے، پھر کچھ دیگر راویوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ وہ مجہول ہیں کچھ کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ 'عنعنہ' کے صیغے کے ساتھ روایت کرتے ہیں۔
پھر طبقات ابن سعد کی ایک روایت کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کی سند میں 'سماک بن حرب ' ہے، اس کے بارے میں کہاہے کہ 'صدوق وقدتغیر' اور یہ کہ وہ عمر رضی اللہ عنہ سے نہیں ملے...
3۔ بے شک مضمون لکھنے والے نے اہم مسئلہ پربات کی ہے، لیکن اس نے ایک ہی روایت پر بات کی ہے، باوجودیکہ یہ مسئلہ "تین دن کی مہلت اور مخالف کاقتل " کوئی خفیہ کارروائی نہیں تھی بلکہ کثیر صحابہ کی موجود گی میں سب کچھ ہوا اور اس کے بارے میں اور بھی روایات آئی ہیں ...پھر اس کا یہ کہنا کہ اس روایت کے بعض راوی مجہول (نامعلوم ) ہیں، تو یہ کوئی حجت نہیں کہ وہ کسی راوی کومجہول کہہ دے کیونکہ اس سے زیادہ قوی حافظے والوں کے ہاں یہ راوی مجہول نہیں! اسی طرح 'عنعنہ' کو اس روایت کے ضعف پردلیل کے طور پر دیکھنا علم مصطلح الحدیث (The knowledge and the science of terminology of the hadeeth)سے ناواقفیت کی بین دلیل ہے،کیونکہ 'عنعنہ' کے ساتھ روایت شدہ حدیث اگر سند کی شرائط پر پوری اترتی ہوتووہ مقبول ہوتی ہے۔
4۔ حدیث کو رَد یا قبول کرنے کیلئے سمجھ کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ کہ علم مصطلح الحدیث کے اصول و فروع سے بھی آگاہی ہونی چاہئے، اس لئے آپ کے ساتھی کے مضمون کا جواب دینے سے پہلے چند اصولی باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں، اگر انھیں اس علم سے واقفیت ہو تو شاید وہ سمجھ پائیں گے۔
حدیث کے کچھ راوی ایسے ہیں جوبعض محدثین کے نزدیک ثقہ (بااعتماد) ہیں اور بعض کے نزدیک ثقہ نہیں، یابعض محدثین کے نزدیک مجہول ہوتے ہیں جبکہ بعض کے ہاں مشہور ہوتے ہیں ۔ اسی طرح کئی احادیث ایسی ہیں جو ایک سند سے تو صحیح نہیں ہوتی مگر دوسری سند کے ساتھ صحیح ہوتی ہیں۔ کچھ ایسی احادیث ہیں جو بعض محدثین کے نزدیک معتبر نہیں اور ان پر وہ طعن کرتے ہیں جبکہ بعض محدثین کے ہاں معتبر سمجھی جاتی ہیں اور ان کو حجت سمجھتے ہیں۔ کچھ ایسی احادیث بھی ہیں جن کومحدثین نے تو مطعون کیا ہے، لیکن عام فقہاء ان کوقبول کرتے ہیں اوران کو دلیل بناتے ہیں۔ تو کسی حدیث کوصحیح یا حسن سمجھ کر کسی ایک رائے یا تمام آراء کو لوگوں پر تھوپنا درست نہیں، یہ حدیث کے واقع کے خلاف ہے ۔ جو شخص فقہاء کے اجتہادات پر نظر ڈالے گاتو وہ دیکھے گا کہ ایک مجتہد کسی حدیث سے استدلال کرتا ہے جبکہ دوسرا اس کونہیں لیتا، کیونکہ وہی حدیث پہلے کے نزدیک صحیح اورقابل عمل ہوتی جبکہ دوسرے کے نزدیک نہیں...اس لئے حدیث پر طعن (تنقید) یا اس کی ردوقدح میں نہایت احتیاط، بصیرت، دقیقہ سنجی اور سوچ سمجھ کی ضرورت ہوتی ہے۔ حدیث کے رُواۃ اور احادیث کی جستجومیں مگن رہنے والا محدثین کے درمیان اس میں بہت زیادہ اختلاف پائے گا، اس کی بہت زیادہ مثالیں ملتی ہیں:
مثلاً: ((روى ابو داود عن عمرو بن شعيب عن ابيه عن جده قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : الْمُسْلِمُونَ تَتَكَافَأُ دِمَاؤُهُمْ. يَسْعَى بِذِمَّتِهِمْ أَدْنَاهُمْ، وَيُجِيرُ عَلَيْهِمْ أَقْصَاهُمْ، وَهُمْ يَدٌ عَلَى مَنْ سِوَاهُمْ يَرُدُّ مُشِدُّهُمْ عَلَى مُضْعِفِهِمْ، وَمُتَسَرِّيهِمْ عَلَى قَاعِدِهِم)) "ابوداؤد نے عمرو بن شعیب سے، اس نے اپنے والد سے، اس نےاپنے والد سے (یعنی عمرو کے دادا سے) روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مسلمانوں کے خون برابر ہیں، ادنٰی مسلمان کسی کافر کو امن دے سکتا ہے اور اس کاپوراکرناضروری ہے۔ اسی طرح دورکامسلمان پناہ دے سکتاہے (اگرچہ اس سے نزدیک والاموجود ہو)، دوسروں کے مقابلے میں وہ ایک ہاتھ ہیں (اپنے مخالفین پرایک دوسرے کی مدد کریں) اورجس کی سواری تیزرفتارہووہ ان کے ساتھ رہے جس کی سواری کمزورہواورجب لشکرمیں سے کوئی ٹکڑی نکل کرمال غنیمت حاصل کرے توباقی لوگوں کوبھی اس میں شریک کرے"۔ توعمروبن شعیب جواس حدیث کاراوی ہے اور عن ابیہ عن جدہ میں مشہوربحثیں ہیں، لیکن اس کے باوجود اس کی حدیث کوبہت زیادہ لوگوں نے حجت مانا ہے ،جبکہ دوسروں نے اس کومسترد کردیاہے۔
یا جیسے دارقطنی ؒ نے حسن بن عبادہ اور انس بن مالک سے روایت کی ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا: ((مَا وُزِنَ مِثْلٌ بِمِثْلٍ إِذَا كَانَ نَوْعًا وَاحِدًا وَمَا كَيْلَ فَمِثْلُ ذَلِكَ، فَإِذَا اخْتَلَفَ النَّوْعَانِ فَلَا بَأْسَ بِهِ)) "جہاں ایک قسم کی چیزوں کےدرمیان تبادلہ کیاجائے تووزن میں بھی یکسانیت ضروری ہوگی یاجوکسی خاص پیمانہ کے ساتھ تولے جائیں توبھی وزن میں برابری ضروری ہے اورجہاں دومختلف نوع ہوں وہاں برابری ضروری نہیں۔" اس حدیث کی سند میں ربیع بن صبیح ہے جس کوابوزرعہ نے ثقہ ماناہے اورایک گروہ نےاس کوضعیف قراردیاہے...اس لئے اگرکوئی اس حدیث سے یاکسی دوسری حدیث سے جس میں ربیع بن صبیح ہواستدلال کرے تو یہ شرعی دلیل سے استدلال ہوگا۔
اور جیسے احمد نے روایت کی ہے ((قال حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ، مَوْلَى الْأَسْوَدِ بْنِ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي عَيَّاشٍ، عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الرُّطَبِ بِالتَّمْرِ، فَقَالَ: أَلَيْسَ يَنْقُصُ الرُّطَبُ إِذَا يَبِسَ قَالُوا: بَلَى. فَكَرِهَهُ. ورواه أبو داود بلفظ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ، أَنَّ زَيْدًا أَبَا عَيَّاشٍ، أَخْبَرَهُ أَنَّ سَعْدَ بْنَ أَبِي وَقَّاص قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُسْأَلُ عَنْ شِرَاءِ التَّمْرِ بِالرُّطَبِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيَنْقُصُ الرُّطَبُ إِذَا يَبِسَ؟ قَالُوا نَعَمْ، فَنَهَاهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ)) "احمدؒ فرماتے ہیں کہ ہمیں ابن نمیر نے حدیث بیان کی، ان کومالک بن انس نے ان کوعبداللہ بن یزید مولیٰ الاسود بن سفیان نے ، وہ روایت کرتے ہیں ابی عیاش سے وہ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے کہ: ایک مرتبہ کسی نے نبی ﷺ سے پوچھا کیا کہ تر کھجور کو خشک کھجور کے بدلے بیچنا جائز ہے؟ تو آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: کیا تازہ کھجور کا خشک ہونے پر وزن گھٹ جاتا ہے، لوگوں نے عرض کیا، ایسا ہی ہے، اس پر آپﷺ نے اسے ناپسندیدہ قرار دیا۔ اسی حدیث کوابوداؤد نے یوں روایت کیاہے : ہمیں عبداللہ بن مسلمہ نے مالک سے عبداللہ بن یزید سے روایت کیا کہ زید ابو عیاش نے انہیں بتلایا: سعد بن ابی وقاص نے کہا: میں نے رسول اللہﷺ سے سنا جب آپﷺ سے تازہ کھجور کے بدلے خشک کھجور خریدنے کے بارےمیں پوچھا گیا تو آپﷺ نے ارشاد فرمایاکہ: کیا تازہ کھجور خشک ہونے پر کم رہ جاتی ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا ہاں، تو آپﷺ نے پوچھنے والے کواس سے منع کیا"۔
اس حدیث کو امام ترمذی نے صحیح کہا ہے اور ایک جماعت نے اس کی علت بیان کی ہے، جن میں سے طحاوی طبری ابن حزم اور عبدالحق ہیں۔ علت اس طرح بتائی ہے کہ اس کی سند میں زید ابو عیاش ہے جو کہ مجہول ہے ۔ تلخیص میں کہا ہے کہ اس کا جواب یہ ہے کہ دار قطنی نے زید کے بارے میں کہا: وہ ثقہ ہیں اور منذری نے کہا : ان سے دوثقہ راویوں نے روایت کی ہے اور مالک ؒ نے ان پر اعتماد کیا ہے باوجودیکہ وہ حدیث کی جانچ پرکھ میں حد درجہ متشدد ہیں۔ تو اگر کوئی اس حدیث کو دلیل بنائے یا زید ابو عیاش کی کسی دوسری حدیث سے استدلال کرے گا تو یہ شرعی دلیل کے ساتھ استدلال سمجھا جائے گا۔
اس بناپر متعلقہ دوسری روایات سے صرف ِنظر کرکے صرف ایک روایت سے حکم کومستنبط نہیں کیاجائے گا۔اورنہ ہی جرح وتعدیل میں تما م دیگر پہلوؤں کوچھوڑ کرفقط ایک ہی پہلوکولیناکافی ہوتاہے،بلکہ مسئلہ کےتمام پہلوؤں کومدنظر رکھناچاہئے۔
5۔ آئیے اب ان بعض پہلوؤں پر بحث کرتے ہیں جن کو مضمون والا نہ جان سکا یا جان بوجھ کر توجہ نہیں دی۔
طبری کی روایت پراس نے جووضاحت (commentary) لکھی ہے، اس میں 'ابو مخنف ' پر توجہ مرکوز رکھی ہے، لیکن ابی مخنف کے ساتھ اس روایت میں شریک راوی کو چھوڑ دیا ہے ، طبری کی روایت بتاتی ہے: ((حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ شبة، قال: حدثنا علي بن محمد، عن وَكِيعٍ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الأَنْصَارِيِّ، عَنِ ابْنِ أَبِي عَرُوبَةَ، عن قتادة، عن "شهر بن حوشب وابى مِخْنَفٍ"، عَنْ يُوسُفَ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَبَّاسِ بْنِ سَهْلٍ وَمُبَارَكُ بْنُ فَضَالَةَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ وَيُونُسَ بْنِ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ الأَوْدِيِّ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّاب لَمَّا طُعِنَ... فَقَالَ..." )) "ہمیں عمر بن شبّہ نے، ان سے علی بن محمد نے حدیث بیان کی، وہ روایت کرتے ہیں وکیع سے، وہ اعمش سے، وہ ابراہیم اورمحمد بن عبداللہ الانصاری سے، وہ ابن ابی عروبہ سے، وہ قتادہ سے، وہ شہر بن حوشب اور ابو مخنف سے، وہ یوسف بن یزید سے، وہ عباس بن سہل اور مبارک بن فضالہ سے، وہ عبیداللہ بن عمر اور یونس بن اسحاق سے، وہ عمرو بن میمون الاَودِیّ سے کہ جب عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کوزخمی کیا گیا...تو کہا...(الی آخرہ)"۔ تو مضمون میں ابو مخنف پر یہ کہہ کر توجہ مرکوز کئے رکھی کہ وہ ضعیف ہے، جب کہ شہر بن حوشب کو جو ابو مخنف کے ساتھ یوسف بن یزید سے اس روایت میں شریک ہے، کیونکہ قتادہ نے ابو مخنف اور شہر بن حوشب سے روایت کی ہے اور ان دونوں نے یوسف بن یزید سے کی ہے، مگر اس نے صرف ابو مخنف کو ذکر کیاہے ،اورشہر بن حوشب کاذکر اس لئے نہ کرسکا کہ اس کوایک جماعت نے ثقہ کہاہے۔
العجلی ؒ (متوفی 261ھ) نے اپنی کتاب "الثقات" میں کہاہے کہ : شہر بن حوشب شامی ثقہ تابعی ہیں۔
الہیثمی ؒ (متوفی807ھ ) نے شہر بن حوشب کے بارے میں "مجمع الزوائد ومنبع الفوائد" میں کئی مواضع پر بات کی ہے۔ ایک جگہ کہتے ہیں: شہر بن حوشب، اس کوثقہ کہاگیاہے۔ دوسری جگہ کہتے ہیں: شہربن حوشب، اس کے بارے میں اختلاف کیا گیا ہے، لیکن احمد، ابن معین، ابوزرعہ اور یعقوب بن شیبہ نے ان کو ثقہ کہا ہے، اسی طرح ایک اور جگہ کہتے ہیں: شہر بن حوشب، اس میں کلام کیاگیاہے، لیکن اس کوکئی لوگوں نے ثقہ کہاہے۔
ابن شاہین (متوفی385ھ) اپنی کتاب "تاريخ أسماء الثقات" میں کہتےہیں کہ شہر بن حوشب ثبت ہے، ایک اور روایت کے ذیل میں اس کے بارے میں کہتےہیں: شامی ہے، بصرہ آیا تھا، اشعریوں میں سے ہے اور ثقہ ہے۔
اس لئے قتادہ نے ابو مخنف اورشہر بن حوشب دونوں سے نقل کیا،صرف ابو مخنف سے نہیں، مگرمضمون والے نے شہر بن حوشب سے بے توجہی برتی کیونکہ اس کوبہت سے لوگوں نے ثقہ مانا ہے۔ یہ طبری کی روایت کے حوالے سے تھا۔

• ابن سعد کی طبقات میں روایت کی جہاں تک بات ہے تومضمون لکھنے والے نے طبقات کی ایک روایت کا ذکر کیا ہے جس میں سماک ہے۔
یہ روایت اس طرح ہے۔ ((قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بَكْرٍ السَّهْمِيُّ قَالَ: أَخْبَرَنَا حَاتِمُ بْنُ أَبِي صَغِيرَةَ عَنْ سِمَاكٍ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ لَمَّا حُضِرَ قَالَ إِنْ أَسْتَخْلِفْ فَسُنَّةٌ وَإِلا أَسْتَخْلِفْ فَسُنَّةٌ. تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ولم يَسْتَخْلِفْ. وَتُوُفِّيَ أَبُو بَكْرٍ فَاسْتَخْلَفَ..."، وقد ذكر صاحب المقالة أن سماك الذي وُصف "بالصدوق وقد تغير" لا يمكن اتصاله بعمر...)) "ہمیں عبداللہ بن بکرالسہمی نے حدیث بیان کی کہ ہمیں حاتم بن ابی صغیرہ نے سماک سے روایت کی کہ جب عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ وفات سےقریب ہوئے توفرمایا: اگرمیں کسی کواپناجانشین مقررکردوں توبھی سنت ہے نہ بھی کروں توبھی سنت ہے، آپ ﷺ کی وفات ا س حال میں ہوئی جب کہ کسی کو جانشین نہیں بنایا، ابوبکر کی وفات ہوئی تو اس نے اپنا جانشین بنالیا"۔ مضمون والے نے ذکر کیا ہے کہ سماک جس کو "صدوق وقد تغیر" کہا گیا ہے، کی ملاقات عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ ناممکن ہے......
مگرابن حبان (المتوفی354ھ)نے اپنی کتاب "الثقات" میں سماک بن حرب کے بارے میں کہاہے : سماک بن حرب البکری کوفہ والوں میں سے ہے۔ ان سے الثوری اور شعبہ روایت کرتے ہیں، حماد بن سلمہ یہ کہتا تھا کہ سماک بن حرب نے کہا: میں نے نبیﷺ کے اسی ّ صحابہ کو پایا۔ سماک، ہشام بن عبد الملک کے دور میں جب کہ اس نے یوسف بن عمر کو عراق کا والی بنایا، وفات پا گیا۔ یہ سماک بن حرب بن اوس بن خالد بن نزار بن معاویہ بن عامر بن ذھل ہے۔
اسی طرح ابن شاہین اپنی کتاب "تاريخ أسماء الثقات" میں کہتےہیں کہ: سماک بن حرب (ثقہ )نے کہا: ہمیں عبداللہ بن محمد البغوی نے کہا: ہمیں محمد بن غیلان نے کہا: ہمیں مؤمل نے کہا وہ سلمہ سے وہ سماک بن حرب سے روایت کرتے ہیں کہ : میں نے نبیﷺ کے اسی ّ اصحاب کوپایا۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ سماک نے اسی صحابہ کو پایا یہ تعداد اتنی ہے کہ اگر عمر سے ان کی ملاقات نہ بھی ہوئی ہو تو کسی ایسے صحابی سے ضرورہوئی ہے جوعمر رضی اللہ عنہ سے نقل کرتا ہو اور یہ واضح ہے کہ کسی صحابی کا سند میں سے ساقط ہونے سے حدیث کی سند کی صحت پر کوئی اثرنہیں پڑتا۔

• اس کے ساتھ ابن سعد نے اس حوالے سے اور بھی روایات ذکر کی ہیں جن کے اندر سماک موجود نہیں، انہی روایات میں سے ایک روایت یہ ہے :
((قَالَ: أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى قَالَ: أَخْبَرَنَا إِسْرَائِيلَ بْنِ يُونُسَ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ قَالَ: شَهِدْتُ عُمَرَ يَوْمَ طُعِنَ... ثُمَّ قَالَ: ادْعُوا لِي عَلِيًّا وَعُثْمَانَ وَطَلْحَةَ وَالزُّبَيْرَ وَعَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَوْفٍ وَسَعْدًا... ثُمَّ قَالَ: ادْعُوا لِي صُهَيْبًا. فَدُعِيَ فَقَالَ: صَلِّ بِالنَّاسِ ثَلاثًا وَلْيَخْلُ هَؤُلاءِ الْقَوْمُ فِي بَيْتٍ فَإِذَا اجْتَمَعُوا عَلَى رَجُلٍ فَمَنْ خَالَفَهُمْ فَاضْرِبُوا رَأْسَهُ...)) "ہمیں عبید اللہ بن موسیٰ نے بتایا وہ کہتے ہیں، ہمیں اسرائیل بن یونس نے اسحاق سے عمرو بن میمون سے روایت کی وہ کہتے ہیں : جس دن عمر رضی اللہ عنہ کوزخمی کیا گیا میں اس کے پاس آیا ...پھرکہا : میرے لئے علی، عثمان، طلحہ، زبیر، عبدالرحمٰن بن عوف اور سعد کو بلا لاؤ...پھر کہا صہیب کو بلاؤ، وہ آیاتوان سے کہا کہ تین دن لوگوں کو آپ نماز پڑھائیں گے اور یہ لوگ کسی گھر میں یکسو ہو جائیں جب ان کا کسی آدمی پراتفاق ہو جائے تو جو کوئی ان کی مخالفت کرے اس کی گردن اُڑادو"۔
عمرو بن میمون نبیﷺ کے عہد مبارک میں مسلمان ہوئےتھے اور سو حج کئے تھے جبکہ ایک قول کے مطابق ستر حج کئے۔اس نے اپنی زکوٰۃ آپﷺ کو ادا کی، جیسا کہ اسد الغابہ میں ہے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ عمر رضی اللہ عنہ کے زخمی ہوجانے کے وقت موجودتھے۔
((قَالَ: أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ قَالَ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَى عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: أَرْسَلَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ إِلَى أَبِي طَلْحَةَ الأَنْصَارِيِّ قُبَيْلَ أَنْ يَمُوتَ بِسَاعَةٍ فَقَالَ: يَا أبا طلحة كن في خمسين من قومك مِنَ الأَنْصَارِ مَعَ هَؤُلاءِ النَّفَرِ أَصْحَابِ الشُّورَى فَإِنَّهُمْ فِيمَا أَحْسِبُ سَيَجْتَمِعُونَ فِي بَيْتِ أَحَدِهِمْ. فَقُمْ عَلَى ذَلِكَ الْبَابِ بِأَصْحَابِكَ فَلا تَتْرُكْ أَحَدًا يَدْخُلُ عَلَيْهِمْ وَلا تَتْرُكْهُمْ يمضي اليوم الثالث حتى يؤمروا أحدهم. اللهم أَنْتَ خَلِيفَتِي عَلَيْهِمْ)) "ہم سےمحمد بن عمرنے کہا: مجھے محمدبن موسی ٰ نے اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ سے انس بن مالک سے، اس نے کہا: عمر بن الخطاب نے ابو طلحہ انصاری کو اپنی وفات سے کچھ دیر پہلے پیغام بھیجوایا: اے ابو طلحہ تم اپنی انصار کی قوم میں سے پچاس آدمیوں یعنی اہل شوریٰ کے لوگوں کو ساتھ لے کر آؤ، میرا خیال ہے کہ یہ لوگ کسی گھر میں اکٹھے ہونے والے ہیں تو اپنے ساتھیوں کے ساتھ اس دروازے پر کھڑے ہو جانا، کسی کو اندر نہیں آنے دینا اور ان لوگوں کوتیسرے دن سے پہلے باہرنہ آنے دو یہاں تک کہ وہ کسی کو امیر منتخب کرلیں ۔ اے اللہ توہی میرے بعد ان کا نگہبان ہو"۔
((قَالَ: أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ قَالَ: حَدَّثَنِي مُوسَى بْنُ يَعْقُوبَ عَنْ أَبِي الْحُوَيْرِثِ قَالَ: قَالَ عُمَرُ فِيمَا أَوْصَى بِهِ: فَإِنْ قُبِضْتُ فَلْيُصَلِّ لَكُمْ صُهَيْبٌ. ثَلاثًا. ثُمَّ أَجْمِعُوا أَمْرَكُمْ فَبَايِعُوا أَحَدَكُمْ...)) "ہمیں محمد بن عمر نے بتایا وہ کہتے ہیں مجھے موسیٰ بن یعقوب نے ابو الحوریث سے بیان کیا اس نے کہا: حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی وصیت میں کہا کہ : اگر میری روح قبض کرلی جاتی ہے تو صہیب تمہیں تین دن جماعت کرائے، پھر سب اکٹھے ہو کر اپنے میں سے کسی ایک کوبیعت دیدو"۔
ان روایات سے واضح ہے کہ ابن سعد نے کئی روایات نقل کی ہیں، مگرمضمون والے نے اس روایت پرجس میں سماک ہے شبہ اٹھایا، باقی سب کو چھوڑ دیا۔ یہ ا س بات کی دلیل ہے کہ اسے حق تک رسائی کی کوئی فکر نہیں بلکہ اہل حق کو تشویش میں ڈالنا چاہتا ہے، اگرچہ وہ ایسا نہیں کر پائے گا۔

• اس سب کے علاوہ دیگر روایات بھی ہیں جو ابن شبّہ نے اپنی کتاب 'تاریخ المدينة ' میں محفوظ کیں ہیں۔ میں یہاں تین روایات نقل کرنے پر اکتفاء کرتا ہوں۔
((حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ الْعُلَيْمِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَوْلًى لِآلِ ابْنِ عَفَّانَ: أَنَّ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَمَرَ صُهَيْبًا أَنْ يُصَلِّيَ بِالنَّاسِ ثَلَاثًا، وَقَالَ: لَا يَأْتِينَّ عَلَيْكُمْ ثَالِثَةٌ، أَوْ لَا يَخْلُوَنَّ عَلَيْكُمْ ثَالِثَةٌ حَتَّى تُبَايِعُوا لِأَحَدِكُمْ، يَعْنِي أَهْلَ الشُّورَى، ثُمَّ اتَّقُوا اللَّهَ وَأَصْلِحُوا ذَاتَ بَيْنِكِمْ، وَلَا تُشَاقُّوا وَلَا تُنَازِعُوا وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالْأَمِيرَ۔۔۔)) "ابوبکر العُلیمی نے حدیث بیان کی ان کو النضر بن شمیل نے ان کو ابن المبارک نے ان سے آل ابن عفان کے آزاد کردہ ایک غلام نے کہ: عمر رضی اللہ عنہ نے صہیب کو حکم کیا کہ وہ تین دن لوگوں کونماز پڑھائے اور کہا کہ: تمہارے اوپرتیسری رات نہ آئے یا یہ کہا تمہارے اوپرتیسری رات ایسی نہ گزرے یہاں تک کہ تم کسی ایک شخص کو بیعت دیدو، یہ اہل شوریٰ سے کہا، پھر کہا کہ اللہ سے ڈرتے رہو اور آپس کے تعلقات اچھی طرح نبھاؤ، آپس میں اختلاف مت کرنا، ایک دوسرے کے ساتھ نزاع مت کرنا، اللہ، اس کے رسول اورامیر کی اطاعت کرو..."
((حَدَّثَنَا حَبَّانُ بْنُ بِشْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ يَحْيَى بْنِ طَلْحَةَ، عَنْ عِيسَى بْنِ طَلْحَةَ، وَعُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، قَالَا قَالَ: عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حِينَ طُعِنَ: لِيُصَلِّ بِكُمْ صُهَيْبٌ ثَلَاثًا، وَلْتُنْظِرُوا طَلْحَةَ، فَإِنْ جَاءَ إِلَى ذَلِكَ، وَإِلَّا فَانْظُرُوا فِي أَمْرِكُمْ، فَإِنَّ أُمَّةَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تُتْرَكُ فَوْقَ ثَلَاث سُدًى)) "ہمیں حبان بن بشیر نے روایت بیان کی، وہ کہتے ہمیں یحییٰ بن آدم نے ہمیں ابن ادریس نے طلحہ بن یحییٰ بن طلحہ سے، عیسیٰ بن طلحہ اور عروہ بن الزبیر سے، ان دونوں نے کہا کہ: حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے، جب ان کو زخمی کیا گیا، کہا : تمہیں صہیب تین دن نمازپڑھائے اور طلحہ کوغور و فکر کا موقع دیدو، اگر وہ آئے تو ٹھیک ہے ورنہ اپنے معاملے میں سوچو، کیونکہ امت محمدیہﷺ کو تین دن سے یوں ہی بے کار نہیں چھوڑا جاتا۔
((وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا نَافِعٌ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَخْبَرَهُ: أَنَّ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ غُسِّلَ وَكُفِّنَ وَصُلِّيَ عَلَيْهِ، وَكَانَ شَهِيدًا، وَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ :إِذَا مِتُّ فَتَرَبَّصُوا ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ، وَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ صُهَيْبٌ، وَلَا يَأْتِيَنَّ الْيَوْمُ الرَّابِعُ إِلَّا وَعَلَيْكُمْ أَمِيرٌ مِنْكُمْ، وَيَحْضُرُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ مُشِيرًا، وَلَا شَيْءَ لَهُ فِي الْأَمْرِ، وَطَلْحَةُ شَرِيكُكُمْ فِي الْأَمْرِ، فَإِنْ قَدِمَ فِي الْأَيَّامِ الثَّلَاثَةِ فَأَحْضِرُوهُ أَمْرَكُمْ، وَإِنْ مَضَتِ الْأَيَّامُ الثَّلَاثَةُ قَبْلَ قُدُومِهِ فَاقْضُوا أَمْرَكُمْ......وَقَالَ لِلْمِقْدَادِ بْنِ الْأَسْوَدِ :إِذَا وَضَعْتُمُونِي فِي حُفْرَتِي فَاجْمَعْ هَؤُلَاءِ الرَّهْطَ فِي بَيْتٍ حَتَّى يَخْتَارُوا رَجُلًا مِنْهُمْ ، وَقَالَ لِصُهَيْب :صَلِّ بِالنَّاسِ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ، وَأَدْخِلْ عَلِيًّا وَعُثْمَانَ وَالزُّبَيْرَ وَسَعْدًا وَعَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَوْفٍ وَطَلْحَةَ إِنْ قَدِمَ، وَأَحْضِرْ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، وَلَا شَيْءَ لَهُ مِنَ الْأَمْرِ، وَقُمْ عَلَى رُءُوسِهِمْ، فَإِنِ اجْتَمَعَ خَمْسَةٌ وَرَضُوا رَجُلًا وَأَبَى وَاحِدٌ فَاشْدَخْ رَأْسَهُ أَوِ اضْرِبْ رَأْسَهُ بِالسَّيْفِ، وَإِنِ اتَّفَقَ أَرْبَعَةٌ فَرَضُوا رَجُلًا مِنْهُمْ وَأَبَى اثْنَانِ فَاضْرِبْ رُءُوسُهُمَا، فَإِنْ رَضِيَ ثَلَاثَةٌ رَجُلًا مِنْهُمْ وَثَلَاثَةٌ رَجُلًا مِنْهُمْ فَحَكِّمُوا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، فَأَيُّ الْفَرِيقَيْنِ حَكَمَ لَهُ فَلْيَخْتَارُوا رَجُلًا مِنْهُمْ، فَإِنْ لَمْ يَرْضَوْا بِحُكْمِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ فَكُونُوا مَعَ الَّذِينَ فِيهِمْ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ وَاقْتُلُوا الْبَاقِينَ إِنْ رَغِبُوا عَمَّا اجْتَمَعَ عَلَيْهِ النَّاسُ...)) "ہمیں محمد نے حدیث بیان کی وہ کہتے ہیں ہمیں موسیٰ بن عقبہ نے ، ہمیں نافع نے بیان کیا کہ اسے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے بتایاکہ عمر رضی اللہ عنہ کی تجہیز و تکفین کی گئی، اس کی نماز جنازہ پڑھی گئی اسے شہید کیا گیا تھا، عمر رضی اللہ عنہ نے کہا تھا کہ: جب میں مر جاؤں تو تین دن انتظار کرو، صہیب لوگوں کوجماعت کرائے ، چوتھا دن ایسا نہ آئے کہ تمہارا امیر نہ ہو جو تم ہی میں سے ہو، عبداللہ بن عمر بطور مشیر آئے گا، اس کے علاوہ اس معاملے میں اس کاکوئی عمل دخل نہیں ہوگا،طلحہ اس میں شریک ہوگا اگر وہ ان تین دنوں کے اندر آیا تو اس کو اس میں شامل کر دو، اگر و ہ تین دن گزر جانے کے بعد آئے تو اپنے معاملے (امیر کے انتخاب ) کا خود فیصلہ کرو...اور مقداد بن الاسود سے کہا: جب تم لوگ مجھے اپنی قبر میں رکھ دو تواس جماعت کو کسی گھر میں اکٹھا کرو تاکہ وہ تم میں سے کسی کو چن لیں اورصہیب سے کہا: لوگوں کو تین دن نماز پڑھاؤ، علی، عثمان، زبیر، سعد اورعبدالرحمٰن بن عوف کو بلا لاؤ اور طلحہ کو بھی شامل کر لو اگر وہ آجائے، عبداللہ بن عمر کو ساتھ ملاؤ مگر ان کا حکومت کے معاملے میں کوئی عمل دخل نہیں ہوگا اور آپ ان کی نگرانی کریں، اگر (ان چھ میں سے) پانچ کا کسی ایک آدمی پر اتفاق ہو جائے اور ایک ان میں سے اختلاف کرے تو اس کا سر توڑ دو یا یہ کہا کہ اس کی گردن تلوارسے مار دو، اگر چار کا ایک شخص پر اتفاق ہو جائے دو اختلاف کریں تو ان دونوں کا سر مار دو، اگر تین آدمی ایک طرف ہوں اورتین دوسری طرف تو عبداللہ بن عمر کو حکم بناؤ وہ جس فریق کے بارے میں فیصلہ کرے تو وہ اپنے میں ایک آدمی کو منتخب کریں، اگر وہ عبداللہ بن عمر کے فیصلے سے ناخوش ہوں تو اس فریق کے ساتھ ہو جانا جس میں عبدالرحمٰن بن عوف ہو باقی حضرات اگر پھر بھی اختلاف کریں تو ان کو قتل کرو"۔

• پھر تین دن کی مہلت روایات میں مجمل ذکر کی گئی ہے، یعنی مخالف کے قتل کا ذکر نہیں،مثلاً "وہ لوگوں کوتین دن نماز پڑھائے " یا "تمہارے اوپر تیسری رات نہ آئے "، "کسی ایک کوبیعت کئے بغیرتیسرا دن نہیں گزرنا چاہئے "، "صہیب تین دن تمہیں نماز پڑھائے "، "ان پرتیسرا دن ایسا نہ گزرنے دے کہ وہ کسی کو اپنا امیر نہ بنا چکے ہوں"، "صہیب تمہیں تین دن نماز پڑھائے پھر تم سب اکٹھے ہو کر کسی ایک کو بیعت دیدو" جب کہ کچھ روایات مخالف کے قتل کے بارے میں تفصیلات بتاتی ہیں جیسے "لوگوں کوتین دن نماز پڑھاؤ ...جب وہ کسی آدمی کوچن لیں تو جو اختلاف کرے اس کو قتل کر دو"...وغیرہ ۔
اس سے پتہ چلا کہ مخالف کے قتل کے حوالے سے کچھ روایات مجمل ہیں کچھ مفصل، اب کیاوجہ ہے کہ مضمون والے نے صرف قتل کی روایات پر توجہ مرکوز کئے رکھی اورجن روایات میں قتل کا ذکر نہیں ان کو چھوڑ دیا؟ وہ یہی چاہتا ہے کہ قتل کے موضوع کو اچھالے تاکہ اس کی رائے کو ایک جذباتی قبولیت ملے، تاہم مخالف کے قتل کے بارے میں عمر رضی اللہ عنہ کی بات بہت زیادہ لوگوں کی موجود گی میں کی گئی جو اس بات کی دلیل ہے کہ تین دن انتہائی اہمیت کا حامل امرہے۔

• اس بنا پر مضمون لکھنے والا اور اس کا ٹولہ جیسا کہ لگتا ہے، ان کا مقصد حق کو پہچاننا اور اس پرعمل کرنا نہیں بلکہ یہ کہ اہل حق کے درمیان انتشار پھیلایا جائے اور اس عظیم فرض کی ادائیگی میں، جس کو صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے رسول اللہﷺ کی تدفین پرمقدم کیا، اپنی کوتاہی اور بزدلی کیلئے ایک بہانہ تراش لیں ۔
مضمون کے آخر میں یہ جو کہا ہے کہ "یہ کس طرح ممکن ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ کبار صحابہ کو قتل کر دینے کا حکم کریں...اورکیسے ممکن ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ ایسی بات کریں حالانکہ وہ جانتے تھے کہ یہ لوگ نبی کریمﷺ کے چیدہ صحابہ ہیں" وغیرہ وغیرہ۔۔۔ توبھئی احکام شرعیہ دلائل سے اخذ کئے جاتے ہیں نہ کہ اپنی خواہش یا فرضی باتوں سے۔
جو شخص ہماری پیش کردہ باتوں میں غور و فکر کرے گا، اس کوسمجھے گا تو وہ حق کا راستہ پا لے گا، انشاء اللہ۔ اور جو اپنے تکبر کی وجہ سے غلطی پر جما رہے اور یہی کہتا رہے کہ میں تونہیں سمجھا اور اس طرح کے مضمون لکھتا رہے تو ایسے آدمی کو جواب دینا عبث ہے اسے اس سے کچھ بھی فائدہ نہیں ہوگا، اس کو اللہ کے سپرد کریں گے،اللہ عزّوجل ہی سیدھے راستے کی طرف ہدایت کرتاہے۔
آپ کا بھائی
عطاء بن خلیل ابوالرشتہ
15شعبان 1434ھ
24جون 2013م


خطے میں امریکی راج کو مستحکم کرنا اللہ، اس کے رسول ﷺ اور ایمان والوں سے خیانت ہے

تحریر: شہزاد شیخ
(پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان)
تاریخ:17جنوری 2014
خبر: 10 جنوری 2014 بروز جمعرات، کراچی میں ایک پولیس آفیسر چوہدری اسلم کو ایک بم دھماکے میں قتل کردیا گیا۔ اس پولیس آفیسر نے پچھلے چند سالوں میں کراچی میں کئی مبینہ قبائلی عسکریت پسندوں کو گرفتار کرنے اور ان میں سے چند ایک کو پولیس مقابلوں میں مارنے کے حوالے سے کافی شہرت حاصل کی تھی۔اس قتل کے فوراً بعد راحیل-نواز حکومت کے چمچوں نے اس پولیس آفیسر کو "شہید" قرار دے دیا اور قبائلی عسکریت پسندوں کے خلاف فیصلہ کن آپریشن کی بحث شروع کردی گئی۔ اس کے ساتھ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار فوج کے سربراہ نے ایک پولیس آفیسر کے قتل پر تعزیتی پیغام جاری کیا اور اس کی قبر پر فوج کے سربراہ کی جانب سے پھولوں کی چادر چڑھائی گئی۔

تبصرہ: کراچی میں 2000 سے لے کر اب تک کئی پولیس افسران کو قتل کیا جاچکا ہے۔ ان قتل کیے جانے والے پولیس افسران میں اکثریت ان کی ہے جنھوں نے نوے کی دہائی میں ایک سیاسی جماعت کے خلاف آپریشن میں کلیدی کردار ادا کیا تھا، لیکن آج تک ان میں سے کسی پولیس آفیسر کے قتل کے خلاف حکومتی گماشتوں نے نہ تو انھیں شہید قرار دیا، نہ ان کے قاتلوں کے خلاف کسی بھر پور آپریشن کی بحث شروع کی اور نہ ہی فوج کے سربراہ کی جانب سے باضابطہ طور پر آئی.ایس.پی.آر کی جانب سے تعزیتی پیغام جاری کیا گیا۔ چوہدری اسلم کے قتل کے بعد جس طرح کراچی میں سوات طرز کے فوجی آپریشن کی بحث شروع کی گئی ہے وہ اس بات کی نشان دہی کرتی ہے کہ اس قتل کا مقصد نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ کو پاکستان کے شہروں تک پھیلانے کے لیے رائے عامہ ہموار کرنا ہے۔
جب سے امریکی ہدایت پر حکومت اور قبائلی عسکریت پسندوں کے درمیان مذاکرات کا اعلان ہوا ہے فوج، پولیس، سیاست دانوں اور شہری و فوجی تنصیبات پر حملوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔ قبائلی علاقوں کے مسلمانوں سے مذاکرات کا مقصد پاکستان میں امن کا قیام قطعاً نہیں ہے بلکہ افغانستان سے محدود امریکی انخلاء کے منصوبے پر قبائلی مسلمانوں کو قائل کرنے کے لیے مجبور کرنا ہے۔ اس مقصد میں امریکہ کو کامیاب کروانے کے لیے، راحیل-نواز حکومت ایک طرف تو مختلف سیاسی، مذہبی اور سابق فوجی شخصیات کو قبائلی مسلمانوں کے پاس بھیج رہی ہے جو بظاہر امریکہ مخالف ہونے کی شہرت رکھتے ہیں تا کہ انھیں امریکی منصوبے پر قائل کرنے کی کاشش کریں جبکہ دوسری جانب راحیل-نواز حکومت نے ایسے عناصر کو کھلی چھوٹ فراہم کررکھی ہے جو ریمنڈ ڈیوس نیٹ ورک کے ساتھ مل کر کام کرسکیں اور وہ فوجی و شہری تنصیبات پر حملے کرسکیں تا کہ اگر قبائلی مسلمان امریکی منصوبے کو قبول کرنے سے انکار کریں تو ان کے خلاف فوجی آپریشن شروع کرنے کے لیےدرکار عوامی رائے عامہ پہلے سے ہی موجود ہو۔
دشمن امریکہ کے ساتھ کسی بھی قسم کے مذاکرات اللہ، اس کے رسولﷺ اور ایمان والوں کے ساتھ خیانت ہے۔ افواج پاکستان کے مخلص افسران پر فرض ہے کہ وہ اس شیطانی سازش کو ناکام بنائیں اور اللہ، اس کے رسول ﷺ اور مسلمانوں سے وفاداری کو ثابت کرنے کے لیے خلافت کے قیام کے لیے بیعت دیں۔ ربیع الاول کے اس بابرکت مہینے میں مدینہ کے انصار نے پہلی اسلامی ریاست قائم کی تھی تو کیا ہی خوش نصیب ہوں گے آج کے انصار جن کے ہاتھوں دوسری اسلامی ریاست قائم ہوگی اور رسول اللہ ﷺ کی بشارت ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةً عَلَى مِنْهَاجِ "پھر خلافت قائم ہو گی نبوت کے طریقے پر" پوری ہو گی اور یقیناً اللہ کے لیے یہ بالکل بھی مشکل نہیں۔

 

Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک