الجمعة، 25 صَفر 1446| 2024/08/30
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

قُلْ مُوتُواْ بِغَیْْظِکُمْ "کہہ دو کہ اپنے غصہ ہی میں مرجاؤ" (آل عمران:119) کتاب "نوید بٹ کو رہا کرو" جاری کر دی گئی

حزب التحریر ولایہ پاکستان نے عالمی سطح پر پاکستان میں خلافت کی سب سے مضبوط اور ممتاز آواز نوید بٹ کی رہائی کے لیے حزب التحریر کے امیر شیخ عطا بن خلیل ابو رشتہ کی قیادت میں چلائی جانے والی مہم کو ایک کتابی صورت میں جاری کر دیا ہے۔ نوید بٹ 11 مئی 2012 سے جنرل کیانی کے غنڈوں کی قید میں ہیں۔ دنیا بھر کے مسلمانوں نے اپنے وفود اور مظاہروں کے ذریعے یہ ثابت کر دیا ہے کہ پاکستان میں حزب التحریر کے ترجمان نوید بٹ لاپتہ ضرور ہیں لیکن انھیں کبھی بھی بھلایا نہیں گیا ہے۔

حزب التحریر ولایہ پاکستان امت کو اس با ت کی یقین دہانی کراتی ہے کہ اس عالمی مہم نے سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں کو اپنے ہی غصے کی آگ میں جلنے پر مجبورکر دیا ہے۔ انھوں نے اپنی گھٹیا ذہنیت کا مظاہرہ کیا اور اپنے ایجنٹوں کو متحرک کر کے میڈیا کے ذریعے دھمکی آمیز رپورٹز جاری کرائیں جس میں نوید بٹ کی زندگی کو درپیش خطرے کا ذکر کیا گیا۔ حزب التحریر ولایہ پاکستان غداروں اور ان کے آقاوں کو قرآن کے الفاظ میں یہ کہہ دینا چاہتی ہے کہ: قُلْ مُوتُواْ بِغَیْْظِکُمْ "کہہ دو کہ اپنے غصہ ہی میں مر جاؤ" (آل عمران:119)

حزب التحریر انھیں یقین دلاتی ہے کہ ان کا جبر صرف اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ وہ سچ کی قوت سے محروم ہیں، ان کا ظلم مظلوموں کی دعا کی طاقت میں اضافہ کرتا ہے، خلافت کے قیام کے عمل کو تیز تر کرتا ہے کہ مسلمان کبھی بھی ظالم کے جبر سے ڈر کر بھاگتے نہیں بلکہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکام کی خلاف ورزی ان کو غضب ناک کر دیتی ہے۔ حزب التحریر جنرل کیانی اور دیگر عہد شکنوں کو نوید بٹ پر اب تک کیے جانے والے مظالم کا ذمہ دار قرار دیتی ہے۔ اس کے علاوہ وہ انھیں سختی سے خبردار کرتی ہے کہ اگر نوید بٹ کو مزید کوئی نقصان پہنچایا گیا چاہے اس کے سر کا ایک بال توڑنا ہی کیوں نہ ہو، تو ان کا یہ عمل خلیفہ راشد کے ہاتھوں ان کی سزا کو شدید تر کر دے گا۔ اور آخرت کی سزا تو اس سے بھی زیادہ شدید تر ہو گی۔ تو کیا وہ کوئی سبق لیں گے!

اس کے علاوہ جیسا کہ حکومت امت کی انصاف کی پکار کے سامنے گرتی جا رہی ہے، حزب التحریر ولایہ پاکستان امت کے عظیم بیٹے نوید بٹ کی رہائی کے لیے جاری سیاسی مہم میں مزید تیزی لائے گی۔ لہذا حزب امت کو پکارتی ہے خصوصاً ان بیٹوں اور بیٹیوں کو جو میڈیا، قانون کے شعبے اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے منسلک ہیں کہ وہ اس جدوجہد کو جاری رکھیں جب تک نوید بٹ کو رہا نہیں کر دیا جاتا۔

کتاب "نوید بٹ کو رہا کرو" اس ویب لنک سے حاصل کی جاسکتی ہے:

http://pk.tl/1coW

نوٹ: اس مہم سے متعلق دیگر کتابچے مندرجہ ذیل ویب لنکس سے حاصل کیے جاسکتے ہیں:

نوید بٹ کی امریکی راج کے خلاف جدوجہد "کلمہ حق":

http://pk.tl/1bnL

نوید بٹ کی کتاب "جمہوریت مسائل کی جڑ ہے":

http://pk.tl/1coX

Read more...

عالمِ جلیل ،امیر حزب التحریر،عطا بن خلیل کا رمضان کے موقع پر پیغام

ان مخلص بھائیوں کی طرف جو اسلام کی دعوت کے علمبردار ہیں ...
اور دنیا بھر کے مسلمانوں کی طرف...
السلام علیکم
اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا: (یٰاَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ)''اے ایمان والو!تم پر روزے رکھنا لکھ دیا گیا ہے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر لکھا گیا تھا، تا کہ تم تقوی اختیار کرو‘‘(البقرة:183)۔ اور اللہ بزرگ و برتر نے فرمایا کہ ( فَمَنْ شَہِدَ مِنْکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہ)''تم میں سے جو شخص ا س (رمضان کے)مہینے کو پائے اسے چاہیے کہ وہ روزے رکھے‘‘(البقرة:185)۔ اوربخاری نے ابو ہریرہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :((صومو ا لرؤیتہ و افطروا لرؤیتہ فان غبی علیکم فاکملوا عدة شعبان ثلا ثین یوماً )) ''اس ( چاند ) کے دیکھے جانے پر روزہ رکھو اور اس ( چاند ) کے دیکھے جانے پر روزے رکھناختم کرو۔ اوراگرآسمان ابر آلود ہو تو شعبان کے تیس دن پورے کر لو‘‘ (بخاری)۔ اور مسلم نے ابوہریرہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ((صوموا لرؤیتہ و افطروا لرؤیتہ فان غبی علیکم فاکملوا العدد)) '' اس ( چاند ) کے دیکھے جانے پر روزہ رکھو اور اس ( چاند ) کے دیکھے جانے پر روزے ختم کرواور اگر آسمان پر بادل ہوں تو تیس دن پورے کر لو‘‘۔''
اس سال منگل کی رات کو ماہِ رمضان المبارک کے چاند کو دیکھنے اور تلاش کرنے کی کوشش کی گئی اور شریعت کے بتائے ہوئے طریقہ کار کے مطابق کوئی شہادت موصول نہیں ہوئی لہٰذا منگل کا دن انشأ اللہ شعبان کے مہینے کا ہی تسلسل ہے اور بدھ رمضان المبارک کا پہلا دن ہے۔ ہم اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے دعا گو ہیں کہ وہ مسلمانوں کے روزے اور راتوں کا قیام قبول فرمائے اور اللہ ہمارے گناہوں کو معاف فرمائے ۔ بخاری و مسلم نے ابو ہریرہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ((من صام رمضان ایمانا واحتسباً، غفر لہ ما تقدم من ذنبہً))''جس کسی نے ماہِ رمضان میں ایمان کے ساتھ اللہ کی رضا کے لیے روزے رکھے تو اللہ اس کے پچھلے گناہ معاف فرمادیں گے‘‘۔ اور ابو ہریرہ ایک اور روایت میں رسول اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ ((من قام رمضان ایماناً واحتسباً، غفر لہ ما تقدم من ذنبہ))''جس کسی نے ماہِ رمضان میں ایمان کے ساتھ اللہ کی رضا کے لیے راتوں کو قیام کیا تو اللہ اس کے پچھلے گناہ معاف فرمادیں گے‘‘۔
محترم بھائیو ،سن دو ہجری سے اللہ سبحانہ و تعالی نے رمضان کے مہینے میں روزے رکھنافرض کیا۔ یہی وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا (شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیَ أُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْآنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنَاتٍ مِّنَ الْہُدَی وَالْفُرْقَانِ)''رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا ، جو لوگو ں کے لیے ہدایت ہے اوراس میں حق و باطل کی تمیز کی نشانیاں ہیں۔‘‘(البقرة:185)
یہ وہ مہینہ ہے جس میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اس امت کو زبردست فتوحات اور کامیابیوں کے ذریعے عزت بخشی۔ 17رمضان المبارک کو بدر کے میدان میںمشرکین مکہ کو شکستِ فاش ہوئی ۔ دیگرکئی اہم جنگیں بھی اسی مہینے میں لڑیں گئیں ۔ مکہ سن 8ہجری میں رمضان کی 20تاریخ کوفتح ہوا۔ بویب کی جنگ میں اللہ نے مسلمانوں کو مثنہ کی قیادت میں 31ہجری میںفتح یاب کیا اور یہ رمضان کی 14تاریخ تھی۔ یہ جنگ موجودہ کوفہ کے قریب لڑی گئی جو کہ ُاس وقت سلطنتِ فارس کا حصہ تھا۔ عموریا کی جنگ معتصم کی قیادت میں 17رمضان213ہجری میں لڑی گئی۔ اور مسلمانوں نے تاتاریوں کوعین جالوت کی جنگ میں 25رمضان658ہجری میں شکست دی ۔ اس طرح اللہ نے رمضان کے مہینے میں مسلمانوں کوکئی کامیابیاں عطا فرمائیں۔
روزوں کا ذکر قرآن کے ساتھ کیا گیا کہ جس میں باطل کبھی بھی داخل نہیں ہو سکتا.....اور روزوں کا تعلق زبردست فتوحات اور کامیابیوںکے ساتھ بھی ہے......اور روزوں کاذکر جہاد کے ساتھ کیا گیا ہے......اور روزوں کا ذکر اللہ کے قوانین کے نفاذ کے ساتھ کیا گیاہے.......اور جو شخص بھی غور کرتاہے وہ یہ جان جاتا ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالی کے قوانین کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا ،چاہے ان کا تعلق عبادات سے ہو یا جہاد سے ، معاملات سے ہو یا اخلاقیات سے، جرائم سے ہو یا سزاؤں سے۔ یہ تمام ایک دوسرے سے جڑے ہوئے مسائل ہیں اور جو کوئی قرآن کی آیات پر غور و فکر کرتا ہے وہ یہ جان لیتا ہے کہ یہ بات قرآن کی آیات سے واضح ہے۔ اسی طرح روزوں سے متعلق آیات اور جو کچھ ان سے پہلے اور بعد میں بیان کیا گیا ہے ، اس سے یہ واضح ہے کہ:
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے روزے کے متعلق آیات سورة بقرة میںنازل کیں جن کی ابتدأ اللہ سبحانہ و تعالی کے اس فرمان سے ہوتی ہے کہ:( لَّیْْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوہَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَکِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاَخِرِ وَالْمَلآئِکَةِ وَالْکِتَابِ وَالنَّبِیِّیْنَ)''ساری اچھائی مشرق و مغرب کی طرف منہ کرنے میں ہی نہیں، بلکہ حقیقتاً اچھا شخص وہ ہے جو اللہ تعالی پر ،قیامت کے دن پر ،فرشتوں پر، کتاب اللہ پر اور نبیوں پر ایمان رکھنے والا ہو...‘‘۔(البقرة:177) یہاں تک کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا کہ (اُولَئِکَ لَہُمْ نَصِیْب مِّمَّا کَسَبُوْا وَاللّٰہُ سَرِیْعُ الْحِسَابِ)''یہ وہ لوگ ہیں جن کے لیے ان کے اعمال کا حصہ ہے اور اللہ تعالیٰ جلد حساب لینے والا ہے۔‘‘(البقرة:202)
ان آیات پر غور کرنے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ان آیات(یعنی البقرة:177-202) میں تقوی ، ایمانیات، روزوں، دعاؤں کے متعلق احکامات بیان کیے گئے ہیں، اوران آیات میں حکمرانوں اور حرام مال کے متعلق احکامات بھی ہیں اور اللہ کی راہ میں لڑائی یعنی جہاد اور حج کے متعلق احکامات بھی۔ اللہ کے تمام قوانین کو ایک ساتھ ہی قبول کیا جاتا ہے اور کوئی ایک قانون کسی دوسرے قانون سے یا کوئی ایک فرض کسی دوسرے فرض سے مختلف نہیں ، کیونکہ ان تمام احکامات کو نازل کرنے والا اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہی ہے ۔ وہی ذات ہے کہ جس نے معاملات، سزاؤں،سیاست،جہاد ، اخلاقیات ،کھانے پینے اور لباس غرض یہ کہ ہر چیز کے متعلق قوانین نازل کیے ہیں۔ اور ان تمام قوانین کا نفاذ اور ان پر عمل لازم ہے۔ عبادت کرنے کی فرضیت با لکل ویسے ہی ہے جیسا کہ معاملات کی، سزاوں پر عمل درآمد کی فرضیت بھی ویسے ہی ہے جیسا کہ خلیفہ کو بیعت دینے کی اور جہاد اور دیگر احکام کی ۔ اس بات کی بالکل اجازت نہیں کہ ہم ان احکامات میں تفریق کریں کیونکہ اسلام ایک کُل ہے جس کو الگ الگ نہیں کیا جاسکتااور اسلام کی دعوت بھی ایک ہی ہے کہ اسلام کو ریاست، انسانی زندگی اور معاشرے میں ایک کُل کے طور پر نافذ کیا جائے۔ لہٰذا جو کوئی بھی اللہ کی آیات میں فرق کرتا ہے اور دین و دنیا کی جدائی کی دعوت دیتا ہے یا دین اور سیاست کی جدائی کی بات کرتا ہے ،وہ ایک بڑا گناہ اور جرم کرتا ہے ،جو اُس کے لیے اس دنیا میں رسوائی اور آخرت میں سخت عذاب کا باعث بنے گا۔
اور پھر اللہ نے سورة بقرہ کی روزوں سے متعلق آیات کے درمیان دعا کا ذکر کیا اور فرمایا (وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْب اُجِیْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَلْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّہُمْ یَرْشُدُونَ)''جب میرے بندے میرے بارے میں آپ سے سوال کریں تو آپ کہہ دیں کہ میں بہت ہی قریب ہوں ،میں ہر پکارنے والے کی پکار کو جب کبھی وہ مجھے پکارے،قبول کرتا ہوں، تو لوگوں کو بھی چاہیے کہ وہ میری بات مان لیا کریں اور مجھ پر ایمان رکھیں ،یہی ان کی بھلائی کا باعث ہے۔‘‘(البقرة:186)
یہاں اللہ سبحانہ و تعالی نے پہلے روزے رکھنے کا حکم دیا ،پھر دعا کا حکم دیا اور اس کے بعد پھر روزوں کا تذکرہ کیا، تا کہ دعا کی اہمیت کو واضح کر دیاجائے۔ لہٰذ ا ہمیں چاہئے کہ ہم رمضان میں اپنی دعاؤں میں اضافہ کریں کہ رسول اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ((ثلاثة لا ترد دعوتھم الامام العادل و الصائم حتی یفطر و دعوة المظلوم تحمل علی الغمام، و تفتح لھا ابواب السماوات، ویقول الرب عز و جل : و عزتی لانصرنک و لو بعد حین)) '' تین لوگوں کی دعائیں رد نہیں کی جاتیں: افطار کے وقت روزہ دار کی دعا، عادل حکمران اور مظلوم کی دعا۔ اللہ ان کی دعاؤں کو بادلوں سے اوپر اٹھا تا ہے اور ان دعائوں کے لیے آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور اللہ فرماتاہے ،مجھے میری شان کی قسم!میںضرورتمھاری مدد کروں گا اگرچہ اس میں کچھ تاخیر ہی ہو‘‘۔ (امام احمد بن حنبل نے ابوہریرہ سے روایت کیا)۔ روزے سے متعلق آیات کے درمیان دعا کو ذکر کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالی اس ماہ میں دعاؤں کو بڑھانے کی تاکید فرمارہے ہیں اور ان آیات میں یہ بیان کیا گیا کہ اللہ سنتا ہے کیونکہ وہ قریب ہے اور اپنے بندوں کے سوال کا جواب دیتا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ ہمیں اپنے روزوں کی حفاظت کرنی ہے تا کہ اللہ سبحانہ و تعالی ہم سے راضی ہوجائیں اور ہمارے گناہوں کو معاف فرمائے ۔ ہمیں خلافتِ راشدہ کے قیام کے لیے سنجیدہ اور شدید جدوجہد کرنی ہے،کہ جس کے قیام کے بغیر اسلامی طرزِ زندگی کا دوبارا آغاز نہیں ہو سکتا، تا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے 'العقاب' یعنی کلمہ طیبہ والے جھنڈے کے سائے تلے اللہ کے قوانین کو نفاذکیا جائے اور ہمیں نہ صرف دنیا میں کامیابی حاصل ہو بلکہ ہم اس دن بھی سرخروہو سکیں کہ جس دن اللہ کے سائے کے سوا کوئی سایہ نہیں ہوگا ۔ ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ اس بابرکت مہینے میں ہمارے روزوں کو قبول فرمائے جس کا پہلا عشرہ رحمت، دوسرا عشرہ مغفرت اور تیسرا عشرہ جہنم سے نجات کا ذریعہ ہے۔ اور جب اگلا رمضان آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پر چلنے والی خلافتِ راشدہ موجود ہو ،جو ہمیں عزت بخشے گی اور اس امت کو باقی تما م امتوں سے ممتاز اور برتر بنا دے گی، جیسا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اس امت کے متعلق بیان کیا ہے:(کُنْتُمْ خَیْْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللّٰہِ) ''تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے واسطے پیدا کیے گئے ہو، تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔‘‘(آل عمران:110)۔
اور اس خلافت کا حکمران خلیفہ ایسا ہو گا جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ((انَّمَاالاِمَامُ جُنَّة یُقَاتَلُ مِن وَّرَائہِ وَیُتَّقٰی بِہ)) ''بے شک خلیفہ ایک ڈھال کی مانند ہے، جس کے پیچھے رہ کر لڑا جاتاہے اور اسی کے ذریعے تحفظ حاصل ہو تاہے ‘‘(مسلم نے ابو ہریرہ سے روایت کیا)۔ وہ خلیفہ شام کی سرزمین سے جابروں کو اکھاڑ پھینکے گا اوراس کے مسلمانوں ، بچوں ،بوڑھوں اور عورتوں کو ظالموں سے نجات دلائے گا.......اور ہم اس خلیفہ کی حفاظت میں اسلام کی سرزمین سے جابروں کا خاتمہ کریں گے اور اسلام کے قوانین کو نافذ کریں گے۔ تا کہ مصر اور باقی مسلم دنیا میں اللہ کے قوانین کے عدم نفاذ کی وجہ سے جو بد امنی اور فساد برپاہے ،اس کا خاتمہ ہو....اور پھر وہ خلیفہ فلسطین کی آزادی اور یہودی ریاست کی غلاظت کے خاتمے میں ہماری قیادت کرے گا اوراسرأ و معراج کی سرزمین کی عزت و عظمت کو اسلام اور اس کی افواج کے ذریعے بحال کرے گا........اور ہم اس کے پیچھے رہ کر کشمیر اور تمام مقبوضہ مسلم علاقوں کی آزادی کے لیے استعماری کفار سے جہاد کریں گے یہاں تک کہ اسلامی سرزمین کا ایک انچ بھی اسلام کے سائے سے محروم نہیں رہے گا۔
( وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ بِنَصْرِ اللَّهِ ۚ يَنْصُرُ مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ)
''اس روز مسلمان اللہ کی مدد و نصرت سے شادمان ہوں گے۔ وہ جسے چاہتا ہے فتح عطا کرتا ہے ۔ وہی غالب ہے اور بڑا مہربان ہے‘‘(الروم:4-5)
والسلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ
آپ کا بھائی،
عطا بن خلیل ابو رَشتہ، امیر حزب التحریر

Read more...

شام میں مسلمانوں کی مدد کرنا صرف طالبان کی نہیں بلکہ افواج پاکستان کی بھی ذمہ داری ہے جو ایٹمی اسلحے سے لیس ہے

روزنامہ ڈان نے 15جولائی2013کو یہ رپورٹ کیا کہ ''پاکستانی طالبان نے شام میں کیمپ قائم کر لیے ہیں اور سیکڑوں جنگجو صدر بشار الاسد کے خلاف باغیوں کے ساتھ مل کر لڑنے کے لیے بھیجے ہیں''۔ یہ بھی کہا گیا کہ ''پاکستان کی وزارت داخلہ کے ترجمان عمر حامد خان نے کہا ہے کہ پاکستان بھر میں صوبائی انتظامیہ نے اس بات کی تردید کی ہے کہ جنگجو ملک سے شام کی جانب روانہ ہوئے ہیں۔ لیکن تین پاکستانی انٹیلی جنس حکام نے جو افغانستان سے منسلک قبائیلی علاقوں میں تعینات ہیں اور عسکریت پسندوں نے یہ کہا ہے کہ عسکریت پسند شام کی جانب روانہ ہوئے ہیں جن میں القائدہ، پاکستانی طالبان اور لشکر جھنگوی کے اراکین شامل ہیں''۔
اللہ سبحانہ و تعالی فرماتے ہیں کہ﴿وَإِنِ اسْتَنْصَرُوكُمْ فِي الدِّينِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ﴾''اگر یہ دین کے بارے میں تم سے مدد چاہیں تو تم پر ان کی مدد لازم ہے'' (الانفال:72)اور شام کے لوگوں نے امت مسلمہ، اس کی افواج اور ان کے حکمرانوں کو ہزاروں بار پکارا کہ ان کی مدد کی جائے یہاں تک کہ وہ ان سے مایوس ہوگئے لیکن اپنے رب سے مایوس نہیں ہوئے۔ لہذا انھوں نے اپنے مقدس انقلاب میں شام کے جابر کے خلاف یہ نعرہ اختیار کیا کہ ''اے اللہ ہمارا تیرے سوا کوئی نہیں ہے''۔ اسلام امت مسلمہ سے ،جس میں پاکستان کے مسلمان بھی شامل ہیں، شام کے مسلمانوں کی حقیقی مددکے لیے اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ پاکستان اپنی افواج کو شام بھیجے جو ایٹمی اسلحے سے لیس ہے۔ وہ اپنے جنگی جہاز،ٹینک اور کمانڈوز بھیجے جو بشار کے قلعے کو مسمار کردیں اوراس کے غنڈوں، اور منافق ریاستوں میں سے جو کوئی بھی بشار کی مدد کررہے ہیں ان کو بھی برباد کردیں۔ پاکستان کے مسلمان اسلامی نقطہ نگاہ سے محض چند مجاہدین یا زکوة کی رقم یا کھانے کی اشیأ بھیج کر اپنی ذمہ داری سے بری الذمہ نہیں ہوسکتے۔
جہاں تک وزارت خارجہ کی اس تردید کا تعلق ہے کہ طالبان کی چند عناصر شام میں اپنے مظلوم بھائیوں کے ساتھ مل کر لڑنے کے لیے گئے ہیں تو یہ تردید اس بات کی تصدیق ہے کہ کیانی و شریف حکومت بشار کے ظلم و جبر کی حمائت کررہے ہیں۔ یہ حکومت اس بات کو جرم سمجھتی ہے جو چند مسلمان ایک دوسرے کی مدد کر تے ہیں اور انھیں ایسا کرنے سے روکتی ہے ۔ یہ تردید اس بات کی بھی تصدیق کرتی ہے کہ یہ حکومت مغرب کے مفادات کی نگہبانی کرتی ہے جس نے مسلمانوں کی زمینوں کو تقسیم کیا اور پھران غداروں کو حکمران بنا کر ان مصنوعی سرحدوں کی حفاظت کرنے کی ذمہ داری سونپ دی۔یہ صورتحال اس بات کی بھی نشان دہی کرتی ہے کہ ہمارے حکمران اس عظیم امت سے کوئی تعلق نہیں رکھتے﴿إِنَّ هَذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُونِ﴾''یہ تمھاری امت، ایک امت ہے اور میں تمھارا پروردگار ہوں تو میری ہی عبادت کرو''(الانبیأ:92)۔
کیانی و شریف حکومت نے شامی انقلاب کے خلاف وہی شرمناک موقف اختیار کررکھا ہے جو کافر مغربی ممالک نے اختیار کیا ہوا ہے کہ وہ بشار کی حکومت کی خفیہ اور کھلی حمائت کرتے ہیں اور ان میں سے سب سے کم برے وہ ہیں جو شام کے مظلوم لوگوں کو بشار کے ظلم و ستم سے نجات دلانے کے لیے انگلی تک نہیں ہلا تے بلکہ خاموشی سے ہلاک اور زخمی ہونے والوں کی گنتی کررہے ہیں۔ اور ایسا اس وجہ سے ہے کیونکہ پاکستان کی حکومت بشار الاسد کی حکومت کی طرح امریکہ کی حمائتی ہے۔ لہذا وہ طالبان جنگجوجو شام میں اپنے بھائیوں کی مدد کرنے کے لیے گئے ہیں اس بات سے خبردار رہیں کہ ان میں اس ایجنٹ حکومت کے کارندے شامل نہ ہوجائیںتا کہ شام کے انقلاب کو کسی بھی قسم کے نقصان سے محفوظ رکھا جاسکے اور بشار اور کیانی و شریف حکومت کے اصل آقا امریکہ کو کوئی فائدہ حاصل نہ ہوسکے۔
افواج پاکستان میں موجود مخلص افسران! کیا تم نہیں دیکھتے کہ پاکستان میں موجود حکومت نے افواج پاکستان کو دنیا بھر میں امریکی آلہ کار کے طور پر استعمال کیا ہے تا کہ مسلمانوں کو کوئی فائدہ نہ پہنچے اور صرف صلیبیوں کے مفادات ہی کی تکمیل ہو؟ کیا تم نہیں دیکھتے کہ امریکہ نے افغانستان میں سویت یونین کو شکست دینے کے لیے ہماری افواج کو استعمال کیا تا کہ خطے میں امریکی راج کو قائم کیا جاسکے؟ اور انھوں نے استعمال کیا تھااور اب بھی افغانستان میں امریکی قابض افواج کے خلاف لڑنے والے مجاہدین اور ان تمام مزاحمتی قوتوں کے خلاف استعمال کررہے ہیں جو خطے میں امریکی راج کی مخالف ہیں؟ تم امریکی حمائتی کہلائے جانے کو کیسے قبول کرسکتے ہو اور اس بات کو بھی کیسے قبول کرسکتے ہو کہ ایک طرف بزدل امریکیوں کو بچانے 1993میں صومالیہ جیسے دور دراز کے ملک پہنچ جاؤں اور شام کے مسلمانوں سے منہ موڑ لو جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ((إِذَا فَسَدَ أَهْلُ الشَّامِ فَلَا خَيْرَ فِيكُمْ)) ''اگر شام کے لوگوں میں بگاڑ آ گیا تو پھر تم میںکوئی خیر باقی نہیں رہے گی''(احمد)۔
شام میں اپنے بھائیوں کی مدد کرنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں کو اکھاڑ پھینکو اور اختیار حزب التحريرکے سپرد کردو، اس کے امیر ، مشہور فقیہ،عطا بن خلیل ابو الرَشتہ کی قرآن و سنت کے نفاذپر بیعت کرو اور وہ تمھارے خلیفہ کے طور پر شام کے مسلمانوں کو جابر کے ظلم سے نجات کے لیے فوج کشی کریں اور افغانستان اور عراق کو امریکی قبضے سے نجات دلاتے ہوئے شام کی جانب بڑھیں۔ اللہ کی قسم تم اس قابل ہو اور تم اللہ کی مدد سے ایسا کرسکتے ہو اور آج کے بعد اپنی اس ذمہ داری کی ادائیگی سے اجتناب کرنے کے لیے تم میںسے کسی کے پاس اب کوئی حیلہ یا جواز نہیں ﴿وَاللَّهُ غَالِبٌ عَلَى أَمْرِهِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ﴾''اور اللہ اپنے امر میں غالب ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے''(یوسف: 21)

Read more...

تفسیر  سورہ البقرہ آیات  83 تا 86

مشہور فقیہ اور رہنما، امیر حزب التحریر، شیخ عطا بن خلیل ابو الرَشتہ کی کتاب "التیسیرفی اصول التفسیر" سے اقتباس

(ترجمہ)

 

﴿وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ لَا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ ثُمَّ تَوَلَّيْتُمْ إِلَّا قَلِيلًا مِنْكُمْ وَأَنْتُمْ مُعْرِضُونَ﴾ (83)
﴿وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَكُمْ لَا تَسْفِكُونَ دِمَاءَكُمْ وَلَا تُخْرِجُونَ أَنْفُسَكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ ثُمَّ أَقْرَرْتُمْ وَأَنْتُمْ تَشْهَدُونَ﴾ (84)
﴿ثُمَّ أَنْتُمْ هَٰؤُلَاءِ تَقْتُلُونَ أَنْفُسَكُمْ وَتُخْرِجُونَ فَرِيقًا مِنْكُمْ مِنْ دِيَارِهِمْ تَظَاهَرُونَ عَلَيْهِمْ بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَإِنْ يَأْتُوكُمْ أُسَارَىٰ تُفَادُوهُمْ وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ إِخْرَاجُهُمْ أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ فَمَا جَزَاءُ مَنْ يَفْعَلُ ذَٰلِكَ مِنْكُمْ إِلَّا خِزْيٌ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يُرَدُّونَ إِلَىٰ أَشَدِّ الْعَذَابِ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ﴾ (85)
﴿أُولَٰئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُا الْحَيَاةَ الدُّنْيَا بِالْآخِرَةِ فَلَا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَلَا هُمْ يُنْصَرُونَ﴾ (86)
" اور(وہ زمانہ یاد کرو)جب ہم نے (توریت میں)بنی اسرائیل سے وعدہ لیاکہ اللہ کے سوا( کسی اورکی) عبادت مت کرنا اورماں باپ کی اچھی طرح خدمت گذاری کرنااور قرابت داروں کی بھی اوریتیموںکی بھی اورغریب محتاجوں کی بھی اور جب عام لوگوں سے (کوئی)بات (کہناہوتو) اچھی طرح(خوش خلقی سے) کہنااورنماز کی پابندی کرنااورزکوٰة اداکرتے رہنا،لیکن تھوڑے سے لوگوں کے علاوہ تم سب پھرگئے ،اورتمہاری تومعمول کی عادت ہے، اقرارکرکے ہٹ جانا ۔ اور(وہ زمانہ یاد کرو)جب ہم نے تم سے یہ وعدہ(بھی) لیا کہ (خانہ جنگی کرکے) باہم خونریزی مت کرنااورایک دوسرے کوجلاوطن مت کرنا،پھر( ہمارے اس اقرارلینے پر)تم نے اقراربھی کرلیا،اوراقراربھی (ضمناً نہیں بلکہ) ایساکہ گویاتم (اس پر)شہادت (بھی) دیتے ہو۔ پھراس (اقرارصریح کے بعد) تم (جیسے ہو)یہ(آنکھوں کے سامنے )موجود ہےکہ باہم قتل وقتال بھی کرتے ہواورآپس کے ایک فرقے کوجلاوطن بھی کرتے ہو(اس طورپر) کہ ان اپنوں کے مقابلہ میں (مخالف قوموںکی) طرف داری کرتے ہو،گناہ اورظلم کے کاموںمیں(سوان دونوں حکموں کوتویوں غارت کیا)اور(ایک تیسراحکم جوسہل سمجھااس پرعمل کرنے کوخوب تیاررہتے ہوکہ )اگران لوگوں میں سے کوئی قیدی ہوکرتم تک پہنچ جائے توایسوں کوکچھ خرچ کراکررہاکرادیتے ہولیکن ان کانکالناجوتم پر حرام تھا (اس کاکچھ خیال نہ کرتے)۔ کیاتم کتاب (توریت )کے بعض (احکام )پر ایمان رکھتے ہواوربعض (احکام)پرایمان نہیں رکھتے تواورکیاسزاہونی چاہئے ایسے شخص کی جو ایسی حرکت کرے ماسوائے دنیاوی زندگی میں رسوائی کے اور قیامت کے دن بڑے سخت عذاب کی مارکے اوراللہ تعالیٰ (کچھ) بے خبر نہیں تمہارے اعمال (بد )سے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے دنیاکی زندگی کوآخرت کے بدلے مول لیاہے ان سے نہ توعذاب ہلکے ہوں گے اورنہ ان کی مدد کی جائے گی۔"
عطاءبن خلیل ابوالرَشتہ(امیرحزب التحریر)نے اپنی تفسیر التیسیر فی اصول التفسیرمیں ان آیات شریفہ کی تفسیریوں کی ہے:
-1 ان آیات میں اللہ سبحانہ وتعالی ٰ ہمیں یہ خبردیناچاہتاہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے یہ عہد لیاتھاکہ وہ صرف اللہ کی عبادت کریں گے ،یہاں ﴿لَا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ﴾ جوکہ نہی کے معنی میں ہے ،یعنی اللہ کےسوا کسی اورکی عبادت مت کرنا، اوریہ کہ اپنے والدین کی اچھی طرح خدمت گذاری کرنا ،یتیموں ،مسکینوں کے ساتھ اچھاسلوک کرنا ، اوریہ کہ لوگوں کے ساتھ بات چیت میں خوش اخلاقی کامظاہرہ کں ۔ ان آیات میں حُسنًاآیاہے ،اس کودونوں طرح پڑھاجاسکتاہےحُسناًاور حَسَناًاور یہ دونوں متواتر قراءت ہے۔
اوریہ عہد لیاتھاکہ نماز قائم کریں اورزکوٰة دیاکریں،لیکن انہوں اس عہد کی پاسداری نہیں کی،بلکہ اس سے پھر گئے اورسب نے اس کوٹکرادیا،سوائے چند لوگوں کے جو ایمان لائے تھےاوراسلام قبول کیاتھا،یہ عہدوپیما ن تمام یہود سے لیاتھا،خواہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے کے یہودی ہوں ،یعنی جس دوران یہ معاہدہ کیا جارہا تھا،یاان کے بعد کے یہود ہوں ،اسی طرح یہ عہد ان یہودیوںکوبھی شامل ہے ،جورسول اللہ ﷺ کے زمانے میں تھے ،توجوعہد ان کے اسلاف سے لیاگیاوہی ان کے خلف اورجانشینوں پربھی صادق ہوگااورجن یہود سے براہ راست یہ عہد لیاگیا،ان کی طرف سے عہدشکنی ان یہودیوں پربھی لاگوہوتی ہے، جورسول اللہ ﷺ کے زمانے میں موجود تھے ،کیونکہ یہ لوگ بھی کلام الٰہی میں تحریف کے مرتکب تھے اوراپنی کتابوں میں مذکوررسول ﷺ کے اوصاف میں باوجود اس کے کہ انہیں اس بارے میں حق کاعلم تھا،تبدیلی کرتے تھے۔
﴿وَأَنْتُمْ مُعْرِضُونَ﴾ یعنی تم ایسی قوم ہوجن کی عادت ہی اقرار کرکے ہٹ جانا اورمعاہدوں کی خلاف ورزی کرناہے ۔
-2 پھراللہ تعالیٰ ہمیں خبردیتے ہیں کہ اللہ نے ان سے میثاق (مضبوط وعدہ)لیاتھاکہ ایک دوسرے کوقتل نہیں کروگے اورایک دوسرے کوجلاوطن بھی نہیں کروگے ، جیساکہ اس آیت میں ہے کہ ﴿لَا تَسْفِكُونَ دِمَاءَكُمْ وَلَا تُخْرِجُونَ أَنْفُسَكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ﴾ یعنی دوسرے فریق کاخون بہانااوردوسرے فریق کے آدمیوں کوان کے گھروں سے نکال دینا۔ تو اللہ نے ان کے ایک ہی ملت(مذہب) سے ہونے کوایک ہی خون اورایک ہی جان سے تعبیر کیا۔
-3 ان آیات کے منطوق سے یہ واضح ہوتاہے کہ جس چیز پران سے عہد لیاگیاتھاوہ ایک دوسر ے کے قتل اور جلاوطن کرنے کوچھوڑناتھا ﴿لَا تَسْفِكُونَ دِمَاءَكُمْ وَلَا تُخْرِجُونَ أَنْفُسَكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ﴾ کایہی معنی ہے، اور آیات کے مفہوم سے واضح ہوتاہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے یہ بھی عہد لیاتھاکہ ایک دوسرے کے خلاف دوسرے لوگوں کی پشت پناہی نہ کروگے اور قیدیوں کورہائی دلانے کے واسطے مالی معاوضہ دو گے ،یہی آیت کے اس حصے کا مفہوم ہے:﴿تَظَاهَرُونَ عَلَيْهِمْ بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَإِنْ يَأْتُوكُمْ أُسَارَىٰ تُفَادُوهُمْ وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ إِخْرَاجُهُمْ﴾ ۔
﴿وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ إِخْرَاجُهُم کاعطف وَتُخْرِجُونَ فَرِيقًا مِنْكُمْ مِنْ دِيَارِهِمْ﴾ پر ہے،اوراس کے حکم کابیان بھی ہے ،لغت میں جب ایک فصیح عربی (جواہل لغت میں سے ہو)معطوف کواس کے معطوف علیہ یاصفت کواس کے موصوف سے الگ کرکے لائے،یاگفتگومیں جملوں کوآگے پیچھے لائے،وغیرہ،تواس کی گفتگومیں وہی کچھ مقصود ہوتا ہے جوکلام کی ترتیب کے خلاف ہو تاکہ وہ نمایاں ہو۔
یہاں بھی معطوف علیہ (یعنی جس کے بارے میں حکم کیاگیاہے: ﴿وَتُخْرِجُونَ فَرِيقًا مِنْكُمْ مِنْ دِيَارِهِمْ ﴾ہے اور معطوف(یعنی حکم) ﴿وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ إِخْرَاجُهُمْ﴾ ہے،ان کے درمیان﴿ تَظَاهَرُونَ عَلَيْهِمْ بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَإِنْ يَأْتُوكُمْ أُسَارَىٰ تُفَادُوهُمْ﴾ کولاکرجدائی کی ہے ،اس سے معلوم ہوتاہے کہ یہاں کوئی ایسی چیزہے جسے اخراج(جلاوطنی)کے موضوع اوراس کے حکم کے حوالے سے ظاہرکرنامقصود ہے۔
ان آیات میں غورکرنے سے پتہ چلتاہے کہ جس چیز کااظہار ضروری ہے وہ یہ ہے کہ ان کی اس بات پرسرزنش کی جائے کہ وہ اپنے بھائیوں کے ساتھ جنگ کرکے ان کو گھروں سے نکلنے پر مجبور کرتے ہیں ،نہ یہ کہ ان کوامن کی حالت میں نکالتے ہیں،اس سے ان کی ملامت اور سرزنش میں اور اضافہ کیا گیاہے ۔ تواگرآیت یوں ہوتی وَتُخْرِجُونَ فَرِيقًا مِنْكُمْ مِنْ دِيَارِهِمْ وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ إِخْرَاجُهُمْ تو اخراج کی کیفیت کاپتہ نہ چلتا،کیونکہ ممکن ہے ،ان کوعام ذرائع سے نکال دیتے ہوں گے ،جوامن یاایک معاہدہ اورخرید وفروخت کی صورت میں بھی ہوسکتاہے،لیکن﴿تَظَاهَرُونَ عَلَيْهِمْ بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَإِنْ يَأْتُوكُمْ أُسَارَىٰ تُفَادُوهُمْ ﴾ کو درمیان میں لاکریہ بتایا کہ وہ اپنے لوگوں کے ساتھ لڑ کرہی ان کونکال دیتے تھے ،پھر اس کے بعد اس کاحکم آیا،تاکہ ان کی ملامت اس طرح کی جائے کہ ا ن کااپنے بھائیوںکونکالنالڑکرہوتاتھا،جوان کے ساتھ کسی بھی ذریعے سے مفاہمت کرکے ان کوراضی خوشی نکالنے کے مقابلے میں بہت سخت ہوتا تھا،اس لئے ان دونوں کے درمیان ےہ جملہ لایا گیا: ﴿وَتُخْرِجُونَ فَرِيقًا مِنْكُمْ مِنْ دِيَارِهِمْ اور وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ إِخْرَاجُهُمْ﴾ جوآپس میں ناقابل انفصال ہے،جدائی کرنے کامقصد ان کی سرزنش اور ملامت کااظہار ہے کہ وہ اپنے بھائیوں کوجنگ کے ذریعے نکالتے ہیں نہ کہ پرامن طریقے سے ۔
اسی سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ انہوں نے پہلے تین معاہدوںکوتوڑا(قتل نہ کرنا،ترک وطن کرانے کاعمل چھوڑنااورپشت پناہی یعنی اپنے بھائیوں کے خلاف تعاون نہ کرنا)ان معاہدوں سے منہ پھیرلئے ،ماسوائے چوتھے معاہدے کے کہ اس پرقائم رہے( یعنی قیدیوں کی رہائی کیلئے معاوضہ دینا)۔اس طرح انہوں نے بعض پرتوایمان لایااوربعض سے کفرکیا،اس لئے کہاگیا ﴿أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ﴾ کیاتم کتاب(توراة) کے کچھ حصے پر توایمان لاتے ہواور بعض سے کفر کرتے ہو،تویہ استفہام انکاری ہے،جبکہ ان کی بداعمالیوں پر ان کی سرزنش بھی کی گئی ۔
-4 اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے یہ بیا ن کرتے ہوئے آیت کوختم کیاہے کہ ایسے کردارکے حامل لوگوں کاانجام کیاہوتاہے ﴿خِزْيٌ﴾ ،ذلت وخواری اور دنیامیں بے عزتی ہوتی ہے اورآخرت میں شدید ترین عذاب ، اوریہ کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ ان کے گھناؤنے اعمال سے بے خبر نہیں،،بلکہ اللہ تعالیٰ ان کے اعمال کوگنتاہے اور ان کومحفوظ کرتاہے ،بالآخر ان کوان اعمال کی وہ سزادے گاجس کے وہ حقدار ہیں ،دنیامیں رسوائی اور ذلت اور آخرت میں شدید عذاب ﴿وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ﴾
-5 یہ آیت مدینہ کے یہودیوں کی حالت کوبیان کرتی ہے، ان کے پاس اسلام کے آنے کے وقت، بنوقینقاع کا یہودی قبیلہ ، خزرج کا حلیف تھا اوربنونضیراوربنوقریظہ یہ دونوں یہودی قبیلے اوس کے حلیف تھے ،یہودی، اوس وخزرج کے درمیان جنگ بھڑکاتے اوران میں سے ہرفریق اپنے حلیفوں کی مددومعاونت کرتا،اس لئے ہرایک اپنے حلیف کاساتھ دیکر آپس میں لڑتا ،پھرجنگ کے نتیجے میں ایک دوسرے کوگھروں سے نکال دیتا لیکن یہودی آخرمیں اپنے قیدیوں کوچھڑوانے کیلئے ایک ہوجاتے ،چاہے بنوقینقاع والے ہوں یابنی نضیراوربنی قریظہ میں سے ہوں ،اس لئے فرمایا ﴿وَإِنْ يَأْتُوكُمْ أُسَارَىٰ تُفَادُوهُمْ﴾ اوراگرتمہارے حلفاءکے پاس دوسرے فریق کے یہودی قیدی آجائیں توتم ان کافدیہ دیتے ہواوران کی گردن چھڑاتے ہو،یہاں ﴿وَإِنْ يَأْتُوكُمْ﴾ کامعنی ہے کہ جب یہ یہودی تمہارے حلفاءکے پاس قیدی بن جاتے ہیں توگویاوہ تمہارے پاس قیدی بن کرآئے۔
تو جب ان سے کہاجاتاتھاکہ تم آپس میں کیوں کرایک دوسرے کوقتل کرتے ہوجبکہ اوس وخزرج کے ہاتھوں میں جانے والے تمہارے قیدیوں کے فدیہ کیلئے تم مل کرخرچ کرتے ہو،تو وہ کہتے ہیں کہ ہم اس لئے یہ کرتے ہیں کہ اللہ کی طرف سے جومیثاق لیاگیاتھا ،اس کی روسے قیدیوں کوفدیہ کے ذریعے چھڑواناتوہم پر فرض ہے،اوراس بات کوچھپاتے تھے کہ میثاق توقتل چھوڑنے اورملک بدرکرنے نیزایک دوسرے کے خلاف پشت پناہی نہ کرنے کابھی لیاگیاتھا،تووہ اوس وخزرج کے درمیان جنگ کی آگ بھڑکانے کیلئے یہ سب کچھ کرتے ،اوردنیوی مفاد کیلئے جومیثاق ان سے لیاگیاتھااس کی خلاف ورزی کرتے تھے،تاکہ مدینہ میں ان کی شان باقی رہے اوروہ اوس وخزرج کے درمیان ان کی بھڑکائی ہوئی آگ کے نتیجے میں ان کوکمزورکرناچاہتے تھے ۔
-6 اس لئے اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اس آیت کے اندران کی یہ حالت بیان کی کہ ان لوگوں نے اپنی آخرت کواپنے کھوٹے اورفانی دنیوی مصالح کے بدلے بیچ دی ہے،اللہ تعالیٰ نے اس کے نتیجے میں ان کوایسے شدید عذاب کی دھمکی دی جس میں کوئی کمی نہیں کی جائیگی ،اورجس کوکسی طوربھی ان سے ہٹایانہیں جاسکے گا ﴿وَلَا هُمْ يُنْصَرُونَ﴾ کایہی معنی ہے۔

Read more...

سوال وجواب : شام کے انقلاب اورحزب التحریر کے حوالے سے

(حزب التحریر کے امیر شیخ عطا بن خلیل ابو الرشتہ کی جانب سے فیس بک پر ان کے صفحے کو وزٹ کرنے والوں کی طرف سے پوچھے گئےسوالات کے جوابات کا سلسلہ)

مامون شحادہ ۔ صحافی،رائٹر اور سیاسی تجزیہ نگار کی طرف سے علامہ عطابن خلیل ابو الرشتہ سے سوال

 

سوال:
سلام کے بعدمیں آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ وہ کیا محرکات تھے جن کی وجہ سے حزب التحریر شام کے انقلاب میں شامل ہو گئی جبکہ باقی جگہوں پر ایسا نہیں کیاگیا؟

جواب:
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
میرے بھائی ہمارا کام ،ہراس جگہ جہاں بھی ہمیں کام کرنے کا موقع ملے، ایک ہی ہے اور تبدیل نہیں ہوتا۔
ہمارا یہ کا م ہر وقت اور ہر جگہ رسول اللہ ﷺکے اس طریقے پر کاربند رہتے ہوئے جو آپ ﷺ نے مکہ مکرمہ میں بعثت کے سے لے کر مدینہ منورہ میں اسلامی ریاست کے قیام تک اختیار کیاخلافت راشدہ کے قیام کے عمل کے ذریعے اسلامی زندگی کا دوبار احیا ہے،

ہم لوگوں کو حق کی دعوت دینے کے لیے ان سے روابط رکھتے ہیں،ان کو یہ بتاتے ہیں کہ خلافت ایک عظیم فرض ہے جس کے قیام کے لئے کام کرنا ان کی ذمہ داری ہے۔اس حوالے سے ہم امت کے ساتھ تبادلہ خیال کرتے ہیں اور امت کے ساتھ اور اس کے ذریعے اس عظیم مقصد کے حصول کی کوشش کر تے ہیں،اسی طرح ہم خلافت کے قیام کی خاطر نصرہ طلب کرنے کے لیے اہل قوت سے رابطہ کرتے ہیں اور ان کو نصیحت کرتے ہیں کہ خود ساختہ سکیولر نظام کو ختم کیے بغیر صرف چہروں کو تبدیل کر کے اپنی محنت کو ضائع نہ کریں۔
بلکہ اپنی جد وجہد،اپنی طاقت اور اپنی قربانیوں کو انسان کے بنائے ہوئے اس نظام کو حکمرانوں اور قوانین سمیت جڑ سے اکھاڑ پھینکنے اور خلافت کے قیام کے لیے صرف کریں۔
ہم ان کے لئے ایسی وضاحت کرتے ہیں جس طرح یہ اسلام میں ہے،جو ہماری بات سنتا ہے ہم درست سمت میں اس کی راہنمائی کرتے ہیں اورجو ہماری بات نہیں سنتا ہم اس کو مجبور نہیں کرتے بلکہ اس کے لیے ہدایت کی دعا کرتے ہیں۔
یہ ہم انقلابات سے پہلےبھی کر رہے تھے اور ان کے دوران بھی کر رہے ہیں اور ان کے بعد بھی کرتے ر ہیں گے۔ تاہم ان انقلابات نے لوگوں کے لیے سکیورٹی اداروں کے خوف سے آزاد ہو کر کلمہ حق کو سننے کے وسیع مواقع فراہم کر دئے ہیں۔ پہلے ایسا نہیں تھا بلکہ لوگ سیکیورٹی اداروں کے خوف سے اس حق کو سننے سے کتراتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ آج لوگوں کا ہماری طرف متوجہ ہونا قابل دید ہے۔ہمارے اور ان کے درمیان ایک زبردست اور متحرک رابطہ ہے۔یوں لوگوں کے سامنے موجود خوف کی دیوار گرنے کے نتیجے میں اس دعوت کی وسعت کا ملاحظہ کیاجا سکتا ہے جس کے ہم علمبردار ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ آپ نے بھی امت کے اندر ہماری تحریک کی بڑھتی ہوئی قوت اور اس میں اضافے کو محسوس کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ اس سے پہلے ہم کام نہیں کر رہے تھے بلکہ انقلابات سے پہلے لوگ سیکیورٹی اداروں کے خوف کی وجہ سے ہماری طرف متوجہ ہونے سے خوفزدہ تھے کیونکہ سیکیورٹی ادارے ہر وقت ہمارا اور جو ہم سے رابطہ کرتا اس کا پیچھا کرتے تھے جو ہمارے کام میں رخنہ اندازی کا سبب بنتا تھا اور لوگوں کے ہمارے قریب آنے کی کوشش کے سامنے رکاوٹ بنتاتھا۔
یاد رہے کہ ہمارے کام کے زور پکڑنے کا ملاحظہ صرف ان علاقوں میں ہی نہیں کیا گیا جہاں انقلابات رونما ہوئے بلکہ دوسرے علاقوں میں بھی اس کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے،بلکہ بعض دفعہ یہ انقلابات والے علاقوں سے بڑھ کر ہے۔شاید آپ نے پاکستان میں ہماری سرگرمیوں کو دیکھا یا ان کے بارے میں سنا ہو گا جہاں ہمارے کام کا زورعیاں ہے اور شام کےمساوی یا اس جیسا ہی ہے ،حالانکہ موجودہ وقت میں پاکستان میں کوئی انقلاب برپا نہیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ ہمارا کام انقلابات سے پہلے بھی جاری تھا لیکن انقلابات کے دوران اس کا زیادہ مشاہدہ کیا گیا،خصوصاً شام میں،کیونکہ ظلم اور سرکشی کے خلاف لوگوں کے بپھرنے سے خوف کی دیوار منہدم ہو گئی۔
بس یہ نئی بات ہے ورنہ ہم انقلابات سے قبل،اس کے دوران اور اس کے بعد ہمیشہ یہ کام کرتے رہے ہیں۔
تاہم، اگر ''شام کے انقلاب میں شریک ہونے‘‘سے آپ کی مراد یہ ہے کہ ہمارا کوئی عسکری ونگ بن گیا ہے تو یہ غلط ہے۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ ہمارا کوئی عسکری ونگ نہ پہلے کھبی تھا نہ اب ہے۔ہم ایک ایسی سیاسی جماعت ہیں جس کی آیئڈیالوجی اسلام ہے،جو دعوت کے مرحلے میں کسی قسم کے مادی اعمال انجام نہیں دیتی۔ بلکہ ہم صرف اہل قوت سے نصرہ طلب کرتے ہیں تا کہ اسلامی ریاست کو قائم کیا جاسکے۔ جیسا کہ عقبہ کی دوسری بیعت میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہوا۔ ان شاء اللہ یہ اللہ کے اذن سے قریب ہے،
إِنَّ اللهَ بَالِغُ أَمْرِهِ ۚ قَدْ جَعَلَ اللهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا (الطلاق:۳)
''بے شک اللہ اپنا امر پورا کرنے والا ہے ،اللہ ہی نے ہر چیز کے لیے ایک اندازہ مقرر کیا ہوا ہے‘‘۔
آپ کا بھائی عطا بن خلیل ابو الرشتہ
جواب کے لیے فیس بک پر حزب التحریر کے امیر کے صفحے کو ملاحظہ کیجئے

Read more...

شام میں فوجی مداخلت کا اشارہ، جس کا چرچا ہے،ہر لحاظ سےشر انگیز ہے، یہ اسلام کی حکمرانی کو قائم ہونے سے روکنے اور اپنے ایجنٹ بشار کا کردار ختم ہونے پراس کے متبادل کا بندوبست کرنے کے لیے ہے

شام کی حکومت کی جانب سے کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے شام میں فوجی مداخلت کی خبریں گردش میں ہیں۔ امریکہ اور اس کے اتحادی اس کے لیے انسانی اور اخلاقی ذمہ داری کا پردہ استعمال کر رہے ہیں جبکہ وہ خود اس سے بے بہرہ ہیں۔ امریکہ،برطانیہ ، فرانس ،روس اور تمام کافراستعماری ممالک اپنے تنگ وتاریک عقوبت خانوں میں تمام انسانی اور اخلاقی اقدار کو اپنے پیروں تلے روند چکے ہیں،بگرام،گونتاناموبے اورابوغریب کےعقوبت خانے اس کی حالیہ مثالیں ہیں۔ پوری دنیا کی رسوائے زمانہ جاسوسی اس کے علاوہ ہے! یہی ممالک ایٹمی،بائیولوجیکل ،وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے استعمال اور وحشیانہ قتل و غارت میں ایک دوسرے کو پیچھے چھوڑنے میں مشہور ہیں۔ اس کے شواہد ہیروشیما،ناگا ساکی اور عراق،افغانستان،وسط ایشیا،مالی اور چیچنیا میں برپا کیے جا نے والے شرمناک قتلِ عام کی شکل میں موجود ہیں۔
پھر انہی ممالک خاص طور پر امریکہ ہی نے بشارالاسد کو بچوں،عورتوں اور بوڑھوں کوقتل کرنے کے لیے کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے کا گرین سگنل دیا۔ اگر یہ گرین سگنل نہ ہوتا توشام کا سرکش حکمران کبھی بھی الغوطہ میں اس کے استعمال کی جرات نہ کرتا۔ بشار حکومت الغوطہ سے قبل بھی شام میں کیمیائی ہتھیار استعمال کرچکی ہے بلکہ اس کے بعد بھی، جیسا کہ آج ہی حکومت کی جانب سے بعض علاقوں میں زہریلی گیس استعمال کرنے کی خبریں میڈیا میں گردش کر رہی ہیں۔ یہ سب امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے علم اورمرضی سے ہو رہاہے۔ اس لیے امریکہ اور اس کے اتحادی فوجی مداخلت کے لیے انسانی اور اخلاقی اقدار کا جو پردہ استعمال کر رہے ہیں وہ محض سفید جھوٹ اور انتہا درجے کا دوغلاپن ہے ۔ یہ وہ من گھڑت اور خودساختہ حجت بازی ہے جس کی حقیقت ہردیکھنے والےاور قلبِ سلیم رکھنے والے شخص کو معلوم ہے۔
رہی بات اس امریکی فوجی مداخلت کی حقیقت کی جو شرانگیز استعماری قوتوں کی قیادت کر رہا ہے، تویہ بشار کی ایجنٹ حکومت کی جگہ ایک اور ایجنٹ حکومت کا بندوبست کرنے کے لیے ہے ،یعنی عسکری مداخلت کے ذریعے دباؤ ڈال کراپنے منصوبے کے لیے حالات کو سازگار بنایاجائے۔ کیونکہ بشار تواپنا کردار ادا کرچکا،اور وہ اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود قومی کونسل اور اتحاد میں اپنے کارندوں کو شام کے اندر اس قابل نہ بنا سکا کہ لوگ انہیں بشارحکومت کے متبادل کے طور پر قبول کر لیں۔ چنانچہ شرکے اس بلاک نے خوف محسوس کیا کہ اہل شام جواسلام کی حکمرانی قائم کرنا چاہتے ہیں کہیں کفار اور منافقین کی جڑ ہی کاٹ کر رکھ نہ دیں۔ اسی وجہ سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں نےمخصوص مقامات پر فوجی مداخلت کے ذریعے اس کے راستے میں رکاوٹ بننے کا ارادہ کیا،تاکہ اس فوجی مداخلت کے نتیجے میں حکومت اور قومی اتحاد کے درمیان مذاکرات کوشروع کیا جائے،اور یوں ایک ایسی متبادل ایجنٹ حکومت ترتیب دی جائے جو بشار حکومت سے سوائے اس چیز کے کسی طرح مختلف نہ ہو کہ اس کا منہ کم کالا ہو!
اے مسلمانو، اے شام کے ہمارے مسلمان بھائیو،اے سرکش کے خلاف اپنی جدوجہد میں مخلص اور سچے لوگو:
اس عسکری مداخلت اور کفارکے ہلاکت خیز منصوبوں کو ناکام بنانے کی مقدور بھر کوشش کر نا فرض ہے۔ یہ سرکش تمہارے ہاتھوں اپنے انجام کو پہنچنے کے قریب ہے۔ تم اپنے ملک میں اسلام کی حکمرانی قائم کرنے میں کامیاب ہونے کے قریب ہو،جس سے تم اپنے دین،اپنی جان،اپنی عزت وآبرو اور اپنے اموال کو محفوظ کر سکو گے۔ ایک ایسی ہدایت یافتہ اور عادل حکومت جو ہر حقدار کو اس کا حق پہنچائے،ایسی خلافتِ راشدہ جو شام کو اس کا نور اور اس کا کردار لوٹادے،کیونکہ یہ اسلام کا مسکن ہے اور عنقریب ان شا ء اللہ ایسا ہی ہوگا۔ صبر کرو ،صبر کی تلقین کرو اورظلم اور ظالموں کے مقابلے میں سرجوڑ کر یکجان ہو جاؤ۔ یاد رکھو کہ اپنے ملک کو بچا نا تمہارے اپنے ہاتھ میں ہے۔ جتنی بڑی قربانی بھی تمہیں دینی پڑی ،یہ قربانی دنیا اور آخرت میں تمہارے حق میں اس چیز سے ہزار مرتبہ بہتر ہےکہ استعماری کفارتمہیں بچانے کے بہانے تمہارے ملک میں مداخلت کریں۔ یہ بچاؤ نہیں بلکہ ہر لحاظ سے موت اور تباہی ہے﴿كَيْفَ وَإِنْ يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ لَا يَرْقُبُوا فِيكُمْ إِلًّا وَلَا ذِمَّةً يُرْضُونَكُمْ بِأَفْوَاهِهِمْ وَتَأْبَى قُلُوبُهُمْ وَأَكْثَرُهُمْ فَاسِقُونَ﴾ "کس طرح اگر تم پر غالب آتے ہیں تو نہ قرابت کا پاس رکھتے ہیں نہ رشتہ داری کا لحاظ اپنی زبان سے تو تمہیں راضی کرتے ہیں لیکن ان کے دل اس کا انکار کرتے ہیں ان میں اکثر فاسق ہیں"۔
اے مسلمانو، اے شام کے ہمارے مسلمان بھائیو،اے سرکش کے خلاف اپنی جدوجہد میں مخلص اور سچے لوگو:
بے شک اپنے مسائل کو حل کرنے کے لیے کافر استعماری ممالک سے مدد طلب کرنا عظیم گناہ اور شرہی شر ہے۔ یہ اللہ،اس کے رسولﷺ اور مومنین کے ساتھ خیانت ہے،ایسا کر کے تم اللہ قوی اور العزیز کے غضب کو دعوت دو گے،اللہ تعالی فرماتا ہے:﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ أَتُرِيدُونَ أَنْ تَجْعَلُوا لِلَّهِ عَلَيْكُمْ سُلْطَانًا مُبِينًا﴾"اے ایمان والو !مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا دوست مت بناؤ ،کیا تم اپنے ہی خلاف کھلی دلیل اللہ کو دینا چاہتے ہو"۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا«لَا تَسْتَضِيئُوا بِنَارِ الْمُشْرِكِ»" مشرک کی آگ سے روشنی مت لو"اسے احمد نے انس سے روایت کیا ہے، جبکہ بیہقی کی روایت میں یوں ہے((لا تستضیئوا بنار المشرکین))"مشرکین کی آگ سے روشنی مت لو"۔ اسی طرح بخاری نے بھی اپنی تاریخ الکبیر میں اس حدیث کوانہی الفاظ سے نقل کیا ہے۔ یعنی مشرکین کی آگ کو اپنے لیے روشنی مت بناؤ،یہاں آگ کا لفظ جنگ کی طرف اشارے کے طور پر ہے۔ اس حدیث میں کنایہ کے ساتھ یہ بیان کیا گیا ہے کہ جنگ میں مشرکین کوساتھی نہ بناؤ اور ان سے رائے بھی نہ لو۔ اس حدیث سے کفار سے مدد طلب کرنے کی ممانعت کا پتہ چلتا ہے،جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:((فانا لا نستعین بمشرک))"ہم کسی مشرک سے مدد نہیں مانگتے"اسے احمد اور ابوداؤد نے روایت کیا ہے۔ کفار سےعسکری مداخلت کا مطالبہ کرنا حتی کہ ان سے اپنے مسائل کے بارے میں مشورہ لینا عظیم گناہ اور حرام ہے، ایسا کرنا صحیح اور جائز نہیں۔
یقینا یہ نہایت ہی اندوہناک بات ہے کہ استعماری کفار شام میں فوجی مداخلت کا الٹی میٹم اور دھمکی دینے کی جسارت کر رہے ہیں جبکہ مسلمان ملکوں کے حکمران ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ جو کچھ ہو رہا ہے اور جو چل رہا ہے اس سے اس طرح بے پرواہ ہیں گویا یہ ان سے مشرق و مغرب کے فاصلے سے بھی زیادہ دور ہے۔گویا یہ حکمران گونگے اور بہرے ہیں اور اہلِ شام کی فریاد سُن ہی نہیں رہے۔ وہ اللہ کی اس پکار پر لبیک نہیں کہتے کہ﴿ وَإِنِ اسْتَنْصَرُوكُمْ فِي الدِّينِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ﴾"اور اگر وہ تم سے دین کی بنیاد پر مدد مانگیں تو تم پران کی مدد کرنا لازم ہے"۔ اگر ان کے اند ر ذرہ برابر بھی حیا ہوتی تو یہ اہل شام کی مدداور شام کے سرکش حکمران سے چھٹکارہ حاصل کرنے کے لیے بیرکوں میں پڑی مسلمان فوجوں کو متحرک کردیتے،کیونکہ اہلِ شام پڑوسی مسلمان ممالک میں موجوداپنے بھائیوں کی مدد سے ،اللہ کے اذن سے ، سرکش بشارکو اپنے انجام تک پہنچانے اور اس کی جگہ اسلام کے مسکن شام میں اسلامی حکومت قائم کرنے پر قادر ہیں۔ بجائے یہ کہ استعماری کافر ایک ایسی نئی حکومت قائم کرنے کے لیے، جو پرانی حکومت سے چہروں کی تبدیلی کے سوا مختلف نہ ہو،شام میں مداخلت کریں،اوریوں شام ایک بار پھر طاغوت کے پنجوں کی نذر ہوجائے، جبکہ شام میں اسلام کی حکمرانی کا سورج دوبارہ طلوع ہونے کے قریب پہنچ چکاتھا۔
استعماری کفار جس ملک میں بھی آئے انہوں نے اسے برباد کر کے رکھ دیا،اس کی بنیادیں ہی تباہ کرکے رکھ دیں اور اس کے چپے چپے کو ویران کردیا۔ جس ملک میں یہ داخل ہوئے ان کی پھیلائی ہوئی تباہی و بربادی کی نشانیاں اب بھی موجود ہیں اور ان کے جرائم اور کرتوتوں کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔شام میں ان کفار کی عسکری مداخلت بہت بڑا زلزلہ اور شر ہو گا،اے مسلمانو، اس سے چوکنے ہو جاؤ۔ خبردار یہ گمان کر کے کہ کفارہمیں بچالیں گے، ان سے مدد مانگنے میں جلدی مت کرو ،ورنہ ندامت کا سامنا ہو گا اور اس وقت ندامت کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا!
﴿فَتَرَى الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ يُسَارِعُونَ فِيهِمْ يَقُولُونَ نَخْشَى أَنْ تُصِيبَنَا دَائِرَةٌ فَعَسَى اللَّهُ أَنْ يَأْتِيَ بِالْفَتْحِ أَوْ أَمْرٍ مِنْ عِنْدِهِ فَيُصْبِحُوا عَلَى مَا أَسَرُّوا فِي أَنْفُسِهِمْ نَادِمِينَ﴾
"تودیکھے گا ان لوگوں کو جن کے دلوں میں مرض ہے کہ اس بارے میں جلدی کریں گے اور کہیں گے ہمیں خوف ہے کہ ہم پر مصیبت آئے گی۔ ممکن ہے اللہ فتح نصیب کرے گا یا اپنی طرف سے کوئی بھلائی کا معاملہ کرے گا، تب یہ لوگ اس پرشرمندہ ہوں گے جو کچھ وہ اپنے دلوں میں چھپائے ہوئے تھے "
﴿ إِنَّ فِي هَذَا لَبَلَاغًا لِقَوْمٍ عَابِدِينَ﴾"بے شک یہ عبادت گزار قوم کے لیے اعلان ہے"

Read more...

کرنسی کی مضبوطی اور تباہ کن افراط زر کے خاتمے کے لیے سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کرو شریعت کے طریقہ کار کے مطابق سونے اور چاندی پر مبنی کرنسی ہی روپے کی گرتی قدر کا خاتمہ کرسکتی ہے

پاکستان کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار یہ کہہ کر لوگوں کو دھوکہ دے رہے ہیں کہ روپے کی گرتی قدر کی بنیادی وجہ مارکیٹ میں ہونے والی سٹے بازی ہےجس کی وجہ سے ملک کو تباہ کن افراط زرکا سامنا ہے جبکہ درحقیقت اس تباہ کن افراط زر کی بنیادی وجہ وہ سرمایہ دارانہ نظام ہے جس کو حکومت نافذ کررہی ہے۔
ڈالر، پاؤنڈ اور فرانک کی طرح روپیہ بھی کسی قیمتی دھات کی بنیاد پر جاری ہوتا تھا۔ ڈالر کی صورت میں وہ قیمتی دھات سونا ہوتی تھی جبکہ روپے کی صورت میں وہ چاندی ہوا کرتی تھی۔ کرنسی کا یہ نظام مالیاتی نظام کو نہ صرف اس خطے میں اندرونی طور پر بلکہ بین الاقوامی تجارت میں بھی استحکام فراہم کرنے کا باعث ہوتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کے زیر سایہ برصغیر پاک و ہند عالمی معیشت کے لیے ایک انجن کا کردار ادا کیا کرتا تھا۔
لیکن سرمایہ دارانہ نظام کے تحت جاری ہونے والے سودی قرضوں اور سٹاک مارکیٹ نے کرنسی کی اس قدر طلب پیدا کی جس کو سونے اور چاندی کی رسد(Supply) پورا نہیں کرسکتی تھی۔ لہٰذا ریاستوں نے قیمتی دھات کی بنیاد پر جاری ہونے والی کرنسی کے نظام کو چھوڑ دیا اور زیادہ سے زیادہ نوٹ چھاپنے شروع کردیے جن کے پیچھے سونے اور چاندی کے ذخائر موجود نہیں تھے اور اس طرح ہر چھاپے جانے والا نوٹ پچھلے نوٹ سے قدر و قیمت میں کم ہوتا ہے۔ اور پھر جب ان نوٹوں سے اشیاء کو خریدا جاتا اور خدمات حاصل کی جاتیں تو یہ نوٹ اگر چہ اپنی مکمل قدر و قمیت تو نہیں کھوتے لیکن اس کا بڑا حصہ کھو دیتے ہیں۔اشیاء کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ اب اس قدر سرمایہ دارانہ نظام کاطرہ امتیاز بن چکا ہے کہ ہر ملک افراط زرکے پیمانے کا حساب رکھتا کہ وہ کس قدر تیزی سے بڑھ رہا ہے۔
اسلام نے ریاست پر یہ لازم کیا ہے کہ وہ قیمتی دھات کی بنیاد پر کرنسی نوٹوں کو جاری کرے اور اس طرح اسلام نے افراط زر کی بنیادی وجہ ہی کا خاتمہ کردیاہے۔ رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ ریاست کی کرنسی کے طور پر سونے کے دیناراور چاندی کے درہم ڈھالیں جن کا وزن بالترتیب 4.25گرام اور 2.975گرام ہو۔ یہی وجہ تھی کہ ریاست خلافت ایک ہزار سال سے بھی زائد عرصے تک قیمتوں میں استحکام قائم رکھنے میں کامیاب رہی۔ جو سب سے آسان کام جناب ڈار اور ان کے ساتھی کرسکتے ہیں وہ یہ ہے کہ وہ خلافت کے قیام کے لیے حزب التحریر کے لیے راستہ کھلا چھوڑ دیں تا کہ اسلام کا نفاذ کیا جاسکے۔ صرف خلافت کے زیر سایہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کے احکامات کو نافذ کرکے ہی مسلمان پوری دنیا کی معاشی ترقی کے لیے ایک مثال قائم کرسکتے ہیں۔

Read more...

سوال وجواب : امریکی پالیسی کے حوالے سے ایران کا کردار

 

سوال :امریکی پالیسی کے حوالے سے ایران کا کردار کیا ہے؟دوسرے لفظوں میں خطے میں رونما ہونے والے واقعات میں ایران کی امریکی پالیسی سے الگ اپنی کوئی پالیسی ہے؟ کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایران خطے میں ایک خاص فکر کا علمبردار ہیں جو کہ جعفری مذہب ہے؟آخری بات یہ ہے کہ ایران کے ایٹمی اسلحے کے بارے میں امریکہ کا حقیقی موقف کیا ہے؟

جواب:اس کا جواب دینے کے لیے ہمیں پہلے ایرانی حکومت کی حقیقت،انقلاب اور جمہوریت کا اعلان کرنےکے بعد سےاس کی پالیسی اور اس سب کا امریکہ کے ساتھ تعلق کا مختصر جائزہ لینا ہو گا:
1۔ ایرانی انقلاب کی ابتدا سے ہی اس میں امریکہ کا کردار نہایت واضح تھا۔خمینی کے فرانس''ٹوگل لوشاتو"میں موجودگی کے دوران ہی وائٹ ہاوس کے وفود ان سے ملتے رہے اور امریکہ کے ساتھ خمینی کے تعاون کا معاہدہ ہو گیا۔اس وقت کے امریکی اخبارات نے اس حوالے سے اور وہاں ہونے والی ملاقاتوں کے بارے میں خبریں شائع کی۔۔۔۔جس کا انکشاف بعد میں خود ایران کے پہلے جمہوری صدر ابوالحسن بنو صدر نے 12جنوری2000 کو الجزیرہ چینل سے بات کرتے ہوئے کیا کہ وائٹ ہاوس کے وفود "ٹوگل لوشاتو"فرانس آتے رہے جہاں خمینی مقیم تھے۔ان وفود کا استقبال یزدی،بازرکان،موسوی اور اردیبیلی کیا کرتے تھے۔۔۔۔۔یہاں طرفین کی اکثر ملاقاتیں ہوتی رہتی تھیں جن میں سب سے مشہور اکتوبر کی وہ ملاقات ہے جو پیرس کی مضافات میں ہوئی جس میں ریگن اور بش کی پارٹی اور خمینی کی پارٹی کے درمیان ملاقات ہوئی،جس میں خمینی نے یہ کہا کہ وہ امریکہ کے ساتھ اس شرط پر تعاون کے لیے تیارہے کہ وہ ایران کے اندونی معاملات میں مداخلت نہ کرے۔اس معاہدے کے بعد ہی خمینی کو فرانسیسی طیارے کے ذریعے تہران پہنچایا گیا،اس کے ساتھ ہی امریکہ نے شاہ پور بختیار پر اقتدار خمینی کے حوالے کرنے کے لیے دباوڈالا اور ایرانی فوجی قیادت کو بھی خمینی کا راستہ روکنے کی صورت میں سنگین نتائج کی دھمکی دی۔
یوں خمینی مرشد اور حکمران بن گئے۔اس کے بعد عالم اسلام کے دوسرے ملکوں کے دستوروں کی طرح مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام کے مطابق ہی ایک دستور تیار کیا گیا۔ایران کا دستور بھی مغرب کے دستوروں کی ہی نقل ہے جیسا کہ نظام حکومت جمہوری اور وزارتی تقسیم،پارلیمنٹ کا کام،اختیارات کی تقسیم سب سرمایہ دارانہ نظاموں کے مطابق ہے۔جہاں تک دستور میں موجود اس بات کا تعلق ہے کہ ''ایران کا سرکاری مذہب اسلام اورمسلک جعفری اثنا عشری ہے"یہ بھی عالم اسلام کے اکثر ملکوں کے دستوروں میں موجود اس شق کی طرح ہے جس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ریاست اسلام کی بنیاد پر قائم ہے یا ریاست کا کام اسلام کا علمبردار بننا ہے،بلکہ اس کا تعلق رسومات اور تہواروں سے ہے اور لوگوں کے اعتقادات ، عبادات اوران کی زندگی کے بعض امورکو مدنظر رکھا گیا ہے۔ ایران کے دستور میں اس بات کا کوئی ذکر نہیں کہ فلاں دین یا فلاں مذہب ریاست کا پیغام یا اس کی خارجہ پالیسی کا ہدف ہے بلکہ یہ ہدف وطنیت اور قومیت ہے۔یہ ریاست موجودہ عالمی اصولوں اور پیمانوں کے مطابق ہی چلتی ہے ۔ریاست سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد پر قائم علاقائی اور بین الاقوامی تعلقات جیسا کہ اقوام متحدہ اور اسلامی تعاون کی تنظیم کی رکنیت، اسلام کی بنیاد پر نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس بات کو دیکھا جاسکتا ہے کہ ایرانی ریاست کا کوئی خاص پیغام یاکوئی ایسا متعین پروگرام نہیں جو اسلام کی بنیاد پر ہو،بلکہ ایرنی حکومت پر قومیت اور وطنیت کا رنگ ہی غالب ہے،یہی قومیت اور وطنیت ہی اس کی موجودہ حکومت ،ریاستی ڈھانچے اور زمین کی حفاظت کا آئینہ دار ہے۔انقلاب کے ابتدائی دنوں میں ہم نے خمینی سے رابطہ کیا اور ان کوامریکہ کے ساتھ تعاون نہ کرنے اور ایک اسلامی دستور کا اعلان کرنے کی نصیحت کی ۔ہم نے ان کے سامنے اس دستور کے خدوخال رکھ دیے۔ان کو خط لکھ کرہم نے ایرانی دستورکے نقائص کو تفصیل سے بیان کیا لیکن انہوں نے ہماری نصیحت کو قبول نہیں کیا اور اسلام مخالف دستور اورسرمایہ دارانہ مغربی طرز کے جمہوری نظام پر ہی اصرار کیا ۔
2۔ رہی بات اس مسلک کی جس کو انہوں نے حکومت کا رسمی مسلک قرار دیا ہوا ہے،اس کو بھی انہوں نے ایک پیغام اور ایک ایسے منصوبے کے طور پرشامل نہیں کیا جس کا وہ علمبردار ہوں کیونکہ انہوں نے اپنے نظام حکومت کو اس مسلک کی بنیاد پر استوار نہیں کیا ہے،نہ دستور کو اس مسلک کی بنیاد پر وضع کیا ہے۔اسی طرح دستور کا مواد بھی اس مسلک سے اخذ نہیں کیا گیا ہے،بلکہ نظام حکومت،خارجہ پالیسی،فوج اور امن وامان سے متعلق سارا مواد سرمایہ دارانہ نظام سے ماخوذ ہے۔یہ سعودی نظام حکومت سے مشابہ ہے جو جزیرہ عرب میں پھیلے ''حنبلی مسلک"کو اپنی حکومتی مفادات کو حاصل کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے،تاہم ایران مسلکی پہلو کو اپنا پیروکار اور حمایتی یاایسے لوگ حاصل کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے جواس کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہوں،جن کے ہاں تنگ نظر مسلکی نعرے کا راج ہو اور اسی وجہ سے ان کو اپنے وطن کے مفادات کے لیے استعمال کرنا آسان ہو۔یہ جعفری مسلک یا شیعیوں کی خدمت کے لیے نہیں ہوتا کیونکہ وہ شیعیوں جعفری مسلک کی مدد صرف اس وقت کرتا ہے جب وہ ایران کے قومی مفاد میں ہو،اگر سیکیولرازم اس کے مفاد میں ہو تو اسلام،شیعیت اور مسلک کو پس پشت ڈالتا ہے،یہی وجہ ہے کہ ایران عراقی اور شامی حکومتوں کی مدد کر رہا ہے جو کہ سیکیولر اور امریکہ کے ایجنٹ ہیں۔شیعہ سعودیہ کے مشرقی صوبوں میں بھی بڑی تعداد میں ہیں اور یہی علاقے سعودی آئل فیلڈز ہیں اس لیے ایران نے کئی موقعوں پر سعودیہ کو کمزور کرنے کے لیے یہاں افراتفری پھیلانے میں مدد کی اور بحرین میں بھی یہی پالیسی جاری رکھی جس پر سعودیہ نے اپنی فوج کو بحرین میں داخل کردیا۔۔۔۔۔
ایران مسلکی پہلو کو اس وقت جوتے کے نوک پر رکھتا ہے جب وہ اس کے قومی مفادات سے ٹکرائے،آذربائیجان کی مثال لیجئے جب اس نے 1989 کو سوویت یونین قبضے سے آزادی حاصل کرنے کے لیے جدوجہد شروع کی اور لوگوں نے ایران کے ساتھ سرحدوں کو مٹاکر ایک ہو نے کا ارادہ کیا اور 1990 میں روسی حملہ آوروں کی طرف سے انکا قتل عام کیا گیا جو ایسی حکومت کے قیام کو روکنے کے لیےتھی جو ان کی تابع نہ ہو۔ باکو شہر پر یلغار کی گئی،پھر انہوں نے اپنے پرانے کمیونسٹ ایجنٹوں کو ہی حکومت دے دی۔اس سب کے باوجود اس روسی یلغار کے مقابلے میں جس نے ان حریت پسند مسلمانوں کے حقوق کو پامال کر رکھا تھا ایران نے آذربائیجان کے لوگوں کی کوئی مدد نہیں کی جو روسی آگ اور کمیونسٹ پنجے سے بچنے کے لیے جائے پناہ کی تلاش میں تھے۔یاد رہے کہ آذربائیجان کے باشندوں کی اکثریت کا مسلک بھی وہی ہے جو ایران کا سرکاری مسلک ہے۔اسی طرح 1994 آرمینیا کی جانب سے روس کی مدد سے آذربائیجان پر حملے اور اس کے ٪ 20 علاقے پر قبضہ کرکے ایک ملین آذری مسلمانوں کو مہاجر بننے پر مجبور کرنے کے باوجود جو اب بھی ایسی ہی ناگفتہ بہ صورت حال سے دو چارہیں ایران نے ان کی کوئی مدد نہیں کی،بلکہ ایران نے آذربائیجان کی قیمت پر آرمینیا سے تعلقات کو مضبوط کیا!ایران نے اس پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ایسی تحریکوں کی مدد کی جن کا اسلام سے کو تعلق نہیں جیسے میشل عون(Michel Aoun) کی تحریک یا سیکیولر تحریکوں کی جیسے لبنان میں نبیہ بری کی تحریک وغیرہ جو امریکہ کے کندھے پر سوار ہوکر نکلی تھیں۔
3۔ خطے میں ایران کے تمام سیاسی اقدامات امریکی منصوبوں کے ساتھ مکمل ہم آہنگ اور ان کے مطابق ہیں:
ا۔ ایران نے لبنان میں اپنے مسلک کے لوگوں کی ایک جماعت(حزب اللہ)قائم کی جس کو اس قدر مسلح کیا کہ وہ لبنانی سرکاری فوج سے الگ ایک اور فوج بن گئی ،لبنانی حکومت نے بھی اس فوج اور اس کے اسلحے کا اعتراف کرلیا۔یہ سب کو معلوم ہے کہ لبنان کی سیکیولر حکومت امریکی پالیسیوں کی پیروکار ہے۔اس لبنانی حکومت نے اس جماعت(حزب اللہ)کے علاوہ کسی جماعت کو اسلحہ اٹھانے کی اجازت نہیں دی نہ ہی کسی جماعت کے اسلحے کا اعتراف کیا۔لبنان میں یہ ایرانی حزب شام میں امریکی ایجنٹ حکومت کا ایران کی طرح معاون بن گئی۔امریکہ نے لبنان کی اس ایرانی حزب کو شام میں بشار کی سیکیولر حکومت کو سہارا دینے سے روکا بھی نہیں بلکہ امریکی موافقت سے ہی یہ حزب شام میں گھس آئی،لبنانی فوج نے بھی اس کا راستہ نہیں روکا۔
ب۔ جب امریکہ نے عراق پر قبضہ کیا تو اس کو ایسی مزاحمت کا سامنا ہوا جس کی اس کو توقع نہیں تھی،اس لیے امریکہ نے ایران کو عراق میں داخل کر دیا تا کہ وہ وہاں پر موجود اپنے مسلک کے لوگوں پر اثر انداز ہو کر ان کو امریکی قبضے کے خلاف مزاحمت سے باز رکھے بلکہ مزاحمت کے مقابلے میں ان کو کھڑا کرے تاکہ وہ مزاحمت کاروں کو چیلنج کریں اور قبضہ کرنے والوں اور ان کی طرف سے بنائی گئی حکومت کو سہارا دیں،خاص کر2005 کے بعد جب امریکہ نے ایران نواز پارٹیوں کے اتحاد کوابراھیم جعفری اور پھر نوری المالکی کی قیادت میں حکومت کرنے کی اجازت دے دی۔یہ حکومتیں امریکہ کی بنائی ہوئی اور اسی کے اشاروں پر ناچنے والی ہیں۔مالکی کی یہ حکومت جس کو ایران کی حمایت حاصل ہے ، نے امریکہ کے ساتھ ایسے اسٹرٹیجگ سیکیورٹی معاہدے کیے کہ جن کی رو سے عراق سے رسمی طور پرنکلنے کے بعد بھی بالادستی امریکہ ہی کی ہوگی۔یہ ایرانی کردار سے امریکی رضامندی کی دلیل ہے جس کے عہدے دار خود عراق پر قبضہ کرنےاور وہاں پر امریکی بالادستی کو دوام دینے میں امریکہ کی مدد کا برملا اعتراف کرچکے ہیں۔امریکہ کی جانب سے عراق پر قبضہ کرنے کے فورا بعد ایران نے عراق میں اپنا سفارت خانہ کھولا، جعفری کے منتخب ہوتے ہی اس وقت کا ایرانی وزیر خارجہ کمال خرازی نے 2005 میں بغداد کا دورہ کیا جو کہ امریکی قبضے کا عروج کا زمانہ تھا،۔دونوں نے قبضے کے خلاف مزاحمت کو دہشت گردی کا نام دے کر اس کی مذمت کی۔جعفری کی جانب سے ایران کا دورہ اور کئی معاہدے جن میں سیکیورٹی فورسز بھیجنے اورسرحدوں اورباڈرز کراسنگ کی نگرانی کے لیے انٹیلیجنس کے شعبے میں تعاون کا معاہدہ،بصرہ کو ایرنی بجلی کے نیٹورک سے منسلک کر نا ،بصرہ اور عبدان کے درمیان تیل کی پائپ لائن بچھانے کا معاہدہ۔ایرانی صدر احمدی نژاد نے 2008 کے شروع میں براہ راست قبضے کی تباہی کے سائے میں ہی عراق کا دورہ کیا،یہی احمدی نژاد امریکہ اور اسرائیل کے خلاف ڈھینکیں مارتا رہتا تھا،جو صرف زبانی جمع خرچ سے کبھی عمل کی شکل اختیار نہیں کر سکا۔اس عرصے میں امریکی قبضے کے سائے تلے عراق کا دورہ کر کے یہی احمدی نژاد امریکہ کا سب سے مقرب صدر بن گیا تھا۔اسی طرح صدارت سے فارغ ہونے سے دو ہفتے پہلے عراق کا دورہ کر کے امریکی راج کے محافظ مالکی حکومت حمایت کا اعادہ کیا۔اسی احمدی نژاد نے 2010 میں امریکی قبضے کے زیر سایہ امریکی خادم کرزی کی حمایت کے لیے افغانستان کا دورہ کیا۔
ج۔ یمن میں بھی یہی کیا حوثین کی جماعت بنا کر ان کو مسلح کرکے انگریز کے ایجنٹ علی عبد اللہ صالح کی حکومت کے خلاف کھڑا کیا،جنوبی یمن کے سیکیولر تحریک جو کہ یمن سے الگ ہونے کے داعی ہیں اور اور امریکی ایجنٹ بھی ہیں کی مدد کر رہا ہے تاکہ جنوبی یمن میں امریکہ کی آلہ کار ایک سیکیولرحکومت قائم کی جاسکے۔
د۔ شامی حکومت کے ساتھ ایران کا تعلق پرانا ہے۔ جب سے گزشتہ صدی کے اسی کی دہائی میں پہلی مرتبہ حکومت کے خلاف عوامی تحریک اٹھی تب سے ایران نے شامی حکومت کی جانب سے وہاں کے مسلمانوں کی نسل کشی کی حمایت کر رہا ہے۔یہ بھی امریکی منصوبے کے ضمن میں کر رہا ہے جو کہ آل اسد کی قیادت میں قائم حکومت کی پشت پناہ ہی کرنا ہے۔ایران کو اس بات کا اچھی طرح علم ہے کہ یہ بعثی سیکیولرقوم پرست غیر اسلامی حکومت صدام کی اس حکومت کی طرح ہے جس سے یہ لڑتے رہے ،بلکہ یہ حکومت تو اسلام اور اہل اسلام پر حملہ آور ہے۔یہ بھی اس کو معلوم ہے کہ یہ حکومت امریکہ کی آلہ کار ہے،اس کے باوجو ایران نے کبھی مسلمانوں کے حقوق کا دفاع نہیں کیا،بلکہ اس کے بر عکس مسلمانوں کے خلاف ہی لڑتا رہا اور مجرمانہ طور پر اس کافر حکومت کی ہمیشہ مدد کرتا رہا اور اب بھی کر رہا ہے۔ایرانی حکومت کی شامی حکومت کے ساتھ بھرپور تعلقات ہیں،اس میں عسکری،اقتصادی اور سیاسی تعلقات شامل ہیں۔ایران نے اسد حکومت کی مدد کرنے کے لیے بے تحاشہ اسلحہ فراہم کیا،شام میں تیل اور گیس کے ضروری ذخیرے نہ ہونے کی وجہ سے اس کو انتہائی سستے داموں تیل اور گیس فراہم کی۔جب اسد حکومت گرنے لگی تو ایران کی شامی انقلاب میں مداخلت اور ان کے سیاسی تعلقات بہت واضح طور پر نظر آنے لگے۔اگر ایران اپنے انقلابی گارڈ کے فورسز سے مداخلت نہ کرتا اور اس کی حزب اللہ اور زیر اثر نور المالکی کے ملیشیائیں نہ آتی تو بشار حکومت بہت پہلے گر چکی ہوتی۔القصیر اور حمص کے قتل عام اور اب الغوطہ پر کیمیائی حملہ ایرانی مداخلت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
ھ ۔ افغانستان میں ایران نے امریکی قبضے اور اس دستور کی حمایت کی جس کو امریکہ نے کرزائی کی قیادت میں وضع کیا تھا ۔جب امریکہ شمالی علاقوں میں طالبان کو شکست دینے میں ناکام ہو گیا تو ایران نے ہی ان علاقوں میں امریکہ کی مدد کی۔جمہوریہ ایران کے سابق صدر رفسنجانی نے اس کا ذکر بھی کیا،"اگر ہماری افواج طالبان کے خلاف جنگ میں امریکہ کی مدد نہ کرتیں تو امریکہ افغانی دلدل میں غرق ہوجاتا"(اخبار الشرق الاوسط 09/02/2002 )۔اسی طرح ایران کے سابق صدر خاتمی کے قانون اور پارلیمانی امور کے لیے نائب محمد علی ابطحی نے خلیج اور مستقبل کے چیلنجز کے موضوع پر امارات کے شہر ابو ظہبی میں 13/01/2004 کو منعقد ہونے والی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا:"اگر ایرانی تعاون نہ ہوتا تو کابل اور بغدادکا سقوط اتنی آسانی سے نہیں ہوتا لیکن اس کا ہمیں یہ بدلہ ملا کہ ہمیں شَر (بدی)کا محور قرار دیا جارہاہے!"(اسلام آن لائن 13/01/2004 )۔سابق صدر احمدی نژاد بھی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں شرکت کے لیے نیویارک کے دورے کے دوران نیویارک ٹائمز سے 26/09/2008 کوبات چیت کرتے ہوئے یہ دہرایا اور کہا:"افغانستان کے حوالے سے ایران نے امریکہ کی طرف مدد کا ہاتھ بڑھایاجس کا صلہ ہمیں یہ دیا جارہا ہے کہ امریکی صدر ہم پر براہ راست عسکری حملے کی دھمکی دے رہا ہے،اسی طرح ہمارے ملک نے عراق میں امن وامان اور استحکام قائم کرنے میں امریکہ کی مدد کی"۔
4 ۔ رہی بات ایرنی ایٹمی پروگرام کی تو وہ بھی کئی سالوں سے اسی جگہ ہے باوجود اس کے کہ یہودی وجود یورپی اشیرباد سے ان چند سالوں کے دوران کئی بار حملے کی دھمکی دے چکا ہے مگر ہر بار امریکہ ہی اسرئیل کے آڑے آتا ہے اور اس کوایسا کرنے سے منع کرتا ہے۔آج تک امریکہ نے ہی اسرئیل کو روکا ہوا ہے۔۔۔۔12/08/2013 کو امریکی جائنٹ چیف آف سٹاف جنرل مارٹن ڈیمپسی نے اسی مقصد سے اسرائیل کا دورہ کیا ۔اس موقعے پر کویتی نیوز ایجنسی کونا نے 12/08/2013 کو ہی اسرئیلی فوجی ریڈیو کے حوالے سے خبر دی کہ''ڈیمپسی کادورہ امریکی فضائیہ کے سربراہ مارک ویلٹیچ کی جانب سے چند دن پہلے اسرائیل کے اسی قسم کے خفیہ دورے کے بعد ہوا ،طرفین کو اس دورے کے دوران زیر بحث آنے والے کسی موضوع کے بارے میں بات کرنے سے منع کیا گیا،ویلٹیچ کے دورے کو امریکہ مطالبے پر خفیہ رکھا گیا،یہ اسرائیل کی جانب سے ایران پر حملے کی دھمکی کی وجہ سے خطے میں غیر یقینی صورت کی وجہ سے ہوا"۔کونا ایجنسی نے مزید کہا :''تجزیہ نگار یہ سمجھتے ہیں کہ امریکی فوج کا سربراہ اپنے میزبان کو مستقبل قریب میں ایران کے خلاف کسی ڈرامائی فیصلہ کرنے سے پہلے ایرانی صدر روحانی کے تقرر کے بعد سفارت کاری کا موقع دینے پر قائل کرنے کی کوشش کرے گا"۔امریکہ ہی نے 1981 میں صدام دور میں اسرائیل کو عراق کے ایٹمی تنصیبات، جوکہ بالکل ابتدائی مراحل میں تھیں، پر حملہ کرنے اجازت دی لیکن یہی امریکہ اسرئیل کو ایران کے ایٹمی تنصیبات پر حملہ کرنے سے باز رکھ رہا ہے جو یورینیم کی افزودگی بھی کر رہا ہے جوکہ ٪20 افزودہ کیا جاچکا ہے۔یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ایران کے نظام کو بچانا خطے میں اس کے مفادات کے لیے ضروری ہے۔وہ ایران کو ایک ایسی چڑیل کے طور پر باقی رکھنا چاہتا ہے جس سے خلیج کی ریاستوں کو خوف زدہ کرکے ان پر اپنے اثرورسوخ کو مستحکم کرتا رہے اور اس کو عالم اسلام پر اپنی بالادستی کو دوام دینے کے لیے استعما ل کرتا رہے۔
ذرا پیچھے مڑ کر دیکھنے سے ان ایٹمی مذاکرات کی حقیقت کا بھی علم ہو تا ہے جو 2003 سے شروع ہوئے جن میں امریکہ کا مطمع نظر ایٹمی تنصیبات کے خلاف کوئی عملی اقدام کے بغیر صرف پابندیاں لگانا ہے۔اس طریقہ کار سے امریکہ نے یورپی کوششوں پر بھی پانی پھیر دیا اور اسرائیل کو بھی زچ کر کے رکھ دیا۔ہر بار بات چیت کا اختتام امریکہ کی جانب سے کسی فوجی اقدام کے بغیر صرف چند اضافی پابندیاں لگانے کو مسئلے کے حل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔امریکہ نے اسرئیل کی تشویش کو کم کرنے کے لیے کئی بار مداخلت کی ،یوں امریکہ ایرانی نظام برقرار رکھنا چاہتا ہے۔امریکہ چاہتا ہے کہ ایرنی ایٹمی پروگرام کا معاملہ اسی طرح چلتا رہے کہ وہ ایٹم بم بھی نہ بناسکے اور یہ پروگرام مکمل طور پر ختم بھی نہ ہو،بلکہ جیسا کہ ہم نے کہاکہ امریکہ ایران کو ایک خطرناک چڑیل کے طور پر پیش کر کے خلیجی ریاستوں کو ڈراتا ہے تا کہ ان پر امریکی گرفت مضبوط سے مضبوط تر ہوتی رہے اور خلیج میں امریکہ کی عسکری موجودگی برقرار رہے۔ساتھ ہی امریکہ نے ترکی اور وسطی یورپ میں ایرانی ایٹمی اسلحے کے خطرے اور اس سے حفاظت کے بہانے سےاپنا میزائل ڈیفنس شیلڈ بھی نصب کر رکھا ہے!اپنی وزارت دفاع کے بجٹ کو بڑھانے کے لیے بھی اس کو بہانے کے طور پر استعمال کرتی ہے۔
5 ۔جہا ں تک امریکہ اور ایران کے درمیان بظاہر نظر آنے والی دشمنی کی بات ہےتو اس کو یوں سمجھنا ممکن ہے:
ا ۔انقلاب سے پہلے اور بعد میں بھی رائے عامہ امریکہ کے سخت خلاف تھی۔ لوگ امریکہ کو اپنی بدحالی کا ذمہ دار سمجھتے تھے۔شاہ اور اس کے مظالم کا پشت پناہ امریکہ کو سمجھتے تھے اور اسے شیطان اکبر کا خطاب دیا ہوا تھا۔یہی وجہ ہے کہ ایرانی حکمران دوطرفہ مذکرات کی بحالی اور سفارتی تعلقات کا اعادہ کرنے کا براہ راست اعلان نہ کر سکے،خاص طور پر پیرس میں خمینی کے ساتھ امریکی رابطے اور امریکہ کی جانب سے ایرانی فوج پر خمینی کے انقلاب میں روکاوٹ نہ بننے کے لیے دباو ڈالنے کے باوجود بھی۔۔۔۔۔یہ سب کوئی راز کی بات نہیں تھی،لہذا امریکیوں کے ساتھ بیٹھنے کاجواز پیدا کرنے کے لیےکچھ گرما گرم صورت حال کو پیدا کرنا ایرانی حکومت کی ضرورت تھی۔اسی مقصد کے لیے 04/10/1979 امریکی سفارت خانے میں یرغمالیوں کا واقع رونما ہوا جس کے نتیجے میں ایران اور امریکہ کے سفارتی تعلقات منقطع کیے گئے تاکہ خمینی کے موقف کو تقویت ملے اوراس کی ،مخالفت کرنے والوں کو منہ کی کھانی پڑے اور یوں دوطرفہ تعلقات کی حقیقت پر پردہ ڈالا جاسکے اوربعد میں خود امریکی ذرائع نے اس بات کا اعتراف کر لیا کہ یہ ایک سوچا سمجھا امریکی ڈراما تھا۔حسن بنو صدر نے بھی الجزیرہ کو انٹرویو دیتے ہوئے مذکورہ ڈرامے کا ذکر کیا اور کہا کہ"یہ امریکیوں کے ساتھ اتفاق رائے سے رچایا گیا تھا اور یہ امریکیوں کا ہی منصوبہ تھا میں نے بھی خمینی کی جانب سے قائل کرنے پر اس کو قبول کیا"۔طرفین نے 20/01/1981 کو ایک معاہدے پر دستخط کیا جو الجزائر ایگریمنٹ کے نام سے مشہور ہوا جس کی رو سے یرغمالیوں کو رہا کیا گیا۔یہ اس دن ہوا جس دن امریکی صدر ریگن امریکہ کے صدر کی حیثیت سے اقتدار پر متمکن ہوا۔اس معاہدے کے ذریعے امریکہ نے خمینی کی نئی حکومت کو ضمنی طور پر تسلیم کر لیا جس کی رو سے طرفین ایک دوسرے کا احترام کریں گے اور ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے اور دونوں ملکوں کے مفادات کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے کسی تیسرے فریق کومقرر کیا جائے گا۔اس کے بعد ہی ایران کے ان 12 ارب ڈالرز کو واپس کیا جن کو اکاونٹز منجمد کر کے روکا گیا تھا۔۔۔
ب ۔ ایرانی حکمرانوں نے ان تعلقات کو بحال کرنے کے لیے ماحول بنانےکے لیے کافی عرصے سے کام کیا تھا ،اگر چہ دونوں کے درمیان خفیہ رابطے اور تعاون جاری تھا،جس کا انکشاف خود ایرانی عہدے داروں نے کیا ہے اوراب بھی اسی طریقہ کار پر گامزن ہیں۔۔۔۔دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو اس طرح رکھنا دونوں کے لیے فائدہ مند ہے۔ایران یہ ظاہر کرتا رہتا ہے کہ وہ امریکہ کا مخالف ہے اور اس کے استعماری منصوبوں میں اس کے شانہ بشانہ چلنے اور اس کے ساتھ سودے بازی کو چھپاتا رہتا ہے،حالانکہ یہ ان منصوبوں کو نافذ کرنے میں امریکہ کا دست وبازو ہے۔امریکہ بھی یہ دکھاتا ہے کہ وہ ایران سے عداوت رکھتا ہے اور اس کے خلاف کام کرتا ہے یوں وہ یورپ اور یہود کو لگام ڈالتا ہے،وہ خطے میں اپنے مفادات کو حاصل کرنے کے لیے امریکہ اور مغرب میں ایرانی مخالف رائے عامہ کو دھوکہ دیتا ہے۔جمہوریہ کے اعلان کے بعد اعلی مناصب پر فائز ہونے والے بعض حکمرانوں کوایرانی عوام کی جانب سے امریکہ کا ایجنٹ قرار دیا گیا جیسا کہ جمہوریہ کے سربراہ بنو صدر جس کو اس وقت امریکہ مخالف مضبوط لہر کی بنا پر برطرف کیا گیا۔لیکن جمہوریہ کے سربراہ رفسنجانی نے امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کا انکشاف کر دیا جیسا ایران گیٹ اور ایران کونٹرا لیکن اس کو برطرف نہیں کیا گیا کیونکہ اس وقت وہ امریکہ مخالف لہر موجود نہیں تھی۔جمہوریہ کے کئی صدور کو کبھی اصلاح پسند اور کبھی اعتدال پسند کہہ کر سزادی گئی،کبھی ان کو قدامت پسند اور سخت گیر کہہ کر گوش مالی کی گئی لیکن اس کے باوجود ایرانی سیاست میں کوئی تبدیلی نہیں گئی بلکہ بدستور وہی شعلہ بیانی کا سلسلہ جارہی ہے جس کے ساتھ کوئی عمل نہیں اور جس کا حقائق سے کوئی تعلق نہیں۔ایران کے بارے میں امریکی موقف میں بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے کہ کبھی ریپبلیکنز سخت لفاظی کرکے اس کو برائی کے محور ممالک میں سرفہرست قرار دیں تو ڈیموکریٹس کی جانب سے نرمی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے،لیکن امریکہ نے ابھی تک ایران کے خلاف کوئی سنجیدہ اور سخت اقدام نہیں کیے۔نئے ایرانی صدر روحانی نے حکومت تشکیل دینے کے بعد کہا کہ:"اس کی حکومت خارجہ پالیسی میں دھمکیوں کوروکے گی اور کشیدگی کا خاتمہ کرے گی"(رائٹرز 12/08/2013 )۔اور اس نے" محمد جواد ظریف کو وزیر خارجہ مقرر کیا جو اقوام متحدہ میں سابق سفیر ہیں جس نے امریکہ میں تعلیم حاصل کی ہوئی ہے واشنگٹن اور تہران کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے خفیہ مذاکرات کا یہ ایک بنیادی رکن رہ چکا ہے"(رائٹرز 12/08/2013 )۔روحانی صدر منتخب ہونے کے بعد انتہائی وضاحت سے کہہ چکے ہیں کہ :"ہم ایران اور امریکہ کے درمیان مزید تناؤاور کشیدگی دیکھنا نہیں چاہتے،حکمت ہمیں بتا تی ہے کہ دونوں ملکوں کو مستقبل کے بارے میں فکر کرنےگزشتہ مسائل کو حل کرنے کے لیے مل بیٹھنے اور معاملات کو درست کرنے کی ضرورت ہے"( رائٹرز17 /06/2013 )،جس کا امریکی صدر اوباما نے یہ کہہ کر جواب دیا:"امریکہ ایرانی حکومت کے ساتھ سفارتی حل تک پہنچنے کے لیے براہ راست مذکرات کے لیے تیار ہے،تاکہ ایران کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے بین الاقوامی برادری کی تشویش کا ازالہ کیا جائے"۔اس کا یہ مطلب ہے کہ ایران امریکہ کے ساتھ خفیہ طریقے سے چلنے کے مرحلے کو ختم کر کے اعلانیہ اس کے ساتھ چلنا چاہتا ہے لیکن یہ ذرا مختلف شکل میں ہو کہ اس کو ایک علاقائی بااثر ملک کے طور پر دکھایا جائے اور خطے کے فیصلوں میں اس کو شامل کیا جائے۔
6 ۔ جو کچھ ہم نے اوپر کہا اس کی بنیاد پر ہم یہ خلاصلہ نکالتے ہیں:
جس مسلک کو ایران نے سرکاری مسلک کے طور پر اختیار کررکھا ہے اس کو بطور ایک پیغام(رسالت)یاایک ایسی آیڈیالوجی کے طور پر اختیارنہیں کیا جس کا وہ علمبردار ہو،کیونکہ اس نے ملک کے نظام کی تاسیس اس مسلک کی بنیادپر نہیں کی ہے،نہ ہی انہوں نے اپنا دستور اس مسلک کی اساس پر وضع کیا ہے،نہ ہی اس کے دفعات اس سے ماخوذ ہیں،بلکہ نظام حکومت،خارجہ پالیسی،فوج،سیکیورٹی سے متعلق بنیادی دفعات سب سرمایہ دارانہ نظام سے ماخوذ ہیں۔یہ بالکل سعودی نظام حکومت کی طرح ہے جو ملک کے طول عرض میں پھیلے ''حنبلی مسلک"کو حکومتی مفادات کے حصول کے لیے استعمال کرتا ہے۔جہاں تک ایران کی خارجہ پالیسی کا تعلق ہے وہ خطے میں امریکی مفادات کے گرد گھومتی ہے، گریٹ مشرق وسطی اور اسلامی ملکوں میں بھی یہی حال ہے۔مثال کے طور پر تہران نےعراق اور افغانستان پر امریکی قبضے کو مستحکم کرنے میں گزشتہ کئی سالوں سے امریکہ کی بھرپور معاونت کی،لبنان میں اپنی جماعت(حزب اللہ)کے ذریعے وہاں سیاسی منطرنامے کو امریکہ کے حق میں کرنے میں کردار ادا کیا،حال ہی میں شام میں بشار الاسد کی مدد کر کے امریکی بالادستی کی حفاظت میں ایڑی چوٹی کا زور لگا یا،یوں ایران افغانستان،شام،لبنان اور عراق میں امریکہ کے خادم کا کردار ادا کررہا ہے۔خطے سے باہر بھی امریکہ ایرانی رویے کو جواز بنا کر اپنے میزائیل ڈیفنس شیلڈ کو نصب کرنے،خلیج تعاون کونسل کے ممالک کو غیر متوازن امن معاہدے میں مربوط کرنے اور خلیجی ریاستوں کوایران سے ڈراکر اربوں ڈالرکا اسلحہ فروخت کرنے میں کامیاب ہو گیا!
ایران امریکہ کے ساتھ چل رہا ہے اور اس ساتھ چلنے کا مطلب اور اپنی حدود بھی جانتا ہے اور ان حدود سے تجاوز بھی نہیں کرتالیکن گمراہ کرنے یا حقائق پر پردہ ڈالنے کے لیے کبھی کبھی شعلہ بیانی کا مظاہرہ بھی کرتا ہے جیسا کہ احمدی نژاد کے دور میں ہوا جس نے عراق،افغانستان اور شام میں امریکہ کی خوب خدمت کی۔یہی وجہ ہے کہ امریکہ ایران کی حکومت کو اپنے مفادات کا سب سے بڑاخادم کے طور پر دیکھتی ہے اور امریکی پالیسی ساز ادارے ایران میں نظام کو تبدیل کر نے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے جس کی وضاحت 12 دسمبر 2008 کو روبرٹ گیٹس نے بحرین میں بین الاقوامی امن کانفرنس کے موقع پر امریکہ اور ایران کے تعلقات پر بات کرتے ہوئے کی اور کہا:"کوئی بھی ایران میں نظام کو تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کر رہا۔۔۔۔ہم جو چاہ رہے ہیں وہ صر ف اتنا ہے کہ سیاست اور رویے میں اس طرح تبدیلی آنی چاہیے کہ ایران خطے کے ممالک کا اچھا ہمسایہ بن جائے نہ کہ عدم استحکام اور تشدد کا مصدر بن جائے"۔

Read more...

حزب التحریرنے خلافت کے عدالتی پالیسی کا اعلان کردیا یقینی،بروقت اور بغیر کسی امتیاز کے انصاف فراہم کرنے کے لیے عدالتی پالیسی

حزب التحریر ولایہ پاکستان نے عدالتی پالیسی کے حوالے سے مندرجہ ذیل پالیسی دستاویزجاری کی ہے۔یہ پالیسی ایسے عدالتی نظام کو یقینی بنائے گی جو بدعنوانی اورامتیازی سلوک سے پاک ہو، لوگوں کے حقوق کی فراہمی کو یقینی بنائے اور حکمرانوں کے احتساب میں انتہائی سخت ہو۔
اسلام کا عدالتی نظام انسانی تاریخ کا سب سے سے زیادہ تفصیلی اور گہری سوچ پر مبنی نظام ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے وقت سے اسلام بروقت اور کسی بھی امتیاز سے مبرا انصاف فراہم کرنےکے حوالے سے پہچانا جاتا ہے۔ لیکن خلافت کے خاتمے اور شریعت کے نفاذ کی منسوخی کے بعد سے لوگوں کےدرمیان اختلافات اور جھگڑوں کےتصفیے، حکمرانوں کے احتساب اور لوگوں کے حقوق کی فراہمی کے معاملات انتہائی دگرگوں صورتحال اختیار کرچکے ہیں۔
بروقت، بلامتیاز اور شفاف انصاف کی فراہمی اسلامی کے عدالتی نظام کی پہچان ہے۔ اس کے علاوہ تیرہ سو سالوں تک شریعت دنیا بھر کی تہذیبوں کے لیے ایک راہنما تھی جس نے مغربی اقوام کو اپنے قانونی اور حکمرانی کے اصول و ضوابط میں تبدیلی لانے پر مجبور کیا، مثلاًفرانس کا نیپولیونک کوڈ، برطانیہ کا میگنا کارٹا اور امریکی آئین۔
جمہوریت کے برخلاف اسلام میں یہ اللہ سبحانہ و تعالی ہی ہے جو جرم، اس کو ثابت کرنے کے لیے درکار ثبوت اور سزا سے متعلق قوانین سے انسانیت کو آگاہ کرتا ہے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے:أَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ "کیا وہی نہ جانے جس نے پیدا کیا؟ پھر وہ باریک بین اور باخبر بھی ہو"(الملک:14)۔ لہٰذا اسلام میں طاقت، رتبے یا کسی بھی اور وجہ کی بنیاد پر کوئی امتیازی قوانین نہیں ہوتے کیونکہ یہ قوانین اللہ سبحانہ و تعالی کی جانب سے نازل کیے گئے ہیں۔ کمزور کے حقوق کا تحفظ کیا جاتا ہے اس بات سے قطع نظر کہ اس کا تعلق کس نسل، رتبے، جنس، مکتبہ فکر یا مذہب سے ہے۔ اسلام میں کسی حکمران کو اسلام کے احکامات سے استثناء حاصل نہیں ہوتا چاہے وہ خلیفہ ہو یا والی (گورنر)۔
اسلام نہ صرف طاقتور کو ظلم سے روکتا ہے بلکہ بروقت انصاف کی فراہمی کو بھی یقینی بناتا ہے۔ اسلام کا عدالتی نظام ایک منفرد نظام ہے جس میں اپیل کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی اور نہ ہی مختلف درجوں کی عدالتیں ہوتی ہیں کہ جن کی وجہ سے آج لوگ ایک گرداب میں پھنس جاتے ہیں۔ جب ایک بار ایک مقدمے میں اللہ کا حکم ثابت ہوجاتا ہے تو مقدمہ ختم ہوجاتا ہے۔ صرف اُس صورت میں مقدمہ دوبارہ کھولا جاسکتا ہے کہ اگر فیصلہ اللہ کے حکم کے خلاف ہو یا مقدمے کی حقیقت کو نظر انداز کردیا گیا ہو۔
جہاں تک سزاؤں کا تعلق ہے تواسلام نے ایسی سزائیں تجویز کی ہیں جو مجرموں کو جرم کرنے سے باز رکھتی ہیں جبکہ مغربی سزائیں جرائم میں مسلسل اضافے کا باعث بنتی ہیں جس کے نتیجے میں جیلوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔
اس پالیسی اوراس سے متعلق ریاست خلافت کے دستور کی دفعات کے تفصیلی دلائل جاننے کے لیے اس ویب سائٹ لنک کو دیکھیے۔
http://htmediapak.page.tl/policy-matters.htm

 

Read more...

سوال وجواب :  کیاواقعی عالمی معیشت بہترہورہی ہے

 

سوال : 6/9/2013کوجمعہ کے دن G-20کی سربراہی اقتصادی کانفرنس سینٹ پیٹرس برگ(روس) میں حتمی بیان کی منظوری کے ساتھ اختتام کو

پہنچی۔ 6/9/2013کوروئٹرز نیوز ایجنسی کے مطابق بیان میں کہاگیاکہ " عالمی معیشت روبصحت ہے " ۔ ایجنسی نے رشین فائنانس منسٹری کے ڈائریکٹر آف ڈیپارٹمنٹ آندرے بوکاریف کے حوالے سے کہا،جس نے جی ٹونٹی کے اختتامی بیان کی تیاری میں شمولیت کی،کہ" مشکل ترین اورطویل ترین بحث، عالمی اقتصاد کاجائزہ لینے اور اس کی تشخیص کی تھی"۔ تازہ ترین اعدادوشمار ا س بہتری کی طرف اشارہ کرتے ہیں ،چنانچہ یورپی یونین نے بیان جاریکیاہے کہ ان کی معیشت بڑھ رہی ہے،اگرچہ اس کی شرح نموکم ہے ۔امریکہ نے کہاہے کہ سال 2013 میں اس کی معیشت 1٪ کی شرح سے بڑھی ہے اورچین نے ایسے اعدادوشمار جاری کیے جن کی مطابق سال رواں میں اس کی معیشت جولائی 2013تک 7٪سے زیادہ کی شرح سے بڑھی ہے۔
تو کیاواقعی عالمی معیشت بہترہورہی ہے ،جس کے نتیجے میں 2007میں امریکہ میں شروع ہونے والااقتصادی بحران ،جوچھ سال سے زیادہ عرصے تک جاری رہا،میں کمی آئی؟ اوراگرمعیشت بہترنہیں ہوئی، توان معلومات اوراعداد وشمارکاکیامطلب ؟ امید ہے کہ اس کی کچھ وضاحت فرمائیں گے ،جزاک اللہ خیراً۔

 

جواب : ہم پہلے عالمی سطح پرمعاشی پہلوسے نمایاں طورپر اثراندازہونے والے ممالک ،یعنی امریکہ ،یورپی یونین اورچین کی اقتصادی صورتحال کوسامنے رکھتے ہیں کیونکہ ان ممالک کی معیشت دنیاکی50 ٪ سے زائد معیشت کی نمائندگی کرتی ہے ۔ اس کے علاوہ عالمی اقتصادی بحران کاامریکہ اوریورپی یونین کے اختیارکردہ سرمایہ داریت کے ساتھ گہرا رابطہ ہے،اس لئے اس بحران میں اصل کرداران ہی کاہے۔جہاں تک چین کی بات ہے ،توجیساکہ ہم آگے بتائیں گے کہ اس بحران کوکھڑاکردنے یااس پرقابوپانے میں اس کاکردارردِعمل کاتھا،نہ کہ اثراندازی کا۔ آپ کی معلومات کیلئے کہ تنہاامریکی معیشت دنیاکی تین بڑی اقتصادی طاقتوں ،چین ،جاپان اورجرمنی کی مجموعی معیشت کی لگ بھگ ہے ، جن کانمبرامریکہ کے بعد آتاہے،کیونکہ ورلڈ بینک اوراقتصادی ترقی و تعاون آرگنائزیشن کے بیانات کے مطابق ،سال 2012 میں امریکی معیشت کاحجم15.1ٹریلین ڈالر تھا،جوعالمی معیشت کا 22٪ ہے ،جبکہ چین کی معیشت 8.2ٹریلین ڈالرتھی۔جہاں تک جاپان اورجرمنی کی معیشت کی بات ہے ،تویہ بالترتیب 5.9اور3.4ٹریلین ڈالر تھی۔ امریکی معیشت کے اس وسیع حجم کے باعث امریکی اقتصادی بحران کے اثرات پوری دنیامیں رونماہوئے ،جوامریکہ میں جائیدادکی پراپرٹی مارکیٹ کے انہدام کے نتیجے میں پیداہوا ۔ اس بناپرہم بحث کو ان تینوں ممالک کی معیشت پرمرکوزرکھیں گے، جو عالمی معیشت پرسب سے زیادہ اثراندازہوتے ہیں ،اورچونکہ معیشت کی بہتری یاعدم بہتری کی حقیقت کی طرف اشارہ دینے والے نمایاں ترین عوامل : بے روزگاری کی شرح ،علاقائی قرضے ،انتظامی اداروںجیسے میونسپلٹی کے اخراجات مع سوشل اخراجات ، اورحکومتی قرضے، ہیں اوریہ تینوں عوامل لیبرمارکیٹ ،کرنسی ایکسچینج مارکیٹ ،نیز حکومتی اورپرائیویٹ منصوبوں کی مارکیٹوں کی سرگرمیوں کے غمازہوتے ہیں ،اس لئے ہماری بحث کامحور یہی تین عوامل ہوں گے ،اس بحث کے نتیجے میں ہی ہم عالمی معیشت کی بہتری یاعدم بہتری کے بارے میں فیصلہ کر سکتے ہیں۔
پہلا : یونائیٹڈ سٹیٹس آف امریکہ :
1.بے روزگاری کی شرح : سنٹر ل بینک نے 2008 کےاواخرمیں جان بوجھ کر قرضوں پرشرح سود میں کمی کرکے صفرکے قریب لے آیااور جنرل بجٹ میں بانڈزخریداری پروگرام کے تحت تین گنااضافہ کیا،جولگ بھگ تین ٹریلین ڈالر کاتھااورسنٹرسل بینک نے اپنی آخری میٹنگ میں اس کےماہانہ شرح کو85 بلین تک برقراررکھا۔یہ سب کچھ طویل المیعاد قرضوںکے اخراجات میں کمی لانے کیلئے کیا اور اس طرح کاروبارکے مالکان اورمنصوبوں کوچلانے والوں کیلئے قرض کاحصول آسان بنایاگیاتاکہ لیبرمارکیٹ کوفروغ دیاجائے لیکن اس کے باوجود بے روزگاری کی شرح گزشتہ مہینے7.9%کی نسبت سے برھتی رہی،یہ5سال قبل کی شرح سے کچھ زیادہ مختلف نہیں جو8.9%تھی ۔باوجود یکہ یونائیٹڈ سٹیٹس نے ترغیبی بل کی منظوری دیدی ،یعنی شئیرز کی خریداری کرکے کمپنیوں میں سرمایہ کی فراہمی کابل،یہ بل 2009 سے نافذ کیاگیا،مگر معیشت کے تن ِمردہ میں جان آئی اورنہ ہی بے روزگاری کی شرح میں خاطرخواہ کمی ہوئی ۔اس سے پتہ چلتاہے کہ بڑا بحران برقرار ہے اور معیشت بہتر نہیں آئی ہے۔
2. سروسزر سیکٹرکاقرضہ ،مثلابلدیات ( municipalities): سکائی نیوز کی عربی ویب سائٹ نے 11/8/2013 کوذکرکیا کہ یونائیٹڈ سٹیٹس کے شہروں اورمیونسپلٹیز میں قرضوںکے بوجھ اوران کی ادائیگی سے قاصر ہونے کی وجہ سےدوسالوں میں 41شہروں کومالیاتی طور پر دیوالیہ کر دیا ہے"۔ اس کامطلب ہے کہ کئی امریکی شہری آج تک عالمی مالیاتی بحران کے اثرات سے نکلنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ ایکبارپھرامریکیشہروںپرماضیکیدیوالیہپنکیپرچھائیاںنظرآنےلگیں ہیںجب گزشتہ جولائی میں اپنے ذمہ اٹھارہ بلین ڈالر کاقرضہ واپس کرنے کی اہلیت نہ ہونے کی وجہ سے امریکی ریاست ڈیٹروئٹ نےسرکاری طورپردیوالیہ ہونے کااعلان کیا ۔ قرض خواہوں سے بچنےیابالفاظِ دیگرحقیقت سے فراراورآسان حل کیلئے مالیاتی دیوالیہ کا اعلان ہی میونسپل اداروں اورشہروں کی آخری اُمید ہوتی ہے۔ "امریکی انسٹی ٹیوٹ برائے دیوالیہ پن "کےاعدادوشمار کے مطابق 2007اور2011کے درمیانی عرصہ میںامریکی شہروں اوربلدیات کے40 سےزائددیوالیا ہونے کے کیسزسامنےآئے ہیں جس کا مطلب ہے کہ سالانہ 8 دیوالیہ پن کے کیسز سامنے آرہے ہیں ۔یہ اخباری رپورٹ ظاہرکرتی ہے کہ پچھلے دو سالوں (2011اور2013 )کےدوران شہروں کے دیوالیہ ہونے کے کیسز معاشی بحران کے عروج پر ہونے کے عرصے سے بھی زیادہ سامنے آئیں ہیں، جس سے امریکی اقتصاد کی بہتری کے بارے میں شکوک وشبہات جنم لیتے ہیں۔
3. حکومتی قرضے: امریکی وزیرِ خزانہ جیکب لیو نے 26/8/2013کوکانگریس کوبھیجے گئے اپنےایک خط میں متنبہ کیاکہ : "حکومت کواپنےقرضوں کی ادائیگی کی نااہلی سے بچانے کیلئےگزشتہ مئی میں کیے گئےغیرمعمولی اقدامات کی مدت،اکتوبرکے وسط میں ختم ہونے والی ہے" اوراس نےکانگریس پرزوردیاکہ وہ قرض لینے کی حکومتی حق میں توسیع کرے( القدس ویب سائیٹ 27/8/2013) ۔امریکی وزیرخزانہ جیکب لیو نے اپنے خط میں اشارہ کیاکہ: اگر حکومت کےمجموعی قرضوں کی حد کو بڑھایا نہ گیا ،جس کی فی الحال جائزانتہائی حد16.7ٹریلین ڈالرزہے، تواس سال 15 اکتوبر کے آتے ہی امریکی حکومت اپنی ذمہ داریوں کوپوراکرنے کیلئے درکارضروری وسائلسےبہت جلد ہاتھ دھوبیٹھے گی" ۔اس نےانتباہ دیتے ہوئے کہا:"مالیاتی مارکیٹ میں بگاڑآسکتاہے ،اوراگرحکومتی قرضوں کی حد موجودہ سطح پر رہی تومعیشت گرسکتی ہے۔" اس نے مزید کہا:" کانگریس کا مشن یہ ہوناچاہئےکہ یونائیٹڈ اسٹیٹس کے اعتماد کی حفاظت کی جائے،کیونکہ کوئی دوسراادارہحکومتی قرضوں کی حداونچی کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا" ( رشیاٹوڈےویب سائٹ 8/28/2013)۔ یعنی امریکہکے قرضے اب16.7ٹریلین ڈالرزکی آخری جائز حد کوچھورہے ہیں،لیکن اس کے باوجود اس کامطالبہ ہے کہ اپنی ذمہ داریوں کوپوراکرنےکیلئے قرضوں کی حد اونچی کردی جائے۔
یہ امریکہ کی صورتحال ہے ،جہاں قرضوں کی سطح بہت بلندہوئی ہے اوراپنے اخراجات اور خسارےکوپوراکرنے اورمعاشی زوال سے بچنے کیلئے وہ قرض حآصل کرنے کی حد کومزید بلند کرنا چاہتا ہے ۔ یہ صورتحال کسی بھی طرح امریکی معیشت میں بہتری کااشارہ دیتی ہے اورنہ ہی بحران سے نکل جانے کی غمازہے۔
دوسرا : یورپی یونین :
1۔ بے روزگاری کی شرح :آئی ایم ایف کی ڈائریکٹر کرسٹین لاگارڈ (Christine Lagarde)نے بیان دیاہے کہ" اسپین اوریونان میں بے روزگار ہونے والوں کی شرح 27٪ہے" (یورونیوز ویب پیج ،26/4/2013) ۔اس نے 3/5/2013کومزید بتایاکہ " یہ توقع کی جاتی ہے کہ 17ریاستوں پرمشتمل یوروزون میں فروری میں بے روزگاری کی شرح 12٪تھی اور جنوری کے مہینے میں بے روزگاری کی شرح 11.9٪تھی لیکن بعد میں اعدادوشمار میں تبدیلی کے بعد وہ بھی 12٪ نکلی،لگسمبرگ میں یورپی یونین کے اعدادوشمار کے آفس نے آج کہا کہ یورپی یونین کمیشن اس سال بے روزگاری کی شرح 12.2٪ ہونے کی پیش گوئی کرتا ہے جبکہ 2014میں بے روزگاری کی شرح اوسطاً 12.1٪تک پہنچ جائےگی"۔
یورپین کمیشن کےوائس پریذیڈنٹ فاراکانومک اینڈ مانیٹری افئیرز،اولی رین Olli Rehnنے کہا کہ "کسادبازاری(recession)کےتسلسل کے پیش نظرہمیں یورپ میں بے روزگاری کے بحران کاسامناکرنے اوراس پرقابوپانے کیلئے بھرپورانداز میں ہرممکن کوشش بروئے کارلاناہوگی"۔
انٹرنیشنل لیبرآرگنائزیشن کےانٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فارلیبرسٹڈیز کے ڈائریکٹرریمنڈ ٹوریس Raymond Torresنے کہا " اگرہم نے واضح پالیسیاں اختیارنہ کیں، تویورپ میں کساد بازاری recessionکے بحران کے خطرات پیداہوں گے، جس کی وجہ سے طویل عرصے تک مزید لوگ بے روزگاری کاشکارہوں گے یا اس مارکیٹ سے ہی نکل جائیں گے جس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ اب اس مارکیٹ میں موجود ہی نہیں ہیں "۔ اس نے مزید کہا" بالخصوص یوروزون میں تیز ترترقی کی پالیسی کواپناناوقت کی اہم ضرورت ہے ،اورسمال بزنس کوآسان قرضے فراہم کیے بغیرلیبرمارکیٹ میں حرکت پیداہونے کی توقع نہیں کی جاسکتی " (یورونیوز 3/6/2013) ۔ ایرونیوز نے مزیدکہا کہ" آرگنائزیشن نے اشارہ دیاکہ 2010سےاب تک دوتہائی یورپین ممالک میں بے روزگاری کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔ اوریہ واضح کیاکہبے روزگاری کی شرح کو بحران سے پہلے والی شرح تک ،جوکہ5۔6٪تھی، لانے کیلئے 30 ملین روزگارکے مواقع پیداکرنے کی ضرورت ہے"۔
2.سوشل اخراجات : یورونیوزویب پیج نے 30/8/2013کوشائع کیاکہ " ڈنمارک کے وزیرخزانہ بجارنی کوریڈونBjarne Corydonکے مطابق،اسکنڈینویا(شمالی یورپ ) کے ممالک، جو ایک عرصے سے فلاہی ریاست کے حواکے سے شہرت رکھتی ہیں،اب مزید اپنے شہریوں کو ویسی سہولتیں فراہم نہیں کرسکتیں "۔اقتصادی ترقی وتعاون تنظیم نے حال ہی میں ممبرممالک کے اخراجات کے اعدادوشمارپیش کیے۔فرانس اس فہرست میں اپنی کُل قومی پیداوار کا33%فلاحی کاموں پر خرچ کرنے کے حوالے سے پہلی پوزیشن پر ہے ،پھرڈنمارک اوربلجیم%30.8کی نسبت سے ، اس کے بعد 30.6%کی نسبت سےفین لینڈ ،سویڈن 28.6%ہیں۔ یہ اخراجات ان ممالک کے شہریوں کی تمام ضروریات کوپوراکرنے کیلئے ناکافی ہیں ،ماسوائے جرمنی کے کہ اس کے سماجی شعبے میں اخراجات کسی حد تک قابل قبول ہی۔ آپ اندازہ کریں یہ ان ممالک کی حالت ہے جواخراجات کے حوالے سے سب سے زیادہ طاقتورشمارکئے جاتے ہیں تو پھردیگرکمزور ممالک کی حالت کیاہوگی؟
3۔ قرضے :یورونیوز ویب پیج نے 22/7/2013کوشائع کیاکہ" یوروزون اس مالیاتی سال کے پہلےتین مہینوں میں مزید قرضوں میں دھنس گیا ہے باوجود اس بات کے کہ اخراجات میں کمی کی رفتار کو کچھ سست رفتار کیا گیا ہے جبکہ اس دوران یونان، اٹلی اور پرتگال نے کُل قومی پیداوار اور قرض کیے درمیان شرح کا بدترین ریکارڈ پیش کیا اور کم ترین شرح لیگسمبرک اور ایسٹونیا کی ہے"۔یہ بھی ذکرکیاکہ " واحد کرنسی بلاک کے کساد بازاری recessionکی دلدل میں پھنسا ہوا ہے جبکہ بے روزگاری کی شترح انتہائی بلند اور معاشی بہتری کی بہت کم توقع ہے"۔معاشی سرگرمیوں کو بڑھانے کے لیے یورپی حکومتوں یہ فیصلہ کیا کہ اخراجات میں کمی کی رفتار کو سست کیا جائے لیکن اس کے نتیجے میں قرضوں پر شرح سود میں تیزی سے اضافہ ہوا کیونکہ سرمایہ کار اس حوالے سے پریشان تھے کہ کہی اتنے بڑے حکومتی قرضے ان کی رقم کی واپسے کے امکانات کو کم نہ کردیں"۔
قابل ذکربات یہ ہے کہ یورپی یونین کے کئی ممالک نے یونین میں شامل ہونے کے بعد قرضےحاصل کرلئے، جن کاحجم ان کی معیشت سے تجاوز کرگیا ۔جب یہ بحران یورپ پہنچا تویورپی یونینکے کئی ممالک ایک ایسی صورتحال سے دوچار تھے کہ وہ بحران کے شروع ہونے سے قبل کے قرضے بھی ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھے ۔یہ ذہن میں رہے کہ یورپی معیشت میں پہلے درجے کی مؤثرریاست جرمنی ہے،جواس قابل ہوئی کہ اس نے یورپی یونین میں موجود یورو زون کے ممالک پر اخراجات کم کرنے اورقوموں پرموجود مقروضوں میں کمی کرنےاورسادگی کی زندگی اپنانے کی پالیسی مسلط کی جبکہ اس کے برعکس امریکہ نے سرمائے کی ترسیل اورزیادہ قرضے لینے کی پالیسی اپنائی۔
لہذا یہ بیانات اوررپورٹیںاس بات کی عکاسی کرتی ہیں کہ یورپی معیشت تاحال بحران کے اثرات سے دوچارہے ،اوروہ اس سے نکل نہیں پارہی،وہ اب تک کساد بازاری کا شکار ہے اوراس لئے اس میں کوئی قابل ذکر بہتری نہیں آئی ہے۔
تیسرا : چین
بلاشبہ چینی معیشت کامعاملہ مختلف ہے ،کیونکہ چینی معیشت کے تجزیہ کاریہ کہتے ہیں کہ " اس کی اقتصادی ترقی میں اضافے کاسہرابڑی حدتک برآمدات اورسرمایہ کاری کے سیکٹر پرہے ،مقامی کھپت پر نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عام لوگ اپنے معیارِ زندگی بلندہونے کی حد کو گہرائی سے محسوس نہیں کرتے ۔" اگرچہ اس کی مقامی مارکیٹ بدستورانتہائی کمزورہے ،لیکن یہ کوئی پیمانہ نہیں اوریہ دیگرممالک کی معیشتوں پراثراندازنہیں ہوتا۔ چین پہلے نمبرپرامریکی منڈیوں کو برآمدات اوردوسری جانب امریکہ کے ساتھ برابری کی سطح پرسرمایہ کاری کے تبادلے پرانحصارکرتاہے ،اوروہ یوں کہ چین سینکڑوں بلین ڈالرزکےامریکی کمپنیوں کے شئیرزخریدتاہے،یاٹریلین ڈالرزکے امریکی خزانے کے بانڈز خریدتاہے ، جبکہ امریکی کمپنیاں چین کے اندرسرمایہ کاری کرتی ہیں اوراس طرح اس کے ڈالرکے ذخائر3 ٹریلین ڈالرتک بڑھ گئے ہیں۔توچین دنیائے سرمایہ داریت کی سربراہ ریاست نہیں،بلکہ اس کے زیراثرہے ،کیونکہ وہ سرمایہ دارانہ طریقہ کاراختیارکرتاہے اوراس کی معیشت امریکی معیشت کے ساتھ جڑی ہوئی ہے ،یوں چین امریکی اقتصادی پالیسیوں کے زیراثرہے ۔چین بہت عجلت ا ورمستعدی سے ان معاشی فیصلوں کی تعمیل کرتاہے،جن کی قیادت امریکہ کے زیراثرعالمی سرمایہ دار اداروں کی ہاتھ میں ہوتی ہے۔ ہاں ! اپنے بارے میں یہ اعلان نہیں کرسکتاکہ وہ ایک سرمایہ دارریاست ہے اورپھرسرمایہ دارمعیشت کی قیادت کرے ،کیونکہ وہ سرکاری اورروایتی طورپریہ اعلان کرتاہے کہ وہ کمیونسٹ اوراشتراکی سٹیٹ ہے اور اپنےآزاد وجود کے خاتمے کے خوف سےاس سرکاری تاثر کی حفاظت کرتاہے ۔ ان کایہ خوف بھی اس حفاظت کاباعث ہے کہ اگروہ اس تاثرکی حفاظت نہ کریں ،توحکومت کی قیادت کرنے والے کمیونسٹ خیالات کے لوگ اپنااستحقاق کھوبیٹھیں گے ۔ اس لیے کمیونسٹ اوران کی پارٹی شرماتے ہوئے سرمایہ دارانہ نظاموں کونافذکرتے اورسرمایہ داردنیاکے سربراہ ،امریکی معیشت کے ساتھ ربط وتعلق کوقائم رکھے ہوئے ہیں ۔اس لئے مستقبل قریب میں اس کی توقع نہیں کی جاسکتی کہ چین اس پالیسی سے جان چھڑالے گااوردنیائے سرمایہ داریت کی قیادت کوسنبھال کرعالمی معیشت پراثراندازہونے لگے گا۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہم سرمایہ دارانہ اقتصادی بحران کوزیربحث لاتے ہیں توہم اول درجہ میں امریکہ پراس کومرکوزکرتے ہیں ،پھراس طرح دوسرے درجے میں یورپ پر۔ پس وہ دنیا،جس پراس وقت سرمایہ دارانہ نظام پنجے گاڑے ہوئے ہے ،معاشی لحاظ سے ان ہی دوممالک سے متاثر ہوتی ہے، امریکہ اوریورپ۔
چوتھا : دیگرریاستوں کی معیشتیں :
باقی ممالک کی معیشتیں عالمی معیشت کوکنٹرول کرنے میں کم اثرانداز ہوتی ہیں :
پس جاپان ،کاقرضہ آئی ایم ایف کے دیے ہوئے اعداد وشمارکے مطابق جی ڈی پی کی245٪تک پہنچتاہے ۔آئی ایم ایف نے ایک بارپھراس سے درمیانی مدت کاقابل اعتمادبجٹ پلان بنانے کامطالبہ کیاہے ،تاکہ بھاری قرضوں کے سلسلے کوروکاجائے ۔ان قرضوں کا نوے فیصدحصہ جاپانی لوگوں کی ملکیت ہے ۔جاپانی حکومت نے 8/8/2013میں جاپانی تحریکی پالیسی(Japanese stimulus policy) کے برعکس ،عمومی اخراجات میں سےدوسالوں میں85بلین ڈالر کی کٹوتی کے عزم کااعلان کیا۔
جہاں تک روسکی باتہے تووہ بھی ملکی سطح پرسرمایہ دارانہ نظامیں نافذ کرتاہے،اوران نظاموں کے نفاذ اوردوسرے ممالک کے ساتھ معاشی تنظیموں کے قیام میں مغرب کی تقلید کرتاہے ۔اس کے اندرکسی تخلیقی کارنامے کی قابلیت نہیں ،اس لیے اس نے یورپین کسٹمز یونین کی نقالی کرتے ہوئے2010میں اس کے زیراثرریاستوں کے ساتھ معاشی تنظیمات تشکیل دی ،جیسے بیلاروس اورقزاقستان کے ساتھ اس کاتشکیل دیاہواکسٹمز یونین .......بہرحال روسی معیشت سرمایہ دارانہ نظام کے زیراثرہے ،جس کی قیادت مغرب کررہاہے ۔ روس اسی سرمایہ دارانہ نظام کی نقش قدم پرچلتاہے ،اسی کے قراردادوں کونافذکرتاہے ،اوراقتصادی آرگنائزیشنز قائم کرنے میں سرمایہ دار ریاستوں کی تقلید کرتاہے۔اس لیےاس پہلوسے روس عالمی معیشت میں کوئی حرکت نہیں لاتا،بلکہ یہ خودمغربی سرمایہ دارمعیشت سے متاثر ہوتاہے ،چہ جائیکہ وہ ایک مؤثرکاکرداراداکرے۔
بریکس BRICS)(گروپ (برازیل ، انڈیااورجنوبی افریقہ )یامیکسیکواورترکی جیسےدوسرے ترقی پذیرممالک کاجہاں تک تعلق ہے،توعالمی معیشت پران کاکوئی قابل ذکراثرنہیں ،بلکہ یہ بلاواسطہ (ڈائرکٹ)مغربی معیشت کے زیراثرہیں اور امریکی ویورپی منڈیوں کے ساتھ مربوط ہیں ۔ ان میںسے کچھ ممالک ،جیسے ترکی ،ترقی کوبڑھانے کے لئے بنیادی طورپرقرضوںکاسہارالیتے ہیں،ایسی معیشت حقیقی معیشت نہیں ہوتی ،اس طرح اس میں کھپت بڑھ جاتاہے ،کیونکہ لوگ قرضوں پرانحصارکرتے ہیں ،اس کے ریاستی ادارے یاپرائیویٹ ادارے اورکمپنیاں بھی قرضوں کاسہارالیتی ہیں۔ کچھ ممالک کے اندر ملک سے باہرسرمایہ کی کثرت سے منتقلی اوربڑے پیمانے پرکرپشن موجود ہے جیسے انڈیا،ان جیسے ممالک کی معیشتیں مستحکم نہیں اوران کاکوئی حقیقی معاشی سہارانہیں۔برازیل اورجنوبی افریقہ کااثراپنے دائرےتک محدود ہے یعنی جنوبی امریکہ اورافریقہ میں ،عالمی اقتصاد میں اس کاکوئی اثرنہیں۔
لہذا عمومی طور پر بحرانوں کے پیدا ہونے اوران کوختم کرنے کے مطالعے میں ان معیشتوں پرزیادہ توجہ مرکوز نہیں رکھی جائے گی۔

پانچواں : جہاں تک اعلان کیے گئےاعدادوشماراوربیانات کاتعلق ہے ،تویہ بیانات صادرکرنے والی ریاست کے اندرموجوداقتصادی ادارے کی مرضی کے مطابق تیارکیے جاتے ہیں۔
1۔ پس 2013میں یونائیٹڈ اسٹیٹس نےسرکاری طورپر جس شرح نمو کاذکرکیاہے،اس کاسبب درحقیقت یہ ہے کہ امریکی حکومت نےمعیشت کی پیمائش کےطریقہ کارکوتبدیل کردیا ، اس نے انٹالیکچول پراپرٹی (INTELLECTUAL PROPERTY)کومعیشت میں داخل کردیا ،جیسےموسیقی کے مصنوعات یامیڈیسن اورڈرگز مصنوعات کی ملکیتی حقوق........یہ تبدیلی معیشت کےاندر 370 بلین ڈالرزکے اضافے کاسبب بنی جو2.5% کی (اضافی) تبدیلی کی نمائندگی کرتی ہے ۔ لیکن اس کے باوجود امریکہ کی معیشت ایسے وقت میں ترقی کیلئے جدوجہد کررہی ہے ،جبکہ امریکی شہریوں نے اپنے اخراجات کم کردیے ہیں اس لیے یہ رپورٹیں جن سے کسادبازاری ختم ہونے کاتاثرابھرتاہے ،اصل میں یہ ایک طریقہ ہے کہ ایسے اعدادوشمارشائع کیے جائیں ،جن کے پیچھےکوئی حقیقت نہیں ہوتی اورسراسرمن گھڑت ہوتے ہیں۔
2۔ جہاں تک یورپین کے اہلکاروں کی طرف سے پیش کیے گئے مندرجات کا تعلق ہے ،تو یہ بھی مستقل ترقی کی بنیاد پرنہیں تھے ۔جن مندرجات کااعلان کیاگیاوہ محض ابتدائی اندازہ تھااوروہ بھی پورے یورپی معیشت کانہیں، کیونکہ اس میں وہ ممالک شامل نہیں کیے گئے، جومعاشی مشکلات سے دوچارہیں ،جیسے آئیرلینڈ اوریونان ۔ دیے گئے مندرجات صرف اورصرف وہ تخمینے ہیں جنہیں یورپین ڈیٹاایجنسی "یوروسٹاٹ" نے اکٹھاکیا،جومختلف انداز سے اعدادوشماراکٹھاکرنے والےقومی شماریات کے دفاترسے ،جوبڑی حد تک ترقی کیلئے ابتدائی تخمینوں کے سرویز پراعتمادکرتے ہیں ، فراہم کیے جانے والے ڈیٹاپرانحصارکرتی ہے ۔ ان تخمینوں پرعموماً کئی مرتبہ نظرثانی کی جاتی ہے۔ جرمن دفترشماریات اس بات کااشارہ دیتاہےکہ نظرثانی کی کاروائی ابتدائی تخمینوں کے کوئی چارسال بعد ممکن ہوتی ہے ،کیونکہ اس میں اضافی مندرجات کوبھی شمارکیاجاتاہے۔ اس لئے سرویز کی خامیوں کودیکھتے ہوئے یہ کہنامشکل ہے کہ یورپ میں حالات بہترہوگئے ہیں۔
3۔ بالخصوص ، اگرہم چین کی بات کریں،تو ہمیشہ سے ان بیانات کے بارے میں کچھ ایسے سوالات اورشکوک پائے جاتے ہیں جوچین کی طرف سے اس کی معیشت کے حوالے سے نشرکیے جاتے ہیں۔چین رقبہ اورآبادی کے لحاظ سے دنیاکی ایک بڑی ریاست ہے ،اس کی معاشی کارکرگردگی کے بارے میں تمام معلومات اکٹھاکرنا ایک بہت ہی مشکل کام ہے۔
مبصرین کے نزدیک شکوک کاباعث یہ ہے کہ چین نےاپنے سالانہ GDP کے اعدادوشمارگزشتہ سال جنوری کے تیسرے ہفتے میں شائع کیے ،حالانکہ چینی حکومت کیلئے پورے سال کے نتائج کاتین ہفتوں میں ترتیب دینامشکل امرہے ۔اس سے اس خیال کی وجہ سمجھ میں آتی ہے کہ چین کی طرف سے پیش کیےجانے والے اعدادوشماردرحقیقت ایسے ہوتےہے ،جس کی بنیادپردنیااس کی معیشت کے بارے میں ویساہی سمجھے جیساوہ چاہتاہے۔
چھٹا: خلاصہ
بے شک عالمی مالیاتی بحران ابھیتک ختم نہیں ہواہے ،اوراس کے جھٹکے اب تک محسوس کیے جارہے ہیں ،امریکہ اس بحران کوسرمایہ ٹھونسنے کے ذریعے حل کرنے کی کوشش میں لگاہواہے ،اوریورپ میں جرمنی سادگی کی زندگی اپنانے کی پالیسی کے ذریعے اس کے ساتھ نمٹ رہاہے ۔امریکہ نے 85بلین ڈالرز مارکیٹ میں ڈالتا ہے اوریہ سرمایہ کپنیوں کو زندگی برقراررکھنے کیلئے فراہم کرتا ہے تا کہ وہ چلتی رہیں،اوریورپ سادگی کی پالیسی پرچل رہاہے ۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ بحران اب تک خم ٹھونک کے کھڑاہےاور معیشت حکومت کی مداخلت اورتعاون کے بغیرطبعی انداز سے نہیں چل رہی، گویاریاست کی معیشت کے لیے ایک وینٹی لیٹرکاکرداراداکررہی ہے ۔ یہ جانتے ہوئے کہ مارکیٹ میں ریاستی مداخلت سرمایہ دارانہ نظام معیشت کی ضد ہے ،کیونکہ یہ نظام مارکیٹ کواتھارٹی کی چنگل سے آزادی کی ترویج کرتاہے ، سو یہ نظام کمپنیوں اورباقی مالیاتی اداروں کوبچانے کیلئے ریاست کومارکیٹ میں مداخلت کی یامارکیٹ کی حرکت کومحدودکرنے کی اجازت نہیں دیتا۔یہ نظام لازم قراردیتاہے کہ مارکیٹ کومطلق آزادی حاصل ہونی چاہئے ،اوریہ کہ مارکیٹ اپنے مسائل آپ ہی حل کرے گی ۔ پس سرمایہ دارانہ آئیڈیالوجی کے مطابق مداخلت ،ترقی کیلئے رکاوٹ ہے،اوربقائےاصلح کے اصول کے مطابق ،جوکمپنیاں کاروبار کے قابل نہ ہوں ،انہیں بندہوناچاہئے ،تاکہ ان کی جگہ دیگرکمپنیاں کام کریں، اس طرح مارکیٹ میں صرف وہی کمپنیاں باقی رہ جائیں گی جومقابلے کی دوڑمیں شریک ہوسکتی ہوں،چنانچہ معیشت کوترقی ملے گی اورآزادی سے کاروبارکرسکے گی۔یہ اس سرمایہ دارانہ نظریے کے مطابق ہے،حقیقت جس کی تصدیق نہیں کرتی اورسرمایہ دارریاستوں کی مسلسل مشقوں نے اس کوغلط ٹھہرایاہے ۔ تو اس بحران کے اسباب اورمسائل کےسرچشمےکاحل نہیں نکالاگیا،جوسرمایہ دارانہ نظام کے ڈھانچے میں موجودہے ،جہاں ہرلمحہ بیماری لوٹ آنے کاخطرہ موجود ہوتاہے ،اس مریض کی طرح جسے مختلف پرانی بیماریوں نے گھیررکھا ہو،کبھی توایسے رپورٹیں آتی ہیں جوفلاں فلاں نسبت سے اس کی صحت کی بہتری کااشارہ دیتی ہیں ،کچھ دیربعد ہی اس کے برعکس رپورٹیں سامنے آتی ہیں ،پھراس کی زندگی کوباقی رکھنے کیلئےاس کو آرام پہنچانے والی ادویات اورانجکشن دیے جاتے ہیں ،تاہم وہ مسلسل دردکی ٹھیسوں سے بے چینی کی کیفیت میں مبتلاہوتاہے۔
اس طرح عالمی معیشت کبھی بھی اچھی نہیں ہوئی ،بحران تاحال اپنی جگہ موجود ہے ،اورمسائل کھڑے ہیں ،اورجب تک سرمایہ دارانہ نظام موجود رہے گا،مسائل سراٹھاتے رہیں گے۔یہ نظام غربت وتنگدستی کوجنم دیتاہے ،اربوں انسانوں کومحرومی کی دلدل میں دھکیل دیتاہے اورڈھیرسارے اموال ،قبل اس کے کہ لوگوں تک پہنچ کروہ اس سے بہرہ ور ہوجاتے،یہ نظام ان اموال کی بربادیکاباعث بنتاہے، نتیجۃًلوگوں کی ایک بڑی تعداد بدقسمتی اورزبوحالی کا شکار ہوجاتی ہےاورسرمایہ داروں کاایک چھوٹاساطبقہ وسائل کابہت بڑاحصہ ہڑپ کرلیتاہے ۔ اسی سبب ،بحران ایک آتش فشاں کی صورت میں موجود ہے ،جوکبھی لرزہ خیز دھماکے سے پھٹ جاتاہے توکبھی ساکن ہوجاتاہے ،مگرلاوااندرہی اندرجوش مارتارہتاہے ۔ اس لیے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ حقیقی حل اسلام کے علاوہ کہیں اورموجود نہیں ،جوصحیح طریقے سے وسائل کی تقسیم اورہرفرد کوان سے فائدہ اٹھانے اوراپنے حصے کے بقدرحصول کو معاشی مسئلہ کی نظرسے دیکھتا ہے،جوچندلوگوں کےجیبوں میں ارتکاز دولت کے راستے میں رکاوٹ ڈالتاہے ۔ جومعاشرے کوسرسری اور اجمالی نظرسے نہیں دیکھتاکہ اتنی اتنی قیمت کے کچھ سرمایہ جات اوروسائل موجود ہیں جس میں فرد کااتنااتناحصہ ہوگا،جبکہ حقیقت میں وہ فرد کاحصہ نہیں ہوتا ،بلکہ ایک انتہائی چھوٹے سے گروہ کاہوتاہے۔
ہم اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ اسلامی حکومت ،خلافت راشدہ پھرسے قائم ہو،تب آسودگی وخوشحالی اورتندرست معاشی زندگی کادوردورہ ہوگا،نہ صرف امت مسلمہ بلکہ چاردانگِ عالم میں خیراورامن وآشتی پھیل جائے گی، اللہ سبحانہ غالب اورحکمت والاہے۔

Read more...
Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک