بسم الله الرحمن الرحيم
غزہ کیلئے بہرصورت ماہ رمضان تک خلافت کی افواج متحرک کرانے کی لازمی ضرورت ہے،
وہ مہینہ جو کامیابی اور فتح کا مہینہ ہے!
خبر:
بی بی سی نے 28 فروری کو رپورٹ کیا کہ، "امریکی صدر جو بائیڈن کا کہنا ہے کہ وہ پیر تک غزہ میں اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کی امید رکھتے ہیں... "ہم قریب ہیں،" صدر بائیڈن نے پیر کو نیویارک میں صحافیوں کو بتایا۔ "ہمارا کام ابھی ختم نہیں ہوا ہے۔ مجھے امید ہے کہ اگلے پیر تک ہم جنگ بندی کر لیں گے۔"" [1]
تبصرہ:
رمضان کا بابرکت مہینہ شروع ہونے سے پہلےامریکہ کی طرف سے جنگ بندی پر زور دینے کے پیچھے چھپی حقیقت کوسمجھنا انتہائی اہم ہے۔ شیطان بائیڈن کو مسلمانوں سے کوئی ہمدردی نہیں ہے۔ اسلئے یہ واضح ہے کہ جنگ بندی کی یہ نئی کوشش اسلام کے "احترام" کی وجہ سے نہیں کی جارہی۔ آخر کوئی بھی یہ دعویٰ کیسے کر سکتا ہے، جبکہ بائیڈن بچوں اور ان کے والدین کے قاتلوں کا کھلا حمایتی ہے اور انھیں مسلسل فوجی اور دیگر امداد دے رہا ہے۔
جنگ بندی کے لئے اصل جواز کو ویسے ہی سمجھنا چاہئیے جیسے وہ ہے- یعنی 'خوف' ۔ کفار ہمیشہ سے مسلمانوں کی وحدت ، آپسی محبت اور اپنے رب سبحانہ و تعالیٰ سے محبت سے خوفزدہ رہے ہیں۔ وہ رمضان کو ایک ایسے وقت کے طور پر دیکھتے ہیں جہاں مسلمان عبادت کرنے اور اپنے ایمان کو مضبوط کرنے کے لیے یک جان ہو جاتے ہیں۔ یہ مہینہ ہمیشہ سے مسلمانوں کے لیے میدان جنگ میں فتح کا مہینہ ثابت ہوا ہے۔ تو اگر رمضان میں بھی فلسطینی مسلمانوں پر مظالم جاری رہے تو پھرمسلمانوں کو خاموش کرنا اور روکنا مشکل ہوجائے گا، یہ ہے وہ خوف ، جس سے بائیڈن خوفزدہ ہے!
تاہم جہاں مغربی قائدین کے دلوں میں یہ خوف موجود ہے، وہاںمسلم فوجیں اس بابرکت مہینے میں یوں داخل ہو رہی ہیں کہ انہوں نے اپنا فرض ادا کرنے اور مسلمانوں کی جان بچانے کی کوئی کوشش نہیں کی، حالانکہ ان کی حفاظت ان پر فرض ہے۔ وہ اپنے گھر والوں کی سحری اور افطاری کی تیاری کر رہے ہیں، جبکہ فلسطین میں ہمارے مسلمان بھائی بہن بھوک سے مر رہے ہیں۔ وہ عید کی آمد پر خوشیاں منانے کی تیاریاں کر رہے ہیں، جبکہ فلسطینی عوام بنیادی ضروریات کے بغیر گزر بسر کر رہے ہیں۔
اس وقت 'فوجیں بھیجنا واحد حل ہے' کے خلاف کوئی دلیل نہیں دی جا سکتی۔ ہم پہلے ہی 24 سے 30 نومبر تک کی جنگ بندی دیکھ چکے ہیں۔ اس دوران مسلم دنیا کے لیڈروں نے ملاقاتیں کیں، جنگ بندی کی تاریخ کو بڑھانے کی کوشش کی، اور مسلمانوں کی زندگیوں سے کھیلتے رہے، لیکن جیسے ہی جنگ بندی ختم ہوئی ،صیہونی یہودی اور بھی زیادہ شدت کے ساتھ ہمارے بھائیوں پر ٹوٹ پڑے۔
جہاں تک بائیکاٹ کے تصور کا تعلق ہے تو یہ جذبہ قابل تعریف ہے۔ یہ واقعی اعلیٰ کردار کی علامت ہے کہ لوگ ثابت قدمی سےبائیکاٹ پر مصر ہیں اور مقدور بھر کوشش کر رہے ہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ ان کوششوں کو قول فرمائے ، جس کے ذریعے دشمن کو مالی فنڈز کے بہاؤ کو کم کرنے کی کوشش کی گئی۔ تاہم، اس وقت یہ واضح ہے کہ امریکہ امت کے قلب میں موجود اپنے فوجی اڈے "اسرائیل" کی حمایت کے لیے اپنے تمام فنڈز کو استعمال کرے گا۔
جہاں تک امداد کا تعلق ہے، ہم نے اردن کی مسلح افواج کی طرف سے غزہ میں امداد کی فراہمی کو دیکھ رکھا ہے۔ 28 فروری 2024 کو، الجزیرہ نے ایک افسوسناک منظر کی اطلاع دی، "جنوبی غزہ کی پٹی سے ہزاروں فلسطینی اس وقت ساحل پر جمع ہوئے جب طیارے نے خوراک کی امداد گرائی۔" [2] امداد کا زیادہ تر حصہ سمندر میں گرگیا، اور بھوکے فلسطینی اسے حاصل کرنے کی کوششوں میں چھوٹی کشتیوں پر چڑھ گئے۔ عرب اور عجم کے رہنما "انسانی امداد" اور اس جیسے الفاظ استعمال کررہے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہم ان کی کوششوں کی تعریف کریں۔ تاہم فوجیں امداد یا جنگ بندی کے لیے نہیں بنائی جاتیں۔ افواج کو فوجی کارروائی، فوجی حمایت، تحفظ، دشمن کو پسپا کرنے اور فتح کے لیےکھڑا کیا جاتا ہے۔ واقعی 3 مارچ، 1924 کے بعد سےمسلمانوں کے لیے ایک تکلیف دہ صورت حال رہی ہے، جب ایک سو سال پہلےہم نے اپنی ڈھال خلافت کو کھو دیا تھا۔ اے مسلمانو، خلافت قائم کرو، تاکہ ہم بالآخر غزہ کی حمایت میں فوجیں اکٹھا کریں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنۡ تَـنۡصُرُوۡا اللّٰهَ يَنۡصُرۡكُمۡ وَيُثَبِّتۡ اَقۡدَامَكُمۡ
"اے اہل ایمان! اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ بھی تمہاری مدد کرے گا اور تم کو ثابت قدم رکھے گا۔"(محمد، 47:7)
نور مصعب
Reference