سوال :
آج1دسمبر 2014بدھ کے دن بعض ذرائع ابلاغ نے خبر شائع کی ہے کہ برنٹ خام تیل کی قیمت 49.66 ڈالر فی بیرل یکارڈ کی گئی ۔ اسی طرح امریکی خام تیل کی قیمت بھی تقریبا 47 ڈالر فی بیرل تک گر گئی ہے۔ یاد رہے کہ 2014 کے جون کے مہینے کی ابتدا میں تیل کی قیمتیں 115 ڈالر فی بیرل تک پہنچ گئیں تھیں۔ پھر بدتدریج گرنے لگیں یہاں تک کہ سردیوں کے آغاز دسمبر 2014 کےاختتام تک 60 ڈالر فی بیرل بلکہ اس سے بھی کم ہوگئیں یہاں تک کہ وسٹ ٹیکساس خام تیل کی قیمت 58.53 ڈالر تک گرگئی۔ اب جنوری 2015 کے پہلے ہفتے میں تیل کی قیمت50 ڈالر تک آگئی یعنی 50 فیصد سے بھی زیادہ کمی تقریبا پانچ مہینے کے اندر ! تیل کی قیمتوں میں اس اچانک کمی کے کیا اسباب ہیں؟ اور مستقبل میں تیل کی قیمتوں کے بار میں کیا متوقع ہے؟
جواب :
تیل کی قیمتوں میں کمی کے مختلف اسباب ہیں جن میں سے نمایاں ترین اقتصادی عوامل ہیں جن کا سیاسی مقاصد سے تعلق نہیں ہے ۔۔۔لیکن ساتھ ہی ساتھ سیاسی عوامل بھی ہیں جو اقتصادی عوامل کو حرکت دینے کے لیے ہے جس سے سیاسی مفادات کا حصول ممکن ہوتا ہے ۔۔۔
اقتصادی عوامل جن کا سیاسی مقاصد سے تعلق نہیں ہے تو وہ یہ ہیں: تیل کی ترسیل کا زیادہ ہو نا یا طلب میں کمی ۔۔۔، تیل والے علاقوں اور اس کے آس پاس ہنگامے خاص کر عسکری گرما گرمی۔۔۔،تیل کی مارکیٹ میں غیر یقینی صورت حال اور تیل کی بر آمد یا در آمد پر اثر انداز ہو نے والے ممالک کی معیشت کے حوالے سے اعدادو شمار میں کمی بیشی ۔۔۔۔
سیاسی عوامل کا جہاں تک تعلق ہے تو ایک ریاست کی جانب سے اقتصادی عوامل کو متحرک کرنا جیسے بغیر کسی معاشی ضرورت کے تیل کی پیداوار میں اضافہ کرنا یا ذخیرے میں موجود تیل کی پیداوار کو مارکیٹ میں لے آنا تا کہ تیل کی قیمت پر اثر انداز ہوکر مدمقابل ریاستوں کی پالیسیوں پر اثرانداز ہواجاسکے خصوصاً وہ ممالک جن کی معیشت کا انحصار ہی تیل کی قیمت پر ہوتا ہے یا عام تیل کی قیمت کو اس قدر کم کردینا کہ شیل تیل کو نکالنا معاشی لحاظ سے ناممکن ہوجائے۔
ہم ان امور کو بیان کریں گے پھر تیل کی قیمتوں میں قابل ذکر کمی کے حوالے سے ترجیحی اسباب کا خلاصہ پیش کریں گے:
پہلا :سیاسی مقصد سے خالی اقتصادی عوامل:
1-سپلائی اور طلب :
تیل بھی کسی بھی سامان کی طرح ہے جس کی قیمت طلب اور رسد کے مطابق ہی مقرر ہو تی ہے۔ جب تیل کی مارکیٹ میں سپلائی زیادہ ہوتی ہے تو اس کی قیمت کم ہوجاتی ہے۔ یہ اس وقت ہوتا ہے جب تیل در آمد کرنے والے ممالک میں معاشی بحران کی وجہ سے طلب کم ہوجاتی ہےکیونکہ بحران کا شکار ملک مہنگے دام میں تیل خریدنے کی سکت نہیں رکھتا جس کی وجہ سے طلب میں کمی آتی ہے۔۔۔ اسی طرح جب تیل کی طلب بڑھ جاتی ہے اور وہ رسد (سپلائی) سے زیادہ ہوجائے تو قیمت بڑھ جاتی ہے ۔
2-پریشانی اور عسکری ہنگامہ آرائی:
ایک اور وجہ ہے جو تیل کی قیمتوں پر اثر انداز ہو تی ہے اور وہ " تجسس" ہے یعنی تیل کی مارکیٹ کے بارے میں توقعات ،جیسے تیل والے علاقوں میں ہنگامے یا جنگ کے نتیجے میں تیل کی پیداوار یا سپلائی میں تعطل کے واقعات۔۔۔اس لیے مشرق وسطیٰ میں سیاسی کشیدگی کی وجہ سے بھی تیل کی قیمتوں اضافہ ہو سکتا ہے۔ لہٰذا تیل کی رسد (سپلائی) اور طلب میں کسی تبدیلی کے بغیر بھی صرف تعطل کے خدشات سے بھی تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ جیسے ہی حالات بہتر ہوتے ہیں تیل کی قیمتیں کم ہو کر سابقہ قیمت یا حقیقی قیمت پر بحال ہو جاتی ہے۔ مثال کے طور پر فروری 2012 میں یہودی ریاست اور امریکہ کی ایران کے ساتھ جنگ کے بیانات سے تیل کی قیمتیں بڑھ گئیں تھیں،فوربز میگزین نے کہا ہے کہ "کئی سالوں کے بعد تیل کی قیمتیں اس وقت اعلٰی ترین سطح پر پہنچ گئیں تھی اور اس کا بڑا سبب جیو اسٹریٹیجک معاملات تھے جب ایران کے معاملے کو عسکری طریقے سے حل کرنے کی بات کی گئی "(ایران پر حملے سے امریکہ کو کساد بازاری کا سامنا ہو گا " فوربز فروری 2012 )۔
3-قیاس آرائیاں اور اقتصادی اعداد وشمار سے فائدہ اٹھا نا:
تیل کے درآمد یا بر آمد سے تعلق والے بعض ممالک کے اقتصادیات کے بارے میں برے اعداو وشمار جو تیل درآمد یا برآمد کرتے ہیں جیسا کہ امریکہ یا چین، تیل کی قیمتوں کی کمی پر اثر انداز ہو سکتے ہیں ،قطع نظر اس بات کے کہ طلب اور رسد میں کوئی تبدیلی واقع ہوئی ہے۔ اس حالت میں مارکیٹ اقتصادی ترقی میں کمی کے حوالے سے خوف کا شکار ہو جاتی ہے اور یہ سمجھنے لگتی ہے کہ تیل کے استعمال میں لازمی کمی لازمی ہوگی جس کے نتیجے میں اس کی قیمت میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔ یو ں بیوپاری تیل کی قیمتوں میں متوقع کمی یا اضافے کو اپنے مفاد میں استعمال کرتے ہیں اور اس طرح تیل کی قیمت طلب و رسد کی کمی بیشی کی وجہ متاثر ہوتی ہے۔
اقتصادی اعداد وشمار اور قیاس آرائیوں کا انحصار تیل پیدا کرنے والے بڑے ممالک جیسے روس،کنیڈا اور سعودی عرب ۔۔۔ ، تیل در آمد کرنے والے ممالک جیسے چین ،چاپان وغیرہ ، تیل کی ملٹی نیشنل کمپنیاں جیسے ایکزون، بی پی وغیرہ اورتیل کے کار ٹل جیسے او پیک ، حصہ دار کے نام سے تیل کے مشہور تاجر وں پر ہوتا ہے۔ ان میں سے ہر گروپ تیل کی قیمتوں پر اثر انداز ہو نے کی طاقت رکھتا ہے، خواہ تیل کی رسد یا طلب پر ہو اثر انداز ہو کر یا قیاس آرائیوں کے ذریعے ۔ بحران کے شکار ممالک کے اعدادو شمار اور ان کے متعلق قیاس آرائیاں تیل کی قیمتوں پر زبردست طریقے سے اثر انداز ہوتی ہیں۔
دوسرا: سیاسی عوامل کے حصول کے لئے اقتصادی عوامل کو متحرک کرنا:
1-شیل آئل کا مسئلہ:
امریکہ نے زیر زمین چٹانوں کو توڑ کر تیل نکالنے (شیل آئل) کے سبب سب سے زیادہ تیل بر آمد کرنے میں سعودی عرب اور روس پر بھی سبقت حاصل کر لی ہے۔ 2014 کی گرمیوں میں "بینک آف امریکہ" نے کہا کہ امریکہ اس سا ل بھی دنیا میں سب سے زیادہ تیل پیدا کرنے والا ملک رہے گا۔ وہ شیل آئل نکالنے میں سعودی عرب اور روس سے آگے نکل گیا ہے۔اس سے ملک کی معیشت میں زندگی آئے گی۔مائع اور اس کو قدرتی گیس سے الگ کرنے کے ساتھ ساتھ امریکہ کی جانب سے خام تیل کی پیداوار بھی اس سال دوسرے ممالک سے زیادہ ہے۔ اس سال کی پہلی سہ ماہی میں یومیہ پیداوار 11 ملین بیرل سے زیادہ تھی("امریکہ کو سعودی عرب کو پیچھے چھوڑنے کے بعد سب سے زیادہ تیل پیدا کرنے والا ملک کے طور دیکھا جاتا ہے"بلوم برگ جون 2014 )۔
امریکہ میں شیل گیس اور آئل کا انقلاب تیل کی پیداوار میں اضافے کا سبب ہے کہ اس کی پیداوارجو 2011 میں5.5 ملین بیرل یومیہ تھی اب بڑھ کر 10 ملین بیرل یومیہ ہو چکی ہے جو اس کی زیادہ تر ضروریات کو پورا کرتی ہے ۔ اس لیے سعودی عرب سے اس کی در آمد کم ہو کر تقریبا آدھی ہو گئی جو کہ 8 لاکھ 78 ہزار بیرل روزانہ ہے جبکہ پہلے یہ1.32ملین بیرل روزانہ تھی۔
لیکن شیل آئل میں یہ مشکل ہے کہ اس کو نکالنے میں خرچہ بہت زیادہ ہے جو 75 ڈالر فی بیرل تک پہنچ جاتا ہے جبکہ قدرتی آئل کا خرچہ 7 ڈالر فی بیرل سے زیادہ نہیں۔ اس کا یہ مطلب ہے کہ شیل آئل پیدا کرنے والے ممالک اوران کے سر خیل امریکہ کے لیے پٹرول کی قیمت خرچے سے کم ہو نا تباہ کن ہو گا۔۔۔
2-تیل کی قیمتوں میں کمی کا موضوع اقتصادی ضرورت کے لیے نہیں بلکہ مد مقابل ریاستوں کو سزا دینے کے حصے کے طور پر ہے:
دو بین الاقوامی مسائل ایسے ہیں جو دنیا کے لیے اثر اور اہمیت رکھتے ہیں:
ایران کے ایٹمی پروگرام پر مذاکرات اور روس کی جانب سے کریمیا پر قبضہ،یہ دو ریاستیں اپنی بجٹ کے بڑے حصے میں تیل کی بر آمدات پر انحصار کرتی ہیں۔اچانک اس کی قیمت میں آدھی تک کمی یقیناً مذکورہ دو مسائل کے بارے میں ان کی پالیسی پر اثر انداز ہو گا۔ روس کے بجٹ میں تیل اور گیس یعنی انرجی کا حصہ 50 فیصدکی حد تک ہے بلکہ بعض اندازوں کے مطابق اس سے بھی زیادہ۔ یوں روس کو اپنی معیشت کو اعتدال پر رکھنے کے لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ تیل کی قیمت 105 ڈالر فی بیرل ہو۔
جبکہ ایران کی بجٹ میں تیل کا حصہ اس سے بھی زیادہ ہے ۔۔۔یہ بجٹ کے 80 فیصدسے بھی زیادہ تک پہنچ جاتا ہے۔ ایران سمجھتا ہے کہ تیل کی قیمت 130 ڈالر فی بیرل سے زیادہ ہو نی چاہیے تا کہ اپنی اندرونی منصوبوں کو پروگرام کے مطابق جاری رکھے اور خطے میں اپنے کارندوں کی پشت پناہی کو بھی برقرار رکھ سکے۔ اس لیے پیٹرول کی قیمت میں اس قدر کمی اس کے بجٹ کو متاثر کرے گا۔
تیسرا : اوپر ذکر کیے گئے اسباب کو پرکھنے سے یہ واضح ہو جاتا ہے :
1-سیاسی مقصد سے خالی اقتصادی عوامل:
ا-طلب اور رسد میں حالیہ برسوں میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی اور انتہائی معمولی تبدیلی سے اس طرح اچانک کمی نہیں ہو سکتی۔ گزشتہ گرمیوں تک تیل کی بین الاقوامی قیمت تقریبا 106 ڈالر (وسٹ ٹکساس خام)فی بیرل تھی۔ یہ قیمت تقریبا چار سال سے تھی لیکن تیل کی قیمتوں میں بڑے پیمانے پر کمی کی مکمل طور پر اقتصادی توجیہ ممکن نہیں۔ 2004 سے ایک عشرے تک تیل کی یومیہ پیداوار 80 ملین بیرل سے زیادہ تھی۔2013 کے اختتام پر عالمی منڈی میں تیل کی پیداوار86.6 ملین بیرل یومیہ تھی،پھر پیداوار اس سے بھی زیادہ ہوئی اور 2013 کے آخر اور 2014 کی چو تھی سہ ماہی میں طلب بڑھ گئی اور طلب اور رسد قریب قریب ہو گئی۔ انٹر نیشنل انرجی ایجنسی کی طرف سے جاری کیے جانے والے اعداد و شمار کے مطابق 2014 کی تیسری سہ ماہی میں رسد اوسطا93.74 ملین بیرل تک پہنچ گئی جبکہ طلب 93.08 ملین بیرل تھی ( مصدر : انٹر نیشنل انرجی ایجنسی کی وئب سائٹ)۔ چارسالوں میں یہ فرق انتہائی معمولی تھا جس سے تدریجی طور چند ایک ڈالر کی کمی تو ہو سکتی تھی لیکن پانچ مہینے کے اندر نصف تک گرنا ممکن نہیں سوائے اس کہ اقتصادی عوامل بنیادی سبب نہ ہوں۔
ب-افرا تفری اور عسکری ہنگا مہ آرائی بھی کوئی نئی نہیں بلکہ یہ بھی گزشتہ چار سالوں سے برقرار ہے۔۔۔ خطے کے بحران اچانک اس قدر شدید نہیں ہوئے جو تیل کی قیمتوں میں اس اچانک کمی کا سبب ہوں۔ ہنگامے اور پریشانی تو خطے میں 2011 سے ہیں اور اب بھی اسی طرح جاری ہیں اس میں اچانک کچھ نیا نہیں ہوا۔
یہ بھی یاد رہے کہ در اصل خطے اور دنیا میں سیاسی بحرانوں کے سائے میں تیل کی قیمتوں اضافہ ہو تا ہے جیسا کہ 1973 سے مختلف حادثات کے وقت ہوا۔ اب یوکرائن،شام،عراق اور لیبیا میں زبردست بحرانوں کا سامنا ہے تو پھر ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بیرل کی قیمت بڑھ 120 ڈالر بلکہ بعض توقعات کے مطابق 150 ڈالرتک پہنچ جاتی۔ اگر اس کے پیچھے صرف اقتصادی اسباب اور عوامل ہو تے تو قیمتوں میں یہ غیر معمولی کمی نہ ہوتی کیونکہ بحران اور جنگیں سپلائی لائنوں کو متاثر کر تی ہیں اس لیے رسد میں کمی واقع ہوتی ہے جس سے قیمتیں کم نہیں زیادہ ہو جاتی ہیں،اس لیے تن تنہا اقتصادی عوامل نہیں بلکہ دوسرے اسباب بھی ہیں۔
ج-قیاس آرائیوں اور اقتصادی اعداد وشمار سے فائدہ اٹھا نا۔ 2008 سے جب اقتصادی بحران شدت اختیار کر نے اور معاملات بگڑنے پر بھی اس قدر شدت نہیں آئی بلکہ اس میں بہتری دیکھ نے میں آئی تھی ،اس لیے یہ کہا جاسکتا ہے صرف اقتصادی عوامل ہی تیل کی قیمتوں میں کمی کا بنیادی سبب نہیں کہ اس سے قیمتیں پانچ مہینے پہلے کی نسبت آدھے سے بھی کم ہو جائیں۔
2-سیاسی عامل والے کے مفادات کو پورا کرنے کے لیے اقتصادی حرکت کے لیے سیاسی عامل:
ا-شیل آئل کا مسئلہ:
شیل آئل کو نکالنے کا خرچہ 70 سے 80 ڈالر فی بیرل کے درمیان ہے ۔ اس کو نکالنے میں جدید ترین ٹیکنا لوجی کے استعمال سے یہ خرچہ کم ہو کر 50 سے 60 ڈالر فی بیرل تک آسکتا ہے ۔I H S کمپنی (جو کہ تیل تلاش کرنے والی کمپنی ہے) سمجھتی ہے کہ گزشتہ سال شیل آئل نکالنے کا خرچہ کم ہو کر 70 سے 57 ڈالر فی بیرل ہو چکا ہےکیونکہ تیل نکالنے والوں کو جلد سے جلد کنویں کھودنے اور مزید تیل نکالنے کے طریقے کا علم ہو گیا ہے ( "سینٹ بمقا بلہ شیل آئل" اکانومسٹ 6 دسمبر 2014 )۔ اس لیے تیل کی قیمتوں کا 50 یا 40 ڈالر فی بیرل تک کم ہونے سے شیل آئل نکالنا نقصان کا باعث ہو گا بلکہ اگر یہ کمی 60 -70 فی بیرل تک بھی ہوتی یہ مناسب نہیں تھی کیونکہ اقتصادی تنا سب کے لیے خرچ اور قیمت فروخت میں مناسب فرق درکار ہو تا ہے۔
اس لیے او پیک یا سعودیہ کی طرف سے تیل کی پیداوار میں کمی نہ کر نے کا یہی سبب ہو سکتا ہے۔۔۔یہ بات بھی سب کو معلوم ہے کہ امریکہ نے قدرتی تیل کی قیمتوں میں اضافہ اور فی بیرل سو ڈالر سے زیادہ ہو نے پر ہی شیل آئل سے فائدہ اٹھا نا شروع کیا اس لیے قدرتی تیل کی قیمتوں میں کمی شیل آئل کی پیداوار کو جاری نہیں رکھ سکتی ۔
قدرتی تیل کی قیمتیں اس کمی کو برداشت کر سکتی ہیں کیونکہ اس پر خرچہ 7 ڈالر فی بیرل سے زیادہ نہیں آتا جبکہ شیل آئل پر خرچہ اس سے دس گنا تک زیادہ ہے ۔اس لیے یہ بات سمجھی جانی چاہیے کہ قدرتی تیل کی قیمتوں میں اس کمی کے باوجود یہ منافع بخش ہے جیسا کہ سعودی وزیر تیل علی النعیمی نے کہا کہ "اوپیک اپنی پیداوار میں کمی نہیں کرے گا خواہ عالمی مارکیٹ میں قدرتی تیل کی قیمتیں 20 ڈالر تک بھی گرجائیں" (الجزیرہ24 دسمبر 2014 ) اور اس نے یہ وضاحت بھی کی کہ " کئی سالوں تک اوپیک اور سعودیہ کے حصے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے ،وہ 30 ملین بیرل یومیہ کی حد میں ہیں جس میں 6.9 ملین بیرل سعودیہ کی پیداوار ہےجبکہ اوپیک سے باہر دوسرے ممالک پیداوار میں مسلسل اضافہ کر رہے ہیں"۔
یہ بات بھی سب کو معلوم ہے کہ موجودہ شاہ عبد اللہ کی قیادت میں سعودی حکومت کے انگریز کے ساتھ مضبوط تعلقات ہیں ۔ اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ سعودی عرب کی طرف سے پیداوار میں کمی نہ کرنے اور اس مقصد کے لیے اوپیک پر دباو نہ ڈالنا انگریز کی پایسی کے ضمن میں ہے جس کے لیے اس نے سعودیہ کو اپنا ہم نوا بنا کر امریکہ کے شیل آئل کی پیداوار کو متاثر کر رہا ہے۔
ب-جب امریکہ اوپیک کے اس رویے کو سمجھ گیا جو اس کے سب سے بڑے حصہ دار سعودیہ کی وجہ سے ہے ،خاص کر تیل بر آمد کر نے والے ممالک کی تنظیم اوپیک نے جب 27 نومبر 2014 کو اپنے ہیڈ کواٹر ویانا میں اپنا اجلاس منعقد کیا، جہاں تنظیم کے اراکین نےقیمتوں کو سہارا دینے کے لیے پیداوار میں کمی پر اتفاق نہیں کیا کیونکہ سعودیہ نے پیداوار میں کمی سے انکار کر دیا اور یہ کہا کہ کچھ عرصے تک وہ قیمتوں میں اس کمی کو برداشت کر سکتے ہیں۔ جب امریکہ یہ بھانپ گیا تو جان کیری نے 9 نومبر 2014کو سعودیہ کا دورہ کیا اور امریکی وزیر خاجہ نے اپنے اس اچانک دورے میں سعودی فرمانروا سے ان کی گرمیوں کی رہائش گا ہ پر ملاقات کی ۔ اگرچہ ذرائع ابلاغ نے اس دورے کا تیل کے علاوہ کوئی اور مقصد بیان کیا مگر قرائن اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ دورے کا موضوع تیل اور اس کی قیمتیں تھیں۔۔۔اسی دورے کے بعد ہی اس سال ستمبر کے مہینے کے باقی دنوں میں سعودیہ نے تیل کی پیداوار میں ایک لاکھ بیرل یومیہ کا اضافہ کرنا شروع کردیا دیا جو نومبر کے مہینے کے پہلے ہی ہفتے تک جاری رہا ۔ سعودیہ نے تیل ( عرب لائٹ ) کی قیمت میں 45 سنٹ فی بیرل کمی کر دی جس سے تیل کی قیمتیں تیزی سے 80 ڈالر فی بیرل سے نیچے آ گئی۔ امریکی وزارت خارجہ کے ایک اعلٰی عہدہ دار نے نے کہا کہ اس ملاقات میں تیل کی عالمی رسد پر بات ہوئی تھی۔
جب کیری پیداوار میں کمی پر سعودیہ کو قائل نہ کر سکا تو دوسرے پہلو سے قیمتوں میں کمی کی بات کی کیونکہ یہ کمی روس پر اثر انداز ہو گی جس نے کریمیا پر قبضہ کر رکھا ہے اور ایران کو متاثر کرے گی جس کے ساتھ ایٹمی موضوع پر مذاکرات ہو رہے ہیں۔ اس نے یہ دیکھا کہ ان دو کے ساتھ اس سلوک سے سعودیہ بھی خوش ہو گا۔ لیکن اس نے یہ کہا کہ یہ کمی 80 ڈالر فی بیرل کی حد تک ہو اور ایسا لگتا ہے کہ سعودیہ نے بھی اس بات کو قبول کیا یا بظاہر قبولیت کا اظہار کیا کیونکہ برطانوی میگزین ٹائم نے16 اکتوبر 2014 کو کہا کہ "سعودیہ نے محتاط انداز سے ایک موقف اختیار کیا کہ قیمتوں کو 80 ڈالر کے قریب رکھا جائے گا تاکہ شیل آئل کونکالنے کی اقتصادی طور پر گنجائش نہ ہو،جس نے امریکہ کو دوبارہ سعودیہ سے تیل درآمد کرنے اور شیل آئل کو مارکیٹ سےباہر کرنے پر مجبور کیا"۔ ایسا اس لیے ہوا کیونکہ انگریز امریکہ کے مقابلے سعودیہ کی پشت پناہی کر رہا تھا کیونکہ برطانیہ اپنی معیشت کو رواں دواں رکھنے کے لیے اور مالیاتی بحران سے نجات کے لیے سر گرم تھا خواہ یہ دوسروں کے خرچے اور کسی پر ضرب لگانے کے ذریعے سے ہی کیوں نہ ہو۔ یہ بات مشہور و معروف ہے کہ عبد اللہ آل سعود کی موجودہ حکومت انگریز کا ہی خوشہ چین ہے۔
امریکہ نے یہ ظاہر کر دیا کہ اس نے سعودیہ کو کمی پر مطمئن کر لیا ۔ اسی طرح یورپ کے سامنے یہ ظاہر کیا کہ ان کی طرف سے کریمیا پر قبضے پر روس پر دباو نہ ڈالنے کا الزام غلط ہے اور یہ بھی کہ وہ ایٹمی پروگرام کے حوالے سے ایران پر دباو نہیں ڈال رہا ہے۔۔۔امریکہ نے یہ دکھا یا کہ یہ الزام درست نہیں اس کی دلیل تیل کی قیمتوں میں کمی کی موافقت سے دونوں ریاستوں کا بجٹ متاثر ہوا۔۔۔اس کے ساتھ روس کے بعض مخالفین کو بھی خوش کیا۔ اس سے پہلے مارچ میں ارب پتی جورج سوروس نے امریکی انتظامیہ کو تجویز دی تھی کہ کریمیا پر قبضہ کر نے پر روس کو سبق سکھا نے کے لیے تیل کی قیمتوں میں کمی کی جاسکتی ہے۔۔۔یو ں کیری نے اس کمی پر یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ وہ اس کا حامی ہے لیکن ایک خاص حد تک ،پھر اس سے یورپ اور روس مخالفین کو دھوکہ دیتا ہے کہ وہ کریمیا پر قبضہ کرنے پر روس کے خلاف ہے مگر حقیقت یہ نہیں۔۔۔
لیکن پہلی بار امریکہ اپنے آپ کو ناکام دیکھتا ہے ۔ ہوائیں اس کی کشتی کے مخالف چلی ہیں کیونکہ چند مہینوں کے اندر ہی تیل کی قیمتیں کم ہو کر 60 ڈالر فی بیرل تک گر گئیں۔ سعودیہ نے پیداوار میں کمی نہ کرنے پر اصرار کیا بلکہ پیداوار میں اضافہ کیا اور اس عمل نے تیل کی مارکیٹ میں رد عمل کوجنم دیا ۔
چوتھا : موجودہ توقعات :
1-قیمتوں کی اپنی پرانی جگہ پر بحالی میں مشکل کا سامنا ہے
2-لیکن کمی کو جاری رکھنے سے بھی دونوں اطراف متاثر ہوں گے
ا-سعودیہ، جس کے پیچھے یورپ اور خاص طور پر برطانیہ ہے ، کو اپنی 860 ارب ریال کی بجٹ میں 145 ارب ریال خسارے کا سامنا ہے جو اخراجات کے لیے درکار تھے،یعنی 40 ارب ڈالر خسارہ اوریہ پٹرول کی قیمتیں کم ہو نے کی وجہ سے ہوا۔ یہ خسارہ اس کے اندرونی منصوبوں کو متاثر کرے گا ۔ اس سے بھی اہم یہ کہ سعودیہ کے لیے برطانیہ سے درآمدات خصوصا ً اسلحے پر اثر پڑے گا کیونکہ سعودیہ کو بجٹ میں کمی اور خسارے کا سامنا ہے۔۔برطانیہ سے سعودیہ کے لیے در آمدات 2012 میں 7.5 ارب پاونڈ اسٹرلنگ تک پہنچ گئی تھیں۔ تیل کی قیمتوں میں کمی سے سعودیہ کی معیشت متاثر ہو گی ۔۔۔خاص کر اس کی بجٹ کے 89 فیصدکا دار ومدار تیل کے بر آمدات پر ہے۔ اس لیے قیمتوں میں کمی کا بر قرار رہنا اس پہلو سے اثر انداز ہو گا۔۔۔
ب-دوسرے پہلو سے قیمتوں میں کمی کا جاری رہنا امریکہ کی جانب سے شیل آئل کی پیداوار کو متاثر کر ے گا۔ یہ اس لیے کہ گزشتہ چند سالوں میں قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے امریکہ میں شیل آئل نکالنے پر سرمایہ کاری کی گئی اور وہ منافع بخش ثابت ہوا تو 2008 سے اس میں 4 ملین بیرل تیل یومیہ کا اضافہ کیا گیا اور یہ تیل کی بین الاقوامی پیداوار میں ایک موثر حصہ ہے۔
اگر چہ تیل کی قیمتوں میں کمی کے ساتھ ہی امریکہ میں معاشی سر گرمیاں تیز ہو گئیں لیکن شیل آئل کی تجارت سے محروم ہونا اس کے لیے زیادہ بھاری ہے۔ امریکہ یورپ،سعودیہ اور اوپیک کو آسانی سے اپنی سرمایہ کاری کو تباہ کرنے نہیں دے گا ۔
3-امریکہ کو یاتو شیل آئل کی پیداوار کے خرچے کو کم کر نے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کے اسالیب پر اعتماد کر نا پڑے گا تاکہ اس کی قیمت بھی تیل کی موجودہ قیمتوں کے پیمانے پر آجا ئے۔ یہ آسان کام نہیں خاص کر جب تیل کی قیمتوں میں یہ کمی کا سلسلہ جاری رہے۔ لگ بھی ایسا رہا ہے کہ اس کی قیمتوں میں یہ کمی فی الحال نہیں رکے گی۔ آج 7 جنوری 2015 کی خبر ہے کہ یہ 50 ڈالر فی بیرل سے بھی کم ہو چکی ہے۔۔۔یا پھر امریکہ براہ راست سعودیہ کی طرف متوجہ ہو گا اور اس کے لیے کچھ بحران پیدا کر دے گا اور اس کے بجٹ خسارے کو بڑھا دے گا جس سے مجبور ہو کر وہ پیداوار میں کمی کرے گا جس کے نتیجے میں قیمت میں اضافہ ہو گا۔۔۔یا پھر یمن اور لیبیا میں برطانیہ کے لیے پیدا کیے گئے بحرانوں میں کمی کرے گا تا کہ اس کے بدلے برطانیہ سعودیہ پر پیداوار میں کمی کے لیے دباو ڈالے پھر اوپیک بھی اس میں کمی کرے یوں تیل کی قیمتیں بڑھ جائیں۔۔۔چونکہ ان تینوں میں سے کسی بھی حل کے لیے منصوبوں بلکہ سازشوں کی ضرورت ہے ۔۔۔اس لیے تیل کی قیمتوں میں کمی کا بحران قابل دید رہے گا۔ یہ طاقتوروں کی رسہ کشی یا سرمایہ دارانہ طریقے پر کچھ لو اور کچھ دو کی سوادابازی سے کم یا زیادہ ہوتی رہیں گی۔۔۔
پانچواں : یقیناً عالمی سیاست غیر مستحکم اور پریشان کن ہے،ا یک بحران سے چھٹکارہ پانے سے پہلے ایک اور بحران کا سامنا ہو تا ہے۔ یہ سب دنیا پر مسلط سرمایہ دارانہ نظام کی کرپشن ہے جو اپنے گود میں ہی عالمی بحرانوں کو پالتا ہے ۔ اسی سے عالمی نظام عمومی طور پر اور لوگوں کی زندگی خاص طور پر تنگ ہو جاتی ہے۔۔۔ جب تک یہ نظام دنیا میں قائم رہے گا یہ کرپشن،یہ تباہی،یہ بد بختی اور پریشان حالی باقی رہے گا۔ یہ بحران اس ربانی نظام کو نافذ کیے بغیر حل نہیں ہوں گے جس کو اللہ نے اپنے بندوں پر فرض کیا ہے جو کہ خلافت راشدہ کا نظام ہے جس کے آغوش میں ہی عدل اور اطمینان اور اس کے سائے میں ہی خوشحالی ہے
﴿وَيَقُولُونَ مَتَى هُوَ قُلْ عَسَى أَنْ يَكُونَ قَرِيبًا﴾
"وہ کہتے ہیں کہ وہ کب ہے ؟کہہ دیجئے شاید قریب ہی ہوگا"(الاسراء:51)