الإثنين، 23 جمادى الأولى 1446| 2024/11/25
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية
Super User

Super User

شام کو بچانے کا روڈ میپ "کے جواب میں : ہم اپنے لیے روڈ میپ خود بنائیں گے اور اپنی قربانیوں کے نتیجے میں نبوت کے طرز پر خلافت راشدہ قائم کر لیں گے

ملک سے باہر بیٹھی  شامی اپوزیشن ،(اور اس کے ساتھ کچھ جنگجو گروہ)اور وہ لوگ جوکے شام کی مجرم حکومت سے  منسلک ہیں شام کے مستقبل کی حکومت کے بارے میں ترجیحات کے حوالے سے مفاہمت پر پہنچ گئے ہیں۔  وہ "شام  کو بچانے کا روڈ میپ " پر معاہدہ کرنے کے لیے اس مہینے کے آخر میں 26 سے 29 کے درمیان  ماسکو جانے سے پہلے وفود کی تشکیل پر اتفاق کر لیا ہے، جہاں جنیوا (1) شقوں  کے مطابق  فیصلے ہوں گے اوریہ تین مہینے کے اندر ہوں گے۔ یہ بھی فرض کیا گیا ہے کہ بین الاقوامی اور علاقائی مفاہمت بھی اقوام متحدہ کی قرارداد کی شق نمبر چھ کے تحت ہوگی  جس میں بین الاقوامی   نگرانوں کی بات  بھی شامل ہوگی۔ اس مفاہمت کے تحت  عبوری ادارے کی تشکیل کی تجاویز بھی ہیں جس میں "عبوری حکومت"بھی شامل ہے جو   موجودہ دستور  کے مطابق   وزیر اعظم اور  جمہوریہ کے سربراہ کے اختیارات استعمال کرسکے گی ، اس کے ساتھ "ملٹری کونسل" بھی ہوگی جو دونوں گرپوں میں  برابر تقسیم ہوگی  تا کہ اس کے ذریعے  سیکیورٹی کے ڈھانچے کو بحال کیا جائے اور سرکاری فوج سے منحرف ہونے والوں کو دوبارہ شامل کر کے "آئی ایس آئی ایس" تنظیم  کے خلاف لڑا  جائے۔

اے عزت والے شام کے مسلمانوں ! بے شک کافر مغرب اور ایجنٹ حکومتوں اور سیاسی گروپوں میں سے اس کے آلہ کار  جو جھوٹ اور بہتان کے ذریعے اپنے آپ کو شام کے مسلمانوں کا نمائندہ کہتے ہیں حکومت کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے سیاسی حل چاہتے ہیں  اور شام کے مسلمانوں کو اس ناگفتہ بہ صورت حال سے نکلنے کے لیے اپنے چنے ہوئے راستے سے ہٹانا چاہتے ہیں۔ اگر کافر مغرب اس سرکش حکومت کی پشت پر نہ ہو تا  اور وہی ہر قسم کے وسائل  اور اسالیب سے  شام کی مبارک تحریک  کو نہ روکتا تو یہ اس کے سامنے  ڈٹنے کے قابل نہیں  تھی اور اب تک یہ سرکش اپنے گنہگار ہاتھوں کے کیے کی سزا بھگت چکا ہوتا۔

ہم پوچھتے ہیں ؟ان گروپوں کو کس نے ہمارے شہداء کے خون، ہماری پاک دامن خواتین کی آہ و بکا اور ہمارے بچوں کی چیخ و پکار پر مذاکرات کا حق دیا ہے؟کیا یہی  ماسکو   انتہائی بے شرمی  اور بدمعاشی سے اس مجرم حکومت  کے شانہ بشانہ کھڑا نہ  تھا اور اس کو ہر قسم کا اسلحہ فراہم کرتا تھا جس سے وہ آج تک ہر روز ہمیں مار رہا ہے اور اس کے عسکری ماہرین  ہمیں ذبح  کرنے کے منصوبے بنا رہے ہیں؟کیا یہ وہی ماسکو نہیں جس نے چیچنیا اور افغانستان میں  مسلمانوں کو ذبح کیا ؟کیا ماسکو  اور اس کا پشت بان کافر مغرب  بحران  کا کوئی ایسا حل نکالے گا جو مجرم بشار کے حق میں اور ہماری قربانیوں اور ہمارے شہداء کے خون کی قیمت پر نہ ہو؟بلکہ وہ تو ان مذاکرات کے ذریعے اسی مجرم حکومت   کوبحال کرنے کی کوشش  کرے گا جس نے شام کے مسلمانوں کو تکالیف اور مصائب کے سوا کچھ نہیں دیا ،اسی کو ایسے طریقے سے واپس لا یا جائے گا کہ اس کے اور اسلام دشمنوں کے مفادات پورے ہوں۔ جمہوریہ کے سربراہ کے اختیارات کے ساتھ عبوری حکومت  کے قیام سے کوئی تبدیلی نہیں آئے گی بلکہ وہ بھی اس سرکش کی طرح ہی ایک خائن اور ایجنٹ حکومت ہو گی۔اس دستاویز کو لکھنے والوں نے  دہشت گردی کے پردے  میں اسلام کے خلاف جنگ  کو اپنے آقا  کافر مغرب کی خوشنودی کے لیے چھپایا بھی نہیں۔  اب ہر شخص یہ جانتا ہے کہ  دہشت گردی کے خلاف جنگ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جنگ ہے یہ ہر اس شخص کے خلاف جنگ ہے جو امریکہ  اور اس کے کارندوں کے اشاروں پر نہ ناچے۔

اے شام کے مسلمانو ! اللہ اپنی کتاب عزیز میں فرماتا ہے ،

وَلَنْ تَرْضَى عَنْكَ الْيَهُودُ وَلَا النَّصَارَى حَتَّى تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ

"یہو د اور نصاریٰ اس وقت تک ہر گز تم سے راضی نہیں ہوں گے جب تک تم  ان کی ملت کی پیرو نہ کرو"(البقرہ :120)۔

کیا تم اپنے اور اپنے دین کے دشمنوں کے ساتھ بیٹھنے پر راضی ہو گے؟ کیا تم ان کو اجازت دو گے کہ وہ تمہارے مستقبل کے لیے روڈ میپ  اور طرز زندگی  کا تعین کریں ؟اللہ کی قسم یہ تو  کھلا نقصان ہو گا ۔ ہم حزب التحریروہ قائد جو اپنے لوگوں سے جھوٹ نہیں بولتا  تمہیں ہمارے ساتھ ایک ہی صف میں ہر اس شخص اور گروہ کے خلاف  کھڑے ہونے کی دعوت دیتے ہیں  جو ہمارے شہداء کے خون کی قیمت پر مذاکرات کرنے کی کوشش کر تا ہے۔ ہم ہر سازشی سے کہتے ہیں :ہم خود اپنا روڈ میپ کھینچیں گے  اور اپنی قربانیوں کے نتیجے میں خلافت راشدہ علٰی منہاج النبوۃ قائم کر لیں گے اور اپنے رب کو راضی اور دشمن کے اندر آگ لگا دیں گے۔اللہ فرماتا ہے ،

قُلْ إِنَّ هُدَى اللَّهِ هُوَ الْهُدَى وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُمْ بَعْدَ الَّذِي جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَكَ مِنَ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلَا نَصِير

"اللہ کی ہدایت ہی حقیقی ہدایت ہے اگر تم نے ان کی خواہشات کی پیروی کر لی  بعد اس کے کہ تمہارے پاس علم آچکا تو اللہ کے مقابلے میں تمہارا کو کارساز اور مدد گار نہیں ہو گا"(البقرۃ:120)

 

احمد عبدالوہاب

ولایہ شام میں حزب التحریر

کے میڈیا آفس کے سربراہ

راحیل-نواز حکومت اور میڈیا میں ان کے ایجنٹ حزب التحریر کے خلاف مسلسل جھوٹ بول رہے ہیں

حزب التحریر ولایہ پاکستان راحیل-نواز حکومت کی جانب سے حزب پر لگائے جانے والے الزامات اور خصوصاً 16 جنوری 2016 کو "دی نیوز" اور "جنگ" میں عامر میر کی رپورٹ "حزب التحریر کے داعش کے ساتھ تعلقات کی چھان بین" میں لگائے گئے الزامات کو مسترد کرتی ہے۔

نیشنل ایکشن پلان جو دراصل امریکی ایکشن پلان ہے اور اس کا مقصد خطے میں امریکی مفادات کے حصول کو یقینی بنانا ہے۔ اس پلان کے تحت راحیل-نواز حکومت نے حزب التحریر کو نشانہ بنانے کے عمل میں اضافہ کردیا ہے۔ پچھلے حکمرانوں کی طرح ، حزب کی سیاسی و فکری اسلامی تحریک کا جواب موجودہ راحیل-نواز حکومت بھی حزب کوکلعدم قرار دے کر، طاقت یعنی گرفتاریاں، تشدد اور جھوٹے پروپیگنڈے کے ذریعےہی دے رہی ہے۔ اس حکومت کی جانب سے حزب کےخلاف تازہ ترین جھوٹے الزامات کوئی نئے الزامات نہیں ہیں بلکہ پرانےالزامات جیسا کہ حزب کے عسکریت پسندوں سے تعلقات ہیں، اس کا ہیڈکواٹر برطانیہ میں ہے، باہر سے فنڈز لیتی ہے، سیکوریٹی خطرہ ہے وغیرہ وغیرہ کو ہی دوبارہ دہرایا گیا ہے۔

ہم اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ ان الزامات کا جواب دینے سے سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں پراور نہ ہی میڈیا میں موجود ان کے ایجنٹوں پر کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ وہ سیاسی و اخلاقی طور پر بانجھ ہیں۔ ان کے لئے صرف اللہ سبحانہ و تعالٰی ہی کافی ہیں۔ ان جھوٹے الزامات کا یہ جواب ہم ان کے لئے قطعاً نہیں دے رہے۔ ہمارا یہ جواب ان لوگوں کے لئے بھی نہیں ہے جو پاکستانی معاشرے کے مختلف طبقات سے تعلق رکھتے ہیں اور حزب کو جانتے ہیں کیونکہ وہ ان الزامات کے جھوٹا ہونے کے متعلق پہلے سے ہی اچھی طرح واقف ہیں۔ ہم یہ جواب صرف ان مخلص مسلمانوں کے لئے جاری کررہے ہیں جو میڈیا، سیاست دانوں اور افواج میں موجود ہیں اور جن کے اذہان میں شاید کچھ سوالات ہوں یا وہ اس جھوٹے پروپیگنڈے کی وجہ سے تذبذب کا شکار ہوں۔ اور ہم یہ جواب اس لئے بھی دے رہے ہیں کہ وہ لوگ جو یہ جھوٹ گھڑ اور پھیلا رہے ہیں شاید انہیں اللہ کا خوف آجائے اور وہ اپنے عمل پر اللہ سے معافی مانگ لیں۔ اس سلسلے میں حزب کے موقف کی وضاحت درج ذیل ہے:

1.  حزب ایک مکمل آزاد جماعت ہے جو خلافت راشدہ کے قیام اور اسلام کے نفاذ کے لئے رسول اللہﷺ کے طریقے پر اپنے قیام کے دن سے لے کر آج تک سختی سے کاربند ہے۔ حزب کا طریقہ صرف اور صرف سیاسی و فکری جدوجہد ہے۔ مختلف مسلم ممالک میں جابر حکمرانوں کی جانب سے اس کے خلاف کیے جانے والے بدترین ظلم و ستم کے باوجود حزب نے کبھی بھی اس طریقہ کار سے روگردانی نہیں کی ہے۔ اپنے مقاصد کے حصول کے لئے تشدد اور غیر قانونی طاقت کے استعمال کا راستہ اختیار کرنا راحیل-نواز حکومت کا طرز عمل ہے ناکہ حزب کا۔

2.  حزب کی قیادت برطانیہ میں مقیم نہیں ہے۔ اس کی قیادت انتہائی مشہور و معروف فقہی اور رہنما شیخ عطا بن خلیل الرشتہ کے زیر سایہ مسلم دنیا میں مقیم ہے۔ اس کے علاوہ حزب کی مقامی قیادت بھی پاکستان میں ہی مقیم ہے جس میں پاکستان میں حزب التحریر کے ترجمان نوید بٹ بھی شامل ہیں جنہیں حکومتی ایجنسیوں نے 11 مئی 2012 سے اغوا کر کے اپنی قید میں رکھا ہوا ہے۔ مزید یہ کہ حزب اپنی جماعت سے باہر کسی سے مالی وسائل وصول نہیں کرتی چاہے وہ ملکی ہوں یا غیر ملکی۔

3.  ستم ظریفی تو یہ ہے کہ حزب پر غیر ملکی فنڈنگ کا الزام وہ لوگ لگا رہے جن کا غیر ملکی طاقتوں سے تعلق اور ان سے فنڈنگ لینا ملک کا بچہ بچہ جانتا ہے۔ لوگ جانتے ہیں کہ حزب برطانیہ اور اس کی استعماری پالیسیوں کو برطانیہ اور پاکستان دونوں جگہ چیلنج کرتی ہے۔ لوگ یہ بھی جانتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ یہ راحیل-نواز حکومت اور اس کے سربراہان ہیں جو اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں سے مدد طلب کرتے ہیں اور فخریہ ان سے میڈل اور گارڈ آف آنر وصول کرتے ہیں ۔

4.  حزب کا داعش، القائدہ یا کسی بھی دوسرے گروہ سے، چاہے وہ عسکریت پسند ہیں یا نہیں، کوئی تعلق نہیں ہے۔ بلکہ داعش کے ساتھ تعلق ثابت کرنے کی کوشش تو انتہائی مضحکہ خیز اور احمقانہ ہے کیونکہ حزبنے داعش کی جانب سے اسلامی ریاست کے قیام کو کھلم کھلا مسترد کیا ہے اور ان کی زیادتیوں پر ان کا بھر پور احتساب بھی کیا ہے۔ اس کے علاوہ چند ماہ قبل شام میں حزب کے سینئر رہنما مصطفٰی خیالی داعش کی قید میں تشدد کا شکار ہوئے اور ان کے ہاتھوں قتل کردیے گئے۔ کیا راحیل-نواز حکومت نے حزب کا داعش کے ساتھ کوئی تعلق خواب میں دیکھ لیا ہے؟

5.  راحیل-نواز حکومت کی جانب سے حزب التحریر کو نشانہ بنانے کی وجہ "سیکورٹی مشکلات" نہیں ہیں بلکہ حزب کا اس حکومت کی امریکہ و مغربی طاقتوں کے سامنے غلامی اور اسلام اور امت کے خلاف غداریوں کو بے نقاب کرنا ہے۔ یہ حکومت امریکہ کی نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں افواج پاکستان کو استعمال کر کے پاکستان کو تباہ کررہی ہے۔ اس حکومت نے امریکہ کو اس بات کی اجازت دے رکھی ہے کہ وہ اپنے سفارت خانے اور قونصل خانوں کو پاکستان میں اپنے مفادات کی تکمیل کے لئے استعمال کرے۔ اس حکومت نے ریمنڈ ڈیوس نیٹ ورک کو پاکستان میں کام کرنے، قبائلی علاقوں میں موجود گروہوں میں سرائیت کرنے اور پاکستان بھر میں بم دھماکے اور حملے کروانے اور ان کی منصوبہ بندی کرنے کی آزادی فراہم کررکھی ہے۔ ان تمام غداریوں کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم پشاور اسکول جیسے سانحات کا سامنا کررہے ہیں جہاں ہمارے معصوم بچوں کو اس طرح قتل کردیا جاتا ہے کہ ان کو بیان کرنے کے لئے الفاظ دستیاب نہیں ۔ یہ حزب ہے جو ان تمام غداریوں کو بے نقاب کرتی ہے اور نتیجتاً سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں کے ظلم و ستم کا نشانہ بنتی ہے۔

6.  حزب راحیل-نواز حکومت کی ان گھٹیا حرکتوں اور الزامات سے نہ تو گھبرانے والی ہے اور نہ ہی خلافت کے قیام کی جدوجہد سے دستبردار ہونے والی ہے۔ ہمارا کا م اللہ کی مدد و نصرت سے جاری و ساری ہے اور دن بدن اس میں تیزی آتی جارہی ہے اور ہم صرف اسی کی رضا چاہتے ہیں۔ خلافت کا قیام صرف حزب کا ہدف اور خواہش نہیں اور یہ قائم ہو کر رہے گی چاہے امریکہ، یورپ اور پاکستان میں اس کے ایجنٹ اس کو روکنے کے لئے دنیا بھر میں کتنی ہی سازشیں کیوں نہ کرلیں کیونکہ پاکستان اور پوری دنیا میں بسنے والے مسلمانوں کا یہ مشترکہ ہدف اور خواہش ہے اور اس کا قیام اللہ کی جانب سے امت پر فرض ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ اللہ کا وعدہ ہے اور رسول اللہ ﷺ پہلے ہی امت کو اس کی واپسی کی خوشخبری سنا چکے ہیں۔ یقیناً وہ لوگ بہت ہی بدقسمت ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ اس کام کو روک سکتے ہیں جس کو پورا کرنے کا وعدہ اللہ سبحانہ و تعالٰی اور اس کی پیشگوئی رسول اللہﷺ کرچکے ہیں۔

وَنُرِيدُ أَنْ نَمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الْأَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ الْوَارِثِينَ (•)وَنُمَكِّنَ لَهُمْ فِي الْأَرْضِ وَنُرِيَ فِرْعَوْنَ وَهَامَانَ وَجُنُودَهُمَا مِنْهُمْ مَا كَانُوا يَحْذَرُونَ (•)

"پھر ہماری چاہت ہوئی کہ ہم ان پر کرم فرمائیں جنہیں زمین میں بے حد کمزور کردیا گیا تھا اور ہم انہی کو پیشوا اور (زمین )کا وارث بنائیں۔ اور یہ بھی کہ ہم انہیں زمین میں قدرت و اختیار دیں اور فرعون و ہامان اور ان کے لشکروں کو وہ دکھائیں جس سے وہ ڈر رہیں ہیں"(القصص:6-5)

ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے میڈیا آفس

مغرب کا تہذیبی دیوالیہ پن اور مغرب سے مرعوب لوگوں کا المیہ

 

کچھ عرصہ قبل امریکہ کی سینٹ انٹیلی جنس کمیٹی نے سرکاری طور پر اس رپورٹ کے کچھ حصوں کو شائع کردیا جو کہ نام نہاد "دہشت گردی کے خلاف جنگ" کے دوران بنائے گئے طریقہ کار اور اس کے مطابق امریکی سی۔آئی۔اے کا قیدیوں کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک کے متعلق ہے۔   مکمل رپورٹ تو 6000صفحوں پر مشتمل ہے مگر اس کے صرف 400 صفحات کو شائع کرنے کی اجازت دی گئی ۔   لیکن یہ 400 صفحات بھی مغرب اور اس کی حکومتوں کی درندگی  کو ظاہر کرنے کے لیے کافی ہیں ۔ رپورٹ کے مطابق ان قیدیوں کومسلسل چھ دن تک جگائے رکھا گیا اور انہیں اس بات پر مجبور کیا گیا کہ وہ نیند کے بغیر مسلسل گھڑے رہیں۔اس ذہنی تشدد کے نتیجے میں یہ قیدی نیم پاگل ہو گئے۔    ان میں سے دو قیدیوں کے  پاؤں کی ہڈی ٹوٹی ہوئی تھی مگر انہیں بھی نہیں بخشا گیا۔ ایک قیدی کو یہ گھٹیا دھمکی دی گئی کہ اگر وہ تعاون نہیں کرے گا تو اس کی والدہ کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جائے گا۔"مہذب" امریکہ کی انٹیلی جنس ایجنسی نے واٹر بورڈنگ تکنیک (technique  Water boarding) بھی استعمال کی جو کہ تشدد کا بدترین اسلوب ہے۔  اس تکنیک میں ایک شخص کے ناک اور منہ کو کپڑے سے ڈھانک دیا جاتا ہے اور اس پر بار بار پانی ڈالا جاتا ہے جس سے وہ شخص ایسی کیفیت سے دوچار ہوتا ہے کہ گویا وہ ڈوب رہا ہے۔  رپورٹ کے مطابق خالد شیخ محمد کو 183مرتبہ اس عمل سے گزارا گیا۔

 

یہ ظالمانہ سلوک کوئی نیا نہیں ہے۔  اس سے پہلے عراق کی ابو غریب جیل میں روا رکھنے جانے والے غیر انسانی سلوک کی تصویریں عالمی میڈیا کی زینت بن چکی ہیں۔  اور ماضی میں برطانیہ، فرانس، اٹلی، سپین، پرتگال اپنی کالونیوں میں لوگوں کو جن ظلم و ستم کا نشانہ بناتے رہے اور لاکھوں لوگوں کا قتلِ عام کرتے رہے وہ مغرب کی سیاہ تاریخ کا حصہ ہے۔اس کے باوجود پاکستان کے حکمران اور ایک مخصوص طبقہ مغرب کے متعلق یہ نقطہ نظر رکھتا ہے کہ وہ اخلاق اور تہذیب میں مسلمانوں سے بہت بہتر ہے۔  چنانچہ ہمیں معاشرے میں ایسے لوگ مل جاتے ہیں جو مغرب کی اعلیٰ اقدار کے گن گاتے نظر آتے ہیں اورانہیں اپنا رول ماڈل سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک مسلمان معاشرہ اجڈ ، جاہل، گنوار اور تہذیب سے عاری ہے، جبکہ مغربی معاشرے مہذب اور بااخلاق ہیں۔  چنانچہ یہ لوگ مغرب کی نقالی کرنے میں کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں اور ان کے نزدیک ایسا کرنا ،مہذب اورپڑھا لکھا ہونے اورروشن فکری کی علامت ہے۔

 

ان لوگوں کے مغرب سے متاثر ہونے کی ایک وجہ ان کی مادی ترقی ہے۔  بلند و بالا عمارتیں، سائنسی ایجادات، مستحکم حکومتوں کی موجودگی، دولت کی فراوانی، مسلم معاشروں کے مقابلے میں مغربی معاشروں میں عوام کے لیے اچھی سہولیات کی فراہمی اور ایک منظم نظام کی موجودگی، انہیں اس سوچ کی طرف لے جاتی ہے کہ مغرب کے لوگ اقدار کے لحاظ سے بھی تیسری دنیا خاص طور پر مسلمانوں سے بہتر ہیں۔  اس میں کوئی شک نہیں کہ مغرب ایجادات اور مادی ترقی کے لحاظ سے مسلم ممالک سے کہیں آگے ہے۔  اور یہ ممالک اس قابل ہیں کہ اپنے مسائل کو حل کرنے کے لیے اقدامات کریں اور کسی دوسری قوم کی طرف رجوع کرنے کی بجائے خود سے اس کے متعلق غور و فکر کریں۔ تاہم اس کی وجہ یہ نہیں کہ مغرب کے لوگ انسانی صلاحیتوں کے لحاظ سے باقی دنیا  کے انسانوں سے بہتر ہیں یا ان کی تہذیب اور اقدار ہم سے بہتر ہے۔ایسے ممالک کہ جن کے پاس ایک ایسا نظریہ موجود ہو کہ جس میں سے انسانی مسائل کے کے حل نکلتے ہوں ان میں ہمیں یہ صفت نظر آئے گی۔   ماضی میں سوویت رشیا کی بھی یہی صورتِ حال تھی کہ جہاں سوشلزم کے نظریے کے نفاذ نے مادی ترقی اورخوشحالی کو جنم دیا۔مگر ایک نظریئے کی بنیاد پر انسانی مسائل کو حل کرنے اور ان حل کے درست ہونے اور انسانی فطرت سے مطابقت رکھنے میں فرق ہے۔  حقیقت یہ ہے مغربی تہذیب جس سرمایہ دارانہ آئیڈیالوجی کی بنیاد پر استوار ہے،اس میں سے نکلنے والے  زندگی کے مسائل کے حل کا نفاذ مزید مسائل کو جنم دیتا ہے ۔یہ کیونکر ہےیہ بحث آج کے موضوع سے الگ ہے، جس پر پھر کبھی بات ہو گی۔ جو چیز موضوع گفتگو ہے وہ یہ ہے کہ مغرب کی سرمایہ دارانہ آئیڈیالوجی بذاتِ خودمغرب کے اخلاقی و تہذیبی دیوالیہ پن کی بنیادی وجہ ہے۔

 

اس سے پہلے کہ ہم مغربی تہذیب کی گراوٹ اور مغرب کی سرمایہ دارانہ آئیڈیالوجی کے ساتھ اس کے فکری تعلق کو بیان کریں ۔  پہلے اس کنفیوژن کو واضح کر دیا جائے جو کہ مغرب کے بعض لوگوں کے حسنِ سلوک اور خیرات اور رفاحی کاموں کی وجہ سے بعض لوگوں کو ہو جاتی ہے۔   یہ لوگ بل گیٹس جیسی  مثالیں پیش کرتے ہیں،کہ   فوربز میگزین کے مطابق 2013میں بل گیٹس اور اس کی بیوی نے 2.65ارب ڈالر بیماریوں سے بچاؤ اور تعلیم کی بہتری کے لیے خیرات کے طور پر دیے ۔  میگزین کے مطابق بل گیٹس اور اس کی بیوی اپنی پوری زندگی میں 30.2 ارب ڈالرکی خطیر رقم  خیرات کے طور پر خرچ کر چکے ہیں جو ان کی دولت کا 37فیصد بنتا ہے۔  اسی طرح فیس بک کے کو فاونڈراور سی ای او مارک زکر برگ نے 2013میں خیرات کے طور پر 991ٍملین ڈالر خرچ کیے۔  ایسی مثالوں کو پیش کر کے یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ  اگر مغرب کے لوگ مادہ پرست اور تہذیبی لحاظ سے اس قدر ہی برے ہیں تو پھر ہمیں یہ مثالیں کیوں نظر آتی ہیں۔

اس بحث میں جائے بغیر کے مندرجہ بالا انفرادی مثالوں میں انسانیت کی بہتری اور غریبوں کے مسائل کے حل کے لیے اخلاص کا جذبہ کس حد تک کارفرما ہے اور کس حد تک یہ دولت واقعی غریب لوگوں کے ہاتھوں میں ہی پہنچتی ہے،یہاں یہ سمجھنا ضروری ہےکہ  اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو ایک ہی فطرت پر پیدا کیا ہے۔ جس طرح ہر انسان کو دو آنکھیں ، ناک ، کان اور ہاتھوں سے نوازا ہے ، اسی طرح ہر انسان کے اندر کچھ جبلتیں اور عضویاتی حاجات بھی رکھیں ہیں۔ کوئی انسان بھی سانس لیے بغیر، کھانا کھانے بغیریا پانی پئے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔  یہ اس کی عضویاتی حاجات ہیں۔  اسی طرح ہر انسان کے اندر تین جبلتیں موجود ہیں۔  جبلتِ بقا کہ جس کا اظہار مختلف شکلوں میں ہوتا ہے ، جیسا کہ ہر انسان چاہتا ہے کہ اس کے پاس دولت و آسائش کی چیزیں ہوں، اگر وہ میچ کھیل رہا ہے تو وہی جیتے، بحث کے دوران اس کی دلیل حاوی ہو، یہ سب جبلتِ بقا کے اظہار کی مختلف صورتیں ہیں۔  اسی طرح ہر انسان کے اندر جبلتِ نوع بھی موجود ہے جو کہ اسے اس چیز کی طرف ابھارتی ہے کہ وہ دوسرے انسانوں کے ساتھ رشتے ناطے بنائے، اپنی جنسی ضرورت کو پورا کرے، اپنے لیے کنبہ بنائے ،اپنے والدین، بیوی بچوں پر خرچ کرے۔ایک انسان دوسرے انسان کو تکلیف میں دیکھ کر بے چینی محسوس کرتا ہے اور اس کے اندر اس انسان کو اس مصیبت سے نجات دلانے کے جذبات ابھرتے ہیں۔ ان جبلتوں اور جذبات کے لحاظ سے تمام انسان برابر ہیں۔ خواہ یہ مغرب کا انسان ہو یا مغرب کا۔  کسی انسان کا زندہ جل جانا، ڈوب کر مر جانا، غربت و افلاس کے ہاتھوں خود کشی کر لینامشرق کے انسان کو بھی افسردہ کرتا ہے اور مغرب کے انسان کوبھی۔ اور جس طرح ایک انسان کو مادی قدر کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح اسے انسانی اور اخلاقی قدر کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔   اور وہ اسے حاصل کرنے کی کوشش کرتا۔  چنانچہ جس طرح وہ دولت کو حاصل کرکے اطمینان اور خوشی حاصل کرتا ہے اسی طرح وہ کسی ڈوبتے ہوئے کی جان بچانے میں اور کسی غریب کی مدد کرنے میں بھی خوشی محسوس کرتا ہے۔

 

لیکن یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ انسانی جبلتیں اور ان کی بنا پر جنم لینے والے جذبات  کی تدوین ان افکار کی پر ہو تی ہیں، جو کہ کوئی بھی انسان زندگی کے متعلق رکھتا ہے۔  پس ایک مسلمان کے لیے کسی نبی کی توہین ایک انتہائی قبیح اور ہیجان انگیر حرکت ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ مسلم معاشرے میں ایسی حرکت کرنے والے شخص کے لیے کوئی جائے پناہ نہیں۔   کیونکہ مسلمانوں کا عقیدہ انبیاء کے متعلق کچھ افکار فراہم کرتا ہے۔ یہ افکار ایک مسلمان میں پائی جانے والی جبلتِ تدین (worship instinct)کو ایک خاص شکل دیتے ہیں ۔  پس ایک مسلمان کے جذبات ان افکار کے مطابق ہوتے ہیں جو وہ جبلتِ تدین کو پورا کرنے کے متعلق رکھتا ہے۔  جبلتِ تدین ، جبلتِ نوع اور جبلتِ بقا کے علاوہ وہ تیسری جبلت ہے جو کہ ہرانسان میں پائی جاتی ہے۔اور یہ بھی افکار کے ذریعے ہی ریگولیٹ ہوتی  ہے ۔  یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ مغرب میں انبیاء کی توہین اتنا سنگین مسئلہ تصور نہیں کیا جاتا کیونکہ مغرب کے نزدیک  آزادی اظہارایک درست تصور ہے اور کوئی شخص کسی نبی کے متعلق کوئی بھی تصور رکھنا چاہے تو وہ رکھ سکتا ہے۔  یہ تصور مغرب کے ایک سیکولر شخص کی جبلتِ تدین کو متاثر کرتا ہے اور اس کے اعمال اور طرزِ عمل پر اثر انداز ہوتا ہے۔

چنانچہ جیسا کہ بیان کیا گیاکہ مغرب کے انسان میں بھی جبلتِ نوع موجود ہے جو اسے دوسرے انسانوں کا خیال رکھنے اور ان کے لیے ایثار کرنے اور ان سے حسنِ سلوک کرنے کی طرف ابھارتی ہے۔  مگر سرمایہ دارانہ آئیڈیالوجی سے سے نکلنے والے افکار کو اپنانے کی وجہ سے مغربی معاشرے میں بسنے والے لوگوں کے لیے اپنی زندگی کے لیے آسائشوں کا حصول،اپنے لیے مال و دولت کو جمع کرنا اور انفرادیت پسندی ہر چیز پر حاوی ہے۔کیونکہ سرمایہ دارنہ آئیڈیالوجی ایک مادہ پرستانہ آئیڈیالوجی ہے کہ جو یہ فکر دیتی ہے کہ  مادی قدرو قیمت کا حصول ہی کسی بھی انسان کی زندگی کا مقصد ہونا چاہئے ۔  اور مال و دولت و آسائشوں کا حصول ہی خوشی و سعادت کا بنیادی ذریعہ ہے ۔سرمایہ دارانہ معاشی نظام کا صف اول کا مفکر ایڈم سمتھ اپنی دو کتابوں Theory of Moral SentimentsاورThe Wealth of Nationsمیں بیان کرتا ہے کہ اللہ نے اس دنیا کو اس لیے تخلیق کیا ہے کہ انسان اس دنیا کی آسائشوں سے اپنی لیے زیادہ سے زیادہ خوشی حاصل کر سکے۔  اور ہر شخص کی فطرت ہے کہ وہ اپنی بہتری کے لیے ہی کام کرتا ہے۔  جب ہر شخص کو اپنی بہتری کے لیے آزاد ماحول فراہم کر دیا جائے اور حکومت کی مداخلت کم سے کم ہو تو معاشرے کے مفادات کا تحفظ خود بخود ہو جائے گا۔   اخلاق کو قوانین کے ذریعے ریگولیٹ نہیں کیا جانا چاہئے بلکہ لوگوں کو اس معاملے میں آزاد چھوڑ دینا چاہئے۔    اور کوئی بھی مذہب جو عقائد و رسومات(مذہبی قانونی ضابطوں) کو اخلاق پر ترجیح دیتا ہے وہ قابلِ مذمت ہے اور ایک مہذب اور پر سکون معاشرے کے لیے خطرے کا باعث ہے۔  چنانچہ یہ آئیڈیالوجی زندگی کے لیے جو پیمانہ مقرر کرتی ہے وہ نفع و نقصان کا پیمانہ ہے  کہ ایک انسان کسی بھی عمل کوکرتے وقت جس چیز کو مدِ نظر رکھے وہ یہ ہے کہ آیا یہ عمل اس کی ذات کے لیے کس حد تک فائدے کا باعث ہے،  خواہ یہ کاروبار ہو ، ذاتی تعلقات ہوں حتیٰ کہ اخلاق بھی۔  چنانچہ اگر کسی جگہ پر اخلاق دکھانا نفع بخش ہے تو وہاں خوش اخلاقی اور ایمانداری دکھائی جائے گی اور جہاں پر اخلاق دکھانا مادی نقصان کا باعث ہو وہاں اخلاق ، رشتوں ناطوں کی پرواہ نہیں کہ جائے گی۔  یہی وجہ ہے کہ مغرب کے معاشرے میں اخلاقیات کی حیثیت ہمیشہ ثانوی ہی رہتی اور جب تک سرمایہ داریت کی آئیڈیالوجی مغرب میں نافذ ہے مغربی معاشرہ اس صورتِ حال سے چھٹکارہ حا صل نہیں کر سکتا۔

 

سرمایہ دارانہ آئیڈیالوجی کا بنیادی عقیدہ سیکولرازم ہے ۔  جو دین کو ایک شخص کی ذاتی زندگی تک محدود کر دیتا ہے۔  اور یہ قرار دیتا ہے کہ انسان خود اپنی عقل سے اپنے لیے نظام بنائے گا۔  جو اس بات کا اظہار ہے کہ انسان کی عقل اس بات کا تعین کر سکتی ہے کہ معاشرے میں کیاچیز جائز یا قانونی ہونی چاہئے اور کیا چیز ناجائزاور غیر قانونی۔  گویا انسانی عقل ہی اس چیز کو طے کرے گی کہ کیا چیز معاشرے کے لیے اچھی ہے اور کیا چیز بری ۔پس مغرب کے نزدیک انسانی عقل اس چیز کا تعین بھی کر سکتی ہے کہ اچھا اخلاقی طرزِ عمل کیا ہے اور برے اخلاق کیا ہیں۔  معاشرے کے لیے اچھی یا برے اقدارکا تعین کرنے کے لیے مذہب سے رہنمائی لینے کی ضرورت نہیں۔ لیکن انسانی عقل سے جنم لینے والی اس آئیڈیالوجی نے مغرب میں کس طرح تہذیبی  گراوٹ کو جنم دیا ہے، آئیے اس کا ایک مختصر جائزہ لیتے ہیں۔

 

مغرب کی گراوٹ ان کے معاشرتی نظام میں سب سے نمایاں ہے۔     بچوں کے ساتھ برے  سلوک کی بات پاکستان کے معاشرے کے متعلق بہت کی جاتی ہے لیکن جب ہم مغرب کے معاشرے کا جائزہ لیتے ہیں تو اس ضمن میں مغرب کا معاشرہ نہایت بھیانک صورت حال پیش کرتا نظر آتاہے۔   11جنوری 2014ء کو ایسوسی ایٹد پریس نے رپورٹ کیا کہ امریکی ریاست فلوریڈا میں پولیس نے25سالہ شخص کو گرفتار کر لیا ہے جس نے طیش میں آ کر اپنی بچی کو پل سے نیچے پھینک کر ہلاک کردیا۔ 30 دسمبر2014کو رائٹرز نے رپورٹ کیا کہ فلوریڈا میں ہی پولیس نے ایک جوڑے کو قتل کے الزام میں گرفتار کیا ہے جس نے اپنی نوزائدہ بیٹی کو کھانے پینے کو کچھ نہیں دیا اور وہ بھوک و فاقے سے مر گئی جب کہ اس کی عمر صرف 22 دن تھی۔   21دسمبر2014 کو رائٹرز نے رپورٹ کیا کہ آسٹریلیا میں ایک عورت نے اپنے سات بچوں اور ایک بھتیجی کو مار ڈالا ، ان بچوں کی عمریں 2سے 14 سال کے درمیان تھیں۔ 5نومبر2014کو ایسوسی ایٹد پریس نے رپورٹ کیا کہ نیویارک پولیس نے ایک کروڑ پتی عورت کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے جس کے خلاف الزام ہے کہ اس نے فروری 2010میں اپنے 8 سالہ بیمار بیٹے کو دوائی کی بہت زیادہ مقدار دے کر موت کے گھاٹ اتار دیا ۔   30 اکتوبر 2014کو ایسوسی ایٹد پریس نے رپورٹ کیا امریکی ریاست پنسلوانیا میں ایک شادی شدہ جوڑے کے خلاف قتل کا مقدمہ شروع کیا گیا ہے کیونکہ اس نے اپنے 9سالہ بیمار بچے کو کھانے کو کچھ نہیں دیا اور وہ اس وجہ سے ہلاک ہو گیا ۔  اس نو سالہ بچے کا وزن کم ہو کر صرف 17 پاؤنڈ رہ گیا تھا ۔   پولیس کو یہ بچہ اس حال میں ملا کہ اس کی لاش ایک چادر میں لپٹی ہوئی باتھ روم میں پڑی تھی ۔    19اکتوبر 2014کو رائٹرز نے رپورٹ کیا کہ نیویارک سٹی میں ایک 20سالہ شخص نے اپنی 3 سالہ بیٹی کو صرف اس وجہ سے گلا گھونٹ کراور چھری کے وار کر کے مارڈالا کہ اس نے اپنی پینٹ میں ہی پاخانہ کر دیا تھا۔   قائرین یہ وہ اندوہ ناک واقعات ہیں جو محض پچھلے چار ماہ کے دوران خبروں میں آئے، اصل واقعات کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔یہ ہے مغرب کے معاشرے کی تصویر کی ایک جھلک جہاں سرمایہ دارانہ آئیڈیالوجی نے اس حد تک انفرادیت اور ذاتی خوشی کے حصول کو معاشرے پر حاوی کر دیا ہے کہ بچوں کی پرورش اور دیکھ بھال والدین کو ایک بوجھ محسوس ہو تا ہے ۔ اور وہ اسے اپنی زندگی کے خوشیوں میں رکاوٹ سمجھتے ہیں۔  اور جہاں تک  پاکستان کے معاشرے میں بچوں کے ساتھ برے سلوک کا تعلق ہے تو اس کی وجوہات مغرب کے معاشرے سے یکسر مختلف ہیں ۔  پاکستان میں بچوں کے ساتھ بد سلوکی کے اکا دکا واقعات کی اہم وجہ بچوں کی تعلیم و تربیت سے متعلق افکاراور شعور کی کمی اور بچوں کے ساتھ سخت گیر رویے کے درست ہونے کا تصور ہے۔ مشکل مالی حالات ، زندگی کے بے شمار مسائل سے دوچار ہونے اور نظام کی طرف سے کسی بھی قسم کی سپورٹ اور رہنمائی کے فقدان کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ مسلم معاشرے میں بچوں کے ساتھ اچھا سلوک کیا جاتا ہے اور ان کی دیکھ بھال پر توجہ دی جاتی ہے اور یہ سب اس وجہ سے ہے مسلم معاشرے اسلام کی دولت سے مالامال ہیں ۔  رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

((لیس من امت من لم یجل کبیرنا ویرحم صغیرنا))

''وہ شخص میری امت میں سےنہیں جوہمارےبڑوں کی عزت کونہ جانےاورہمارےچھوٹوں پررحم نہ کرے"۔

 

جہاں تک نظامِ حکومت اور سیاست دانوں کے طرزِ عمل کا تعلق ہے  توعام طور پر  پاکستان کے عوامی نمائندوں پر اٹھنے والے ریاستی خرچ کی خبریں وقتاً فوقتاً میڈیا کی زینت بنتی رہتی ہیں کہ کس طرح عوام کے خون کو نچوڑ کر جمع کیے جانے والے ظالمانہ ٹیکس کو بے دردی سےپاکستان کے امیر سیاست دانوں پر دونوں ہاتھوں سے لٹایا جاتا ہے۔اور بعض لوگوں میں یہ تائثر پیدا ہوتا ہے کہ مغرب کے عوامی نمائندوں کی  صورتِ حال ایسی نہیں  ۔  لیکن حقیقت اس کے بر عکس ہے۔  امریکی کانگریس بھی اسی طرح امیروں لوگوں کا ٹولہ ہے جیسا کہ پاکستان کی پارلیمنٹ اور سینٹ کی صورتِ حال ہے۔   امریکہ کے آدھے سے زیادہ عوامی نمائندوں کی دولت ایک ملین ڈالر سے زیادہ ہے اورامریکی  کانگریس کے دوسوممبران ایسے ہیں جو multi millionaireہیں۔جبکہ پچھلے دو الیکشن کے دوران صرف 13 ایسے لوگ امریکی کانگریس کا حصہ بنے جن کا پس منظر ورکر کلاس سے تھا۔   ایک امریکی کانگریس مین کی سالانہ تنخواہ 174000ہے۔  Weekly Standard Magazineکی رپورٹ کے مطابق امریکی سینٹ کے سو ممبران نے پچھلے پندرہ سالوں کے دوران 5.25ملین ڈالر بالوں کی کٹائی پر خرچ کیے۔  جبکہ ایک سال کے دوران ان کا ذاتی اور دفتری خرچہ 4005900ڈالر تھا۔  یہ صورتِ حال بھی براہِ راست سرمایہ دارانہ آئیڈیالوجی کے نفاذ کا نتیجہ ہے۔  جہاں یہ آئیڈیالوجی ایک شخص کو زندگی کا یہ مقصد دیتی ہے کہ وہ مال و دولت کو اکٹھا کرنے اور اپنی ذاتی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے جئے ، وہاںوہ  ایسا حکومتی نظام بھی فراہم کرتی ہے کہ جس کے ذریعے مادہ پرست افراد اپنی دولت میں بے پناہ اضافہ کر سکتے ہیں ۔     اس آئیڈیالوجی سے پھوٹنے والا جمہوری نظام اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ منتخب اراکین اپنے مفادات کے مطابق قوانین میں ردو بدل کر کے اپنی  اور اپنےساتھیوں  کی جیبیں بھر سکیں۔  جہاں جہاں جمہوریت موجود ہے وہا ں وہاں اشرافیہ کے ایک مختصرٹولے نے قوانین کو اس انداز سے ترتیب دیاہے کہ  جس کے ذریعے وہ  ایسے  اثاثوں کے مالک بن گئے  جن سے بے پناہ دولت حاصل ہوتی ہے جیسا کہ بجلی، تیل، گیس اور معدنیات کے ذخائر، بھاری صنعتیں اور اسلحہ سازی کی صنعتیں ۔

 

جہاں تک مغرب کی کاروباری ایمانداری کا تعلق ہے ، تو امریکہ سے جنم لینے والا 2008کامالیاتی بحران جس نے یورپ کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا، اس بات کا ثبوت ہے کہ کس طرح سرمایہ دار کمپنیاں لوگوں کے اعتماد سے کھیلتی ہیں، انہیں اندھیرے میں رکھتی ہیں اور غلط معلومات فراہم کر کے ان سے پیسے بٹورتی ہیں۔  2010میں Goldman Sachsکمپنی نے اس چیز کو قبول کیا کہ وہ 550ملین ڈالرجرمانے کے طور پر ادا کر ے گی کیونکہ اس نے جان بوجھ کر اپنے انویسٹرز کو دھوکہ دیا ہے۔    پچھلے سال رائل بینک آف سکاٹ لینڈ نے 150ملین ڈالر ادا کرنا قبول کیا، اس پر الزام تھا کہ 2007 میں اس نے 2.2ارب ڈالر کے mortagage-backed bondکو فروخت کرنے کے لیے شارٹ کٹ کے طور پر ناجائز ذرائع  استعمال کیے ۔ بینک کے خلاف اس چیز کے متعلق بھی تحقیق ہو رہی ہے کہ اس نے جان بوجھ کر چلتے ہوئے کاروباروں کو دیوالیے سے دوچار کیا تاکہ ان کے اثاثوں کو کوڑی کے داموں خرید سکے۔   اکتوبر 2013 میں ڈان نے گارڈین کے توسعت سے  یورپ میں گوشت میں ملاوٹ کا سکینڈل رپورٹ کیا۔ایگلو آئرش پروسیسر کمپنی  یورپ کی سب سے بڑی گائے کا گوشت سپلائی کرنے والی کمپنی ہے۔ ہر ہفتے  50ملین یورپین اس کمپنی کا پروسیس کردہ گوشت استعمال کرتے ہیں ۔اس کمپنی کے گوشت میں گھوڑے کے گوشت کی ملاوٹ پائی گئی۔  یہ کمپنی ہالینڈکے بزنس مین ٍSeltenسے گوشت خرید رہی تھی جو گائے کے گوشت میں گھوڑے کے گوشت کی ملاوٹ  کا دھندا کر رہا تھا۔   Seltenکمپنی کے لیے کام کرنے والے ایک ملازم نے گارڈین کو انٹرویو کے دوران بتایا کہ وہ سپلائی کے دوران پرانا ڈی فراسٹ ہوا بیف بھی مکس کرتے تھے اور بعض اوقات یہ گوشت اتنا پرانا ہوتا تھا کہ اس کی رنگت سبز ہو چکی ہوتی ۔    دسمبر 2014 میں واشنگٹن پوسٹ نے ایک  رپورٹ شائع کی کہ جس میں بیان کیا گیا ہے کہ کس طرح امریکی ملٹی نیشل کمپنیوں نے  ٹیکس بچانے کے لیے اپنے قانونی ایڈریس کیمن جزیرہ، لکسمبرگ، برمودہ وغیرہ میں منتقل کر رکھے ہیں جہاں ٹیکس یا تو انتہائی کم ہے یا بالکل  صفر ہے۔  اس کے لیے وہ کسی چھوٹی سے کمپنی کے ساتھ اپنا mergerبناتی ہیں اور پھر اس کمپنی کے لیے ایسے ممالک کا پتہ رجسٹر کرواتی ہیں جہاں ٹیکس کی شرح بہت کم ہے۔  ایک اندازے کے مطابق یوں یہ کمپنیاں 100ارب ڈالر ٹیکس کی مد میں چوری کر  رہی ہیں۔

 

جہاں سرمایہ دارانہ آیئڈیالوجی سے جنم لینے والی مادیت پرستی نے ایک عام انسان، حکومتی اشرافیہ و سیاستدانوں کی فطرت کو مسخ کیا ہے وہاں مغرب کا مذہبی طبقہ بھی اس کے زہریلے اثرات سے محفوظ نہیں۔جنوری 2012میں کیتھولک چرچ کا سکینڈل منظر عام پر آیا جسے Vatileak Scandalکا نام دیا گیا ۔  پوپ بینی ڈکٹ کے بٹلر Paolo Gabrieleنے ویٹیکن کی خفیہ دستاویزات لیک کیں جن میں وہ خطوط بھی شامل تھے جو پوپ بینی ڈکٹ اور ویٹیکن کے دیگر عہدیداروں کو ویٹیکن کے اندرونی معاملات کے متعلق مختلف لکھے گئے تھے۔ یہ دستاویزات ویٹیکن طاقت کی کشمکش، سازشوں، دھڑے بندیوں اور مالیاتی کرپشن کی منظر کشی کرتی ہیں۔ان معلومات کو بنیاد بنا کر اٹلی کے صحافی نے ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام : His Holiness: The Secret Papers of Benedict XVIہے۔  جس میں چرچ کی کرپشن کا پرہ چاک کیا گیا ہے ۔  24اکتوبر 2013 کو رائٹرز نے رپورٹ کیاکہ پوپ فرانسس نے جرمنی کے بشپ کو اس کے علاقے کی ذمہ داری سے سے ہٹا دیا ہے کیونکہ اس نے چرچ کے فنڈ میں سے  31ملین یورو محض اپنی رہائش گاہ کی تزئین و آرائش پر خرچ کیےتھے۔  جائزے کے مطابق گھر کے باتھ روم میں لگے ہوئے سٹینڈنگ باتھ کی مالیت 15000یورو ہے، جو کہ پاکستانی روپے میں 17لاکھ پچاسی ہزار روپے بنتی ہے۔  جبکہ گھر میں رکھی گئی کانفرنس ٹیبل25000یورو(29لاکھ 75ہزار روپے) کی ہے۔   اس شاہ خرچی کی بنا پر جرمنی کے بشپ کو میڈیا میں "luxury bishop"کا خطاب دیا گیا۔

اور وہ مغرب جو مسلم معاشروں پر عورتوں کے ساتھ بد سلوکی ، تشدد اور عدم برداشت کا الزام لگاتا ہے اور اس بنیاد پر پوری دنیا میں واویلا مچاتا رہتا ہے، خود اس کے اپنے معاشرے کی صورتِ حال کیا ہے اس کا پول یورپی یونین کی بنیادی حقوق کی ایجنسی(FRA)کا سروے کھول کر بیان کرتا ہے۔  یہ سروے 2014 میں 28 یورپی ممالک میں کیا گیا، جس میں 42000عورتوں کے انٹرویو لیے گئے جن کی عمریں 18 سے 74 برس کے درمیان تھیں۔  سروے کے مطابق ہر دس میں سے ایک عورت کو15سال کی عمر کے بعد جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا، ہر بیس میں سے ایک عورت کی عزت مرد کے ہاتھوں تار تار ہوئی ، اور ہر پانچ میں سے ایک عورت کو اپنے خاوند یا پارٹنر کے ہاتھوں جسمانی ظلم و تشددکا سامنا کرنا پڑا۔   رپورٹ کے مطابق  صرف 14 فیصد عورتیں ان زیادتیوں کے متعلق پولیس کو رپورٹ کرتی ہیں   ۔  یہ رپورٹ اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ وہ معاشرہ جو مرد و عورت کو برابر کے حقوق دینے کا دعویٰ کرتا ہے وہاں کی عورت کتنی مظلوم ہے۔

 

سرمایہ دارانہ آئیڈیالوجی یہ تصور دیتی ہے کہ انسان کو اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے آزاد چھوڑ دینا ہی خوشی اور اطمینان کی ضمانت ہے۔  پس ہر انسان کو عقیدہ، رائے کے اظہار،ملکیت اور ذاتی زندگی میں مکمل آزادی حاصل ہونی چاہئے اور اس پر کوئی قدغن یا روک ٹوک ہونا درست نہیں۔  خاص طور پر مذہب کی بنیاد پر ایسا کرنا تو دقیانوسیت اور پسماندگی ہے۔  لیکن یہ آئیڈیالوجی انسان کو خوشی اور اطمینان کی فراہمی میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔  اس کا اندازہ ان اعداد و شمار سے ہوتا ہے جو مغرب کے صحت کے ادارے اپنے معاشرے میں ڈپریشن Depressionکے لیے استعمال ہونے والی ادویات کے متعلق فراہم کرتے ہیں۔   امریکہ میں اس وقت ادویات کے استعمال کے لحاظ سے امراض قلب کی دوائیں سرفہرست ہیں۔  اس کےبعددوسرا نمبر ڈپریشن کے لیے استعمال ہونے والی ادویات کا ہے۔  اور ایک اندازے کے مطابق 2020تک ڈپرشن کے لیے استعمال ہونے والی ادویات پہلے نمبر پر آجائیں گی۔

 

قارئین یہ ہے مغرب کے معاشرے کا اصل چہرہ جسے ہم سے اوجھل رکھا جاتا ہے۔  اور ہمارے سیاست دان ، حکمران اور لبرل طبقہ رٹو طوطے کی طرح دن رات مغرب کے گن  گاتے رہتے ہیں تاکہ ہم نہ صرف یہ کہ مغرب کی سیاسی بالادستی کو قبول کر لیں بلکہ مغرب کی اس ذلت آمیز غلامی کا طوق اپنے گلے میں ڈالنے پر فخر محسوس کریں۔

آج مغرب سمیت پوری دنیا کو اسلام کی آئیڈیالوجی اور اس سے پھوٹنے والے نظامِ خلافت کی ضرورت ہے جس نے ماضی میں بھی انسانیت کو اعلیٰ اقدار اور تہذیب و اخلاق سے بہرہ ور کیا اور آج بھی اسلام کی آئیڈیالوجی ہی مغرب کی پست اور ناقص تہذیب کا متبادل فراہم کر سکتی ہے۔

 

ڈاکٹر افتخار

 

 

خلافت ھندو جارحیت کا خاتمہ کردے گی حکومت ِ پاکستان بھارت پر جارحیت کا الزام لگاتی ہے اور ساتھ ہی دوستی کا ہاتھ بھی بڑھاتی ہے

حزب التحریر بھارت کے ساتھ تعلقات اور معاملات کے حوالے سے حکومت پاکستان کے  غدارانہ طرز عمل کی مذمت کرتی ہے۔ وزیر اعظم  نواز شریف کے قومی سلامتی اور امور خارجہ کے مشیر سرتاج عزیز نے 12 جنوری کو ڈان نیوز کے پروگرام "فیصلہ عوام کا"میں کہا کہ بھارت  افغانستان کی سرزمین کو پاکستان پر حملے کرنے کے لئے استعمال کررہا ہے۔ لیکن اسی انٹرویو میں سرتاج عزیز نے بھارت کے ساتھ معمول کے تعلقات کے قیام پر زور بھی دیا۔

قومی سلامتی  اور حکومتی حلقوں میں یہ بات تسلسل سے کی جارہی ہے  کہ  بھارت قبائلی علاقوں میں مداخلت کررہا ہے اور پاکستان کی افواج اور شہریوں پر حملے کروا رہا ہے۔  پھر ان حلقوں میں موجود اس رائے عامہ کو قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن کرنے کے لئے جواز کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن اگر حکومت اپنے دعویٰ میں سچی ہوتی تو وہ  پاکستان میں بھارت کی سفارتی موجودگی کا خاتمہ کرتی کیونکہ بھارت ایک جارح ملک ہے اور اس کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیا جانا چاہیے۔ سرد جنگ کے زمانے سے یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ دنیا بھر میں سفارت خانے جاسوسی اور تخریبی کاروائیوں کی منصوبہ بندی اور  ان نگرانی کے لئے استعمال کیے جاتے ہیں۔

اور جیسے یہی کچھ کم نہ تھا کہ حکمرانوں نے امریکہ سے وفاداری  کے تعلق کو برقرار رکھا ہے جس نے بھارت پر  افغانستان کے دروازے کھولے ہیں۔ امریکہ کی مدد و حمائت سے بھارت نے پاکستان کی سرحد کے ساتھ افغانستان میں کئی قونصل خانے کھولے ہیں جہاں سے قبائلی علاقے انتہائی قریب ہیں۔  لیکن اس باوجود راحیل-نواز حکومت نے افغانستان پر امریکی قبضے کو برقرار رکھنے کے لئے  نیٹو سپلائی لائن کو  برقرار رکھا ہے اور ان مجاہدین کے خلاف آپریشن کررہی ہے جوصلیبی  امریکی افواج  کے خلاف افغانستان میں جہاد کررہے ہیں۔

حزب التحریر افواج پاکستان میں موجود مخلص افسران سے مطالبہ کرتی ہے کہ حکومت کی اس غداری کو ختم کریں۔ وہ انہیں اس بات کی یاد دہانی کراتی ہے کہ ان پر یہ لازم ہے کہ وہ خلافت کے فوری قیام کےلئے حزب التحریر کو نصرۃ فراہم کریں جو اسلامی ریاست ہونے کے ناطے مسلم سرزمین پر دشمن کی موجودگی کا خاتمہ کرے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان میں خلافت کا قیام مسلم سرزمینوں کو یکجا کرنے کے لئے نقطہ آغاز ثابت ہوگا اور پاکستان، افغانستان اور بنگلادیش کے مسلمان ایک عظیم متحد قوت کی صورت میں ہندو مشرکین کے خلاف یکجا ہوں گے۔ اللہ سبحانہ و تعالٰی فرماتے ہیں،

لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِلَّذِينَ آمَنُوا الْيَهُودَ وَالَّذِينَ أَشْرَكُوا

"ضرور تم مسلمانوں کا سب سے بڑھ کر دشمن یہودیوں  اور مشرکوں کو پاؤ گے"(المائدہ:82)

 

ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے میڈیا آفس

Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک