بسم الله الرحمن الرحيم
خوشیوں کی جانب کوہ پیمائی
آپ جتنا پہاڑی کے اُوپر چڑھتے جاتے ہیں تو سورج کی تپش اُتنا ہی آپ کو مارے ڈالتی ہے۔ آپ چاہے تھکن سے چُور ہی کیوں نہ ہو چُکے ہوں لیکن پھر بھی مزید اُوپر چڑھتے رہتے ہیں۔اب تک کی کوششوں سے آپ کے دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی ہے اور جوش بڑھتا چلا جاتا ہے۔ نیچے نگاہ دوڑائیں تو دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ کتنا اُوپر آ چکے ہیں اور جب اُوپر دیکھتے ہیں تو یہ دیکھ کر دل ڈوبتا محسوس ہوتا ہے کہ ابھی بھی کافی طویل چڑھائی باقی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کافی دیر تک چڑھائی چڑھنے کے بعد بھی ذرا سا بھی چوٹی کے قریب نہ پہنچ پائے ہیں۔ اب یہ اندازہ ہونے لگتا ہے کہ جوں جوں ہم چوٹی کے قریب ہوتے چلے جا رہے ہیں ، اُتنا ہی چڑھائی میں دِقت ہو رہی ہے ، پتھریلی چٹانیں قدموں تلے کھسک رہی ہیں اور قریب ہے کہ کہیں ہم بالکل آخری لمحے پر پھسل کر ...دُور کسی گہری کھائی میں نہ جا گریں ۔ ہاتھ شَل ہوچکے ہیں، سانسیں پھُولتی جا رہی ہیں اور ٹانگوں میں سے بھی جان جاتی نظر آرہی ہے لیکن ہم تب بھی ہار نہیں ماننا چاہتے ... ہم ایسے ہی واپس نہیں جانا چاہتے اور مزید آگے کی ہمت باندھے جاری رہنا چاہتے ہیں تا کہ چوٹی تک پہنچ سکیں اور وہ نظارہ حاصل کرسکیں جس کی ایک عرصے سے آرزُو ہے۔
یہ وہ احساسات ہیں جو ہم میں اُبھر آتے ہیں جب ہم خوشیوں کے لئے تگ ودو کرتے ہیں۔ ہم یہ بھُول جاتے ہیں کہ بطور ِ انسان ہم ہمیشہ مزید سے مزید تَر کی چَاہ میں لگے رہیں گے۔
ذرا غور کریں، ہم بحیثیتِ انسان ہر شے میں کمال کو پسند کرتے ہیں ۔ ہم اسی کی تگودو کرتے ہیں اور اسی کی تکمیل کی جُستجو کرتے ہیں تا کہ ایک بھرپُور زندگی مل سکے، جس میں ایک شاندار سی گاڑی ہو، اچھا سا گھر ہو، خوشگوارگھریلو زندگی ہو ، بہترین روزگار ہو ،تاکہ زندگی کے مکمل ہونے کا احساس ہو سکے۔ جو کچھ بھی ہمارے پاس ہو، ہم اس میں مطمئن ہو سکیں اور اُس خودساختہ فرضی "آئیڈیل زندگی"کو حاصل کرنے کے لئے ہم ان چیزوں کے پیچھے لگے رہتے ہیں جن کی کمی ہے۔ جب وہ شے حاصل ہوجائے تو ہماری توجہ اس اگلی چیز کی جانب ہو جاتی ہے جس کی بھی کمی ہو اور پھر ہم اس کی جستجو میں لگ جاتے ہیں ۔ آخرکار ہمیں یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ اس دنیا میں ہمیشہ کسی نہ کسی شے کی کمی ضرور رہتی ہے ! اور یہ ایک ایسی چڑھائی ہے جو کبھی بھی ختم نہ ہوگی۔
ہم اپنے آپ کو ہلکان، مایوس اور مغلوب سمجھنا شروع کردیتے ہیں۔ ہرگز سمجھ نہیں آتا کہ زندگی اتنی مشکل کیوں ہے! یہ سوچتے ہیں کہ اس دنیا میں آخر کوئی تو ایسی چیز ہوگی جو ہمارے لئے وہ خوشی ضرورلا سکے! ذہنی صحت کے موضوعات سے لے کراپنی روزمرہ زندگی کو منظم کرنے تک،ہم وہ خوشی حاصل کرنے کے لیے مختلف پہلوؤں کو دیکھنے لگتے ہیں!
خوشی کے اُس احساس کی آرزولئے! لیکن کیوں؟ ایسا کیوں ہے کہ ہم اس کےلئے تگ و دو کریں ؟
کیونکہ ، جیسا کہ اُوپر بھی بیان ہو چکاہے ، ہم نوعِ انسان ہیں اور ہماری تخلیق ہی ایسے ہے کہ ہم ہرشے میں تکمیل اور کمال کو پسند کرتے ہیں... اور اطمینان و خوشی ہونا بھی ایک طرح کا کمال ہی ہے۔ ہم ایسا اس لئے چاہتے ہیں کیونکہ ہماری تخلیق ہی ایسے ہوئی ہے!
لیکن ٹھہریئے، آئیے ایک قدم پیچھے ہٹتے ہیں اور اس دنیا کی حقیقت کو دیکھتے ہیں... وہ جگہ جہاں ہم کمال کی خواہشات رکھنے والی مخلوق کے طور پر رہتے ہیں...
ہم دیکھتے ہیں کہ یہ دُنیا مشکلات و آزمائشوں کے ساتھ ہی آراستہ کی گئی ہے جہاں کچھ بھی کمال کی سطح پر نہیں ہے۔ چاہے یہ ہمارا وہ شاندار اور مکمل گھر ہو جس کی ہم عرصے سے خواہش لئے ہوئے تھے لیکن پھر اچانک پتہ چلے کہ اس مکمل گھر میں تو ایک تکنیکی الیکٹریکل خامی ہے، یا پھر یہ ہمارے خوابوں کی تعبیر جیسی ملازمت ہو اور پھر احساس ہو کہ یہ بھی ویسی نہیں ہے جس کی ہم اُمید لگائے ہوئے تھے۔ یہ احساس ہوتاہے کہ اس دُنیا میں کچھ بھی کمال کی سطح پر نہیں ہے۔ حتیٰ کہ یہ احساس بھی ہوتاہے کہ چاہے ہم کچھ زبردست شاندار قسم کی چیز ہی کیوں نہ حاصل کرلیں مگر پھر بھی یہ محض کچھ وقت ہی کے لئے ہوگی اور ہم اس سے بھی بور ہونے لگ جائیں گے اور کسی نئی شے کی خواہش جنم لے لے گی۔ یہ دُنیا ایسے ہی ہے۔
لیکن پھر بھی اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم خوش نہیں ہو سکتے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں اپنی توجہ اُس طرف مرکوز کرنےکی ضرورت ہے جو کہ حتمی طورپر ایک کامل مقام کی طرف ہماری رہنمائی کرے، اور وہ مکمل اور کامل مقام صرف جنت ہے۔ جنت ایک ایسی جگہ ہے جہاں کچھ بھی خامی یا نامکمل نہیں ہے۔ ایک ایسی جگہ جہاں ہمیں وہ سب کچھ مل سکتا ہے جس کی ہم آرزو کرسکتے ہیں اور ہم اس کے حاصل ہونے کے بعد بھی کبھی بور یا بے زار نہیں ہوسکتے ۔ ایک ایسی جگہ جو صرف راحت و اطمینان سے بھری ہے اور وہاں کسی بھی شے کی کمی نہ ہوگی ! یہ جان کر کہ ہم نے نہ صرف دنیا کا مشکل امتحان پاس کرلیا ہے بلکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی رضا کے بھی حقدار ٹھہرائے گئے ہیں ! کیا خُوب جگہ ہے جو فطری طور پر ہماری خوشی و اطمینان کا باعث ہو گی !
دُنیا کی اس مشکل پہاڑی پر چڑھتے ہوئے جب ہم اپنا ساری توجہ جنت کی جانب کر لیں گے تو ہم بلندی کی طرف اپنا ہر قدم نہایت اعتماد و یقین کے ساتھ رکھیں گے۔ پائیدار اورغیر پائیدار پتھروں کے درمیان جانچ کے قابل ہوسکیں گے۔ کبھی بھی پھِسل نہ پائیں گے کیونکہ ہمیں بغیر کسی شک و شبہ کے یہ یقین ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہمارے ساتھ ہیں ! صرف اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی رضا کے لئے اپنی زندگی گزارنے کا انتخاب کرکے ہم اس دُنیا کوکہیں بہت دُور پیچھےچھوڑ آئے ہیں اور اب ایسی کوئی سوچ بھی نہیں کہ یہ دُنیا ہمیں کوئی معمولی خوشی بھی دے سکتی ہے یا ایسی کوئی اُمید بھی نہیں ہے !
ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
﴿مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلَى - وَلَلاٌّخِرَةُ خَيْرٌ لَّكَ مِنَ الاٍّولَى - وَلَسَوْفَ يُعْطِيكَ رَبُّكَ فَتَرْضَى﴾
”اور عنقریب تمہارا رب تم کو اتنا کچھ عطا فرمائے گا کہ تم خوش ہوجاؤ گے ، کیا اُس نے تمہیں یتیم نہیں پایا ، پھر ٹھکانہ دیا ۔ اور تمہیں ناواقف پایا تو سیدھا راستہ دکھایا “( الضحیٰ :3-5)
جب ہم یہ جان لیں گے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہمارے ساتھ ہیں تو ہمارے دل مطمئن ہو جائیں گے! پھر ہم اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی یاد کو ذہن میں رکھ کر ہی ہر اگلا قدم لیں گے۔ اللہ کی یاد کو اپنی زندگیوں کا ایک حصہ بنا کر غور کریں کہ اس ذاتِ باری تعالیٰ نے ہمیں ہر مشکل کا حل کتنی آسانی سے بتایا ہے، ہماری سماجی زندگی سے لے کر ہماری ملازمت یا کاروبار تک یا ہمارا گھروں میں کیسا برتاؤہونا چاہئے ، اس سے لے کر سیاست کے معاملات تک ! اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ہمیں اس مشکل پہاڑی، جس کا نام'دنیا' ہے، اس کو سَر کرنے کا وہ طریقہ بتلا دیاہے کہ اس کے بعد اب ہمیں ہرگز کسی پریشانی کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ یہ جان لیں اور سمجھ لیں کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ آپ کو ہر پَل دیکھ رہے ہیں اور اللہ کو سب خبر ہے کہ آپ کے احساسات وجذبات کیا ہیں ... اور اگر آپ اس بلندپہاڑی پر اس طرح چڑھائی کریں جیسا کہ اللہ نے آپ کو حکم دیا ہے، تو اس کے بدلے اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے آپ سے جنت کا وعدہ کیا ہے !
ان مشکلات کا ڈَٹ کر سامنا کریں اور جان لیں کہ ان کے بعد ایک شاندار نتیجہ آپ کا منتظر ہے۔ سونے کی طرح کی ایسی روح رکھیں جس کا ابن القیم نے کس خوبصورتی سے موازنہ کیا ہے : " روح کبھی بھی پاک و صاف نہیں ہوسکتی جب تک کہ وہ آزمائشوں سے نہ گزرجائے، یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے سونا کبھی بھی خالص نہیں ہو سکتا جب تک کہ تمام دوسری دھاتیں اس سے دُور نہ کرلی جائیں"۔
لہٰذا ابدی سکون وراحت کی طرف چڑھائی میں پائیدار اور متوازن چٹانوں کے علاوہ نوکیلے اور غیرپائیدار پتھر بھی آئیں گے اور ہم اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے ہی رہنمائی کی دُعا کرتے ہیں کہ وہ اُن پائیدار چٹانوں کی طرف ہماری رہنمائی کریں تاکہ ہم بلندی کی طرف اپنا سفر آسانی سے طے کرسکیں ! اگرچہ ہمیں یہ احساس ہوتا ہے کہ یہ راہ بہت دُشوار ہے لیکن ہم جانتے ہیں کہ اس کو طے کرنے کے پیچھے ایک مقصد ہے !
ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
﴿وَلَنَبْلُوَنَّكُم بِشَىْءٍ مِّنَ ٱلْخَوْفِ وَٱلْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ ٱلْأَمْوَٰلِ وَٱلْأَنفُسِ وَٱلثَّمَرَٰتِ ۗ وَبَشِّرِ ٱلصَّـٰبِرِينَ * ٱلَّذِينَ إِذَآ أَصَـٰبَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُوٓا۟ إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّآ إِلَيْهِ رَٰجِعُونَ * أُو۟لَـٰٓئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَٰتٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ ۖ وَأُو۟لَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلْمُهْتَدُونَ﴾
” اور ہم کسی قدر تمہاری ضرور آزمائش کریں گے، خوف سے اور بھوک سے اور مال میں، اور جان میں اور پھلوں میں نقصان سے ۔ اور صبر کرنے والوں کو بشارت سُنا دو۔ وہ لوگ کہ جب اُن پر کوئی مصیبت آتی ہے تو کہتے ہیں بے شک ہم اللہ ہی کے بندے ہیں اور ہمیں اُسی کی طرف لوٹ کرجانا ہے۔ یہی لوگ ہیں جن پر اُن کے رب کی طرف سے عنایتیں اور رحمتیں ہیں اور یہی لوگ ہیں جو ہدایت پانے والے ہیں“ (البقرۃ : 155-157)
لہٰذا اگرچہ ہم اس دنیا میں کوشش کرتے رہیں اور اس مشکل چڑھائی میں تھک بھی جائیں،لیکن جب ہم اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق زندگی گزارنے کا فیصلہ کرلیتے ہیں تو ہمیں درپیش چیلنجز اتنے مشکل نہیں رہ جاتے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ اس دنیا کی حیثیت کچھ بھی نہیں ہے ۔ اور ہماری یہ مشکل چڑھائی اطمینان و راحت کی جانب یعنی جنت کی جانب چڑھائی ہے ! ان شاء اللہ!
اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہمیں اس دنیا کی مشکلات میں آسانی اور اپنے بھروسے کے سہارے آگے بڑھنے کی توفیق عطا فرمائیں اور ہمیں اپنی زندگی کے تمام پہلوؤں میں اپنی ذات کی طرف ہی رجوع کرنے کی توفیق دیں! آمین!