سوال کا جواب نائیجیریا میں انتخابات موخر کرنے کے حوالے سے
- Published in امیر حزب التحریر
- سب سے پہلے تبصرہ کرنے والے بنیں
سوال :
نائیجیریا میں الیکشن کمیشن نے 8 فروری 2015 کو صدارتی اور قانون ساز اسمبلی کے انتخابات کو اندرونی امن و امان کی صورت حال کی خرابی کے بہانے 28 مارچ تک موخر کر دیا گیا جو 14 فروری کو ہونے والے تھے۔ کیا بات ایسی ہی ہے ؟ یا اس تاخیر کے بین الاقوامی اسباب ہیں ؟ اگر یہ بات ہے تو اس تاخیر پر اثر انداز ہونے والے ممالک کون ہیں؟ ان انتخابات کے بارے میں اب کیا توقع ہے ؟
میرا یہ مشاہدہ ہے کہ حزب کے مطبوعات تقریباً نئیجیریا کے مسائل سے خالی ہیں حالانکہ یہ آبادی کے لحاظ سے افریقہ میں سب سے بڑا اسلامی ملک ہے ، جو سمندر تک پھیلا ہوا ہے،یہ تیل سے بھی مالا مال ہے، اس کو اہمیت کیوں نہیں دی جاتی ہے ؟ میں معذرت چاہتا ہوں کہ سوال کرنا اگرچہ میرا حق ہے مگر شاید نوٹ لکھنے کا حق نہیں تھا ۔۔۔اللہ آپ کو بہترین جزاء دے۔
جواب :
پہلے : میں ملاحظہ سے شروع کر تا ہوں اور یہ کہتا ہوں :
اللہ آپ کے اس ادب میں اضافہ فرمائے ، آپ ایک ایسے امر پر بھی معذرت کر رہے ہو جو تمہارا حق ہے اور یہی ادب کا حسن ہے۔۔۔
رہی بات نئیجیریا کو اہمیت دینے کی تو یہ اللہ کے اذن ہونے والا ہے اطمینان رکھئیے ، آپ نے جو کچھ کہا ہمیں اس کا ادراک ہے ،اس کے علاوہ بھی ہمیں کئی امور کا ادراک ہے اور ہم اس پر احسن انداز سے گامزن ہیں، اللہ سبحانہ وتعالٰی ہی توفیق دینے والا ہے۔۔۔
جہاں تک مطبوعات کا تعلق ہے تو اس میں ہم بعض پہلوں اور ترجیحات کی رعایت رکھتے ہیں۔۔۔اس کے باوجود ہم نے ایک سے زیادہ بار نئیجیریا کے بارے میں مواد شائع کیا ہے،مثال کے طور :
۔پر13 مارچ 2009 ہم نے ایک سوال کا جواب شائع کیا جو یہ تھا کہ" کیا نئیجیریا میں اسلام کے آنے کے بارے میں کچھ تاریخی معلومات ہیں اور اس کے بعد وہاں کیسے حکمرانی کی گئی ؟ پھر یہ بھی کہ نئیجیریا میں سیاسی صورت حال کیسی ہے ؟"۔
۔20 جنوری 2012 کو ہم نے شباب کے لیے معلومات "بوکو حرام" گروپ اور نئیجیریا میں اسلام کے خلاف وحشیانہ جنگ " شائع کیا ۔
۔21 اگست 2012 کو ہم نے ایک سوال کا جواب شائع کیا " گزشتہ دنوں میں نئیجیریا اور کینیا کی صورت حال،کچھ واقعات اور کشمکش نے ان کے متعلق مشاہدہ کرنے والوں کو چونکا دیا ۔۔۔کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ امریکہ یا برطانیہ یا کوئی اور طاقت افریقہ کے طول و عرض میں خانہ جنگی کو ہوا دینے کی نئی پالیسی پر گامزن ہے خصوصاً نئیجیریا میں اور 2007 کے عام انتخابات کے بعدکینیا میں یا یہ کہ ان واقعات کا تعلق اندرونی عوامل سے ہیں؟"۔
۔یہ ایک تفصیلی جواب تھا جس میں ہم نے جو ناتھن اور ان کو 2011 صدر منتخب کرنے کا ذکر ہے ،اس جواب میں تھا کہ ، "اوبا سانجو ملک میں سب سے بڑا امریکی ایجنٹ ہے۔یہ نئیجیریا میں امریکی بالادستی کے تسلسل کی ضمانت دینے اور برطانوی اثر ورسوخ کو زائل کرنے کے بارے میں ذمہ دار ہے۔ اوباسانجو ہی نے جو ناتھن کو 2007 کے صدارتی انتخابات میں صدر عمر کے نائب کے طور پر منتخب کیا۔ گڈلک جوناتھن کے شخصی فائل میں ہے جس کا ذکر بی بی سی ریڈیو نے کیا کہ "جناب جو ناتھن گورنر بن گئے اور اس کے دو سال بعد ہی او سیجو اوبا سانجو ان کو 2007 کے صدارتی انتخابات میں نئیجیریا کا نائب صدر نامزد کیا " ( گڈلک جو ناتھن کا شخصی فائل : بی بی سی نیوز آن لائن 18 اپریل 2011)۔اس کے کچھ عرصہ بعد اوبا سانجو نے نے جو ناتھن کو صدر کے منصب تک پہنچانے کا بندو بست کیا جیسا کہ الطلیعہ (ڈان) اخبار نے کہا ہے کہ جو ناتھن کو صدارتی منصب تک پہنچانے میں اوباسانجو کا بنیادی کردار ہے ،اخبار نے کہا کہ "جب یارادوا صدارتی مدت میں جو کہ چار سال ہے کے تقریبا دوسال میں ہی بیمار ہو گیا اور اپنی صحتیابی سے نا امید ہو گیا تو اوباسانجو نے پہلی بار سعودی ہسپتال میں ان کی عیادت کے لیے گیا اور واپس آتے ہی گڈ لک جو ناتھن کے نائب صدر کے طور پر حلف برداری کی مہم میں منہمک ہو گیا تاکہ وہ نائب صدر کے طور پر صدر کا قائم مقام بن جائے کیونکہ صدر یارادوا نے ملک سے باہر جاتے وقت کسی کو اپنا نائب مقرر نہیں کیا تھا (کلیفور : اوباسانجو کا استعفی : جوناتھن کی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے بعد کیا ہو گا ؟" اخبار الطلیعہ آن لائن 4 اپریل 2012 )۔
اس طرح امریکہ 2011 کے صدرتی انتخابات میں جو ناتھن کے لیے وسیع مینڈیٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا ، کیونکہ جوناتھن نئیجیریا کی عوام تک پہنچنے کے لیے سوشل میڈیا کے ذرائع کو استعمال کیا اور77.7فیصد ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا ۔ یہ نتائج عمر یارادوا کے ووٹ کے مقابلے میں زیادہ تھے ۔۔۔") ختم شد
یوں ہم نے نئیجیریا کے بارے مختلف مواقع پر مطبوعات شائع کیں ۔۔۔اگر چہ یہ اشاعت دوسرے بعض علاقوں کے بارے میں کی جانے والی اشاعت سے کم ہیں لیکن جیسا کہ پہلے میں نے کہا کہ ہم "بعض پہلووں اور ترجیحات کی رعایت کر تے ہیں۔۔۔" ۔
بہر حال اللہ آپ کے اہتمام اور جستجو پر آپ کو بہترین جزا دے آپ کو توفیق دے اور مدد کرے ۔
دوسرا : انتخابات کی تاخیر کے بارے میں آپ کے سوال کا جواب :
جواب کی وضاحت کے لیے میں مندجہ ذیل امور کا ذکر کروں گا :
1 ۔ حال ہی میں امریکہ نے نئیجیریا میں اپنی بالادستی کو مضبوط کرنے کے منصوبے کا اعلان کر دیا ؛ جیسا کہ نیو یارک ٹائمز نے 7 جون 2014 کو خبر دی کہ "امریکہ نے نئیجیریا کے شمال میں ایک ٹی وی چینل کھولنے کا فیصلہ کر لیا ہے جس کو امریکہ براہ راست فنڈز دے گا اور یہ چینل 24 گھنٹے نشریات نشر کرے گا ،اس کا مقصد بوکو حرام اور دوسری سخت گیر اسلامی جماعتوں کا مقابلہ کر نا ہے"۔ اسی اخبار نے ایک امریکی عہدیدار کا یہ بیان بھی نشر کیا کہ "یہ منصوبہ 2012 میں بوکو حرام کے خلاف تعاون کے لیے نئیجیریا کے ساتھ مذاکرات کا نتیجہ ہے ،اس چینل کو نئیجیریا کے لوگ چلائیں گے"۔ اخبار نے کہا کہ "امریکی وزارت خارجہ میں اینٹی ٹیررازم آفس اس چینل کے لیے فنڈز فراہم کرے گا جو 6 ملین ڈالرز ہوں گے"۔
2 ۔ برطانیہ نے 1960 تک نئیجیریا کو کالونی بنا کر رکھا اور تب تک اسی کی وہاں مکمل بالادستی تھی۔ اب بھی اس کا کچھ نہ کچھ اثر ورسوخ وہاں باقی ہے اگر چہ اب پہلے کے مقابلے میں بہت کم ہے کیونکہ امریکہ نے بالادستی حاصل کرنے میں اس کے ساتھ مقابلہ کیا اور اس لیے انہی دونوں کا وہاں اثرو رسوخ ہے اور انہی کے مابین مقابلہ ہے۔ برطانیہ اور اس کے ساتھ فرانس بھی حرکت میں آگیا کیونکہ اس کو نئیجیریا کے پڑوس میں اپنی بالادستی کی فکر دامنگیر تھی، چنانچہ کیمرون کی سرحدھحدکے ساتھ موجود چاڈ کے فوجی دستے منگل3 فروری 2015 کو نئیجیریا میں داخل ہوئے۔ یہ فوج بوکو حرام کے اسلام پسندوں کے ساتھ زبردست لڑائی کے بعد نئیجیریا کے شہر غامبور میں داخل ہوئی "(اے ایف پی 3/2/2015 )۔
یہ کہا گیا ہے کہ اس جماعت نے ایک مہینہ قبل اس شہر پر قبضہ کیا تھا۔ چاڈ کی فوج گزشتہ مہینے جنوری میں کیمرون میں داخل ہوئی تھی ۔ رائٹرز نیوز ایجنسی نے3 فروری 2015 کو خبردی کہ "فرانس کی فضائیہ بوکو حرام کے انتہا پسندوں کے خلاف نئیجیریا کی سرحد کے ساتھ واقع ممالک کی مدد کے لیے جاسوسی کی ذمہ داری ادا کر رہی ہے ۔۔۔ جبکہ برطانیہ کی موجودہ پالیسی یہ ہے وہ امریکہ کی اعلانیہ مخالفت نہیں کر تی بلکہ وہ یہ ظاہر کرتی ہے کہ وہ بین الاقوامی مسائل میں اس کی شریک کار ہے اور یوں وہ اپنے آپ کو امریکہ کے شر سے محفوظ رکھتی ہے۔ برطانیہ کھل کر امریکہ کی مخالفت نہیں کر تا کیونکہ وہ اپنے مفادات کو نقصان پہنچنے سے ڈرتا ہے اور اس بات سے ڈرتا ہے کہ کہیں اپنی پرانی کالونیوں میں رہے سہے اثرو رسوخ سے بھی ہاتھ دھونا نہ پڑے،مگر ساتھ ساتھ اب بھی فرانس کو اسی طرح حرکت میں لاتا رہتا ہے جیسا کہ زمانہ قدیم سے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے فرانس کے ساتھ کرتا آرہا ہے۔ فرانس کھل کر سامنے آنے کو پسند کر تا ہے کیونکہ وہ چاہتا ہے کہ وہ ہمیشہ بڑا اورنمایاں نظر آئے،اسی لیے برطانیہ اس کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے جبکہ فرانس سیاسی داؤ پیچ میں اتنا ماہر نہیں۔۔۔لے دے کر عملی رسہ کشی امریکہ اور برطانیہ کے درمیان ہی ہے۔
3 ۔ رہی بات نئیجیریا کے اندر کی تو نئیجیریا کی حکومت مسلمانوں کے گرد گھیرا تنگ کر رہی ہے جبکہ مسلمان اکثریت ہیں، چنانچہ فروری 2014 سرکاری سکولوں میں حجاب پر پابندی لگا دی گئی ۔ حکومت ،جس کی قیادت نصاری ٰکے ہاتھ میں ہے، نے جانبداری کا مظاہر کیا اور اس حکومت کو مغرب اور اس کے سر غنہ امریکہ کی آشیر باد حاصل ہے۔حکومت واضح طور پر نصاریٰ کی طرفدار ہے ، مسلمانوں پر مغربی طرز تعلیم کو مسلط کر رکھا ہے اور ریاست مسلمانوں کے ساتھ وحشیانہ سلوک کر رہی ہے۔۔۔جب نئیجیریا کی فوج کے سپاہیوں نے ان وحشیانہ کاموں سے انکار کیا جن کا ارتکاب حکومت مسلمان شہریوں کے خلاف کر تی ہے تو ان سپاہیوں کو سزائے موت دی گئی۔ سکائی نیوز نے 18 دسمبر 2014 کو خبر دی کہ " نئیجیریا کی ملٹری کورٹس نے 18 دسمبر 2014 کو اسپشل فورس کےان 54 عناصر کو سزائے موت دے دی جنہوں نے بوکو حرام گرپ کے خلاف لڑنے سے انکار کر دیا تھا۔ گزشتہ ستمبر میں 12 نئیجیرن فوجیوں کو ایک افسر پر فائرنگ کر کے الزام میں ملک کے مشرقی علاقے مایدوغوری میں سزائے موت دی گئی ۔۔۔یہ سب عوام اور فوج کی جو ناتھن حکومت سے ناراضگی کو ظاہر کرتے ہیں اور اگر انتخابات اپنے مقررہ وقت پر ہوں تو یہ صورتحال ووٹ پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔
4 ۔ یہ تو ایک پہلو سے تھا جبکہ دوسرا پہلو یہ ہے کہ انتخابات میں جو ناتھن کا موجودہ مد مقابل سابق صدر محمد بخاری ہے جن کا تعلق ھوسا قبیلے سے ہے جو کہ سب سے بڑا قبیلہ ہے اور ملک کی آبادی کا ایک چوتھائی ہے ،اس قبیلے کے لوگوں کی بھاری اکثریت مسلمان ہے اور شمالی نئیجیریا میں ان کو مقبولیت بھی حاصل ہے ۔ 2011 کے انتخابات میں بھی اس نے جوناتھن سے مقابلہ کیا تھا ۔ یہ اعلان بھی کیا گیا تھا کہ محمد بخاری 32 فیصد سے جیت چکے ہیں ، انہوں نے انتخابات کی شفافیت پر شک کیا اور کہا کہ " نئیجیرین الیکشن کمیشن کے کمپیوٹر پروگرام کے ذریعے انتخابی نتائج سے کھیلا گیا اور ان کو نقصان پہنچایا گیا "۔ یہ کہہ کر انہوں نے بلواسطہ طور پر امریکہ پر الزام عائد کیا کیونکہ امریکہ نے ہی اس الیکشن کمیشن کو تکنیکی مہارت اور سرمایہ فراہم کیا تھا اور وہی اس کی نگرانی کر رہا تھا۔ امریکی وزیر خارجہ کے معاون جونی کارسون نے اس وقت اس الیکشن کمیشن کی تعریف کی تھی اور نئیجیرین عہدیداروں نے 9 دسمبر 2010 میں واشنگٹن میں امریکی عہدیداروں کے ساتھ اپریل 2011 میں ہونے والے انتخابات ،اس کے لیے درکار تیکنیکی معاونت ، سرمایہ اور نگرانی کے حوالے سے اعلیٰ سطحی بات چیت کی تھی۔
محمد بخاری برطانوی ایجنٹوں میں سے ہے اور یہ سابق عسکری حکمران ہے ۔ انہوں نے 1983 میں شیخو شارجاری کا تختہ الٹ دیا تھا جو 1979 سے سول حکمران تھا ۔۔۔محمد بخاری نے 1999 اور2003 کے انتخابات میں ریٹائرڈ جنرل اولو سیگن اوبا سانجو کے ساتھ مقابلہ کیا جبکہ 2007 کے انتخابات میں اوباسانجو نے اپنی پارٹی کی طرف سے عمر یارادوا کو امیدوار نامزد کیا جو کہ ایک مسلمان قبیلے سے تعلق رکھتا ہے اور اس کا مقصد محمد بخاری سے مقابلہ کرنا تھا اور یہی ہوا آخر الذکر وہ انتخابات ہار گیااور اسی وجہ سے اس حکومت پر دھاندلی کا الزام لگا یا جس کی قیادت اوباسانجو کے پاس ہے۔ جیسا کہ ہم نے اوپر کہا کہ محمد بخاری کو کسی حد تک مقبولیت حاصل ہے خاص کر شمالی نئیجیریا میں ، اس لیے وہ اور اس کی جماعت پروگریسیو کانگریس پارٹی کے پاس جو ناتھن اور اس کی پارٹی عوامی جمہوری پار ٹی کو اقتدار سے ہٹانے کا اچھا خاص موقع ہے۔
5 ۔یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے بھانپ لیا کہ انتخابات اس کے مفاد میں نہیں اس لیے امریکی سیکریٹری خارجہ کیری نے موخر کرنے کے لیے معاملات کو ترتیب دینا شروع کیا :
۔ اس نے برطانوی وزیر خارجہ فلپ ہامونڈ سے 23 جنوری 2015 کو ملاقات کی جیسا کہ فرانس پریس نیوز ایجنسی نے ذکر کیا ہے ، یہ ملاقات انتخابات کو موخر کرنے سے تقریباً دو ہفتے پہلے ہوئی تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کے درمیان سب سے بڑا موضوع انتخابات ہی تھے۔ امریکہ کو اس بات کا ادراک ہے کہ نئیجیریا میں برطانیہ کے کارندے موجود ہیں۔۔۔
۔ اس کے بعد کیری نے حزب اختلاف کی پروگریسیو کانگریس پارٹی کی قیادت اور ان کے نامزد امید وار محمد بخاری سے ملاقات کی۔ ملاقات کے بعد کیری نے کہا کہ "صدر باراک اوباما نے مجھ سے کہا ہے کہ میں نئیجیریا کی سیاسی شخصیات کو یہ بتادوں کہ امریکہ شریک ہونے اور نئیجیریا کی مدد کرنے کے لیے تیار ہے ، لیکن جمہوری عمل تسلی بخش ہو نا چاہیے " (اے ایف پی 25 جنوری2015 )۔
۔ اس کے بعد کیری نے نئیجیریا کے صدر جو ناتھن سےملاقات کی جس نے "آزادانہ ،شفاف اور تسلی بخش انتخابات کے اجراء کی حامی بھری" (اے ایف پی25 جنوری2015)۔
یوں یہ تمام ملاقاتیں صدارتی انتخابات کے حوالے سے تھیں ۔ فرانس پریس نے کیری کے نئیجیریا کے دورے کی خبر دیتے ہوئے 25 جنوری2015 کو کہا کہ " کیری صدارتی اور قانون ساز اسمبلی کے لیے 14 فروری کو ہو نے والے انتخابات کے بارے میں بات چیت کرے گا" ۔
6۔ ایسا لگ رہا ہے کہ کیری ان اعلانیہ اور غیر اعلانیہ ملاقاتوں کے ذریعے انتخابات کو کچھ عرصے کے لیے موخر کرنے کے مسئلے کو حل کرنے پر اتفاق کے لیے طرفین کو منانے کی کوشش کر رہا تھا، لیکن وہ اس حل تک نہ پہنچ سکے اسی لیے جو ناتھن نے طرفین کی رضامندی کا انتظار کیے بغیر ہی انتخابات کو ڈیڑھ مہینے کے لیے موخر کرنے کے احکامات جاری کر دئیے اور یو ں نئیجیرین الیکشن کمیشن نے8 فروری2015 کو 14 فروری کو ہونے والے صدارتی اور پارلیمانی انتخابات کو 28 مارچ تک امن و آمان کی صورت حال کا بہانہ بنا کر موخر کر دیا۔ امریکہ نے حسب عادت اپنے آپ کو اس سے لاتعلق ظاہر کیا،گویا کہ یہ خود جوناتھن حکومت کا فیصلہ تھا،جس پر کیری نے یہ بیان جاری کیا کہ " نئیجیریا کی جانب سے انتخابات کو موخر کرنے کے فیصلے پر واشنگٹن کو مایوسی ہوئی" (رائٹر 8/2/2015 )۔ کیری نے تو یہ کہا مگر معاملہ ہر اس شخص کے سامنے واضح ہے جس کے پاس دو آنکھیں ہیں۔ اس کی ملاقاتوں میں بھی توجہ انتخابات کے موضوع پر مرکوز تھی جیسا کہ فرانس پریس نیوز ایجنسی نے کہا ہے ۔ لازمی بات ہے کہ انتخابات میں تاخیر کا فیصلہ امریکہ کا ہے کیونکہ اس بات کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ جو ناتھن امریکہ کی مخالفت کر ے وہی امریکہ کا تابع فرمان اور امریکی حمایت پر بھروسہ کرنے والا ہے۔ رائٹرز نیوز ایجنسی نے 8 فروری2015 کو خبر دی کہ نئیجیرین الیکشن کمشن نے " حکمران پیپلز پارٹی کے دباؤ کے سامنے گھٹنے ٹیک دئیے" ۔
7 ۔ حکومت نے انتخابات کو موخر کرنے کا سبب امن وآمان کو قرار دیا لیکن یہ عذر لنگ ہے ۔ جا ناتھن حکومت کی جانب سے انتخابات کو موخر کرنے کے بہانے میں تضاد اور تردد نمایا ں ہے۔ چنانچہ آزاد قومی الیکشن کمیشن کے سربراہ اتا ھیرو جیجا نے وضا حتی بیان میں کہا کہ "ملک کے سیکیورٹی قیادت کے مشوروں کو اتنے آسانی سے نظر انداز کر نا ممکن نہیں ، ایسے حالات میں نوجوانوں اور خواتین کو اپنا جمہوری حق ادا کرنے کے لیے گھروں سے باہر نکالنا ممکن نہیں جہاں امن آمان کی کوئی ضمانت نہ ہو اور یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے، اس کے نتیجے میں کمیشن نے انتخابات کے لیے نئی تاریخ مقرر کردی ہے ، عام انتخابات ،صدارتی انتخابات اور قومی اسمبلی کے انتخابات 28 مارچ 2015 کو ہوں گے جبکہ گورنروں اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات 11 اپریل کو ہوں گے"۔ جیجا نے کہا کہ "قومی سلامتی کے مشیر نے پچھلے ہفتے الیکشن کمیشن کو ایک خط بھیجا جس میں وضاحت کی کہ انتخابات کا مقررہ اصل تاریخ پر منعقد ہو نے کی صورت میں امن و آمان کی ضمانت دینا ممکن نہیں ۔۔۔" انہوں نے مزید کہا کہ "اس فیصلے پر ہمیں کسی نے مجبور نہیں کیا"۔ انہوں نے یہ ایسے انداز سے کہا جیسا کہ ایک "مشکوک شخص کہے کہ مجھے پکڑو" ۔ انہوں نے مجبوری کو چھپاتے چھپاتے مجبوری کو ثابت کیا !صرف یہی نہیں بلکہ اس سے قبل گزشتہ مہینے قومی سلامتی کے مشیر سامبو داسو کی نے کہا کہ "انتخابات میں تاخیر کا سبب شناختی کارڈز بروقت فراہم نہ ہو نا ہے جو کہ ووٹنگ کے لیے لازمی ہے " ( رائٹرز 8/2/2015 )۔۔۔ یوں ایک مہینے پہلے قومی سلامتی کا مشیر انتخابات میں تاخیر کا سبب شناختی کارڈز کی عدم فراہمی کو قرار دے رہا ہے جبکہ الیکشن کمیشن اس کا سبب امن آمان کے مسئلے کو گردانتا ہے ؟! دونوں بیانات میں واضح تضاد ہے !
یہی وجہ ہے کہ انتخابات میں تاخیر ان اسباب کے بنا پر نہیں کی گئی جو جوناتھن حکومت نے بتا ئی ہے بلکہ یہ امریکی فیصلے کی بنا پر ہے کیونکہ اس کے ایجنٹ موجودہ صدر جوناتھن کی پوزیشن خراب اور اس کے ناکام ہونے کا خوف ہے۔ جیسا کہ ہم نے اوپر ذکر کیا کہ تجزیہ نگار اور مشاہدہ کرنے والے اس بات کا اشارہ دے رہے ہیں کہ محمد بخاری اور اس کی پارٹی پروگریسیو کانگریس کے پاس جو ناتھن اور ان کی پارٹی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کو اقتدار سے ہٹا نے کا حقیقی موقع ہے۔
8 ۔ اب مندرجہ ذیل تین احتمالات کا امکان ہے:
ا ۔ جو ناتھن انتخابات کو موخر کرنے کی مدت کے دوران امریکہ کی مدد سے کچھ کامیابیاں حاصل کر لے اور امن و آمان کو بحال کرنے کچھ اقدامات کریں ،جس سے پرتشدد کاروائیوں میں کمی آئے، اگر وہ یر غمال بنائے گئے سکول کی بچیوں کے مسئلے کو امریکہ کی پشت پناہی اوربین الاقوامی تدابیر سے حل کرنے میں کامیاب ہو گیا تو یہ اس کی بڑی کامیابی ہو گی۔۔۔
ب ۔ یا امریکہ برطانیہ کے ساتھ کسی مصالحت تک پہنچے گا اور جوناتھن اور محمد بخاری کے درمیان شراکت ہو گی، ایک صدر بن جائے دوسر ا اس کا نائب مقرر ہو ، یعنی وہی فارمولہ آزمایا جائے جس کو جو ناتھن نے ختم کر دیا تھا، جو یہ تھا کہ ایک نصرانی ہو اور دوسرا مسلمان۔ اس صورت حال کا دارومدار نئیجیریا میں رسہ کشی کرنے والے فریقین کی قوت پر ہو گا یعنی امریکہ اور برطانیہ ۔
ج ۔ انتخابات کو موخر کرنے کو دہرایا جائے ، یا نئے مقرر ہ وقت پر انتخابات کا انعقاد ہو مگر گزشتہ انتخابات کی طرح کمپیوٹر پروگرام کے ساتھ کھیل کر امریکی امید وار کا پلڑا بھاری کیا جائے گا، دونوں صورتوں میں پرتشدد کاروائیوں میں اضافہ ہو گا اور لوگ خاص کر مسلمان اس آگ میں جلیں گے ۔۔۔
د ۔ یا پھر اللہ اس امت پر اپنا فضل کر ے گا اور کسی مضبوط اسلامی ملک میں خلافت راشدہ قائم ہو جائے گی ، جس سے استعماری کفار کے دلوں میں رعب داخل ہو گا اور وہ اسلام اور اہل اسلام کے خلاف سازشوں کی جرات نہیں کریں گے، بلکہ نئیجیریا اور دوسرے علاقوں میں مسلمان غالب آئیں گے:
﴿وَلَيَنْصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ﴾
"جو اللہ کی مدد کرتے ہیں اللہ ضرور ان کی مدد کرتا ہے بے شک اللہ ہی قوی اور غالب ہے"(الحج:40)۔