السبت، 16 شعبان 1446| 2025/02/15
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

 

ڈیووس 2025: عرب خطے کے مستقبل پر خوش بینی کی حقیقت

(ترجمہ)

 

تحریر: اسعد منصور

 

عالمی اقتصادی فورم 20 تا 24 جنوری 2025 تک ڈیووس میں منعقد ہوا، جس کا فریب دہ عنوان تھا: "سمارٹ دور کے لیے تعاون"! اس میں ریاستوں اور حکومتوں کے سربراہان، بین الاقوامی تنظیموں، بڑی کمپنیوں کے چیف ایگزیکٹوز، سائنسی، صنعتی، تحقیقی، فکری، انتظامی اور کاروباری اداروں کے ماہرین، معروف جامعات، مزدور یونینیں اور غیر سرکاری تنظیمیں شامل تھیں۔ یہ سب مغرب کی برتری ثابت کرنے کے لیے ایک نمائشی عمل تھا۔

 

یہ فورم، سرمایہ دارانہ مغرب کی زیر قیادت عالمی نظام کے لیے کیے جانے والی ایک سیاسی کانفرنس کی مانند ہے، جس میں مختلف امور پر بحث کی جاتی ہے اور مختلف آراء رکھنے والے  بہت سے لوگوں کو سنا جاتا ہے تاکہ موجودہ نظام اور دنیا پر اس کی قیادت کو برقرار رکھنے کے لیے، ان پر قابو پایا جا سکے اور انہیں ایک مخصوص سمت میں موڑا جا سکے۔

 

اسی لیے کہا گیا کہ "یہ فورم مشرقِ وسطیٰ کے علاقے میں ہونے والی بنیادی تبدیلیوں کے پسِ منظر میں منعقد ہو رہا ہے۔" یہ بھی کہا گیا کہ "فورم کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر میریک ڈوسیک نے، غزہ میں جنگ بندی، لبنان میں صدر کے انتخاب اور شام میں بشار الاسد کے نظام کے خاتمے کے ساتھ حالیہ دنوں میں کشیدگی میں کمی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے خطے کے مستقبل کے بارے میں محتاط امید کا اظہار کیا ہے۔ لیکن اس خوش بینی کو جو چیز تقویت دے رہی ہے وہ خطے کی بعض معیشتوں، خاص طور پر خلیجی معیشتوں میں پائی جانے والی توانائی ہے۔"

 

ڈوسیک نے کہا کہ "شام کا معاملہ بھی عنقریب ایجنڈے پر ہو گا، ہم سب وہاں تنازعہ کی انسانی قیمت کو جانتے ہیں، اور شام اب ایک عبوری دور سے گزر رہا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ شام کا کوئی نمائندہ یہاں موجود ہو گا۔ آئیے شام کے وزیر خارجہ کو ان کے منصوبوں کو سمجھنے اور یہ جاننے کے لیے مدعو کرتے ہیں کہ وہ ملک کو کہاں لے جانا چاہتے ہیں؟ معیشت کس طرف جائے گی؟ بلکہ معاشرہ کس طرف جائے گا؟ ملک سب گروہوں کی شرکت کو کس طرح یقینی بنائے گا؟ اور ان کے ہمسایوں کے ساتھ تعلقات کیسے ہوں گے؟"

 

"ڈوسیک نے دو باتیں بیان کیں جن کے تحت عربوں کی اس سال فورم میں  شرکت ہوگی: جیو پولیٹیکل  اقتصادی اور سیاسی سطح پر۔ اس لیے غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے اور یرغمالیوں کی پہلی کھیپ کی رہائی اور وہاں کی انسانی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔ وہ فلسطینی فریق کے نمائندے یعنی وزیر اعظم کو، اور اسرائیلی فریق کے نمائندے یعنی اسرائیلی صدر کو مدعو کریں گے۔" "وہ ایرانی نائب صدر کو ان کی آراء سننے کے لیے مدعو کریں گے اور وہ بھی بات چیت میں حصہ لیں گے۔"

 

ڈوسیک نے اپنا محتاط رویہ ترک کرتے ہوئے خطے کے مستقبل کی زیادہ روشن تصویر پیش کی اور دوسری بات کا ذکر کیا جس کے تحت سعودی عرب کی شرکت ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ "مشرق وسطیٰ میں بعض معیشتوں، خاص طور پر خلیج میں، توانائی موجود ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اس کا ادراک کرنا ضروری ہے۔ اور جب ہم مشرق وسطیٰ میں بین الاقوامی دلچسپی دیکھتے ہیں تو میرے خیال میں یہ ضروری ہے کہ ہم دستیاب مواقع اور چیلنجوں کے بارے میں واضح ہوں۔ اس لیے مشرقِ وسطیٰ کے رجحانات کے حوالے سے بھی ایک مضبوط اقتصادی ایجنڈا شامل ہو گا۔" انہوں نے کہا کہ "سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر کے منصوبے، اس اہم کردار کو اجاگر کرتے ہیں جو یہ تمام معیشتیں تجارت اور ترقی کے میدان میں کی جانے والی عالمی کوششوں میں ادا کر رہی ہیں، اور خاص طور پہ عالمی معیشت کی ترقی کو دوبارہ شروع کرنے میں ان کا کردار نہایت اہم ہے۔"

 

یہ خطے کے معاملات میں مغرب کی جانب سے واضح مداخلت ہے اور اس بات کی نگرانی ہے کہ یہاں کیا ہو رہا ہے تاکہ یہ ان کے کنٹرول سے باہر نہ ہو جائے، اور اسے اس سمت میں موڑا جا سکے جو وہ چاہتے ہیں اور اس کی صلاحیتوں اور قابلیت کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کر سکیں، اور اپنی کمزور معیشت کو اس کی بے پناہ دولت کے ذریعے بچا سکیں۔

 

لہذا، خطے کے عہدیدار مغرب کو اپنی وفاداری اور اس کے نظام میں شمولیت کی یقین دہانی کرانے کے لیے فورم کی طرف دوڑ پڑے۔

 

اسی وجہ کے مدِ نظر، فورم کے ڈائریکٹر نے عرب خطے کے مستقبل کے بارے میں امید کا اظہار کیا ہے، نہ کہ اس لیے کہ وہاں کوئی ترقی ہوئی ہے اور خطے نے اپنے عوام کی ضروریات کو پورا کیا ہے۔ ان ممالک کی معیشتیں عموماً زوال پذیر ہیں، اور لوگوں کے حالاتِ زندگی خراب ہیں، اور غربت کی شرح کافی بڑھی ہوئی ہے۔ لہذا، مغرب کو ڈر تھا کہ شام میں کوئی ایسی چیز رونما ہو گی جو حقیقی تبدیلی کا باعث بنے گی، اور یہ کہ امت بغاوت کرے گی اور غدار حکومتوں کو گرا دے گی، اور غزہ کی مدد کرے گی اور خطے میں ان کی اہم چھاؤنی یعنی یہودی وجود کو ختم کر دے گی۔ اور چونکہ ایسا اب تک نہیں ہوا، تو یہ فطری بات ہے کہ فورم کے ما ڈائریکٹر اور پورا مغرب، خطے میں اپنے مستقبل کے بارے میں پرامید نظر آتے ہیں کہ وہ اب بھی ان کے کنٹرول میں ہے اور ان کی گرفت میں ہے۔

 

اور جہاں تک خلیجی معیشتوں کی طرف اشارہ کرنے کا تعلق ہے، تو وہ مغرب کے لیے ایک کھیت کی مانند ہیں اور تقریباً تمام سرمایہ کاری مغرب کی ٹوکری میں جاتی ہے۔ اسی لیے امریکی صدر ٹرمپ نے فورم کے سامنے اپنی ویڈیو تقریر میں اعلان کیا کہ سعودی عرب امریکہ میں 600 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا جبکہ ٹرمپ اس رقم کو ایک ٹریلین ڈالر تک بڑھانے کا مطالبہ کرے گا۔ سعودی عرب امریکی خزانے کے بانڈز اور امریکی کمپنیوں کے حصص اور ایک خاص ڈیجیٹل کرنسی خریدے گا۔ وہ خاص ڈیجیٹل کرنسی جو ٹرمپ نے اپنے نام سے  شروع کی ہے۔ دوسری طرف سعودی عرب اپنے پاس دولت کی کمی کی شکایت کرتا ہے، پس وہ حج کرنے والوں پر بوجھ ڈالتا ہے اور سیاحت کے نام پر آمدنی بڑھانے کے لیے بدکاری اور بے حیائی کی حوصلہ افزائی کرتا ہے! اسی طرح متحدہ عرب امارات کرتا ہے اور بیرون ملک سرمایہ کاری کرتا ہے، خاص طور پر یورپ میں، اور اسی طرح قطر نے 2022 کے ورلڈ کپ میں معمولی کھیلوں کے منصوبے پر 220 بلین ڈالر خرچ کیے، جس سے غیر ملکی کمپنیوں کی جیبیں بھر گئیں۔

 

ان ممالک نے بیرونی انحصار سے چھٹکارا حاصل کرنے اور مغربی تسلط سے نجات حاصل کرنے کے لیے  صنعت اور ٹیکنالوجی کے میدان میں انقلاب برپا کرنے کے لیے کوئی سنجیدہ قدم نہیں اٹھایا، اور نہ ہی اس دولت کو امت کے مستحق بیٹوں میں تقسیم کیا جو مصائب کا سامنا کر رہے ہیں اور نہ ہی بیرونی معاملات میں اپنی کرنسی مسلط کی ہے تاکہ ڈالر سے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔ ڈالر کو، امریکی تسلط کو یقینی بنانے کے لیے ایک اہم عنصر سمجھا جاتا ہے، اور اس سے چھٹکارا حاصل کرنا اس کے تسلط کو گرانے میں مددگار ثابت ہوگا۔

 

یہ مغرب کے لیے خوشی کی بات ہے، نہ کہ خطے کے لوگوں کے لیے، جب تک کہ یہ صورتحال اسی طرح برقرار ہے، جیسا کہ مغرب چاہتا ہے۔

 

اصولی طور پر، مسلمانوں کو دنیا کے معاملات پر اسلامی نقطہ نظر سے بحث کرنے اور انسانوں کے مسائل کے لیے اسلام کی عظمت، اس کے درست نظریے اور اس کے حل کو بیان کرنے کے لیے عالمی فورمز اور کانفرنسیں منعقد کرنی چاہئیں، اور مسلمانوں کو ان نظریات کے ساتھ دنیا کی قیادت کرنی چاہیے، نہ کہ مغرب کے پاس اس کو خوش کرنے اور یہ ثابت کرنے کے لیے آنا چاہیے کہ وہ اس کی اطاعت سے باہر نہیں ہیں اور مسائل کے حل کے لیے ان کی تجاویز کو اپنا رہے ہیں اور ان کے نظریے میں شریک ہیں۔ جب ایرانی نائب صدر جواد ظریف سے پوچھا گیا کہ کیا وہ آپریشن طوفان الاقصی کے بارے میں جانتے تھے، تو انہوں نے غصے سے جواب دیا کہ "ایران کو اس دن کے حملے کا علم نہیں تھا، وہ 9 اکتوبر کو امریکہ کے ساتھ جوہری معاہدے پر  ملاقات کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا تھا، لیکن اس حملے نے اس بات چیت کو ناکام بنا دیا۔" خواتین کی آزادی کے بارے میں انہوں نے کہا: "تہران کی سڑکوں پر خواتین کو سر ڈھانپے بغیر گھومتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے، حکومت نے ان پر دباؤ نہ ڈالنے کا فیصلہ کیا ہے۔" اور شام کے نئے وزیر خارجہ الشیبانی سے برطانوی سابق وزیر اعظم بلیر، فورم کے سامنے مکاری سے بات کر رہے تھے اور اسے بتا رہے تھے کہ مغرب کو کیا اچھا لگے گا: "ہمارا وژن، بغیر کسی استثناء کے تمام شامیوں کی ملک کے مستقبل کو تشکیل دینے میں شرکت کا پابند ہے۔" لیکن جب ٹرمپ نے اقتدار سنبھالا تو انہوں نے اعلان کیا کہ وہ 1000 سینئر ملازمین کو برطرف کر دیں گے جو ان کے نقطہ نظر سے متفق نہیں ہیں۔ وہ سرمایہ دار ہیں جو سرمایہ دارانہ نظام کو برقرار رکھتے ہیں، لیکن وہ ان لوگوں کو بھی قبول نہیں کرتے جو جزوی طور پر بھی ان سے متفق نہ ہوں۔ جہاں تک شام اور دیگر اسلامی ممالک کا تعلق ہے، وہ غیر مسلموں اور سیکولرز میں موجود اپنے ایجنٹوں کی شرکت کا مطالبہ کرتے ہیں، اور ان لوگوں کا انتخاب کرتے ہیں جو ایک ریاست کے سربراہ کی ذہنیت نہیں رکھتے، اور نہ ہی وہ حکومت کے معنی جانتے ہیں، اس لیے وہ مغرب سے یہ نہیں کہتے کہ تمہارا ہم سے کیا واسطہ ہے؟ ہمارے ملک سے چلے جاؤ اور ہمارے معاملات میں مداخلت نہ کرو۔ اس کے بعد وہ ڈیووس اور اس جیسے فورمز اور کانفرنسوں میں شرکت کے لیے نہ بھاگیں اور نہ ہی مغرب کی چاپلوسی کریں اور نہ ہی اسے خوش کرنے کی کوشش کریں اور نہ ہی اس کی مدد مانگیں۔ جب وہ ایسا کریں گے اور اسلام کے نقطہ نظر کے حامل بنیں گے تو اسلام کی عظمت اور اس کے حل کے درست ہونے کو واضح کر دیں گے۔

 

Last modified onہفتہ, 08 فروری 2025 19:59

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک