الأربعاء، 23 جمادى الثانية 1446| 2024/12/25
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

 

سوال کا جواب

روس تر ک سربراہی ملاقات

سوال:

ترک صدر اردوگان نے9 اگست2016 کو روس کا دورہ کیا جبکہ ترکی میں رونما ہونے والے ناکام انقلاب کی "باز گشت "بھی ابھی ختم نہیں ہوئی تھی۔ تو اس قدر جلدی کس بات کی تھی ؟ اور یہ کہ اس  دورےکا مقصد کیا تھا خاص کر  وزارت خارجہ، فوج اورانٹیلی جنس کے نمائندوں نے بھی روس کا دورہ کیا ہے؟ کیا اس دورے کا شام کے بحران سے کوئی تعلق ہے؟ یا یہ  روسی طیارے کو گرانے کے بحران کے بعد  ترکی اورشام  کے تعلقات کی "بحالی" کے لیے ہے؟ اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔

 

جواب:

 جلدبازی کے اسباب کو جاننے اور اس کے مقاصد کو سمجھنے کے لیے ہم مندرجہ ذیل امور کو پیشِ نظر رکھتے ہیں:

 

1۔ اس دورے کے بارے میں بات15 جولائی 2016 کے انقلاب کی کوشش سے پہلے ہی ہو رہی تھی اور اصل میں فیصلہ یہ ہوا تھا کہ چین میں 2016 میں ہونے والے جی 20 سربراہی ملاقات کے موقع پر  دونوں ممالک کے صدور کے درمیان بھی ملاقات  طے تھی لیکن  پھر جلد بازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اگست میں ہی صدر پوٹین اور صدر اردوگان کے درمیان ملاقات کا اہتمام کیا گیا کیونکہ  امریکہ ترکی کو ایک سرگرم آلہ کار کے طور پرشام میں سودے بازی میں شامل کرنے میں جلدی کرنا چاہتا تھاکیونکہ دوسرے آلہ کار ناکام ہو گئے تھے (ایران، روس۔۔۔وغیرہ)۔  ترک وزیر خارجہ نے  اعلان کیا کہ دونوں صدور کے درمیان ملاقات پہلے ہوگی اور یہ  اگست میں ہی روس میں ہو سکتی ہے۔"اور روسی نیوز ایجنسی انٹر فیکس نے ترک وزیر خارجہ سے منسوب  یہ بیان شائع کیا کہ  روسی صدر ولادی میر پوٹین اور ترک صدر اردوگان کے درمیان ملاقات اگست میں سوچی میں ہوگی۔۔۔۔"(العربیہ نیٹ2 جولائی2016)۔ دورے کا موضوع  "صلح صفائی" کے ماحول  میں یر بحث لایا گیا تاکہ ترکی شام کے مسئلے کو امریکی پالیسی کے  مطابق حل کرنے میں کردار ادا کرے جس کی وضاحت ہم نے اس سوال کے جواب میں کی تھی جو14 جولائی2016 کو شائع کیا تھا۔جس میں نے کہا تھا کہ :"۔۔۔ا مریکہ ترکی کے موجودہ کردار کے ذریعے شامی اپوزیشن پر پوری قوت کے ساتھ دباؤ میں اضافہ کر کے جنیوا کے سفر کو دوبارہ شروع کر کے پرامن حل چاہتا ہے۔۔۔۔۔۔ اگر  اپوزیشن مذاکرات کے سفر میں شامل ہونے سے انکار کرتی ہے تو  روس اور ترکی کے درمیان تعاون کے اظہار کے ذریعےاس کی پشت پناہی سے دستبردار ہونے کی دھمکی دی گئی: " روسی وزیر خارجہ نے کہا: ہم شام کے حوالے سے روسی اور ترک فوج کے درمیان رابطوں کی امید کرتے ہیں" (العربیہ نیٹ2 جولائی2016)۔۔۔ اور ترکی شام میں روسی مداخلت کی مزید مخالفت نہیں کرے گا۔۔۔۔ اوریہ بھی بعید از امکان نہیں کہ ترکی دباؤ ڈالنے کے لیے سیاسی وسائل سے آگے بڑھے اور داعش تنظیم کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر عسکری کاروائی کرے کیونکہ وہ بھی دوسرے مسلح اپوزیشن سے الگ یا نمایاں نہیں۔ یعنی وہی بہانہ جو روس اپوزیشن پر بمباری کے لیے استعمال کرتا ہے! روسی وزیرخارجہ کا روسی اور ترکی فوج کے درمیان رابطوں کا بیان اس احتمال کی دلیل ہے"۔۔۔ اس کے علاوہ" اوباما بھی اپنے پیش رو ڈیموکرٹک کلنٹن کی طرح  کام کرنا چاہتا ہے جیسے اس نےاپنی حکومت کے آخری سال میں مسئلہ فلسطین کے فیصلہ کن حل کے لیے تنظیم آزادی فلسطین اور یہود کو مذاکرات کے میز پر بیٹھا نے کے لئے اپنی کوششوں میں اضافہ کردیا تھا۔اگر چہ وہ اس میں نا کام ہوا تھا مگر یاسر عرافات اور ایہود باراک کو ایک میز پر بیٹھانے میں کامیاب ہوا۔۔۔ اب اوباما  شامی اپوزیشن اور حکومت کو مذاکرات کی میز پر اکھٹے بیٹھا نا چاہتا ہے تا کہ یہ ایک ایسا کام ہو جو اس کی حکمرانی کے آخری دنوں کی یادگار بنے۔  مگر کلنٹن اور اوباما کی کوشش میں فرق یہ ہے کہ اول الذکر کی کوششیں اپنے ایجنٹوں کے سامنےواضح اور نمایاں تھی جبکہ  اوباما اپنے ایجنٹوں اور آلہ کاروں کے پیچھے چھپ کر کام کر رہا ہے! ان کے دور میں امریکہ اپنے پیروکاروں پر زیادہ اعتماد کر رہا ہے، ایران اور اس کے چیلوں کے بعد، روس کے بعد، ۔۔۔۔ جب  شام میں ایرانی اور روسی مداخلت ناکامی سے دوچار ہونے لگی تب امریکہ نے ترکی کو روس اور ایران کے پلڑے میں ڈالنے کے لیے دوڑ لگائی تا کہ شام میں امریکی اثرو نفوذ کو بچایا جائے، اور شام کی تحریک کے اسلامی پہلو کو ختم کیا جائے۔۔۔ یوں روس دن رات شام پر بمباری کر رہا ہے اور ترکی "شام میں دہشت گردی کے خلاف جنگ" کے نام پر اس سے تعاون کر رہا ہے،  دونوں کے درمیان "دوستانہ ماحول میں باچیت " ہو رہی ہے،  بلکہ روسی وزیر خارجہ روسی اور ترک فوج کے درمیان شام کے حوالے سے رابطوں کا مطالبہ کر رہے ہیں!!"15 جولائی 2016 کے ہمارے جواب سے جو نقل کیا وہ یہاں ختم ہو۔

 

2۔ اس بات کی توقع تھی کہ ترکی کا کردار پہلے ہی شروع ہو تا مگر انگریز کے وفادار کمالی افسران کی جانب سے انقلاب کی کوشش نے ترکی کے کردار کو منجمد کیا اور حکومت  داخلی مسائل میں پھنس گئی۔ اس بات کا امکان تھا کہ ترکی کا کردار   ناکام انقلاب کی کوشش کی باز گشت سے نکلنے تک منجمد ہی رہتا جیسا کہ اردوگان نے کہا تھا تا ہم  2016 کےاگست کے مہینے میں شامی انقلا بیوں نے  حلب کا محاصرہ توڑنے کی مہم چلائی  اور کامیاب ہوئے جس سے امریکہ  ترکی کے کردار میں عجلت پر مجبور کیا اور یو ں اردوگان  نے تعلقات کو بحال کرنے کے لیے روس کا دورہ کیا تا کہ امریکی  سیاسی حل کے لیے ترکی روس کے ساتھ مل کر فعال کردار ادا کرے۔۔۔امریکہ نے اس بھر پور مہم کے ثمرات کو حاصل کرنے کا ارادہ کیا؛ یوں یہ کامیابی کی فتح ہونے کی بجائے مذاکرات کی فتح بن جائے، اس کو بنیاد بنا کر ترکی کو متوازن مذاکرات کی ترویج کے لیے استعمال کیا جیسا کہ اردوگان نے  کہا   جس سے وہ یہ گمان کرتے تھے کہ ترکی اپنے مختلف وسائل سے  اوباما کے دور میں ہی طرفین کو  امریکہ کے مذاکراتی حل کے لیے جمع کرے گا اور متوازن مذاکرات سے فائدہ اٹھائے گا!!"ترک صدر اردوگان نے  آج شام کے حوالے سے علاقائی اجلاس بلایا ہے،   قطری ٹی وی "الجزیرہ" کو ایک طویل انٹرویو کے دوران  اردوگان نے کہا کہ حلب میں صورت حال ناخوشگوار ہے مگر  حال ہی میں اپوزیشن نے توازن قائم کیا ہے"( ا لسوریہ نیٹ، الخلیج الجدید6 اگست2016 )۔

 

 یوں یہ دورہ ہوا  اور اردوگان کی جلد بازی اوباما کا مطالبہ تھا تاکہ تمام فریقوں کو نئے مذاکرات"چوتھے دور" کے لیے جمع کیا جائے جس کے ذریعے اوبا ما اپنے صدارتی دور کا اختتام کرے۔ بات چیت کے اس دور کی طرف ترک وزیر خارجہ نے اشارہ کیا: "رائٹرز استنبول  – ترک وزیر خارجہ مولود چاوش اوگلو  نے جمعہ کو کہا  کہ شام کے مستقبل کے حوالے سے   مذاکرات دوبارہ شروع ہونے چاہیے، انہوں نے مذاکرات کے چوتھے دور جنیوا امن کی دعوت دی"( رائٹرز عربی5 اگست2016 )۔۔۔یہ تھا دورہ اور یہ تھی سربراہی ملاقات۔۔۔

 

3۔ یہ سربراہی ملاقات  روس اور ترکی کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کا آخری اقدام تھا جس میں روسی جہاز گرائے جانے کے بعد بہت بگاڑ پیدا ہو گیا تھا۔ تعلقات کو معمول پر لانے کا یہ سفر ترکی کے لیے ذلت آمیز تھا۔ پوٹین کی شرائط کے سامنے سرجھکاتے ہوئے اردوگان نے27جون2016 کو جہاز گرائے جانے پر معافی مانگی، اردوگان نے فوراً29 جون2016 کو  روسی صدر کو فون کیا اور بات چیت کو دوستانہ ماحول کہا، اس کے بعد وزیر خارجہ نےیکم جولائی2016 کو روسی وزیر خارجہ  کے ساتھ روس کے شہر سوچی میں ملاقات کی،  جس میں دونوں وزراء نے سربراہی ملاقات  کے موضوع پر بات چیت کی جو اردوگان اور پو ٹین کے درمیان پیٹرز برگ میں ہونے والی تھی۔  اس کے بعد ترک وزیر خارجہ نے ترکی میں روس کو شام پر بمباری کے لیے عسکری اڈے دینے کا اشارہ دیا۔ روس کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے ترکی کے موقف میں یہ گراوٹ  روس کی جانب سے انقرہ پر لگائی جانے والی اقتصادی پابندی کی وجہ سے نہیں تھی بلکہ  یہ صرف شام میں امریکہ کی مشکلات کی وجہ سے تھی۔ امریکہ چاہتا ہے کہ ترکی بھی  روس اور ایران کے ساتھ مل کر شام کے بحران کو حل کرنے کے لیے امریکہ کے لیے کام کرے۔ اس سب کی وجہ سے روس کے سامنے جھکاؤ ترکی کے لیے ذلت آمیز تھا، یعنی یہ سب ترکی کے امریکہ کے ساتھ تعلقات اور امریکی پالیسیوں کو نافذ کرنے کی وجہ سے تھا، جس کے لیے ترکی کودوڑ دھوپ کرنا پڑھ رہا ہے۔۔۔

 

4۔اردوگان نے15 جولائی2016 کے ناکام انقلاب سے پہلے طے شدہ دورے  پر اصرار کیا حالانکہ ترکی کی داخلی صورت حال کی وجہ سے وہ سخت مشغول تھا، جس کو اس نے "زلزلہ" کہا تھا اور مزید اس قسم کے جھٹکوں کے خدشے کا اظہار کررہاتھا۔ یہ صورتحال اس قدر خطرناک تھی کہ روس کے دورے سے واپسی کے باوجود اس نے ہفتہ7 اگست2016 کو عوام سے بدھ تک عوامی مقامات پر رہنے کا مطالبہ کیا  کیونکہ اس کو انگریز کے وفادار افسران سے مزید کسی حرکت کا خوف تھا،  اسی طرح حلب میں روس کے بڑھتے ہوئے وحشیانہ جرائم کے باوجود  اس  نے پوٹین سے ملاقات پر اصرار کیا اور اس کو موخر نہیں کیا۔  اس  نے روس کے ساتھ ماضی کو  فراموش کردینے کی خواہش کا اظہار کیا۔ امریکی  حکم نے ترکی کو روس کی طرف دھکیل دیا۔ اسی لیے پوٹین نے بھی اس اصرار کی طرف اشارہ کیا کہ" ترک صدر کو روس کے دورے کا موقع  ملا حالانکہ  جون 15،16 کی رات انقلاب کی ناکام کوشش کے بعد  ترکی کی داخلی صورت حال پریشان کن تھی"(  رشیا ٹو ڈے9 اگست2016 )۔

 

5۔یہ بات واضح تھی کہ اردوگان پوٹین ملاقات کا مرکزی موضوع شام تھا، چنانچہ دونوں صدور نے شام کے موضوع پر بحث وفود کےساتھ نہیں کی بلکہ شام کے موضوع پر باچیت کو رات تک موخر کیا پھر  دونوں وزرائے خارجہ اور انٹیلی جنس کے نمائندوں کی  شرکت سے شام میں سودے بازی کے راہوں پر بحث کی۔ اس آنے والی ملاقات کے بارے میں پوٹین نے کہا کہ :"ہم معلومات کا تبادلہ کریں گے اور  حل پر بحث کریں گے"۔ شام کے حوالے سےملاقات کو رات تک موخر کرنا اور وزرائے خارجہ  اور انٹیلی جنس کے علاوہ وفود کے باقی اراکین کو  اس سے دور رکھنا شام کے موضوع پر طرفین کی جانب سے بڑی اہمیت دینے پر دلالت کرتا ہے۔ سابقہ رکاوٹوں کو ہٹانے کے بعد یہی طرفین کے لیے اہم ترین مسئلہ ہے۔ امریکہ کا تمام فریقین سے یہی مطالبہ ہے  کہ حکومت اور اپوزیشن کو اوبا ما کا دور ختم ہونے سے قبل مذاکرات کی میز پر لایا جائے!

 

6۔ سربراہی ملاقات کے دوران  اور اس کے بعد  ترکی کے کردارمیں فعالیت نظر آنے لگی:

ا۔ رائٹرز استنبول- ترک وزیر خارجہ مولود چاویش اوگلو نے جمعہ کو کہا کہ شام کے مستقبل کے حوالے سے بات چیت کو دوبارہ شروع کرنے کی ضرورت ہے اور انہوں نے جنیوا امن بات چیت کے چوتھے دور کو شروع کرنے کی دعوت دی( رائٹرز عربی5 اگست2016 )۔

 

ب۔  ترک صدر رجب طیب اردوگان نے آج شام کے لیے علاقائی اجلاس کے انعقاد کا اعلان کیا،  ان کا بیان ہفتے کی شام  قطری ٹی وی "الجزیرہ" کو ایک طویل انٹرویو کے دوران سامنے آیا۔۔۔اردوگان نے مزید کہا کہ " حلب میں صورت حال المناک ہے مگر اپوزیشن نے  آخری لمحات میں توازن کو بحال کیا ہے(سریا نیٹ اور الخلیج الجدید6 اگست2016 )۔

 

ج۔ آر۔آئی۔اے روسی نیوز ایجنسی نے کل روس میں ترک سفیر اومیٹ یلدرم کا بیان نقل کیا کہ  ترک حکومت سمجھتی ہے کہ  شام کی موجودہ قیادت شام کے بحران کو حل کرنے کے مذاکرت میں شریک ہو سکتی ہے۔

تاس نیوز ایجنسی نے اس قول کو یلدرم سے منسوب کیا کہ انقرہ شام کی موجودہ قیادت کو عبوری دور میں کردار دینے کے خلاف نہیں( الصباح12 اگست2016 )۔

 

د۔ جہاں  تک ترک وزیر اعظم کی بات ہے وہ  توانقلاب سے پہلے  ہی روس کے ساتھ صلح کی ابتدا سے ہی شامی حکومت کے ساتھ سیاسی حل کے موضوع پرجلدی کر رہے تھے، چنانچہ  العربیہ نیٹ نے 13 جولائی2016کو "ترکی اچانک شامی حکومت کے ساتھ'سودےبازی' پر تیار ہوا " کے عنوان سے  خبر دی کہ: "انقرہ ، ترکی (رائٹرز)- ترک وزیر اعظم بن علی یلدرم  نے کہا ہے کہ انقرہ شام کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے پر اعتماد ہے(العربی نیٹ 13 جولائی 2016)۔   اسی طرح  بی بی سی نے خبر دی کہ: " ترک وزیر اعظم بن علی یلدرم نے کہا ہے کہ  ترکی شام کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنے کا خواہاں ہے، یہ اگلا مرحلہ ہے جس میں ہمسایوں کے ساتھ تعلقات بہتر بنائے جائیں گے"( بی بی سی13 جولائی2016)۔

 

7۔  یوں ترکی شام کے بحران کے گرداب میں سرگرمی سے داخل ہوا مگر  اہل شام کی مدد اور ان کو روس اور ایران کی وحشیانہ مظالم سے بچانے کے لیے نہیں  بلکہ روس اور ایران کے ساتھ مل کر شیطانی تکون بنا کر  ان کے لیے جرائم کو آسان بنانے کے لیے تا کہ  شام کے سرکش کی حکومت کے ساتھ مذاکرات اور ذلت آمیز امریکی حل کی راہ ہموار کی جا سکے۔۔۔ پوٹین اور اردوگان کی سربراہی ملاقات صرف شر انگیزی ہے؛  اس کے نتیجے میں ترکی  نےشام کے انقلاب کی مدد کے دعووں سے مکمل پسپائی اختیار کی، بلکہ پسپائی اس حد کو پہنچ گئی کہ ترک وزیر خارجہ  نے یہاں تک کہا کہ  روس چاہتا ہے کہ ترکی شام میں انقلابیوں کے ٹھکانوں کے بارے میں روس کو اطلاعات دے، یعنی ان ٹھکانوں کے بارے میں بتا دے جن کے بارے میں معلومات ترک انٹیلی جنس نے  اکھٹی کیں ہیں تا کہ روس کے لیے بمباری آسان ہو۔ اور چونکہ امریکہ  روس کو سب کچھ دینے پر اصرار کررہا تھا  ،  اسی وجہ سے سربراہی ملاقات کے بعد ترکی سے ایک اعلیٰ سطحی انٹیلی جنس وفد فوراً ماسکو روانہ ہوا۔

 

ترک وزیر خارجہ نے10 اگست2016 کو اناتولیہ نیوز ایجنسی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ، "شام میں جنگ بندی کی ضرورت، انسانی امداد کی رسائی اور سیاسی حل نکالنے کے حوالے سے ان کے ملک اور روس کے نقطہ نظر میں ہم آہنگی ہے، عنقریب  شام کے لیےماسکو کے ساتھ مضبوط تعاون کا نظام تیار کیا جائے گا، انہوں نے مزید کہا کہ  وزارت خارجہ کا نمائندہ اور ترک فوج کا نمائندہ  آج سینٹ پیٹرز برگ میں ان فائلوں کی چھان بین کریں گے"( الجزیرہ نیٹ11 اگست2016 )۔

 

ترک وزارت خارجہ کے بیان میں جو یہ وضاحت کی گئی کہ"شام میں جنگ بندی، انسانی امداد اور سیاسی حل نکالنا" یہی دراصل امریکی موقف ہے، جس کا اعلان روس بھی کر رہا ہے اور اسی کے لیے لڑرہا ہے۔ اردوگان کے روانگی کے فوراً بعد انٹیلی جنس ، فوج اور وزارت خارجہ کے نمائندوں کو فوراًماسکو روانہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ ترکی نے روسی،ایرانی اور ترکی کی تکون کو مکمل کر لیا! ایرانی نائب وزیر خارجہ نے  کہا کہ" خطے کو روس اور ترکی کے درمیان اچھے تعلقات کی ضرورت ہے۔ ابراہیم رحیم نے 'ترکی-روس – ایران' کے درمیان بہتر تعاون کا مطالبہ کیااور یقین دلایا کہ ان کا ملک اس سمت گامزن ہونے کے لیے تیار ہے"( الجزیرہ نیٹ8 اگست2016 )۔ جمعہ12 اگست2016 کو ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے انقرہ میں ترک عہدیداروں  سے ملاقات کی۔اس ملاقات میں شامی بحران کے حوالے سے ایران کے ساتھ مشترکہ کوششوں پر اتفاق کیا گیا۔ اردوگان نے صدارتی محل میں ایرانی وزیر جواد ظریف  سےتین گھنٹے کی بند کمرے میں ملاقات کی جس کے بعد کوئی اعلان نہیں کیا گیا جو ترکی کو شام کے معاملے میں  امریکی جوڑتوڑ میں میں شامل کرنے میں جلد بازی اور روس اور ایران کی مدد کرنے اور امریکی مہم کو عملی جامہ پہنانے پر دلالت کر تا ہے۔

 

8۔ ان تمام باتوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ترکی نےامریکی منصوبے پر شام میں سیاسی حل میں بھر پور طریقے سے داخل ہونے میں بڑی جلد بازی دکھائی حالانکہ ترکی  انقلاب کی ناکام کوشش کے بعد ابھی تک اپنے اندرونی صورت حال سے مکمل مطمئن نہیں، اور یہ سب واشنگٹن کے زبردست اصرار پر دلالت کرتا ہے۔ ظاہری بات ہے ترکی اسی امریکی لائحہ عمل پر روس اور ایران کے ساتھ مندرجہ ذیل طریقے سے کاربند ہو گا:

 

٭ سیاسی طور پر: وہ انقلابیوں کو واضح طور پر دکھائے گا کہ ترکی نے اپنی پالیسی تبدیل کر لی ہے،اور اس نے شامی حکومت،روس اور ایران کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اور انقلابیوں کو دعوت دے گا اور ان پر جنیوا میں طے ہونے والے امریکی حل کو قبول کرنے کے لیے دباؤ ڈالے گا، جس کے مطابق شامی حکومت کے ساتھ مذاکرات  کرنا ہوں گے اور شام کے مستقبل کے حوالے سے اتفاق کرنا  ہو گا، اور حکومت اور انقلابیوں کے درمیان مشترکہ حکومت میں شامل کرنے کے لئے کام کرے گا ۔اسی طرح  انسانی پہلو سے انقلا بیوں پر دباؤ میں اضافہ کرنا کہ وہ حلب میں حکومت کے زیر قبضہ علاقوں کا محاصرہ نہ کریں۔ مذاکراتی توازن کی ترویج کیونکہ انقلابیوں نے حلب میں کامیابیاں حاصل کی ہیں جس سے ان کے مذاکرات کرنے کی قوت میں اضافہ ہوا ہے اور ان اسالیب کو دباؤکے اسالیب میں ضم کیا جائے گا جس کے بعد فائر بندی کی جائے گی جسکے بعد سیاسی عمل ہو گا جس سے اوبا ما کو دوسرے صدارتی دور کے اختتام پر آنے والے سال کے جنوری کے مہینے میں کچھ"کامیابی" حاصل ہوگی۔  شاید اسی کی طرف ترک وزیر اعظم نے اشارہ کرتے ہوئے آنے والے چھ مہینوں کا ذکر کیا ہے،" ترک وزیر اعظم بن علی یلدرم نے جمعہ کو کہا کہ آنے والے چھ مہینوں میں شام میں انتہائی اہم پیش رفت ہو گی، بن علی یلدرم نے یہ بات ترک وزیر خارجہ مولود چاوش اوگلو  اور اس کے ایرانی ہم منصب جواد ظریف کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کے اختتام پر کہی۔ اس کے مقابلے میں ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے کہا کہ ان کا ملک روس- ترک قربت پر خوش ہے،اور زور دے کر کہا کہ شام کے حوالے سے ترکی کے ساتھ اختلاف کو بھر پور بات چیت کے ذریعے ختم کیا جا سکتا ہے۔انہوں نے توجہ دلائی کہ ترک- ایران تعاون کے ذریعے پر امن حل کو زبردست تقویت ملے گی"( العربیہ نیٹ13 اگست2016 )۔

 

٭عسکری طور پر : الدولۃ تنظیم(داعش) کے خلاف جنگ کے بہانے سے ترکی شام کے معرکے میں داخل ہو گا اور روس کے ساتھ اتحاد قائم کرے گا، جو جلدہی جنگ بندی کو مسلط کرنے کے لیے ایک بھرپور قوت کی شکل اختیار کرے گا۔ اس کے ساتھ انقلابیوں پر بمباری کے لئے روس کو سہولیات فراہم کرے گا اوران کے "ٹھکانوں " کی نشان دہی کرے گا جن کے بارے میں معلومات روس کے پاس نہیں لیکن ترک انٹیلی جنس کے پاس ہیں۔ ممکن ہے کہ ترکی روس کو شام کے مسلمانوں کے قتل عام کے مجرمانہ مہم میں عسکری سہولتیں فراہم کرے گا۔

 

اوریہی کام ایران کرے گا اور ہدف کی آسانی کے لیے روس کو اڈے فراہم کرے گا، ان ممالک کے درمیان ہم آہنگی  عملاً واضح ہو چکی ہے:

 "چاوش اگلو نے یہ بھی کہا ہے کہ ترک جنگی جہاز الدولۃ تنظیم (داعش) کے خلاف آپریشن میں شامل ہوں گے، انہوں نے مزید کہا کہ، ہم تمام تفصیلات کی چھان بین کریں گے۔ ہم نےروس کو داعش کے خلاف مشترکہ آپریشن  کی دعوت دی ہے"(الجزیرہ نیٹ یکم اگست2016 )۔  اور چونکہ یہ روسی دلیل ہے کہ مزاحمت کاروں کے ٹہکانے الگ الگ نہیں لہٰذا وہ تمام مزاحمت کاروں کو نشانہ بنائے گا!

 

روسی وزارت دفاع نے آج کہا ہے کہ " طویل فاصلے  تک پرواز کرنے والے بمبار ہوائی جہاز "ٹو 22 ایم 3 "  اور لڑاکا طیارے "سو۔34"   نے ہفتہ 16اگست کو ایرانی ہوائی اڈے ہمدان سے  اڑ کر   حلب،دیر الزور اور ادلب میں داعش اور جبہۃ النصرہ کے دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنا یا ہے"۔۔۔اس سے قبل بھی ذرائع ابلاغ نے انکشاف کیا کہ  روسی فضائیہ کے "ٹو 22 ایم 3" بمبار طیاروں نے ایران کے ہمدان ہوائی اڈے سے اڑکر شام میں دہشت گرد تنظیم داعش کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے( رشیا ٹوڈے16 اگست2016 )۔

 

9۔ یہ ہے وہ منصوبہ جس پر امریکہ اپنے آلہ کاروں کے ذریعے شام میں عمل پیرا ہے۔۔۔یہ ہے ان کا مکر

 

﴿وَمَكْرُ أُولَئِكَ هُوَ يَبُورُ

" اور انہی کا مکر تباہ ہو جائے گا" (فاطر:10)۔

 

شام میں ایسے جوان مرد ہیں جن کو تجارت اور لین دین اللہ کے ذکر سے غافل نہیں کرتا، وہ اپنے کام میں بصیرت والے ہیں، اللہ کے اذن سے یہ شریر، انقلابیوں کی کامیابیوں کو مذاکرات کی کامیابی کی راہ نہیں بنا سکتے۔ اللہ کے اذن سے یہ تکونی جرائم کامیاب نہیں ہوں گے،  نہ ہی واشنگٹن انتظامیہ کا تکون کامیاب ہو گا، ان کو شام میں وہ نہیں ملے گا جو وہ چاہتے ہیں۔ امریکہ کے پہلے آلہ کار جیسے ناکام ہوئے، نئے آلہ کار بھی اسی طرح نامراد ہوں گے۔۔۔گزشتہ پانچ سالوں کے دوران سرکشوں نے یہ دیکھ لیا ہے شام میں ایسی مخلص جماعت ہے  جن کے سچے عزائم کو امریکہ، ایران اور روس اور ان کے لشکر پست نہیں کرسکتے۔ نہ ہی وہ لوگ سرزمین شام کے ان   گروپوں کےعزائم کو پست کر سکتے ہیں جن کو  انہوں نے بے یارو مدد گار چھوڑا۔ یہ ڈٹے رہیں گے اور بالکل نہیں جھکیں گے، یہاں تک کہ اللہ کی شریعت قائم ہو اور خلافت راشدہ  قائم ہو،  یہ لوگ اللہ کے ساتھ مخلص ہیں اس کے رسول کے ساتھ سچے ہیں۔ پھر اسلامی سرزمین کو اسلام کے تمام دشمنوں سے پاک کیاجائے گا، اور اللہ ان کو اس جگہ سے پکڑے گا جہاں سے ان کا وہم و گمان بھی نہیں   

 

﴿وَلَيَنْصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ﴾.

"اللہ ضرور ان کی مدد کرے گا جو اس کی مدد کرتے ہیں بے شک اللہ طاقتور اور غالب ہے"(الحج:40)۔

 

13 ذی القعدہ 1437ہجری

16 اگست 2016 عیسوی

Last modified onجمعہ, 07 اکتوبر 2016 18:04

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک