بسم الله الرحمن الرحيم
اداریہ: خلافت کے خاتمے سے مسلمانوں نے کیا کھویا؟
(ترجمہ)
تحریر: استاد سعید رضوان ابو عواد (ابو عماد)
مدینہ منورہ میں پہلی اسلامی ریاست کے قیام کے ساتھ ہی ہدایت، انصاف اور رحمت کی حامل امت پیدا ہوئی۔ اس نے ظلم اور اندھیرے کے بعد دنیا کو نور اور انصاف سے بھر دیا جو زمین پر چھایا ہوا تھا۔ دنیا پر اس کی حکمرانی تھی اور یہ لوگوں کو، لوگوں کی عبادت سے نکال کر لوگوں کے رب کی عبادت کی طرف اور مذاہب کے ظلم سے نکال کر اسلام کے عدل کی طرف لے گئی۔ پس اس نے اسلام کے ذریعے ایسے طریقے سے قوموں کو جوڑا کی ان میں عربی اور عجمی اور کالے اور گورے کا فرق ختم ہو گیا۔ اس نے اللہ کے حکم کے مطابق عدل کے ساتھ حکمرانی کی، جس نے فرمایا:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلَّهِ وَلَوْ عَلَى أَنفُسِكُمْ أَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ﴾
"اے ایمان والو! انصاف پر قائم رہو، اللہ کے لیے گواہی دینے والے بنو، اگرچہ اپنے آپ یا والدین یا قریبی رشتہ داروں کے خلاف ہی کیوں نہ ہو" (سورۃ النساء : آیت 135)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد خلافت قائم ہوئی، اور اس سے لوگ کئی صدیوں تک خوش رہے، جن میں اہلِ ذمہ اور مسلمان دونوں شامل تھے۔ یہ حسنِ نگہداشت اور عدل کی مثال تھی اور ہر مظلوم کے لیے پناہ گاہ تھی۔
تو خلافت کا کیا مطلب ہے؟ اور اس کے نہ ہونے سے مسلمانوں اور تمام لوگوں نے کیا کھویا؟
خلافت مشرق اور مغرب میں تمام مسلمانوں کی عام سربراہی کا نام ہے، جو دین کی حفاظت کرتی ہے اور رب العالمین کی شریعت کے ساتھ دنیا کی سیاست کرتی ہے۔
خلافت ایک نظریاتی ریاست ہے، ایک عقیدہ، جس سے ایک جامع نظامِ زندگی نکلا ہے جو لوگوں کے تعلقات کو باریک ترین تفصیلات تک منظم کرتا ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا:
﴿الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِيناً﴾
"آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو دین کے طور پر پسند کر لیا" (سورۃ المائدہ : آیت 03)
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَاناً لِّكُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً وَبُشْرَى لِلْمُسْلِمِينَ﴾
"اور ہم نے آپ پر کتاب نازل کی ہے جس میں ہر چیز کا بیان ہے اور مسلمانوں کے لیے ہدایت، رحمت اور خوشخبری ہے" (سورۃ النحل : آیت 89)
امتِ مسلمہ کی پیدائش آج کی نہیں ہے اور نہ ہی یہ دستور اور قوانین میں کسی اور پر انحصار کرتی ہے۔ اس کی شریعت کائنات، انسان اور زندگی کے خالق کی طرف سے آئی ہے، جس کا علم ہر چیز کا احاطہ کرتا ہے۔ یہ شریعت خواہشات سے پاک ہے، بخلاف انسانی قانون سازی کے، جس میں آپ کو کوئی ایک قانون بھی ایسا نہیں ملے گا جو کسی خاص فریق کی خدمت کے لیے نہ ہو؛ مثلاً تیل یا ہتھیار کی کمپنیوں کے لیے یا لالچی سرمایہ کاروں اور سرمایہ داروں کے لیے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَلَوِ اتَّبَعَ الْحَقُّ أَهْوَاءهُمْ لَفَسَدَتِ السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ وَمَن فِيهِنَّ بَلْ أَتَيْنَاهُم بِذِكْرِهِمْ فَهُمْ عَن ذِكْرِهِم مُّعْرِضُونَ﴾
"اور اگر حق ان کی خواہشات کی پیروی کرتا تو آسمان و زمین اور جو کچھ ان میں ہے سب تباہ ہو جاتے، بلکہ ہم ان کے پاس ان کی یاد دہانی لے کر آئے ہیں تو وہ اپنی یاد دہانی سے منہ موڑے ہوئے ہیں" (سورۃ المؤمنون: آیت 71)
اسلام، مسلمانوں پر ایک ایسی ریاست کو قائم کرنا فرض قرار دیتا ہے جو اسلام کے عقیدے کی حفاظت کرے، اس کی شریعت کو نافذ کرے، اس کے پیغام کو دوسروں تک پہنچائے، دین کو نقصان سے بچائے اور اسے لازم و ملزوم ہونے کی حیثیت دے۔ پس وہ اس عقیدے اور شریعت کو کتابوں کے اندر موجود افکار سے ایک ٹھوس حقیقت اور لازمی قوانین میں بدل دے، اور دیگر ریاستوں کے ساتھ ریاستی تعلقات کو منظم کرے۔
اسلام، ریاست کا ایک حصہ نہیں ہے بلکہ ریاست پوری کی پوری اسلام کا حصہ ہے، یعنی یہ نظامِ زندگی ہے۔ ریاست، دین کا حصہ ہے، پس اس ریاست کو کوئی قائم نہیں کر سکتا مگر وہ جو اسلام کو بغیر کسی کمی کے مکمل طور پر اپناتا ہے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے:
«إنَّهُ لَا يَقُومُ بِدِينِ اللهِ إِلَّا مَنْ حَاطَهُ مِنْ جَمِيعِ جَوَانِبِهِ»
"یقیناً اللہ کے دین کو وہی قائم کرے گا جو اسے ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہو"
اور اسی پر صحابہ کرام نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی تھی کہ آسانی اور سختی میں، خوشی اور ناگواری میں، سنیں گے اور اطاعت کریں گے اور مال اور مَردوں کی قربانی دیں گے اور ہر حال میں حق پر قائم رہیں گے، اور اللہ کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے اور نہ ہی اللہ کے سوا کسی سے خوف کھائیں گے۔
اسلامی ریاست قائم ہوئی تو اس نے عرب اور عجم میں زمین کے جابروں کا مقابلہ کیا اور لوگوں کو اللہ کے دین میں داخل کیا، تو وہ اس کے ذریعے خوش ہوئے اور دنیا کے سردار بن گئے، اس کے باوجود کہ شکست خوردہ لوگوں نے کہا:
﴿إِن نَّتَّبِعِ الْهُدَى مَعَكَ نُتَخَطَّفْ مِنْ أَرْضِنَا﴾
"اگر ہم آپ کے ساتھ ہدایت کی پیروی کریں تو ہمیں ہماری زمین سے اچک لیا جائے گا" (سورۃ القصص: آیت 57)
پس خلافت ان کے معاملات کو متحد کرنے والی تھی، ان کے دشمنوں کو مغلوب کرنے والی تھی، ان کی عزت اور شرف کو تعمیر کرنے والی تھی، ان کے دین اور عزت کی محافظ تھی، اور ان کی سرزمین کی محافظ تھی، پوری دنیا کو ان کی سلطنت کے تابع کرنے والی تھی اور ان کے رب کو راضی کرنے والی تھی۔
اور زمین کے سرکشوں کے ساتھ طویل جنگ کے بعد، اسلام کے دشمنوں نے جان لیا کہ خلافت مسلمانوں کی طاقت کا مرکز ہے۔ پس اگر اسے گرا دیا جائے تو اسلام ختم ہو جائے گا اور مسلمانوں کو ایک کاری ضرب لگے گی۔ چنانچہ انہوں نے اسے ایسے غداروں کی مدد سے تباہ کر دیا جو اسلام کا لباس پہنے ہوئے تھے، اور دنیا کے حقیر مفادات کے لالچی تھے۔
اور خلافت کے زوال کے ساتھ ہی اسلام، معاملات میں سے ختم ہو گیا اور زندگی میں بغیر کسی اثر کے محض لائبریریوں میں ایک پادریانہ مذہب اور نظریاتی فقہ بن کر رہ گیا۔ پس مسلمانوں نے دین اور دنیا دونوں کھو دیے۔
اور اس کے زوال کے ساتھ ہی امت کا جسم کمزور ٹکڑوں میں بٹ گیا، جنہیں جھوٹ اور بہتان کے ذریعے ریاستیں کہا گیا۔ اور عقیدے اور دین کی جگہ قومیت نے لے لی۔ پس شعور غائب ہو گیا اور عقلیں غلام بن گئیں۔
اور اس کے زوال کے ساتھ ہی یہود کے وجود کو امت کے جسم میں سرطان کی شکل میں داخل کر دیا گیا، جو امت کے دشمنوں کے لیے ہر اول دستہ ہے اور امت کی وحدت اور نشاۃِ ثانیہ میں رکاوٹ ہے۔
اور اس کے زوال کے ساتھ ہی دشمن نے مسلمانوں کی سرحدیں کھینچیں اور ان کے دستور بنائے اور ان کے حکمران مقرر کیے اور ان کے حکمرانوں کو گندے سیاسی ماحول میں گھیر لیا۔ ان کے لیے سکیورٹی فورسز تیار کیں جو مسلمانوں پر وحشیانہ طریقے سے تشدد کرتی ہیں۔ اور ان کے لیے جھوٹا میڈیا اور منافق رپورٹرز بنائے تاکہ شعور کو قتل کیا جائے اور حقائق کو الٹ دیا جائے۔ اور ان کے لیے درباری شیخ خریدے جو دولت اور تلوار کی بنیاد پر فتویٰ دیتے ہیں۔ اور ان کے لیے ایسے گروہ بنائے جو اسلامی نعروں سے اسلامی عوام کو اپنے اندر سمو لیتے ہیں، جو کسی اسلامی نظریے سے خالی ہیں، اور لوگوں کی گردنوں کو نظام کے سامنے جھکا دینے والے ہیں، تاکہ وہ نظام کے لیے حفاظتی دیوار بن جائیں، اس کی غداری اور بدعنوانی کو چھپائیں اور اس کی کمی کو پورا کریں۔ اور جب انقلابات شروع ہوئے تو دشمن نے مختلف طریقوں سے جوابی انقلاب تیار کیے، جن میں مسلح انقلابات بھی شامل تھے جو نظام کے حامیوں سے جڑے ہوئے تھے۔
اور خلافت کے زوال کے ساتھ ہی وہ ریاست چلی گئی جو لوگوں کے معاملات کی نگہداشت کرتی تھی، اور ان افواج کو باندھ دیا گیا جو ریاست اور عوام کی حفاظت کرتی تھیں، پس ممالک پر قبضہ کر لیا گیا، خون بہایا گیا، مقدس مقامات کی بے حرمتی کی گئی، آزاد عورتوں کی عصمت دری کی گئی، جبکہ افواج، اپنی بیرکوں میں بند، تماشائی بنی ہوئی تھیں اور نقصانات کی گنتی کر رہی تھیں!
اور خلافت کے زوال کے ساتھ ہی دولت لوٹ لی گئی اور ٹیکس اور محصولات عائد کیے گئے تو شدید غربت آن پڑی، بے روزگاری پھیل گئی، تعلیم اپنے مقصد سے ہٹ گئی، عقلیں فاسد ہو گئیں، برائی پھیل گئی اور شرافت غائب ہو گئی۔
اور خلافت کے زوال کے ساتھ ہی ہم نے اپنے فیصلے خود کرنے کی سیاسی طاقت کو کھو دیا اور ہماری ریاستیں قابض حکومتیں بن گئیں جو اپنے دین اور اپنی عوام سے دشمنی کر رہی ہیں۔ اور ہم بین الاقوامی نظام کے سامنے بھکاری بن گئے جو ہماری تکالیف کا خالق ہے۔ اور ہم دنیا پر حکمرانی کے بعد تیسری دنیا کے ممالک کے دامن میں بے عزتی کے ساتھ ذلیل ہو گئے۔ اور اس کے زوال کے ساتھ ہی مسلمانوں نے دنیا اور آخرت دونوں کو کھو دیا اور ان کے ممالک ایک نفرت انگیز استعمار کے زیر اثر آ گئے اور استعمار کے کھیت بن گئے اور مسلمان اس میں غلام بن کر رہ گئے۔
یہ ہے خلافت اور یہ ہے اس کی واپسی کا مطلب، جس کے بغیر تین دن اور تین راتیں گزارنا ہم پر حرام کر دیا گیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«وَمَنْ مَاتَ وَلَيْسَ فِي عُنُقِهِ بَيْعَةٌ، مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً»
"اور جو اس حال میں مرا کہ اس کی گردن میں (خلیفہ کی) بیعت نہ تھی تو وہ جاہلیت کی موت مرا"
پس، مسلمانوں کو متحد کرنے والی، ان کے دشمن کو مغلوب کرنے والی، ان کے دین کی حفاظت کرنے والی، ان کے رب کی شریعت کے مطابق فیصلہ کرنے والی اور ان کے خون، عزت اور مقدس مقامات کی حفاظت کرنے والی خلافت کی واپسی سے صرف وہی شخص دشمنی کر رہا ہے جو یا تو کافر ہے یا کوئی غدار اور مفاد پرست ایجنٹ یا کوئی بزدل ہے جو اللہ سے زیادہ لوگوں سے ڈرتا ہے۔
تو کوئی مسلمان بے بسی کا عذر نہ کرے، کیونکہ اللہ کی قسم اگر دلوں میں ایمان اور عوامی حمایت کی حامل ایک مخلص اور باشعور سیاسی قیادت اکٹھے ہو جائیں تو اللہ ضرور ان کی مدد کرے گا، چاہے ان کے خلاف زمین کی تمام طاقتیں ہی کیوں نہ جمع ہو جائیں۔
بھلا وہ قوم کیسے شکست کھا سکتی ہے جس کے ساتھ اللہ ہو؟! اور ان کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھی سے فرمایا:
«مَا ظَنُّكَ بِاثْنَيْنِ اللهُ ثَالِثُهُمَا»
"تمہارا ان دو کے بارے میں کیا خیال ہے جن کا تیسرا اللہ ہے؟"
اور ان کے رب سبحانہ نے ان سے فرمایا:
﴿وَلَيَنصُرَنَّ اللهُ مَن يَنصُرُهُ إِنَّ اللهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ﴾
"اور جو اللہ کی مدد کرے گا تو اللہ ضرور اس کی مدد کرے گا، بے شک اللہ بڑا طاقتور اور غالب ہے۔" (سورۃ الحج: آیت 40)
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْناً يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئاً﴾
"اللہ نے تم میں سے ان لوگوں سے وعدہ کیا ہے جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے کہ وہ انہیں زمین میں ضرور خلیفہ بنائے گا جیسا کہ اس نے ان لوگوں کو خلیفہ بنایا جو ان سے پہلے تھے اور وہ ان کے دین کو ان کے لیے ضرور غالب کر دے گا جسے اس نے ان کے لیے پسند کیا ہے اور وہ ان کے خوف کو ضرور امن میں بدل دے گا۔ وہ میری عبادت کریں گے، میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کریں گے" (سورۃ النور: آیت 55)
اور اللہ عز و جل نے فرمایا:
﴿إِن يَنصُرْكُمُ اللهُ فَلَا غَالِبَ لَكُمْ وَإِن يَخْذُلْكُمْ فَمَن ذَا الَّذِي يَنصُرُكُم مِّن بَعْدِهِ وَعَلَى اللهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ﴾
"اگر اللہ تمہاری مدد کرے تو تم پر کوئی غالب نہیں آ سکتا اور اگر وہ تمہیں چھوڑ دے تو اس کے بعد کون ہے جو تمہاری مدد کرے؟ اور مومنوں کو اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیے"(سورۃ آل عمران: آیت 160)