بسم الله الرحمن الرحيم
چھوٹی چھوٹی باتیں
ہماری زندگی میں ایسی صبح بھی آتی ہیں جب ہم اُٹھنا ہی نہ چاہتے ہوں ۔ ہم اپنے آرام دہ بستر سے ہی باہر نہ نکلنا چاہتے ہوں۔حتیٰ کہ ہم یہ بھی نہ چاہتے ہوں کہ دن کا آغاز بھی ہو۔ کچھ دن ایسے ہو جاتے ہیں۔ تو پھر کیا ہم بستر میں ہی پَڑے رہتے ہیں ؟ نہیں، ہم اُٹھ جاتے ہیں، ہوسکتا ہے کہ 20 منٹ بعد لیکن آخرہم اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ جیسے ہی ہم اُٹھ جاتے ہیں تو ہم جلد ازجلد اپنے کام نمٹانے کی کوشش کرتے ہیں تا کہ کہیں ہمیں دیر نہ ہوجائے۔ ہم نہانے کی طرف دوڑتے ہیں، جلدی میں کپڑوں کی الماری ٹٹولتے ہیں ، اور تیار ہوجاتے ہیں،ناشتہ بھی چھوڑ دیتے ہیں کیونکہ اب اس کا وَقت ہی کہاں بچا ہے، اپنی گاڑی کی طرف یا پھر بس پکڑنے کے لئے دوڑتے ہیں یا پھر جلدی سے اپنے بچوں کو روانہ کرتے ہیں۔
کیا کچھ ایسا ہی نہیں ہوتا؟
ایسے لوگ جنہیں خود اپنی سواری میں کام پر جانا ہوتا ہے، وہ ٹریفک جام میں پھنس بھی سکتے ہیں۔ ہم تلملانے لگتے ہیں اور باربار وقت دیکھتے ہیں۔جب ہم اپنے آگےٹریفک میں پھنسی گاڑیوں کی لمبی قطار کی طرف دیکھتے ہیں تو گاڑی میں قرآن پاک کی تلاوت لگا لیتے ہیں ،کہ شاید اس سے ہمیں کچھ سکون واطمینان مل سکے۔ اور جونہی ہم اپنے دفتر میں پہنچتے ہیں تو ہمارے کچھ ساتھی ہمیں مُسکرا کر "صبح بخیر!" کہتے ہیں اورایسے میں ہم خود سے کہہ رہے ہوتے ہیں ”استغفراللہ العظیم؛ یہ کوئی وقت ہے صبح بخیر کا ؟ میں نے تو اب تک اپنی کافی بھی نہیں لی ہے“۔
یہ چھوٹی چھوٹی باتیں !
ذرا غور کریں تو یہ ہمارے روزمرّہ معمول کے انتہائی چھوٹے اور معمولی دکھائی دینے والے اعمال ہماری زندگیوں پر کتنا بڑا اثر رکھتے ہیں۔معمولاتِ زندگی کے یہ چند چھوٹے اور معمولی اعمال ہی ہیں جو ہماری زندگی کا محوَر بدل کر رکھ دیتے ہیں، ہمارے مستقبل کی سمت بدل دیتے ہیں اور نتیجتاً ہماری آخرت کی زندگی کو بھی بدل دیتے ہیں۔ یہی حقیر،معمولی اور بظاہر چھوٹے نظر آنے والے اعمال جو ہم آئے روز انجام دیتے ہیں، ہمارے احساسات و جذبات اور انداز واطوار کو تشکیل دیتے ہیں اور کامیابی یا ناکامی کے راستے پر ڈالتے ہیں۔ ان اعمال کا ہمارے ساتھ ایک براہِ راست تعلق ہوتا ہے ، کہ ہم اپنے آپ کو کس مقام پر دیکھناچاہتے ہیں اور اب اپنے آپ کے بارے میں کیسا محسوس کررہے ہوتے ہیں اوریوں اس سب کا براہِ راست اثر ہمارےاگلے اہداف پر ہوتا ہے، یعنی اپنے اور دوسروں کے مستقبل کے بارے میں ہماراوژن اور اس طرح عمومی طور پر معاشرے پر ایک گہرا اثر پڑرہا ہوتا ہے۔
آئیےاب ایک اور کوشش کرتے ہیں اور انہی مناظر کو ایک اور پہلو سے دیکھتے ہیں !
ہم صبح کو جاگیں اور ذکرِ الٰہی سے اپنے دن کا آغازکریں ، کیونکہ یقیناً ہمیں عجلت اور بے صبری میں گھر سے نکلنے کی جلدی نہیں۔ ہم سکون سے نہائیں دھوئیں، کپڑے بدل کر تیار ہوں جو کہ ہم نے پچھلی رات ہی تیار کر لیے تھے، اپنی کافی تیار کریں اور تسلی سے ناشتہ کریں اور پھر دفتر کی جانب روانہ ہوں۔ اس دوران ، ہم شاید بچوں کو بھی سکول کے لئے تیار کرچکے ہوں گے ، اُن کے ساتھ کچھ دیر خوش گپیاں بھی کرچُکے ہوں گے اور سکول کے راستے پر بھی اُن کے ہمراہ رہے ہوں گے۔
ہم اپنی کار میں بیٹھیں ، قرآن کی تلاوت لگائیں اور صبح کی ٹریفک میں دِھیرے دِھیرے دفتر کی طرف جاتے ہوئے قرآن ِ کریم کو انتہائی خُشوع سے سُنیں ...... دفتر پہنچیں اور ساتھیوں کو "صبح بخیر“ کہیں۔
یہ بھی چھوٹی چھوٹی باتیں ہی تو ہیں !
انفرادی طور پر ہماری تو دُنیا ہی بدل گئی ......اور ہمارے اِردگرد والوں کی بھی۔آج کی دُنیا میں اگر ہم اُمت پر نگاہ ڈالیں تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے وہ مدہوش سو رہی ہے۔ کُچھ ایسے ہیں جن پر کوئی بھی ذمہ داری نہیں ہے ...... یونہی بےمقصد زندگی کے دن گزارتے جا رہے ہیں۔ وہ دُنیاوی خواہشات میں، دُنیا کی لذّتوں میں ڈُوبے ، انہی چھوٹی چھوٹی باتوں میں کھوئے ہوئے ہیں۔ جو کُچھ اُن کے ساتھ اور آس پاس ہورہا ہے وہ اس سے بے پرواہ ہوکر بے حسی کے ساتھ اسی دنیا میں ڈُوبتے جارہے ہیں۔
نہ صرف اُمت کے لئے بلکہ پوری دُنیا کے لئے، ایک داعی کے طور پر خصوصاً اور ایک مسلمان کے طور پر عموماً ، ہماری ایک ذمہ داری ہے ۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا :
﴿ وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا كَافَّةً لِّلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا ﴾
"اور ہم نے آپ (محمدﷺ) کو سارے لوگوں کے لئے خوشی اور ڈَر سُنانے کے واسطے بھیجا“(سبا : 28)
ہمارے کندھوں پر نہ صرف یہ ذمہ داری ہے کہ اُمت پر جو افتاد آن پڑی ہے، اسے ہم دور کریں اور امت کی حفاظت کریں بلکہ یہ ذمہ داری بھی ہے کہ اسلام کا پیغام پوری دُنیا تک پھیلائیں۔ اور یہ ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے جس کے لئے ہم روزِ آخرت یعنی حساب کتاب کے دن جوابدہ ہوں گے۔ اس روز اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہم سے ہر اُس عمل کی بابت سوال کریں گے جو کہ ہم نے کیا ہوگا یا نہیں کیا ہو گا، چاہے وہ کوئی بڑی بات ہو یا چھوٹی سی بات۔
جی ہاں، یہ ایک بہت بڑا بار ہے جو کہ لے کر چلنا ہے اورایسی ذمہ داری ہے جسے مستقل مزاجی، استقامت، مضبوطی اور حوصلہ کے ساتھ ادا کرنے کی ضرورت ہے، کہ ہم اپنا پورا وقت اور توانائی بہترین قسم کے داعیوں جیسا بننے میں صَرف کردیں۔ یہ دس گنا زیادہ مشکل ہے، اگر آپ ان چھوٹی چھوٹی باتوں کو درست نہ کریں۔ یہ آپ کو پیچھے کھینچ لیں گی اور آپ کو سُست کرڈالیں گی۔ہمیں یہ ذمہ داری لینے کی ضرورت ہے کہ ہم اپنے روزمرہ کے کاموں میں چھوٹی چھوٹی اچھی عادتیں بنا لیں، اپنے مقصد طے کریں اور اپنے آپ کو اس کام میں کھپا دیں جوہمارے لیے آسان نہیں ہے، ہمیں ایک بار پھر اُمت کو جگانا ہے، کندھے سے کندھا ملائے اور ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے کیونکہ تب ہی اللہ سبحانہ وتعالیٰ اس اُمت کو وہ مقام عطا کریں گے جس کی وہ حقدارہے۔ پھر ہی اللہ سبحانہ وتعالیٰ اس امت کو پوری دنیا کو بدلنے کی قوت و طاقت عطا کریں گے، تا کہ ہم اس نُور کو آگے لے کر بڑھیں اور انسانیت کو اس مصائب ومشکلات کی حالت سے بچا سکیں جس میں وہ اب رہ رہی ہے۔ ہم پر لازم ہے کہ ہم یہ کام شروع کریں اور اس میں کوشش جاری رکھیں۔
اللہ سبحانہ وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :
﴿وَلَيَنصُرَنَّ اللَّهُ مَن يَنصُرُهُ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ﴾
"اور بے شک اللہ اُن کی مدد کرے گا جو اس کی مدد کریں گے۔ بے شک اللہ زبردست اور زوروالا ہے“ (الحج : 40)
اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے دُعا ہے کہ وہ روزانہ کے معمولات میں کمال حاصل کرنے میں ہماری مدد کریں تاکہ ہم اللہ سبحانہ وتعالی کے اس پیغام ، اس دعوت کو پوری طاقت سے پہنچا سکیں۔ آمین!