الجمعة، 04 ربيع الأول 1446| 2024/09/06
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية
Super User

Super User

اہل شام کی ثابت قدمی صلیبی مغرب ،اس کے حمایتیوں اور آلہ کاروں  کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتی ہے

کسی بھی حقیقی تبدیلی ،ایجنٹ حکمرانوں اور ان کی حکومتوں کو جڑ سے اکھاڑنے  ،استعماری کافر،اس  کی کمپنیوں،سفارتخانوں اور عالم اسلام میں اس کے جاسوسوں کے ہاتھ کاٹنے  کی  تحریک سے برسر پیکار مغربی ممالک  بھر پور مال خرچ کر رہے ہیں۔۔۔ یہ ممالک اس  غلط فہمی میں مال خرچ کر رہے ہیں کہ یہ  نبوت کے طرز پر اس خلافت راشدہ  کے قیام کے ذریعے اسلامی زندگی کےاحیاء کو روک لیں گے  یعنی جس خلا فت کی بشارت  اللہ کے بندے اور رسول محمد ﷺ نے دی ہے ۔۔۔ اب مغر ب  بے تحاشہ مال خرچ کر رہا ہے جس کی مثال پہلے نہیں ملتی ،خواہ یہ بشار  حکومت کو نوٹوں  کی شکل میں یا  غذائی مواد اور ایندھن کی صورت میں یا پھر لبنان میں ایرانی تنظیم کو  اسلحہ فراہم کر کے تا کہ  وہ اہل شام کے خون بہانے کا سلسلہ جاری رکھے۔۔۔ جوں جوں یہ خباثت پر مبنی خرچہ بڑھ رہا ہے  شام کے مخلص لوگ بھی  اپنے کم وسائل کے ساتھ نظام کی تبدیلی کو روکنے کی  امریکہ اور اس کے کارندوں کے منصوبوں کے سامنے  چٹان  بنے ہوئے ہیں  ۔ وہ امریکہ  کی جانب سے خطے کو  خون میں نہلانے اور ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت  شام،عراق،لیبیا،یمن اور مصر میں  قتل و غارت  اور خون کی ہولی کھیلنے کی سازشوں کے سامنے  سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنے ہوئے ہیں ! مغربی ممالک  جو کچھ خرچ کر رہے ہیں یہ ان کے لیے حسرت کا باعث ہوگا ،

﴿إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ لِيَصُدُّوا عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ فَسَيُنْفِقُونَهَا ثُمَّ تَكُونُ عَلَيْهِمْ حَسْرَةً ثُمَّ يُغْلَبُونَ وَالَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى جَهَنَّمَ يُحْشَرُونَ

"بے شک  کافر  اللہ کی راہ سے روکنے کے لیے  اپنا مال خرچ کرتے ہیں  ،وہ خرچ تو کر لیں گے مگر  یہ ان کے لیے وبال ہو گا اور پھر وہ مغلوب کیے جائیں گے  اور کافروں کو جہنم میں ہانک دیا جائے گا"(انفال:36) ۔

روس اور ایران نے  شام کے دیہاتوں اور شہروں میں  اپنے  ماہرین کی موجودگی کا اعتراف کر چکے ہیں جو وسیع پیمانے کے  تباہ کن منصوبوں کو عملی جامہ پہنا رہے ہیں۔  عراق میں ماہرین کی تحقیقات یہ ثابت کر رہی ہیں کہ عراقی فوج   دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر  بھر پور عسکری قوت سے  پورے پورے دیہات اور بستیوں کو   صفحہ ہستی سے مٹارہی ہے ،جس کا اس کے سوا  کوئی عسکری اور اخلاقی جواز نہیں  کہ یہ امریکی حکم پر کیا جارہا ہے ،جس کو المالکی نے بھی  نافذ کیا اور  اس کا جانشین العبادی  اور اس کے شریک کار بھی یہی کر رہے ہیں۔ امریکہ  ہر اس چیز کو تباہ کر نا چاہتا ہے  جو اس کے خیال میں  عنقریب  اللہ کے اذن سے قائم ہو نے والی خلافت  کے  قیام،اس کی  بقا،اس کی ثابت قدمی اور ترقی میں   معاون ہو سکتی ہے۔ امریکہ یہ اس وجہ سے کر رہا ہے کہ ان کا بدبودار  سرمایہ دارانہ آئیڈیلوجی   کا پیمانہ  صرف  مادیت ہے ، اس لیے وہ اس غلط فہمی میں ہیں کہ اسلامی ریاست  بھی اسی چیز پر قائم ہو تی ہے جس پر  ان کی ریاستیں قائم ہیں۔  لیکن ان کے اندازے غلط ثابت ہوں گے،وہ نامراد ہوں گے اور ان کی امیدیں خاک میں مل جائیں گی۔ اسلام صرف اہل اسلام  کی جانفشانی اور اس کے  مخلص اور بیدار جوانوں کے عزائم کے بل بوتے پر قائم ہو تا ہے۔  رسول اللہ ﷺ  نے مدینہ منورہ  کی  ریاست قائم کرنے میں کسی موجودہ  انفراسٹریکچر یا  سپر اسٹریکچر  پر اعتماد نہیں کیا بلکہ    زبردست فکر کے علمبردار ایسے   جوان مردوں  پر اعتماد کیا  جن سے ریاست قائم ہو تی ہے اور وہی  اس کی صنعتی اور جنگی ڈھانچے کو  بام عروج پر پہنچاتے ہیں۔

اس لیے ہم امت کے حقیقی اور مخلص  انقلابیوں سے کہتے ہیں کہ ،

فکر ہی اسلحے  کا اساسی محرک ہے  وہی اسلحے کا لیے درست سمت کا تعین کرتی ہے ۔  اسی طرح ہم نے روم کو شکست دی  اور اسی طرح ہم نے فارس کی مجوسی سلطنت کو روند ڈالا۔  ہم نے ایسی منفرد  اسلامی ریاست قائم کی  جو تیرہ صدیوں تک  قائم رہی ۔  ہم اسلام کی زبردست ترقی یافتہ فکر  کے ذریعے ہی  مشرق اور مغرب کو  شکست کا مزہ چکا دیں گے۔  اسلحہ جیسا کہ تم دیکھ رہے ہو  ان لوگوں کے ہاتھ میں ایک شر ہے جن کی کوئی فکر نہیں ۔  یہ درست فکر کے حاملین کے ہاتھ میں ہی اچھا لگتا ہے ،وہی  اس کے ذریعے اللہ کے اذن سے فتوحات حاصل کریں گے، اس اسلحے کے ساتھ ساتھ  مسلمانوں کے دل اپنے رب کے سامنے گڑ گڑا رہے ہوں گے اور ان کے باوضو ہاتھ اللہ کی مدد کی طلب میں  اٹھے ہوئے ہوں گے۔

حالیہ دنوں میں       جوبر ، الزبدانی اور شام کے دوسرے علاقوں  میں مخلص انقلابیوں  کی  کاری ضرب نے   حکومت اور اس کے کارندوں  کی جڑیں کھوکھلی کر دی  جس سے جن و انس میں سے سارے شیاطین  دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر ایک ہوگئے( یورپی یونین کے وفد نے 1/2/2015 کو بغداد میں الجعفری سے ملاقات کی ) اور انہوں نے قتل و غارت اور  تباہی میں  شام اور عراق کے مجرموں  کے ہاتھ بٹانے کی یقین دہانی کی؛ اس لیے  دمشق کے سرکش کی جانب سے اپنے درندوں اور حقیقی دہشت گردوں کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے  الزبدانی  میں مائع بموں کی بارش پر کوئی حیرانگی نہیں ،جبکہ  ثابت قدمی کی علامت  جو بر پر کیمیاوئی ہتھیاروں سے حملے جاری ہیں۔

اے صداقت کے پیکر اور  اسلام کی عزت کے محاذوں  کے شہسوارو! تم نے اپنے دشمن کو ناکوں چنے چبوا دئیے ،تم نے اسلام کے دشمنوں کو حواس باختہ کر دیا ہے، تم نے سیکولر جمہوری ریاست کی ان کے سازشوں کو چکناچور کر دیا ہے ،  ہوشیار تمہارا دشمن تمہارے درمیان پھوٹ ڈالنے میں کا میاب نہ  ہو ۔  قومی فوج بنانے کی امریکی اتحایوں کی دعوت تمہیں دھوکہ نہ دے  ایسی فوج  ان کے منصوبوں کو انجام دینے  اور تمہاری محنت پر پانی پھیرنے کا آلہ ہو گا  اور تم شام کو عمر بن عبد العزیز والا  شام بنانے میں کامیاب نہ ہو سکو گے،جب پرندوں کے لیے بھی پہاڑوں پر اناج ڈالا جاتا تھا۔  امانت کو ضائع مت کرو ورنہ  تم بھی اپنی مقبولیت سے ہاتھ دھو بیٹھو گے  جو کہ انشاء اللہ  تمہاری کامیابی کا ستون ہے۔  اللہ کی رحمت سے نا امید مت ہو   ،اسلام کے تمام دشمنوں کے ناکوں کو خاک آلود کر کے خلافت انشاء اللہ قائم ہونے والی ہے۔

﴿إِنَّهُمْ يَرَوْنَهُ بَعِيدًا وَنَرَاهُ قَرِيبًا

" ان کو وہ دور نظر آتا ہے اور ہم اس کو قریب دیکھتے ہیں "۔(المعراج:7-6)

 

حزب التحریر کا مرکزی میڈیا آفس

المیوں کی ماں

پشاور واقعے جیسے لرزہ خیزواقعات کسی بھی با شعور قوم کو احساس دلانے  کے لئے کافی  ہوتے ہیں، مگر یہاں  ایک اور بڑا المیہ ہے،جس کا میں ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ ہم جانتے ہیں کہ  اُمت عرصہ دراز سےان جیسے  المیوں سے  مانوس ہوچکی ہے۔ یہ کوئی نیا المیہ نہیں  یکے بعد دیگرے مسلم علاقوں میں مسلمان ماؤں ،بہنوں کی عصمت دری اور بچوں ،بوڑھوں کو بے دریغ قتل کرڈالنے کے بے شمار واقعات  تاریخ کے اوراق  اور آج کی جدید ٹیکنالوجی  کے ذریعے متحرک شکل میں محفوظ ہیں۔  وحشت وبربریت  کے ایسی داستاں رقم کی گئی جس میں جدید ٹیکنالوجی کو بھر پور طریقے سے استعمال کیا گیا بلکہ خاص اسی مقصد کے لئے  بنائے گئے آلات اورتشدد کے نت نئے طریقے آزمائے گئے۔ انسانیت پر مسلط کی گئی  جنگ ،پریشانی اور بے چینی  صرف مسلمانوں تک ہی محدود  نہیں رہی۔ ہیرو شیما اور ناگا ساکی کے تباہ کن واقعات انسانیت کے ماتھے پر بدنما داغ  کی حیثیت سے تا قیامت موجود رہیں گے۔ مگر جدید ظلم  ودردندگی کا نشانہ سوچے سمجھے منصوبے اور منظم سازش کے ذریعے  اکثر مسلمان بنتے رہے ہیں۔ بوسنیا اور چیچنیا کے اندر روس اور سربیا کے مظالم  کے خوفناک مناظر آنکھوں کےسامنے ہیں۔  گوانتاناموبے ، ابوغریب اور بگرام  کے قیدخانوں کےانسانیت سوز اور حیا سوز واقعات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ ماضی قریب میں روہنگیا مسلمانوں پر بدھسٹوں کی ستم کاریاں ، شام کے مسلمانوں پر اسد ی حکومت کی طرف سے پٹرول بموں کی بارش اور اس کے ہاتھوں دمشق شہر کی تہہ وبالا کی گئی عمارتیں اور لہو رنگ مناظر۔   وحشت ،سفاکیت اور بہیمیت  سے بھر پور المیوں  کی ایک  طویل  اور ناقابل بیان  ناقابل فراموش تاریخ ہے ۔   یہاں میں جس المیے کی بات کرنا چاہتا ہوں وہ المیۂ فکریہ ہے،یعنی جب انسانیت  کوصحیح حل سے  محروم کردیا جائے  اور اس کی سوچنے کی صلاحیت ہی متاثر ہوجائے ،جب سچ بولنا جرم ٹھہرجائے ،جب ظلم روکنے کو دہشت گردی سے موسوم  اور دہشت گردی کو امن اور انصاف کی تلاش کا نام دیا جائے۔ جہاں دلیل کے بجائے جبر اور طاقت کی زبان بولی جاتی ہو،تو یہ تمام المیوں سے بڑھ کر المیہ ہے، یہ المیوں کی ماں ہے، ماں! وجہ یہ ہے کہ جب صحیح حل تک رسائی ہی نہیں ہورہی یا نہیں ہونے  دی جارہی تو ظاہرہے کہ مسائل جوں کے توں رہیں گے اورانسانیت سسک سسک کر تڑپتی رہے گی اور درندگی ،وحشت وبربریت کا شکار رہے گی ،جو اس کی بدبختی ہے۔

 

بلاشبہ اس طرح کے واقعات بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیتے ہیں اور بہت جلد اصل اسباب وعوامل کا تعین  کرکے حقائق تک رسائی حاصل کرنے کی کوششوں  پر توجہ مرکوز کرنے کی دعوت دیتے  ہیں تاکہ مستقبل میں سد باب کے لئے لائحہ عمل طے کیا جائے اور اگر سچ  پر قدغن نہ ہو اور رائے کی آزادی کی بجائے اس کے مبنی بر دلیل ہونے کو مدِ نظر رکھا جائے توحق و سچائی تک پہنچا جا سکتا ہے۔  مگر افسوس صد افسوس کہ ایسا نہیں ہوتا۔ "وسیع تر قومی مفاد" ،"دہشت گردی کے خلاف جنگ "، "ملکی سالمیت " وغیرہ یہ کیا ہے ، ان الفاظ کی حقیقت مکمل طورپرمبہم اور بے بنیاد دعوؤں کے سوا  کچھ نہیں۔جنہیں مختلف مواقع پر استعمال کرکے سادہ لوح عوام کو دھوکہ دیا جاتا ہے۔ حقائق تک رسائی  کے نام پر حقائق کو اوجھل رکھنے کی کوشش ، رسمی مذمت  اور جذباتی ماحول ،اورخوف کی فضائیں تخلیق کرکے  غیر معمولی حالات کا نام دے کربیرونی طاقتوں کے فائدے کے قوانین کی منظوری  اصل کامیابی اور حل سمجھا جاتا ہے۔  المیہ تب ہوتا ہے کہ جب دشمن اپنی چالاکی وہوشیاری کو بروئے کار لاکر اس حد تک حواس باختہ کردے اور اپنے آپ کو اس حد تک خفیہ رکھے کہ وہ  وار پر وارکرتا رہے ، مگر آپ  فیصلہ ہی نہ کر سکیں کہ وار کرنے ولا کون ہے۔  دشمن پے درپے ضرب اس مقصد کے لئے لگاتا ر ہے کہ سوچ بچار کاموقع ہی نہ ملےاورآپ   حواس باختگی کے عالم میں اِدھر اُدھر  لپٹ جھپٹ کر حملہ کرتےر ہیں۔ یہ ہے ہلاکت وبربادی کہ جس میں پاکستان کے مسلمانوں کو مبتلا کردیا گیا ہے۔

 

المیہ یہ بھی ہے کہ قول وعمل میں تضاد بہت مستحکم ہوچکا ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر المیہ یہ ہے کہ یہ  تضاد ناسمجھی ،سادگی یا بے وقوفی کی وجہ سے نہیں بلکہ قوم کا  لہو بیچنے کے لئے ہے ۔  کیا یہ بہت عجیب بات نہیں کہ ایک طرف دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دعوے اور دوسری طرف امریکی سی آئی اے اور بلیک واٹر جیسے بد نام زمانہ تنظیموں کو باقاعدہ ویزے جاری کئے جائیں اور انہیں ہر جگہ آزادانہ ،اسلحہ اور جاسوسی کے آلات سے لیس ،بغیر نمبر پلیٹ کے گاڑیوں میں پھرنے کی اجازت بلکہ تحفظ  فراہم کیاجائے؟  یہ تضاد نہیں تو اور کیا ہے۔ بڑے بڑے سانحے ہوتے رہے اور اصل دہشت گردوں کو بے نقاب کرنے کے بجائے کمیٹیاں بنانے ،اتفاق رائے وغیرہ جیسے غیر ضروری کاموں میں وقت صرف کیا جائے ،کیا یہ پاکستان کے مسلمانوں کے ساتھ اخلاص ہے ؟

 

آج کل اکثر جنگیں اسٹریٹجک بنیادوں پر لڑی جاتی ہیں۔بالخصوص امریکہ کی اگر ہم بات کریں۔  مثلاً    بین الاقوامی قوانین کا حوالہ دے کر چڑھائی کرنے کی دھمکیاں،مگر یہ دھمکی عوام کے لئے تو دھمکی ہوسکتی ہے،اصحاب اقتدار کے لئے نہیں ، اس لئے کہ یہ سب کچھ گٹھ جوڑ کے بعد ہوتا ہے ۔  امداد کے نام پر سیاسی وعسکری اور اقتصاد ی پالیسیوں پر اثرانداز ہونا، ایجنٹ اشخاص وحکومتیں،مبہم اصطلاحات :جیسے دہشت گردی کے خلاف جنگ،انصاف،انسانیت وغیرہ، وہ ہتھکنڈے ہیں جنہیں استعماری منصوبہ ساز اپنے شیطانی منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے بروئے کار لاتے  رہتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ  آج تک دہشت گردی کی تعریف ہی متعین نہیں کی جاسکی  بلکہ آج کل  "سہولت کاروں" کی جو اصطلاح نکلی ہے ،اُن سے کون لوگ مراد ہیں؟  کوئی واضح تعین نہیں۔

 

المیہ یہ بھی ہے کہ بعض لوگ ایسے مواقع پر صرف موم بتیاں جلا کر یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ ہم نے اپنی ذمہ داری پوری کردی اور دشمن کی چال میں آکر اس کانام لینے کے بجائے اس کو گالیاں دیتےاور لعنت بھیجتے  ہیں جنہیں  دشمن ان سے  دلوانا  چاہتا ہے۔ یوں دشمن کے منصوبے آگے بڑھتے رہتے ہیں اور ہمارے بچوں کا خون ہوتا رہتا ہے۔   یہ کام اکثر لوگ سطحیت کی وجہ سے کر رہے ہیں مگر اس کااصل سبب  صاحبان اقتدار ہیں جو میڈیا پر اثر انداز ہوتے ہیں اور میڈیا  اصل حقائق جاننے کے باوجود  انہیں بیان نہیں کرسکتا ۔ اس عمل کے نتیجے میں ایسا اشتعال انگیز ماحول قائم ہوجاتا ہے کہ  ایک طرف  خون کی ندیاں بہتی ہیں  جبکہ  دوسری طرف اسی ہنگامہ آرائی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اصل ذمہ داروں عوام کے سامنے بے نقاب نہیں ہوتے۔  ایسے میں اگر کوئی حقائق جاننے کی بات کرتا ہے تو اس کا تمسخر اُڑایا جاتا ہے ۔اور بے سروپا دلائل کے ذریعے ان کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے اور خاموش کرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔   ہونا تو یہ چاہئے کہ سر جوڑ کر بیٹھیں کہ اصل حقیقت کیا ہے؟  اصل مسئلہ کہاں ہے اور کیسے حل کریں؟ مگر ہائے رے کم نصیبی!

 

ایسے مواقع پر سربراہان ِقوم مسئلہ کاحل ڈھونڈنے کے لئے اکٹھے ہوکر سنجیدگی سے سوچتے ہیں ،مگر جب قیادت ہی بکی ہوئی ہو تو آپ خود سوچئے ، کیا ہوگا؟  ابہام درابہا م درابہام ! سنجیدگی کا سب سے  اولین تقاضا یہ ہے کہ  اپنے نقطہ نظر کو واضح کیا جائے جس کی بنیاد پر ہم فیصلہ کریں ۔تاکہ کوئی ابہام نہ رہے، لیکن یہاں ایسا نہیں۔

اگر ہم اس دلدل سے نکلنا چاہتے ہیں تو ہم نے مندرجہ ذیل کام  طےکرنے ہوں گے:

1-      دہشت گردی کی تعریف متعین کی جائے۔

2-      اس تعریف کا مصداق کون کون ہے، ان کو بے نقاب کرکے قرار واقعی سزا سنائی جائے۔

3-      کیا قابض کفار کے خلاف جہاد دہشت گردی ہے؟اس کو واضح کیا جائے  اور اسی کی روشنی میں  افغانستان کی صورتحال اور دہشت گردی کے خلاف جنگ   کے حوالے سے فیصلہ کیا جائے۔

4-      ہمارے چھوٹے بڑے تمام فیصلوں کی بنیاد کیا ہونی چاہئے؟

5-      کیا اسلامی نظام کے نفاذ اور اپنے فیصلے قرآ ن وسنت کی بنیاد پر کرنے کا مطالبہ یا اس مقصد کے لئے جدوجہد کرنا انتہا پسندی اور جرم ہے؟۔

6-      کیا  اسلامی نظام سے مسلمانان پاکستان کو محروم رکھنا جرم نہیں؟

7-      یا پھر ایسا ہے کہ اسلام ناقبل عمل ہے؟ جس کو موضوع بحث نہیں بنانا چاہئے۔

8-      اگر یہ جنگ پاکستان کی جنگ ہے تو کیوں؟

9-      حساس مقامات تک کسی بھی غیر ملکی کورسائی دیناکیا حیثیت رکھتا ہے؟

10-  غیر ملکی حملہ آور یا دہشت گرد حساس مقامات تک کیسے پہنچ جاتے ہیں؟ جبکہ ملک کے حالات غیر معمولی ہیں؟

11-  سہولت کار کون ہے؟

یہ وہ  امور ہیں جو اگر طے ہو جائیں تو  ہم اس مخمصے سے بہت جلد نکل سکتے ہیں کہ جس میں پاکستان کے عوام کو پچھلے کئی سالوں سے مبتلا کیا گیا ہے۔ ان سوالات  میں اہم ترین سوال نمبر 4 ہے  ۔ آج تک جن المیوں سے ہم دوچار ہوتے رہے ہیں ،ان کی اصل بنیاد قوم کو بیوقوف بنانے کی پالیسی ہے جس میں ابہام اور عدم شفافیت سے کام چلایا جاتا ہے۔ یہی  وجہ ہے کہ ہمارے کئی لوگ ایسے ہیں جو اس حوالے سے شک وشبہ کی کیفیت میں مبتلا ہیں کہ اس خونریزی ، قتل وغارت گری  اور تباہی وبربادی کا اصل ذمہ دارامریکہ ہے جو براہ راست ان جیسے مذموم کاروائیوں میں ملوث ہے یا کوئی اور۔اور جنہیں یہ یقین کرنا مشکل پڑتا ہے کہ ایک حکمران کس طرح قوم کی عزت وناموس اور جان ومال کے سودوں کا دھندا کرنے میں ملوث ہوسکتا ہے؟  اللہ ہمیں صحیح سمجھ عطاء فرمائے۔ آمین!

 

تحریر : راغب فاتح

مرکزی میڈیا آفس ،حزب التحریر کا شعبہ خواتین ایک عالمی مہم بعنوان "خواتین اور شریعت،کیا حقیقت؟ کیا افسانہ؟"کا آغاز کررہا ہے جس کا اختتام ایک بین الاقوامی خواتین کانفرنس پر ہو گا

11فروری 2015، بروز بدھ،  کومرکزی میڈیا آفس حزب التحریر  کے شعبہ خواتین  نے وسیع پیمانے پر ایک عالمی مہم کا آغاز کیا ہے، جس کا عنوان"خواتین اور شریعت،کیا حقیقت ؟ کیا افسانہ؟" ہے۔ یہ مہم  ایک عظیم الشان بین الاقوامی خواتین کانفرنس پر منتج ہوگی جو  انشاء اللہ، 28  مارچ 2015 کو  منعقد کی جائے گی۔

یہ اپنی طرز کی ایک منفرد اور بے مثال کانفرنس ہو گی جو مشرق سے لے کر مغرب تک بیک وقت پانچ  ممالک میں اور مختلف برِ اعظموں میں الیکٹرانک ہال میں منعقد کی جائے گی۔نیز  اس میں شریک مقررین کی تقاریر کو دنیا بھر میں براہِ راست نشر کیا جائے گا۔

صدیوں تک،اسلامی شریعت پر یہ الزام لگایا جاتا رہا ہے کہ وہ خواتین اور اسکے حقوق کی دشمن اور اس کی تذلیل،غلامی اور جبر کا سبب ہے۔بعد میں آنے والی نسلوں پر غلط معلومات اورافسانوں کی شدید دھند چھائی ہوئی ہے جس نے ان تصورات کوتقویت بخشی ہے اور  اس بارے میں خوف و شک کی فضا پیدا کی ہے  کہ مسلم دنیا میں خلافت کے تحت اسلامی حکومت کے قیام کی صورت میں خواتین کے ساتھ کیا ہوگا؟حالیہ کچھ برسوں سے آزادیِ نسواں  کی تحریکوں،سیکولر میڈیا اور اداروں نے اسلامی معاشرتی قوانین بشمول اسلامی لباس،وراثت کے قوانین اور ازدواجی حقوق و فرائض  پر تابڑ توڑ حملے کیے ہیں اور انہیں فرسودہ، ظالمانہ اور خواتین کے ساتھ امتیازی قرار دیا ہے۔ علاوہ ازیں،  خواتین سے متعلق اسلامی  احکامات کی 'اصلاح'  کے لیے ایک واضح مغربی سیکولر ایجنڈا موجود ہے جس پر مسلم دنیا میں سی ای ڈی اے ڈبلیوجیسے بین الاقوامی معاہدوں،این جی اوز  یا حقوقِ نسواں کی علمبردار تنظیموں  کی سرگرمیوں کے  ذریعے؛ نیز اس خطے کی حکومتوں کے ذریعے ؛قوانین کو مغربی بنانے کے لیے عملدرآمد کیا جا رہا ہے۔

یہ منفرد مہم اور کانفرنس  اسلامی شریعت کے تحت خواتین پر ہونے والے ظلم کی گھسی پٹی داستان کو چیلنج کرے گی اور  اسلام کی جانب سے خواتین  کے لئےمتعین کردہ اصل مقام،حقوق، کردار اور ان کی زندگیوں کا ایک واضح وژن پیش کرے گی؛جسے ریاستِ خلافت نافذ کرتی ہے۔یہ کانفرنس خواتین سے متعلق بعض اسلامی احکامات پر لگائے گئے الزامات کا نہ صرف جواب دے گی بلکہ اسلام کے منفرد معاشرتی نظام کی بنیاد، اقدار اور قوانین کی وضاحت کرے گی،نیز خواتین،بچوں، خاندانی زندگی اور بحیثیت مجموعی تمام معاشرے پر اس کے مثبت اثرات پر بھی روشنی ڈالے گی۔ یہ مغربی اور  'اسلامی' آزادیِ نسواں (فیمن اِزم) کے تصورات مثلاً صنفی مساوات اور لبرل آزادیوں کا بھی جائزہ لے گی، جنہیں اسلام میں خواتین کے ساتھ سلوک کی مذمت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ مزید یہ کہ جبر سے خواتین کی نجات کے لیے درست راستے کی نشاندہی  بھی کی جائے گی۔ ہم اسلامی نصوص و تاریخ کے درست ترین حوالوں کے ساتھ ساتھ مستقبل کی ریاست خلافت کے اداروں کی منظر کشی سے مسلمانوں اور غیر مسلموں دونوں کی یکساں رہنمائی کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ شریعت کے زیرِ سایہ خواتین کی زندگیوں کی صحیح تصویر دیکھ سکیں اور یہ کہ معاشرے کے مختلف شعبوں میں شریعت کا نفاذ کس طرح ان لاتعداد مسائل کو حل کرتا ہے جن کا سامنا آج خواتین کو کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ مہم اور کانفرنس مسلم خواتین میں خلافت کے قیام کے لیے بین الاقوامی سطح پر بڑھتی ہوئی حمایت اور سیاسی سرگرمیوں کو اجاگر کرےگی؛جو مسلم دنیا کی خواتین کے لیے واحد درست طریقہ ہے۔ ہم ان تمام لوگوں کو دعوت دیتے ہیں جو خواتین کے حقوق اور فلاح و بہبود کے لئے مخلصانہ طور پر تشویش رکھتے ہیں ہے ؛ جوحقیقی طور پر اسلامی شریعت کے تحت خواتین کی حیثیت کے بارے میں سچائی کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور وہ لوگ جو ان کے لئے ایک مثبت، محفوظ اور باوقار مستقبل تخلیق کرنا چاہتے ہیں، ہم انہیں مندرجہ ذیل لنکس کے ذریعے اس اہم مہم کی حمایت اور اس سے آگاہی کی دعوت دیتے ہیں: www.facebook.com/womenandshariahA

آپ کیا مہم کے مواد کی رکنیت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو، برائے مہربانی رابطہ کریں  This e-mail address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.%20">This e-mail address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

مہم یا کانفرنس کے حوالے سے سوالات یا انٹرویو کے لئے، برائے مہربانی رابطہ کریں This e-mail address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.">

This e-mail address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

کانفرنس کی ترویجی  وڈیو کے لیے لنک کریں  http://youtu.be/tXuusEw7Pwg

 

ڈاکٹر نظرین نواز

مرکزی میڈیا آفس حزب التحرير

شعبہ خواتین

روس میں رسُول اللہ ﷺ کی نُصرت کے لئے ایک اور سرگرمی

23 جنوری 2015 کو روس کے مسلمان محج قلعہ کی مرکزی مسجد میں اکٹھے ہوئے اور فرانسیسی جریدے میں رسول اللہﷺ اور امت مسلمہ کے بارے میں گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کی مذمت کی۔  انگوشیا اور چیچنیا میں ہوئے مظاہروں کے بعد داغستان میں  یہ تیسری سرگرمی تھی۔

شمالی قفقازکی ریاستوںمیں ہونے والی سرگرمیوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ روس میں بسنے والے مسلمان اپنے دین اور عقیدے سے انتہائی مضبوطی کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں ۔ اس حقیقت کی ایک بڑی مثال چیچنیا میں  انسانوں کا  ٹھاٹیں مارتا سیلاب تھا ، جہاں  سرکاری اتھارٹیوں نے اس ریلی کے دن  چھٹی کا اعلان کرکے  اس میں مسلمانوں کی شرکت کے لئے تمام تر انتظامات کئے بلکہ اتھارٹیز نے لوگوں کو دعوت دی کہ جس کے لئے ممکن ہو  اس میں شرکت کر ے۔   اخباری رپورٹوں کے مطابق  گروزنی میں شرکاء کی تعداد دس لاکھ تھی اور ان میں وہ  مسلمانوں بھی شامل تھے جو روس کے مختلف علاقوں سے آئے ہوئے تھے۔ یہ امر مسلمانوں کے اندر اسلامی جذبات کی مضبوطی اور پختگی  کا ثبوت ہے۔   اگر اس قسم کی اجتماعات پر دوسرے مواقع پر پابندی نہ لگائی گئی ہوتی  تو ہم دیکھتے کس طرح مسلمان ایک دوسرے کی مدد و حمایت میں اس وقت بھی باہر نکلتے جب اسکولوں میں حجاب پر پابندی لگائی گئی ، اور اسلامی ثقافت پر مبنی کتابوں کو ممنوعہ قراردیا گیا ، اور وہ دعوت کے حاملین پر جھوٹے الزامات تھوپنے  کی اسلام دشمن روسی پالیسیوں  کے خلاف  مشتعل ہوجاتے۔

مگر اس دفعہ حالات مختلف تھے کیونکہ  اسلام دشمن جذبات  مغربی ریاستوں سے پھوٹ پڑے تھےاور ہم جانتے ہیں کہ تازہ ترین حالات میں مغرب کے ساتھ روس کے تعلقات  کشیدہ  ہیں، چنانچہ روس نے اس صورتحال کا فائدہ اُٹھایا۔ سب سے پہلے تواس نے یہ ظاہر کرنا چاہا کہ  گویا مغرب کے خلاف مسلمانوں کے جذبات کا دفاع کرنے والا وہی ہے۔  اس کے  علاوہ یہ بھی کہ  اس باہمی عمل کا ملکی صورتحال کی بہتری پر مثبت اثرات مرتب ہوں گےجہاں مسلمان مختلف اتھارٹیوں کی جانب سے تسلسل  کے ساتھ دباؤ کا سامنا کرنے سے تنگ آچکے ہیں۔  ریلی میں موجود مقررین میں سے سرکاری ذمہ داروں نے  گستاخانہ خاکوں  سے  اپنی نفرت  کے اظہار کے ساتھ ساتھ  روس کے ساتھ اپنی وفاداری ثابت کرنے کی بھی کوشش کی بلکہ اس سے بڑھ کر روس کو وہ مقام دیا جو اس کے لائق نہیں تھا۔ انہوں نے  مسلسل  اس بات پر زور دیا کہ "روس نے مسلمانوں کے حق میں مثالی حالات پیدا کئے ہیں"۔  مگر دوسرے جانب سے روس کے اندر بسنے والے 20 ملین مسلمانوں کی تذلیل پر  خاموشی اختیار کرنے پر وہاں کی اتھارٹیز کو یہ  خوف دامن گیر ہے کہ کہیں موجودہ سیاسی حالات میں  کہیں اچانک ناپسندیدہ مظاہروں کا سلسلہ نہ شروع ہو جائے۔   چنانچہ چیچنیاکے صدر رمضان قدیروف نے واضح کہا کہ "مسلمانوں کے لئے یہ بالکل ممکن نہیں کہ انہیں روس میں حالات کو خراب کرنے کے لئے استعمال کیا جائے، یقیناً ہم نےہمیشہ سے روس کاقابل ِاعتماد دفاع کیا ہے اور آج بھی ہم اپنے ملک پر کسی بھی جارحیت کا بھر پور جواب دینے کی طاقت رکھتے ہیں"۔  یقیناً روسی اتھارٹیز اپنی مرضی کے خلاف کسی بھی قسم کے احتجاج کو ناپسند کرتی ہیں کیونکہ   یہ ممکن ہے کہ اگر مظاہروں کا سلسلہ چل نکلا تواس سے عوام میں موجود شدید عدم اطمینان ظاہر ہوجائے گا اور ملک کا استحکام متاثر ہوگا۔ اس لئے اتھارٹیز کی جانب سے اس اجتماع کا انتظام ایک ضروری اقدام تھا  جو مغرب کے ساتھ کشیدہ صورتحال  اور خراب سیاسی ماحول کا تقاضا تھا۔

اس سے قبل روس میں"دینی اتھارٹیز" کی شخصیات "روس میں ماڈرن  اسلام " کی طرف دعوت دینے پر مجبور تھیں ۔ آج انہیں کہنا پڑ ا کہ رسول کریم ﷺ کی بے حرمتی دنیا  کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی بے حرمتی  ہے۔  یہ اس بات کی دلیل ہے کہ "دینی شخصیات " اچھی طرح جانتی ہیں کہ اسلام سب کا ایک ہے، یہ وطنیت اور قومیتوں کا تابع نہیں ۔  مگر عام حالات میں اس قسم کی باتیں کہنے  کی اجازت نہیں ہوتی ۔ اب کئی سیاسی اور عوامی شخصیات  نے بھی حقائق کواصل نام دینے شروع کیا ، جیسے انگوشیامیں منعقد کی گئی  ریلی کے اختتامی بیان میں مغربی حکومتوں کو "تخریب کار" کا لقب دیا گیااور یہ کہ یہ حکومتیں"مذاہب کے درمیان تعلقات کشیدہ بنانے " میں مصروف ہیں۔    جمہوریہ انگوشیا کے صدر یونس بک اوکوروف نے کہاکہ "مسلمانوں کے نزدیک تمام لوگوں سے زیادہ قابلِ احترام ہستی حضرت محمد ﷺ کے گستاخانہ کارٹونز کی اشاعت اس کے سوا کچھ نہیں کہ یہ اس انتہا پسندی کا مظہر ہے جسے کچھ یورپی ریاستیں استعمال کرتی ہیں "۔  بہت سے لوگوں نے شروع میں اس واقعہ کی سرکاری  خبر پر سوالات اٹھائے اور ا س کو اشتعال اور کسی اور مقصد کے لئے راستہ ہموار کرنے کا کام قرار دیا۔  یوں موجودہ سیاسی صورتحال نے لوگوں کو  مغربی اقدار کے بارے میں کھل کر بات کرنے اور اسلام مخالف مغربی پالیسی کی اصل حقیقت کو بے نقاب کرنے پر اُبھارا کیونکہ انہیں اپنی بات میں کریملن کے روایتی موقف کی مخالفت کا خوف نہیں تھا۔

جہاں تک مسلمانوں کی بات ہے، تو اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ تو نبی کریم ﷺ کی ناموس کے دفاع کے لئے حرکت میں آئے۔   ذمہ داروں نے  اسلام کو وطنیت اور قومیت کے ساتھ خلط ملط کرنے کی  کتنی ہی کوشش کی مگر یہ  واضح تھا کہ عوام کا ہدف ایک تھا یعنی: رسول اللہﷺ کے ساتھ محبت وعقیدت کا اظہار اور آپ ﷺ کی   حرمت کی حفاظت ۔   یہ بات ان ریلیوں کے اندر مسلمانوں کی کثیر تعداد میں شرکت ،  اپنی وحدت کے بارے میں گفتگوکرنے ،  اپنے دین کے حوالے سے غیرت کے اظہاراوراشرف المخلوقات حضرت محمد ﷺ کی عزت وناموس کے دفاع  کے عزم سے باآسانی معلوم ہوتی ہے ۔  ان ریلیوں کے دوران انہوں نے رسول ﷺ کے ساتھ اپنی محبت اور ان  کے ساتھ گہری عقیدت  اور اپنے دین کے ساتھ گہرے جذبات کا اظہار کیا۔   دفاعِ اسلام کی یہ استعداد ان کے اندر اتفاقاً نہیں آئی بلکہ  اس کی بنیاد ہمیشہ سے اسلامی عقیدہ رہا ہے جس پر ہر مسلمان ایک اعلی ٰ اقدار کی حیثیت سے ایمان رکھتا ہے۔ بے شک امت کا مفاد اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ کسی بھی توہین وتحقیر کا واقعہ بغیر تنقید  کےاور اس کے بارے میں فکر مندی کے بغیر نہ چھوڑا جائے ۔ ہم شایدتب ہی ان لوگوں میں سے ہوجائیں گے جن کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : «خِيَارُ أُمَّتِي أَوَّلُهَا وَآخِرُهَا، وَبَيْنَ ذَلِكَ ثَبَجٌ أَعْوَجُ لَيْسُوا مِنِّي وَلَسْتُ مِنْهُمْ». "میری  امت کے بہترین لوگ اس کے پہلے اور آخری زمانے کے لوگ ہیں، اس کے درمیان بے ڈول  اور ٹیڑھے لوگ ہیں ،ان کا اور میرا کوئی تعلق نہیں"۔

روسی  اتھارٹیز  کے لئے ضروری ہے کہ وہ مسلمانوں کے جذبات وافکار میں وحدت کو بھانپ لیں اور انہیں اس حقیقت کا ادراک کرنا ہوگا کہ مسلمان ہر گز اپنے عقیدے سے الگ نہیں ہوسکتے۔   اور اگر روس حقیقی طور پر ملک کے اندر مذاہب کے درمیان  امن وسلامتی،  اطمینان اور سکون کا متمنی ہے تو اس کے لئے اسے اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں اپنی رائے اور موقف بدلنا پڑے گااور انہیں پر امن طریقے سے شعائر اسلام پر عمل کرنے کا حق دینا ہوگا۔

 

روس میں حزب التحریر کا میڈیا آفس

Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک