الخميس، 24 صَفر 1446| 2024/08/29
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية
Super User

Super User

سی۔این۔جی کی مصنوعی قلت عوام کے ساتھ جمہوریت کا انتقام ہے خلافت امت کو توانائی کی مصنوعی قلت سے نجات دلائے گی

عوام جوپہلے ہی کئی بحرانوں کا سامنا کر رہے تھے ان پر اب سی۔این۔جی کی مصنوعی قلت کا بحران بھی تھونپ دیا گیا ہے۔ لوگوں کو گھنٹوں تک گاڑی میں گیس بھروانے کے لیے لائنوں میں کھڑا رہنے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔ لیکن اس مصنوعی بحران کو ختم کرنے کے بجائے عوام کو اس عذاب سے نکلنے کے لیے یہ مشورہ دیا جا رہا ہے کہ وہ مہنگی درآمدی ایل۔پی۔جی اور پیٹرول پر منتقل ہو جائیں یا مہنگی سی۔این۔جی خریدنے پر تیار ہو جائیں۔ تقریباً ایک عشرے قبل حکومت کی جانب سے سی۔این۔جی کو یہ کہہ کر متعارف کرایا گیا تھا کہ یہ ایک ملکی خزانہ ہے جس کے استعمال سے نہ صرف مہنگے درآمدی پیٹرول اور ڈیزل کے استعمال میں کمی آئے گی اور قیمتی زرمبادلہ کی بچت ہو گی بلکہ سستا ایندھن ہونے کی وجہ سے مہنگائی میں کمی واقع ہو گی، عوام کی قوت خرید میں اضافہ ہو گا اور اس کے ساتھ ساتھ صاف ایندھن ہونے کی بنا پر ماحولیاتی آلودگی کو بھی کم کرنے میں مدد ملے گی۔ کیا ان تمام سالوں میں کسی حکمران کو یہ نہیں معلوم تھا کہ ملک میں گیس کے ذخائر اس قدر موجود نہیں کہ گھریلو و صنعتی صارفین اور بجلی کے کارخانوں کی ضرورت کو پورا کرنے کے بعد ٹرانسپورٹ کی ضروریات کو پورانہیں کیا جا سکتا۔ درحقیقت یہ حکمران جھوٹ بول رہے ہیں۔

ملک میں توانائی کی کوئی حقیقی قلت موجود نہیں ہے جس کا ثبوت ملک میں جاری بدترین لوڈشیڈنگ میں پچھلے دو ماہ میں اچانک حیرت انگیز کمی ہے کہ کہاں شہروں میں دن میں بارہ بارہ گھنٹوں کی لوڈشیدنگ ہو رہی تھی جو اب گھٹ کر ایک یا دو گھنٹے رہ گئی ہے۔ اسی طرح سے ملک میں گیس کی بھی کوئی قلت نہیں ہے۔ 2 اکتوبر 2012 کو مشیر پیٹرولیم و قدرتی وسائل ڈاکٹرعاصم حسین نے اس بات کا اعتراف کیا کہ تیل و گیس کی کئی کمپنیوں نے پچھلے چند سالوں کے دوران گیس کے ذخائر دریافت کرنے کے باوجود نئے ذخائر کی دریافت کا اعلان نہیں کیا تھا کیونکہ انھیں اس کی کم قیمت مل رہی تھی۔ اور جب وزیر پیٹرولیم سے یہ پوچھا گیا کہ ان کمپنیوں کے خلاف کاروائی کیوں نہیں کی گئی تو ان کا جواب تھا کہ ان کمپنیوں کو سزا دینے کے بجائے حکومت کو حقیقت پسند ہونا چاہیے۔ لیکن پیٹرولیم پالیسی 2012 کے اعلان کے بعد یہ کمپنیاں نئے دریافت شدہ ذخائر سے نئی قیمتوں پر گیس کی پیداوار دینے کے لیے تیار ہو گئیں ہیں۔ اس ظالم حکومت نے 2012 کی پیٹرولیم پالیسی میں نئے دریافت ہونے والے ذخائر سے حاصل ہونے والی گیس کی قیمت 3.24 ڈالر MMBTU سے بڑھا کر 6 ڈالر MMBTU کر دی ہے۔ OGDCL (آئل اینڈ گیس ڈیولپمنٹ کارپوریشن لمیٹڈ)، جس کا پاکستان کی تیل کی پیداوار میں حصہ 58 فیصد اور گیس کی پیداوار میں 27 فیصد حصہ ہے، نے مالیاتی سال 2011-12 میں بعد از ٹیکس 91 ارب روپے کا خالص منافع کمایا ہے۔ اگر صرف ایک کمپنی کا ایک سال کا منافع اس قدر زیادہ ہے تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ باقی کمپنیاں بھی سالانہ اربوں روپے کما رہی ہیں اور اب نئی قیمتوں کے اطلاق کے بعد ان کے منافع میں مزید کئی گنا اضافہ ہو جائے گا۔ یہ ہے جمہوریت کا کمال جو انسانی اور ملکی ضرورت کی ایک انتہائی اہم چیز کی پیداوار صرف اس لیے نہیں لے رہی تھی کیونکہ چند کمپنیوں کو ان کی مرضی کا منافع حاصل نہیں ہو رہا تھا۔ اور اب ایک بار پھر گیس کی مصنوعی قلت کا یہ مجرمانہ اور ظالمانہ فعل اختیار کیا گیا جس کے نتیجے میں ہزاروں صنعتیں ہفتوں کے لیے بند ہیں، لاکھوں مزدور بے روزگاری کا شکار ہو کر فاقوں پر مجبور ہیں اور ملکی معیشت کو اس کے نتیجے میں کھربوں روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑے گا۔ اس کے علاوہ حکمرانوں کے مجرم ہونے کا ایک اور بڑا ثبوت سالوں گزر جانے کے باوجود تھر کے کوئلے کے عظیم ذخائر سے فائدہ نہ اٹھا نا ہے۔ مشیر پیٹرولیم کا بیان اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ جمہوریت اور آمریت دونوں صورتوں میں سرمایہ دارانہ نظام ہی نافذ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ اور استعماری طاقتیں مسلم ممالک میں آمر اور جمہوری دونوں طرح کے حکمرانوں کی حمائت کرتے ہیں کیونکہ دونوں صورتوں میں حکمران امریکہ اور مغربی طاقتوں کی مرضی کے مطابق پالیسیاں بناتے ہیں۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا کے کئی ممالک زبردست قدرتی وسائل رکھنے کے باوجود ان ممالک کے عوام غربت کی دلدل میں دھنسے ہوتے ہیں جبکہ ملٹی نیشنل کمپنیاں اور حکمران اس دولت سے اپنی تجوریاں بھر رہے ہوتے ہیں کیونکہ آمریت اور جمہوریت میں تیل، گیس اور معدنی وسائل کو آزاد معیشت کے نام پر نجی ملکیت میں دے دیا جاتا ہے۔

صرف خلافت ہی امت مسلمہ اور انسانیت کو اس ظلم سے نجات دلائے گی کیونکہ اسلام نے قانون سازی کا حق انسانوں سے لے کر ہمیشہ کے لیے کرپشن کے اس دروازے کو بند کر دیا ہے۔ اسلام تیل، گیس اور تمام معدنی وسائل کو امت کی ملکیت قرار دیتا ہے اس لیے خلافت ان وسائل پر نفع نہیں کمائے گی اور ان وسائل کو امت تک ان پر آنے والی لاگت کی قیمت پر پہنچائے گی۔ نبی ﷺ نے فرمایا:

((المسلمون شرکاء ف ثلاث ف الماء والکل والنارو ثمنہ حرام))''

"تمام مسلمان تین چیزوں میں برابرکے شریک ہیں: آبی ذخائر، چراگاہیں یا جنگلات اور آگ (توانائی کے وسائل)۔ اور اِن کی قیمت حرام ہے" (داود)۔

اسلام کے صرف اس ایک حکم کے نفاذ سے کھربوں روپے کا منافع جو اس وقت حکمرانوں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کی تجوریوں میں جا رہا ہے اس کا رخ عوام کی جانب مڑ جائے گا، امت کو سستی اور وافر توانائی کے وسائل میسر ہوں گے اور سستی توانائی کی بدولت صنعتیں زبردست ترقی کریں گی۔ حزب التحریر امت سے پوچھتی ہے اگر انتخابات کے بعد نئے چہروں پر مشتمل نئی حکومت نے بھی توانائی کے وسائل کی نجکاری کا سلسلہ جاری رکھا تو کیا ان کی زندگی میں کوئی تبدیلی آئے گی۔ نئی آنے والی حکومت بھی موجودہ حکومت کی طرح توانائی کے بحران کی ذمہ دار پچھلی حکومت کو قرار دیتی رہے گی جبکہ حقیقت میں اصل مسئلہ جمہوریت ہے جس میں انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین نافذ ہوتے ہیں۔ جمہوریت میں ایماندار حکمران بھی اسلام کو نہیں بلکہ انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین یعنی سرمایہ داریت کو ہی نافذ کرتا ہے۔ لہذا امت انسانوں کے بنائے ہوئے کفریہ جمہوری نظام کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہوئے قرآن و سنت کے نظام یعنی خلافت کے قیام کے ذریعے اس ظلم کے نظام کے خاتمے میں حزب التحریر کا ساتھ دیں اور اس نعرے کو بلند کریں "نئے چہرے، نیا نظام - حزب التحریر اور خلافت کا نظام"۔

پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان

شہزاد شیخ

خلافت کے داعی کے لیے جیل جبکہ امریکی جاسوس اور قاتل کے لیے رہائی پاکستان میں حزب التحریر کی مرکزی رابطہ کمیٹی کے سربراہ کو کوٹ لکھپت جیل منتقل کر دیا گیا

پاکستان میں حزب التحریر کی مرکزی رابطہ کمیٹی کے سربراہ سعد جگرانوی کو کوٹ لکھپت جیل لاہور منتقل کر دیا گیا ہے۔ سعد جگرانوی کا قصور یہ ہے کہ وہ پاکستان میں اسلام کے مکمل نفاذ اور خلافت کے قیام کے لیے پر امن سیاسی جدوجہد کرتے ہیں۔ یہ انتہائی افسوس اور شرم کا مقام ہے کہ جو ملک اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا اور جس کے لیے لاکھوں مسلمانوں نے اپنی جانو ں کا نظرانہ پیش کیا آج اسی ملک میں اسلام کے مکمل نفاذ کے لیے پرامن سیاسی جدوجہد کرنے والے مخلص سیاست دان، پاکستان میں حزب التحریر کے ترجمان نوید بٹ کو کیانی کے غنڈوں کے ہاتھوں اغوا ہوئے چھ ماہ سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے اور پاکستان میں حزب التحریر کی مرکزی رابطہ کمیٹی کے سربراہ سعد جگرانوی کے خلاف دہشت گردی اور بغاوت کے مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ اب سعد جگرانوی کو ان الزامات کی بنا پر کوٹ لکھپت جیل، لاہور منتقل کر دیا گیا ہے۔ یہ وہی جیل ہے جہاں ایک امریکی جاسوس اور تین پاکستانیوں کے قاتل ریمنڈ ڈیوس کو بھی چند دنوں کے لیے رکھا گیا تھا۔ لیکن سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غدار زرداری اور کیانی نے ریمنڈڈیوس کو مقدمہ ختم کروا کر بحفاظت ملک سے باہر بھجوا دیا تھا جبکہ خلافت کے قیام کے لیے نبوت ﷺ کے طریقے پر چلتے ہوئے پرامن سیاسی جدوجہد کرنے والے سعد جگرانوی پر چار بے بنیاد اور جھوٹے مقدمات ڈال دیے گئے ہیں تا کہ وہ ایک لمبے عرصے تک جیل سے باہر نہ نکل سکے۔ ریمنڈ ڈیوس کو مختصر قید کے دوران فائیو سٹار ہوٹلوں والی سہولیات فراہم کی گئیں جبکہ اسلام کے نفاذ کی جدوجہد کرنے والے سعد جگرانوی کو دوران تفتیش ذہنی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

زرداری، کیانی اور ان کے ساتھی غداروں کا ٹولہ یہ جان لے کہ انھوں نے اسلام اور مسلمانوں کے دشمن امریکہ کی غلامی اور چاکری قبول کر کے دنیا اور آخرت کی بربادی کو اپنے لیے مقدر بنا لیا ہے۔ بن علی، قذافی اور حسنی مبارک دنیا میں امت کے غم و غصہ کا نشانہ بن چکے ہیں اور جلد ہی تم شام کے کذاب بشار کے خاتمے کی خبر سنوں گے۔ زرداری، کیانی اور ان کے ساتھی غدار یہ جان لیں کہ ان کی مہلت کا بھی جلد ہی خاتمہ ہونے والا ہے اور اس حقیقت کو ان کا آقا امریکہ بھی اچھی طرح جانتا ہے ۔تمھارا حزب کے شباب کا پیچھا کرنا، انھیں گرفتار کرنا، انھیں تشدد کا نشانہ بنانا کسی صورت خلافت کے قیام کو روک نہیں سکتا کیونکہ یہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا وعدہ ہے۔

حزب التحریر افواج پاکستان میں موجود مخلص افسران سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ کشمیر، فلسطین، افغانستان اور خصوصاً شامی مسلمانوں کے عزم و استقلال سے تحریک حاصل کریں اور آگے بڑھیں، سیاسی و فوجی قیادت میں موجود امریکی ایجنٹوں اور امت کے غداروں کو اکھاڑ پھینکیں، خلافت کے قیام کے لیے حزب التحریر کو نصرة فراہم کریں اور دنیا و آخرت کی عزت اور سربلندی کو اپنے نام کر لیں۔

نوٹ:میڈیا میں موجود محترم بھائی سعد جگرانوی سے انٹرویو کے لیے سینٹرل جیل کوٹ لکھپت ،لاہور،پاکستان میں رابطہ کرسکتے ہیں۔ کوٹ لکھپت جیل کا فون نمبر 99262159-(042)(0092)-ہے۔

پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان

شہزاد شیخ

پاکستان میں امریکی جنگ کو ہوا دینے والوں پر مقدمہ چلایا جانا چاہیے لال مسجد آپریشن دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کا ہی حصہ تھا

سپریم کورٹ آف پاکستان نے لال مسجد پر حملے اور اس دوران ہونے والی اموات کے ذمہ داروں کے تعین کے لیے ایک عدالتی کمیشن بنانے کا اعلان کیا ہے۔ عدالت نے اس بات کو جاننے کے باوجود کہ اس وقت کے آئی۔ایس۔آئی کے سربراہ اور موجود آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے اپنے سابقہ سربراہ جنرل پرویز مشرف کے حکم پر لال مسجد سانحہ میں ایک اہم کردار ادا کیا تھا، اس کمیشن کے قیام کا حکم جاری کیا ہے۔ امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے کردار کے حوالے سے لال مسجد آپریشن ایک اہم موڑ تھا۔ سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں نے اس سانحہ کے بعد قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشنز شروع کیے اور پاکستان آرمی کو فتنے کی اس جنگ میں ملوث کیا۔ جس ظالمانہ طریقے سے یہ آپریشن کیا گیا اس نے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں غصے اور نفرت کی آگ لگا دی اور اس آپریشن نے سوات اور اور پھر فاٹا میں امریکی فتنے کی جنگ کو بھڑکانے میں اہم کردار ادا کیا۔

لال مسجد آپریشن کے فوراً بعد مشرف نے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں فوجیوں کی تعداد بڑھانے کا حکم دیا جس کے نتیجے میں ان علاقوں میں کشیدگی بڑھ گئی اور بڑے فوجی آپریشنز کرنے کی راہ ہموارکی گئی۔ 12 جولائی 2007 کو جنوبی اور وسطی ایشیائی امور کے لیے امریکہ کے اسسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ رچرڈ بائوچر نے لال مسجد آپریشن پر مشرف کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا: "یہ پاکستان کے مستقبل کا ویژن (vision) ہے، جو مشرف نے بیان کیا اور جو مشرف کے شمالی علاقوں میں طالبانائزیشن کے خاتمے اور شہری علاقوں جیسا کہ لال مسجد میں انتہاء پسندی کے خاتمے کے عزم کے اعادے سے ظاہر ہے۔ یہ امریکہ کے بہترین قومی مفاد میں ہے کہ پاکستان مستقبل کے اس ویژن (vision) کو پورا کرنے میں کامیاب رہے"۔

مشرف کے جانے کے بعد جنرل کیانی نے رچرڈ باؤچر کے ویژن کو آگے بڑھانے کی ذمہ داری اٹھالی اور پاکستان کی افواج کو سوات میں اپنے مسلمان بھائیوں کے خلاف آپریشن پر مجبور کیا جس کے نتیجے میں پاکستان کے قیام کے بعد سب سے بڑی اندرونِ ملک ہجرت کا واقع پیش آیا جس میں تقریباً چالیس لاکھ لوگوں کو اپنا گھر بار چھوڑنا پڑا۔ اس آپریشن کے بعد سے اب تک ہزاروں فوجی اور شہری اس جنگ کی نذر ہو چکے ہیں، وہ جنگ جس کو امریکی ڈالروں سے لڑا جا رہا ہے اور جس کا مقصد خطے میں امریکی مفادات کو پورا کرنا ہے۔ جس وقت سپریم کورٹ نے عدالتی کمیشن کے قیام کا حکم نامہ جاری کیا اس وقت بھی جنرل کیانی اور وزیر خارجہ حنا ربانی کھر براسلز میں اپنے مغربی آقاوں کو اپنی وفاداری اور رچرڈ باؤچر کے پاکستان سے متعلق ویژن کو جاری و ساری رکھنے کی یقین دہانی کرا رہے تھے۔

یہ ہے امریکہ کا پاکستان کے لیے ویژن جس کو پوری قوت سے امریکہ کے غلام جنرل مشرف نے نافذ کیا تھا اور اس کے جانے کے بعد پاکستان میں امریکی مفادات کا محافظ جنرل کیانی مسلسل اس ویژن کو نافذ کر رہا ہے۔ حزب التحریر پاکستان کے لیے ایک متباد ل ویژن رکھتی ہے اور اس بات کی طرف دعوت دیتی ہے کہ پاکستان کی فوج خطے میں امریکی مفادات کے تحفظ کے لیے نہیں بلکہ صرف اور صرف پاکستان کے عوام کے تحفظ کے لیے لڑے گی۔ ایک ایسے پاکستان کا ویژن جس کی فوج پشتون علاقوں میں اپنے بھائیوں کے ساتھ مل کر امریکہ کو خطے سے نکال باہر کرے گئی اور افغانستان، پاکستان اور وسطی ایشیأ کو ایک ریاست میں شامل کر کے دوسری خلافت راشدہ کو قائم کرے گی۔ وہ خلافت جو کشمیر کو ہندو ریاست سے آزادی دلوائے گی، اپنے شہریوں پر اسلام کو نافذکرے گی اور مسلم علاقوں کے وسائل کو اپنے شہریوں کے مفادات کو پورا کرنے کے لیے یکجا اور انھیں استعمال کرے گی۔ اے اہل قوت! ہم آپ سے پوچھتے ہیں آپ کس ویژن کی حمائت کرتے ہیں؟ جنرل کیانی کے ویژن کی یا پھر حزب التحریر کے ویژن کی؟

میڈیا آفس حزب التحریر ولایہ پاکستان

Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک