الجمعة، 25 صَفر 1446| 2024/08/30
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

سوال و جواب: ریاست کےقیام کے کام میں جہاد


سوال: کچھ لوگ کہتے ہیں کہ حزب التحریر خلافت کے قیام کی اپنی جدو جہد میں مدنی دور پر نہیں بلکہ صرف مکی دور پر اعتمادکرتی ہے اور قتال کی کاروائیوں 'جہاد' کو خلافت کے قیام کے لیے دعوت کے مرحلے میں خلاف شرع قرار دیتی ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے ایسا نہیں کیا۔۔۔
کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ :خلافت کے قیام کی دلائل کو مدنی دور سے کیوں اخذ نہیں کیا جاسکتا جہاں جہاد فرض ہوچکا تھا اور جاری تھا؟
کیا اس مسئلے کا کوئی تسلی بخش جواب ہے؟اللہ آپ کو جزاء خیر دے۔

 

جواب: اس سوال میں کئی امور ہیں جن کی وضاحت کی ضرورت ہے:
1۔ دلائل خواہ کتاب اللہ سے ہوں یا سنت رسول اللہ ﷺ سے،ان پر مکمل طور سے عمل کرنا ضروری ہے،مکی آیات و احادیث اور مدنی آیات و حدیث منورہ میں کوئی فرق نہیں۔
2۔ مطلوبہ دلائل وہ ہیں جو اس مسئلہ سے متعلق ہو ں نہ کہ وہ جس کا اس مسئلہ سے کوئی تعلق ہی نہ ہو:
ا۔ مثال کے طور پر اگر میں یہ جاننا چاہوںکہ وضو کس طرح کروں تو وضو کے دلائل تلاش کروں گا،خواہ یہ مکہ مکرمہ میں نازل ہوئے ہوں یا مدینہ منورہ میں۔پھران سے حکمِ شرعی کو اصول فقہ کے مطابق مستنبط کروں گا۔۔۔۔لیکن ایسا نہیں کر سکتا کہ وضو کے طریقہ کار کا حکم معلوم کرنے کے لیے روزے کے احکامات کی چھان بین کروں۔
ب ۔ اور مثال کے طوراگر میں حج کے احکامات جاننا چاہتا ہوں تو حج کے دلائل تلاش کروں گا ،خواہ وہ مکہ میں نازل ہوئے ہوں یا مدینہ میں۔اور پھران سے اصول فقہ کے مطابق حکم کو مستنبط کیا جائے گا۔لیکن حج کے طریقہ کار اور اس کی ادائیگی کے احکامکا حکم معلوم کرنے کے لیے نماز کے دلائل کونہیں دیکھوں گا۔
ج ۔ اور مثال کے طور پر جب میں جہاد کے احکامات کو سمجھنا چاہوں:کہ یہ فرض عین ہے یا فرض کفایہ ہے ،یہ دفاعی ہے یا اقدامی ،فتح کی صورت میں مال غنیمت اور اسلام کوپھلاجنے کے حوالے سے کیا احکامات ہیں،کیافتح بزور طاقت ہوتی ہے یا صلح کے ذریعے وغیرہ وغیرہ میں جہاد کی دلائل کی چھان بین کروں گا خواہ وہ مکہ میں نازل ہوئے ہوں یا مدینہ میں، اورانہی سے حکمِ شرعی کو اصول فقہ کے مطابق مستنبط کیا جائے گا۔لیکن میں جہاد کا حکم اور اس کی تفصیلات معلوم کرنے کے لیے زکوۃ کی دلائل کی چھان بین نہیں کروں گا۔
د ۔ ہر مسئلہ کے متعلق حکم شرعی جاننے کا یہی طریقہ کار ہے،اس سے متعلق دلائل کی چھان بین ہوگی چاہے وہ مکہ میں نازل ہوئےہوں یا مدینہ میں،اور پھر ان دلائل سے اس مئلےں کے بارے میں حکمِ شرعی مسلمہ شرعی اصول کے مطابق مستنبط کیا جائے گا۔
3 ۔ اب ہم اسلامی ریاست کے قیام کے مسئلے کی طرف آتے ہیں،اس کے دلائل کو تلاش کرتے ہیں خواہ وہ مکہ میں نازل ہوئے ہوں یا مدینہ میں اور ان سے مسلمہ اصول کے مطابق حکمِ شرعی کا استنباط کرتے ہیں۔
اسلامی ریاست کے قیام کی دلائل ہمیں مکہ مکرمہ میں رسول اللہ ﷺکی سیرت میں بیان کیے گئے دلائل کے علاوہ کہیں اور نہیں ملتے۔رسول اللہ ﷺ نے ابتداء میں غیر اعلانیہ طور پر اسلام کی طرف دعوت دی جس کے نتیجے میں مؤمنوں کی ایک صابر جماعت تیار ہوگئی۔۔۔پھر مکہ میں اور مختلف موقعوں پر اس دعوت کا کھلا اظہار کیا۔۔۔اس کے بعد اہل قوت اور اہل طاقت سے نصرت طلب کی اور اللہ نے انصار سے آپ ﷺ کو نوازا،آپﷺ ہجرت کر کے مدینہ گئے اوراسلامی ریاست قائم کی۔
ریاست کے قیام کے یہ دلائل ہیں،اس کے علاوہ ریاست کے قیام کی کوئی دلیل نہیں۔رسول اللہ ﷺنے اپنی سیرت طیبہ میں اس کو ہمارے لیے تشفی بخش انداز سے بیان کیا اورہم پر اسی سیرت کی پابندی لازمی ہے۔بات جہاد کے فرض ہونے سے پہلےمکی دور یا جہاد کے فرض ہونے کے بعد مدنی دور کی نہیں ہےبلکہ بات ریاست کے قیام کے دلائل کو سمجھنے کی ہے۔یہ دلائل ہجرت کر کے مدینہ میں ریاست کے قیام تک مکی دور میں ملتے ہیں۔
ریاست کا قیام اور جہاد دو الگ فرائض ہیں۔جیسا کہ ہم نے کہا کہ ریاست کے قیام کے دلائل اسی موضوع سے لیے جائیں گے اور جہاد کے دلائل اس کے اپنے موضوع سے اخذ کیے جائیں گے۔یہ دونوں الگ چیز یں ہیں اور یہ ایک دوسرے پر موقوف بھی نہیں ہیں۔اسی وجہ سے ریاست خلافت کی عدم موجود گی میں جہاد معطل نہیں ہو تا۔رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے،«وَالْجِهَادُ مَاضٍ مُنْذُ بَعَثَنِي اللهُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَى أَنْ يُقَاتِلَ آخِرُ أُمَّتِي الدَّجَّالَ، لَا يُبْطِلُهُ جَوْرُ جَائِرٍ وَلَا عَدْلُ عَادِلٍ»"جہاد اللہ کی طرف سے مجھے مبعوث کرنے کے وقت سے اس وقت تک جاری رہے گا جب میرا آخری اُمتی دجال سے لڑے گا۔ کسی ظالم کا ظلم اور کسی عادل کا انصاف اس کو باطل قرار نہیں دے سکتا"اس کو البیہقی نے السنن الکبری انس بن مالک سے روایت کیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ جہاد،خواہ خلافت موجود ہو یا نہ ہو، احکام شرعیہ کے مطابق جاری رہےگا۔
اسی طرح حکمرانوں کی جانب سے جہاد کو معطل کرنے کےباوجود خلافت کے قیام کی جدوجہد اس وقت تک جاری رہے گی جب تک خلافت قائم نہیں ہو جاتی کیونکہ استطاعت رکھنے والے مسلمانوں کا خلیفہ کی بیعت کے بغیر رہنا حرام ہے۔۔۔۔مسلم نے عبد اللہ بن عمر سے روایت کی ہے کہ :میں نے رسول اللہ ﷺ کویہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ:«مَنْ خَلَعَ يَدًا مِنْ طَاعَةٍ، لَقِيَ اللهَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لَا حُجَّةَ لَهُ، وَمَنْ مَاتَ وَلَيْسَ فِي عُنُقِهِ بَيْعَةٌ، مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً»"جس نے اطاعت سے ہاتھ کھنچا لیا وہ اللہ سے قیامت کےدن اس حال میں ملے گا کہ اس کے پاس کوئی حجت نہیں ہو گی،جو اس حال میں مرا کہ اس کی گر دن پر خلیفہ کی بیعت نہیں تو وہ جاہلیت کی موت مرا"۔
اس بناپر جہاد بھی جاری رہے گا اور خلافت کے قیام کی جدوجہد بھی اس کے قیام تک جاری رہے گا۔یہ دونوں ایک دوسرے پر موقوف نہیں۔یہ دونوں دوالگ الگ مسئلے ہیں۔ہر ایک مسئلے کے بارے میں اس کی اپنے شرعی دلائل کے مطابق بحث ہو گی اور اس کے ساتھ خاص حکم ِ شرعی مسلمہ اصول کے مطابق ہی اخذ کیا جائے گا۔
4 ۔یہی وجہ ہے کہ حزب،رسول اللہ ﷺ کے اس طریقے کی پابند ہے جس پر مکہ میں کاربند رہتے ہوئے مدینہ میں ریاست قائم کردی گئی۔ریاست کے قیام کے لیے دعوت کے مرحلے میں قتال سے اجتناب کیا،اس میں مکی یا مدنی دور کی بات ہی نہیںبلکہ ریاست کے قیام کی دلائل رسول اللہ ﷺ کے وہ اعمال ہیں جو مدینہ میں ریاست کے قیام تک مکہ میں انجام دیئے۔مسئلہ ریاست کے قیام کے طریقے کا ہے۔لہٰذا رسول اللہ ﷺ کے اس بتائے ہوئے طریقے کے علاوہ ریاست کے قیام کا کوئی دوسرا طریقہ نہیں ہے۔
اگر مسئلہ ریاستی اعمال اور اس کے اداروں کا ہو تا تو اس کو ان دلائل سے اخذ کرتے جو رسول اللہ ﷺ نے مدینہ میں ان اداروں کو قائم کر کے دِکھایا کیونکہ ریاست مدینہ میں قائم ہوئی تھی۔
5 ۔ خلاصہ:
ا ۔ کسی بھی مسئلہ کے احکامات اسی مسئلے کے بارے میں وارد شدہ دلائل سے اخذ کیے جائیں گے جو اس کے بارے میں ہیں خواہ مکہ میں نازل ہوئے ہوں یا مدینہ میں۔روزے کے احکامات روزے کے دلائل سے اخذ کیے جائیں گے،نماز کے احکامات نماز کے دلائل سے لیے جائیں گے،جہاد کے احکامات جہاد کے دلائل سے ہی لیے جائیں گے اورریاست قائم کرنے کے احکامات بھی ریاست قائم کرنے کے دلائل سے ہی اخذ کیے جائیں گے۔۔۔ہر جگہ ایسا ہی ہو گا۔
ب ۔ ریاست کے قیام کے لیے رسول اللہﷺ کے اس طریقے کو جو آپﷺ نےریاست کے قیام کے لیے مکہ میں اختیار کیا تھا،اختیار کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اس کے علاوہ ریاست کے قیام کی کوئی دلیل موجود نہیں۔۔۔۔اگر ریاست کے قیام کی کوئی دلیل مدینہ میں وارد ہوتی تو اس سے استدلال بھی لازمی تھا۔
ہم اللہ سبحانہ وتعالی سے اسلامی ریاست خلافت راشدہ کے قیام کے لیے مدد اور توفیق کے طلب گار ہیں تاکہ اسلام اور مسلمان ایک بار پھر معزز،اور کفر اور کفار ذلیل ہوں،چاردنگ عالم میں خیر کا چرچا ہو اور یہ اللہ کے لیے کوئی مشکل نہیں۔

Read more...

خلافت کے قیام کے لیے نصرۃ کے حصول کی مہم افواج پاکستان لازماً خلافت کا قیام عمل میں لائیں اور اللہ کےعلاوہ کسی سے نہ ڈریں

حزب التحریر ولایہ پاکستان ،ملک بھر کے بڑے شہروں میں عوامی اجتماعات سے خطاب کی مہم چلارہی ہے۔جس طرح رسول اللہﷺ نے انصارکی نصرۃ (مدد)سے مدینہ میں اسلامی ریاست قائم کی تھی،ویسے ہی حزب کے بہادر شباب نبوت کے اس طریقہ کار کے مطابق افواج پاکستان سے خلافت کے قیام کے لیے نصرۃ کا مطالبہ کررہے ہیں۔ وہ عوام سے کہہ رہے ہیں کہ وہ افواج پاکستان میں موجود اپنے والد، چچاؤں، بھائیوں اور بیٹوں سے مطالبہ کریں کہ وہ کفریہ جمہوریت کی حمائت سے ہاتھ کھینچ لیں اور خلافت کے قیام کے ذریعے اسلام کے نفاذ کے لیے مدد فراہم کریں۔
اے افواج پاکستان کے افسران! اللہ سبحانہ و تعالٰی فرماتے ہیں : وَاتَّقُوا فِتْنَةً لاَ تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْكُمْ خَاصَّةً وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ "اور تم ایسے وبال سے بچوکہ جو خاص کر صرف ان ہی لوگوں پر واقع نہ ہوگا جو تم میں سے ان گناہوں کے مرتکب ہوئے ہیں اور یہ جان رکھو کہ اللہ سخت عذاب دینے والا ہے" (الانفال:25)۔ ہمارا ایمان ہمیں اس بات پر مجبور کرتا ہے کہ ہم کبھی بھی ظالم کے ظلم سے خوفزدہ نہ ہوں بلکہ ہمیں اللہ کے غضب سے ڈرنا چاہیے اگر ہم نے ظالم کے کھڑے کیے ہوئے فتنے اور اس کے نتیجے میں لوگوں کی معاشی بدحالی اوراقوام عالم کے سامنے تذلیل کی دلدل میں ڈوب جانے پر خاموشی اختیار کی۔اب بہت ہوچکا کہ آپ کے درمیان مشرف اور کیانی جیسے لوگوں کو مزید برداشت کیا جائے!بہت ہوچکی ان کی اطاعت جو زرداری اور نواز شریف جیسے حکمرانوں کی حمائت کرتے ہیں! ان غداروں کی غداری کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے اور ان کے امریکی آقاؤں کو ہمارے معاملات میں مداخلت سے باز رکھنے کی حزب التحریر کی جدوجہد کا ساتھ دو۔ اس بات کو جانتے ہوئے کہ اللہ کی مرضی کے خلاف کوئی مصیبت تم پر نہیں آسکتی، اللہ کی راہ میں آگے بڑھو۔ اللہ سبحانہ و تعالٰی فرماتے ہیں، قُلْ مَنْ ذَا الَّذِي يَعْصِمُكُمْ مِنْ اللَّهِ إِنْ أَرَادَ بِكُمْ سُوءًا أَوْ أَرَادَ بِكُمْ رَحْمَةً وَلاَ يَجِدُونَ لَهُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ وَلِيًّا وَلاَ نَصِيرًا "پوچھئے!اگر اللہ تعالٰی تمھیں کوئی برائی پہنچانا چاہے یا تم پر کوئی فضل کرنا چاہے تو کون ہے جو تمھیں بچا سکے؟اپنے لیے سوائے اللہ تعالٰی کے نہ کوئی حمائتی پائیں گے نہ مددگار" (الاحزاب:17)۔

مزید تصاویر کے لئے یہاں کلک کریں

 

Read more...

جمہوریت ہٹاؤ، خلافت لاؤ حزب التحریر نے شام اور مصر کے مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کے لیے ملک بھر میں مظاہرے کیے

حزب التحریر نے ولایہ پاکستان میں شام اور مصر کے مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کے لیے ملک بھر میں مظاہرے کیے۔ مظاہرین نے بینرز اور کتبے اٹھا رکھے تھے جن پرتحریر تھا: " مصر کا فرعون مسلمانوں کی لاشوں پر امریکی راج کی حفاظت کر رہا ہے" ، " شام میں مسلمانوں کاقتل عا م ‏خلافت کےقیا م کو نہیں روک سکتا" اور " امریکی راج کی محافظ 'جمہوریت' ختم کرو، امت کی ڈھال' خلافت' کو قائم کرو"۔ یہ مظاہرے اس وقت کیے گئے ہیں جب پاکستان کے مسلمان واضع طور پر مصر میں اس کی افواج کے کردار اوراسلام کے لیے شام کے مسلمانوں کی استقامت کو دیکھ رہے ہیں۔
ایک ایسے وقت میں جب امت امریکی تکبر اور جبر کے خلاف غصے سے بھری بیٹھی ہے ، حزب التحریر افواج پاکستان کے افسران سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ کفریہ جمہوریت اور امریکی راج کا خاتمہ کریں اور خلافت کے قیام کے ذریعے اسلام کی حاکمیت کو بحال کریں۔ افواج پاکستان میں موجود مخلص افسران کا یہ عمل ہی مصر، شام، پاکستان اور پوری مسلم دنیا میں صورتحال کو مسلمانوں کے حق میں تبدیل کر دے گا۔ صرف اسی صورت میں تمام مسلمان ایک خلیفہ راشد کی قیادت میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے لیے ایک عظیم قوت کی شکل اختیار کرلیں گے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: إِنَّمَا الْإِمَامُ جُنَّةٌ يُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِهِ وَيُتَّقَى بِهِ فَإِنْ أَمَرَ بِتَقْوَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَعَدَلَ كَانَ لَهُ بِذَلِكَ أَجْرٌ وَإِنْ يَأْمُرْ بِغَيْرِهِ كَانَ عَلَيْهِ مِنْهُ "امام (خلیفہ) ڈھال ہے جس کے پیچھے رہ کر تم لڑتے ہو اور اپنا تحفظ کرتے ہو۔ تو اگر وہ تقوی اور انصاف کی بنیاد پر حکمرانی کرتا ہے تو اس کے لیے اجر ہے اور اگر وہ اس سے ہٹ کر حکمرانی کرتا ہے تو یہ اس کے خلاف ہی جائے گا"(بخاری)۔

 

یہاں کلک کریں

Read more...

امریکہ کا تازہ ترین ڈبل گیم کا منصوبہ امریکہ امن مذاکرات کے ذریعے خطے میں اپنی موجودگی کو برقراررکھنا چاہتا ہے

عین اسی دن جب امریکہ حکومت پاکستان کے طالبان کے ساتھ 'امن' مذاکرات سے باخبر رہنے اور ان پر قریب سے نگاہ رکھنے کی بات کرتا ہے ، امریکہ پاکستان کی حدود میں تحریک طالبان پاکستان کے ایک رہنما حکیم اللہ کو قتل کردیتا ہے۔ حکومت کا یہ کہنا کہ امریکہ مذاکرات کے عمل کو تباہ اور ناکام کردینا چاہتا ہے ، ایک سفید جھوٹ ہے۔ درحقیقت امریکہ بم دھماکوں اور قتل غارت کے اس مہم کے ذریعے 'امن' مذاکرات کے لیے حمائت پیدا کررہا ہے۔ امریکہ اور اس کے ایجنٹ اس بات سے اچھی طرح واقف ہیں کہ امت اور ان کی افواج میں امریکہ دشمن جذبات انتہا پر ہیں، لہٰذا وہ ان جذبات کو اپنے مفاد میں استعمال کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
جب سے امریکہ اس خطے میں داخل ہوا ہے، وہ اور اس کے ایجنٹ 'ڈبل گیم' کا ڈرامہ رچا کر امریکی مفادات کے حصول کو یقینی بنارہے ہیں۔ مشرف اور شوکت عزیز کا 'ڈبل گیم' یہ تھا کہ وہ اس امریکی خطرے کا اظہار کرتے تھے کہ امریکہ ہمارے علاقے میں اپنی فوجو ں کوداخل کردے گالہٰذا ہماری افواج کو قبائلی علاقوں میں خود فوجی آپریشن کرنا چاہیے۔ زرداری اور کیانی حکومت کا 'ڈبل گیم' یہ تھا کہ قبائلی علاقوں میں امریکی اور بھارتی اثرو رسوخ کے خاتمے کے لیے فوجی آپریشنز کو مزید علاقوں تک پھیلا دیا جائے۔ درحقیقت امریکہ کو اس بات کی ضرورت تھی کہ پاکستان کی افواج اُس کی جنگ لڑیں کیونکہ اُس کے اپنے بزدل فوجی توانتہائی غیر معیاری اسلحے سے لیس مجاہدین کے خوف سے خودکشیاں کرتے ہیں۔ اور نوازشریف اور کیانی کا 'ڈبل گیم' یہ ہے کہ 'امن' مذاکرات کے ذریعے خطے میں امریکہ کے مستقل قیام کے مقصد کو حاصل کیا جائے جس کے تحت افغانستان میں نو (9) امریکی اڈوں کا قیام، اسلام آباد میں قلع نما سفارت خانے کی تعمیر اور پاکستان اور افغانستان میں ایک لاکھ کے لگ بھگ نجی امریکی سکیورٹی کے افراد کے قیام کو ممکن بنایا جائے جو 'ریمنڈ ڈیوس نیٹ ورک' کی صورت میں ملک بھر میں بم دھماکوں اور قتل و غارت گری کی مہم کو جاری رکھ سکیں۔
اے افواج پاکستان کے افسران! رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ، ((لَا يُلْدَغُ الْمُؤْمِنُ مِنْ جُحْرٍ وَاحِدٍ مَرَّتَيْنِ)) "مؤمن ایک ہی سوراخ سے دو بار ڈسہ نہیں جاتا"۔ سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غدار آپ کے ساتھ اپنے امریکی آقاؤں کے لیے 'ڈبل گیم' کھیل رہے ہیں، جو کہ آپ کے کھلے دشمن ہیں۔ اب یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ خلافت کے قیام کےلیے حزب التحریر کو نصرۃ فراہم کریں جس کی قیادت مشہور فقیہ اور رہنما شیخ عطا بن خلیل ابو الرَشتہ کررہیں ہیں۔ صرف خلافت کے قیام کی صورت میں ہی آپ کا حرکت میں آنا دین کے احکامات کے تحت ہوگا ، آپ پاکستان اور خطے سے صلیبی قبضے کے خاتمے کے لیے حرکت میں آئیں گے اور اس کی فوج ، انٹیلی جنس، ٖفوجی اڈوں، قونصل خانوں اور سفارت خانے کا خاتمہ کردیں گے۔

Read more...

سوال وجواب: ازدواجی زندگی کے اختلافات


سوال: ہم کتاب و سنت میں خوشگوار، مطمئن اور مامون ازدواجی زندگی کے بارے میں پڑھتے ہیں، لیکن ہمارے اس دور، جس میں ہم زندگی بسر کررہے ہیں، ازدواجی بندھن میں جڑے جوڑوں میں بہت اختلافات پائے جاتے ہیں ، حتٰی کہ دعوت میں شریک لوگوں کا بھی یہی معاملہ ہے۔ یہ اختلافات کبھی میاں بیوی کے مابین اپنے رہائشی گھر کے انتخاب پر، یا دلہا دلہن کے والدین کے ساتھ تعلق پر، یا انکے رشتہ داروں سے ملاقات پراور بالخصوص شوہر کے رشتہ داروں سے ملاقات پر، جنہیں (حدیث میں) موت گردانا گیا ہے، نظرآتے ہیں۔ دونوں کے والدین اس پر اصرار کرتے ہیں کہ یہ اس کے بیٹے یا اسکی بیٹی کا حق ہے یا یہ اور یہ داماد یا بہو کی ذمہ داری ہے ، اور دونوں اپنی رائے پر، اس خیال سے کہ وہ شریعت کی رُو سے حق بجانب ہیں ، سختی سے ڈٹے رہتے ہیں ، اور اپنی پوزیشن سے ذرا سا بھی پیچھے ہٹنے یا ترمیم پر تیار نہیں ہوتے۔ اس سلسلے میں آپ کیا نصیحت کریں گے خصوصاً ان لوگوں کو جو دعوت کی سرگرمیوں میں شامل ہیں؟ مزید یہ کہ اس آیت مبارکہ کا کیا معنی ہے؛
وَأْمُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلَاةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا لَا نَسْأَلُكَ رِزْقًا نَحْنُ نَرْزُقُكَ وَالْعَاقِبَةُ لِلتَّقْوَى
"اور اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم کر اور خود بھی اس پر قائم رہ۔ ہم تجھ سے روزی نہیں مانگتے، ہم تجھے روزی دیتے ہیں اور پرہیزگاری کا انجام اچھا ہے۔"
(سورہ طہ۔ 20:132)
جزاک اللہ خیراً

 

جواب: ہمیں آپ کے اس سوال سے حیرانی کے ساتھ ساتھ دکھ بھی ہوا۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ جو اس خالص اور پاک دعوت کو لے کر چل رہے ہوں، اپنی ذاتی زندگیوں میں ہی ناکام ہو سکتے ہیں؟ آخر کیسے ان کی زندگیاں احترام اور محبت کے بجائے نفرت اور بغض سے بھر سکتی ہیں...؟
درحقیقت شادی شدہ زندگی بے جان چیزوں کی مانند 1+1=2کی مساوات نہیں، یہ تو رحمت اور شفقت، سکون اور اطمینان سے عبارت ہوتی ہیں۔ اس عائیلی زندگی کو ایسی بے جان اور جامدمساوات سمجھنے والے ہی وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنے زندگیوں کو رحمت، قربت اورگرمجوشی سے بھرنے سے ناآشنا ہوتے ہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا؛
وَمِنْ آَيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآَيَاتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ
"اور اس کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے تمہارے لئے تمہیں میں سے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان کے پاس جا کر سکون حاصل کرو، اور تمہارے درمیان محبت اور مہربانی پیدا کر دی، بے شک جو لوگ غور و فکر کرتے ہیں ان کیلئے اس میں نشانیاں ہیں۔" (سورہ روم:21)
ایسے لوگوں کو کافی زیادہ سبق حاصل کرنے کی ضرورت ہے ، اور انھیں اس پر غور کرنا چاہئے جو کچھ انھوں نے سیکھا ہے۔ مزید برآں ایسے لوگوں کو سزا بھی ملنی چاہئے! بہر کیف ، سوالات کے جوابات درج زیل ہیں؛
1)ازدواجی زندگی سے متعلق سوالات کے جوابات:
شادی شدہ لوگوں سے متعلق رسول اللہ کی حدیث پاک ہے،
«خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ وَأَنَا خَيْرُكُمْ لِأَهْلِي» أخرجه الترمذي وابن ماجة.
''تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنے گھر والوں سے اچھا ہے اور میں اپنے گھر والوں سے سلوک میں سب سے بہتر ہوں۔'' ترمذی، ابن ماجہ
بیویوں کیلئے: ابوہریرہ رسول اللہﷺ سے روایت کرتے ہیں،
«لَوْ كُنْتُ آمِرًا أَحَدًا أَنْ يَسْجُدَ لِأَحَدٍ لَأَمَرْتُ الْمَرْأَةَ أَنْ تَسْجُدَ لِزَوْجِهَا»
''اگر میں کسی کو کسی کے آگے سجدے کا حکم دیتا تو میں عورتوں کو ان کے شوہروں کے آگے سجدے کا حکم دیتا۔''
( یہ حدیت ترمذی میں روایت ہے ، اسی طرح کے الفاظ میں ابن ماجہ میں ہیں۔ یہ حدیث سعید بن مسیب اور عائشہ سے بھی روایت ہے)
میں ایک بار پھر اس بات کو دہرانا چاہتا ہوں کہ شادی شدہ جوڑوں کیلئے یہ ایک لازمی امر ہیں کہ وہ سمجھیں کہ خانگی زندگی 1+1=2کی طرح کی بے جان اورجامد مساوات نہیں، بلکہ یہ تعلق تو خوشیوں اور اطمینان کا باعث ہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتا ہے؛
لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً
"تاکہ تم ان کے پاس جا کر سکون حاصل کرو، اور تمہارے درمیان محبت اور مہربانی پیدا کر دی۔" (سورہ روم:21)
بیوی کو اپنے شوہر کا وفادار ہونا چاہئے اور ان کواپنے شوہرکے دل کو خوشیوں سے بھر دینا چاہئے خواہ یہ سب کچھ ان کے اپنے آرام اور سکون کی قیمت پرہی کیوں نہ ہو۔ کوئی بھی عقلمند عورت اپنے شوہر سے یہ نہیں کہے گی کہ میں آپکی وفادار ہوں لیکن مجھے آپکے والدین سے کوئی لینا دینا نہیں۔ یہ اسلئے ہے کہ ہر عقلمند عورت کو پتا ہو گا کہ اگر وہ اپنے شوہر کے والدین سے اچھا برتاؤ کرے گی اور ان کا خیال رکھے گی تو اس کا یہ برتاؤ اسکے شوہر کیلئے خوشیوں کا باعث بن جائے گا جو کہ اس کیلئے فرض ہے...رسول اللہﷺ نے فرمایا؛
«مَا اسْتَفَادَ الْمُؤْمِنُ بَعْدَ تَقْوَى اللَّهِ خَيْرًا لَهُ مِنْ زَوْجَةٍ صَالِحَةٍ إِنْ أَمَرَهَا أَطَاعَتْهُ وَإِنْ نَظَرَ إِلَيْهَا سَرَّتْهُ وَإِنْ أَقْسَمَ عَلَيْهَا أَبَرَّتْهُ وَإِنْ غَابَ عَنْهَا نَصَحَتْهُ فِي نَفْسِهَا وَمَالِهِ» أخرجه ابن ماجه عن أبي أمامة
''مومن کیلئے تقوی کے بعد اچھی بیوی سے بڑھ کر کسی بھی چیز میں خیر نہیں کہ جب وہ اسے کسی چیزکا حکم دے تو وہ اسے پورا کرے، اور جب وہ اس پر نگاہ ڈالے تو اس کا دل خوشی سے بھر جائے، اگر وہ شخص اس کے لیے قسم کھائے ، تو وہ اس کو سچ کر دکھائے، اور جب اس کا شوہر دور ہو تو بیوی اسے اچھی نصیحت کرے اور اپنے اور شوہر کے مال کی حفاظت کرے۔'' (یہ حدیث ابن ماجہ میں ابو امامہ اور اسی طرح کی حدیث ابو داؤد میں ابن عباس نے روایت کی ہے۔)
اسی طرح شوہر کیلئے لازم ہے کہ وہ اپنی بیوی سے احسن برتاؤ کرے اور اس کی زندگی کو آرام دہ بنائے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا؛
وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَإِنْ كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللَّهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا
''اور ان کے ساتھ اچھے طریقے سے بود و باش رکھو گو کہ تم انھیں ناپسند کرو، بہت ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرو اور اللہ اس میں بہت سے بھلائی کر دے۔''
(النساء: 19)
شوہر کو چاہئے کہ وہ اپنی بیوی کی اچھی زندگی کے حقوق پورے کرے اور اسی طرح وہ اپنے والدین کے حقوق کو بھی پورا کرے جو کہ اس پر فرض ہیں، لیکن بیوی کے حقوق میں کسی قسم کی کمی کئے بغیر۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا؛
وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا
''اور تمہارا پروردگار صاف صاف حکم دے چکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنااور ماں باپ کے ساتھ احسن سلوک کرنا۔'' ( الاسرا ء:23)
اور فرمایا؛
وَوَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ حُسْنًا
'' اور ہم نے ہر انسان کو اپنے والدین کے ساتھ عمدہ برتاؤ کرنے کی نصیحت کی ہے۔''
عبد اللہ بن مسعود فرماتے ہیں ؛
«سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَيُّ الْعَمَلِ أَفْضَلُ قَالَ الصَّلَاةُ عَلَى مِيقَاتِهَا قُلْتُ ثُمَّ أَيٌّ قَالَ ثُمَّ بِرُّ الْوَالِدَيْنِ قُلْتُ ثُمَّ أَيٌّ قَالَ الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ» أخرجه البخاري.
میں نے رسول اللہ سے پوچھا؛ ''اے اللہ کے نبیﷺ، سب سے بہترین عمل کونسا ہے؟'' آپ ﷺنے جواب دیا؛ ''نماز کو اپنے اولین اوقات میں ادا کرنا''۔ میں نے پوچھا ؛ ''اور اے اللہ کے رسول! اس کے بعد؟'' آپﷺ نے جواب دیا ، ''والدین کے ساتھ اچھا برتاؤ۔'' میں نے مزید پوچھا، ''اور اس کے بعد؟'' آپ ﷺ نے فرمایا؛ ''اللہ کی راہ میں جہاد میں شرکت۔'' (بخاری)
کوئی عقلمند شوہر بیوی کو اپنے والدین اوررشتہ داروں سے اچھے تعلق سے منع نہیں کرے گی، نہ ہی وہ اسے ان سے اچھے برتاؤ اور تعلقات بڑھانے سے روکے گا ، جسکی بدولت دونوں میں ازدواجی قرابت داری پیدا ہو گی۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اس آیت میں سسرالی رشتہ داریوں کو خونی رشتہ داریوں سے مماثلت دی۔ فرمان ہے؛
أَلَمْ تَرَ إِلَى رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَّ وَلَوْ شَاءَ لَجَعَلَهُ سَاكِنًا ثُمَّ جَعَلْنَا الشَّمْسَ عَلَيْهِ دَلِيلًا...
''کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ آپ کے رب نے سائے کو کس طرح پھیلا دیا ، اگر چاہتا تو اسے ٹھہراتا ہوا ہی کر دیتا، پھر ہم نے سورج کو اس کا سبب بنا دیا طلوع آفتاب کے بعد سایہ گھٹتا رہتا ہے اور کم ہوتے ہوتے ختم ہو جاتا ہے اور پھر زوال کے بعد سایہ بڑھتے بڑھتے غروب کے ساتھ ختم ہو جاتا ہے اور اگر سورج نہ ہوتا تو سایہ بھی نہ ہوتا..."
یہاں تک کہ اللہ فرماتا ہے؛
وَهُوَ الَّذِي مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ هَذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ وَهَذَا مِلْحٌ أُجَاجٌ وَجَعَلَ بَيْنَهُمَا بَرْزَخًا وَحِجْرًا مَحْجُورًا * وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْمَاءِ بَشَرًا فَجَعَلَهُ نَسَبًا وَصِهْرًا وَكَانَ رَبُّكَ قَدِيرًا
''اور وہی ہے جس نے دو سمندر ایسے ملا رکھے ہیں ، یہ ہے میٹھا اور مزیدار اور یہ ہے کھاری اور کڑوا، اور دونوں کے درمیاں ایک مستحکم آڑ بنا دی ہے۔اور وہی ہے جس نے انسان کو پانی سے پیدا کیا ہے، اور پھر اسے نسب سے رشتہ والا بنا دیا اور سسرالی رشتوں والا بنا دیا۔ اور بلاشبہ آپ کا پروردگار ہر چیز پر قادر ہے۔ '' (الفرقان: 53-54)
سسرالی رشتوں اور نسبی رشتوں سے نسبت دینے سے واضح ہوتا ہے کہ دونوں رشتے قابل احترام اور قابل توجہ ہیں اور دونوں رشتوں سے رب کی عظمت اورطاقت کی عکاسی ہوتی ہے۔
یہ نکات اکیلے ایک عقلمند شوہر اور ایک عقلمند بیوی کیلئے کافی ہیں
إِنَّ فِي ذَلِكَ لَذِكْرَى لِمَنْ كَانَ لَهُ قَلْبٌ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ
''بے شک اس میں اس شخص کے لیے بڑی عبرت ہے جس کے پاس (فہیم) دل ہو یا وہ متوجہ ہو کر (بات کی طرف) کان ہی لگا دیتا ہو '' (سورہ ق: 37)
اور وہ لوگ جو اس سے سبق حاصل نہیں کرتے تو ان کیلئے مزید تفصیل بھی کافی نہیں ہو گی۔

2)جہاں تک دیگر سوالات کا تعلق ہے تو اگرچہ وہ مرکزی سوالات نہیں تاہم متعلقہ ضرور ہیں۔
ا) جہاں تک سسرالی رشتہ داروں کا انتہائی سنجیدہ مسئلہ ہونے کا تعلق ہے یہاں تک کہ ان کو موت سے تشبیہ دینے کی بات ہے ، جیسا کہ بخاری میں عقبہ بن عامر سے روایت حدیث میں ہے؛
«إِيَّاكُمْ وَالدُّخُولَ عَلَى النِّسَاءِ فَقَالَ: رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَفَرَأَيْتَ الْحَمْوَ قَالَ الْحَمْوُ الْمَوْتُ»
'' اللہ کے نبی ﷺنے کہا ؛ ''عورتوں سے میل ملاپ سے خبردار رہو۔'' انصار میں سے ایک شخص نے کہا ؛ ''الْحَمْو (شوہر کے بھائی اور بھتیجے وغیرہ) کے بارے میں کیا حکم ہے؟'' رسول اللہ ﷺ نے جواب دیا؛ '' 'الْحَمْ' تو موت ہے۔''
یہ معاملہ ایسی صورتحال سے متعلق ہے جہاں عورت کا شوہر یا کوئی محرم موجود نہ ہو ، اور وہ اپنے ایسے سسرالی رشتہ داروں کے مابین اکیلی(خلوت میں) ہوجو اس کے محرم نہیں۔ 'الْحَمْو'، شوہر کے وہ رشتہ دار ہیں جو بیوی کیلئے محرم نہیں جیسے کہ شوہر کے بھائی یا کزن ... جہاں تک سسر کا تعلق ہے ، اگرچہ لغوی طور پر وہ بھی 'الْحَمْو' میں شامل ہے لیکن وہ اس حدیث کے زمرے میں نہیں آتا کیونکہ وہ عورت کیلئے محرم ہے۔ 'الْحَمْو' کے عورت سے خلوت میں ملنے کو موت سے تشبہہ دی گئی ہے جو کہ معاملے کی حرمت کی سنجیدگی اور شدت کو ظاہر کرتاہے۔
پس ایسی صورتحال میں جہاں شوہر یا عورت کا محرم رشتہ دار موجود ہو ، تو اس صورتحال میں کوئی مسئلہ نہیں ہے اور شرع نے اس کی اسی طرح اجازت دی ہے جیسے نسبی رشتہ داروں سے ملنا یا کھانے کے موقع پر اکٹھے ہونا، جو چیز منع ہے وہ خلوت میں ملنا ہے۔ اسی حدیث کی تشریح میں ابن حجر فتح الباری میں رقمطراز ہے؛
''ابنِ وھب نے اس حدیث کی تشریح میں مزید یہ بات بیان کی جسے مسلم نے روایت کیا ہے : میں نے لیث ابن سعیدکو کہتے سنا : 'الْحَمْو' کا مطلب ہے شوہر کا بھائی یا اس طرح شوہر کے رشتہ داروں میں سے دوسرے لوگ جیسے کہ کزن وغیرہ۔ اس حدیث کو روایت کرنے کے بعد ترمذی لکھتے ہیں ؛ "یہ کہا گیا ہے کہ یہ شوہر کے بھائی سے متعلق ہے ... وہ مزید کہتے ہیں : یہ حدیث جیسا کہ روایت ہے بیان کر رہی ہے کہ ایک مرد کو ایک عورت کے ساتھ خلوت میں نہیں ہونا چاہئے ، اور جب وہ خلوت میں ہو تو ان کے درمیان تیسرا شیطان ہوتا ہے۔"
اسی طرح ایک حدیث ان عورتوں کے متعلق بھی ہے جن کے شوہر موجود نہ ہو۔ ترمذی اور مسلم میں جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
«لَا تَلِجُوا عَلَى الْمُغِيبَاتِ فَإِنَّ الشَّيْطَانَ يَجْرِي مِنْ أَحَدِكُمْ مَجْرَى الدَّمِ»
''ان عورتوں سے ملنے مت جاؤجن کے خاوند گھروں سے دور ہو ں کہ شیطان تم میں ایسے موجود ہے جیسے کہ خون جسم میں دوڑتا ہے۔''
پس 'الْحَمْو' کا معاملہ اور ان کا عورت سے خلوت میں ملنے کے معاملے کا تعلق اس جگہ تک ہے جب اس عورت کا شوہر یا دوسرے محرم رشتہ دار موجود نہ ہو۔ شوہر کے گھر سے دور ہونے یا موجود نہ ہونے کے وقت عورت سے ملنے سے ممانعت دراصل خلوت میں ملاقات سے منع کرنے کا معاملہ ہے۔ جہاں تک شوہر یا دوسرے محرم رشتہ داروں کی موجودگی میں ملنے کا تعلق ہے تو شرع نے اس کی اجازت دے رکھی ہے۔ پس بیوی کے اپنے شوہر کے خاندان سے اور شوہر کے اپنی بیوی کے خاندان سے تعلق کو شرع کے مطابق مضبوط بنانے کی مکمل اجازت ہے۔
ب ) بیوی کا گھر وہی ہے جہاں اس کا شوہر رہتا ہے۔ اس پر لازم ہے کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ سکونت اختیار کرے جب تک کہ وہ گھراسے نفیس زندگی فراہم کرے اوروہ شوہر کی استطاعت کے لحاظ سے ہو۔ اسے شوہر کو حکم دینے کا حق نہیں کہ وہ اپنے شوہر کو بتائے کہ اسے کہاں رہنا ہے ، بلکہ وہ رہائش سے متعلق اچھے انداز سے شوہر سے گفتگو و شنیدکرے۔ تاہم اس معاملے میں شوہر کی رائے حتمی ہوتی ہے اور بیوی کو وہیں رہنا چاہئے جہاں اس کا شوہر اس کو ٹھہرائے۔ قرآنِ پاک میں ہے؛
أَسْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنْتُمْ مِنْ وُجْدِكُمْ
''ان کو (مطلقہ عورت کو) وہاں بساؤ جہاں تم رہتے ہو، حسب توفیق۔'' ( الطلاق :06)
یہ آیت ایک مطلقہ عورت کے عدت کی مدت کے دوران رہنے کی جگہ کے بارے میں ہے کہ یہ اس کے سابقہ شوہر کا فرض ہے کہ وہ عدت کی مدت میں اس کو رہنے کی جگہ مہیا کرے۔ پس بیوی کے معاملے میں یہ بدرجۂ اُولیٰ ہے۔ 'سَكَنْتُمْ' کا مطلب ہے جہاں تم رہتے ہو، اور 'مِنْ وُجْدِكُمْ' کا مطلب ہے حسبِ توفیق۔ پس جب تک عورت کو ایک مناسب اور محفوظ گھر شریعت کے مطابق مہیا کیا گیا ہو ، جس کی اس کا شوہر استطاعت رکھتا ہوں، تواس کا اپنی مرضی کے گھر کا مطالبہ پورا نہ ہونے پر خلع یا طلاق طلب کرناشرعی احکامات کے خلاف ہے۔۔۔
پ) شوہر کو اجازت نہیں کہ وہ بیوی کو اپنے والدین سے تعلق رکھنے سے روکے:
یہ اسلئے ہے کہ مرد اور عورت دونوں کو شرع نے حکم دیا ہے کہ وہ اپنے نسبی رشتہ داروں سے تعلق کو قائم رکھیں۔ یہ حکم نہ صرف مرد کیلئے ہے بلکہ یہ عورت کیلئے بھی ہے کیونکہ خطاب عام ہے اور اس میں مرد اور عورت دونوں شامل ہیں۔ رسول اللہﷺنے فرمایا؛
«لا يدخل الجنة قاطع رحم»
''قطع رحمی کرنے والا جنت میں نہیں جائے گا۔''
'قطع رحمی کرنے والا' عمومی حکم ہے ممنوعیت کے لحاظ سے، اور 'جنت نہیں جائے گا' بھی عام ہے اور اس میں مرد اور عورت دونوں شامل ہے۔ جس طرح شوہر کیلئے اپنے والدین سے تعلق قائم رکھنا فرض ہے ، اسی طرح عورت کیلئے اپنے والدین سے تعلق رکھنا فرض ہے۔ پس اگر شوہر، بیوی کو اپنے والدین سے تعلق قائم رکھنے سے منع کرے گا تو وہ گناہ گار ہو گا۔ اگر ایسا معاملہ ہمارے نوٹس میں آیا تو ہم اس پرمناسب انتظامی سزا دیں گے۔
نتیجہ: یہ شوہر کی ذمہ داری ہے کہ وہ بیوی کے والدین کے ساتھ بیوی کے تعلقات قائم رکھنے کو آسان بنائے، بغیر اس امر کے کہ بیوی اپنے شوہر اوراسکے گھر کے حقوق میں کوئی کوتاہی کرے۔ ایک دانا شوہر اور بیوی، جو متقی اور مخلص ہوں ، کیلئے یہ معاملہ آسان ہے۔ انہی جوڑوں کے صلہ رحمی کے معاملے مشکل بنتے ہیں جو اس دعوت کی جنس سے نہ ہوں ، جو کہ اللہ کے ساتھ اخلاص اور رسول اللہ اکے ساتھ صدق کا تقاضا کرتی ہے۔
ت) جہاں تک اس آیت کا تعلق ہے:
وَأْمُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلَاةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا لَا نَسْأَلُكَ رِزْقًا نَحْنُ نَرْزُقُكَ وَالْعَاقِبَةُ لِلتَّقْوَى
"اپنے گھرانے کے لوگوں کو نماز کی تاکید کر اور خود بھی اس پر جما رہ۔ ہم تجھ سے روزی نہیں مانگتے بلکہ ہم خود تمھیں روزی دیتے ہیں اور اچھا انجام (جنت) تو متقیوں ہی کیلئے ہے۔" (طہ: 20-132)
اس کا مطلب یہ ہے کہ تم اور تمھارا گھرانہ اللہ کی عبادت کرو، نماز پڑھو ، اوزندگی اور رزق کے معاملے کو سر پر سوار نہ کرو۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ تمھیں رزق دیتے ہیں اور ہم تمھیں یہ نہیں کہتے کہ تم اپنے آپ کو اور اپنے خاندان کے رازق بنو۔ تمہیں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا مطیع ہونا چاہئے اور اپنے خاندان کو بھی یہ حکم دینا چاہئے ، اور یاد رکھو کہ اچھا انجام تو متقیوں کیلئے ہے۔
موطا امام مالک میں زید بن اسلم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں ، ''عمر بن الخطاب رات کو عبادت میں اس قدر مصروف رہا کرتے جتنا کہ الل ان کیلئے چاہتے تھے، اور وہ رات کے آخری حصے میں اپنے گھر والوں کو اٹھاتے اور کہتے 'نماز، نماز' اور یہ آیت تلاوت کرتے ؛
وَأْمُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلَاةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا لَا نَسْأَلُكَ رِزْقًا نَحْنُ نَرْزُقُكَ وَالْعَاقِبَةُ لِلتَّقْوَى
''اپنے گھرانے کے لوگوں کو نماز کی تاکید کر اور خود بھی اس پر جما رہ۔ ہم تجھ سے روزی نہیں مانگتے بلکہ ہم خود تمھیں روزی دیتے ہیں ، اور اچھا انجام (جنت) تو متقیوں ہی کیلئے ہے۔'' (طہ: 20-132)
اللہ سبحانہ و تعالی نے لفظ 'وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا' کالفظ استعمال کیا جس کا مفہوم 'جما رہ، ڈٹ جاؤ' کا ہے۔ یہاں 'وَاصْبِرْ عَلَيْهَا' کی بجائے 'وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا' استعمال کیا گیا ہے جس میں زیادہ سختی ہے ، جس کا مفہوم 'صبر کرتا رہ'ہے۔ یہ زیادہ شدت اور کوشش کی جانب اشارہ ہے۔ کیونکہ ایک انسان کو اپنے آپ اور گھر والوں کو حق پر لانے، آگ سے بچانے اور عمل کی جانب لانے میں انتہائی کوشش، صبر اور صعوبت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اور اللہ نیکو کاروں کی حفاظت کرتاہے۔
یہاں پر اس آیت کی یاد دہانی بھی اہم ہے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَلَائِكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَا يَعْصُونَ اللَّهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُون
''اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو دوزخ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں ، اس پر فرشتے سخت دل اور قوی ہیکل مقرر ہیں ، وہ اللہ کی نافرمانی نہیں کرتے جو وہ انہیں حکم دے ، اور وہ وہی کرتے ہیں جس کا انہیں حکم دیا جاتا ہے۔'' ( التحریم:06)
بچاؤ اپنے آپ اور اپنے خاندان کو آگ سے، کا مطلب ہے: اپنے بیوی اور بچوں کو اس آگ سے دور کرو، اللہ سے دعا کر کے، اور انھیں معروف کا حکم دے کر اور منکر کی نہی کر کے، اس دین کے احکامات سیکھ کر اور اپنے خاندان کو سکھانے کے ذریعے ، ان کی احسن تربیت کر کے اوراحکامِ شرع کے مطابق انھیں سزا دے کر ، اور اپنے گھر والوں کو نماز، روزے، زکواة ، حج اور دیگر تمام شرعی احکاما ت کا حکم د ے کر۔۔۔
میں دوبارہ اسے دہراتا ہوں جہاں سے ابتدا کی تھی، مجھے اس امر سے شدید دکھ ہے کہ شباب شوہر اور بیویاں اپنے ازدواجی تعلقات میں اس قدر مسائل میں ہیں ، اور اس کا مطلب یہ ہے کہ اس دعوت نے ابھی تک ان میں جڑیں نہیں پکڑی ہیں اور انھوں نے اس کے اخلاق واطوار نہیں اپنائے۔ اور انھوں نے اس کو ایسے سرانجام نہیں دیا جیسا کہ اس کا حق ہے، نہ انھوں نے اس کو مضبوط کیا۔ مجھے خو ف ہے کہ قدم قائم ہونے کے بعد متزلزل نہ ہوجائیں۔

 

Read more...

سوال وجواب:  وصیت اور کرنسی سے متعلق سوالات

سوال 1: کیا انگریزی قانون کے مطابق ایک مسلمان وکیل کیلئے غیر مسلم وصی کی وصیت لکھنا جائز ہے، جس میں وصی نے اپنے ترکے کا کچھ حصہ یاپورا ترکہ کسی ایسے ادارے کے نام چھوڑا ہو جو یا تو نامعلوم ہو یا شرعاً ممنوع ہو جیسا کہ ایسے ادارے جہاں کتوں کی نگہداشت کی جاتی ہے یا ایسے ادارے جس کا تعلق لہو لعب سے ہو؟

سوال 2: ہم نے اپنی بہت سی مطبوعات اور کتب میں اس بات کی وضاحت کی ہے کہ حقیقی زر ( کرنسی) صرف سونا اور چاندی کو متصور کیا جائے گا، چاہے یہ اپنی حقیقی شکل میں ہو یا اس کی قیمت کے برابر نقدی ہو۔ شیخ عبد القدیم زلوم کی کتاب میں اس امر کی نشاندہی کی گئی ہے کہ کوئی بھی مملکت یا تو سونا اور چاندی، یا کوئی اور موزوں دھات کو بطور کرنسی استعمال کر سکتا ہے جب تک کہ سونے کو مرکزی کرنسی کی حیثیت حاصل ہو۔ لہٰذا، کیا کوئی حکومت سونا چاندی کے ساتھ ساتھ کوئی اور قیمتی دھات مثلا َ َ پلاٹینم یا قیمتی پتھر جیسے ہیرے اور اس جیسی دوسری چیزیں بطور کرنسی استعمال کر سکتا ہے؟

 

جواب(سوال 1): اگر معاملہ ایک کافر وصی اور مسلمان وکیل کے مابین ہو۔ یہ اجرت کا معاملہ ہے جس میں کافر وصی نے وصیت لکھنے کی غرض سے ایک مسلمان وکیل کو اجرت پر ''جیسا وہ کہے، لکھے گا'' کے اصول پر رکھا ہو۔ سو یہ تو محض اجرت کے عوض وصیت لکھنے کا ایک معاہدہ ہے، جس کی رو سے مسلمان وکیل وہی وصیت تحریر کرتا ہے جیسا کہ کافر اسے بتاتا ہے، پھر وکیل اپنی اجرت وصول کرتا ہے اور معاملہ وہیں ختم ہو جاتاہے ۔
جہاں تک وصیت کا تعلق ہے تو۔۔۔ اگر تو معاملہ ایسا ہی ہے تو ایسی صورت میں وصیت لکھنا جائز ہے بشرطیکہ اس میں اسلامی عقیدہ کے منافی کوئی بات نہ ہو، کیونکہ اسلامی عقیدہ کے خلاف کچھ لکھنا اس کو بولنے کے مترادف ہے اور ایسا جائز نہیں۔
تاہم قابل ترجیح امر یہ ہے کہ ایسی وصیت کو تحریر نہ کیا جائے جس میں اسلامی احکامات کے خلاف مواد موجود ہو۔ یہ اسلئے کہ کافر کی وصیت میں اسلامی احکامات سے متصادم شقوں سے متفق ہونا ظاہر نہ ہو۔
تاہم اگر یہ معاملہ صاحب وصی اوروکیل کے مابین وکالہ(نمائندگی) کا ہو جس میں وکیل، صاحب وصی کے نمائندہ کی حیثیت سے وصیت کا نفاذ کرتا ہے۔۔۔وہ متعلقہ افراد سے رابطہ کرتا ہے۔۔ان کو وصیت سے آگاہ کرتاہے۔۔اور صاحب وصی کے نمائندہ کی حیثیت سے وصیت کا نفاذ کرتا ہے۔۔۔اس صورت میں یہ جائز نہیں ہے کیونکہ اس صورت میں ایک مسلمان وکیل شریعت،جس پر وہ ایمان لاتاہے،کے برخلاف ایک وصیت کو نافذ کرتاہے ۔

 

جواب (سوال 2): اسلام میں زر(کرنسی) کا تصور سونے اور چاندی کا ہے یا دوسرے ذرائع جیسے کہ کاغذی نوٹ بشرطیکہ بیت المال میں اس مالیت کے موافق سونا اور چاندی موجود ہو۔ ہلکی(کم قیمت) دھاتوں جیسے تانبے وغیرہ کو سستی اشیاء کی خریداری کیلئے استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔ کیونکہ اگر سونے اور چاندی کو اس مقصد کیلئے استعمال کیا جائے تو ان سے بنے ہوئے سکے اس قدر قلیل الوزن ہونگے جنکو عام حالات میں استعمال میں نہیں لایا جا سکتا۔ سونے اور چاندی کی مقدار قلیل اور کم قیمت دھاتوں کی مقدار کثیر کی آمیزش سے ایسے مناسب سکے بنائے جا سکتے ہیں جو آئندہ کم قیمت اشیاء کی خریداری میں استعمال کئے جا سکتے ہو۔ یہ معاملہ کتاب ''فی الاموال'' میں مذکور ہے؛
...حکومت چاندی کے سکوں سے کم مالیت کے سکے بھی بنا سکتی ہیں تاکہ سستی اشیا کی خریداری کو آسان بنایا جا سکے۔ چونکہ چاندی کے سکے خالص چاندی سے بنے ہوتے ہیں تاہم چونکہ ان میں بہت معمولی مقدار میں چاندی ہوتی ہے اسلئے ان سے معاملہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے اسلئے کم قیمت دھاتوں کو ان میں شامل کیا جا سکتا ہے، تاہم ان سکوں میں چاندی کا تناسب وزن کے حساب سے واضح ہونا چاہئے تاکہ اس معاملے میں کوئی شکوک و شبہات نہ رہیں۔
مسلمانوں کے ہاں سونے اور چاندی پر مبنی دو دھاتی اصول واضح رہا ہے ۔ مصر میں اتابکہ اور عباسیوں کے آخری دور میں مسلمانوں نے سونے ور چاندی کے ساتھ ساتھ تانبے (پیتل) کو بطور کرنسی استعمال کیا جس سے وہ کم قیمت اشیا خریدتے تھے کیونکہ تانبے کی قدر (نسبتاً) کم ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ سونے اور چاندی کا متبادل ہے بلکہ یہ اپنی قدر کے طور پر موجود رہی۔ پس اس کو سستی اشیا کی خریداری کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔
اس طرح سونے اور چاندی کے علاوہ اور دھاتوں کے سکے بھی استعمال کئے جا سکتے ہیں جو عموماً سستے دھاتوں کے بنے ہوئے ہوں، لیکن ان کو سونے اور چاندی کی خریداری کے لئے استعمال نہ کیا جائے گا، کیونکہ یہاں معاملہ سستی چیزوں کی خریداری کا ہے جس کیلئے ایک مناسب اور عملی طریقہ کار کی کرنسی کی ضرورت ہے۔ اگر سستی اشیا کی خریداری کیلئے سونے اور چاندی کے سکوں کو استعمال کیا جائے تو ایسے سکوں کا وزن اور مقدار بہت قلیل ہو گی، اسلئے کم قیمت دھاتوں کو استعمال میں لایا جائے گا تاکہ ان سکوں کا ایک مناسب وزن ہو جو کہ استعمال میں آسان ہو۔ یہ امر قیمتی دھات سے حاصل نہیں کیا جا سکتا۔
جہاں تک سونے چاندی کے علاوہ دیگر قیمتی دھاتوں کا بطور شرعی کرنسی کے استعمال کا تعلق ہے جیسا کہ پلاٹینم اور ہیرا ہے ۔۔۔ تو شریعت میں اس کی اجازت نہیں کیونکہ شریعت میں موجود دلائل صرف سونے اور چاندی کو بطور کرنسی کے متعین کرنے کے بارے میں واضح اور معلوم ہیں۔ اسی طرح شرعاًیہ بھی جائز نہیں کہ سونے اور چاندی سے زیادہ قیمتی دھاتوں کو بیت ا المال میں بطور 'ریزرو' (reserve) استعمال کیا جائے۔ دوسری کوئی بھی دھات محض ایک شے ہے نہ کہ کرنسی۔

Read more...

روسی وزیر خارجہ لاروف خلافت کے خلاف اپنی نفرت کا اظہار کرتا ہے


قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَاءُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ وَمَا تُخْفِي صُدُورُهُمْ أَكْبَرُ قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْآيَاتِ إِنْ كُنْتُمْ تَعْقِلُونَ
"ان کی عداوت تو خود ان کی زبان سے بھی ظاہر ہو چکی ہے اور جو ان کے سینوں میں پوشیدہ ہے وہ اس سے بھی زیادہ ہے"(اٰل عمران:118)

جمعہ 27ستمبر2013کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے روسی وزیر خارجہ لاروف نے خبردار کیا کہ "شام میں مسلحہ گروہوں میں سب سے زیادہ طاقتور جہادی ہیں جن میں کئی انتہا پسند بھی شامل ہیں جو دنیا بھر سے آئے ہیں اور وہ جس ہدف کو حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں اس کا جمہوریت سے کوئی تعلق نہیں ہے اور ان کی بنیاد ایک انتہاپسندانہ نظریہ حیات ہے، وہ سیکولر ریاست کا خاتمہ اور خلافت اسلامیہ کا قیام چاہتے ہیں"۔
اقوام متحدہ میں شامی کیمیائی اسلحہ کے خاتمے کے سلسلے میں ہونے والے اجلاس سے واپسی پر اس نے کہا کہ "اس کا ملک جینوا 2کانفرنس میں مسلحہ شامی حزب اختلاف کی شمولیت کی مخالفت نہیں کرتا جب تک کہ وہ خلافت کے قیام کی سوچ نہ رکھتے ہوں"۔
لاروف کے اس بیان نے شام اور خطے میں جاری تنازعے کی حقیقت کو بے نقاب کردیا ہےکہ یہ تہذیبوں کے درمیان ایک نظریاتی ٹکراؤ ہے یعنی دین حق اسلام اورکرپٹ جابرانہ جمہوریت اور اللہ کو نہ ماننے والی سیکولرازم کے درمیان ایک جنگ ہے۔اس نے اپنے پوشیدہ مقاصد اور اسلام ، خلافت اور جہاد کے خلاف مغرب کی نفرت کو بھی بے نقاب کردیا ہے۔ اُس نے بتادیا ہے کہ اُس کی اسلام کے خلاف نفرت بشار الاسد سے کسی بھی طرح کم نہیں ہے۔ اس نے اس بات کو بھی بے نقاب کردیا ہے کہ چین،روس، مغرب اور اسرائیل، مسلمانوں کو نشانہ بنانے میں بشار کے مددگار ہیں جو مسلمان مرد،عورتوں اور بچوں کے خلاف بھیانک قتل عام کرنے کے لیے ان کی مدد پر انحصار کرتا ہے۔
کفار کا خلافت اسلامیہ کےقیام کے انتہائی مقدس مقصد کے خلاف متحدہ محاذ ہمیں اللہ سبحانہ و تعالٰی کے اس فرمان کی یاد دلاتا ہے کہ :
سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّونَ الدُّبُرَ
"عنقریب اس جماعت کو شکست دی جائے گی اور یہ پیٹھ دکھا کر بھاگے گی"(القمر:45)
جی ہاں ، یہ درست ہےکہ جب سے روس، مغرب اور یہود نے شام کی سرزمین سے خلافت کے نعرے سنیں ہیں جو ایک انقلاب کے مرحلے سے گزر رہی ہے، یہ اپنا دماغی توازن کھو چکے ہیں! جب انھوں نے اس مطالبے کی سنجیدگی اور اس کی واپسی کو یقینی جان لیا تو ان کے دن کا چین اور رات کا سکون برباد ہوگیا۔ انھیں اب سوائے اس بات کے کسی چیز کا ہوش نہیں کہ وہ کھل عام اور خفیہ طور پر اس انقلاب کی مخالفت کریں۔لیکن اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ خلافت کی واپسی کی کس قدر مخالفت کرتے ہیں، ان کی ہر کوشش اللہ کے حکم سےضائع ہو جائے گی:
وَمَكْرُ أُولَئِكَ هُوَ يَبُور
"اور ان کا یہ مکر برباد ہوجائے گا"(فاطر:10)
چاہے وہ کتنا ہی اللہ کے نور کو بجھانے کی کوشش کریں مگر اللہ ان کی کوشش کو کامیاب نہیں کرے گا بلکہ اپنے نور کو مکمل کرے گا چاہے کفار کو کتنا ہی ناگوار گزرے۔اللہ سبحانہ و تعالی فرماتے ہیں:
يُرِيدُونَ أَنْ يُطْفِئُوا نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَيَأْبَى اللَّهُ إِلَّا أَنْ يُتِمَّ نُورَهُ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ * هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ
"وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے منہ سے بجھا دیں اور اللہ تعالٰی انکاری ہےمگر اسی بات کا کہ اپنا نور پورا کرے گو کافر ناخوش رہیں۔اسی نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا ہے کہ اسے اورتمام مذاہب پر غالب کردےاگرچہ مشرک برا مانیں"(التوبۃ:32-33)
خلافت کی سرزمین،سرزمین شام، اسلام کے گھر میں رہنے والے مسلمانو! لاروف، کہ جس نے مسلمانوں کو ان کے دین کے حوالے سے کھلا چیلنج دیا ہے، بشار کی ریاست کے سرکاری ترجمان کا کردار ادا کررہا ہے!اس نے ان گروہوں کے خلاف اپنی نفرت کا کھل کر اظہار کیا جو اسلامی خلافت کے قیام کی جدوجہد کررہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اس نے یہ بھی کہا کہ " اس کا ملک جنو ا 2کانفرنس مںت مسلحہ شامی حزب اختلاف کی شمولتی کی مخالفت نہں کرتا جب تک کہ وہ خلافت کے قاجم کی سوچ نہ رکھتے ہوں"۔یہ وہ جماعتیں ہیں جن میں قومی شامی اتحاد کے سربراہ احمد الجربا بھی شامل ہے جس نے اقوام متحدہ کے اسی منبر سے خطاب کرتے ہوئے اسلامی انتہاپسندوں پر الزام لگایا کہ وہ انقلاب کو چرا لینے کی کوشش کررہے ہیں اور وہ یہ سمجھتا ہے کہ ان مسلمانوں کا انقلاب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ان شخصیات میں اس کا سیکولر استاد مشال کیلو بھی شامل ہے جس نے یہ کہا کہ "ہمیں ان جماعتوں کی کوششوں کو کم اہمیت نہیں دینی چاہیے جو اس انقلاب کے خلاف کام کررہی ہیں۔۔۔۔۔ہمیں کسی بھی صورت ان کے خطرے کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے ۔۔۔۔یہ ایک انتہائی تباہ کن غلطی ہوگی اور اس کے ساتھ یہ بھی اتنی ہی تباہ کن غلطی ہو گی کہ ان کے ساتھ افکار کی بنیاد پر بات چیت کی جائے جو کہ حکومت کی خلاف مزاحمت کو اولین ترجیع قرار دیتے ہیں"۔
اسلام اور خلافت کے خلاف اس کھلم کھلا مخالفت کا تقاضع ہے کہ مسلمان بھی اس کا ایسا ہی منہ توڑ جواب دیں اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ وہ اعلان کریں کہ ان کا قائد اللہ کے رسول ﷺ ہیں اور ان کا طریقہ ہی تبدیلی کا طریقہ ہے اور خلافت راشدہ کا قیام ہی ان کے انقلاب کا مقصد ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالٰی فرماتے ہیں:
مَا كَانَ لِأَهْلِ الْمَدِينَةِ وَمَنْ حَوْلَهُمْ مِنَ الْأَعْرَابِ أَنْ يَتَخَلَّفُوا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ وَلَا يَرْغَبُوا بِأَنْفُسِهِمْ عَنْ نَفْسِهِ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ لَا يُصِيبُهُمْ ظَمَأٌ وَلَا نَصَبٌ وَلَا مَخْمَصَةٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا يَطَئُونَ مَوْطِئًا يَغِيظُ الْكُفَّارَ وَلَا يَنَالُونَ مِنْ عَدُوٍّ نَيْلًا إِلَّا كُتِبَ لَهُمْ بِهِ عَمَلٌ صَالِحٌ إِنَّ اللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ * وَلَا يُنْفِقُونَ نَفَقَةً صَغِيرَةً وَلَا كَبِيرَةً وَلَا يَقْطَعُونَ وَادِيًا إِلَّا كُتِبَ لَهُمْ لِيَجْزِيَهُمُ اللَّهُ أَحْسَنَ مَا كَانُوا يَعْمَلُون
"مدینہ کے رہنے والوں کو اور جو دیہاتی ان کے گرد و پیش ہیں ان کو یہ زیبا نہ تھا کہ رسول اللہﷺ کو چھوڑ کر پیچھے رہ جائیں اور نہ یہ کہ اپنی جان کو ان کی جان سے عزیز سمجھیں۔ یہ اس سبب سے کہ ان کو اللہ کی راہ میں جو پیاس لگی اور تکان پہنچی اور جو بھوک لگی اور جو کسی ایسی جگہ چلے جو کفار کے لیے غصہ کو باعث بنا ہو اور دشمنوں کی جو خبر لی، ان سب پر ان کے نام(ایک ایک)نیک کام لکھا گیا۔ یقیناً اللہ تعالٰی مخلصین کا اجر ضائع نہیں کرتے"(التوبۃ:120)

ہشام البابا
ولایہ شام میں حزب التحریر کے میڈیا آفس کے سربراہ

Read more...

ازبکستان میں دعوت کے شہسوار بدستور اپنے لہو سے شجر اسلام کی آبیاری پر اصرار کر رہے ہیں!

 

پریس ریلیز

تاشقند کا ایک اور فرزند سمرالدین سراج دینوفیتش35 سال کی عمر میں اللہ کی مشیت سے شہادت کے رتبے پر فائز ہو گیا.یہ فرزند امت ازبکستان کے طاغوت کریموف کی حکومت کو جڑھ سے اکھاڑ پھینک کر اس کی جگہ نبوت کے نقش قدم پر دوسری خلافت راشدہ کے قیام کے لیے حزب لتحریر کی صفوں میں سرگرم عمل تھا۔
سمرالدین رحمہ اللہ بچپن سے ہی اپنی محنت،جدوجہد اور ذہانت کی وجہ سے ممتازتھے۔آپ اپنے سکول کی تعلیم کے زمانے سے ہی اپنے تمام ساتھیوں میں لائق اور فائق تھے۔اسی طرح یونیورسٹی کے مراحل میں بھی آپ ہمیشہ نمایاں رہے اورتاشقند کے الامام البخاری یونیورسٹی کے شعبہ دینیات سے امتیازی درجے میں فراغت حاصل کی۔اپنی ذہانت ،حساسیت اوربیدارمغزی سے ازبک حکومت کی کرپشن اور مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کو بھانپ لیا اور یہی حزب لتحریر سے آپ کے تعارف کا سبب بن گیا۔اس کے افکار کو اپنا نےاور اس نصب العین کے حصول کے لیے حزب کے صفوں میں شامل ہو گئے اورکسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ کیے بغیر اور ظالموں کے خوف کو خاطر میں لائے بغیر اسلامی زندگی کی واپسی کی جدوجہد کرتے رہے۔
1999 م میں مجرم زمانہ یہودی کریموف کی اسلام دشمن اور مسلمانوں کے خون کی پیاسی حکومت نے سمرالدین کو گرفتار کر کیا اور 17 سال قید کی سزا سنائی،یوں شیر کو پنجرے میں بند کر دیا گیا ۔آپ کوزرفشان شہر کےبدنام زمانہ "جسلیق"جیل اور کالونی نمبر48/64 کے درمیان منتقل کیا جاتا رہا۔مجرم حکومت کے کارندوں نے حسب عادت سمرالدین کو اپنے عقیدے اور افکار سے دستبردار کرنے یا اپنے مشن سے روکنے کے لیے ہر وہ خبیث اور گھٹیا اسلوب اختیار کیا جو ان کی مجرم عقل اور مریض ذہن میں آتا،لیکن ایک ایسے چٹان جیسے آدمی کے سامنے جس نے اپنے آپ کو اللہ کے لیے وقف کر رکھا ہو ان کو رسوائی کے سوا کچھ نہیں ملاان کی امیدیں خاک میں مل گئیں،جس کی وجہ سے ان کے سینے بغض اور حسد سے بھر گئے اور انہوں نے آپ کو قتل کرنے کا فیصلہ کیا اور اس پر عمل بھی کر لیا۔
21 اکتوبر 2013 کی رات کے آخری حصے میں شیخانتور اسپیشل فورس اور مقامی پولیس کے افراد نے شہید کی جسد خاکی کو ان کے ورثا کے حوالے کرنے آئے۔آپ کے پاک جسم پر زخموں اور مار پیٹ کے نشانات واضح تھےجبکہ انہی دنوں میں آپ کے رشتہ داروں اور آپ کے ساتھی قیدیوں نے آپ کو دیکھا تھا اور آپ کی صحت بالکل ٹھیک تھی کوئی شکایت نہیں تھی۔یہی وجہ ہے کہ آپ کے رشتہ داروں نے آپ کی لاش کے پوسٹ مارٹم کا مطالبہ کیا جس کی رپورٹ خوف ناک تھی۔رپورٹ میں ہے کہ سمرالدین کو دماغ میں چوٹیں لگی ہیں،کھوپڑی ٹوٹی ہوئی ہے،مغز خون آلود ہے،سارے جسم میں ہڈیاں ٹوٹی ہوئی ہیں۔اس شرمناک جرم کو چھپانے کے لیے سرکش کریموف کے غنڈوں نے سمرالدین کو فجر کی نماز کے فورا بعد دفنانے کا مطالبہ کیا ،بلکہ خود ہی ان کو غسل دینے قبر کھودنے اور دفن کر نے کی پیش کش کی ۔انہوں نے یہ دھمکی بھی دی کہ اگر گھروالوں نے ان کے احکامات پر عمل نہیں کیا تو ان کو بھی گرفتار کیا جائے گا جس کی وجہ سے گھروالوں نے رشتہ داروں اور پڑوسیوں کے آنے سے پہلے ہی ان کو دفنادیا۔
ہم اللہ سے دعاگو ہیں کہ اللہ ہمارے بھائی سمرالدین کی شہادت کو قبول فرمائے اوران کو سید الشہداء کا مرتبہ عطا فرمائے،ان کے اہل وعیال کو صبر جمیل اور اجر عظیم سے نوازے اورآپ کو قیامت کے دن ان کے لیے شفاعت کا ذریعہ بنائے۔ابن حبان نے اپنے صحیح میں ابو درداء سے روایت کی ہے کہ :رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:(الشہید یشفع فی سبعین من اھل بیتہ)"شہید اپنے گھروالوں میں سے ستر آدمیوں کی شفاعت کرے گا"۔
مجرم یہودی کریموف ،اس کے ہرکاروں اور کارندوں سے ہم کہتے ہیں کہ یاد رکھو خلافت دروازے پر ہے ۔ہوش میں آؤ اور کریموف سے ہاتھ کھنچ لو،مسلمانوں کوایذا اور عذاب دینے سے ہاتھ روک لو،ورنہ اگر تمہارے اس حال میں ہوتے ہوئے خلافت قائم ہوگئی تو تمہیں معاف نہیں کیا جائے گا اور تم پر تر س نہیں کھا یا جائے گا۔اس ذلیل ہو کر گڑگڑانے سے تمہیں کچھ نہیں ملے گا اوریہ تو دنیا میں ہوگا جبکہ آخرت کا عذاب تو شدید اور دردناک ہے،اللہ سبحانہ و تعالی اپنی کتاب میں فرماتے ہیں۔
﴿وَكَذَلِكَ أَخْذُ رَبِّكَ إِذَا أَخَذَ الْقُرَى وَهِيَ ظَالِمَةٌ إِنَّ أَخْذَهُ أَلِيمٌ شَدِيدٌ﴾
"اوراسی طرح تمہارے رب کی پکڑ ہے جب وہ ظلم کرنے والی بستیوں کو پکڑ تا ہے تو اس کی پکڑ شدید ترین ہو تا ہے"۔(ہود:101)

Read more...

خلافت کا قیام افواج میں موجود مخلص افسران کی جانب سے نُصرَۃ(مادّی مدد)فراہم کرنے سےہی ہوگا

 

اے پاکستان کے مسلمانو! ہم میں سے ہر شخص اس بات سے آگاہ ہے کہ کیانی و شریف حکومت ہویا ماضی کی حکومتیں،پاکستان مسلسل معاشی بدحالی اورخارجی معاملات میں ذلت و رسوائی کے راستے پر گامزن ہے۔ نہ صرف یہ کہ ہم لوگ اس صورتِ حال سےباخبر ہیں بلکہ ایک طویل عرصے سےہم اس کا مزہ بھی چکھ رہے ہیں۔ اورہم یہ بھی دیکھ چکے ہیں کہ پچھلے تین انتخابات کے نتیجے میں آنے والی حکومتیں اتنی ہی کرپٹ اورنااہل تھیں جتنا کہ فوجی بغاوت کے ذریعے قائم ہونے والی آمرانہ حکومتیں۔ لہٰذا اب پاکستان میں اس بحث کوبہت اہمیت حاصل ہو گئی ہے کہ حقیقی تبدیلی کیسے لائی جائے؟ کس طرح ہم اس چیز کو ممکن بنائیں کہ ہمارے اوپر مخلص حکمرانوں کا سایہ ہو جواسلام کی بنیاد پر حکمرانی کریں ؟ کس طرح سے ہم وہ حقوق حاصل کرسکیں جو اللہ سبحانہ و تعالی اور اس کے رسول صلى الله عليه و سلم نے ہمارے لیےطے کیے ہیں؟ اور اس حقیقی تبدیلی کو لانے میں ہماراکردار کیا ہو تا کہ اس خوشحالی اور سکون و اطمینان کی زندگی میں مزید تاخیر نہ ہو جس میں پہلے ہی بہت تاخیر ہوچکی ہے؟
بھائیو اور بہنو! جمہوریت کے تحت ہونے والے انتخابات کبھی بھی اِس نظام کا خاتمہ نہیں کریں گے، جو کہ مسلسل بدعنوان اور کرپٹ حکمران پیدا کررہا ہے، چاہے پاکستان کی زندگی کے اگلے ستر سالوں کے دوران بھی الیکشن در الیکشن کا سلسلہ جاری رہے۔ پاکساین کی ہر حکومت اور واشنگٹن میں بیٹھے ان حکومتوں کے آقا یہ کہہ کر پاکستان کے لوگوں کو دھوکا دیتے ہیں کہ تبدیلی لانے کا واحد ذریعہ صرف جمہوریت کے تحت انتخابات ہی ہیں۔ مغرب اور ان کے ایجنٹ حکمران ،عوام اور افواجِ پاکستان سے اس بات کا مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ جمہوریت کے تسلسل کی یقین دہانی کرائیں اگرچہ جمہوریت پاکستان کی سالمیت اور خوشحالی کو شدید نقصان پہنچا رہی ہے۔ لہٰذا مغرب کی حمایت سے قائم کردہ آمرانہ حکومتوں سے جان چھڑانے کے لیے ،مغرب اور ان کے ایجنٹ پاکستان کے مسلمانوں کواپنے دوسرے جال یعنی جمہوریت کی دعوت میں پھنسا دیتے ہیں جیسا کہ انھوں نے مصر ،ترکی اور دوسرے مسلم ممالک میں کیا۔
اے پاکستان کے مسلمانو! ہم پر لازم ہےکہ ہم اپنے دشمنوں کے جھوٹ کو مسترد کردیں اور اپنے دین کی طرف رجوع کریں تا کہ اس بدحالی اور مایوسی کی صورتحال سے نکل سکیں۔ جی ہاں، اسلام نے اس بات کو فرض قرار دیا ہے کہ امت کا حکمران امت کی مرضی اور اس کے انتخاب کے ذریعے بنایا جائے۔ جی ہاں ، ایک بار جب رسول اللہ صلى الله عليه و سلم نے مدینہ میں اسلامی ریاست قائم کردی تو انتخاب ہی وہ طریقہ تھا جس کے ذریعے رسول اللہ صلى الله عليه و سلم کے بعد خلفاء راشدین کو حکمرانی کے لیے چُنا گیا تھا۔ لیکن اسلام میں وہی شخص حکمران بن سکتا ہے اور حکمران رہ سکتا ہےجو اسلام اور اس کی شریعت کی بنیاد پر حکمرانی کرے نہ کہ جمہوریت اور اس کے کفر کی بنیاد پر۔ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ کفار نے آپ صلى الله عليه و سلم کو اپنی پارلیمنٹ، دارالندوہ، میں شمولیت اور اس کا سربراہ تک بننے کی پیشکش کی لیکن رسول اللہﷺنے مضبوطی سے اس پیشکش کو رد کر دیا۔ اللہ کے نازل کردہ نظام کے سوا کسی بھی دوسرے نظام کو اللہ سبحانہ و تعالی نے "طاغوت " قرار دیا ہے اورموجودہ جمہوریت اسی کی ایک شکل ہےکہ جس میں قانون وفیصلے کا اختیار شریعت کی بجائے پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوئے عوامی نمائندوں کے پاس ہوتا ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:﴿أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ آَمَنُوا بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ يُرِيدُونَ أَنْ يَتَحَاكَمُوا إِلَى الطَّاغُوتِ وَقَدْ أُمِرُوا أَنْ يَكْفُرُوا بِهِ﴾"کیا آپ صلى الله عليه و سلم نے نہیں دیکھا ان لوگوں کو جو دعوی کرتے ہیں کہ وہ ایمان لائے ہیں ، اس پر جو آپ صلى الله عليه و سلم پراور آپ صلى الله عليه و سلم سے پہلے نازل ہوا، یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اپنے فیصلے طاغوت(غیر اللہ) کے پاس لے جائیں حالانکہ ان کو حکم ہوچکا ہے کہ طاغوت کا انکار کردیں"(النساء:60)۔
اور رسول اللہ صلى الله عليه و سلم نے ایسا اقتدار لینے سے انکار کردیا جس میں اقتدار کے بدلے اسلام کے کسی بھی معاملےپر سمجھوتےکی شرط عائد کی گئی ہوجیسا کہ یہ شرط کہ آپ صلى الله عليه و سلم کے بعد اقتدارکسی ایک مخصوص گروہ کو منتقل کیا جائے گا۔ پس رسول اللہ صلى الله عليه و سلم نے بَنُو عامر بن صَعْصَعَةکے وفد کی اس پیش کش کو مسترد کردیا جب انھوں نے آپ صلى الله عليه و سلم کو اقتدار دینے کے بدلے یہ شرط عائد کی کہ آپ صلى الله عليه و سلم کے بعد یہ اقتدار انھیں منتقل ہوجائے گا۔ رسول اللہ صلى الله عليه و سلم نے فرمایا کہ((الأمر لله يضعه حيث يشاء)) "حکمرانی اللہ کی ہے اور وہ جسے چاہے گااسے دے گا"۔ تو پھر ان لوگوں کے متعلق کیا خیال ہے جو جمہوری نظام ، اس کی پارلیمنٹ اور وزارتوں میں شرکت کرکے اگر پورےاسلام سے نہیں تو اس کے بیشتر حصے سے دستبردار ہوجاتے ہیں؟ یقیناً رسول اللہ صلى الله عليه و سلم کا طریقہ ان تمام مسلمانوں کے لیے ایک واضح سبق ہے، جو اَب بھی جمہوری نظام کے مغربی جال کی طرف اندھا دھندبھاگے چلے جارہے ہیں اور لوگوں کے سامنے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اسلام، اس کی شریعت اور اس کی خلافت کے قیام کے لیے کوشش کررہے ہیں، چاہے ان لوگوں کا تعلق پاکستان سے ہو یا مصرسے، ترکی سے ہویا کسی اور مسلم ملک سے ۔ توکیا یہ لوگ سبق حاصل کریں گے!
پس رسول اللہﷺکفریہ نظام کو تبدیل کرنے کے لیے اسی کفریہ نظام کا حصہ نہیں بنے،اگرچہ انھیں اس نظام کا سربراہ بننے کی دعوت دی گئی تھی۔ اور رسول اللہ صلى الله عليه و سلم نے ایسےاقتدار کو بھی قبول نہیں کیا جس کے بدلے میں آپ صلى الله عليه و سلم سےاسلام کے کسی ایک معاملے پر بھی سمجھوتے کا مطالبہ کیا گیاتھا۔ اس کی جگہ رسول اللہ صلى الله عليه و سلم نے کفر کی حکومت کے خاتمے کے لیے پورےمعاشرے سے اس کفریہ حکومت کی حمایت اور قوت کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ رسول اللہ صلى الله عليه و سلم نےلوگوں کی طرف سے کفرکی حمایت کو ختم کیا اور اس کے لیے آپﷺنے کفر کے نظام کو کھلم کھلاچیلنج کیا ،اس کی حقیقت کو بے نقاب کیااور لوگوں کو اسلام کی طرف بلایا۔ اس کے ساتھ ساتھ رسول اللہ صلى الله عليه و سلم نے کفر کی حکمرانی کو اس مادّی سہارے سے محروم کیاجواسے تحفظ فراہم کیے ہوئے تھا۔ رسول اللہﷺ نے ذاتی طور پر ان لوگوں سے ملاقاتیں کیں جو جنگی طاقت رکھتے تھے اور ان سے مطالبہ کیاکہ وہ ایمان قبول کرنے کے ساتھ ساتھ دینِ اسلام کو نُصرَۃ(مادّی مدد)فراہم کریں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے رسول اللہ صلى الله عليه و سلم نے طویل سفر کیے، مشکلات اٹھائیں تا کہ اسلام کو ایک ریاست کی شکل میں قائم کرنے کے لیے نُصرۃ کے حصول کو یقینی بنایا جائے۔ رسول اللہ ﷺجن لوگوں سے نصرۃ کا مطالبہ کرتے تھے، ان کی مادّی قوت کو بھی معلوم کرتے تھے۔آپ صلى الله عليه و سلم ان سے سوال کرتے تھے:((و هل عند قومك منعة؟))"کیا تمھارے لوگ طاقت و اسلحہ رکھتے ہیں؟" اور آپﷺنےان لوگوں کی پیش کش کو قبول نہ کیاجن میں اسلام کے دشمنوں سے اسلام کا دفاع کرنے کی طاقت موجود نہیں تھی۔ رسول اللہ صلى الله عليه و سلم نے کئی قبائل سے ملاقاتیں کیں جن میں بَنُو كلب،بوکحَنِيفَةُ، بنو عامر بن صَعْصَعَة، بنو كدْعةُ اور بنوشيبان شامل تھے۔ اوررسول اللہ ﷺاسی طریقہ کار پر صبر و استقامت کے ساتھ کاربند رہے یہاں تک کے اللہ تعالی نے نصرۃ کے حصول میں کامیابی عطا فرمادی جب انصار کے ایک چھوٹے مگر مخلص اور اہلِ قوت گروہ نے اسلامی ریاست کے قیام کے لیے نبی کریم صلى الله عليه و سلم کو نُصرۃ فراہم کر دی۔ لہٰذا اسلام کی حکمرانی کے لیے نصرۃ کا حصول رسول اللہ صلى الله عليه و سلم کی سنت اور طریقہ ہے، اس طریقے پر چل کر نبی صلى الله عليه و سلم نے یثرب کے تقسیم شدہ معاشرے کو اسلام کے قلعے،مدینۃالمنورہ میں تبدیل کردیا۔
اے پاکستان کے مسلمانو! حزب التحریر ہمارے درمیان رسول اللہ صلى الله عليه و سلم کے طریقے پر چلتے ہوئے ہی خلافت کے قیام کی جدوجہد کررہی ہے۔ اس کے شباب ہمیں کفر سے خبردار کرتے ہیں اورہم سے اسلام اور اس کی خلافت کی مددوحمایت کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اور حزب التحریر کے امیر، اعلیٰ پائے کے فقیہ اور رہنما، شیخ عطا بن خلیل ابو الرَشتہ ، اپنی جان خطرے میں ڈال کراس دین کے لیےمسلم افواج سے نصرۃ حاصل کرنےکی سرتوڑ کوشش کررہے ہیں۔ اب یہ ہم میں سے ہر ایک پر لازم ہے کہ ہم حزب التحریر میں شامل ہوجائیں اوررسول اللہ صلى الله عليه و سلم کے طریقے پر چلتے ہوئے خلافت کو قائم کردیں اور ظلم کی حکمرانی کے خاتمے میں اپنا حصہ ڈالیں۔ امام احمدبن حنبل نے روایت کیا کہ رسول اللہ صلى الله عليه و سلم نے فرمایا کہ:((ثُمَّ تَکُونُ مُلْکاً جَبْرِیَّةً، فَتَکُونُ مَا شَائَ اللّٰہُ اَنْ تَکُونَ ، ثُمَّ یَرْفَعُھَا ِذَا شَائَ اَنْ یَرْفَعَھَا۔ ثُمَّ تَکُونُ خِلَافَةً عَلَی مِنْھَاجِ النُّبُوَّة ثُمَّ سَکَتَ)) "پھر ظالمانہ حکومت کا دَور ہو گا جو اُس وقت تک رہے گا جب تک اللہ چاہے گا، پھر جب اللہ اسے ختم کرنا چاہے گا تو اسے ختم کر دے گا۔ پھرنبوت کے نقشِ قدم پر خلافت قائم ہو گی۔ یہ کہہ کر آپ صلى الله عليه و سلم خاموش ہوگئے"۔
اےافواج میں موجود مسلمانو! اے اہلِ نُصرۃ! اے موجودہ دور کے انصارو! رسول اللہ صلى الله عليه و سلم کا طریقہ کار اسلام کے قیام کے لیے اہلِ قوت سے نُصرۃ(مادّی مدد)حاصل کرنے کا تقاضا کرتا ہے اور تم میں سےہر ایک یہ نُصرۃ دینے کی قابلیت رکھتا ہے۔ تمھارے بیٹے، ییٹیاں، بھائی،بہنیں اور مائیں تمیںے پکارتی ہیں کہ تم اپنی ذمہ داری کو پورا کرو۔ نصرۃ کا معاملہ تماررا ہے اور یہ وقت بھی تماہرا ہے ، لہذا اگر تم اللہ تعالی کی خوشنودی کے لیے اپنی ذمہ داری کو پورا کرو گے تو تم یقیناً کامیاب رہو گے۔ کفریہ جمہوریت کی حمایت کر کے، جسے لوگوں کی حمایت بھی حاصل نہیں ہے، اپنی امت اور اپنے حلف سے غداری مت کرو۔ کیانی و شریف اوران کا ٹولہ کہ جس نے اپنے حلف سے غداری کی ہے ،اور جنہوں نے ہماری قیادت کی صفوں کو داغدار کر دیا ہے ؛ ایسے لوگوں کی زندگی کی خاطر اپنی آخرت کوبرباد مت کرو! حزب التحریر کو نصرۃ فراہم کرکےرسول اللہ صلى الله عليه و سلم کے طریقے پر خلافت کوقائم کردو ۔ اگر تم ایسا کرنے میں کامیاب رہے اور کفر اور ان کے لوگوں پر غالب آ گئے تو تمہارا یہ عمل تمہاری اور امتِ مسلمہ کی زندگی کو خوشیوں سے بھر دے گا۔
﴿إِنْ يَنْصُرْكُمُ اللَّهُ فَلَا غَالِبَ لَكُمْ وَإِنْ يَخْذُلْكُمْ فَمَنْ ذَا الَّذِي يَنْصُرُكُمْ مِنْ بَعْدِهِ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ﴾
" اگر اللہ تعالی تمھاری مدد کرے تو تم پر کوئی غالب نہیں آسکتا اور اگر وہ تمھیں چھوڑ دے تو اس کے بعد کون ہے جو تمھاری مدد کرے؟ ایمان والوں کو اللہ تعالی ہی پر بھروسہ رکھنا چاہیے"(آل عمران:160)

www.hizb-pakistan.com

Read more...

سوال وجواب:  امریکہ میں بجٹ اورقرضوں کی حد اونچی کرنے کے حوالے سے حالیہ رسہ کشی کی حقیقت

 

سوال: اس وقت یونائیٹڈ اسٹیٹس میں ایک طرف اوباماانتظامیہ اورڈیموکریٹک پارٹی کے درمیان اوردوسری طرف حریف ریپبلکن پارٹی کے درمیان زبردست رسہ کشی عروج پرہے.یہ کشمکش بجٹ اورقرضوں کی حد اونچی کرنے کے حوالے سے ہے.اوباماحکومت قرضوں کی حد کو بڑھانے کا شدید تقاضاکررہی ہے ۔ بجٹ منظورکرنے میں ناکامی کے باعث بحران میں اس حد تک شدت آئی کہ وفاقی حکومت کےلاکھوں ملازمین کونوکریوں سے فارغ کرناپڑا، اس کو انہوں نے بغیر ادائیگی کے جبری رخصت کانام دیا۔
اب سوال یہ ہے کہ سرمایہ دارجمہوری ممالک کا پیشواامریکہ جیسی ریاست میں یہ حالات کیسے ظہورپذیر ہوئے ۔یہ کس نوعیت کی جمہوریت ہے جس کے بارے میں خیال کیاجاتا ہے کہ یہ لوگوں کوانصاف فراہم کرتی ہے ؟ ان لوگوں سے کام کرنے میں کوئی کوتاہی سرزد ہوئی ہے، یاپھر جمہوریت ان کوان کے ناکردہ گناہ کی سزا دےرہی ہے،جوعوام کوان کی تنخواہوں سے محروم کرتی ہے؟ پھر یہ کہ الٹا حکومت قرضوں کی حد بڑھانے پراصرار کر رہی ہے ،حالانکہ ہوناتویہ چاہئے تھا کہ حکومت قرضے گھٹانے پر اصرار کرتی؟
اس کی ایسی وضاحت درکارہے جسے آسانی کے ساتھ سمجھاجاسکے ،جزاک اللہ خیراً ۔

 

جواب: آپ کے سوال کاجواب مندرجہ ذیل امور پرغورکرنے سے واضح ہوگااوربآسانی سمجھ میں آجائے گا۔
پہلا : امریکی بجٹ :
امریکی بجٹ کی منظوری کیلئے کانگریس کے دونوں ایوانوں سے منظوری ضروری ہوتی ہے۔ امریکی سینٹ میں اکثریت ڈیموکریٹس کی ہے اورامریکی ایوان نمائندگانمیں اکثریت ریپبلکن کی ہے ۔ بات چیت کازبردست راؤنڈ ہوا،جس میں امریکی سینٹ اورایونِ نمائندگان کے درمیان سوموار 03/9/2013 کی شام تک تجاویز اورتحریروں کاتبادلہ ہوتارہا ،لیکن امریکی کانگریس 1/10/2013 کے ابتدائی گھنٹوں سے قبل، جب کہ امریکہ کے نئے مالی سال کاآغاز ہوتاہے،عارضی بجٹ پاس کرنے میں ناکام ہوئی ۔
دوسرا : قرضوں کی حد کاموضوع :
امریکی قرضہ وفاقی حکومت پربراہ راست قرضے کی مجموعی مقدار ہے،جو یونائیٹڈاسٹیٹس سے باہر اور اندرکی پارٹیوں کے پاس موجود ٹریژری بانڈز ہیں جو امریکی وزارت خزانہ کی طرف سے جاری کئے گئے ہیں ۔
امریکی قرضے کی حد کا تعین کانگریس کرتی ہے ،جس سے تجاوز کرناوفاقی حکومت کیلئے جائز نہیں ،اورجس کی مقدارفی الحال 16.7ٹریلین ڈالرہے ۔توقع یہ ہے کہ حکومت 17/10/2013، کواس حدسے تجاوز کرجائے گی ،اس لئے وفاقی حکومت نے اس تاریخ کو کانگریس کی طرف سے کیے جانے والےفیصلے کے انتظارمیں اپنی دھڑکنوں کوروکاہواہے ۔
تیسرا : پیش آمدہ بحران اوراس کے اسباب وعوامل :
1ـ اوبامانے ہیلتھ کئیرکاایک پروگرام پیش کیاجسے اس نے "اوباماکئیر"کانام دیا،اس کامقصد کم آمدنی والے 46ملین امریکیوں کوسماجی تحفظ اورہیلتھ انشورنس فراہم کرناتھا،تاکہ جو لوگ انشورنس نہیں کرواسکتے ،ان کیلئے ہیلتھ انشورنس حاصل کرناممکن ہوجائے ۔اس پروگرام کوچلانے کیلئے 2013ـ 2014 کی بجٹ میں اس کیلئے مختص کئے گئےکوٹے کی ڈکلئیریشن ضروری ہے۔بجٹ کاآغاز 1/10/2013سے ہوتاہے ،مگر ری پبلیکنز نے دیکھاکہ پروگرام کامقصد ڈیموکریٹک پارٹی کیلئے عوامی حمایت اوررائے عامہ کاحصول ہے ،بالخصوص جبکہ کانگریس کے مڈٹرم الیکشن نومبر 2014 میں ہونے والے ہیں اوریہ توقع کی جاتی ہے کہ اس میں اوباماکاہیلتھ کئیرپروگرام موضوع بحث ہوگا۔اس لئے ری پبلیکنز نے اوباماپروگرام کیلئے بجٹ کی تخصیص کواس وقت تک کے لیے روک دینے کا مطالبہ کیا جب تک اس سے متعلق قانون پر مذاکرات اور ترامیم جاری ہیں ۔ یہ مطالبہ اس لیے کیا گیا تاکہ پیکج میں ری پبلیکنز کے نقطہ نظر کو گنجائش دے کراس کودونوں پارٹیوں کے مشترکہ نام سے جاری کیاجائے ، صرف اوباماکے نام سے جاری نہ ہو،اس طرح اوباماڈیموکریٹک پارٹی کیلئے آئندہ انتخابات میں کوئی ووٹ بینک نہ بناسکے گا،اور چونکہ امریکی ایوان نمائندگان میں ری پبلیکنز کی اکثریت ہے ،اس لئے وہ اس قابل ہیں کہ اس قانون کومعطل کردیں۔
چونکہ دونوں پارٹیوں کے نزدیک ایشولوگوں کی خدمت کرنانہیں،بلکہ یہ آنیوالے انتخابی فصل کوکاٹنے کیلئے ایک سیاسی تنازع ہے ،اس لئے ہرایک نے اپنے موقف پراصرار کیا،چاہے لوگوں کااس میں نقصان ہو،جیساکہ حال ہی میں سامنے آیا۔اوباما اس پیکج کی منظوری کاخواہشمندہے ،جبکہ ری پبلیکنز اس کے بارے میں بات چیت کیلئے اس کوملتوی کرنے اوراس کواوباماسے الگ کرکے اس کوایسا رنگ دینا چاہتے ہیں جس میں ان کابھی حصہ ہو ۔ اس طرح ماہِ اکتوبرکے ابتدائی گھنٹوں سے پہلےعارضی بجٹ پیش کرنے میں کانگریس کی ناکامی نےاس بحران میں اضافہ کیا،جو اس کی منظوری کاطے شدہ وقت ہے۔ اوردونوں پارٹیوں کے درمیان اس کے مقررہ تاریخ تک بحث ومباحثہ ہوتارہا۔
2ـ اس کے نتیجے میں"وفاقی حکومت نے شٹ ڈاون " کیا،کیونکہ ری پبلکن پارٹی نے 30/9/2013کوبجٹ 2014 کے قانون پر ووٹنگ کومسترد کردیااوراس کی وجہ سے 8 لاکھ سے زیادہ حکومتی ملازمین کومعاؤضےاداکیے بغیر جبری رخصت دے کرمعطل کردیاگیا،اورتمام امریکی اداروں سے اپنے ملازمین میں کمی اوربڑی تعداد کوچھٹی دینے کی توقعات کی گئیں ،جیساکہ سابقہ ادوار میں ہوا، جب بل کلنٹن کے دورمیں دسمبر 1996 تاجنوری 1997تک 21 دن حکومتی سرگرمیوں کومعطل کیاگیاتھا،اس وقت حکومت کو اس شٹ ڈاؤن سے دوبلین ڈالر کانقصان ہوا تھا ۔
3ـ یہ اس بحران کی ایک کڑی ہے، بلکہ آئندہ بحران کے آنے کا اعلان اور زریعہ ہے ،یعنی حکومتکانگریس میں اس معاملے پربحث کرنے کیلئے طے شدہ وقت میں جو قریباً ایک ہفتہ بعد 17/10/2013 کوآرہاہے، قرضے کی حد بڑھانے کامطالبہ کرے گی ،اس لئے کہ حکومتی قرضہ جائز مقدار سے تجاوز کرگیاہے، جو 16.7ٹریلین ڈالر ہے ۔اس حد کی منظوری کانگریس نے دی ہے اورحکومت پریہ لازم کردیاہے کہ وہ اس سے زائد قرضہ نہ لے ۔ مگرحکومتی خزانہ 17/10/2013 کودیوالیہ ہونے کے قریب ہے ،کیونکہ حکومتی خزانے میں متوقع پیش گوئیوں کے مطابق ،سوائے 30 بلین ڈالرکے اورکچھ نہیں رہے گا،جس کی بناپر حکومت اپنی مالی ذمہ داریوں کوپوراکرنے کی اہل نہیں رہے گی۔
4ـ دونوں پارٹیاں ایک دوسرے پرالزامات کی بوچھاڑ کرنے لگی ہیں ،بالخصوص جبکہ ان دونوں پارٹیوں کے مسائل کی وجہ سے عوام کوپریشانیوں کاسامناکرناپڑاہے ۔اب ہرایک پارٹی دوسری پرکیچڑ اچھالنے کی کوشش میں ہے ۔اوباماری پبلکنں پارٹی کوان حالات کاذمہ دار ٹھہراتاہے اورکہتاہے کہ اس نے ملک کواپنے پارٹی مفادات کے بدلے گروی رکھ لیاہے ۔اس نے 8/10/2013 کو وائٹ ہاوس میں ایک پریس کانفرنس میں کہا " سینٹ کے اندرکانگریس کے اراکین اوربالخصوص ری پبلیکنز اپنے فرائض کی ادائیگی کے بدلے کسی معاوضے کامطالبہ نہیں کرسکتے ۔ ان کے دوبنیادی کام یہ ہیں کہ وہ بجٹ پاس کریں اوراس بات کی یقین دہانی کرائیں کہ امریکہ ان بلوں کواداکرے گا"۔
امریکی ایوان نمائندگان کے سپیکر کاکہناتھا کہ وہ کانگریس کوہرگز قرضوں کی حد اونچی کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے، جب تک کہ اوباما ،ہیلتھ کئیرالمعروف اوباماکئیرکے حوالے سے کچھ دستبردار یوں کااعلان نہ کردے اوراس حوالے سےبات چیت پراتفاق نہ کرے ، ورنہ" ہم قرضوں کی حد نہیں بڑھائیں گےجب تک اس حوالے سے سنجیدہ مذاکرات نہ ہوں جو قرضوں کے بڑھنے کا سبب بن رہے ہیں" ۔
5ـ دونوں پارٹیوں کی کھینچا تانی سے یہ واضح ہے کہ دونوں قرضوں کی مقررہ حد میں اضافہ کرنے کی خواہش مندہیں ،مگرری پبلکنض پارٹی اس کے بارے میں ہم آہنگی کوہیلتھ کئیر پیکج کے قانون میں ترمیم کے ساتھ جوڑتی ہے ،تاکہ اس میں ان کابھی رنگ شامل ہو۔مگرغورکی بات یہ ہے کہ عام ممالک کے امور کوایسے انداز سے چلایاجاتاہے ،جس سے ان کی معاشی اورمالی حالات کنٹرول کیے جاسکیں تاکہ ان کے قرضے بڑھنے کی بجائے ان کوگھٹایاجاسکے،مگرامریکہ واحدریاست ہے جسے اس کی کوئی پروانہیں کہ وہ قرضوں کی دلدل میں سرتاپاغرق ہوجائے ،کیونکہ یہ اب بھی بانڈز جاری کرتاہے اورمناسب وقت پہ ان کی ادائیگی کی ضمانتیں بھی دیتاہے ، اگرچہ اپنے مالی حالات کی وجہ سے ان کی ادائیگی کے قابل نہ رہے ،کیونکہ جب اسے کوئی مفاد نظر آئے تو وہ دیگر ریاستوں کے برعکس لامحدودپیمانے پراپنے خزانے میں پڑے ہارڈ کرنسی سےمزید ڈالرچھپواسکتاہے،بالخصوص جبکہ اس کی کرنسی بڑی حد تک دیگرریاستوں کے ریزرواثاثوں کوکنٹرول کرتی ہے ۔امریکہ آئی ایم ایف سےخفیہ اجازت لے کر مزید ڈالرچھپواسکتاہے ،بلکہ بغیراجازت کے کھل کربھی ایساکرسکتا ہے ،کیونکہ آئی ایم ایف میں اصل اثرونفوذ اس کاہوتا ہے۔امریکہ جعلی اسباب کاپروپیگنڈاکرکے اصل حقائق لوگوں کی نظروں سےچھپالیتاہے ،اس میں آئی ایم ایف اس کوسہارادیتاہے ۔وہ ایساکرتاہے ،اگرچہ ڈالر پرنٹنگ کے باعث اس کی قیمت گرے یامہنگائی میں اضافہ ہو، بشرطیکہ اس میں کوئی مصلحت نظر آئے ۔ مثال کے طورپر ذرائع نے نقل کیاہے کہ امریکہ نےتیل پرسٹے بازیوں کے دوران 2ٹریلین ڈالر تا4ٹریلین ڈالر چھپوائے ،جس کی وجہ سے قمتیں بڑھ کر 2008میں 150 ڈالر فی بیرل تک پہنچ گئی تھیں۔امریکہ اس سٹے بازی سے الگ نہیں رہا،چنانچہ اس نے تیل کی بالواسطہ یابلاواسطہ بڑی مقدار کی خریداری کیلئے پیپر پرنٹ کروائے،پھر اس تیل کواپنے گوداموں میں محفوظ کرلیا۔امریکہ کااس میں اپنامفاد پیش نظر تھا ،جومہنگائی بڑھنےاورڈالرسستاہونےکے مقابلے میں اعلیٰ تھا۔
اس لئے امریکی وفاقی حکومت کے قرضوں کی حد مجبوراً بلند کی جارہی ہے ،مثلاً حکومتی قرضے( مرکزی ادارہ اورعلاقائی ادارہ جات )1990میں 4.3ٹریلین ڈالر سے بڑھ کر2003میں 8.4ٹریلین ڈالر تک اور2007 میں 8.9ٹریلین ڈالر تک پہنچ گئے۔ 2009میں اوباماحکومت کے ابتدائی دنوں میں قرضہ 10.3ٹریلین تھا، 2011میں اس نے 14ٹریلین امریکی ڈالر کی حد پارکی،جبکہ آج کل یہ 16.7ٹریلین ڈالر کوعبورکررہاہے۔کوئی اور ریاست اگران قرضوں سے بہت کم مقدارمیں ڈوب جاتی تووہ کب کی گرچکی ہوتی اوراس کی معیشت کاکباڑاہوجاتا،مگرامریکہ کو قرضوں کی کوئی پروانہیں،کیونکہ یہ اس کااندرونی مسئلہ ہے ،چنانچہ کانگرس جب چاہے قرضوں کی حد بڑھادیتی ہے ،اس کی معیشت چل پڑتی ہے اوراگر اس کی معیشت مضبوط ہو توقرضوں کو اپنی اقتصادی قوت کے ذریعے پوراکردیتی ہے،ورنہ بلاروک ٹوک کےکرنسی نوٹ جاری کردیتاہے،اس لئے امریکی معیشت کوصرف اس وقت ہی زوال وانحطاط سے دوچارکیاجاسکتا ہے،جب کرہ ارض پرکوئی ایسی ریاست رونماہوجائے، جوامریکی ڈالر کوکسی تول میں نہ لائے ،بلکہ اس کے ساتھ یاتوسامان کے بدلے سامان کامعاملہ رکھے، یاگولڈ اینڈ سلور سٹینڈرڈکرنسی( سونے چاندی کےزرمبادلہ) کوپھرسے رواج دے۔
6ـ یوں سرمایہ دارنہ جمہوری بلاک کاسرغنہ جمہوری سرمایہ دارانہ نظام کی ناکامی کاثبوت دے رہاہے ،اوریہ کہ یہ نظام برسراقتدارسرمایہ دارطبقے کی من مانی کے سواکچھ نہیں،جو لوگوں ،بالخصوص متوسط طبقہ اوراس سے کہیں زیادہ عوام کی قسمتوں کافیصلہ کرتاہے۔اوبامانے اپناایشو"اوباماکئیرپروجیکٹ" کوبنایا ہے۔اوبامااس کیلئے یہ دلیل دیتاہے کہ وہ لاکھوں لوگوں کوہیلتھ کئیرکے حوالے سے تعاون فراہم کرے گا،مگردوسری جانب اس نے لاکھوں ملازمین کوبغیرادائیگی کے رخصت دیکرمعطل کردیا۔۔! اس کامطلب ہے کہ ڈیموکریٹک پارٹی اس قانون کے ذریعے لوگوں کی خدمت نہیں کرناچاہتی بلکہ اسے مستقبل میں اپنے انتخابی مقاصد عزیزہیں،ورنہ لوگوں کی خدمت کرنے کےنتیجےمیں ان کوبغیرکسی کوتاہی کے نوکریوں سے فارغ کردیاجائے ،یہ کس قسم کی منطق ہے؟ری پبلکنی پارٹی کی نظرمیں ہیلتھ کئیرکاہونایانہ ہوناکوئی ایشونہیں ،بلکہ اس کے پیش نظر یہ ہے کہ اس پیکج کی نسبت صرف اس کے حریف کی طرف نہ کی جائے بلکہ اس میں ان کی بھی شرکت اور کردارکو یقینی بنایاجائے ، دونوں پارٹیوں کوصحت عامہ کی کوئی فکرنہیں ، اس کی دلیل یہ ہے کہ ری پبلکنم پارٹی اس بات پرمذاکرات کے بعد ہم آہنگ ہوجائے گی ،کہ اس کی نسبت دونوں پارٹیوں کی طرف کی جائے۔ پس اس پروجیکٹ کا مواد ( content)ایشونہیں ،بلکہ اس کے انتخابی فوائدونتائج پیش نظرہیں،خواہ اس کے نتیجے میں لوگ سختی اورزبوں حالی کاشکار کیوں نہ ہوجائیں،اور کتناہی ان کیلئے باعث آزارہو۔ نیز اس پروجیکٹ میں یہ لازمی شرط بھی رکھی گئی ہے کہ بڑی کمپنیاں اپنے ملازمین کی ہیلتھ انشورنس کرائیں،توپروجیکٹ ہولڈراوبامانے گزشتہ مئی میں اس شرط کوایک سال تک ملتوی کرنےکابذات ِخوداعلان کیاتھا،تاکہ ان کمپنیوں اوران کی سپورٹر ری پبلنیں پارٹی کی خوشنودی حاصل کی جائے۔اوباماکاخیال تھاکہ ری پبلکنِ پارٹی اس پیکج میں اس کے ساتھ اتفاق کرلے گی۔ اس سے یہ معلوم ہوتاہے کہ کسی ایک پارٹی کوبھی لوگوں کے امور کی صحیح طریقے سے دیکھ بھال کی اتنی فکرنہیں جتنی ان کواپنی انتخابی مقبولیت کی فکر ہے۔اس سے یہ بھی واضح ہوتاہے کہ ان کی سرمایہ داریت یہ ہے کہ سرمایہ داراپنے سرمائے کی بڑھوتی کیلئے عوام کااستحصال کرے ،جبکہ ان کی جمہوریت عوام کی خدمت کیلئے نہیں، بلکہ اس لئے ہے کہ عوام جمہوریت کے"بڑے "مالکان کی خدمت گزاری کریں،اگرچہ بلامعاوضہ بھی ہو۔
7ـ آخرمیں ہم اس پراللہ کاشکراداکرتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں ،اللہ تعالیٰ نے اس نظام کی طرف ہماری رہنمائی کی ہے جوحکیم اورخبیر ذات کی طرف سے ہے۔اس نظام میں اگرعام لوگ بھوکے ہوں توخلیفہ بھی بھوکارہتاہے ،لوگ سیرہوں تووہ بھی سیرہوتاہے ،وہ تب ہی امن محسوس کرتاہے جب لوگ امن سے ہوں۔ اللہ کی طرف سے دیاہوایہ وہ نظام ہے جوتمام رعایا کیلئےگھر،لباس اورکھانے پینے جیسے بنیادی ضروریات کاضامن ہوتاہے ،جوآدمی کام کاج کے قابل ہو ،اسے روزگارفراہم کرتاہے اورجوکام کرنے سے قاصرہو،اس کاکوئی رشتہ داربھی نہ ہوجواس کاخرچہ برداشت کرے ،توخلیفہ ہی اس کے مروجہ خرچے کابندوبست کرتاہے اوربا نفس نفیس اس کی سرپرستی کرتاہے۔یہ وہ نظام ہے جس میں عوام کی ملکیت کوان کے امن اورمعیشت کے تحفظ کیلئے عوام میں تقسیم کیاجاتاہے، چنانچہ ان کی طرف سےدیےگئے اموال ان کی پیدائش سےہی ان پر نچھاور کئے جاتے ہیں۔یہ وہ نظام ہے جوایک پرامن ،عدل پر مبنی معاشی زندگی دیتاہے،جس کی وجہ سے انسانوں کے حالات سدھرتے ہیں ،کیونکہ خالق لوگوں کی فلاح وبہبوداور ان کے خیر وشر کوسب سے زیادہ جانتاہے﴿أَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ﴾"بھلاوہ بھی بے علم ہوسکتاہے جو خالق ہو ، اور پھر باریک بین اورپوراباخبرہو " ۔
ہم اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے خلافت راشدہ کی واپسی کیلئےمدد اورتوفیق کی دعاکرتے ہیں،جو نہ صرف دارالاسلام میں بھلائی عام کردے گی ،بلکہ ہرذی عقل اورامن پسندکواس کافائدہ پہنچے گا،والحمدللہ رب العالمین۔

Read more...
Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک