کچھ عرصہ قبل امریکہ کی سینٹ انٹیلی جنس کمیٹی نے سرکاری طور پر اس رپورٹ کے کچھ حصوں کو شائع کردیا جو کہ نام نہاد "دہشت گردی کے خلاف جنگ" کے دوران بنائے گئے طریقہ کار اور اس کے مطابق امریکی سی۔آئی۔اے کا قیدیوں کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک کے متعلق ہے۔ مکمل رپورٹ تو 6000صفحوں پر مشتمل ہے مگر اس کے صرف 400 صفحات کو شائع کرنے کی اجازت دی گئی ۔ لیکن یہ 400 صفحات بھی مغرب اور اس کی حکومتوں کی درندگی کو ظاہر کرنے کے لیے کافی ہیں ۔ رپورٹ کے مطابق ان قیدیوں کومسلسل چھ دن تک جگائے رکھا گیا اور انہیں اس بات پر مجبور کیا گیا کہ وہ نیند کے بغیر مسلسل گھڑے رہیں۔اس ذہنی تشدد کے نتیجے میں یہ قیدی نیم پاگل ہو گئے۔ ان میں سے دو قیدیوں کے پاؤں کی ہڈی ٹوٹی ہوئی تھی مگر انہیں بھی نہیں بخشا گیا۔ ایک قیدی کو یہ گھٹیا دھمکی دی گئی کہ اگر وہ تعاون نہیں کرے گا تو اس کی والدہ کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جائے گا۔"مہذب" امریکہ کی انٹیلی جنس ایجنسی نے واٹر بورڈنگ تکنیک (technique Water boarding) بھی استعمال کی جو کہ تشدد کا بدترین اسلوب ہے۔ اس تکنیک میں ایک شخص کے ناک اور منہ کو کپڑے سے ڈھانک دیا جاتا ہے اور اس پر بار بار پانی ڈالا جاتا ہے جس سے وہ شخص ایسی کیفیت سے دوچار ہوتا ہے کہ گویا وہ ڈوب رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق خالد شیخ محمد کو 183مرتبہ اس عمل سے گزارا گیا۔
یہ ظالمانہ سلوک کوئی نیا نہیں ہے۔ اس سے پہلے عراق کی ابو غریب جیل میں روا رکھنے جانے والے غیر انسانی سلوک کی تصویریں عالمی میڈیا کی زینت بن چکی ہیں۔ اور ماضی میں برطانیہ، فرانس، اٹلی، سپین، پرتگال اپنی کالونیوں میں لوگوں کو جن ظلم و ستم کا نشانہ بناتے رہے اور لاکھوں لوگوں کا قتلِ عام کرتے رہے وہ مغرب کی سیاہ تاریخ کا حصہ ہے۔اس کے باوجود پاکستان کے حکمران اور ایک مخصوص طبقہ مغرب کے متعلق یہ نقطہ نظر رکھتا ہے کہ وہ اخلاق اور تہذیب میں مسلمانوں سے بہت بہتر ہے۔ چنانچہ ہمیں معاشرے میں ایسے لوگ مل جاتے ہیں جو مغرب کی اعلیٰ اقدار کے گن گاتے نظر آتے ہیں اورانہیں اپنا رول ماڈل سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک مسلمان معاشرہ اجڈ ، جاہل، گنوار اور تہذیب سے عاری ہے، جبکہ مغربی معاشرے مہذب اور بااخلاق ہیں۔ چنانچہ یہ لوگ مغرب کی نقالی کرنے میں کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں اور ان کے نزدیک ایسا کرنا ،مہذب اورپڑھا لکھا ہونے اورروشن فکری کی علامت ہے۔
ان لوگوں کے مغرب سے متاثر ہونے کی ایک وجہ ان کی مادی ترقی ہے۔ بلند و بالا عمارتیں، سائنسی ایجادات، مستحکم حکومتوں کی موجودگی، دولت کی فراوانی، مسلم معاشروں کے مقابلے میں مغربی معاشروں میں عوام کے لیے اچھی سہولیات کی فراہمی اور ایک منظم نظام کی موجودگی، انہیں اس سوچ کی طرف لے جاتی ہے کہ مغرب کے لوگ اقدار کے لحاظ سے بھی تیسری دنیا خاص طور پر مسلمانوں سے بہتر ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مغرب ایجادات اور مادی ترقی کے لحاظ سے مسلم ممالک سے کہیں آگے ہے۔ اور یہ ممالک اس قابل ہیں کہ اپنے مسائل کو حل کرنے کے لیے اقدامات کریں اور کسی دوسری قوم کی طرف رجوع کرنے کی بجائے خود سے اس کے متعلق غور و فکر کریں۔ تاہم اس کی وجہ یہ نہیں کہ مغرب کے لوگ انسانی صلاحیتوں کے لحاظ سے باقی دنیا کے انسانوں سے بہتر ہیں یا ان کی تہذیب اور اقدار ہم سے بہتر ہے۔ایسے ممالک کہ جن کے پاس ایک ایسا نظریہ موجود ہو کہ جس میں سے انسانی مسائل کے کے حل نکلتے ہوں ان میں ہمیں یہ صفت نظر آئے گی۔ ماضی میں سوویت رشیا کی بھی یہی صورتِ حال تھی کہ جہاں سوشلزم کے نظریے کے نفاذ نے مادی ترقی اورخوشحالی کو جنم دیا۔مگر ایک نظریئے کی بنیاد پر انسانی مسائل کو حل کرنے اور ان حل کے درست ہونے اور انسانی فطرت سے مطابقت رکھنے میں فرق ہے۔ حقیقت یہ ہے مغربی تہذیب جس سرمایہ دارانہ آئیڈیالوجی کی بنیاد پر استوار ہے،اس میں سے نکلنے والے زندگی کے مسائل کے حل کا نفاذ مزید مسائل کو جنم دیتا ہے ۔یہ کیونکر ہےیہ بحث آج کے موضوع سے الگ ہے، جس پر پھر کبھی بات ہو گی۔ جو چیز موضوع گفتگو ہے وہ یہ ہے کہ مغرب کی سرمایہ دارانہ آئیڈیالوجی بذاتِ خودمغرب کے اخلاقی و تہذیبی دیوالیہ پن کی بنیادی وجہ ہے۔
اس سے پہلے کہ ہم مغربی تہذیب کی گراوٹ اور مغرب کی سرمایہ دارانہ آئیڈیالوجی کے ساتھ اس کے فکری تعلق کو بیان کریں ۔ پہلے اس کنفیوژن کو واضح کر دیا جائے جو کہ مغرب کے بعض لوگوں کے حسنِ سلوک اور خیرات اور رفاحی کاموں کی وجہ سے بعض لوگوں کو ہو جاتی ہے۔ یہ لوگ بل گیٹس جیسی مثالیں پیش کرتے ہیں،کہ فوربز میگزین کے مطابق 2013میں بل گیٹس اور اس کی بیوی نے 2.65ارب ڈالر بیماریوں سے بچاؤ اور تعلیم کی بہتری کے لیے خیرات کے طور پر دیے ۔ میگزین کے مطابق بل گیٹس اور اس کی بیوی اپنی پوری زندگی میں 30.2 ارب ڈالرکی خطیر رقم خیرات کے طور پر خرچ کر چکے ہیں جو ان کی دولت کا 37فیصد بنتا ہے۔ اسی طرح فیس بک کے کو فاونڈراور سی ای او مارک زکر برگ نے 2013میں خیرات کے طور پر 991ٍملین ڈالر خرچ کیے۔ ایسی مثالوں کو پیش کر کے یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ اگر مغرب کے لوگ مادہ پرست اور تہذیبی لحاظ سے اس قدر ہی برے ہیں تو پھر ہمیں یہ مثالیں کیوں نظر آتی ہیں۔
اس بحث میں جائے بغیر کے مندرجہ بالا انفرادی مثالوں میں انسانیت کی بہتری اور غریبوں کے مسائل کے حل کے لیے اخلاص کا جذبہ کس حد تک کارفرما ہے اور کس حد تک یہ دولت واقعی غریب لوگوں کے ہاتھوں میں ہی پہنچتی ہے،یہاں یہ سمجھنا ضروری ہےکہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو ایک ہی فطرت پر پیدا کیا ہے۔ جس طرح ہر انسان کو دو آنکھیں ، ناک ، کان اور ہاتھوں سے نوازا ہے ، اسی طرح ہر انسان کے اندر کچھ جبلتیں اور عضویاتی حاجات بھی رکھیں ہیں۔ کوئی انسان بھی سانس لیے بغیر، کھانا کھانے بغیریا پانی پئے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ یہ اس کی عضویاتی حاجات ہیں۔ اسی طرح ہر انسان کے اندر تین جبلتیں موجود ہیں۔ جبلتِ بقا کہ جس کا اظہار مختلف شکلوں میں ہوتا ہے ، جیسا کہ ہر انسان چاہتا ہے کہ اس کے پاس دولت و آسائش کی چیزیں ہوں، اگر وہ میچ کھیل رہا ہے تو وہی جیتے، بحث کے دوران اس کی دلیل حاوی ہو، یہ سب جبلتِ بقا کے اظہار کی مختلف صورتیں ہیں۔ اسی طرح ہر انسان کے اندر جبلتِ نوع بھی موجود ہے جو کہ اسے اس چیز کی طرف ابھارتی ہے کہ وہ دوسرے انسانوں کے ساتھ رشتے ناطے بنائے، اپنی جنسی ضرورت کو پورا کرے، اپنے لیے کنبہ بنائے ،اپنے والدین، بیوی بچوں پر خرچ کرے۔ایک انسان دوسرے انسان کو تکلیف میں دیکھ کر بے چینی محسوس کرتا ہے اور اس کے اندر اس انسان کو اس مصیبت سے نجات دلانے کے جذبات ابھرتے ہیں۔ ان جبلتوں اور جذبات کے لحاظ سے تمام انسان برابر ہیں۔ خواہ یہ مغرب کا انسان ہو یا مغرب کا۔ کسی انسان کا زندہ جل جانا، ڈوب کر مر جانا، غربت و افلاس کے ہاتھوں خود کشی کر لینامشرق کے انسان کو بھی افسردہ کرتا ہے اور مغرب کے انسان کوبھی۔ اور جس طرح ایک انسان کو مادی قدر کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح اسے انسانی اور اخلاقی قدر کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ اور وہ اسے حاصل کرنے کی کوشش کرتا۔ چنانچہ جس طرح وہ دولت کو حاصل کرکے اطمینان اور خوشی حاصل کرتا ہے اسی طرح وہ کسی ڈوبتے ہوئے کی جان بچانے میں اور کسی غریب کی مدد کرنے میں بھی خوشی محسوس کرتا ہے۔
لیکن یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ انسانی جبلتیں اور ان کی بنا پر جنم لینے والے جذبات کی تدوین ان افکار کی پر ہو تی ہیں، جو کہ کوئی بھی انسان زندگی کے متعلق رکھتا ہے۔ پس ایک مسلمان کے لیے کسی نبی کی توہین ایک انتہائی قبیح اور ہیجان انگیر حرکت ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ مسلم معاشرے میں ایسی حرکت کرنے والے شخص کے لیے کوئی جائے پناہ نہیں۔ کیونکہ مسلمانوں کا عقیدہ انبیاء کے متعلق کچھ افکار فراہم کرتا ہے۔ یہ افکار ایک مسلمان میں پائی جانے والی جبلتِ تدین (worship instinct)کو ایک خاص شکل دیتے ہیں ۔ پس ایک مسلمان کے جذبات ان افکار کے مطابق ہوتے ہیں جو وہ جبلتِ تدین کو پورا کرنے کے متعلق رکھتا ہے۔ جبلتِ تدین ، جبلتِ نوع اور جبلتِ بقا کے علاوہ وہ تیسری جبلت ہے جو کہ ہرانسان میں پائی جاتی ہے۔اور یہ بھی افکار کے ذریعے ہی ریگولیٹ ہوتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ مغرب میں انبیاء کی توہین اتنا سنگین مسئلہ تصور نہیں کیا جاتا کیونکہ مغرب کے نزدیک آزادی اظہارایک درست تصور ہے اور کوئی شخص کسی نبی کے متعلق کوئی بھی تصور رکھنا چاہے تو وہ رکھ سکتا ہے۔ یہ تصور مغرب کے ایک سیکولر شخص کی جبلتِ تدین کو متاثر کرتا ہے اور اس کے اعمال اور طرزِ عمل پر اثر انداز ہوتا ہے۔
چنانچہ جیسا کہ بیان کیا گیاکہ مغرب کے انسان میں بھی جبلتِ نوع موجود ہے جو اسے دوسرے انسانوں کا خیال رکھنے اور ان کے لیے ایثار کرنے اور ان سے حسنِ سلوک کرنے کی طرف ابھارتی ہے۔ مگر سرمایہ دارانہ آئیڈیالوجی سے سے نکلنے والے افکار کو اپنانے کی وجہ سے مغربی معاشرے میں بسنے والے لوگوں کے لیے اپنی زندگی کے لیے آسائشوں کا حصول،اپنے لیے مال و دولت کو جمع کرنا اور انفرادیت پسندی ہر چیز پر حاوی ہے۔کیونکہ سرمایہ دارنہ آئیڈیالوجی ایک مادہ پرستانہ آئیڈیالوجی ہے کہ جو یہ فکر دیتی ہے کہ مادی قدرو قیمت کا حصول ہی کسی بھی انسان کی زندگی کا مقصد ہونا چاہئے ۔ اور مال و دولت و آسائشوں کا حصول ہی خوشی و سعادت کا بنیادی ذریعہ ہے ۔سرمایہ دارانہ معاشی نظام کا صف اول کا مفکر ایڈم سمتھ اپنی دو کتابوں Theory of Moral SentimentsاورThe Wealth of Nationsمیں بیان کرتا ہے کہ اللہ نے اس دنیا کو اس لیے تخلیق کیا ہے کہ انسان اس دنیا کی آسائشوں سے اپنی لیے زیادہ سے زیادہ خوشی حاصل کر سکے۔ اور ہر شخص کی فطرت ہے کہ وہ اپنی بہتری کے لیے ہی کام کرتا ہے۔ جب ہر شخص کو اپنی بہتری کے لیے آزاد ماحول فراہم کر دیا جائے اور حکومت کی مداخلت کم سے کم ہو تو معاشرے کے مفادات کا تحفظ خود بخود ہو جائے گا۔ اخلاق کو قوانین کے ذریعے ریگولیٹ نہیں کیا جانا چاہئے بلکہ لوگوں کو اس معاملے میں آزاد چھوڑ دینا چاہئے۔ اور کوئی بھی مذہب جو عقائد و رسومات(مذہبی قانونی ضابطوں) کو اخلاق پر ترجیح دیتا ہے وہ قابلِ مذمت ہے اور ایک مہذب اور پر سکون معاشرے کے لیے خطرے کا باعث ہے۔ چنانچہ یہ آئیڈیالوجی زندگی کے لیے جو پیمانہ مقرر کرتی ہے وہ نفع و نقصان کا پیمانہ ہے کہ ایک انسان کسی بھی عمل کوکرتے وقت جس چیز کو مدِ نظر رکھے وہ یہ ہے کہ آیا یہ عمل اس کی ذات کے لیے کس حد تک فائدے کا باعث ہے، خواہ یہ کاروبار ہو ، ذاتی تعلقات ہوں حتیٰ کہ اخلاق بھی۔ چنانچہ اگر کسی جگہ پر اخلاق دکھانا نفع بخش ہے تو وہاں خوش اخلاقی اور ایمانداری دکھائی جائے گی اور جہاں پر اخلاق دکھانا مادی نقصان کا باعث ہو وہاں اخلاق ، رشتوں ناطوں کی پرواہ نہیں کہ جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ مغرب کے معاشرے میں اخلاقیات کی حیثیت ہمیشہ ثانوی ہی رہتی اور جب تک سرمایہ داریت کی آئیڈیالوجی مغرب میں نافذ ہے مغربی معاشرہ اس صورتِ حال سے چھٹکارہ حا صل نہیں کر سکتا۔
سرمایہ دارانہ آئیڈیالوجی کا بنیادی عقیدہ سیکولرازم ہے ۔ جو دین کو ایک شخص کی ذاتی زندگی تک محدود کر دیتا ہے۔ اور یہ قرار دیتا ہے کہ انسان خود اپنی عقل سے اپنے لیے نظام بنائے گا۔ جو اس بات کا اظہار ہے کہ انسان کی عقل اس بات کا تعین کر سکتی ہے کہ معاشرے میں کیاچیز جائز یا قانونی ہونی چاہئے اور کیا چیز ناجائزاور غیر قانونی۔ گویا انسانی عقل ہی اس چیز کو طے کرے گی کہ کیا چیز معاشرے کے لیے اچھی ہے اور کیا چیز بری ۔پس مغرب کے نزدیک انسانی عقل اس چیز کا تعین بھی کر سکتی ہے کہ اچھا اخلاقی طرزِ عمل کیا ہے اور برے اخلاق کیا ہیں۔ معاشرے کے لیے اچھی یا برے اقدارکا تعین کرنے کے لیے مذہب سے رہنمائی لینے کی ضرورت نہیں۔ لیکن انسانی عقل سے جنم لینے والی اس آئیڈیالوجی نے مغرب میں کس طرح تہذیبی گراوٹ کو جنم دیا ہے، آئیے اس کا ایک مختصر جائزہ لیتے ہیں۔
مغرب کی گراوٹ ان کے معاشرتی نظام میں سب سے نمایاں ہے۔ بچوں کے ساتھ برے سلوک کی بات پاکستان کے معاشرے کے متعلق بہت کی جاتی ہے لیکن جب ہم مغرب کے معاشرے کا جائزہ لیتے ہیں تو اس ضمن میں مغرب کا معاشرہ نہایت بھیانک صورت حال پیش کرتا نظر آتاہے۔ 11جنوری 2014ء کو ایسوسی ایٹد پریس نے رپورٹ کیا کہ امریکی ریاست فلوریڈا میں پولیس نے25سالہ شخص کو گرفتار کر لیا ہے جس نے طیش میں آ کر اپنی بچی کو پل سے نیچے پھینک کر ہلاک کردیا۔ 30 دسمبر2014کو رائٹرز نے رپورٹ کیا کہ فلوریڈا میں ہی پولیس نے ایک جوڑے کو قتل کے الزام میں گرفتار کیا ہے جس نے اپنی نوزائدہ بیٹی کو کھانے پینے کو کچھ نہیں دیا اور وہ بھوک و فاقے سے مر گئی جب کہ اس کی عمر صرف 22 دن تھی۔ 21دسمبر2014 کو رائٹرز نے رپورٹ کیا کہ آسٹریلیا میں ایک عورت نے اپنے سات بچوں اور ایک بھتیجی کو مار ڈالا ، ان بچوں کی عمریں 2سے 14 سال کے درمیان تھیں۔ 5نومبر2014کو ایسوسی ایٹد پریس نے رپورٹ کیا کہ نیویارک پولیس نے ایک کروڑ پتی عورت کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے جس کے خلاف الزام ہے کہ اس نے فروری 2010میں اپنے 8 سالہ بیمار بیٹے کو دوائی کی بہت زیادہ مقدار دے کر موت کے گھاٹ اتار دیا ۔ 30 اکتوبر 2014کو ایسوسی ایٹد پریس نے رپورٹ کیا امریکی ریاست پنسلوانیا میں ایک شادی شدہ جوڑے کے خلاف قتل کا مقدمہ شروع کیا گیا ہے کیونکہ اس نے اپنے 9سالہ بیمار بچے کو کھانے کو کچھ نہیں دیا اور وہ اس وجہ سے ہلاک ہو گیا ۔ اس نو سالہ بچے کا وزن کم ہو کر صرف 17 پاؤنڈ رہ گیا تھا ۔ پولیس کو یہ بچہ اس حال میں ملا کہ اس کی لاش ایک چادر میں لپٹی ہوئی باتھ روم میں پڑی تھی ۔ 19اکتوبر 2014کو رائٹرز نے رپورٹ کیا کہ نیویارک سٹی میں ایک 20سالہ شخص نے اپنی 3 سالہ بیٹی کو صرف اس وجہ سے گلا گھونٹ کراور چھری کے وار کر کے مارڈالا کہ اس نے اپنی پینٹ میں ہی پاخانہ کر دیا تھا۔ قائرین یہ وہ اندوہ ناک واقعات ہیں جو محض پچھلے چار ماہ کے دوران خبروں میں آئے، اصل واقعات کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔یہ ہے مغرب کے معاشرے کی تصویر کی ایک جھلک جہاں سرمایہ دارانہ آئیڈیالوجی نے اس حد تک انفرادیت اور ذاتی خوشی کے حصول کو معاشرے پر حاوی کر دیا ہے کہ بچوں کی پرورش اور دیکھ بھال والدین کو ایک بوجھ محسوس ہو تا ہے ۔ اور وہ اسے اپنی زندگی کے خوشیوں میں رکاوٹ سمجھتے ہیں۔ اور جہاں تک پاکستان کے معاشرے میں بچوں کے ساتھ برے سلوک کا تعلق ہے تو اس کی وجوہات مغرب کے معاشرے سے یکسر مختلف ہیں ۔ پاکستان میں بچوں کے ساتھ بد سلوکی کے اکا دکا واقعات کی اہم وجہ بچوں کی تعلیم و تربیت سے متعلق افکاراور شعور کی کمی اور بچوں کے ساتھ سخت گیر رویے کے درست ہونے کا تصور ہے۔ مشکل مالی حالات ، زندگی کے بے شمار مسائل سے دوچار ہونے اور نظام کی طرف سے کسی بھی قسم کی سپورٹ اور رہنمائی کے فقدان کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ مسلم معاشرے میں بچوں کے ساتھ اچھا سلوک کیا جاتا ہے اور ان کی دیکھ بھال پر توجہ دی جاتی ہے اور یہ سب اس وجہ سے ہے مسلم معاشرے اسلام کی دولت سے مالامال ہیں ۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
((لیس من امت من لم یجل کبیرنا ویرحم صغیرنا))
''وہ شخص میری امت میں سےنہیں جوہمارےبڑوں کی عزت کونہ جانےاورہمارےچھوٹوں پررحم نہ کرے"۔
جہاں تک نظامِ حکومت اور سیاست دانوں کے طرزِ عمل کا تعلق ہے توعام طور پر پاکستان کے عوامی نمائندوں پر اٹھنے والے ریاستی خرچ کی خبریں وقتاً فوقتاً میڈیا کی زینت بنتی رہتی ہیں کہ کس طرح عوام کے خون کو نچوڑ کر جمع کیے جانے والے ظالمانہ ٹیکس کو بے دردی سےپاکستان کے امیر سیاست دانوں پر دونوں ہاتھوں سے لٹایا جاتا ہے۔اور بعض لوگوں میں یہ تائثر پیدا ہوتا ہے کہ مغرب کے عوامی نمائندوں کی صورتِ حال ایسی نہیں ۔ لیکن حقیقت اس کے بر عکس ہے۔ امریکی کانگریس بھی اسی طرح امیروں لوگوں کا ٹولہ ہے جیسا کہ پاکستان کی پارلیمنٹ اور سینٹ کی صورتِ حال ہے۔ امریکہ کے آدھے سے زیادہ عوامی نمائندوں کی دولت ایک ملین ڈالر سے زیادہ ہے اورامریکی کانگریس کے دوسوممبران ایسے ہیں جو multi millionaireہیں۔جبکہ پچھلے دو الیکشن کے دوران صرف 13 ایسے لوگ امریکی کانگریس کا حصہ بنے جن کا پس منظر ورکر کلاس سے تھا۔ ایک امریکی کانگریس مین کی سالانہ تنخواہ 174000ہے۔ Weekly Standard Magazineکی رپورٹ کے مطابق امریکی سینٹ کے سو ممبران نے پچھلے پندرہ سالوں کے دوران 5.25ملین ڈالر بالوں کی کٹائی پر خرچ کیے۔ جبکہ ایک سال کے دوران ان کا ذاتی اور دفتری خرچہ 4005900ڈالر تھا۔ یہ صورتِ حال بھی براہِ راست سرمایہ دارانہ آئیڈیالوجی کے نفاذ کا نتیجہ ہے۔ جہاں یہ آئیڈیالوجی ایک شخص کو زندگی کا یہ مقصد دیتی ہے کہ وہ مال و دولت کو اکٹھا کرنے اور اپنی ذاتی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے جئے ، وہاںوہ ایسا حکومتی نظام بھی فراہم کرتی ہے کہ جس کے ذریعے مادہ پرست افراد اپنی دولت میں بے پناہ اضافہ کر سکتے ہیں ۔ اس آئیڈیالوجی سے پھوٹنے والا جمہوری نظام اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ منتخب اراکین اپنے مفادات کے مطابق قوانین میں ردو بدل کر کے اپنی اور اپنےساتھیوں کی جیبیں بھر سکیں۔ جہاں جہاں جمہوریت موجود ہے وہا ں وہاں اشرافیہ کے ایک مختصرٹولے نے قوانین کو اس انداز سے ترتیب دیاہے کہ جس کے ذریعے وہ ایسے اثاثوں کے مالک بن گئے جن سے بے پناہ دولت حاصل ہوتی ہے جیسا کہ بجلی، تیل، گیس اور معدنیات کے ذخائر، بھاری صنعتیں اور اسلحہ سازی کی صنعتیں ۔
جہاں تک مغرب کی کاروباری ایمانداری کا تعلق ہے ، تو امریکہ سے جنم لینے والا 2008کامالیاتی بحران جس نے یورپ کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا، اس بات کا ثبوت ہے کہ کس طرح سرمایہ دار کمپنیاں لوگوں کے اعتماد سے کھیلتی ہیں، انہیں اندھیرے میں رکھتی ہیں اور غلط معلومات فراہم کر کے ان سے پیسے بٹورتی ہیں۔ 2010میں Goldman Sachsکمپنی نے اس چیز کو قبول کیا کہ وہ 550ملین ڈالرجرمانے کے طور پر ادا کر ے گی کیونکہ اس نے جان بوجھ کر اپنے انویسٹرز کو دھوکہ دیا ہے۔ پچھلے سال رائل بینک آف سکاٹ لینڈ نے 150ملین ڈالر ادا کرنا قبول کیا، اس پر الزام تھا کہ 2007 میں اس نے 2.2ارب ڈالر کے mortagage-backed bondکو فروخت کرنے کے لیے شارٹ کٹ کے طور پر ناجائز ذرائع استعمال کیے ۔ بینک کے خلاف اس چیز کے متعلق بھی تحقیق ہو رہی ہے کہ اس نے جان بوجھ کر چلتے ہوئے کاروباروں کو دیوالیے سے دوچار کیا تاکہ ان کے اثاثوں کو کوڑی کے داموں خرید سکے۔ اکتوبر 2013 میں ڈان نے گارڈین کے توسعت سے یورپ میں گوشت میں ملاوٹ کا سکینڈل رپورٹ کیا۔ایگلو آئرش پروسیسر کمپنی یورپ کی سب سے بڑی گائے کا گوشت سپلائی کرنے والی کمپنی ہے۔ ہر ہفتے 50ملین یورپین اس کمپنی کا پروسیس کردہ گوشت استعمال کرتے ہیں ۔اس کمپنی کے گوشت میں گھوڑے کے گوشت کی ملاوٹ پائی گئی۔ یہ کمپنی ہالینڈکے بزنس مین ٍSeltenسے گوشت خرید رہی تھی جو گائے کے گوشت میں گھوڑے کے گوشت کی ملاوٹ کا دھندا کر رہا تھا۔ Seltenکمپنی کے لیے کام کرنے والے ایک ملازم نے گارڈین کو انٹرویو کے دوران بتایا کہ وہ سپلائی کے دوران پرانا ڈی فراسٹ ہوا بیف بھی مکس کرتے تھے اور بعض اوقات یہ گوشت اتنا پرانا ہوتا تھا کہ اس کی رنگت سبز ہو چکی ہوتی ۔ دسمبر 2014 میں واشنگٹن پوسٹ نے ایک رپورٹ شائع کی کہ جس میں بیان کیا گیا ہے کہ کس طرح امریکی ملٹی نیشل کمپنیوں نے ٹیکس بچانے کے لیے اپنے قانونی ایڈریس کیمن جزیرہ، لکسمبرگ، برمودہ وغیرہ میں منتقل کر رکھے ہیں جہاں ٹیکس یا تو انتہائی کم ہے یا بالکل صفر ہے۔ اس کے لیے وہ کسی چھوٹی سے کمپنی کے ساتھ اپنا mergerبناتی ہیں اور پھر اس کمپنی کے لیے ایسے ممالک کا پتہ رجسٹر کرواتی ہیں جہاں ٹیکس کی شرح بہت کم ہے۔ ایک اندازے کے مطابق یوں یہ کمپنیاں 100ارب ڈالر ٹیکس کی مد میں چوری کر رہی ہیں۔
جہاں سرمایہ دارانہ آیئڈیالوجی سے جنم لینے والی مادیت پرستی نے ایک عام انسان، حکومتی اشرافیہ و سیاستدانوں کی فطرت کو مسخ کیا ہے وہاں مغرب کا مذہبی طبقہ بھی اس کے زہریلے اثرات سے محفوظ نہیں۔جنوری 2012میں کیتھولک چرچ کا سکینڈل منظر عام پر آیا جسے Vatileak Scandalکا نام دیا گیا ۔ پوپ بینی ڈکٹ کے بٹلر Paolo Gabrieleنے ویٹیکن کی خفیہ دستاویزات لیک کیں جن میں وہ خطوط بھی شامل تھے جو پوپ بینی ڈکٹ اور ویٹیکن کے دیگر عہدیداروں کو ویٹیکن کے اندرونی معاملات کے متعلق مختلف لکھے گئے تھے۔ یہ دستاویزات ویٹیکن طاقت کی کشمکش، سازشوں، دھڑے بندیوں اور مالیاتی کرپشن کی منظر کشی کرتی ہیں۔ان معلومات کو بنیاد بنا کر اٹلی کے صحافی نے ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام : His Holiness: The Secret Papers of Benedict XVIہے۔ جس میں چرچ کی کرپشن کا پرہ چاک کیا گیا ہے ۔ 24اکتوبر 2013 کو رائٹرز نے رپورٹ کیاکہ پوپ فرانسس نے جرمنی کے بشپ کو اس کے علاقے کی ذمہ داری سے سے ہٹا دیا ہے کیونکہ اس نے چرچ کے فنڈ میں سے 31ملین یورو محض اپنی رہائش گاہ کی تزئین و آرائش پر خرچ کیےتھے۔ جائزے کے مطابق گھر کے باتھ روم میں لگے ہوئے سٹینڈنگ باتھ کی مالیت 15000یورو ہے، جو کہ پاکستانی روپے میں 17لاکھ پچاسی ہزار روپے بنتی ہے۔ جبکہ گھر میں رکھی گئی کانفرنس ٹیبل25000یورو(29لاکھ 75ہزار روپے) کی ہے۔ اس شاہ خرچی کی بنا پر جرمنی کے بشپ کو میڈیا میں "luxury bishop"کا خطاب دیا گیا۔
اور وہ مغرب جو مسلم معاشروں پر عورتوں کے ساتھ بد سلوکی ، تشدد اور عدم برداشت کا الزام لگاتا ہے اور اس بنیاد پر پوری دنیا میں واویلا مچاتا رہتا ہے، خود اس کے اپنے معاشرے کی صورتِ حال کیا ہے اس کا پول یورپی یونین کی بنیادی حقوق کی ایجنسی(FRA)کا سروے کھول کر بیان کرتا ہے۔ یہ سروے 2014 میں 28 یورپی ممالک میں کیا گیا، جس میں 42000عورتوں کے انٹرویو لیے گئے جن کی عمریں 18 سے 74 برس کے درمیان تھیں۔ سروے کے مطابق ہر دس میں سے ایک عورت کو15سال کی عمر کے بعد جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا، ہر بیس میں سے ایک عورت کی عزت مرد کے ہاتھوں تار تار ہوئی ، اور ہر پانچ میں سے ایک عورت کو اپنے خاوند یا پارٹنر کے ہاتھوں جسمانی ظلم و تشددکا سامنا کرنا پڑا۔ رپورٹ کے مطابق صرف 14 فیصد عورتیں ان زیادتیوں کے متعلق پولیس کو رپورٹ کرتی ہیں ۔ یہ رپورٹ اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ وہ معاشرہ جو مرد و عورت کو برابر کے حقوق دینے کا دعویٰ کرتا ہے وہاں کی عورت کتنی مظلوم ہے۔
سرمایہ دارانہ آئیڈیالوجی یہ تصور دیتی ہے کہ انسان کو اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے آزاد چھوڑ دینا ہی خوشی اور اطمینان کی ضمانت ہے۔ پس ہر انسان کو عقیدہ، رائے کے اظہار،ملکیت اور ذاتی زندگی میں مکمل آزادی حاصل ہونی چاہئے اور اس پر کوئی قدغن یا روک ٹوک ہونا درست نہیں۔ خاص طور پر مذہب کی بنیاد پر ایسا کرنا تو دقیانوسیت اور پسماندگی ہے۔ لیکن یہ آئیڈیالوجی انسان کو خوشی اور اطمینان کی فراہمی میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔ اس کا اندازہ ان اعداد و شمار سے ہوتا ہے جو مغرب کے صحت کے ادارے اپنے معاشرے میں ڈپریشن Depressionکے لیے استعمال ہونے والی ادویات کے متعلق فراہم کرتے ہیں۔ امریکہ میں اس وقت ادویات کے استعمال کے لحاظ سے امراض قلب کی دوائیں سرفہرست ہیں۔ اس کےبعددوسرا نمبر ڈپریشن کے لیے استعمال ہونے والی ادویات کا ہے۔ اور ایک اندازے کے مطابق 2020تک ڈپرشن کے لیے استعمال ہونے والی ادویات پہلے نمبر پر آجائیں گی۔
قارئین یہ ہے مغرب کے معاشرے کا اصل چہرہ جسے ہم سے اوجھل رکھا جاتا ہے۔ اور ہمارے سیاست دان ، حکمران اور لبرل طبقہ رٹو طوطے کی طرح دن رات مغرب کے گن گاتے رہتے ہیں تاکہ ہم نہ صرف یہ کہ مغرب کی سیاسی بالادستی کو قبول کر لیں بلکہ مغرب کی اس ذلت آمیز غلامی کا طوق اپنے گلے میں ڈالنے پر فخر محسوس کریں۔
آج مغرب سمیت پوری دنیا کو اسلام کی آئیڈیالوجی اور اس سے پھوٹنے والے نظامِ خلافت کی ضرورت ہے جس نے ماضی میں بھی انسانیت کو اعلیٰ اقدار اور تہذیب و اخلاق سے بہرہ ور کیا اور آج بھی اسلام کی آئیڈیالوجی ہی مغرب کی پست اور ناقص تہذیب کا متبادل فراہم کر سکتی ہے۔
ڈاکٹر افتخار