الأربعاء، 25 جمادى الأولى 1446| 2024/11/27
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

سوال کا جواب: ایران اور '5+1' گروپ کے مابین 24 نومبر 2013 کا ایٹمی معاہدہ

 

سوال: ایران اور '5+1' گروپ کے مابین 24 نومبر 2013 کو ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدے پر دستخط ہونے کے بعد سے اس کے بارے میں بین الاقوامی اور علاقائی موقف اور سیاسی تبصروں کا سلسلہ جاری ہے۔ ان بیانا ت سے اس مسئلے کے حوالے سے نقطہ نظر میں پیچیدگی اور تضاد کا اظہار ہوتا ہے۔۔۔ایران اس کو کامیابی قرار دے رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ یہ بین الاقوامی برادری کی جانب سے اس کو یورینم کو افزودہ کرنے کی اجازت ہے جبکہ امریکہ ایران کو یورینیم کی افزودگی کا حق دینے کی تردید کر رہا ہے اور کہتا ہے کہ اس معاہدے سے یہودی وجود زیادہ محفوظ ہو گیا۔ امریکہ کہتا ہے کہ وہ کبھی بھی ایران کو ایٹمی ملک بننے نہیں دے گا۔ یہودی وجود اس معاہدے کو ایک برائی اور تاریخی غلطی قرار دیتا ہے۔۔۔ان سب چیزوں نے مجھے اور ہو سکتا ہے مجھ جیسے کئی لوگوں کو اس معاہدے کی حقیقت کو سمجھنے کے حوالے سے تشویش میں مبتلا کر دیا۔۔۔سوال یہ ہے کہ :اس معاہدے کی حقیقت کیا ہے اور کس کا موقف درست ہے؟ کیا اس معاہدے کا تعلق خطے میں ایران کے کردار سے ہے ،مثال کے طور پر شام میں رونما ہو نے والے واقعات کے ساتھ؟ اوبامہ کی جانب سے اس معاہدے کو تکمیل تک پہنچانے اور اس کا دفاع کرنے کے لیے اس سرتوڑ کوشش کا کیا سبب ہے ،اس حد تک کہ ایک سیاستدان کہہ رہا تھا کہ "اوبامہ اس معاہدے کو امریکہ کے مقابلے میں زیادہ اہمیت دے رہا ہے"؟ اللہ آپ کو بہترین جزاء دے۔
جواب :پہلے ہم اس معاہدے کے حوالے سےمختلف ذرائع ابلاغ میں نشرہو نے والی خبروں کے ذریعے اس کی حقیقت کا جائزہ لیتے ہیں:
1 ۔ ایران نے اس معاہدے میں خود کو پابند کیا ہے:
ا ۔ ایران 5٪ سے زیادہ یورینیم کی افزودگی روکنے کا پابند ہو گا، اس سے زیادہ افزودگی کے لیے درکار ٹیکنالوجی کے ذرائع کو بھی منقطع کر دے گا۔ اپنے 20٪ افزودہ یورینیم کے تمام ذخیروں کو کم کرکے 5٪ سے کم کی سطح پر لائے گا یا اس کو ایسی شکل میں تبدیل کرے گا کہ اس کوکسی افزودگی کے کام میں نہ لایا جا سکے۔۔۔ایران نے اس بات کی بھی پابندی کا عہد کیا ہے کہ وہ افزودہ یورینیم کے ذخیرے کو3.5 ٪سے زیادہ ہونے کے حوالے سے ہر پیش رفت کو روکے گا ،اس وجہ سے مذکورہ چھ مہینوں کے اختتام تک، کہ جن کا ذکر اس معاہدے میں ہے، 3.5 ٪ افزودہ یورینیم کی مقدار وہی رہے گی جو ان چھ مہینوں کی ابتدا کے وقت ہے۔
ب ۔ایران اس بات کا بھی پابند ہو گا کہ وہ یورینیم کی افزودگی کی قابلیت کو زیادہ نہیں کرےگا چنانچہ وہ کسی بھی قسم کا کوئی اور سینٹری فیوج سسٹم نہیں لگائے گا۔ یورینیم کو افزودہ کرنے کی غرض سے کسی نئے ماڈل کے سینٹری فیوجز نہیں بنائے گا اور نہ نہیں ہی استعمال کرے گا۔ وہ ان سینٹری فیوجز میں سے نصف ناکارہ کر دے گا جن کو میں لگایا گیاہے۔ اسی طرح ان سینٹری فیوجز کے تین چوتھائی تعدادکو بھی ناکارہ کرے گا جن کو میں لگا یا گیا ہے تاکہ یورینیم کی افزودگی کے لیے ان کا استعمال ممکن نہ ہو۔ اسی طرح ایران نے اس بات کی پابندی کا عہد کیا ہے کہ وہ سینٹری فیوجز کو نقصان پہنچنے کی صورت میں صرف ان کو چلانے کے لیے درکار پرزے ہی بنائے گا تا کہ آئیندہ چھ مہینوں میں ایران مزید کوئی نئے سینٹری فیوجز نہ بنا سکے۔
ج ۔ ایران نے اراک (Arak) میں موجود ری ایکٹرز کو فعال نہ کرنے اور پلوٹونیم کو کو نکالنے میں پیش رفت کو روکنے اور اس کے لیے کسی بھی دوسری قسم کے اضافی مرکبات مہیا نہ کرنے عہد کیا ہے۔ وہ کسی قسم کا ایندھن اور بھاری پانی بھی وہاں منتقل نہیں کرے گا۔معاہدے کی رو سے ایران استعمال شدہ ایندھن میں سے پلوٹونیم کو الگ کرنے کے عمل کو روک دے گا اور اراک میں موجود ری ایکٹرز سے متعلق مطلوبہ حساس ، مستند اور تفصیلی معلومات فراہم کرے گا جو اس سے قبل ایک طویل عرصے تک ان ری ایکٹرز کے حوالے سے دستیاب نہیں تھیں۔
د۔ اراک کے ری ایکٹرز میں داخل ہونے کے لیے تفتیش کاروں کو مزید مواقع فراہم کرنا اور بین الاقوامی اٹامک انرجی کمیشن کے ساتھ ایران کے سکیورٹی معاہدے کے پروٹوکول کے مطابق مخصوص اور مطلوبہ بنیادی معلومات فراہم کرنا۔ اسی طرح ایران اس بات کا بھی پابند ہو گا کہ اٹامک انرجی کمیشن کے تفتیش کاروں کو روزانہ کی بنیاد پر Natanz اور Fordow کے ری ایکٹرز کے معائنے کی اجازت دے گا۔ وہ تفتیش کاروں کو مذکورہ دونوں تنصیبات میں کیمرے کی آنکھ کے ذریعے محفوظ کی گئی تصاویر کی چھان بین کے ذریعےان دونوں مقامات پر یورینیم کی افزودگی پر نظر رکھنے کی اجازت دینے کا پابند ہو گا۔۔۔ایران اس بات کا بھی پابند ہوگا کہ بین الاقوامی اٹامک انرجی کمیشن کو سینٹری فیوجز کو جمع کرنے کی تنصیبات، اور سینٹری جیوجز کی پیداوار اور انھیں اکٹھا کرنے کی تنصیبات میں داخلے کی اجازت دے گا۔ اسی طرح یورینیم کی کانوں اور اس کی تیاری کی جگہوں میں بھی داخل ہونے کی اجازت دے گا۔
ھ ۔ ایران '5 +1' ممالک اور انٹرنیشنل اٹامک انرجی کمیشن کے ساتھ مل کر ایک کمیٹی ترتیب دینے کا پابند ہے جو ایران کے ایٹمی پروگرام سے متعلق ہو نے والے معاہدے پر عمل درآمد پر نظر رکھے گی اور اس کے ایٹمی پروگرام سے متعلق خدشات کے حوالے سے گذشتہ اور موجود قراردادوں پر بھی عمل در آمد میں مدد دے گی جس میں ایران کے ایٹمی پروگرام کو فوجی مقاصد سے دور رکھنا اور Barshin میں ایرانی سرگرمیوں پر نظر رکھنا بھی شامل ہے۔
2 ۔ اس معاہدے سے ایران کو کیا حاصل ہو گا:
ا ۔ ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے اعلان کیا ہے کہ چھ مہینے کے لیے اس کا ملک 20 ٪ تک یورینیم کی افزودگی کو بند کردے گا، افزودگی کے پروگرام سے منسلک دوسری سرگرمیاں جاری رہیں گی۔ وزیر خارجہ نے اشارہ دیا کہ بڑی طاقتوں نے آنے والے چھ مہینوں کے اندر اضافی پابندیاں نہ لگانے کا وعدہ کیا ہےجبکہ ایران کی پیڑوکیمیکل انڈسٹری ، گاڑیوں کے پیداواری اداروں، انشورنس اور قیمتی دھاتوں کی تجارت پر عائد پابندیوں میں بھی نرمی کی جائے گی۔
ب۔ نیوز ایجنسی رائیٹرز کی 24 نومبر2013 کی خبر کے مطابق اس وقتی معاہدے کے حوالے سے وائٹ ہاوس نے ایک دستاویز جاری کی ہے جس کی رو سے ایران کی جانب سے اپنے ایٹمی پروگرام کے بعض حصوں سے دستبردار ہونے پر اس پر لگی ہوئی پابندیوں میں نرمی کی جائے گی۔ اس دستاویز کے مطابق اس بات کا امکان ہے کہ ایران1.5 ارب ڈالرز کے ریونیو حاصل کر لے گا جو سونے اور دوسری قیمتی معادنیات کی تجارت کے ضمن میں ہو گا اور ایرانی گاڑیوں کے پیداواری اداروں اور پیٹرو کیمیکل پر پابندیوں میں نرمی کی جائے گی۔ اسی طرح ایرانی تیل کی مصنوعات کو بھی موجودہ کم ترین سطح کے مطابق فروخت کی اجازت مل جائے گی او ر اگر ایران اس معاہدے پر عمل در آمد میں کامیاب ہو جاتا ہے تو وہ مذکورہ اشیا ء کی تجارت کی مد میں 4.2 ارب ڈالر منتقل کرنے کی اجازت حاصل کر لے گا۔ وائٹ ہاوس نے اس بات کی وضاحت کی کہ ایران کے خلاف پابندیوں میں نرمی سے اس کو تجارتی تبادلے کی شکل میں 7 ارب ڈالر حاصل ہو ں گے۔
ج ۔ جنیوا مذاکرات میں شامل وفود کے کئی ارکان نے کہا کہ ایران کی جانب سے ایٹمی پروگرام سے باز رہنے کے اس معاہدے سے ایران پر لگی پابندیوں میں محدود طور پر کمی آئے گی جس سے اس کو 7ارب ڈالر تجارتی تبادلے کی شکل میں ملیں گے۔
3 ۔ ایران نے اس کو کامیابی قرار دے دیا اور اس کے مرشد اعلیٰ خامنائی نے اس معاہدے کی یہ کہہ کر مدح سرائی کی کہ "ایٹمی مذاکرات کاروں کی ٹیم کا اس کامیابی پر شکریہ ادا کیا جانا چاہیے اور اس کامیابی کے پیچھے اللہ کی مہربانی، عوامی دعائیں اور حمایت کار فرما ہے" (ایرانی فارس پریس 25 نومبر 2013)۔ روحانی نے بھی کل 26 نومبر 2013 کو ایرانی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ افزودگی کا حق جو کہ ایرانی ایٹمی پرگرام کےحقوق کا حصہ ہے جاری رہے گا۔ اس نے مزید کہا کہ "افزودگی آج بھی جاری ہے، کل بھی جاری رہے گی اور کبھی بند نہیں ہو گی اور یہ سرخ لکیر ہے"۔ اسی انٹر ویو میں ایرانی صدر نے اپنے ملک کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے مکمل معاہدے پر پہنچنے کی امید بھی ظاہر کردی۔ اس حوالے سے انہوں نےکہا کہ یہ راستہ بہت طویل ہے اس پر عوامی تائید اور حمایت سے ہی چلا جاسکتا ہے۔ ایرنی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے پرسوں شام 25 نومبر 2013 کو ٹی وی انٹرویو میں کہا تھا کہ اس کا ملک یورینیم کی افزودگی کو جاری رکھے گا۔ اس نے مزید کہا کہ اس حوالے سے وہ امریکیوں سے بات چیت جاری رکھیں گے۔
4 ۔ کیا یہ واقعی کامیابی ہے؟ اس معاہدے کو باریکی سے دیکھنے والا یہ دیکھ سکتا ہے ہے کہ ایران اپنے ایٹمی پروگرام سے پیچھے ہٹ گیا، اور اس نے مغرب کی خواہش پر یورینیم کی افزودگی کو روک دیا۔ پھر افزودہ یورینیم کو 20 ٪ سے کم کر کے 5 ٪ سے بھی کم کرنے یا اس کو ایسی شکل دینے پر راضی ہو گیا جو اپنی اصلی حالت میں نہ ہو۔ 5 ٪ سے زیادہ افزودہ نہ کرنے کی پابندی پر بھی راضی ہو گیا ۔ اپنے ان ری ایکٹرز کو بھی فعال نہ کرنے کی حامی بھر لی جو بھاری پانی پیدا کرتے ہیں۔ پلوٹونیم کی پیداوار سے بھی دستبردارہو گیا جوکہ ایٹمی اسلحے کی بناوٹ کے لیے لازمی ہے۔ نئے سینٹری فیوجز بھی نہ بنانے کی پابندی کو بھی قبول کیا،تفتیش کاروں کے لیے روزانہ تفتیش کا دروازہ کھول دیا۔ اسی طرح تمام سرگرمیوں کو کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کرنے کی اجازت دے دی تاکہ اس کی ایٹمی تنصیبات بین الاقوامی نگرانی میں رہیں۔۔۔پھر اس کو کس طرح کامیابی کہا جاسکتا ہے؟ ایرانی عہدیداروں کی جانب سے اس معاہدے کو بڑی کامیابی کہنا دراصل اپنی پسپائی اور امریکہ نوازی کو چھپانا ہے۔ اس قسم کی باتیں کر کے وہ کسی ممکنہ عوامی احتجاج کو خاموش کرنے اور امریکہ کے ساتھ اعلانیہ تعلقات کے لیے رائے عامہ کو ہموار کرنےکی کوشش کر رہے ہیں۔ ایران کی یہ پسپائی اس کے اس دعوے کے برعکس ہے کہ وہ خود مختار ہے اور اپنی خودمختاری کا احترام جانتا ہے۔ تو پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو بین الاقوامی نگرانی میں دے اور روزانہ تفتیش کی اجازت دے جیسا کہ امریکی قبضے سے پہلے عراق میں صدام نے کیا جب اس نے ایٹمی تنصیبات کو تباہ کن ہتھیاروں کی تلاش کے نام پر بین الاقوامی نگرانی میں دیا اور روزانہ تفتیش کی اجازت دی؟ اس سے ایران اپنے ایٹمی پروگرام کی راہ میں خود حائل ہو گیا ہے، خاص کر اس وقت جب وہ دیکھ رہا ہے کہ یہودی وجود روایتی اور غیر روایتی ہتھیاروں کے ذریعے اپنی قوت میں اضافہ کرنے میں مصروف ہے۔۔۔ہر بینا اور دیدہ ور اس بات کا ادراک کر سکتا ہے کہ یہ کوئی کامیابی نہیں کہ کوئی ریاست 20 ٪ تک افزودگی تک پہنچنے کے بعد پھر واپس3.5 ٪ تا 5٪ پر آئے اور پہلے 20 ٪ افزودہ کرنے کے آلات کو بند کردے۔ یہ کسی لحاظ سے کامیابی نہیں۔ یہ بس ایسا معاملہ ہے جس کا کرتا دھرتا امریکہ ہے جس نے ایران کے بارے میں اپنی پالیسی کے مطابق اس کے ساتھ اپنے پس پردہ تعلقات کو منظر عام پر لانے کے لیے ایسا کیا تا کہ ایران خطے میں امریکہ کی جانب سےاس کے لیے متعین کیے گئے کردار کو پابندیوں کی رکاوٹ کے بغیر ادا کرتا رہے۔۔۔بہت سے لوگوں کو اس بات کا ادراک ہو چکا ہے کہ ایران امریکہ کا خوشہ چین ہے، خاص کرشام کے واقعات کے بعد تو سب کو یقین ہو گیا ہے۔ اگرچہ یہ تعلقات جمہوریہ ایران کے وجود میں آنے کے پہلے دن سے تھے لیکن دونوں کے درمیان تعاون انتہائی رازداری سے جاری تھا خاص طور پر عراق اور افغانستان کے حوالے سے جس کا اعتراف ایران کے سابقہ عہدیدار کر چکے ہیں۔ ایران کے موجودہ وزیر خارجہ جواد ظریف 2001 میں امریکہ میں جمہوریہ ایران کے سفارتی نمائندہ تھے جنھوں نےاس وقت اپنی حکومت سے افغانستان پر امریکی یلغار میں امریکہ کے ساتھ تعاون کا مطالبہ کیا جس پر اس وقت بعض ایرانیوں نے ان کو امریکی ایجنٹ قرار دیا۔ اب ایران اعلانیہ طور پر امریکہ کے ساتھ لین دین اور کھل کر امریکی منصوبوں کو عملی جامہ پہنانا چاہتا ہے۔ اب خطے میں اس کا ایک کردار ہو گا جس کا تعین امریکہ کرے گا۔ شام میں توامریکہ اس کے کردار کا تعین کرچکا ہے جس کی رو سے وہ اس وقت تک بشار الاسد کی حکومت کی پشت پناہی کرے گا جب تک امریکہ کو ایسا ایجنٹ نہیں ملتا جو وہاں امریکہ کے زیر اثر حکومتی نظام کے اجزائے ترکیبی کو محفوظ رکھ سکے۔
5 ۔ مذکورہ معاہدے کا پشت بان امریکہ ہے۔ امریکہ ایرانی اتھارٹی کے ساتھ پچھلے کچھ مہینوں سے 24 نومبر 2013 کو اس معاہدے کے اعلان تک خفیہ ملاقاتوں میں مصروف تھا۔امریکہ یہ بھی جانتا تھا کہ یورپ ایران کے ساتھ اس امریکی معاہدے کو نا کام بنانا چاہتا ہے اس لیے یورپ کو خبر ہونے سے پہلے ہی اس معاہدے کو پایا تکمیل تک پہنچایا گیا۔ فرانسیسی اخبار"لےمونڈ" (Le Monde) نے 24 نومبر 2013 کو خبر شائع کی کہ کئی سینئر امریکی عہدیداروں نے ایرانیوں کے ساتھ پچھلے چند مہینوں کے دوران دوطرفہ خفیہ بات چیت کی ہے جس نے ایرانی ایٹمی پروگرام کے حوالے سے ہونے والے ابتدائی معاہدے کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا جس پر ہفتہ اور اتوار کی درمیانی رات 24 نومبر 2013 کودستخط کیے گئے۔ 24 نومبر 2013 کو نیوز ایجنسی "ایسوسی ایٹڈ پریس"نے امریکی عہدیداروں کے حوالے سے خبر دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ نے اپنے اتحادیوں، '5+1' گروپ کے دیگر ممبران اوراسرائیل کو ستمبر 2013 کے اواخر میں آٹھ مہینوں بعد،ان خفیہ ملاقاتوں کے بارے میں بتایا جن میں اوبامہ اور روحانی کے درمیان رابطہ ممکن ہوا۔۔۔ فرانسیسی اخبار نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ یہ ملاقاتیں اومان میں ہوتی تھیں۔۔۔امریکی انتظامیہ کے تین عہدیداروں نے "ایسوسی ایٹڈ پریس" نیوز ایجنسی کو بتا یا کہ انہی خفیہ مذاکرات نے ہی اس معاہدے کی راہ ہموار کی جن سے ہفتے کی شام ایرانی ایٹمی پروگرام کے حوالے سے جنیوا میں معاہدہ پایہ تکمیل کو پہنچا۔
6 ۔ یہی وجہ ہے کہ اوبامہ اس معاہدے کو بہت زیادہ اہمیت دیتا رہا حتی ٰ کہ کانگریس کی جانب سے بھی کسی مخالفت کو آڑے ہاتھوں لیتا رہا اوریہودی وجود کو بھی یقین دہانی کراتا رہا کہ اس معاہدے سے ان کی حفاظت ممکن ہو گی ۔اسی لیے اس معاہدے کے بارے میں بڑی جلدی کرتا رہا جو اس کے بیانات سے بھی واضح طور پر نظر آتا ہے:
امریکی صدر اوبامہ ایران کے ساتھ اعلانیہ قرابت داری کی پالیسی کا جواز پیش کرتا رہا اور کہا کہ: "ہم سفارت کاری کے دروازے کو بند نہیں کر سکتے اور دنیا کے مسائل کو پُر امن طریقے سے حل کرنے سے صرف نظر نہیں کر سکتے "اورمزید کہا کہ " اگر ایران اس موقع سے فائدہ اٹھا تا ہے اور بین الاقوامی برادری میں شامل ہو نا چاہتا ہے تو ہم ان شکوک وشبہات کو دور کر سکتے ہیں جو کئی سالوں سے ہمارے ملکوں کے درمیان ہیں" (الجزیرہ 26 نومبر 2013 )۔۔۔ امریکی صدر اوبامہ نے معاہدے کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا: "ایران کے ساتھ ہم نے جو کچھ کیا یہ ایک قابل ذکر پیش رفت اور صدارت کا منصب سنبھالنے کے بعد سب سے اہم قدم ہے۔۔۔آج کا اعلان مقصد کے حصول کی طرف پہلا قدم ہے" (ورلڈ نیوز (این بی سی نیوز) آن لائن 23 ستمبر 2013)۔۔۔اوبامہ نے 25 نومبر 2013 کوسان فرانسیسکو میں ایک مہم میں شرکت کے دوران کہا "بڑے چیلنجز اب بھی موجود ہیں مگر ہمیں بات چیت کی راہ کو بند نہیں کرنا چاہیے، نہ ہی ہما رے لیے دنیا کے مسائل پر امن طور پر حل کرنے کے لیے باچیت سے منہ پھیرنا ممکن ہے" ، اوراس بات کی طرف اشارہ کیا کہ "آنے والے مہینوں میں سفارتی کاوشوں سے اپنے ہدف کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے جس سے ایرانی ایٹمی پروگرام کے خطرے کا مسئلہ پائیدار طورپر حل ہو جائے گا"۔۔۔24 نومبر 2013 کو اوبامہ نے کہا کہ یہ معاہدہ اس پروگرام کے مسئلے کو حل کرنے کی طرف ایک اہم قدم ہے۔ اس نے کہا کہ یہ معاہدہ ایران کے ایٹم بم بنانے کے راستے کو بند کردے گا۔ اوبامہ نے خبردار کیا کہ اگر ایران نے آنے والے چھ مہینوں میں معاہدے کی شقوں کی پابندی نہیں تو اس کا ملک پابندیوں میں نرمی کو ختم کردے گا۔ اسی طرح کیری نے وضاحت کی کہ یہ معاہدہ ایران کے ایٹمی اسلحے کی طرف جانے کو مشکل بنادے گا۔ دس سالوں سے جاری ایٹمی بحران کے کئی ہنگامہ خیزمسائل میں سے ایک کا ذکر کرتے ہوئےاس نے کہا کہ اس معاہدے میں یورینیم کی افزود گی کے حوالے سے ایران کے کسی "حق" کو تسلیم نہیں کیا گیا ہے۔ یہودی وجود کو اطمینان دلاتے ہوئے اس نےکہا کہ :"یہ معاہدہ دنیا کو زیادہ پر امن بنادے گا اور اسرائیل اور خطے میں ہمارے شرکاء زیادہ محفوظ ہوجائیں گے " (اے ایف پی 24 نومبر 2013 )۔
رد عمل کے طور پر وائٹ ہاوس نے انتہائی عجلت میں یہودی لابی سے ہمدردی رکھنے والے ارکان کے اثر کو زائل کرنے کے لیے بھاری شخصیت کے حامل افراد جیسے سکوکروفٹ (Scowcroft) اور برزنسکی (Brzezinski) سے مدد طلب کرتے ہوئے ان کے ذریعے کانگریس پر دباؤ ڈال دیا، تا کہ کانگریس کو کسی مخالفانہ اقدامات سے باز رکھا جائے۔ لہٰذا ان دونوں افراد نے سینٹ میں اکثریت کے نمائندے ہیری ریڈ (Harry Reid) کو خط لکھا ، ان سے ایران کے ساتھ ہو نے والی بات چیت کی حمایت کا مطالبہ کیاکیونکہ اس سے امریکہ کا قومی مفاد وابستہ ہے۔ اس خط میں لکھا ہے کہ : "۔۔۔یہ بات چیت امریکہ، اسرائیل اور خطے کے دوسرے شرکاء کی قومی سلامتی کا ضامن ہے"۔ اس خط میں ایران پر نئی پابندیاں لگانے سے خبردار کیا گیا ہے، "اس وقت ان مذاکرات کے دوران جن کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی، ایران پر مزید پابندیاں عائد کرنے سے ایرانی یہ یقین کر لیں گے کہ امریکہ ایران کی موجودہ حکومت کے ساتھ کوئی معاہدہ کرنے کے لیے تیار نہیں"۔اس خط میں ذکر ہے کہ :"ہم تمام امریکیوں اور امریکی کانگریس کو ایران کے ساتھ مشکل مذاکرات میں صدر کے شانہ بشانہ کھڑے ہو نے کی درخواست کرتے ہیں" (سکوکروفٹ اور برزنسکی اسٹریٹیجک کلچر فاونڈیشن آن لائن 20 نومبر)۔ اس سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ امریکہ اس مسئلے کو اپنی موت وحیات کا مسئلہ سمجھ کر اس سے نمٹا!
7 ۔ یورپ کی جانب سے اس معاہدے کو ناکام بنانے کی کوشش اور پھر اس کو قبول کر نا: امریکہ یہ جانتا تھا کہ یورپ امریکہ ایران معاہدے کے خلاف ہے کیونکہ یورپ جانتا ہے کہ ایران امریکہ نواز ہے۔اس پر لگائی گئی پابندیوں میں نرمی کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ اس کو خطے میں کوئی کردار دینا چاہتا ہے جو وہ امریکہ کے مفادات کے لیے نبھاتا رہے گا جس کے لیے اس کی نقل وحرکت کو آسان بنانے کے لیے اس پر لگی پابندیوں میں نرمی ناگزیر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فرانس نے پہلے مرحلے ، جو 15 اکتوبر 2013 کا ہے، میں کھل کر معاہدے کی مخالفت کردی اور برطانیہ نے بھی حسب عادت پس پردہ ایسا کیا مگر چونکہ امریکہ اس کے انعقاد میں سنجیدہ تھا اس لیے یورپ اس کی حمایت پر مجبور ہو گیا۔
یوں یورپی ، یہ جاننے کے بعد بھی کہ امریکہ پہلے ہی اس کی بنیاد یں رکھ چکا ہے ، اس معاہدے کو ناکام نہیں بناسکے ۔۔۔اس لیے انہوں اس کی حمایت کی اور لگتا ہے بین الاقوامی طور پر اس سے فائدہ اٹھانے کا ارادہ بھی رکھتا ہے،خاص کر جب یہ معاہدہ ایران کو 3.5٪ تا 5 ٪ سے زیادہ یورینیم افزودہ کرنے سے روک کر ایٹمی اسلحہ بنانے کے حوالے سے ایران کی ایٹمی سرگرمیوں کو روک رہا ہے ۔ اس نے جو 20 ٪ یورینیم افزودہ کر رکھا تھا اس کو ضائع کیا جائے گا، ایٹمی ری ایکٹر روزانہ کی بنیاد پر نگرانی اور تفتیش کے لیے دیے جائیں گے۔ اسی لیے برطانوی وزیر خارجہ ولیم ہیگ (William Hague) نے ٹویٹر پر اپنے پیج میں 24 نومبر 2013 کو کہا:"یہ معاہدہ بہت ہی اہم تھا یہ حوصلہ افزا امر ہے اور ایران کے ساتھ پہلا مرحلہ ہے، چھ مہینے کے اندر وہ اپنے ایٹمی پروگرام کو منجمد کر دے گا اوراس کے بعض حصوں کو پچھلے مرحلے میں واپس لائے گا"۔ فرانس کے صدر فرانکوس ہولاند (Francois Hollande) نے کہا "یہ درست سمت میں ایک اہم پیشرفت ہے۔ یہ معاہدہ فرانس کی جانب سے یورینیم کے ذخیرے، اس کی افزودگی کادائرہ کار اور نئی تنصیبات کو چالو نہ کرنے اوراسے بین الاقوامی نگرانی میں دینے کے فرانس کے مطالبے سے ہم آہنگ ہے" (اے ایف پی 24 نومبر 2013)۔ فرانس کے صدر فرانکوس ہولاند (Francois Hollande) نے اس معاہدے کی تعریف کرتے ہوئے کہا "ایران کے ساتھ مغرب کے تعلقات کی بحالی کی جانب درست سمت میں ایک اہم پیشرفت ہے"۔
8 ۔ باقی رہا یہودی وجود کا موقف۔۔۔:اس معاہدے کے بارے میں یہودی وجود کا یہ موقف کہ یہ اچھا معاہدہ نہیں ہے نا تو نیا ہے اور نہ ہی یا عجیب ہے۔ فلسطین کو غصب کرنے والی اس ریاست نےاپنے وجود میں آنے کے ساتھ ہی ایک پالیسی اور منصوبہ بندی کر ررکھی ہے کہ صرف ایٹمی طاقت ہی نہیں بلکہ خطے میں کسی قوت کا ظہور ہی نہ ہو، بلکہ کوئی روایتی ترقی یافتہ قوت بھی وجود میں نہ آئے، نہ صرف ایران جتنا بڑا ملک بلکہ کوئی چھوٹی سی ریاست بھی ایسی نہ ہو۔ وہ اردن کو اپنا سٹریٹیجک شریک سمجھنے کے باوجود اس کو مسلح کرنے کی راہ میں روکاوٹ بنتا ہے، اس کے مسلح ہونے پر اعتراض کرتا ہے! لبنانی اخبارات نے عربی وکی لیکس (wikileaks) سے13مارچ 2013کی ایک دستاویز کے حوالے سے خبر شائع کی ہے جس میں سفیر ریچرڈ جونز نے یہودی ریاست کی جانب سے فروری 2006 کوامریکہ سے اپنے مطالبے میں کہا کہ خطے کے ممالک کو اسلحہ کی سپلائی روکنے کے حوالے سے اردن کے بارے میں ان کا یہ موقف ہے کہ : "۔۔۔عبرانی ریاست (اسرائیلی ریاست) اردن کو اپنا 'اسٹریٹیجک پارٹنر' سمجھتی ہے ۔۔۔ اس کے باوجود جغرافیائی مماثلت اور ممکنہ اسٹریٹیجک تبدیلوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اسرائیل اس کا متحمل نہیں ہو سکتا کہ اردن کی فوج کا اسلحہ اسرائیلی فوج کے اسلحے کا ہم پلہ ہو۔ اسرائیل اس کا متحمل بھی نہیں ہو سکتا اور خطرہ مول نہیں لے سکتا کہ اردن کو سام (Sam) میزائل یا کسی ایسے سسٹم سے مسلح کیا جائے جس سے اس کی فضائی حدود مکمل طور پر اس کے نشانے پر آجائے"۔
یہ ہے خطے کے بڑے اور چھوٹے ممالک کے حوالے سے یہودی ریاست کی پالیسی۔ یہی نہیں بلکہ وہ تو فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ اس کی ممکنہ ریاست کے بارے میں اپنی بات چیت میں یہ شرط لگاتا ہے کہ وہ نام نہاد ریاست بھی غیر مسلح ہو نی چاہیے۔۔۔اس لیے یہودی ریاست اس بات پر اکتفا نہیں کرتی کہ ایران پر امن ایٹمی ملک ہو اور ایٹمی اسلحے سے لیس ملک بن جائے بلکہ کوئی بھی ہو ہر قسم کی ایٹمی صلاحیت سے محروم ہو پرامن ہو یا نہ ہو خطے کی ہر ریاست کے بارے میں اس کی یہ پالیسی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صدام کے زمانے میں امریکہ کی جانب سے گرین سگنل ملنے پر عراق کے ایٹمی تنصیبات کو نشانہ بنایا ۔ اسرائیل ایک سے زائد بار ایرانی ایٹمی تنصیبات کو نشانہ بنا نے کا تہیہ کرچکا تھا لیکن امریکہ نے اس کو بازرکھا۔۔۔ہم نے دیکھا کہ یہودی ریاست اس وقت خوشی سے ناچنے لگی جب شام کے سرکش نے کیمیائی ہتھیاروں کو تلف کرنے کی حامی بھر لی۔۔۔
یہودی ریاست یہ جانتی ہے کہ اس کی کوئی ذاتی طاقت نہیں ﴿إِلَّا بِحَبْلٍ مِنَ اللَّهِ وَحَبْلٍمِنَ النَّاسِ...﴾" مگر اللہ کی رسی کے بل بوتے پر اور لوگوں کی رسی کے ذریعے" (آل ِعمران: 112)۔
اللہ کی رسی کو تو یہ لوگ صدیوں سے کاٹ چکے ہیں۔۔۔لوگوں کی رسی البتہ اس وقت سے ان کو پکڑائی گئی ہے جب برطانیہ نے اس کی داغ بیل ڈالی ، فرانس نے اس کی آبیاری کی اور پھر امریکہ نے اس کو گود لیا۔ اس لیے یہ اپنی پالیسی میں امریکہ سے چمٹی ہوئی ہے۔ اس وجہ سے اس بات کی توقع ہے کہ(اسرائیل) امریکہ میں یہودی لابی کے ذریعے آنے والے چھ مہینوں کے میں ایران کے ساتھ ایسے حتمی حل تک پہنچنے کے لیے سرتوڑ کوشش کرے گی جس میں اس عارضی حل میں شامل پابندیوں میں بھی مزید اضافہ کردیا جائے۔
امریکہ بہر حال اپنے مفادات کو یہودی ریاست پر مقدم رکھے گا بلکہ امریکہ ہی یہودی وجود کی سکیورٹی کے بارے میں فیصلہ کرتا ہے۔ یہو دی وجود اپنی سکیورٹی کو امریکہ پر مسلط نہیں کر سکتا، خاص کر جب اوبامہ اپنی صدارت کے دوسرے مرحلے میں ہے جس میں یہودی لابی کا اثر نسبتاََ کم ہے۔ اس کے باوجود یہودی ریاست اپنی بقا کو امریکہ کے مرہون منت سمجھتی ہے۔امریکہ ہی خطے کے ممالک کو ایٹمی ہتھیارحاصل کرنے سے روکتا اور یہودی ریاست کو ایٹمی اسلحہ بنانے کی اجازت دیتا ہے۔ اس معاہدے کی بعض شقیں یہودی وجود کے لیے اطمینان بخش ہیں۔اسرائیل کے وزیر اطلاعات Yuval Steinitz نے اسی دن صبح کے وقت عبرانی نشریاتی ادارے-2 (Hebrew broadcasting network 2) کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا "بڑے ممالک نے اسرائیل کی خواہش پر اس معاہدے کے اعلان سے کچھ دیر پہلے اس معاہدے کے مسوّدے میں رد وبدل کیا"۔
یہودی ریاست امریکہ کے ساتھ مل کر کوشش کرے گی کہ اس کے آخری حل میں مزید شرائط اور پابندیوں میں اضافہ کرے، چنانچہ اسرائیل کے وزیر مالیات Yair Lapid نے اسرائیلی فوجی ریڈیو سے بات کرتے ہوئے ہفتہ 24 نومبر 2013 کی صبح کو کہا : "اسرائیل پر لازم ہے کہ وہ امریکہ اور دوسری طاقتوں کے ساتھ مل کر چھ ماہ بعد بہترین حتمی حل تک پہنچنے کی تگ ودو کرے "۔ اس نے مزید کہا کہ "اگرچہ یہ معاہدہ ایک بری چیز ہے لیکن ہمیں امریکیوں اور دوسروں کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیے تا کہ حتمی معاہدے میں ایرانی ایٹمی پروگرام کی مکمل تباہی کی ضمانت دی جاسکے"۔
اس سب سے یہ واضح ہو تا ہے کہ یہودی ریاست امریکی آشیر باد سے خطے میں خود تو ایٹمی اسلحہ جمع کرنا چاہتی ہے جبکہ کسی اور ریاست کو کسی بھی قسم کا جدید اسلحہ حاصل کرنے سے روکنا چاہتی ہے، بلکہ ان ریاستوں کو طاقتور ایٹمی پروگرام کی سوچ سے بھی باز رکھنا چاہتی ہے۔۔۔تکلیف دہ بات یہ ہے کہ اسلامی علاقوں میں قائم ممالک کااس غداری کی حد تک گر جانا کہ ایٹمی اسلحہ تو کجا وہ پر امن ایٹمی پروگرام کے لیے علمی تحقیق سے بھی ڈرتے ہیں، جبکہ اسی وقت یہودی ریاست خفیہ نہیں بلکہ اعلانیہ طور پر ایٹمی اسلحہ بنا رہی ہے اور خطے میں کسی اور کو بنا نے سے روک رہی ہے۔
اس لیے یہودی وجود کے وزیر اعظم Netanyahu کی جانب سے یہ کہنا کہ "یہ معاہدہ ایک تاریخی غلطی ہے۔یہ ایک ایسا برا معاہدہ ہے جس سے ایران کو وہ مل گیا جو وہ چاہتا تھا یعنی کچھ پابندیاں ہٹائی جائیں اور ایٹمی پروگرام کا بنیادی حصہ برقرار رہے" (اے ایف پی 24نومبر2013 )۔ اس نے جو کچھ کہا ہےاسے اس کے سیاق میں دیکھنا چاہیے کہ یہودی ریاست کی یہ خواہش ہے کہ خطے میں اس کے علاوہ کوئی بھی ایسی قابل ذکر قوت نہ ہو اور وہ ایران کے ایٹمی پروگرام کی مکمل تباہی چاہتا ہے۔
9۔ رہی یہ بات کہ امریکہ نے آخر اس معاہدے کے انعقادکے لیے اس قدر ایڑی چوٹی کا زور کیوں لگا یا؟ تو یہ سب جانتے ہیں کہ ایرانی ایٹمی پروگرام پچھلے کئی سالوں سے موضوع بحث تھا جس میں کچھ لو اور کچھ دو کی کیفیت چل رہی تھی ۔ پھر کیوں اس وقت اوبامہ ایرانی ایٹمی معاہدے کو کامیاب بنا نے کے لیے سردھڑ کی بازی لگا رہا ہے اور اس نے یہاں تک کہہ دیا کہ "ہم نے ایران کے ساتھ جو کچھ کیا یہ قابل ذکر پیش رفت ہے۔ میرے صدارت کا منصب سنبھالنے کے بعد یہ سب سے ہم ہے"
اس کا جواب یہ ہے کہ گزشتہ تین سالوں کے دوران خطے میں حالات سنگین ہو چکے ہیں اور جس چیز نے امریکہ کو چوکنا کردیا ہے وہ شام کے طول وعرض میں رائے عامہ کا خلافت کے لیے سازگار ہونا ہے۔ یہ ایک نیا منظر نامہ ہے جس کا مشاہدہ عرب میں تبدیلی کی لہر میں نہیں کیا جارہا تھا جو اگر چہ لوگوں کی اپنی مرضی سے شروع ہوئی تھی ، لیکن ان کے نعرے یا تو سیکولرازم کے قریب تھے یا اس کا ملغوبہ تھے جس کو امریکی معتدل اسلام کہا جاتا ہے! یہی وجہ ہے کہ امریکہ ان تحریکوں کو ہائی جیک کرنے اور ان کے ساتھ کھیلنے میں کامیاب ہو گیا۔۔۔جبکہ شام میں برپاہونے والی تحریک پر صاف شفاف اسلامی احساسات کا غلبہ ہے اس کے اندر صحیح اسلامی افکار اور مفاہیم نمایاں ہیں جیسا کہ ان کا نعرہ ہے کہ "امت دوبارہ خلافت کا قیام چاہتی ہے"۔۔۔شام میں گرم ہو تے ہوئے اسلامی ماحول نے مغرب کو بالعموم اور امریکہ کو با لخصوص سیخ پا کردیا ہے کیونکہ ان کو خلافت کی عظمت اور قوت کا اچھی طرح اندازہ ہے۔ ان کو یہ معلوم ہے کہ خلافت کے ہوتے ہوئے دنیا میں کسی طاقت کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی بلکہ ان کے لیے اپنا وجود برقرار رکھنا بھی مشکل ہو جاتا ہے
ایک اور محرک بھی ہے جس نے ان کی پریشانیوں کو دوچند کر دیا ہے اور وہ یہ کہ امریکہ بحرانوں میں پھس چکا ہے اور اپنی فعالیت کھو چکا ہے اور شام میں سر چڑھتی ہوئی اس اسلامی لہر کو براہ راست قابو کرنے کے قابل نہیں رہا۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ خطے کے خائنوں میں سے اپنے لیےکارندے ڈھونڈ رہا ہے جو ان عظیم الشان اسلامی موجوں کے سامنے اس کے لئے فرنٹ لائن کا کردار ادا کریں۔
جہاں تک امریکہ کے داخلی بحران کا تعلق ہے تو اقتصادی بحران، جس سے کہ امریکہ نکل نہیں پا رہا ہے، کے ساتھ ساتھ ڈیموکریٹ اور ری پبلکن کے درمیان تمام بنیادی مسائل پر اختلاف ہے، یعنی مقامی پارٹی بازی کی سیاست امریکہ کے قومی مفاد کی جگہ لے چکی ہےاور یہ لوگوں کے امور کی دیکھ بھال سے زیادہ اہم معاملہ بن چکا ہے۔کئی ایک ماہرین نے اس کی طرف توجہ دلائی ہے کہ قرضوں کی سطح کی بلندی کے حوالے سے دونوں بڑی پارٹیوں کے مابین اختلافات اور اوبامہ کا صحت کا منصوبہ امریکی سیاسی نظام کے دیوالیہ پن کا مظہر ہے۔فرینک فوگل(Frank Fogel)، Huffington Post میں لکھتے ہیں کہ :"امریکہ کا سیاسی نظام زمین بوس ہو رہا ہے۔ کانگریس عوامی حمایت سے محروم ہو چکی ہے۔ گیلپ سینٹر (Gallop Centre) کے تازہ ترین سروے کےمطابق کانگریس پر اعتماد کر نے والوں کا تناسب اب صرف 10 ٪ رہ گیا ہے اور commercial public opinion کے سروے کے مطابق 85 ٪ بڑے بزنس مین یہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ کو جن سنگین ترین مسائل کا سامنا ہے ان کا سبب انتخابی مہموں کے لیے سرمایہ کاری کا نظام ہے۔ 42 ٪ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ نظام مکمل طور پر فیل ہو چکا ہے" (Huffington Post 26جولائی 2013 )۔
جہاں تک امریکہ کی خارجہ سیاسی صورت حالکا تعلق ہے تویہ اس کی داخلی صورت حال سے بھی بدتر ہو چکی ہے، اس کے باوجود کہ دنیا کے ہر خطے میں اب بھی امریکہ کی اجارہ داری قائم ہے۔ Immanuel Wallersten دنیا کے طول و عرض سے امریکہ کی پسپائی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ :"اگر سب نہیں تو لوگوں کی بہت بڑی تعداد امریکہ کے اثرورسوخ، اس کے رتبے اورقوت میں کمی اور سکڑنے کو محسوس کر رہے ہیں، امریکہ کے اندر لوگ اب نہ چاہتے ہوئے بھی اس کوقبول کر رہے ہیں"۔ (The Consequence of Regression of the United States: Al-Jazeera Channel, 2/11/2013)۔
برزنسکی (Brzezinski) نے 2010 میں مونٹریال میں خارجہ تعلقات کی کمیٹی سے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ :"دنیا کی پرانی اور نئی عظیم طاقتوں کو گزشتہ کسی بھی دور کے مقابلے میں بھرپُور عسکری طاقت کے باوجود، دنیا پر اپنا غلبہ مسلط کرنے کی صلاحیت تاریخ کی کم ترین سطح پرہونے کے حوالے سے، ایک نئی صورت حال کا سامنا ہے" چونکہ امریکہ، ان بحرانوں کی وجہ سے جو اسکے گلے میں کانٹا بن چکے ہیں ، اپنی بالادستی کو موثر بنا نے سے قاصر ہے۔۔۔اور اس کی وجہ سے اس کے ایجنٹ خواہ جن کی اس نے باہر پرورش کی ہے یا بشار اور اس کے کارندوں کی صورت اندرونی طور پر پالا ہو ۔۔۔سب مل کر بھی گزشتہ تین سالوں کے دوران شام کے بارے میں کوئی پائیدار فیصلہ نہ کرسکے بلکہ خلافت کے نعروں کی گونج سے ان کےکان پھٹ رہے ہیں ،ان آنکھیں پتھرا رہی ہیں اور ان کے دل لرز رہے ہیں۔۔۔ان تمام اسباب کی بنا پر امریکہ نے خطے میں شام کے ہمسایہ ممالک کو اپنا فرنٹ لائن بنانے کا فیصلہ کیا تا کہ یہ اس متوقع حکومت کی راہ میں رکاوٹ بن سکیں جو خلافت کو ریاست ، زندگی اور معاشرے کے لیے نظام بنائے گی۔ اس مقصد کے لیے امریکہ نے دو ریاستوں کا انتخاب کیا جو اس کے تابع فرمان تھیں تاکہ وہ ذمہ داری ادا کریں: یہ دو ریاستیں ترکی اور ایران ہیں۔ ترکی کی حرکات وسکنا ت پر کوئی پابندی نہیں تھی جبکہ ایران پابندیوں کے مسئلے سے دوچار تھا اس لیے عالمی اور علاقائی طور پر اس کی سرگرمیاں محدود تھی اور وہ تنہائی کا شکار تھا۔ یہ ترکی سے بھی بڑھ کر خلافت کے خلاف سرگرم ہے کیونکہ خلافت ایرانی حکمرانوں کےنظرئیے کے لحاظ سے ایک ناقابل قبول چیز ہے، اسی وجہ سے وہ انتہائی سرگرمی سے اس کے خلاف برسرپیکار ہیں، جبکہ ترکوں کی وراثت میں ہی ایک طویل عرصے تک خلافت کا عہد ہے جس کی وجہ سے ترک حکومت خلافت کے خلاف اپنی جنگ کو چھپاتی ہے اور راستے تبدیل کرتی رہتی ہے۔
یہ ہے وہ نئی چال جس کی رو سے ان دوممالک کو مذکورہ طریقے سے کردار دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے اس مسئلے کو اپنا مسئلہ سمجھ کر ایران پر لگائی گئی پابندیاں ختم کردیں تا وہ آسانی سے متحرک ہو۔ اسی مقصد کی خاطر اوبامہ نے اس قدر جانفشانی سے ان پابندیوں کو اٹھایا۔ یعنی شام میں خلافت کے لیے برپاہونے والی تحریک کا راستہ روکنے کے لیے، اس لیے نہیں کہ ایرانی ایٹمی اسلحے کی سرگرمیوں پر لگی پابندیوں کو اٹھا یا جائے بلکہ ان پر امن ایٹمی سرگرمیوں پر بھی بہت ساری مزید پابندیا لگائی گئیں حتی کہ ایران کو 20 ٪ یورینیم کی افزودگی سے3.5٪ تک واپس لانے کا پابند کیا گیا جبکہ تفتیش اور دوسری شرائط اس کے علاوہ ہیں۔۔۔یہی وجہ ہے کہ ایران کے ساتھ نرمی نقل وحرکت میں اس کے لیے آسانی پیدا کرنے اور شام میں ہو نے والی خلافت کی جدوجہد کے خلاف سرگرمی میں اس کو تھپکی دینے کے لیے تھی نہ کہ ایٹمی میدان میں اس کے لیے آسانی پیدا کرنے کے لیے! یوں اوبامہ نے اپنی صدارت کے دوران اپنا سب سے بڑا کام یہ ایٹمی معاہدہ کروایا، جس سے اوبامہ ترکی اور ایران کو شام میں خلافت کی تحریک کے سامنے کھڑا کرنے میں کامیاب ہو گیا، چاہے یہ شام کے اندر مجرمانہ مسلح کاراوئیوں کے ذریعے ہو یا جنیوا اور دوسری جگہوں میں خیانت پر مبنی سیاسی کاموں کے ذریعے ہو۔ بہر حال یہ سب سابقہ ایجنٹ کے متبادل کے طور پر نئے ایجنٹ کو لانے اور خلافت کے عمل کو ناکام بنانے کے لیے ہے۔ اگر اوبامہ واقعی ایسا کرنے میں کامیاب ہو گیا تو یہ اس کے عہد صدارت کا سب سے بڑا کام ہو گا، تب اگر وہ اپنے بیان میں یہ کہے تو کوئی تعجب کی بات نہیں ہوگی: "ہم نے ایران کے ساتھ جو کچھ کیا یہ بہت ہی بڑی پیشرفت ہے اورمیرے صدارت کا منصب سنبھالنے کے بعد یہ سب سے اہم کام ہے۔۔۔" یہ تو تب ہے کہ اگر وہ ایسا کر سکا۔۔۔شاید اوبا مہ اس خوش فہمی کا شکار ہے کہ ان دونوں ریاستوں کے لیے اس نے جو کردار متعین کیا ہے وہ اس پر چلنے کی استطاعت رکھتی ہیں۔ اسی لیے ان ملاقاتوں اور دوروں میں تیزی دیکھنے میں آئی اور یہ دونوں ریاستیں اپنے قائد اوبامہ، جس کو اس معاہدے کی بڑی جلدی تھی، کے نقش قدم پر چلیں! اور 24 نومبر 2013 کے اس معاہدے کے بعد تین دن بھی نہیں گزرے تھے کہ ترکی اور ایران کے مابین موجود پرانی مخاصمت ختم ہو گئی اور ترک وزیر خارجہ نے ایران کا دورہ کیا۔ دونوں کے درمیان مذاکرات کا مرکزی موضوع شام کے معاملے میں باہمی تعاون،جنیوا مذاکرات اور جس کو پوشیدہ رکھا گیا وہ ان سے بھی بڑھ کر ہے۔۔۔کاش یہ دونوں نیکی اور تقوی کے کسی کام میں تعاون کرتے تب ہم بھی ان کے حق میں دعا کرتے لیکن ان دونوں نےشام میں خلافت کا راستہ روکنے ، اس قدر پاکیزہ خون بہنے اور بے پناہ قربانیوں کے بعد بھی ظالم جابر لادین حکومت کو ایک بار پھر قائم کرنے کے لیے آپس میں تعاون کا فیصلہ کیا جس پر انہوں نے دنیا کی رسوائی اور آخرت میں جہنم کی آگ مول لی۔ اللہ سبحانہ وتعالٰی گناہ اور ظلم کے کام میں نہیں بلکہ نیکی اور تقوی کے کاموں میں تعاون کا حکم دیتے ہیں ﴿وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ﴾" اور نیکی اور تقوی کے کاموں میں آپس میں تعاون کرو اور گناہ اور ظلم کے کاموں میں ایک دوسرے سے تعاون نہ کرو اور اللہ سے ڈرو بے شک اللہ سخت سزا دینے والا ہے" (المائدہ:2)۔ کاش یہ اس بات کو سمجھ لیتے اور نجات پالیتے ۔ عقلمند وہ ہے جو عبرت حاصل کرے اور نجات پالے۔
10 ۔ آخر میں یہ اس شخص کے لیے نصیحت ہے جس کا دل ودماغ صحیح سلامت ہے اور وہ سنتا اور دیکھتا ہے:
ا ۔ ہم ترک حکمرانوں اور ایرانی حکمرانوں کوخبردار کرتے ہیں کہ ان کی امریکہ کی کاسہ لیسی اور شام میں خلافت کی جدوجہد کرنے والوں کا راستہ روکنا ان کے لیے دنیا کی رسوائی اور آخرت کے عذاب کا سبب بن جائے گا۔ وہ مغرب اور امریکہ کو راضی کرنے کے لیے جو بھی کریں وہ ان سے راضی نہیں ہوں گے ﴿وَلَنْ تَرْضَى عَنْكَ الْيَهُودُ وَلَاالنَّصَارَى حَتَّى تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ قُلْ إِنَّ هُدَى اللَّهِ هُوَ الْهُدَى وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُمْ بَعْدَ الَّذِي جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَكَ مِنَ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ﴾ "یہود اور نصاریٰ اس وقت تک ہر گز تم سے راضی نہیں ہوں گے جب تک کہ تم ان کی ملت کی پیروی نہیں کر و گے ،کہہ دیجئے کہ اللہ کی ہدایت ہی اصل ہدایت ہے اور اگر تم نے ان کی خواہش کی پیروی کردی اس کے بعد بھی کہ تمہارے پاس علم آچکا ہے تو پھر اللہ کی طرف سے تمہارا کوئی کارساز اور مدد گار نہیں ہو گا" (البقرۃ:120)۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس کو ابن الجعد نے اپنی مسند میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے کہ :«مَنْ أَرْضَى النَّاسَ بِسَخَطِ اللَّهِ، وَكَلَهُ اللَّهُ إِلَى النَّاسِ، وَمَنْ أَسْخَطَ النَّاسَ بِرَضَا اللَّهِ كَفَاهُ اللَّهُ النَّاسَ» " جس نے لوگوں کو راضی کرنے کے لیے اللہ کو ناراض کیا اللہ اس کو لوگوں کے حوالے کرے گا اور جس نے اللہ کو راضی کرنے کے لیے لوگوں کو ناراض کیا اللہ لوگوں کے مقابلے میں اس کے لیے کافی ہوں گے"۔ تم یقینا ان لوگوں کے انجام سے بھی باخبر ہو جنہوں نے لوگوں کو راضی کرنے کے لیے اللہ کو ناراض کیا ۔۔۔عقلمند وہ ہے جو دوسروں کو دیکھ کر نصیحت حاصل کرتا ہے۔
ب ۔ ہم ترک حکمرانوں کو یاد دلاتے ہیں کہ خلافت اللہ سبحانہ وتعالٰی کی طرف سے فرض ہے اور یاد کرو جب ایک طویل عرصے تک ترکی کا طول و عرض خلافت کی وجہ سے مینارہ نور تھا۔ ترکی کے باشندے اس کے سپاہی تھے ،یہ محمد الفاتح ،سلیم،سلیمان القانونی اور عبد الحمید کے لشکری تھے۔۔۔ترکی کے حکمرانوں کو اس روشن دور کو مدنظر رکھتے ہوئے خلافت کو بے یارومددگا نہیں چھوڑنا چاہیے شام یا کسی بھی جگہ اس کے راستے میں رکاوٹ نہیں بننا چاہیے،اگر وہ اس کے لیے جدوجہد کرنے والوں کی مدد کر نے سے عاجز ہیں تو کم ازکم ان کے سامنے رکاوٹ نہ بنیں۔۔۔اچھا انجام تو صرف متقین کا ہے۔
ج ۔ ہم ایران کے حکمرانوں کو یاد دہانی کراتے ہیں اگر وہ خلافت کو فرض نہیں بھی سمجھتے اور خلافت کا ذکر آتے ہی ان کی سوچ اس طرف جاتی ہے کہ فلاں خلیفہ نے فلاں جگہ ظلم کیا تھا توان کو ہم یہ یاد دلاتے ہیں کہ جس خلافت کے لیے اس کے علمبردار جدو جہد کر رہے ہیں وہ نبوت کی طرز پر خلافت ہے ،خلافت راشدہ ہے۔ یہ وہی خلافت ہے جس کے خلفاء ابوبکر رضی اللہ عنہ،عمر رضی اللہ عنہ،عثمان رضی اللہ عنہ اور علی رضی اللہ عنہ تھے یہی اس کے قائدین اور سپہ سالار تھے۔۔۔اگر ایرانی حکمران اس کی راہ میں حائل ہونے کی جسارت کر بیٹھے تو انہوں نے علی رضی اللہ عنہ کی سیرت کو پامال کیا جنہوں نے اپنے سے پہلے تین خلفاء کی بیعت کی تھی اور ان کے دست راست اور مخلص تھے۔ تمہیں بھی ان کی سیرت پر عمل کرنا چاہیے خلافت سے منہ مت موڑو شام یا کہیں بھی ہو اس کے سامنے رکاوٹ مت بنو،اگر تم اس کے علمبرداروں کی مدد نہیں کر سکتے تو کم از کم ان کے سامنے رکاوٹ تو نہ بنو۔۔۔۔نیک انجام تو متقیوں ہی لیے ہے۔
د ۔ جیسا کہ ہم نے ابتدا ء میں ترک اور ایرانی حکمرانوں کو خبر دار کیااسی طرح اختتام پر بھی ان کو نصیحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ خلافت اللہ سبحانہ وتعالٰی کا وعدہ ہے ﴿وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ...﴾ " اللہ تم میں سے ان لوگوں کے ساتھ وعدہ فرماچکا ہے جنہوں نے ایمان لاکر اعمال صالح کیا کہ ان کو ان سے پہلے لوگوں کی طرح زمین میں خلافت سے نوازے گا۔۔" (النور: 55)۔ خلافت رسول اللہ ﷺ کی بشارت ہے جو اس جابرانہ حکمرانی کے بعد آئے گی جیسا کہ احمد اور الطیالسی نے حذیفہ بن الیمان سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «...ثُمَّ تَكُونُ جَبْرِيَّةً، فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ» "۔۔۔پھر جابرانہ حکومتیں ہوں گی اور اس وقت تک ہوں گی جب تک اللہ چاہے گا پھر اللہ جب اللہ چاہے گا ان کو اٹھا لے گا اس کے بعد نبوت کی طرز پر خلافت ہو"۔ یہ اللہ کی مشیت سے جلد یا بہ دیر قائم ہونے والی ہے جس نے اس کی مدد کی اور سہارا دیا وہ ان لوگوں میں سے ہو گا جن پر اللہ نے انعام کیا اور جو اس کے سامنے رکاوٹ بن گیا وہ دنیا میں بھی رسوا ہو گا اور قیامت کے دردناک عذاب کا مستحق ہو گا۔ پھر بھی یہ سب اس کے قیام کو ایک لمحہ کے لیے بھی موخر نہیں کرسکیں گے۔۔۔﴿إِنَّ اللَّهَ بَالِغُ أَمْرِهِ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا﴾ "اللہ اپنے کام کو انجام تک پہنچانے والا ہے اسی نے ہر چیز کے لیے ایک اندازہ مقررکر رکھاہے" (الطلاق: 3)۔

Read more...

مصرکی عبوری حکومت کی طرف سے اخوان المسلمون کودہشت گرد تنظیم قراردینے کااعلان عبوری حکومت کا سامنا كرنے والے ہرشخص کودہشت گردی کاالزام دے کر خوفزدہ کرنے کی ایک کوشش ہے

پریس ریلیز

بدھ25دسمبر2013 کو البیبلاوی حکومت نے اخوان المسلمون کو "دہشت گرد تنظیم" قرار دے دیا۔ یہ اعلان ملک کے شمالی صوبہ دقہلیہ کے سیکورٹی ڈائرکٹریٹ کی عمارت دھماکےکانشانہ بن جانے کے ایک دن بعد کیا گیا، جس میں 16 افراد ہلاک ہوئے۔ یہ اعلان اس حقیقت کے باوجود کیا گیا کہ اخوان کے اس دھماکے میں ملوث ہونے کاکوئی ثبوت پیش نہیں کیاگیا اور "انصار بیت المقدس"نامی ایک تنظیم نے اس دھماکے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
دھماکے کے تھوڑی دیربعدڈاکٹر حازم البیبلاوی نے کابینہ کے ترجمان کے ذریعے اعلان نشر کروایا جو اس کی اس نیت کی غماز ہے کہ اس واقعے کو اخوان کوقانونی طورپردہشت گرد تنظیم قرار دلوانے کیلئے استعمال کیاجائے۔ وزارت داخلہ کے ترجمان جنرل ہانی عبداللطیف نے بدھ 26دسمبر2013 کواپنےاخباری بیان میں کہاکہ اخوان المسلمون کو دہشت گرد جماعت قرار دینے کامطلب یہ ہے کہ جوکوئی اخوان کی طرف سے منعقد کی گئی ریلی کی قیادت کرے گااس کوسزائے موت دی جائےگی خواہ وہ کوئی خاتون ہی کیوں نہ ہو۔ انہوں نے اس بات پرزوردیاکہ کوئی بھی شخص جواس پارٹی کی زیرِقیادت ہونے والی کسی ریلی میں شرکت کرے گاتواسے پانچ سال جیل کی سزاملے گی ۔
اس میں کوئی اچھنبے کی بات نہیں کہ عبوری حکومت نے واقعے کے ذمہ داروں اور شہہ دینے والوں کاپتہ چلانے کیلئے کسی قسم کی سنجیدہ تحقیقات سے پہلے اخوان المسلمون پریہ الزام لگایا، کیونکہ مصری حکومت آغاز سے ہی ، جماعت اوراس کے افراد کے ساتھ ایک دہشت گرد تنظیم جیسا رویہ اپناتی آرہی ہے۔عبوری حکومت نےلمحہ بھر کیلئے تعاقب، قید وبند اور قتل سے ہاتھ نہیں روکے۔ اس کے ساتھ ہی ان کی اسمبلی کوتحلیل کیا، ان کی جائیدادوں پر قبضہ کیا اورابھی کچھ روزہوئے مرکزی بینک نے 1055نجی تنظیموں کے اکاؤنٹس منجمد کردئے ہیں۔ انقلابی اتھارٹی نے کہاکہ ان میں سے بعض کے اخوان المسلمون کے ساتھ روابط ہیں اوربعض اس کے ساتھ ہمدردیاں رکھتی ہیں ۔ مرکزی بینک نے 40 بینکوں کو ان تنظیموں کے سرمائے کو منجمد کرنے کے احکامات جاری کیے۔
ہم یہاں اخوان المسلمون کادفاع نہیں کرناچاہتے اورہم اپنے متعدد سابقہ پمفلٹوں میں موجودہ سیکولرحکومت میں شمولیت کے عدم جوازکوواضح کرچکے ہیں یعنی نہ توجمہوری صدارتی عہدہ جائز ہے اورنہ ہی کوئی وزارتی منصب سنبھالنا۔ ہم ثابت کرچکے ہیں کہ یہ طریقہ نہ صرف یہ کہ حرام ہے بلکہ یہ کسی لحاظ سے سود مند نہیں۔ یہ اس بدحالی میں کوئی تبدیلی نہیں لائے گا۔ اوریہ کہ ہمہ گیراوربنیادی تبدیلی کیلئےجدوجہدہی وہ صحیح عمل ہےجس کے ذریعے موجودہ فاسد نظام کومکمل طور پر اکھاڑا جائے اور اسلام کومکمل اوریکبارگی نافذ کیاجائے، جیساکہ رسول اللہﷺ نے کیاتھا ۔ ہم اس وقت اس بے بنیادالزام تراشی کی مذمت کرتے ہیں،جس کامقصد انتقامی جذبات کی تکمیل اورانقلاب کے مفاد میں برپا اس کشمکش کا خاتمہ کرنا ہے، بالخصوص جبکہ تاحال عبوری حکومت نےپارٹی کے دہشت گردانہ کاروائیوں میں ملوث ہونے کےشواہد پیش نہیں کئےہیں۔
بلاشبہ اخوان کو دہشت گرد جماعت قرار دینے کا مقصد ہر اس شخص کودہشت گرد قرار دینے کی ایک کوشش ہے جوانقلاب کی اتھارٹی سے اختلاف کرتے ہیں اور یہ پوری اسلامی لہرکے خلاف جنگ اوراس کودہشت گردی کی تہمت سے داغ دار کرنے کاایک سوچاسمجھامنصوبہ ہے۔ اس حکومت کے بارے میں خیال کیا جا رہا تھا کہ یہ مستعفی ہوجائے گی یا کم ازکم اس قسم کے بے سروپا الزامات کی ہدایات جاری کرنے سے پہلے وزیر داخلہ کومعزول کردے گی۔
تعجب کی بات یہ ہے کہ کوئی بھی یہودی انٹیلی جنس ایجنسیوں یا مغربی ایجنسیوں کومورد الزام ٹھہرانے کی جرات نہیں کرتا جومصرکے اندرآرام سے اپنے گھناؤنے مقاصد کیلئے سرگرم ِعمل ہیں۔ چنانچہ مصر استعماری ریاستوں کے جاسوس اداروں کیلئے ہمیشہ سےایک سرسبزوشاداب چراگاہ رہاہے۔ ان ریاستوں کاایک ہی ہدف ہے اوروہ یہ کہ مصر ان کےزیراثر ایک سیکولر یا نیم سیکولرریاست کے طورپر قائم رہے،جسے یہودکے ساتھ دائمی امن معاہدات اورکافر امریکی ریاست کے ساتھ اسٹریٹجک تعلقات کی بیڑیوں میں جکڑدیاگیاہو۔
مصر میں امن وامان کی اس ابتر صورتحال اور دونوں طرف سے بڑھتی اوربھڑکتی ہوئی کشمکش اقتدار کے تنازع کے سواکچھ نہیں اورہم سب کویہ کہتے ہیں کہ صرف نبوت کے نقش ِ قدم پرخلافت کے زیرِسایہ ہی امن وامان اور انسانوں کو عزت وآبروحاصل ہوگی جہاں حکمران ایک ڈھال کے مانند ہوتاہے جس کی قیادت میں جنگ کی جاتی ہے اوراسی کے ذریعے تحفظ حاصل کیا جاتا ہے، وہی رعایا کے خون، ان کے اموال اورعزت وآبروکی حفاظت کرتا ہے۔ حزب التحریر سب کودعوت دیتی ہے کہ آئیں اورخلافت کےدوبارہ قیام کےذریعے مصرمیں جاری اس خونریزی اورقتل وغارت گری کی روک تھام کیلئے ‍‍ ہمارے ساتھ مل کر جد وجہد کریں، کیونکہ صرف خلافت ہی تمام لوگوں کیلئے خواہ وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم، امن اور سکون لوٹاسکے گی۔
وَلَيَنصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ
"اور اللہ ضرور ان لوگوں کی مدد کرے گا جواس (کے دین) کی مدد کریں گے ،بے شک اللہ بڑی قوت والا اوراقتداروالا ہے" ( الحج : 40)
شریف زید
سربراہ مرکزی میڈیاآفس حزب التحریر
ولایہ مصر

Read more...

حزب التحریر سرکش حسینہ اور سکیورٹی فورسز اور جھوٹے میڈیا میں موجود اس کے گماشتوں کو عبرت ناک انجام سے خبردار کرتی ہے

پریس ریلیز

حزب التحریر پولیس کی جانب سے اس کے اراکین اور اس کے حمایتی ان متقی مسلمانوں پر وحشیانہ حملوں کی پر زور مذمت کرتی ہے جو اس جلوس میں شرکت کے لیے جارہے تھے جس کا اعلان حزب نے کر رکھا تھا جو کہ جمعہ(27 دسمبر 2013) کا دن تھا، جہاں پولیس نے حسینہ کے حکم پر ان راہ چلتے لوگوں پر اندھا دھند فائرنگ کردی اور تقریباً چالیس لوگوں کو گرفتار کر لیا اور لوگوں کی ایک بڑی تعداد زخمی ہو گئی اور گرفتار کیے گئے لوگوں پر بھی انتہائی قریب سے گولیاں برسائیں گئیں۔ اس سے بھی رسواکن اقدام یہ تھا کہ پولیس نے قریبی ہسپتالوں میں موجود زخمیوں کا پیچھا کیا اور ان میں سے زیر علاج سات افراد کو گرفتار کرلیا۔ میڈیا کے ایک دھوکہ باز حصے نے بھی حسینہ اور پولیس کی ہاں میں ہاں ملائی جو جھوٹ کو پھیلانے میں حکومت اور پولیس کے ہرکاروں کا کردار ادا کر رہا ہے،جس نے یہ بہتان تراشا کہ حزب کے اراکین اور اس کے حامیوں نے پولیس پر پتھراو کیا اور اینٹیں پھینکیں اور دستی بموں سے حملے کیے۔
حزب التحریر سرکش حسینہ اور سکیورٹی فورسز میں موجود اس کے غنڈوں کوخبردار کرتی ہے کہ عنقریب تم اپنے ان گھناؤنے جرائم کا عبرتناک ترین صلہ پاؤں گے۔ ریاست خلافت جو کہ مخلص افسران کی نصرۃ سے جلد ہی قائم ہونے والی ہے تمھارا احتساب کیے بغیر نہیں چھوڑے گی۔
اور شیخ حسینہ اور اس کے فیصلوں میں شامل اس کے ساتھی آخرت میں بھی بدترین عذاب کا سامنا کریں گے۔ اللہ سبحانہ و تعالٰی فرماتے ہیں: إِنَّ الَّذِينَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَتُوبُوا فَلَهُمْ عَذَابُ جَهَنَّمَ وَلَهُمْ عَذَابُ الْحَرِيقِ " جو لوگ مؤمن مردوں اور مؤمن عورتوں کو آزمائش میں ڈالتے ہیں اور پھر اس پر توبہ بھی نہیں کرتے تو ان کے لیے جہنم اور جلنے کا عذاب ہے" (البروج: 10) ۔
اور سکیورٹی فورسز میں کام کرنے والوں سے ہم کہتے ہیں کہ تمہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ حکومت کی جانب سے حزب التحریر کے کارکنوں اور اراکین پر اس یلغار کا سبب صرف یہ ہے کہ یہ دین حق کے پیروکار ہیں اور اسلام کی دعوت کو لوگوں تک پہنچاتے ہیں۔ اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ اللہ اس پر اس وجہ سے تمہارا محاسبہ نہیں کرے گا کہ تم تو "حکومتی احکامات کے پابند ہو "! تو اچھی طرح سن لو اللہ سبحانہ وتعالٰی فرماتے ہیں: يَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوهُهُمْ فِي النَّارِ يَقُولُونَ يَا لَيْتَنَا أَطَعْنَا اللَّهَ وَأَطَعْنَا الرَّسُولَ ط وَقَالُوا رَبَّنَا إِنَّا أَطَعْنَا سَادَتَنَا وَكُبَرَاءَنَا فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَ "جس دن آگ میں ان چہروں کو الٹ پلٹ کیا جائے گا تو یہ کہیں گے اے کاش ہم نے اللہ کی اطاعت کی ہوتی اور رسول کی اطاعت کی ہو تی ۔ اور کہیں گے کہ اے ہمارے رب ہم نے تو اپنے راہنماؤں اور بڑوں کی اطاعت کی تھی اور انہوں نے ہمیں سیدھی راہ سے بھٹکا دیا" (الاحزاب: 66-67)۔
میڈیا والوں سے بھی ہم کہتے ہیں کہ اس قدر شرمناک جھوٹ کی نشر واشاعت کرتے ہوئے تمہیں شرم بھی نہیں آتی؟! جو تصاویر تم نے دکھائیں ہیں یا جو ویڈیو تم نے نشر کی ہے اس میں تو کہیں بھی کسی نے اینٹ یا پتھر نہیں اٹھا یا یا مارا ہے اور نہ ہی کہیں کسی دستی بم کے نشانات ہیں، پھر یہ سب تم کیسے کہتے ہو ؟ کیا تم نے رسول اللہ ﷺ کی یہ حدیث نہیں سنی ہے کہ : مِن أفرى الفرى أن يُريَ الرجل عينيه ما لم تريا "بدترین جھوٹ یہ ہے کہ ایک آدمی اس چیز کو دیکھنے کا دعویٰ کرے جو اس نے نہیں دیکھی ہے؟"
ہم نے کہا ہے اور ہم پھر کہتے ہیں کہ :حسینہ حکومت گولہ بارود کی گن گرج کے زریعے اور تشدد کے دوسرے طریقوں کے ذریعے حزب التحریر اور دوسرے متقی لوگوں کو خاموش کرنے میں ہرگز کامیاب نہیں ہو گی۔ یہ سارے ہتھکنڈے ان کے حوصلےپست نہیں کریں گے بلکہ اللہ کی مدد سے ان کے عزائم کو جلا بخشیں گے۔ حکو مت اپنی اس روش کے ذریعے اپنی ہی تباہی میں جلدی کر رہی ہے۔
﴿الَّذِينَ قَالَ لَهُمْ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ إِيمَانًا وَقَالُوا حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ﴾
"وہ لوگ جن سے لوگوں نے کہا کہ کہ لوگ تو تمہارے خلاف اکھٹا ہو چکے ہیں اس لیے ڈرو تو اس بات نے ان کے ایمان کو اور مضبوط کردیا اور انہوں نے کہا کہ ہمارے لیے اللہ ہی کا فی ہے اور وہی بہترین کار ساز ہے"


https://www.facebook.com/pages/PeoplesDemandBD

Read more...

امریکی راج خاتم کرو، خلافت قائم کرو راحیل-نواز حکومت امریکی موجودگی کو دوام بخشنے کی بھر پور کوشش کررہی ہے

حزب التحریر افغانستان سے محدود انخلاء کے امریکی منصوبے کے اعلان کے بعد راحیل-نواز حکومت کی جانب سے خطے میں امریکی موجودگی کو دوام بخشنے کی کوششوں کی پرزور مذمت کرتی ہے۔ یکم جنوری 2014 کو امریکہ میں پاکستان کے نئے سفیر ، جلیل عباس جیلانی نے ایک انٹرویو میں خبردار کیا کہ " امریکی انخلاء کی محض بات چیت ہونے کی وجہ سے اس کے اثرات ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ پہلے سے زیادہ افغان مہاجرین پاکستان پہنچنا شروع ہوگئے ہیں۔۔۔اگر افواج کی بڑی تعداد واپس چلی جاتی ہیں تو زیادہ ذمہ داری ہمارے کاندھوں پر آجائے گی"۔
یہ بیان ایک جھوٹ ہے کیونکہ اس سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ جیسے محدود انخلاء کے نتیجے میں خطے کی صورتحال مزید خراب ہوجائے گی جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ایک دہائی سے مسلسل وسیع ہوتی امریکی موجودگی نے یہ ثابت کیا ہے کہ پاکستان اور افغانستان دونوں کو اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ خطے سے امریکہ کی موجودگی مکمل طور پر ختم ہوجائے جس میں سفارت خانوں، قونصل خانوں ، سفارتی عملے، انٹیلی جنس اور نجی امریکی افواج کا خاتمہ بھی شامل ہے۔ یہ امریکی موجودگی ہی ہے جس کے نتیجے میں پاکستان میں ریمنڈ ڈیوس نیٹ ورک اب تک موجود ہے جو ہمارے ملک میں بم دھماکوں اور قتل و غارت گری کے واقعات کا اصل ذمہ دار ہے اور پھر اس صورتحال کو بہانا بنا کر ہماری افواج کو قبائلی علاقوں میں بھیجا جاتا ہے۔ یہ امریکی موجودگی ہی ہے جس نے افغانستان میں بھارت کی موجودگی کو یقینی بنایا ہے اور پھر بھارت اس سے فائدہ اٹھا کر قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں کاروائیاں کر کے پاکستان کو غیر مستحکم کرتا ہے۔ اور یہ امریکی موجودگی ہی ہے جس نے تباہی و بربادی کے سلسلے کو افغانستان کے مسلمانوں پر مسلط کردیا ہے۔
اس کے علاوہ اس وقت یہ بیان دینااس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ مشرف و عزیز یا کیانی و زرداری کے دور سے جاری پالیسیوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ یہ بیان اس وقت آیا ہے جب امریکہ نے یہ اعلان کردیا ہے کہ وہ مکمل طور پر نہیں جارہا۔ 3 دسمبر 2013 کو نائب سیکریٹری خارجہ برائے جنوبی و وسطی ایشیا، نیشا ڈیسائی بسوال نے اعلان کیا کہ "پاک افغان خطے میں ہماری موجودگی ہمیشہ کے لیے ہے۔ ہم نہیں جارہے۔ ہم کہیں بھی نہیں جارہے"۔ اور یہ بیان اس وقت آیا ہے جب امریکہ خطے میں اپنی مستقل موجودگی کو برقرار رکھنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ 7 دسمبر 2013 کو امریکہ سیکریٹری دفاع چک ہیگل نے کہا کہ " کابل کے دورے کے دوران اسے اس بات کی یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ 2014 کے بعد افغانستان میں امریکی افواج کو برقرار رکھنے کے لیے درکار معاہدہ کو مناسب وقت پر مکمل کرلیا جائے گا"۔ لہٰذا راحیل-نواز حکومت غداری کے اسی راستے پر چل رہی ہے جس پر اس سے پہلے کیانی زرداری حکومت اور اس سے بھی پہلے مشرف و عزیز حکومت چل رہی تھی۔
وقت کی اہم ترین ضرورت یہ ہے کہ خلافت کا قیام عمل میں لایا جائے جو خطے میں موجود دشمن کی تنصیبات اور ڈھانچے کےخاتمے کے لیے تمام دستیاب وسائل کو فوری حرکت میں لائے گی۔ ایسی حکومت صرف خلافت میں ہی ممکن ہے جو دشمن کے احکامات کو تسلیم کرنے کی بجائے صرف اور صرف اللہ سبحانہ و تعالٰی کے احکامات کے آگے جھکے گی۔ اللہ سبحانہ و تعالٰی فرماتے ہیں: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا لاَ تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ تُلْقُونَ إِلَيْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ وَقَدْ كَفَرُوا بِمَا جَاءَكُمْ مِنَ الْحَقِّ "اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! میرے اور (خود )اپنے دشمنوں کو اپنا دوست نہ بناؤ، تم تو دوستی سے ان کی طرف پیغام بھیجتے ہو اور وہ اس حق کے ساتھ جو تمھارے پاس آچکا ہے کفر کرتے ہیں" (الممتحنہ :1)۔

Read more...

عوام پکار رہے ہیں، "بہت برداشت کرلیا حسینہ اورخالدہ کو، بہت برداشت کرلیا عوامی اور بی۔این۔پی کی حکومتوں کو" اور مخلص افسران سے خلافت کے قیام کے لیے مادی مدد فراہم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں

پریس ریلیز

حزب کی جانب سے آج 27دسمبر 2013 کو مکتنگن، ڈھاکہ میں عوامی اجتماع اور مظاہرے کا اعلان کیا گیا تھا ۔ اعلان کے مطابق حزب التحریر کے ڈھاکہ اور اس کے گردو نواح کے اراکین اور کارکنان عوام کے ساتھ مل کر بڑی تعداد میں اجتماع کی جگہ کے پاس موجود مختلف مقامات پر اکٹھے ہوئے اور اجتماع کے مقام کی جانب پیدل مارچ شروع کیا۔ انھوں نے کلمہ طیبہ سے مزین جھنڈے اٹھا رکھے تھے اور وہ اپنے پُرزور نعروں کے ذریعے افواج میں موجود مخلص افسران سے عوامی-بی.این.پی حکومت کو اکھاڑ پھینکنے اور خلافت کے قیام کے لیے اختیار حزب التحریر کے حوالے کرنے کا مطالبہ کررہے تھے۔ کچھ جلوس اجتماع کے مقام کے پاس موجود مساجد میں نماز جمعہ کے اختتام کے بعد سے ہی شروع ہوگئے تھے۔ ان جلوسوں میں وقفے وقفے سے دوسرے جلوس بھی شامل ہوتے رہے۔ یہ جلوس شینگن، باغیچہ، دینک بنگلہ، بیجوئےنگر، ڈھاکہ یونیورسٹی کے کرزن ہال گیٹ اور دوسرے مقامات سے آئے تھے۔


جلوسوں کو روکنے کے لیے حکومت نے اپنی تمام طاقت کو جھونک دیا اور لاٹھی چارج، تیز آواز پیدا کرنے والے گرینیڈ اور ربڑ کی گولیا ں استعمال کیں۔۔۔لیکن مسلمان بہادری سے ڈٹے رہے اور اپنے آباؤ اجداد، حمزہ بن عبدالمطلب، عمر بن خطاب اور حسین بن علی کے نقش قدم کی پیروی کی۔ حکومت نے کئی افراد کو گرفتار کیا لیکن وہ اپنے مقصد کو حاصل کرنے میں ناکام رہی۔ جابر حسینہ کی جانب سے گرفتاریاں اور ظلم و تشدد، جو کہ آرمی افسران کی قاتل اوراستعماری طاقتوں کی ایجنٹ ہے، کبھی بھی مسلمانوں کو خلافت کے قیام کے مطالبے اور اس کے حصول کی جدو جہد سے دستبردار ہونے پر مجبور نہیں کرسکتیں۔ اور جب خلافت قائم ہوجائے گی تو وہ لازمی حسینہ کو اس کے مظالم ، بدعنوانی، غداری اور آرمی افسران ، علماء اور متقی و پرہیزگار مسلمانوں کو قتل کرنے کے جرم میں عبرت ناک سزا دے گی۔
حزب التحریر افواج میں موجود مخلص افسران سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ لوگوں اور حزب کے اراکین اور شباب کی اس زبردست اور بہادرانہ جدوجہد کی حمائت کریں۔


اے افسران! لوگ دیکھ رہے ہیں کہ تم اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری، بان کی مون کی پکار پر جنوبی سوڈان جانے کی تیاریاں کررہے ہو۔ وہ یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ تم حسینہ کے حکم کو بجا لاتے ہوئے انتخابات کے دوران "امن"قائم رکھنے کے لیے حرکت میں آگئے ہو جبکہ ان انتخابات کا مقصد محض حسینہ کے ظلم و جبر پر مبنی اقتدار کو مزید طول دینا ہے۔ کیا اقوام متحدہ کے مشن سے حاصل ہونے والے ڈالر تمھیں اپنے لوگوں کی زندگیوں سے زیادہ عزیز ہیں؟ کیا تمھاری حسینہ سے وفاداری اسلام اور مسلمانوں سے زیادہ اہم ہے؟ اگر تمھارا جواب یہ ہے کہ تم صرف آرمی کمانڈکے احکامات کی اطاعت کررہے ہو، تو ہم تم سے سوال کرتے ہیں کہ تمھاری اپنے رب کی اطاعت کہاں گئی؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ "اللہ کی نافرمانی کرکےبندے کی اطاعت نہیں کی جاسکتی "۔


اے افسران! ہم تم میں موجود بہادر مردوں سے ، وہ جو مخلص ہیں، وہ جو اسلام اور اس کی امت کے وفادار ہیں، مطالبہ کرتے ہیں کہ:
دنیا کے عارضی فوائد کے لیے اسلام اور اس کی امت کو تنہا مت چھوڑو۔ غیر شرعی احکامات اور ان کی اطاعت کے نام پر اسلام اور مسلمانوں سے منہ مت موڑو۔ حزب التحریر اور عوام تمھیں اللہ اور اس کے رسولﷺ کی دعوت کی جانب بلاتے ہیں ۔ تو اس دعوت کے علاوہ ہر دوسری دعوت، مطالبے اور احکامات کو ٹھکرا دو۔ لوگوں کی پکار کا جواب دو اور سب سے بڑھ کر اللہ اور اس کے رسولﷺ کے احکام کی اطاعت کرو۔ مسلمان ہونے کے ناطے ظالم حسینہ اور عوامی- بی.این.پی کی حکومت کو ہٹانے اور خلافت کے قیام کی اپنی ذمہ داری کوا دا کرو۔


﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ﴾
"اے ایمان والو !اللہ اور اس کے رسول کی پکار پر لبیک کہو جب وہ تمہیں اس چیز کے لیے پکاریں جس میں زندگی ہے" (الانفال: 24)

حزب التحریر کامیڈیا آفس
ولایہ بنگلادیش

 

https://www.facebook.com/pages/PeoplesDemandBD

 

مزید تصاویر کے لئے یہاں کلک کریں

 

 

Read more...

شام پر حملہ کرنے کے لیے امریکی قیادت میں عالمی اتحاد کا ہدف حکومت کے بارے میں اپنے منصوبے کو مسلط کرنا،بشار کوبچانا،اسلام پسندوں پر ضرب لگانا اور اسلام کو حکمرانی تک پہنچنے سے روکنا ہے

 

21اگست کو دمشق کے مضافات میں شہریوں کے خلاف بشار کے کیمیائی حملے کے بعد شامی حکومت کو سزادینے کے لیے شام پر حملے کے فیصلے کے اعلان نے دنیا کے کئی ممالک کو ششدر کردیا۔کئی ممالک نے اعلانیہ طور پر اس عالمی اتحاد میں شامل ہونے اور امریکی قیادت میں اس حملے میں حصہ لینے کے لیے کود پڑے۔علاقائی اور بین الاقوامی میڈیا کی لہر بھی تبدیل ہوگئی اور اس مداخلت کے بارے میں بات چیت گفتگو کا اہم ترین موضوع بن گیا۔امریکی صدراوباما نے اس کیمیائی حملے کے بارے میں کہا کہ ''بڑا اور انتہائی تشویش ناک حادثہ ہے"ساتھ ہی امریکہ کی جانب سے شام میں اسٹریٹیجک(اہم) اہداف کو نشانہ بنانے کے امریکی ارادے کا اعلان کیا گیا۔اُس نے اقوام متحدہ کی منظوری کے بغیر شام میں مداخلت کی مخالفت کی۔وائٹ ہاوس کے ترجمان نے بھی اوبامہ کی بات کو دہرایا اور کہا کہ وہ شام کی سرزمین پر امریکی افواج کواتارنے کی ابھی توقع نہیں کرتےجبکہ امریکی وزیر دفاع ہیگل نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا''ہنگامی حالات میں صدر کو اختیار سونپنا وزارت دفاع کی ذمہ داری ہے"۔پینٹاگون کے ایک عہدہ دار نے کہا کہ امریکی بحریہ کے ماتحت 4 جنگی بیڑے شام کے حوالے سے ملنے والے احکامات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے چند گھنٹوں میں تیار ہو سکتے ہیں۔ اخبار"واشنگٹن پوسٹ" نے ایک فوجی عہدہ دار کے حولے سے یہ خبر نقل کی کہ ہر بیڑے میں 90 ''ٹام ہاک"کروز میزائل نصب ہیں،اور بحیرہ روم میں امریکی آبدوزیں بھی کروز میزائلوں سے لیس موجود ہیں،تاہم ان کے صحیح مقام کوخفیہ رکھا گیا ہے۔ساتھ ہی عمان میں دس ممالک کی افواج کا اس فوجی حملے پر گفت وشنید کرنے کے لیے بند کمرے میں اجلاس ہوا۔ اخبار'' واشنگٹن پوسٹ"نے اپنے27اگست کے شمارے میں انکشاف کیا کہ اس کاروائی میں ''وقت کی مناسبت سے تین عوامل پر اعتماد کیا جائے گا:گزشتہ ہفتے کی کیمیائی حملے میں حکومت کے ملوث ہونے کے بارے میں ایجینسیوں کی مکمل رپورٹ،اتحادیوں اور کانگریس کے ساتھ جاری مشاورت کی تکمیل،بین الاقوامی قانون کے مطابق اس حملے کے جواز کی تجدید"۔اس حملے کے ہدف کے بارے میں امریکہ نے اعلان کردیا کہ یہ بشار کی جانب سے کیمیائی اسلحہ استعمال کرنے پر ایک تادیبی سزا ہوگی ناکہ حکومت کو تبدیل کرنے کے لیے۔ایک اعلی سطحی امریکی عہدہ دار نے کہا کہ کیمیائی حملے نے یہ واضح کر دیا کہ شام کے بحران کو ختم کرنے کے لیے ''جامع اور پائیدار سیاسی حل ناگزیر ہے"۔
عسکری حملے کی اس بین الاقوامی تائید ،امریکہ کی جانب سے فوجی حرکت اور اس حملے کے حوالے سے میڈیا میں خبروں کے تسلسل نے شرمناک ڈرامائی انداز سے روسی موقف کو پس منظر میں دھکیل دیا۔ روسی وزیر خارجہ لافروف نے یہ اعلان کردیا کہ روس کسی کے لیے جنگ میں نہیں کودے گا اورحملے کی صورت میں طرطوس کے اپنے بحری اڈے کے جنگی یونٹوں کو خالی کرنے کا بھی اعلان کردیا،اپنے 120 سے زیادہ شہریوں کو بھی وہاں سے نکال لیا،۔ 28اگست کو جنیوا 2 کانفرنس کی تیاریوں کے سلسلے میں لاہی میں امریکیوں کے ساتھ مجوزہ ملاقات ملتوی ہونے پر بھی افسوس کا اظہار کیا۔جہاں تک ایران کا تعلق ہے وہ اچھل کود اور شور شرابہ کر رہا ہے لیکن بڑے نرم انداز سے ،یاد رہے کہ امریکہ اور اقوام متحدہ کا سیاسی عہدہ دار مکار اور شاطر جیفری فلیٹمین نے تہران کا دورہ کیا اور ایرانی قیادت کے سامنے صورتحال اور کرداروں کی تقسیم کی بات رکھ دی۔
یقینا امریکہ ہی شام میں اکیلے بالادستی رکھتا ہے اور اس انقلاب سے اس کی بالادستی کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔وہ ہر قسم کی سیاسی داوپیچ اور وحشیانہ جرائم کو استعمال کرنے کے باوجود انقلاب پر قابوپانے میں ناکام ہو گیا ہے۔وہ بشار کا متبادل ایجنٹ تیار کرنا تو دور کی بات ہے اس کی گرانٹی دینے میں بھی کامیاب نہ ہوسکا۔اب وہ اپنے جہنمی منصوبے کو نافذ کرنے پراتر آیا ہے جس کو وہ خود نافذ کرنا چاہتا ہے۔ وہ لوگوں کو قتل کرنے کے وحشیانہ جرائم اور درند گی میں بشار سے کم نہیں ہو گا۔اس منصوبے کا آغاز بشار کی جانب سے کیمیائی حملے سے ہوا جس کو جواز بنا کر اب امریکہ عسکری مداخلت کر رہا ہے۔پھر اس عسکری مداخلت کے ذریعے سیاسی عمل کی راہ ہموار کی جائے گی جو جنیوا2 کانفرنس کا پیش خیمہ ثابت ہو گا۔شامی اپوزیشن کے ایک لیڈر نے''الشرق الاوسط"سے بات کرتے ہوئے حلیف ممالک اور شامی اپوزیشن کے درمیان طے پانے والے معاہدے کی طرف اشارہ کیااورکہا''اس آپریشن سے بشا ر حکومت کو ختم نہیں کیا جائے گا بلکہ اے جنیوا 2 معاہدے کے لیے مذاکرات کے میز پر لایا جائے گا اوراسی کے نتیجے میں بل آخر مذاکرات کے اختتام پر شامی صدر برطرف ہوں گے"۔بلکہ الشرق الاوسط نے مزید انکشاف کیا کہ اپوزیشن ذرائع کے مطابق امریکہ نے ان سے ''اہداف کے تعین" کا مطالبہ کیا۔یہ بات بھی اٹل ہے کہ یہ کانفرنس اُن لڑنے والوں کو ختم کرنے کے پر بھی بحث کرے گی جن کا منصوبہ شام میں ریاست خلافت کا قیام ہے۔اس وجہ سے یہ بات متوقع ہے کہ یہ حملہ محدود اور ٹارگیٹڈ ہو گا جس سے شام کے بنیادی عسکری ڈھانچے کو تباہ کیا جائے گا تاکہ نیا شام اسرئیل کے مقابلے میں بے دست وپا ہو۔اس سے بے شمار مسلمانوں کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑے گا جیسا کہ لیبیا میں ہوا یا افغانستان میں ہو رہا ہے کہ بغیر پائلٹ کےامریکی جہازوں کی بمباری سےالقاعدہ اور طالبان قیادت کو نشانہ بنانے کے نام پر اجتماعی طورپر شہریوں کو قتل کیا جاتاہے۔اس عسکری دباؤ کے ذریعے امریکہ اپنے آپ کو بطور بات چیت کے رکھوالے کے طور پر پیش کرے گا،پھر اپوزیشن اور حکومت پر اپنا منصوبہ تھوپ دے گا،ساتھ بین الاقوامی امن فوج کو قومی فوج سے تعاون کے نام پر اپنے منصوبے کی مخالفت کرنے والوں کو قتل کرنے کے لیے استعمال کرے گا۔اُن سیکیوریٹی اداروں کو باقی رکھے گا جن سے بشار مسلمانوں کا قتل عام کر رہا ہے کیونکہ یہی نئی حکومت کی بقا کی ضمانت ہوگی۔بین الاقوامی عدالتیں بھی قائم کی جائیں گی تاکہ لوگوں کو مطمئن کر نے کے لیے کچھ لوگوں کو سزائیں دی جائے جس سے لوگوں کو یہ احساس ہو جائے کہ ان کے ساتھ انصاف ہوگیا جیسا کہ کوسووو میں کیا گیا۔۔۔۔
اے شام اور ساری اسلامی دنیا کے مسلمانو:امریکہ ہی ساری دنیا میں برائی کی جڑ ہےاوروہی مسلمانوں کا سب سے بڑا دشمن ہے۔وہ اب شام میں قتل و غارت کا بازار گرم کرنے کے لیے آرہا ہے جو اس سے کم نہیں ہو گا جو اس نے عراق اور افغانستان میں کیا ہے۔تم دیکھ لو گے وہ بشار کی جگہ مسلمانوں کی اجتماعی قتل کی مہم جوئی خود انجام دے گا۔اس کو قتل کرنے ، سکیولر آئین اور تم پر ایجنٹ حکمران کو مسلط کرنے کی بین الاقوامی منظوری بھی حاصل ہو گی۔۔۔۔۔لیکن امریکہ آج پہلے کی نسبت خطے میں بہت کمزور ہے۔اس کو اپنی بالادستی کھونے کے خطرے کا سامنا ہے۔وہ مصر اور شام میں اپنے ایجنٹوں کے ذریعے حالات کو قابو کرنے میں ناکام ہو چکا ہے۔مسلمانوں کے ساتھ یہ اس کا تلخ تجربہ ہے۔وہ آج یہ دعوی کر رہا ہے کہ اس کا شام پر قبضے کا کوئی ارادہ نہیں جیسا کہ اس نے عراق اور افغانستان میں کیالیکن وہ بغیر قبضہ کیے اپنے مفادات کے حصول کے لیے اپنے سیاسی ایجنڈے کو مسلط کرنا چاہتا ہے۔۔۔۔امریکہ کی اس مداخلت اور حملے کو مسترد کرنا فرض ہے جو بھی اس کی کوشش کر رہا ہے اور اس میں اس کی مدد کر رہا ہے وہ اپنے دین اور امت کا غدار ہے۔۔۔۔امریکہ اپنے مفادات اور اپنے ایجنٹ بشار جس کو وہ اب بھی صدر تسلیم کرتا ہے بچانے کے لیے آرہا ہے۔وہ اس کو اور اس کے خاندان کو محفوظ راستہ دینے کی ضمانت دے گا۔۔۔۔یہی امریکہ تمہارا اصل دشمن ہے اس کے ساتھ دشمن کا معاملہ کرو اس کے ایجنٹوں کو گھٹلی کی طرح نکال کر پھینک دو۔تم نے جس قتل و غارت ،نِت نئے عذاب،نسل کشی،بھوک،ذلت اور پکڑدھکڑ کا سامنا کیا ہے اس کا بدلہ صرف زمین میں اللہ کے کلمے کو بلند کر نا ہے۔۔۔۔امریکہ اُوباشی اور بدمعاشی کے حدوں کو پار کرہا ہے اور یہ چاہتا ہے کہ تمہارے خلاف جنگ میں ساری دنیا اس کا ساتھ دے۔وہ بار بار یہی دہرارہا ہےاورتم میں سے کسی کے پاس اس جرم پر خاموشی اختیار کرنے کا کوئی عذر نہیں بلکہ اس کو روکنے کی کوشش فرض ہے۔
اے شام اور ساری دنیا کے مسلمانو:ہمارے تمام اعمال اللہ کی مرضی کے مطابق ہونے چاہیے۔اللہ تعالی نے اسلام کے منصوبے کو ریاست خلافت کے قیام پر مبنی ہونے کو فرض قرار دیا ہے۔اپنے آس پاس دیکھو کیا اس منصوبے کے علاوہ کوئی منصوبہ ہے جو مسلمانوں کو ایک کلمے تلے یکجا کرے گا،جس کے ذریعے ہی تم امریکی منصوبے کا مقابلہ کر سکتے ہو؟!کیا اللہ تعالی کے بغیر تم کفر کی اس جمعیت پر غالب آسکتے ہو؟!تم اللہ کے ساتھ ہو جاؤ اللہ تمہارے ساتھ ہو گا،تم اس کے دین کی مدد کرو وہ تمہاری مدد کرے گا،بے شک حزب التحریر اس عظیم فرض کی ادائیگی کی طرف تمہیں دعوت دیتی ہے جس سے امریکہ اور مغرب اور مسلمانوں کے حکمران اور سیکولر سب لڑ رہے ہیں لیکن اللہ ہی اپنے فیصلے میں غالب ہے ،ارشاد ہے:

أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُواْ وَإِنَّ ٱللَّهَ عَلَىٰ نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌط ٱلَّذِينَ أُخْرِجُواْ مِن دِيَارِهِم بِغَيْرِ حَقٍّ إِلاَّ أَن يَقُولُواْ رَبُّنَا ٱللَّهُ وَلَوْلاَ دَفْعُ ٱللَّهِ ٱلنَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا ٱسمُ ٱللَّهِ كَثِيراً وَلَيَنصُرَنَّ ٱللَّهُ مَن يَنصُرُهُ إِنَّ ٱللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ ط ٱلَّذِينَ إِنْ مَّكَّنَّاهُمْ فِى ٱلأَرْضِ أَقَامُواْ ٱلصَّلواَةَ وَآتَوُاْ ٱلزَّكَواةَ وَأَمَرُواْ بِٱلْمَعْرُوفِ وَنَهَوْاْ عَنِ ٱلْمُنْكَرِ وَلِلَّهِ عَاقِبَةُ ٱلأُمُورِ ط

"جن (مسلمانوں) سے (کافر) جنگ کررہے ہیں انہیں بھی مقابلے کی اجازت دی جاتی ہے کیونکہ وہ مظلوم ہیں ۔ بےشک ان کی مدد پر اللہ قادر ہے ۔ یہ وہ ہیں جنہیں ناحق اپنے گھروں سے نکالا،صرف اس وجہ سے کہ وہ کہتے ہیں کہ ہمارا رب صرف اللہ ہے۔ اگر اللہ لوگوں کو آپس میں ایک دوسرے سے نہ ہٹاتا رہتا تو عبادت خانے اور گرجے اور مسجدیں اور یہودیوں کے معبد اور وہ مسجدیں بھی ڈھا دی جاتیں جہاں اللہ کا نام بہ کثرت لیا جاتا ہے۔ اللہ کی جو مدد کرے گا اللہ بھی اس کی مددضرور کرے گا۔بے شک اللہ قوی اور زبردست ہے۔یہ وہ لوگ ہیں جن کو ہم زمین میں اقتدار دیں تو وہ نماز قائم کریں گے اور زکواۃ ادا کریں گے اوراچھے کاموں کا حکم کریں اور بُرے کاموں سے منع کریں"(الحج:39-41)

حزب التحریر
ولایہ شام

Read more...

وزیر اعظم کا خطاب امریکی راج کو جاری رکھنے کا اعلان تھا نواز شریف کے خطاب سے ثابت ہو گیا کہ اُسے اقتدار کی کرسی سے اُتر کر خلافت کی واپسی کے لیے راستہ چھوڑ دینا چاہیے


19اگست 2013 کو وزیراعظم پاکستان نے اپنے خطاب میں دو ماہ سے زائد عرصے تک قوم سے خطاب نہ کرنے کی وجوہات بیان کرتے ہوئے کہا کہ " کوئی دن ایسا نہیں گزرا جب ہم دہشت گردی ، لوڈ شیڈنگ اور دوسرے مسائل کے خاتمے کے منصوبے بنانے کے لیے سر جوڑ کر نہ بیٹھے ہوں"۔ لیکن درحقیقت جولوگ سر جوڑ کر بیٹھے تھے وہ نواز شریف کے امریکی آقا، پاکستان میں امریکی سفیر، امریکی سیکریٹری خارجہ اور دوسرے سیاسی و فوجی اہلکار تھے۔ یہی وہ لوگ تھے جنھوں نے سب سے پہلے سر جوڑ کر نواز شریف کو پانچ سالہ عرصہ اقتدار کے لیے لائحہ عمل بنا کر دیا اور پھر اُسے قوم سے خطاب کرنے کی اجازت دی۔
اِن سر جوڑے امریکیوں نے یہ فیصلہ کیا کہ پاکستان کے توانائی کے شعبے کی نجکاری کی جائے جبکہ اس شعبے کی نجکاری بذات خودمہنگی بجلی اور اور اس کی قلت کی بنیادی وجہ ہے۔ نجی کمپنیاں مسلسل بجلی مہنگی کرنے کا مطالبہ کرتیں ہیں تا کہ اپنے نفع کو بڑھا سکیں اور جب ایسا نہیں ہوتا تو وہ اپنی پیداوار کم کردیتی ہیں یہاں تک کہ بجلی کی پیداوار 10000میگاواٹ یومیہ رہ جاتی ہے جبکہ یومیہ پیداواری استعداد 20000میگاواٹ سے بھی زائد ہے۔ اور جب بجلی مہنگی کردی جاتی ہے تو وہ پوری پیداواری استعداد کے مطابق بجلی پیدا کرتے ہیں لیکن اس سے عوام کی کمر ٹوٹ جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نواز شریف نے اپنی تقریر میں پاکستان میں توانائی کے بحران کی اس بنیادی وجہ کو بیان ہی نہیں کیا کیونکہ اس کو اپنے دماغ کو استعمال کرنے کی اجازت ہی نہیں ہے اور اُس کے لب محض امریکی احکامات کا اعلان کرنے کے لیے ہی آزاد ہیں۔
اِن سر جوڑے امریکیوں نے ہی یہ فیصلہ بھی کیا کہ پاکستان مقبوضہ کشمیر میں جاری ظلم و ستم کو نظر انداز کرے اور اس کی بجائے دنیا کے سب سے بڑے صلیبی دہشت گرد امریکہ کی قبائلی علاقے کے مسلمانوں کے خلاف نام نہاد "دہشت گردی کے خلاف جنگ" میں اس کی شکست کو کامیابی میں تبدیل کرنے کے لیے اپنی توجہ مرکوز رکھے۔ اسی امریکی حکم کے تحت پاکستان میں ریمنڈ ڈیوس نیٹ ورک قائم کیا گیا تھا جو مساجد اور بازاروں میں ہونے والے بم دھماکوں کی نگرانی کرتا ہے تا کہ ہماری افواج کو قبائلی علاقوں میں کاروائی کرنے کے لیے جواز فراہم کیا جاسکے۔ یہی وجہ ہے کہ جب پاکستان میں امریکی راج کے ترجمان جناب نواز شریف نے 40000ہزار پاکستانیوں کے قتل کا ذکر کیا تو اُس نے اِس قتل عام کے ذمہ داران امریکی انٹیلی جنس، نجی امریکی فوجی تنظیموں، امریکی اڈوں، قونصلیٹس اور سفارت خانوں کے متعلق ایک لفظ بھی بولنا گوارہ نہ کیا۔
جہاں تک وزیر اعظم کا کشمیر کو پاکستان کی شہہ رگ قرار دینے کا تعلق ہے تو اُس نے اس بات کی تصدیق کردی کہ وہ خطے میں امریکی بالادستی کے منصوبے کی تکمیل کے لیے اس شہہ رگ کو کچل دینے کے لیے تیار ہے۔ اسی لیے اُس نے بھارت کے ساتھ تجارتی و سفارتی تعلقات میں بہتری کے لیے کشمیر کی آزادی کو ایک شرط کے طور پر پیش نہیں کیا تا کہ بھارت کو امریکی کیمپ میں لاسکے اور امریکہ بھارت کو چین اور امت مسلمہ کے خلاف استعمال کرسکے۔
پاکستان پر بڑھتے ہوئےاستعماری اداروں کے قرضوں کے متعلق نواز شریف نے کہا کہ ان میں اضافہ پچھلے دور حکومت میں ہوا ہے لیکن جانتے بوجھتے یہ نہیں بتا یا کہ اس کی اصل وجہ سود ہے۔ درحقیقت یہ سود ہی تھا جس نے اس سے پچھلے دو دور حکومت کے دوران بھی قرضوں میں اضافہ کیا اور اس دور حکومت میں بھی اسی وجہ سے قرضوں میں مزید اضافہ ہی ہوگا۔
یہ کہا جاتا ہے کہ اگر تمھارے پاس کچھ کہنے کو نہیں تو بہتر ہے کہ خاموش رہا جائےکیونکہ پھر جو کچھ تم کہو گے اس سے نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ یقیناً نواز شریف کا قوم سے خطاب پاکستان میں امریکی راج کو قائم رکھنے کا اعلان ہے جیسا کہ اس سے قبل کیانی و زرداری اور مشرف و عزیز حکومت کرتی رہی ہیں۔قوم کے سامنے اس بات کو ثابت کرنے کے بعد کہ وہ امریکی راج کا نگہبان ہے ، قوم کے لیے جو واحد خدمت وہ کرسکتا ہے وہ یہ ہے کہ وہ اقتدار کی کرسی سے اتر جائے اور خلافت کے واپسی کے لیے راستہ چھوڑ دے۔
اے افواج پاکستان کے مخلص افسران! کب تک ان جیسے بےوقوف حکمرانوں کے ہاتھوں اپنی قوم کو تکلیف میں مبتلا رہنے کے اجازت دیتے رہیں گے جبکہ آپ نے اپنی قوم کے دفاع کی قسم کھائی ہے؟ کب تک تم امریکی ٹاؤٹوں کو مسلم دنیا کے سب سے طاقتور ملک کی قسمت سے کھیلنے کا موقع فراہم کرتے رہو گے؟ اب یہ آپ پر لازم ہے کہ خلافت کے قیام کے لیے حزب التحریر کو نصرۃ فراہم کریں جو مشہور فقہہ اور رہنما شیخ عطا بن خلیل ابو الرَشتہ کی قیادت میں خلافت کی قیام کی شدید جدوجہد کررہی ہے تا کہ امت کو ایک بار پھر خوشحالی اور امن کے دور میں لے جایا جائے۔ حزب التحریر کے ہاتھ تم مضبوطی سے تھام لو اور اپنے اُن بھائیوں، انصار کو یاد کرو جنھوں نے مدینہ میں پہلی اسلامی ریاست کے قیام کے لیے رسول اللہ ﷺکو مدد فراہم کی تھی۔ انصار کا یہ عمل اس قدر عظیم تھا کہ جب ان میں سے سعد رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا اور ان کی والدہ رونے لگیں تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مت رو اور انھیں بتایا کہ ليرقأ (لينقطع) دمعك، ويذهب حزنك، فإن ابنك أول من ضحك الله له واهتز له العرش " تمھارے آنسو تھم جائیں اور تمھارا غم کم ہو جائے اگر تم یہ جان لو کہ تمھارا بیٹا وہ پہلا شخص کہ جس کے لیے اللہ سبحانہ و تعالی مسکرایا اور اس کا عرش ہل گیا ہے"(الطبرانی)

Read more...

سوال کا جواب: کس چیز نے امریکہ کو مرسی کا تختہ الٹنے پر مجبور کردیا؟


سوال:

مصر میں جو کچھ رونما ہوا اس کوبغاوت کہنے میں اب بھی امریکہ کو تردد ہےبلکہ وہ اس روڈ میپ کی پشت پناہی کر رہا ہے جس کا اعلان عبوری حکومت کر چکی ہے۔امریکی محکمہ خارجہ کی خاتون ترجمان نے یہ کہہ کر اس کی وضاحت کی ہے کہ :''اگلے مرحلے کے لیے عبوری حکومت کی جانب سے روڈ میپ کا اعلان حوصلہ افزا امر ہے''جیسا کہ الجزیرہ نیٹ نے 11/07/2013کو نقل کیا۔امریکی وزارت خارجہ کی ترجمان''جین ساکی'' نے 12/07/2013 کو یہ وضاحت کی کہ معزول صدر مرسی کی حکومت''جمہوری نہیں تھی''جیساکہ مصری اخبار (الیوم السابع المصریہ)میں آیا۔اسی طرح وائٹ ہاوس کے ترجمان جے کارنی نے 11/07/2013 کو صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہاجس کو الجزیرہ نیٹ نے نقل کیا کہ ''ہم اس کی نگرانی کر رہے ہیں کہ اتھارٹیز کیا کر رہی ہیں اور وہ موجودہ صورت حال سے کس طرح نمٹ رہے ہیں'' جس میں 03/07/2013 کو مصر کی مسلح افواج کے سربراہ اور وزیر دفاع عبد الفتاح السیسی کی جانب سے محمد مرسی کو معزول کرنے اور آئنی عدالت کے سربراہ عدلی منصور کو عبوری صدر مقرر کرنے کی طرف اشارہ تھا۔
آخر کس چیز نے امریکہ کو مرسی کا تختہ الٹنے پر مجبور کیا حالانکہ پہلے دن سے ان کو امریکہ کی آشیر باد حاصل تھی؟جو کچھ ہوا اس کو امریکہ نے بغاوت قرار کیوں نہیں دیا اورآج کے دن تک بدستور اس کی نگرانی کر رہاہے ۔اس سب سے کیا نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے؟

جواب :
اس کے جواب کے لیے مندرجہ ذیل نکات کا احاطہ کرنے کی ضرورت ہے:
1 ۔ گزشتہ سال جس وقت صدارتی انتخابات کا اجراء کیا گیا اس کے دو مرحلے تھے پہلہ مر حلہ 23/24 مئی 2012 کا تھا جس میں مرسی کامیابی حاصل نہیں کر سکے بلکہ ووٹ کئی امیدواروں کے درمیان تقسیم ہوگئےجبکہ دوسرا مرحلہ 16/17 جون 2012 کو اختتام پذیر ہوا جس میں احمد شفیق کے48.27% (12ملین ووٹ )کے مقابلے میں 51.73% (13ملین ووٹ) سے مرسی کو کامیاب قرار دیا گیا،جس کا یہ مطلب ہے کہ ووٹنگ میں حصہ لینے والوں میں سے تقریباً آدھوں نے مرسی کی صدارت کو قبول نہیں کیا بلکہ سابقہ حکومت، جس کے خلاف انہوں نے بغاوت کی تھے، کے ایک فرد کو ہی ترجیح دی۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ صدارتی انتخابات کے نتائج کے اعلان میں تاخیر کی گئی جو پسِ پردہ ہونے والے گٹھ جوڑ کی نشاندہی کرتا ہے۔اس کے بعد احمد شفیق کے مقابلے میں مرسی کی کامیابی کا اعلان کیا گیا۔یہ تب ہوا جب مرسی نے امریکیوں کو یقین دہا نی کرائی کہ وہ ان تمام معاہدوں کی پاسداری کرے گا جو سابقہ حکومت نے کیے ہیں خاص کر کیمپ ڈیوڈ کا معاہدہ اوریہ معاملہ امریکہ کے لیے بہت اہم تھا جو کہ انتخابات سے قبل اور بعد کی امریکی بیانات سے واضح ہے۔ امریکی سفیر نے 30/11/2012 کو کویتی اخبار الرای سے بات کرتے ہوئے کہا کہ''امریکہ ،مصر اور اسرئیل کے مابین ہونے والے امن معاہدے کا پابند ہے اور وہ اس کو خطے میں امن اوراستحکام کے لیے اہم سمجھتا ہے اورسب سے پہلے یہ مصر اور اسرائیل کی عوام کی خوشحالی کے لیے ہے۔ ہم اس معاہدے کو پورے خطے میں امن اور استحکام کے قیام کے لیے بنیاد سمجھتے ہیں۔ لہذا اس بات سے ہمیں خوشی ہوئی کہ مصر کی حکومت نے حامی بھری ہے کہ وہ مصر کے تمام بین الاقوامی معاہدات کا احترام کرے گا۔'' اس نے مزید کہا کہ : '' ہم سیناء میں امن وامان کی صورت حال اور دوسرے اہم مشترکہ مسائل کے حوالے سے مصر اور اسرئیل کی براہ راست بات چیت کو جاری رکھنے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اورہم اس پر زور دے رہے ہیں کہ سیناء میں امن امان سب سے اہم اور ہر چیز پر مقدم ہے۔'' یہ تمام بیانات اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ دشمن کے خلاف جہاد کی بات کرنے والی مسلح تحریک کے خلاف مصری حکومت کی جانب سے کئی مہینوں تک کی یلغار کے پیچھے امریکہ اور یہودی ریاست تھی۔
2۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے مرسی کی حمایت کی تھی اور اس کے اقتدار کو قائم رکھنے کے لیے کام کرتا رہا۔ اس نے سب پہلے امریکی مفادات اور یہودیوں کی حفاظت کی خاطر غزہ میں یہودی وجود اور حماس کی حکومت کے مابین جنگ بندی کروائی۔ یہ اس درجے کی عملی جنگ بندی تھی کہ جس میں حماس نے اپنے بعض عناصر کو اپنے اور یہود ی وجود کے درمیان اس لیے کھڑا کیا کہ وہ یہودی وجود کے خلاف کسی کاروائی کو یا اس پر کسی قسم کی فائرنگ کو روکیں!غزہ کے حوالے سے مرسی کے اس اقدام کی امریکہ نے زبردست تعریف کی۔
اسی طرح آئینی فیصلے کے معاملے میں بھی مرسی کو استثنی دینے کے حوالے سے اس کی حمایت کی گئی۔ اس دن امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان وکٹوریا نو لینڈ نے اس طرح صدر مرسی کا دفاع کیا کہ ''صدرمرسی نے عدلیہ اور دوسرے اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ تبادلہ خیال کیاہے ۔میرے خیال میں اب تک ہمیں علم نہیں کہ اس تبادلہ خیال کے کیا نتائج نکلیں گے لیکن صورتحال ایسی با لکل نہیں کہ (صدر مرسی کا موقف یہ ہوکہ ) جومیں کہوں وہی ہے ورنہ کچھ بھی نہیں'' (الشرق الاوسط نیوزایجنسی 27/11/2012 )۔
نولینڈنے احتجاج کرنے والوں کے اس دعوے کو مسترد کیا جومرسی کو ڈکٹیٹر یا مصر کا نیا فرعون کہتے تھےاورمرسی کا اور اس کے فیصلوں کا دفاع کیا۔ ملکی قیادت کو اپنے ہاتھ میں لینے کے معاملے میں بھی اس کی حمایت کی چنانچہ اس نے فوجی قیادت خاص کر وزیر دفاع اور فوج کے سربراہ حسین طنطاوی،چیف آف سٹاف سامی عنان کو ہٹادیا،اس سے متعلق ایک ائینی فیصلہ صادر کیاجس میں اس کے خلاف کوئی بڑی مخالفت بھی نہیں کی گئی۔
اس کے بعد آئین کے موضوع پر بھی مرسی کی حمایت کی۔امریکی ترجمان نولینڈ نے کہا:"محترمہ کلنٹن نے اپنے قاہرہ کے دورے اور مصر کے صدر مرسی سے ملاقات کے دوران ایسے آئین کے اجراء کی اہمیت پر بات چیت کی جو مصر کے تمام باشندوں کے تمام حقوق کی حفاظت کا ضامن ہو''۔(الشرق الاوسط 27/11/2012 )۔مرسی کی حکومت اور اس کی اپوزیشن پرامریکی سیاسی اثرو رسوخ بالکل واضح ہے۔
یوں امریکی آشیر باد سے دستور کا اجراء ہو گیاجو کہ سابقہ حکومت کے 1971 کے آئین کا'' نظر ثانی شدہ "نسخہ ہے جس کے لیے عوامی ریفرنڈم کرایا گیا جس میں%9.32نے حق رائے دہی کو استعمال کیا جو کہ ووٹ کا حق رکھنے والے کل لوگوں کا ایک تہائی حصہ بنتا ہے جبکہ دو تہائی نے اس ریفرنڈم کا بائی کاٹ کیا۔ ان ایک تہائی رائے دہندگان کی%8.63 نے اس کی حمایت کی !لہذا لوگوں کی اکثریت اس دستور،صدر اور اس کے فیصلوں سے راضی نہیں تھیں۔
3۔ امریکہ نے صورت حال کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی اور صدر،اس کے فیصلوں اور دستور کے حوالے سے لوگوں کو قائل کرنے کی تگ ودو کی تاکہ اس حکومت کو مستحکم کر سکے جس کو انقلاب کے بعد وہ اپنی مٹھی میں رکھنے میں کامیاب ہوا تھا۔ لیکن اس کے باوجود بھی وہ استحکام حاصل نہ ہو سکا جو مرسی اور اخوان سے نیشل پارٹی کی تحلیل کے بعد بطور سب سے بڑی منظم پارٹی کے امریکہ توقع رکھتا تھا۔ وہ یہ توقع کرتے تھے کہ اسی طرح صورت حال کو قابو کرنے کے لیے کام کریں گے جس طرح نیشنل پارٹی نے 30 سال تک معزول صدر کے ساتھ کیا۔ امریکہ یہ چاہتا ہے کہ مصر امریکی نفوذ کے استحکام کا مرکز بن جائے۔ یہاں مطلوبہ استحکام مصرکی خاطر نہیں ہے بلکہ امریکہ خطے میں اپنے اثر ونفوذ اور منصوبوں کے لیے مستحکم پلیٹ فارم چاہتا تھا۔ تا ہم صورت حال غیرمستحکم ہی رہی۔
حالات کے بگڑنے میں صدرکی جانب سے فیصلے کرنے کے حوالے سےموجود ہچکچاہٹ نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ وہ ایک فیصلہ کرتا اور پھر دباو میں آکر اس سے رجوع کرتا۔ اسی طرح اتحادیوں سے مشورہ کیے بغیر تن تنہا فیصلہ کرتا ان کو قائل کرنے کی بھی کوشش نہ کرتا۔ کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے رائے عامہ ہموار کرنے یا رائے عامہ کو جاننے کی بھی زحمت گوارہ نہ کرتا۔ یوں صدر کے اس ایک سالہ دور کے دوران افراتفری اور اس کے خلاف انقلاب بر پا کرنے کی کوششیں جاری رہیں۔
اس کے بعد 28/06/2013 کو اس کے تفصیلی خطاب کے بعد معاملات اور پیچیدہ ہوگئے۔ ڈاکٹر مرسی کی صورت حال سنگین ہوگئی اوراس نے اعتراف بھی کرلیا کہ اس نےغلطیوں کا ارتکاب کیا ہے۔ اس نے ان غلطیوں کا تعین نہیں کیا لیکن وہ 22/11/2012 کے اپنے اس دستوری اعلان کی طرف اشارہ کررہے تھے جس نے لوگوں کو اس کے خلاف بڑھکایا اور لوگ اس جانب راغب ہوئے کہ وہ اس کو ہٹانے کا مطالبہ کرنے لگے۔ 02/07/2013 کو اپنے آخری خطاب میں محمد مرسی نے غلطیوں کے ارتکاب کی اپنی بات کو دہراتے ہوئے کہا کہ ان سے کوتاہی ہوئی ہے اور وہ ان کا تدارک کرنے کے لیے بھی تیار ہیں،جو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ کسی بھی درمیانی حل کو قبول کریں گے،یہ فوج کی طرف سے اس کو 48 گھنٹوں کا الٹی میٹم دینے کی دھمکی کے بعد تھا،جس کا مطلب یہ ہے کہ فوج کی جانب سے اور فوج کی پشت پناہ یعنی امریکہ کی جانب سے مرسی کو کرسی سے ہٹانے کا فیصلہ ہو چکا تھا۔ یاد رہے کہ مذکورہ تمام فیصلوں میں اس کو امریکہ کی آشیرباد حاصل تھی لیکن جس وقت ان اقدامات کے نتائج خلاف توقع نکلے تو امریکہ اس کی حمایت سے دست بردار ہوگیا اور اس کے سقوط کا تماشا دیکھنے لگا بلکہ اس کے خلاف سازشیں کرنے لگاجیسا کہ وہ اپنے ہر اس ایجنٹ کے ساتھ کرتا ہے جو عبرت حاصل نہیں کرتا!
4۔ یوں ہم نے امریکہ کی جانب سے اس سے دستبرداری اور اس کے فیصلوں سے لاتعلقی کو دیکھا، امریکی ٹی وی چینل ''CNN" نے 02/07/2013 کو اعلی امریکی عہدہ داروں کے حوالے سے یہ خبر دی کہ''مصر میں امریکی سفیر ''این پیٹرسن اوروائٹ ہاوس کے دوسرے عہدہ داروں نے کہا ہے کہ مصر کے لوگ اپنے احتجاج میں جو مطالبات پیش کر رہے ہیں وہ بڑی حد تک ان اصلاحات سے مطابقت رکھتی ہیں جن کا مطالبہ واشنگٹن اور اس کے اتحادی کئی ہفتوں سے کر رہے ہیں۔" اس کی تائید 02/07/2013 کو رائٹرز میں شائع ہونے والے وائٹ ہاوس کے اس بیان سے بھی ہو تا ہے کہ :''صدر اوباما نے صدر مرسی پر زور دیا کہ وہ ایسے اقدامات کریں کہ جن سے یہ واضح ہو کہ وہ مظاہرین کے مطالبات کو پورا کر رہا ہے۔" اوبامہ نے اس پر بھی زور دیا کہ ''موجودہ بحران کا حل صرف سیاسی عمل کے ذریعے سے ہی ممکن ہے"جس کا یہ مطلب ہے کہ امریکہ نے مرسی کے سر سے دستِ شفقت اٹھا دیا اور وہ اب نئے سیاسی عمل کا متلاشی تھا۔ اس بیان میں یہ نہیں کہا گیا کہ وہ مصر کے منتخب صدر کی حمایت کرتا ہے بلکہ ان سے مظاہرین کے مطالبات کو پورا کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے جو صدرکو برطرف کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے!مصر میں مرسی کا تختہ الٹنے کے فوراً بعد اوبا مہ نے وائٹ ہاوس کے اپنے بڑے مشیروں کے ساتھ مصر میں رونما ہونے والے صورتحال کے حوالے سے میٹنگ کا اعلان کر دیا جس کے بعد اس نے کہا:''مصر کی مسلح افواج کو چاہیے کہ انتہائی ذمہ داری سے جس قدر جلد ممکن ہو سکے اقتدار کو سول حکومت کے حوالے کرے"(رائٹرز 03/07/2013 )۔ اوبامہ نے اس انقلاب کی کوئی مذمت نہیں کی بلکہ اس کو فوجی انقلاب تک قرار نہیں دیا۔ اس نے برطرفی کے بعد مرسی کی بحالی کا بھی کوئی مطالبہ نہیں کیا،نہ ہی مرسی کے وزیر اعظم کو اس کے منصب سے ہٹانے اور ایک سال قید کی مخالفت کی!بلکہ اقتدار سول حکومت کو منتقل کرنے کا مطالبہ کیا یعنی اقتداربرطرف حکومت کو نہیں بلکہ کسی نئی حکومت کومنتقل کرنے کا مطالبہ کیا۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس انقلاب کو اور مرسی اور اس کی حکومت کو برطرف کرنے کے عمل کو امریکی سرپرستی حاصل تھی بلکہ امریکی انتظامیہ نے یہ کہہ کر اس پر تبصرہ کیا کہ:''مرسی نے عوام کی آواز پر کان نہیں دھرا نہ ہی اس کا جواب دیا"(مذکورہ بالا حوالہ)مصر کی عسکری قیادت نے بھی بالکل یہی بات کی کہ''صدر مرسی نے عوامی مطالبات کوپورا نہیں کیا۔" یہ سب جانتےہیں کہ مصر کی فوجی قیادت امریکہ کی جیب میں ہوتی ہے اورامریکہ کی بیشتر امداد جو سالانہ ڈیڑھ ارب ڈالر ہے فوج ہی کو ملتی ہے۔
5۔ مرسی اورالاخوان یہ سمجھ نہ سکے،بلکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ڈاکٹر مرسی امریکہ کی پالیسیوں پر گامزن ہو کر امریکی حمایت کے بارے میں دھوکہ کھا گئے،اس کے مفادات کی نگہبانی کرتے ہوئے اور ان معاہدوں کی پاسداری کرتے ہوئے جو مصر کی جمہوری حکومت نے کیے تھے خاص کر کیمپ ڈیوڈ کا معاہدہ۔پھرامریکہ نے فوج کی پرانی قیادت کو بھی ہٹادیا اور نئی قیادت لاکر ان کو مرسی کا ہمنوا بنادیاجس سے مرسی اس غلط فہمی کا شکار ہوگئے کہ امریکہ کبھی اس کی حمایت سے دستبردار نہیں ہو گا۔ وہ اس بات پر مطمئن تھے کہ امریکہ نام نہاد معتدل اسلام پسندوں کو یا حالات سے سمجھوتہ کرنے والوں کو اقتدار میں لانے اور ان پر دستِ شفقت رکھنے کی پالیسی پر کاربندہے جیسا کہ ترکی میں ہوا۔ وہ یہ نہ سمجھ سکے کہ امریکہ اپنے کسی ایجنٹ سے استعمال کرنے کے بعد یا ناکام ہونے پر اور ملک میں مستحکم حکومت قائم کرنے میں ناکام ہونے کی صورت میں دستبردار ہو جاتا ہے اور اس کی جگہ دوسرا ایجنٹ لاتا ہے،جیسا کہ مرسی کے پیش رو حسنی مبارک کے ساتھ ہوا جو امریکہ کا انتہا درجے کا وفادار تھا اور اسی خوش فہمی میں اپنے بیٹے کو اپناجانشین بنا رہا تھا۔
لیکن جب اس کے خلاف ایک عوامی تحریک برپا ہوگئی اور امریکہ نے دیکھا لیا کہ وہ اس پر قابو پانے کے قابل نہیں رہا اور یہ مصر میں امریکی مفادات کے حصول کے لیے استحکام نہیں لا سکتا تو اس کو ایک طرف کر کے اس تحریک کی لہروں پر سوار ہوکر مرسی کو لے آیا۔
مرسی کے ساتھ بھی یہی ہوا کہ امریکہ نے دیکھا کہ وہ امریکی مفادات کی حفاظت کے سلسلے کو جاری رکھنے اور اس کے اثرو نفوذ کو دوام بخشنے کی خاطر مستحکم حکومت قائم نہیں کر سکتا تو اس کو بھی ایک طرف پھینک دیا۔
یہ کوئی نیا معاملہ نہیں تھا بلکہ ایک عرصے سے اس پر کام ہو رہا تھا۔''مصر کی عوامی تحریک" کی ویب سائٹ، جو کہ ایک لبرل سائٹ ہے، نے دو مہینے سے بھی زیادہ عرصے پہلے 22/04/2012 کواس عنوان سے خبردی تھی کہ "عسکری مداخلت کے بارے میں امریکی شرط یہ ہے کہ وہ فوجی انقلاب نہیں نظر آنی چاہیے! " اس سائٹ نے کہا تھا کہ ''ایک شخص ،جس کے نام کو ہم صیغہ راز میں رکھ رہے ہیں، گزشتہ دنوں امریکہ کا دورہ کر کےواپس آیاہے۔ اپنے اس دورے میں انہوں نے امریکی انتظامیہ کے چوٹی کے اہلکاروں،پینٹاگون اور قومی سلامتی کے عہدہ داروں سے تفصیلی تبادلہ خیال کیا جس میں اخوانی حکومت کے حوالے سے امریکی موقف کے بارے میں بات چیت ہوئی۔" سائٹ نے یہ بھی کہا کہ''جان کیری، جو ان ملاقاتوں میں تھا، نے عوام کی طرف سے سڑکوں پر نکلتے وقت واقعات پر قابو پانے اور مختلف گروہوں کے درمیان خانہ جنگی کو روکنے کے سلسلے میں مصری فوج کے اہم کر دار کے بارے میں بات کی۔ پھر کیری نے مزید کہا:''مجھے الاخوان کی کمزوری اور بات چیت میں ان کی ناکامی دیکھ کر صدمہ ہوا،مجھے یقین ہے کہ وقت آنے پر فوج اپنا کردار ادا کرے گی۔ مذکورہ شخص نے مزید کہا کہ :بات چیت میں اخوانی حکومت کے متبادل کے موضوع پر بات ہوئی اور اس پر بھی کہ عبوری دور میں انتظامی ذمہ داری فوج کی ہو گی،سائٹ نے پینٹاگون کے ایک اعلی عہدہ دار جو کہ American Brookings Institution))کا بھی رکن ہے اور اس ملاقات میں موجود تھاکا قول نقل کیا ہے کہ :''وہ اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ مرسی اقتدار سے الگ ہونے کا قائل بھی ہو جائے، چاہتے ہوئے یا نہ چاہتے ہوئے تو بھی بہر حال اس کے حامی اس بات کو قبو ل نہیں کریں گے۔ یہا ں ایک بار پھر مصر کے لوگوں کو کردار ادا کرنا ہو گا کہ وہ بڑی تعدا میں متحرک ہو کر مرسی کی برطرفی کا مطالبہ اور فوج کی حمایت کریں۔" یہ بات 22/04/ 2013 کو یعنی انقلاب کے رونما ہونے سے دو ماہ سے بھی زیادہ عرصہ پہلے افشاں ہوئی جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ امریکہ ہی نے اس انقلاب کی اس دن سے ہی منصوبہ بندی کی تھی۔ اسی نے چاہا کہ معاملات اس نہج کو پہنج جائیں۔ جب 03/07/2013 کو مرسی کا تختہ الٹ دیا گیا تو اس کو انقلاب کہنے سے باز رہا،بلکہ انتہائی مبہم قسم کے بیانات دیتا رہا جیسے''ہم صورت حال کو دیکھ رہے ہیں"، "صورتحال پر مسلسل ہماری نظر ہے"، ''مرسی جمہوری نہیں تھا"، "عبوری حکومت کی جانب سے روڈ میپ مقرر کرناحوصلہ افزا امرہے" جیسا کہ سوال میں کہا گیا ہے۔
6۔ معزول صدر کے حامی احتجاج کے لیےسڑکوں پر آگئے ہیں،اگرانھوں نے اپنے احتجاج کو جاری رکھا ،اس کو آگے بڑھایا اور عوام کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہوگئے تو یہ اس بات کی ضمانت ہو گی کہ وہ عسکری ادارے اور امریکہ کو پریشان کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے یوں امریکہ الاخوان تحریک کے ساتھ سودابازی پر مجبور ہوگا،خاص کر جبکہ ان کے ہاتھ فائدہ مند پتے موجود ہیں جو یہ ہیں کہ مرسی عوم کا منتخب صدر تھا،آئینی عدالت ،عسکری ادارے ،بین الاقوامی اداروں،امریکہ اور تمام ممالک کے لیے قابل قبول تھا،ان کے معیار کے لحاظ سے ایسا کوئی کام نہیں کیا تھا کہ اس کو برطرف کیا جائے۔ وہ ایسے انتخابات کے ذریعے اقتدار تک پہنچے تھے جن کی شفافیت کا اعتراف کیا گیا تھا پھر فوجی طاقت کے ذریعے برطرف کیا گیا۔ اس سے ان کے موقف کو تقویت ملے گی اور ان کو جواز ملے گا جس سے وہ دوسرے لوگوں کی ہمدردیاں حاصل کرسکیں۔
جن لوگون نے فوجی انقلاب کی حمایت کی اور صدر کو برطرف کیا تو ان کا موقف اس لحاظ سے کمزور ہے کہ وہ فوجی حکومت کو بھی مسترد کرتے ہیں اور انتخابی عمل پر اصرار کر رہے ہیں اور ساتھ ہی وہ عسکری طریقے سے تبدیلی کی بھی حمایت کرتے ہیں! یوں الاخوان انقلاب کو ناکام بنا کر دوبارہ اقتدار میں آسکتے ہیں یا نئی صورت میں کوئی بڑا حصہ دار بن سکتے ہیں،خصوصاً جب وہ لوگوں کے جذبات کوبڑھکانے میں کامیاب ہو جائیں۔ اگر معزول صدر کے حامی مذاکرات اور پیچھے ہٹنے پر راضی ہوئے تو زبردست نقصان اٹھائیں گے جس کی وجہ سے ان کو ندامت کا سامنا ہو گا اور پھر ندامت کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا،یوں ان کی جدوجہد سیاست کے دشت و صحرا اور اس کے بارے میں بیداری نہ ہونے کی وجہ سے رائیگاں جائے گی!
7۔ ہم ایک زمینی حقیقت کے بیان کے ساتھ اس جواب کو ختم کرتے ہیں اور وہ یہ کہ جو بھی اللہ کی ناراضگی مول لے کر لوگوں کو خوش کرے گا اللہ اس کو لوگوں کے ہی حوالے کرے گا،وہ مجبور ہو گا اور لوگوں کے ساتھ اس کا تعلق بھی خراب ہو گا۔ اس کا مشاہدہ کیا جاتا ہے اور یہ محسوس بھی ہو تا ہے۔ مرسی اور الاخوان نے بھی امریکہ کو راضی کرنے کی کوشش کی،اس کے منصوبوں کی حمایت کی اور کیمپ ڈیوڈ کے اس معاہدے کی پاسداری کی جو مسئلہ فلسطین اور سیناء کو کمزور کرتا ہے جوفلسطین کو غصب کرنے والی یہودی وجود کا اقرار اور اعتراف کر تا ہے۔ مرسی اپنے کئی نعروں سے بھی دستبردار ہوا اور جمہوری نظام حکومت اور سکیولر عوامی جمہوری حکومت پر راضی ہوا،جب صدر بنایا گیا اسی کے لیے حلف اٹھا یا،اسلام اور اسلام کی حکمرانی کو پس پشت ڈال دیا،یہ سب کچھ اس نےامریکہ کو راضی کر نے کے لیےکیا تاکہ ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر کرسی پر بیٹھا رہےلیکن آخر میں اپنا نقصان کر بیٹھاسوائے اس کے کہ اگر توبہ کرے اور اپنی اصلاح کرے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرما یا کہ ((من أرضى الناس بسخط الله وكله الله إلى الناس ومن أسخط الناس برضا الله كفاه الله مؤنة الناس)) (الترمذی)، "جو اللہ کو ناراض کر کے لوگوں کو راضی کرے گا اللہ اس کو لوگوں کے حوالے کرے گا اور جواللہ کو راضی کرنے کے لیے لوگوں کو ناراض کرے گا اللہ اس کو لوگوں کے شر سے بچانے کے لیے کافی ہو گا"۔
8۔ بالکل آخر میں یہ یاد دہانی کراتے ہیں کہ ہم نے اس سے پہلے مرسی کو دوبار نصیحت کی۔ دونوں بار ہم نے پمفلٹ شائع کیا پہلی بار 26/06/ 2012 کو جبکہ دوسری بار 13/08/ 2012 کو۔ پہلے پمفلٹ میں ہم نے کہا تھا:
۔۔۔۔''پھر خالص نصیحت کے ذریعے ہم مصر کے نئے صدر کی طرف متوجہ ہوتے ہیں:اللہ سے ڈرو اور ایسی عوامی جمہوری ریاست کی دہائی دینے سے باز آو جو فکر اور منہج کے لحاظ سے خواہشات پر مبنی ہو۔ حق کی طرف رجوع افضل ہے،یہ اس لیے کہ کہیں تم مکمل دنیاوی نقصان نہ کر بیٹھو کیونکہ کافی نقصان تم پہلے ہی کر چکے ہو جب فوجی کونسل تمہارے اختیارات کم کر کے تمہارے پر کاٹ چکی ہے۔ اور کہیں تم امریکہ اور مغرب کو راضی کرنے کی خاطر عوامی جمہوری ریاست کا راگ الآپ کراور خلافت کے قیام اور اللہ کی شریعت کے نفاذ سے پہلو تہی کر کے امریکہ اور مغرب کےکو مالک کوناراض کر کےآخرت تباہ کر بیٹھو۔ یقیناً تم نے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث پڑھی ہوگی ((من أرضى الناس بسخط الله وكله الله إلى الناس ومن أسخط الناس برضا الله كفاه الله مؤنة الناس)) "جو اللہ کو ناراض کر کے لوگوں کو راضی کرے گا اللہ اس کو لوگوں کے حوالے کرے گا اور جواللہ کو راضی کرنے کے لیے لوگوں کو ناراض کرے گا اللہ اس کو لوگوں کے شر سے بچانے کے لیے کافی ہو گا" (الترمذی) ابو نعیم نے الحلیہ میں اس کو عائشۃرضی اللہ عنھا سے روایت کیاہے۔
یہ نصیحت صرف اللہ سبحانہ وتعالی کے لیے ہے اس کے بدلے ہم تم سے کسی جزاء یا شکریے کے طلبگار نہیں،یہ ہم صرف اس لیے کر رہے ہیں کہ کہیں کفار اور ان کے ایجنٹ اور تمام اسلام دشمن قہقہے لگا کر نہ ہنسیں کہ سول جمہوری ریاست کے ان کے مشن کے علمبردار خود مسلمان بن گئے، اخوان المسلمون بن گئے،انا للہ وانا الیہ راجعون"۔
دوسرے پمفلٹ میں ہم نے کہا تھا کہ" ہم اپنے بیان کومکمل کرتے ہوئےصدر محمد مرسی کو کی گئی اس نصیحت کو دہراتے ہیں اگرچہ اس نے ہماری پہلی نصیحت پر عمل نہیں کیا۔ ہم کسی مسلمان کو نصیحت کرنے سے کبھی مایوس نہیں ہوتے ،خصوصاً جب وہ حکمران ہو،اس لیے ہم پہلی نصیحت کے بعد ایک بار پھر نصیحت کرتے ہیں:اگر چہ پرانے اور نئی سیاسی میڈیم میں امریکہ کے ہاتھ پہچے ہوئے ہیں،لیکن ان بازوں کو کاٹ ڈالنا ممکن اور آسان ہے،ایک دفعہ غلطی کر کے اگلی غلطی سے پہلے اس کا تدارک کرنا غلطی کو باربار دہرانے سے بہتر ہے،امریکہ کے دست وبازو کے ساتھ محبت اور قربت کا کوئی فائدہ نہیں۔بلکہ ان کو مڑنا اور کاٹ کر پھینک دینا زیادہ بہتر ہے،ورنہ ندامت کا سامنا ہو گا اور اس وقت ندامت کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا!زمین پر اللہ کا تیر کش(مصر) ہر قسم کی قوت اور طاقت سے مالامال ہے،اس کی تاریخ اس کی شاہد ہے،جو بھی حقیقی معنوں میں اللہ کے ساتھ ہوا وہی غالب ہے،قرآن حکیم اس کے بارے میں گویا ہے،خود صدر نے بھی اپنے آخری خطاب میں اس کو دہرایا ﴿والله غالبٌ على أمره ولكن أكثر الناس لا يعلمون﴾ "اللہ ہی فیصلے میں غالب ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے"۔جی ہاں اللہ نے سچ فرمایا ہے،﴿ومن أصدق من الله حديثا) "اللہ سے زیادہ سچی بات کس کی ہو سکتی ہے"۔
اے اللہ ہم نے پہنچا یا تو گواہ رہ۔۔۔۔۔اے اللہ ہم نے پہنچا یا تو گواہ رہ۔۔۔۔۔۔ اے اللہ ہم نے پہنچایا تو گواہ رہ۔

Read more...

لوگوں نے کشمیر سے دستبردار ہونے اور مشرک ریاست کو انعام میں دینے کے لیے نہیں بلکہ افواج کے ذریعے جہاد کرتے ہوئے اِسے آزاد کرانےکااختیار( مینڈیٹ) دیا ہے


ڈیلی ٹیلیگراف کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے 23 اگست 2013 کو پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف نے پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی میں کمی کی دعوت دی۔ یہ کمزور اور بزدلانہ ردعمل بھارتی افواج کے ہاتھوں شہید ہونےوالے مسلمانوں، افسران اور سپاہیوں کے مقدس خون کی توہین ہے جبکہ بھارتی افواج مسلسل سرحدوں پرفائرنگ کررہی ہیں۔ جہاں تک جنرل کیانی کا تعلق ہے تو اس نے قبائلی علاقوں میں امریکی صلیبی جنگ پر مسلمانوں کی توجہ مرکوز کی ہوئی ہے جبکہ بھارتی جنرلز پاکستان کو دھمکیاں دیے چلے جارہےہیں۔
بزدل بھارت کی جارحیت کے جواب میں یہ کمزور اورغدارانہ ردعمل اس سرزمین کے قابل اور بہادر بیٹوں کی توہین ہے جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے محبت کرتے ہیں۔ بھارت ایک قابض طاقت ہے جو کشمیر کے مسلمانوں کا دشمن ہے اور بھارت میں بسنے والے مسلمانوں پر ظلم کرتا ہے۔ لیکن یہ ایجنٹ حکمران ان باتوں کی بالکل پرواہ نہیں کرتے کہ ان کے اس عمل کے نتیجے میں مسلمانوں کو کیا نقصان پہنچے گا کیونکہ وہ صرف واشنگٹن میں بیٹھے اپنے آقاؤں کے مفادات کی پروا کرتے ہیں۔ امریکہ بھارت کو چین کے خلاف استعمال ہونے کی صورت میں کشمیر تحفے میں دینا چاہتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ پاکستان کی افواج کشمیر کو غاصب بھارت سے آزاد کروانے کے لیے نہیں بلکہ اُن عسکریت پسندوں سے لڑیں جو اُس سے افغانستان میں لڑ رہے ہیں۔
اے افواج پاکستان کے افسران! ان حکمرانوں کو اکھاڑنے کے لیے فوراً حرکت میں آؤں اور خلیفہ راشد کو بیعت دو جو اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے تمھاری قیادت کرے گا۔ امریکی منصوبوں اوران ایجنٹ حکمرانوں کو تباہ کردو جو تم میں موجود ایمان اور طاقت کے باوجود تمھیں بھارت کے سامنے جھکنے پر مجبور کرتے ہیں اور تمھاری تزلیل کرتے ہیں۔ اللہ تمھارے ساتھ ہے اور وہ کبھی تمھارے اعمال کو ضائع نہیں کرے گا۔

((فَلاَ تَهِنُوا وَتَدْعُوا إِلَى السَّلْمِ وَأَنْتُمْ الأَعْلَوْنَ وَاللَّهُ مَعَكُمْ وَلَنْ يَتِرَكُمْ أَعْمَالَكُمْ))
"پس تم بودے بن کر صلح کی درخواست پر نہ اُتر آؤ جبکہ تم ہی بلند و غالب رہو گے اور اللہ تمھارے ساتھ ہے"(محمد:35)

Read more...

سوال کا جواب: مصر میں صلح صفائی کیسے ہوسکتی ہے؟

 

سوال: کئی مہینوں سے مصر کے شاہراہوں اور میدانوں میں تشدد، قتل، گرفتاری، تخریب کاری اور تباہی کے واقعات کا سلسلہ جاری ہے۔ معمول کی زندگی معطل ہے اور لوگ دو گروہوں میں منقسم ہو چکے ہیں۔ ۔ ۔ اس ماحول میں کئی ایک صلح صفائی کرنے کے لیے سامنے آچکے ہیں جن میں امریکہ، یورپ حتٰی کہ روس نے بھی مصر کے ساتھ رابطے کیے ہیں۔ یہ بھی بعید نہیں کہ چین بھی مداخلت کرے! اسی طرح بعض مقامی ثالث بھی درمیان میں آگئے ہیں جن میں جماعتی اور غیر جماعتی افراد شامل ہیں اور انھوں نے بھی ثالثی اور اصلاحات کی کوشش کی ۔ ۔ ۔ لیکن وہ بھی کسی نتیجے تک نہیں پہنچ سکے۔ ہم نے یہ دیکھا کہ حزب التحریر نے اس معاملے میں فریقین کے درمیان ثالثی یا صلح صفائی یا اصلاحات کی کوشش نہیں کی جبکہ جو کوئی بھی حزب التحریر کو جانتا ہے اس پر اعتماد اور اس کی عزت کرتا ہے۔ حزب التحریر یقیناً رسول اللہﷺ کے اس قول سے آگاہ ہوگی کہ ((أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِأَفْضَلَ مِنْ دَرَجَةِ الصِّيَامِ وَالصَّلَاةِ وَالصَّدَقَةِ؟)) "کیا میں تم کو درجے کے لحاظ سے روزہ، نماز اور صدقہ سے بھی افضل عمل نہ بتادو؟" انھوں نے کہا کیوں نہیں اے اللہ کے رسول ﷺ فرمایا: ((إِصْلَاحُ ذَاتِ الْبَيْنِ، وَفَسَادُ ذَاتِ الْبَيْنِ الْحَالِقَةُ)) "لوگوں کے درمیان اس وقت صلح کروانا جب لوگوں میں موجود بدعنوان رسی کاٹ رہے ہوں"۔ تو کیا حزب کی جانب سے ثالثی اور صلح صفائی کی خاطرمداخلت نہ کرنے کا کوئی سبب ہے؟ اللہ آپ کوئی بہترین جزا دے۔

جواب: پہلا: سب سے پہلے حزب پر اعتماد کرنے اور اس کے بارے میں حسن ظن پر آپ کا شکریہ ۔ ہم اللہ سے دعاگو ہیں کہ وہ ہم سب کی رہنمائی کرے اللہ ہی دعائیں سننے اور قبول فرمانے والا ہے۔
جی ہاں رسول اللہ ﷺ کی یہ حدیث مبارکہ ہماری نظروں سے اوجھل نہیں جس کو ابو داؤد نے ام الدردا سے ابو الدرداکے حوالے سے روایت کی ہے کہ:رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِأَفْضَلَ مِنْ دَرَجَةِ الصِّيَامِ وَالصَّلَاةِ وَالصَّدَقَةِ؟» قَالُوا: بَلَى، يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ: «إِصْلَاحُ ذَاتِ الْبَيْنِ، وَفَسَادُ ذَاتِ الْبَيْنِ الْحَالِقَةُ » "کیا میں تمہیں درجے میں روزہ، نماز اورصدقہ سے بھی افضل چیز کے بارے میں نہ بتادوں" انہوں نے کہا: کیوں نہیں اے اللہ کے رسول، فرمایا: "لوگوں کےدرمیان اس وقت صلح کروانا جب لوگوں میں موجود بدعنوان رسی کاٹ رہے ہوں"۔ لیکن صلح اور اصلاح اسلامی احکامات کے خلاف نہیں بلکہ اسلام کے مطابق ہو نی چاہیے۔ کسی حلال کو حرام کرتے ہوئے اور کسی حرام کو حلال کرتے ہوئے کوئی صلح صفائی نہیں ہو سکتی۔ رسول اللہ ﷺ نے مندرجہ ذیل احادیث میں اسی کی وصیت فرمائی ہے:
ابوداؤد نے اپنی سنن میں ابوہریرہ سے روایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ((الصُّلْحُ جَائِزٌ بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ )) "دو مسلمانوں کے درمیان صلح جائز ہے" احمد نے اس میں یہ اضافہ کیا ہے کہ ((إِلَّا صُلْحًا أَحَلَّ حَرَامًا، أَوْ حَرَّمَ حلالا)) "مگر وہ صلح جوکسی حرام کو حلال یا حلال کو حرام کرے" اور سلیمان بن داؤدنے اس میں یہ اضافہ کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ((الْمُسْلِمُونَ عَلَى شُرُوطِهِمْ)) "مسلمان اپنی شرائط کے پابند ہیں"۔ اور ترمذی نے اپنے سنن میں کثیر بن عبد اللہ بن عمرو بن عوف المزنی سے اور انہوں نے اپنے باپ پھر دادا سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ((الصُّلْحُ جَائِزٌ بَيْنَ المُسْلِمِينَ، إِلَّا صُلْحًا حَرَّمَ حَلَالًا، أَوْ أَحَلَّ حَرَامًا، وَالمُسْلِمُونَ عَلَى شُرُوطِهِمْ، إِلَّا شَرْطًا حَرَّمَ حَلَالًا، أَوْ أَحَلَّ حَرَامًا)) "مسلمانوں کے درمیان صلح جائز ہے سوائے اس صلح کے جو حلال کو حرام یا حرام کو حلال کرے، مسلمان اپنی شرائط کے پابند ہیں مگر وہ شرط جو حلال کو حرام اور حرام کو حلال کرے" اور ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
اسی طرح ابن حبان نے اپنی صحیح میں ابو ہریرہ سے ان الفاظ سے ہی روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ((الصُّلْحُ جَائِزٌ بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ إِلَّا صُلْحًا أَحَلَّ حَرَامًا أَوْ حَرَّمَ حَلَالًا)) " مسلمانوں کے درمیان صلح جائز ہے مگر ایسی صلح نہیں جو حرام کو حلال یا حلال کو حرام کرے"۔
دوسرا: ہم نے فریقین کے معاملے پر غور کیا تو جو کچھ ہم نے دیکھا اس سے ہمیں سخت تعجب ہوا:
ہم نے دیکھ لیا کہ دونوں اللہ کی شریعت کے مطابق حکمرانی کرنے کے بارے میں نہیں لڑ رہے ہیں، کہ ایک فریق اس کے مطابق حکومت کر تا ہو اور دوسرا فریق اس کے مطابق حکومت نہیں کرتا ہو، بلکہ ان میں سے کسی نے بھی پہلے یا بعد میں اس کے مطابق حکومت نہیں کی !
ہم نے دیکھ لیا کہ وہ ایسے دستور کے لیے نہیں لڑ رہے ہیں جو احکام شرعیہ کے مطابق ہو، بلکہ ایک ایسے خود ساختہ دستور کے لیے دست وگریبان ہیں جو سابقہ حکومت میں بھی باطل تھا اور موجودہ حکومت میں بھی باطل تر ہے؟
اسی طرح دونوں کے درمیان یہودی وجود اور کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں جس پر سابقہ حکومت بھی کاربند تھی اور موجودہ حکومت بھی کاربند ہے؟ نہ ہی دونوں کے درمیان یہود کو گیس سپلائی کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں کوئی اختلاف رائے ہے بلکہ یہ کل بھی جاری تھی اور آج بھی جاری وساری ہے؟
دونوں ہی نہر سویز سے گزرنے والے دشمن ممالک کے بحری جہازوں کے خلاف کوئی قدم اٹھانے کے لیے تیار نہیں وہ کل بھی گزرتے تھے اور آج بھی گزرتے ہیں؟
دونوں فریق اس بات پر نہیں لڑ رہے ہیں کہ پیٹرول گیس یا معدانیات جیسی اشیاء عوامی ملکیت کی چیزیں ہیں جو کہ مسلمانوں کا حق ہیں کہ ان سے حاصل ہونے والی دولت ان پر خرچ کی جانی چاہیے۔ ۔ ۔ ۔ بلکہ پہلے بھی اور آج بھی ان سے کنانہ (مصر)کی بڑی مچھلیوں کی جیبیں ہی بھرتی ہیں؟
پھر دونوں امریکہ کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے نہیں لڑ رہے ہیں بلکہ وہ بحال ہیں اور دونوں نے کل بھی اور آج بھی امریکہ کی رسی کو مضبوطی سے تھاما ہو ا ہے؟
تیسرا: ہم جانتے ہیں کہ روئے زمین پر اللہ کے تیرکش ، مصر کے باشندے اس وقت تک کسی قسم کے خیر، امن اور سلامتی کو نہیں پاسکیں گے جب تک ایک فریق فوج کو دشمن کے آنگن کو میدان کارزار بنانے کی بجائے مصر کو ہی میدان جنگ بنانے کے لیے اس کو تھپکی دیتا رہے گا۔ ۔ ۔ جبکہ دوسرا فریق خلافت کے عادلانہ نظام کا داعی بننے کی بجائےباطل اور خود ساختہ نظام کو بحال کرنے کے لیےمصر کی شاہراہوں کو اپنی جدوجہد کا مرکز بنا نے کے لیے لوگوں کو اکساتا رہے گا۔ ۔ ۔
مصر کے باشندوں کو دونوں فریقین سے کوئی خیر امن اور سلامتی نصیب نہیں ہو گی کیونکہ دونوں ہی اس سیکولر جمہوریت اور عوامی ریاست کے داعی ہیں جو اسلام کو ایک طرف کردیتی ہیں۔ وہ اس جمہوریت کی بات کرتے ہیں جس میں اللہ نہیں بلکہ انسان قانون سازی کرتا ہے، جس میں حاکمیت اعلی رب کا نہیں بلکہ عوام کا ہے۔
اسی طرح دونوں فریقوں سے کسی خیر، امن اور سلامتی کی توقع نہیں کیونکہ دونوں ہی اپنا خود ساختہ دستور رکھتے ہیں جس کے بارے میں اللہ نے کوئی برہان نازل نہیں فرمائی۔ دونوں ہی اللہ رب العالمین کے اس دستور کو پس پشت ڈالتے ہیں جس کو اللہ نے امت کی فلاح اور بھلائی کے لیے نازل فرما یا ہے ﴿أَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ﴾ "کیا یہ نہیں جانتے کہ کس نے پیدا کیا، وہ ہی تو تدبیر والا اور جاننے والا ہے"۔
مصر کے باشندے اس وقت تک کسی قسم کے خیر، امن اور سلامتی کو نہیں دیکھ سکتے جب تک فلسطین کو غصب کرنے والے یہودی وجود اور سابقہ اورموجودہ حکومتوں کے درمیان کیمپ ڈیوڈ کا معاہدہ موجود ہو اور جب تک کہ اس کو ختم کر کے ردی کی ٹوری میں نہیں پھینک دیا جاتا۔
یہ اس وقت تک کسی قسم کی بھلائی کا منہ نہیں دیکھ سکتے جب تک فلسطین کو غصب کرنے والے یہودی وجود کو گیس کی سپلائی جاری رہے گی کیونکہ جس کو غصب کیا گیا ہے اس کے خون سے غصب کرنے والے کو جینے کا سامان مہیا نہیں کیا جاسکتا۔ ۔ ۔ !
وہ اس وقت تک خیر کو ترستے رہیں گے جب تک عوامی ملکیت حقداروں ، جو کہ مصر کےباشندے ہیں، کو ملنے کی بجائےباطل طریقے سے حکمرانوں کے جیبوں میں جاتی رہے گی۔ ۔ ۔
وہ اس وقت تک کسی خیر سے بہرہ مند نہیں ہو سکتے جب تک امریکہ کے ساتھ تعلقات قائم ہیں اور جب تک امریکی رسی واشنگٹن سے قاہرہ تک بچھی ہوئی ہے اور اس کو کاٹا نہیں جاتا۔ ۔ ۔
آخر میں یہ کہ اہل مصر اس وقت تک بھلائی کا منہ نہیں دیکھ سکتے جب تک اللہ کی زمین پر اللہ کی تیر کش مصر میں خلافت کے ستونوں میں سے ایک ستون بن کر اپنی پہلی صورت پر نہ آجائیں:جب رومیوں سے اس کو فتح کیا گیا۔ ۔ ۔ پھر اس نے فلسطین اور اس کے آس پاس سے صلیبیوں کو ماربھگا یا۔ ۔ ۔ ۔ پھر اس کا سفر اللہ کے اذن سے فلسطین کو آزاد کر کے اور یہودی وجود کو صفحہ ہستی سے مٹا کر ہی مکمل ہو گا۔ ۔ ۔ ۔
چوتھا: ہم نے فریقین پر نظر دوڑائی تو دیکھا کہ دونوں مشرق اور مغرب سے حل ڈھونڈ رہے ہیں۔ ادھر اُدھر کے ثالثوں کے ذریعے اندر اور باہر حل تلاش کر رہے ہیں لیکن ہدایت کی طرف نہیں آتے، اس لیے یہ حل تلاش کرنے کے اہل ہی نہیں۔ جو حل وہ لانے کی کوشش کر رہے ہیں اس کے نتیجے میں کوئی خیر نہیں۔
جہاں تک بیرونی ثالثوں کا تعلق ہے ان کو مصر سے کوئی دلچسپی نہیں۔ کیا کوئی عقلمند شخص امریکہ سےیہ توقع کر سکتا ہے کہ اس کے لائے ہوئے حل میں کوئی خیر ہو۔ وہی سابقہ ، اس سے پہلی اور موجودہ حکومت کا پشت بان ہے۔ سابقہ ، اس سے پہلے یا موجود ہ حکومت کی جانب سے قتل و غارت کے پیچھے امریکہ ہی ہے۔ مقتولین کی تعداد یا تباہی کی مقدار کی امریکہ کو کوئی پرواہ نہیں۔ ۔ ۔ بلکہ اس کو اس بات سے دلچسپی ہے کہ مصر پر اس کی بالادستی قائم دائم رہے۔ ۔ ۔ اس کا ماضی بلکہ عراق اور افغانستان میں اس کا حال اس کا شاہد ہے، جس کا یہ حال ہو وہ مصر اور اہل مصر کے لیے کیا صحیح حل لائے گا؟ کیا او بامہ یا اس کا فرستادہ کیری مصر اور اہل مصر کا خیر خواہ ہے؟ یہ تو اسلام اور مسلمانوں کے کھلے دشمن ہیں۔ ۔ ۔
کیا کوئی باشعور بصیرت اور بصارت والا شخص یورپ سے ایسے حل کی توقع کر سکتا ہے جس میں خیر ہو؟ برطانیہ اور اس کے ایجنٹوں نے 1342 ھ بمطابق 1924ء میں خلافت کا خاتمہ کیا ۔ یہی خلافت اور اس کے لیے جدوجہد کرنے والوں کا بدترین دشمن ہے، یہی بلفور کے منحوس معاہدے کے پیچھے ہیں۔ یہ امریکہ، فرانس اور روس ہی فلسطین کو غصب کرنے والے اور اس کے باشندوں کو جلاوطن کرنے والے یہو د کے پشت پناہ ہیں۔ انہوں نے ہی اسراء اور معراج کی سرزمین اور اسلام کی سرحد فلسطین میں اس یہودی وجود کو تخلیق کیا۔ ۔ ۔ جہاں تک فرانس کا تعلق ہے تو وہ یہودی وجود کے ابتدائی پشت بانوں میں سے ہونے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو قتل کرنے کے حوالے سے بھی انتہائی سیاہ تاریخ کا حامل ہے جس نے پہلے الجزائر اور اب مالی میں مسلمانو ں کا خون بہایا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ رہی بات روس کی جس کی تمام حرکات وسکنات سوویت یونین کے زوال کے بعد خطے میں امریکہ کے اشارے ہی پر ہوتی ہیں، شام کے سرکش کی حمایت اس پر مستزاد ہے۔ اسی طرح قفقاز کے مسلمانوں خاص کر چیچنیا میں اس کی قتل و غارت گری ، قازان میں مساجد کو منہدم کرنا، تاتارستان میں آئمہ کی گرفتاریاں اور بعض کو قتل کرنا اور اسلام کے داعیوں کی گرفتاریاں سب اس کے جرائم ہیں۔ ۔ ۔ کیا اس سے کسی خیر کی توقع ہے؟یہی حال چین کا ہے جس نے مشرقی تر کستان پرقبضہ کر رکھا ہے اور وہاں کے مسلمانوں کو نشانہ بناتا ہے، اگر وہ بھی مداخلت کرے یا ثالث بن جائے توکیا اس سے خیر کی توقع ہے؟
ان سارے بیرونی ثالثوں کے ساتھ صرف زہر قاتل ہی ہو گا۔ ان کے لیے اہل کنانہ کے خون کی کوئی قیمت نہیں بلکہ وہ خون چوستے ہیں اور اپنے مفادات حاصل کرتے ہیں۔ ان سب کا سرغنہ امریکہ ہے جو کنانہ (مصر)کو خطے میں اپنا مضبوط ٹھکانہ سمجھتا ہے۔ ۔ ۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی زندہ اور عقلمند انسان جھاڑیوں میں انگور کی توقع نہیں کرتا! کیا یورپ کا آشتون یا امریکہ کا کیری یا کسی بھی اجنبی ملک سے کسی بھلائی کی امید کی جاسکتی ہے؟ ﴿كَيْفَ وَإِنْ يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ لَا يَرْقُبُوا فِيكُمْ إِلًّا وَلَا ذِمَّةً يُرْضُونَكُمْ بِأَفْوَاهِهِمْ وَتَأْبَى قُلُوبُهُمْ وَأَكْثَرُهُمْ فَاسِقُونَ﴾ "کس طرح یہ جب بھی تم پر غالب آتے ہیں تو تمہارے بارے میں کسی رشتہ داری کا پاس رکھتے ہیں نہ ہی کسی قرابت کا لحاظ۔ اپنی زبانوں سے تو تمہیں خوش کرتے ہیں جبکہ ان کے دل یہ نہیں چاہتے اور ان میں سے اکثر فاسق ہیں" (التوبہ:8)۔
رہی بات اندرونی ثالثوں کی تو وہ بھی کولہو کے بیل کی طرح ایک ہی دائرے میں چکر کاٹ رہے ہیں، یہ بھی وہی حل دے رہے ہیں جو فریقین پیش کر رہے ہیں، جس کی رو سے جمہوری نظام ، سیکولر عوامی حکومت اور اس جمہوریت کی حفاظت جس کی رو سے انسانوں کے خالق کی جگہ خود انسان کو قانون سازی کا اختیار حاصل ہے اور حاکمیت اعلی عوام کے رب کی بجائے خود عوام کے پاس ہے، جس میں شخصی آزادیاں ہیں، جس میں دین، ملکیت اور رائے کی آزادی ہے ، وہ سب کچھ جو اس افراتفری اور تباہی کے ذمہ دار ہیں۔۔۔! یہ ثالث یہی کر رہے ہیں، کبھی ایک فریق سے کچھ چیزوں سے دستبردار ہو نے کا مطالبہ کرتے ہیں اور کبھی دوسرے سے کچھ اور چیزوں سے پیچھے ہٹنے کا کہتے ہیں جبکہ اس بات پر سب متفق ہیں کہ اس مصیبت اور بدبختی کے اصل سبب اس نظام کو برقرار رکھا جائے! تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ان ثالثوں میں سے بعض مسلمان ہیں جو اللہ کی کتاب میں ﴿وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ﴾ "اور نماز قائم کرو" پڑھتے ہیں تو نماز ادا کرتے ہیں اور نماز سے دستبردار نہیں ہوتے، جبکہ اسی کتاب اللہ میں ایک اور آیت ﴿وَأَنِ احْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ﴾ "اور ان کے درمیان اللہ کے نازل کردہ کے مطابق حکومت کرو" پڑھتے ہیں تو اس سے دستبردار ہو جاتے ہیں، یہ لوگ حدود اللہ کو نافذ کر نے کی بات کرتے ہوئے "شرمندگی" محسوس کرتے ہیں، فریقین سے نظام خلافت کا مطالبہ کرتے ہوئے وہ کانپتے ہیں اور اس بات سے ڈرتے ہیں کہ کہیں امریکہ، یورپ، روس اور چین ناراض نہ ہو! بے شک یہ بڑی ہی عجیب بات ہے!
پانچواں: یوں موجودہ اندرونی یا بیرونی ثالثین کنانہ اور اہل کنانہ کے مسائل کوپائیداراور پر امن طور پر حل کر نے کی اہلیت ہر گز نہیں رکھتے ہیں ۔ حل صرف ایک ہی ہے اور وہ یہ ہے کہ سب لوگ اپنے دل ، دماغ اور تمام تر توانائی سے اس نظام خلافت کے ذریعے جس کو اللہ رب العالمین نے فرض قرار دیا ہے اللہ کی شریعت کو نافذ کر نے کی طرف متوجہ ہوں، جس کے واضح اورصحیح دلائل کتاب اللہ ، سنت رسو ل ﷺ اور اجماع صحابہ رضوان اللہ علیھم میں موجود ہیں:
جہاں تک کتاب اللہ کا تعلق ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے رسولﷺکو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے: ﴿فَاحْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ عَمَّا جَاءَكَ مِنَ الْحَقِّ ط ۔۔۔ وَأَنِ احْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ وَاحْذَرْهُمْ أَنْ يَفْتِنُوكَ عَنْ بَعْضِ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ إِلَيْك﴾ "ان کے درمیان اللہ کے نازل کردہ کے ذریعے حکومت کرو اور جو حق تمہارے پاس آیا ہے اس کے بارے ان کی خوہشات کی پیروی مت کرو ۔۔۔ اور اور ان کے درمیان اللہ کے نازل کردہ کے مطابق حکومت کرو ان کی خوہشات کی پیروی مت کرو اور ہوشیار رہو کہ کہیں یہ تمہیں اللہ کے نازل کردہ بعض احکامات کے بارے میں فتنے میں مبتلا نہ کر دیں" (المائدہ:48-49)۔
اس کے علاوہ بھی کئی آیات ہیں۔ رسول اللہ ﷺ سے ان کے درمیان اللہ کے نازل کردہ کے مطابق حکومت کرنے کا خطاب امت کے لیے بھی خطاب ہے ۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد بھی ایسے حکمران ہونے چاہیے جو اللہ کے نازل کردہ کے مطابق حکومت کریں ۔ اس خطاب میں امر بھی جزم کا فائدہ دیتا ہے، کیونکہ خطاب کا موضوع فرض ہے۔ یہ جزم کا قرینہ ہے جیسا کہ اصول میں ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے بعد جو حکمران اللہ کے نازل کردہ کے مطابق حکومت کر تا ہے اس کو خلیفہ کہا جاتا ہے اور اس نظام حکمرانی کو خلافت کا نظام کہا جاتا ہے۔
جہاں تک سنت کا تعلق ہے تو نافع سے روایت ہے کہ: عبد اللہ بن عمر نے مجھے بتایا کہ : میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ : «من خلع يداً من طاعة لقي الله يوم القيامة لا حجة له، ومن مات وليس في عنقه بيعة مات ميتة جاهلية»"جو شخص اطاعت سے ہاتھ کھینچ لے تو قیامت کے دن اللہ سے اس حال میں ملے گا کہ اس کے پاس کوئی حجت نہیں ہو گی اور جو اس حال میں مرا کہ اس کی گردن میں خلیفہ کی بیعت نہیں تو جاہلیت کی موت مرا" اس کو مسلم نے روایت کیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے یہ ہر مسلمان پر فرض قرار دیا کہ اس کی گردن میں بیعت ہو اور جو اس کے بغیر مرا اس کو جاہلیت کی موت قرار دیا جو کہ اس گناہ کے عظیم تر ہو نے کی دلیل ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے بعد بیعت خلیفہ کے علاوہ کسی اور کی ہو ہی نہیں سکتی۔ مسلم نے الاعرج سے اور اس نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: «إنما الإمام جُنة يُقاتَل من ورائه ويُتقى به» "صرف خلیفہ ہی ڈھال ہے جس کی قیادت میں لڑا جاتا ہے اور جس کے ذریعے حفاظت ہو تی ہے" اور مسلم نے ابو حازم سے روایت کی ہے کہ: میں پچاس سال تک ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی مجلس میں بیٹھتا رہا اور میں نے ان کو یہ حدیث بیان کرتے ہوئے سنا کہ نبی ﷺ نے فرمایا:«كانت بنو إسرائيل تسوسهم الأنبياء، كلما هلك نبي خلفه نبي، وإنه لا نبي بعدي، وستكون خلفاء فتكثر، قالوا فما تأمرنا؟ قال: فُوا ببيعة الأول فالأول، وأعطوهم حقهم، فإن الله سائلهم عما استرعاهم» "بنی اسرائیل کی سیاست ان کے انبیاء کیا کرتے تھے ، جب ایک نبی کا انتقال ہو جاتا تو ایک اور اس کی جگہ آجاتا ، چونکہ میرے بعد کوئی نبی نہیں اور کثرت سے خلفاء ہوں گے، لوگوں نے کہا اے اللہ کے رسول ﷺ آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟فرمایا: ایک کے بعد ایک کی بیعت کی وفا کرو، ان کو ان کا حق دو کیونکہ اللہ ان سے ان کی رعایا کے بارے میں پوچھے گا" ان احادیث میں خلیفہ کو ڈھال قرار دیا گیا ہے، یعنی بچاؤ ، اس میں یہ بھی حکم دیا گیا ہے کہ جو لوگ مسلمانوں کی سیاست کریں گے وہ خلفاء ہونے چاہیے ، یعنی ان کو وجود میں لانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
رہی بات اجماع صحابہ کی تو صحابہ رضوان اللہ علیھم نے رسول اللہ ﷺ کے رحلت فرما جانےکے بعد ان کا خلیفہ مقرر کرنے پر اجماع کیا ۔ ان کے اس اجماع کی تاکید رسول اللہﷺ کی وفات کے بعد آپ ﷺ کی تدفین میں تاخیر اور خلیفہ کے تقرر میں مشغولیت سے ہوتی ہے، حالانکہ وفات کے بعد میت کی تدفین فرض ہے۔ جن صحابہ پر رسول اللہﷺ کی تجہیز و تدفین فرض تھی ان میں سے بیشتر نے رسول اللہ ﷺ کی تدفین پر خلیفہ کے تقرر کو ترجیح دی اور باقی اس پر خاموش رہے اور تدفین کی تاخیر میں شریک رہے قدرت کے باوجود کسی نے اس کی مخالفت نہیں کی ، اور قدرت کے باوجود انہوں نے خلیفہ کے تقرر سے پہلے رسول اللہ ﷺ کی تدفین بھی نہیں کی۔ رسول اللہ ﷺ پیر کے دن پہلے پہر کو انتقال فرماگئے اور منگل کی رات پھر منگل کے دن بھی نہیں دفنائے گئے۔ جس دن ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بعیت کی گئی اس بدھ کی رات کو آدھی رات کے وقت رسول اللہ ﷺ کی تدفین کی گئی، یعنی تدفین میں دوراتوں کی تاخیر کی گئی۔ اس دوران رسول اللہ ﷺ کی تدفین سے پہلے ہی ابوبکر کی بیعت کی گئی، یوں یہ خلیفہ کے تقرر کو میت کی تدفین پر ترجیح دینے پر اجماع ہے، جو خلیفہ کے تقرر کے فریضہ کے عظیم ترین ہو نے کی دلیل ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ایسے حکمران کی غیر موجود گی میں جو مسلمانوں پر اسلام کے ذریعے حکومت کرے جو کہ "خلیفہ"ہے، مسلمانوں پر اس کو وجود میں لانے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا نا فرض ہے۔ وہی اللہ رب العالمین کی طرف سے فرض کیے گئے حدود کو نافذ کرے گا جو کہ ایک بڑا فریضہ ہے اور جس میں امت کی بھلائی اور کامیابی ہے۔ ابن ماجہ نے اپنے سنن میں ابوہریرہ سے روایت کی ہے کہ : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «حَدٌّ يُعْمَلُ بِهِ فِي الْأَرْضِ، خَيْرٌ لِأَهْلِ الْأَرْضِ مِنْ أَنْ يُمْطَرُوا أَرْبَعِينَ صَبَاحًا» "زمین پر ایک حد کو نافذ کرنا اہل زمین کے لیے چالیس دن کی صبح کے وقت کی بارش سے بہتر ہے"۔
یہ ہے مصر اور تمام مسلم علاقوں کے مسائل کا حل جس سے وہ خیر سے بھر جائیں گے اور یہ خیر چاردنگ عالم میں پھیل جائے گا۔
چھٹا: ہم واقعات پر نگاہ رکھے ہوئے تھے اور خون خرابہ اور تباہی کو دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ المناک بات تو یہ ہے کہ تمام فریق ہر جگہ حل تلاش کررہے ہیں اس اسلام کے علاوہ جو ان کا عقیدہ ہے اور جس کے مطابق نماز پڑھتے ہیں، روزہ رکھتے اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں!
چونکہ ہمیں اس کے علاوہ کوئی حل نظر نہیں آتا کہ تمام فریق خلافت کے نظام کو قبول کریں جبکہ تمام فریق خلافت کے نظام اور اس کے لیے کام کرنے والوں کے راستے میں روڑے اٹکا رہے ہیں اس لیے ہمیں تردد ہوا کہ ہم فریقین کے درمیان صلح صفائی کے لیے خلافت کانظام ان کے سامنے پیش کریں۔ ۔ ۔ ۔ ہمیں ڈرہے کہ ہماری یہ پکار صدا بصحرا ثابت ہو گی اس لیے اس سے باز رہنے اور اس پر نظر رکھنے کو ہی ترجیح دی شاید اس کے بعد اللہ سبحانہ وتعالیٰ کوئی بہتری لائے۔
اسی چیز نے ہمیں مداخلت سے روکا ، ہماری طرف سے کئی بار رابطہ کرنے کے باوجود فریقین کی قیادتیں خلافت اور اہل خلافت کی طرف رجوع کرنے کے لیے تیار نہیں۔ خلافت کا تو ذکر کرتے ہوئے بھی اس خوف سے ان کے دل ڈر جاتے ہیں کہ کہیں مغرب بقول ان کے مشتعل نہ ہو۔ جن کا یہ حال ہو ہم کیسے ان کے درمیان ثالث بننے کے لیے مداخلت کریں؟
ہم ان کے درمیان صلح کر انے کے لیے بھرپور کوشش کرنے کے لیے تیار ہیں بشرطیکہ دونوں نظام خلافت پر اکٹھا ہو جائیں۔ اگر ہمیں معلوم ہو جائے کہ فریقین اللہ کی شریعت کی حکمرانی چاہتے ہیں خلافت کے اعلان اور اس کے جھنڈے کو بلند کرنےکے لیے تیار ہیں جو کہ العقاب ہے اور لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا جھنڈا ہے تب ہم ان کے درمیان صلح کرا نے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھیں گے اور تب ہی ہم فریقین کو ایک ہی نظام کے سائے میں یکجا کرنے کے قابل ہوں گے جو کہ خلافت راشدہ کا نظام ہے۔ اللہ کے فضل وکرم سے ہم معاملات کو پھر درست طریقے سے سنبھالنے کے اہل ہیں ، خلافت کے قیام اس کے امن اور استحکام کو برقرار رکھنے کے قابل ہیں جس سے روئے زمین پر اللہ کا تیر کش مصر ایک بار پھر اپنے رب کی مدد سے طاقتور اور اپنے دین کی وجہ سے باوقار ہو گا، اللہ کے دشمنوں کی کمر توڑدے گا، اسلام ، مسلمانوں اور ان کے اہل ذمہ کے ہر بد خواہ کولرزادے گا۔
ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہم کیا کہہ رہے ہیں۔ ہم جو کچھ کہہ رہے ہیں اس کا مطلب بھی سمجھتے ہیں۔ جو بھی حزب التحریر، اس کے ماضی اور حال کو جانتا ہے وہ اس کی گواہی دے گا، اس کے بعد اللہ ہی مدد گار ہے۔ ۔ ۔
صلح اور اصلاح اس طرح ہوتی ہے ، اس منہج پر ہم گامزن ہیں، ممکن ہے فریقین اس مصیبت اور سختی کا سامنا کرنے کے بعد صحیح حل جو کہ خلافت کا نظام ہے کی طرف آئیں گےجو اس رب العالمین کا نظام ہے جو اپنے بندوں کی دنیا اور آخرت کی بھلائی کو سب سے بہتر جانتا اور اور سب سے اچھا فیصلہ کرتا ہے۔ ممکن ہے فریقین کی اس پر موافقت اس امت کی شاندار تاریخ کو دہرانے کا سبب بن جائے جس کے بارے میں اللہ نے فرمایا ہے: ﴿كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللهِ﴾ "تم ہی بہترین امت ہوجو لوگوں کو راہ راست پر لانے کے لیے پیدا کیے گئے ہو ، تم امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے ہو اور تم اللہ پر (صحیح معنوں میں) ایمان رکھتے ہو" (آل عمران:110)۔ یوں خلافت ایک بار پھر لوٹ آئے گی، اسلام اور اہل اسلام کو عزت بخشے گی، کفر اور اہل کفر کو ذلیل کر دے گی، دنیا کے ہر گوشے میں خیر کا چرچا ہو گا، یہ اللہ کے لیے کوئی مشکل نہیں۔
آخر میں ہم یہ کہتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ کوئی ہمارے بارے میں کہے کہ "یہ خوابوں کی دنیا میں رہنے والے لوگ ہیں" یا کوئی کہے کہ ان کو "ان کے دین نے مغرور کردیا ہے"یا کوئی شخص یہ کہے کہ "یہ لوگ اس دنیا میں ہی نہیں رہتے جس پر امریکہ اور مغرب کا راج ہے"کوئی چوتھا شخص ممکن ہے یہ کہے کہ "خلافت تھی ختم ہو گئی مگر پھر کبھی نہیں آئے گی"۔ ۔ ۔
لیکن ہم عین اسی وقت میں اس بات کو سمجھتے ہیں کہ اللہ سبحانہ وتعالی فرماتا ہے:: ﴿وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ﴾ "اللہ نے تم میں سے ان لوگوں سے وعدہ فرمالیا ہے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کیے کہ ان کو زمین میں خلافت عطا فرمائے گا جیسا کہ ان سے پہلے لوگوں کو خلافت سے نواز چکا ہے اور یقینا ان کے لیے ان کےاس دین کو (اقتدار کے ذریعے)مضبوط کردے گا جس کو ان کےلیے پسند فرما چکا ہے، پھر یقینا ان کے خوف کو امن سے بدل دے گا جس کے بعد وہ میری عبادت کرتے رہیں گے اور کسی کو میرے ساتھ شریک نہیں بنا ئیں گے اس کے بعد بھی کوئی ناشکری کرے تو وہی لوگ ہی فاسق ہیں" (النور:55)
رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے جس کو احمد ابو داؤد اور الطیالسی نے حذیفہ بن الیمان سے روایت کیا ہے کہ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «إِنَّكُمْ فِي النُّبُوَّةِ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ، فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا عَاضًّا، فَيَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ جَبْرِيَّةً، فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللهُ أَنْ تَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ» "تمہارے درمیان نبوت اس وقت تک ہو گی جب تک اللہ چاہے گا پھر جب اللہ چاہے گا تو اس کو اٹھا لے گا، اس کے بعد نبوت ہی کے طرز پر خلافت ہو گی اور وہ بھی اس وقت تک ہو گی جب تک اللہ چاہے گا ، پھر جب اللہ چاہے گا اس کو بھی اٹھا لے گا، اس کے بعد خاندانی حکومت ہو گی اور وہ بھی اس وقت تک ہو گی جب تک اللہ چاہے گا پھر اللہ جب اللہ چاہے گا اس کو بھی اٹھا لے گا، اس کے بعد جابرانہ حکومت ہو گی اور اس وقت تک ہو گی جب تک اللہ چاہے گا پھر جب اللہ چاہے گا اس کو بھی اٹھا لے گا، اس کے بعد پھر نبوت کے طرز پر خلافت ہو گی"۔
کوئی بھی عقلمند صاحب بصارت اور بصیرت شخص سمجھے گا کہ ان کا یہ کہنا غلط اور باطل ہے۔ عقل والوں کے ہاں اس کی کوئی قیمت نہیں جبکہ اللہ سبحانہ اور اس کے رسول ﷺ کا فرمان حق ہے
﴿فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلَالُ فَأَنَّى تُصْرَفُون) "حق کے بعد گمراہی کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے پھر یہ کہاں بھٹکے جارہے ہیں" (یونس:32)۔
ہم صورت حال کو بہت قریب سے دیکھ رہے ہیں اور ممکن حد تک فریقین سے رابطہ کر رہے ہیں ممکن ہے اللہ اس کے بعد کوئی بہتری لائے ﴿إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا وَالَّذِينَ هُمْ مُحْسِنُونَ﴾ "بے شک اللہ متقیوں اور احسان کرنے والوں کےساتھ ہے" (النحل:128) ﴿وَنُرِيدُ أَنْ نَمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الْأَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ الْوَارِثِينَ﴾ "اور ہم چاہتے ہیں کہ زمین میں ستائے گئے لوگوں پر احسان کریں اور ان کو دنیا کا امام اور وارث بنائیں" (القصاص:5)
﴿وَاللَّهُ غَالِبٌ عَلَى أَمْرِهِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ﴾ "اللہ ہی اپنے فیصلے میں غالب ہے لیکن اکثر لوگ نہیں سمجھتے" (یوسف:21)

Read more...
Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک