بسم الله الرحمن الرحيم
سوال کا جواب
لیبیا کے بحران میں تازہ ترین پیش رفت
سوال:
آج صبح 17 دسمبر2015 کو ہونے والے معاہدے کی بنیاد پر لیبیا میں حکومت تشکیل دینے کا اعلان کیا گیا جو کہ مقررہ وقت سے دو دن کی تاخیر سے ہواہے کیونکہ مذکورہ معاہدے میں ایک مہینے میں اعلان کرنے کا کہا گیا تھا ۔۔۔اس معاہدےسے پہلے بھی ایک سے زیادہ بار معاہدوں پر دستخط کیے جاچکے ہیں؛ جیسا کہ 5 دسمبر2015 کو تیونس میں طبرق اور طرابلس کانفرنس کے کئی اراکین پارلیمنٹ کا اجلاس ہوا تھا اور اس اجلاس کے دوران "لیبیا کے بحران کے حل کے لئے انہوں نے اعلامیہ کے اصولوں اور قومی معاہدےپر اتفاق کیا "۔۔۔ اسی طرح 13 دسمبر2015 کو امریکہ نے روم کانفرنس بلائی جس میں لیبیا کے بحران کے موضوع پر بحث کی گئی۔۔۔ کیا جس حکومت کا اعلان کیا گیا ہے اس قابل ہے کہ وہ چلتی رہے ،اور لیبیا میں استحکام لائے ،جبکہ یاد رہے کہ الصخیرات معاہدہ، جس کی بنیاد پر حکومت تشکیل دی جارہی ہے، اس میں بہت بڑے پیمانے پر بین الاقوامی کردار ملوث تھے؟ دوسری بات یہ ہے کہ لیبیا میں عسکری مداخلت کی آوازیں بلند ہو رہی ہیں، کیا یہ حکومت اس مداخلت کو روک سکے گی یا یہ کہ مداخلت کے عمل کو شروع کرنے کی کوششوں کو تیز تر کرنے کے لئے ایک ابتداء ہے؟اللہ آپ کو بہترین جزا دے۔
جواب :
صورت حال کو واضح کرنے اور درست جواب تک پہنچنے کے لیے مندرجہ ذیل امور کو سامنے رکھنا ضروری ہے:
1۔ لیبیا کے موضوع پرہمارے بعض پرانے بیانات کو یاد کرنا بہتر رہے گا، خاص کر جو ان میں سے دو امور سے متعلق ہیں:
پہلا: اگر چہ امریکہ حفتر کے ذریعے طبرق پارلیمنٹ کو کنٹرول کرتا ہے، یورپ خاص کر برطانیہ پرانے سیاسی میڈیم کے ذریعے طرابلس کانگریس کو کنٹرول کر تا ہے مگر ان دونوں ممالک کے دوسری طرف بھی روابط ہیں۔ پارلیمنٹ اور کانگریس میں برطانیہ کا حصہ امریکہ سے زیادہ ہے کیونکہ امریکہ کا سیاسی میڈیم میں داخلہ برطانیہ کے زبردست وفادار قذافی کے بعد ایک ہنگامی حالت میں ہواجو کہ قوت کے زور پر ہے۔11 اپریل2015 کے سوال کے جواب میں یہ کہا گیا تھا کہ"۔۔۔ کیونکہ حفتر کے طبرق کے پارلیمانی نمائندوں کے ساتھ اچھے تعلقات نہیں ہیں، جن میں سے کچھ پرانے سیاسی میڈیم سے آئے ہوئے ہیں۔۔۔ اسی لیے امریکہ مذاکرات کے کسی بھی نتیجہ کو اس وقت تک التواء میں رکھنا چاہتا ہے جب تک وہ ایسا سیاسی میڈیم تشکیل دینے میں کامیاب نہ ہو جائے جو اس کا وفادار اور اس کے لئے سرگرم ہو، یعنی اس کے لیے جتنا ممکن ہو مذاکرات کو التواء میں رکھا جائے ۔۔۔" طبرق پارلیمنٹ پر حفتر کے کنٹرول کے باوجود اس میں یورپ کا زیادہ اثرو رسوخ ہے، اسی طرح یہ بھی بعید از امکان نہیں کہ امریکہ نے اپنا ہاتھ دوسری جانب بھی بڑھا یا ہو لیکن اب تک وہ موثر اور وزن دار نہیں۔23 ستمبر2015 کے سوال وجواب میں یہ کہا گیا تھا کہ،
" اسی لیے کانفرنس کے مذاکرات کار وں نے اس بات کو سمجھا، اور کچھ خبریں بھی گردش کر رہی ہیں کہ کانفرنس کی کچھ جماعتیں امریکی عہدہ داروں سے ملاقاتیں کررہی ہیں تا کہ ان کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کی جاسکے۔طرابلس کی نگران حکومت، جس نے کانفرنس کے الصخیرات کے اجتماع سے جنم لیا تھا، نے پیش قدمی کی اور اس کے سربراہ خلیفہ الغویل نے امریکی عہدہ دار سے ملاقات کی ۔ طرابلس حکومت کے ذرائع نے"الحیاۃ" کو بتا یا کہ الغویل اتوار- پیر کی رات کو تزویراتی خدمات کے لیے امریکی ادارے، انسٹی ٹیوٹ فار دی مینجمنٹ آف امیریکن لاجسٹک سروسز، کے نائب سربراہ ویلیم بلمور کے ساتھ کئی معاہدوں پر دستخط کیے ، جن میں دوطرفہ افہام وتفہیم کے یاداشتیں بھی شامل ہیں تاکہ ' دفاع،صحت اور سرمایہ کاری میں نئے باب کھولے جا سکیں'۔ طرابلس حکومت کے ذرائع نے ان کو امریکہ کے ساتھ تعلقات میں ' اہم اقدامات' قرار دیا"(الحیاۃ: منگل 22/9/2015)۔ یعنی طبرق پارلیمنٹ اور جنرل کانفرنس پر کنٹرول کا یہ مطلب نہیں کہ یہ دونوں اپنے تمام اجزاء میں ایک ہی جیسے ہیں۔
دوسرا: لیبیا میں امریکہ اور برطانیہ کے درمیان رسہ کشی اور سیاسی حل کے حوالے سے دونوں کے موقف ، ہم نے23 ستمبر2015 کے سوال کے جواب میں کہا تھا کہ ،
"۔۔۔یورپ چاہتا ہے کہ مذاکرات سے جلدازجلد سیاسی حل نکلے کیونکہ سیاسی میدان میں موجود کھلاڑیوں کی اکثریت اس کے ساتھ ہے؛اور سیاسی میدان سے جو بھی حل نکلے گا وہ اس کے حق میں ہو گا۔ جبکہ امریکہ نے مذاکرات کی حامی تو بھری ہے کیونکہ اس کو عسکری مداخلت کا کوئی چور دروازہ نہیں ملا اور اس کے پاس لیبیا کے سیاسی میدان میں زیادہ ایجنٹ بھی نہیں ہیں۔ اس وجہ سے امریکہ ٹال مٹول کے ہتھکنڈوں سے کام لے گا تا کہ جیسے مذاکرات کسی حل کے قریب پہنچنے لگے تووہ عسکری کاروائیوں کے ذریعے اس کو سبوتاژ کرے گا۔۔۔"۔
دونوں کے موقف میں یہ واضح تھا: یورپ نے الصخیرات معاہدے کو مکمل کرنے میں جلد بازی کے ذریعے ایسا سیاسی حل نکالنے کی کوشش کی کہ جس پر وہ عمارت قائم کرے اور اس کے ذریعے اپنے اثرو نفوذکو پائیدار کرے، اوربرنارڈینو جو کہ یورپ کی طرف جھکاو رکھنے والا ہے،وہ اقوام متحدہ کی جانب سے اپنے مشن کے اختتام سے پہلے ہی فیصلہ کن حل کے لیے اقدامات کرنا چاہتا ہے۔۔۔ جبکہ امریکی پیروکاروں کا موقف دوسرا تھا۔ طبرق پارلیمنٹ، جس پر حفتر کا کنٹرول ہے، کا اعلانیہ موقف واضح طور پر معاہدے کو حتمی شکل دینے کے خلاف تھا۔ چنانچہ فرانس 24 نے20 ستمبر2015 کو بتایا کہ "بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ لیبیائی پارلیمنٹ نے اپنے ملک کے مشرق میں اپنے ہیڈ کواٹر طبرق سے اس معاہدے کو مسترد کیا ہے جو مراکش کے مقام الصخیرات میں پارلیمانی ارکان اور ان ممبران کے درمیان طے پایا تھا جو اجلاسوں کا بائیکاٹ کررہےتھے۔۔۔"۔
اس کے باوجود لیون نے حتمی معاہدے کے اعلان پر اصرار کیا،جو 22 ستمبر2015 کو الجزیرہ نیٹ کی ویب سائٹ پر آگیاجس میں کہا گیا کہ، " لیبیا کے لیے اقوام متحدہ کے نمائندے برنارڈ ینو لیون نے مراکش کے شہرالصخیرات میں ہونےوالے لیبیا مذاکرات میں طرفین کے حتمی حل تک پہنچنے کا اعلان کر دیا، اوراس بات کی جانب اشارہ کیا کہ اقوام متحدہ نے طرفین کو آنے والی یکم اکتوبر تک اس پر دستخط کرنے کی مہلت دی ہے"۔مذاکرات کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے لیون نے کہا"اب ہمارے پاس لیبیا کے بحران کے فریقین کے درمیان مکمل اتفاق کی حتمی دستاویز موجود ہے" ۔ لیون کی بات سے یہ ظاہر ہو رہا تھا کہ یہ معاہدہ حتمی ہے جس میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ وہ اس حل کو کسی بھی مخالفت سے قطع نظر مسلط کرنا چاہتا ہے خاص کر حفتر کی طرف سے ہونے والی ممکنہ مخالفت۔ 8 اکتوبر2015 کو مراکش میں ہونے والی ایک تقریب میں بیرنارڈینو لیون نے پریس کانفرنس کے دوران متحدہ حکومت کے لیے ممکنہ کئی اراکین کے ناموں کا اعلان کیا۔ مگر مختلف حکومتوں کے درمیان اختلافات جاری رہے۔ پھر یہ فیصلہ کیا گیا کہ 17دسمبر 2015تک متحدہ حکومت بنانے کی مہلت دی جائے ۔ یوں لیون یورپ کے نقطہ نظر کے مطابق حل نکالنے کا خواہشمند تھا اوروہ امریکی مخالفت خاص کر حفتر کو خاطر میں نہیں لارہا تھا۔ اس لیے الصخیرات معاہد ہ جس کو لیون نے کروایا تھا یورپ خاص کر برطانیہ کے نقطہ نظر کے مطابق تھا۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے لیون کی مہم کو ختم کرنے کا بندو بست کیا۔
2 ۔ جہاں تک اقوام متحدہ کے نمائندےمارٹن کوبلر کی بات ہے یہ امریکہ اور یورپ کے درمیان کسی حد تک اتفاق سے آیا ہے۔ اگر چہ اس کا تعلق جرمنی سے ہے مگر اقوام متحدہ میں پہلے بھی خدمات انجام دیں ہیں اور اس دوران امریکی مفادات کی خدمت کی ہےاور اسی لیے یہ امریکہ کے زیادہ قریب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لیبیا کے لیے اقوام متحدہ کے نمائندے کی ذمہ داریاں سنبھالتے ہی اس نے الصخیرات معاہدے پر حتمی دستخط سے پہلے تبدیلیاں کیں، باوجود اس کے کہ بر نارڈینو لیون نے پہلے ہی کہا تھا کہ یہ حتمی مسودہ ہے، اور جس پر دستخط بھی ہوئے جس کا واضح معنی یہ ہے کہ اس میں تبدیلی نہیں ہو سکتی، تاہم کوبلر نے اس میں تبدیلیاں کیں۔۔۔ عربی 21 کی ویب سائٹ پر24 نومبر2015 کو خبر آئی کہ "اقوام متحدہ کے سربراہ نے منگل کولیبیا کے لیے اقوام متحدہ کے مشن کے سربراہ جرمنی سے تعلق رکھنے والے کوبلر کو لیبیا کی مدد کے لئے، سیاسی بات چیت کے فریقین کی جانب بھیجا تا کہموجوزہ سیاسی معاہدے میں تبدیلی کی جائے جس کے تحت متحدہ حکومت کی صدارت اور وزرائے مملکت کے نائبین کا اضافہ کیا گیا اور کابینہ کے چناؤ کے طریقہ کار کو حتمی شکل دی جائے گی ۔۔۔تبدیلی کی عبارت میں متحدہ قومی حکومت کی صدارت کونسل کے لئے مزید دو نائبین اور سول سوسائٹی کے معاملات کے لئے ایک وزیر مملکت کا ذکر کیا گیا تھا اور حکومتی نائب سربراہان کے فیصلوں پر کابینہ کو اعتراض کا حق بھی دیا گیا۔ نئی تبدیلی میں یہ کہا گیا ہے کہ حکومتی وزراء کا انتخاب یا ان میں سے کسی ایک کی برطرفی سربراہی مجلس میں رائے شماری کے پہلے یا دوسرے مرحلے میں نہ ہونے کی صورت میں کونسل کےوزراء کی اکثریت کی بنیاد پر ہو گا اور یہ کہ وزیر اعظم کو وزراء کی ترکیب پر اعتراض یا موافقت کا حق حاصل ہو گا"۔
ان تبدیلیوں کا تعلق حفتر کے ذات سے ہے، کیونکہ الصخیرات معاہدہ ،جو لیون نے کروایا تھا، کا سب سے نمایاں ممکنہ نتیجہ یہ ہوسکتا تھا کہ حفتر سے جان چھڑائی جائے اور اسےلیبیائی فوج میں اس کی سرکاری حیثیت کو ختم کیا جائے کیونکہ الصخیرات معاہدے کی شق نمبر آٹھ میں ہے کہ " اس معاہدے پر دستخط کے فوراً بعد تمام عسکری،سول اوراعلیٰ سیکیورٹی مناصب جن کا لیبیا کے نافذ العمل آئین و قانون میں ذکر ہے وزیر اعظم کی کمیٹی کے سپرد کیے جائیں گے، پھر ان مناصب پر بیس دن کے اندر تعیناتی کے لیے اقدامات کرنے کے لیے ایک کمیٹی قائم کی جائے گی۔ اگر اس مدت کے دوران کوئی فیصلہ طے نہ ہو سکا تو کمیٹی تیس دن کے اندر اندر نئی تعیناتیاں کرے گی، جو کہ لیبیا کے نافذ العمل قوانین کے مطابق ہوں گی"۔ اس شق کے باوجود حکومتی اجزائے ترکیبی میں اضافے اور فیصلہ سازی کے طریقہ کار کی وجہ سے حفتر کی بقاء کی ضمانت ملتی ہے یا کم از کم اس سے جان چھڑانا آسان نہیں ہوگا جیسا کہ اس تبدیلی سے قبل تھا۔
3 ۔ کو بلر کے آنے کے بعد خاص کر ترمیم کے بعد برطانیہ کو اس بات کا احساس ہو گیا کہ کوبلر امریکی دباو کے اثر سے محفوظ نہیں رہے گا جو الصخیرات معاہدے پر عمل درآمدکے دوران اس پر پڑے گا اور اس بات کا امکان ہے کہاس کے حمایت یافتہ اراکین کو ہٹا دیا جائے جو یورپ کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے برطانیہ نے پارلیمنٹ اور کانفرنس دونوں میں سے اپنے بعض وفاداروں کو تیونس میں اکھٹا ہونے کی ہدایت دی، جس کے نتیجے میں اصولوں پر مبنی معاہدے پر پہنچے۔ ان مذاکرات کے بارے میں یہ پرچار کیا گیا کہ یہ لیبیا کے لوگوں کے اپنے مذاکرات ہیں حالانکہ یہ خارجی محرکات کےذریعے ہوئےتھے۔۔۔6 دسمبر2015 کو مڈل ایسٹ آن لائن کے سائٹ پر یہ خبر آئی،" لیبیائی بحران کے دونوں گروہوں کے نمائندوں نے اتوار کو اس بات کا اعلان کیا کہ کچھ بنیادی اصولوں پر اتفاق رائےاس امید کے ساتھ ہوگیا ہےکہ ان کو ایک ایسے سیاسی معاہدے میں تبدیل کیا جائے گا جس کو مشرق میں موجود دونوں قانونی اتھارٹیز، جنہیں بین الاقوامی طور پر تسلیم کیا جاتا ہے اور طرابلس میں موجودمتوازی اتھارٹی، جسے بین الاقوامی طور پر قبول نہیں کیا جاتا ، قبول کرلیں گی"جو اقتدار کے حصول کے لئے لڑ رہی ہیں اور یوں تیل سے مالامال ملک میں تنازعہ کا اختتام ہوگا۔۔۔ کانفرنس اور بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ پارلیمنٹ کے متعدد اراکین نےہفتہ5 دسمبر2015 کو تیونس میں ملاقات کیاور ملاقات کے دوران"بنیادی اصولوں کے اعلان اور لیبیا کے بحران کے قومی حل پر اتفاق"کیا۔۔۔اس اجتماع کے ذریعے برطانیہ نے یہ کوشش کی ہے کہ اس کے ہاتھ میں اس وقت ایک اور ہتھیار ہو جب امریکہ الصخیرات معاہدے کو ناکام بنانے میں کامیاب ہو جائے اور اس کو اس کی ضرورت نہ رہے۔
4 ۔ تاہم کوبلر الصخیرات معاہدے کو حتمی شکل دینے کی شدید خواہش رکھتا ہے اور اس لیے تیونس میں ہونے والے اس اجتماع کو نظر انداز کیا۔ اس سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ کوبلر الصخیرات اجلاس منسوخ کر کے حفتر سے ملنے کیوں گیا تھا۔ الحیاۃ اخبار میں17 دسمبر2015 کو خبر شائع ہوئی کہ "۔۔۔ کل کوبلر لیبیا کے شہر مرج روانہ ہوا جہاں فوج کا ہیڈ کواٹر ہے اور حفتر کے ساتھ بات چیت کی جس میں دوسرے ذرائع کے مطابق حفترکو الصخیرات معاہدے سے متعلق سیکیورٹی انتظامات پر قائل کیا۔ حفتر ذرائع نے مزید کہا کہ کوبلر نے کمیٹیکے ناموں کو حفتر کے سامنے پیش کیا جن سے مستحکم وفاقی حکومت تشکیل پائے گی اور فوج کے ڈھانچے کو بحال کرنے کی ذمہ داری اٹھا ئے گی۔ ذرائع نے حفتر کی جانب سے کوبلر کو یہ کہنے کا ذکر کیا کہ:" دہشت گردی کے خلاف ہماری جنگ جاری رہے گی اور سیاسی معاملات میں ہماری کوئی مداخلت نہیں ہے"۔
ایسا لگ رہا ہے کہ کوبلر نے حفتر کو راضی کرنے کی کوشش کی،جیسا کہ الحرۃ ویب سائٹ نے 17 دسمبر2015 کو خبر دی کہ"بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ لیبیائی حکومت کے حلیف عسکری قائد خلیفہ حفتر نے کہا کہ لیبیا کے لیے خصوصی نمائندے مارٹن کوبلر چاہتے ہیں کہ لیبیا کی فوج دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مدد کرے۔ حفتر نے بین الاقوا می نمائندے کے ساتھ ملاقات کے بعد یہ بھی کہا کہ آخر الذکر (مارٹن کوبلر)اسلحے پر لگی پابندی کو ہٹانے کی حمایت کرتے ہیں۔ کوبلر نے بھی اپنی طرف سے یقین دہانی کرائی کہ حفتر کے ساتھ" بار آور" مذاکرات ہوئے اور یہ کہ دونوں نے دہشت گردی کا مقابلہ کرنے اور لیبیا کے لیے طاقتور فوج ترتیب دینے کی ضرورت پر ضرور دیا۔ کوبلر نے لیبیا کے فریقوں کو جمعرات کو سیاسی معاہدے پر دستخط کرنے کی دعوت دی"۔ راضی کرنے کی ان تمام کوششوں کے باوجود ایسا لگ رہا ہے کہ امریکہ مزید کچھ اور بھی چاہتا ہے! اسی لیے امریکہ معاہدے پر دستخط کرنے کی تقریب سے غائب رہا مگر اس کے مفادات کو کوئی زک نہیں پہنچیاور وہ محفوظ رہے، جیسا کہ عربی 21 نے6 جنوری2015 کو خبر نشر کی کہ"مفاہمتی حکومت کے دونوں نائب صدور علی القطرانی اورفتحی المجبری نے حفتر کے عسکری ادارے کے سربراہ نہ رہنے کی صورت میں مفاہمتی حکومت سے الگ ہونے کی دھمکی دی"۔
اس تقسیم اور رسہ کشی کے باوجود 17 دسمبر 2015 کو دونوں مد مقابل حکومتوں کے نمائندوں نے مراکش میں اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ الصخیرات امن معاہدے پر دستخط کیے، مگر طبرق پارلیمنٹ کے 188 میں سے 80 اور طرابلس کی متوازی اسمبلی کے 136 ارکان میں سے 50 نے معاہدے پر دستخط کرنے کی تقریب میں حصہ لیا۔ اس دستاویز پر طبرق حکومت کی جانب سے اس کے سربراہ محمد شعیب اورطرابلس حکومت کی جانب سے صلاح مخزوم نے دستخط کیے، یعنی ترمیم نے یورپ کے پیرو کاروں کو ناراض کیا، مگر یہ امریکہ کے پیرو کاروں کو راضی کرنے کے لیے بھی کافی نہیں تھا۔۔۔ اسی لیے طرفین نے واپسی کا راستہ محفوظ رکھا جس نے تقسیم پیدا کی تھی: ایک جماعت چلی گئی اور دوسری جماعت ٹہر گئی اور آنے والی کشمکش کا انتظار کر رہے ہیں جو سیاسی کاروائی سے بڑھ کر سیاسی عمل کے ساتھ عسکری مداخلت کی شکل میں ہو گا کیونکہطرفین کی جانب سے معاہدے کی کاروائی ابھی مکمل نہیں، بلکہ پارلیمنٹ اور کانفرنس کے سربراہان عقیلہ صالح اور نوری ابو سھمین نے دستخط کی تقریب میں شرکت ہی نہیں کی۔۔۔!
5 ۔ بر طانیہ یہ بات سمجھتا تھا کہ سیاسی میدان کے تمام کھلاڑی یا ان کی اکثریت اس کے ساتھ ہے، اس لیے وہ اس بات سے مطمئن تھا کہ لیون کی تجویز سے بننے والی کوئی بھی عبوری حکومت اس کے حق میں ہو گی، اسی لیے وہ الصخیرات معاہدے میں جلد بازی کا مظاہرہ کر رہا تھا تاکہ یہ لیون کے عہد میں تکمیل تک پہنچ جائے۔ جب ایسا نہ ہوا اور کوبلر آگیا،اور اس نے ترمیمات کیں تو برطانیہ سمجھ گیا کہ یہ ترمیم کوبلر پر امریکی دباؤ کا نتیجہ ہے۔ یہ اس معاہدے کو ناکام بنانے کے لیے امریکہ کا ایک اور قدم ہے تاکہ امریکہ اس کو نئے سرے سے ترتیب دے،اور یہ تب ہو گا جب حفتر امریکی سازشوں اور تدبیروں کی مدد سے عسکری کاروائیوں کے ذریعے نیا سیاسی میڈیم وجود میں لانے میں کامیاب ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ برطانیہ نے معاہدے کو حتمی شکل دینے میں جلد بازی کو ہی ترجیح دی ورنہ ایسا کچھ ہو سکتا ہے جس کا وہ تصور بھی نہ کرے۔ لہٰذا اس نے معاہدے کو ترامیم کے بعد بھی قبول کرلیا۔ یوں معاملات میں تیزی آئی اور17 دسمبر2015 کو مراکش کےشہر الصخیرات میں حتمی معاہدے پر اتفاق ہو گیا، اس کو بین الاقوامی طور پر قابل قبول اور قانونی بنانے کے لیے سلامتی کونسل سے رجوع کیا گیا، اور یوں حتمی معاہدے کے فیصلوں کی توثیق کے لیے مجوزہ قرارداد 2259 پیش کی گئی۔۔۔برطانیہ کو جس چیز نے جلد بازی پر مجبور کیا وہ امریکہ کی جانب سے معاہدے کو ناکام بنانے کے لیے متحرک ہو ناتھا: یا براہ راست اقدام جیسے عسکری مداخلت کے ذریعے جو داعش کے خلاف کاروائی کے نام پر شروع کر چکا ہے، اسی طرح سیاسی اقدامات جیسے 13 دسمبر2015 کو روم میں کانفرنس کا انعقاد جس کا مقصد تمام معاہدوں کو نظر انداز کرتے ہوئے نئے سرے سے مذاکرات کی ابتدا کرنی ہے، یا پھر بلواسطہ اپنے ایجنٹ حفتر کے ذریعے ۔ یہ سب غیر معینہ مدت تک تاخیر کے لیے ہے تاکہ امریکہ اس عرصے میں اپنے وفاداروں پر مشتمل نیا سیاسی میڈیم تیار کرلے اور پھر سیاسی حل کی ابتدا کرے جہاں اس کے لوگوں کی اکثریت ہو۔اس کی طرف اشارہ لیبیا ئی پارلیمانی لیڈر کے سابق مشیر عیسی عبد القیوم نے13 دسمبر2015 کو الغد العربی ٹی وی کے پروگرام میں کیا اور کہا" ۔۔۔امریکی وزیر خارجہ کیری کے بیان سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ امریکیوں کو مسئلے کے حل میں جلدی نہیں اس کے برعکس انگریز اور فرنسیسی زیادہ جلد بازی دکھا رہے ہیں۔۔۔"۔
اسی بنا پر اقوام متحدہ میں برطانوی سفیر ماتھیو رایکروفٹ نے سلامتی کونسل کے پندرہ ارکین کے سامنے نئی حکومت پر حمایت حاصل کرنے کے لیے قرار داد پیش کی۔ انہوں نے کہا کہ نئی حکومت "لیبیا کے اقتدار اعلیٰ، علاقائی تحفظ اور قومی یکجہتی کے لئے ہماری جانب سے ایک مضبوط مشترکہ اظہار ہے،اور یہ لیبیا کے تمام لوگوں کےلئے پر امن اور شاندار مستقبل کی شروعات ہے۔ ہم ان سب لوگوں کو، جنہوں نے ابھی تک دستخط نہیں کیے، ترغیب دیتے ہیں کہ وہ اس معاہدے کی حمایت کریں اورقومی اتفاق رائے سے بننے والی اس حکومت کے ساتھ کام کریں " ( الجزیرہ 24 دسمبر 2015)۔
امریکہ رائے عامہ کے دباؤ پر اس معاہدے کو قبول کرنے پر مجبور ہوا جو اس معاہدے کا مطالبہ کررہے تھے مگر امریکہ نے حفتر کے ذریعے اس کو ناکام بنانے کی کوشش کی۔امریکہنےسیاسی اقدامات بھی کیے جیسے13 دسمبر2015 کو روم میں اجلاس منعقد کیا۔۔۔مگر امریکہ سلامتی کونسل میں پیش کی گئی قرار داد کو ناکام بنانے کا کوئی بہانہ نہیں ڈھونڈ سکا، کیونکہ لیبیا کے حوالے سے سلامتی کونسل کی پہلی قرار دادوں کی وہ توثیق کر چکا ہے۔
بظاہر امریکہ سیاسی حل، معاہدے اور حکومت کی تشکیل کی حمایت کرتا ہے ۔۔۔ لہٰذا اُس نے اِس کی حامی بھری اور اُس وقت کےامریکی دفتر خارجہ کے ترجمان جان کربی نے معاہدے کے بارے میں کہا: " یہ لیبیا کے لیے ایک متحدہ قومی وفاقی حکومت کے لیے ڈھانچہ فراہم کرتا ہے"۔۔۔ امریکی دفتر خارجہ نے یہ بھی کہا کہ واشنگٹن متحدہ حکومت بنوانے کا پابند ہے ساتھ ہی " مکمل سیاسی، تکنیکی، اقتصادی، سیکیورٹی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مدد " فراہم کرنے کے لیے بھی تیار ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ راضی ہےاور وہ اب خاموش رہے گا، بلکہ وہ اٹھے گا، متحرک ہو گا اور لڑے گا چاہے براہ راست ہی کیوں نہ لڑنا پڑے ، کیونکہ وہ ایک استعماری ملک ہے جو ہر وقت اپنی بالادستی قائم کرنے، اپنے استعمار کو مسلط کرنے اور مد مقابل ممالک کے اثرو رسوخ کو ختم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ لہٰذا حتمی معاہدے اور سلامتی کونسل کے قرار داد کے باوجود24 دسمبر2015 کو حفتر نے داعش کی موجودگی کا بہانہ بنا کر کئی علاقوں میں حملے کیے، اوراس کی افواج ہر موقع کا فائدہ اٹھا کر حملے کر رہی ہیں۔ امریکہ نے خود بھی سلامتی کونسل سے فوجی مداخلت کی اجازت لیے بغیر ہی لیبیا میں براہ راست مداخلت شروع کر دی جب برطانیہ نے اس کی فوجی مداخلت کی قرار داد کو ناکام بنادیا۔ یہ مداخلت بھی داعش کے خلاف جنگ کے بہانے سے ہے، اور یہ شام میں اس کی مداخلت کی طرح ہے جو کسی بھی بین الاقوامی قرار داد کے بغیر ہے۔۔۔ یوں دونوں جانب سے آگے بڑھنے کی خواہش کی وجوہات مختلف ہیں ۔
6 ۔ کوبلر نے دباؤ کی حالت میں اپنی مہم کا آغاز کیا کیونکہ وہ دونوں اطراف کو راضی کر نے کے لیے بے چین تھا کیونکہ وہ دونوں کے درمیان کسی حد تک اتفاق کے نتیجے میں آیا ہے، وہ لیون کی طرح نہیں جو واضح طور پر یورپی عینک لگا کر دیکھتا تھا۔ کوبلر پریشان تھا خاص کر لیون کی جانب سے تیار کی گئی الصخیرات تجاویز میں ترمیم کے وقت، جس نے یورپ کو پریشان کیا اور اس سے ناراض ہوگیا ،اور اس بات کا اظہار طرابلس کانفرنس کے ایک گروہ کی جانب سے ہوا جب انہوں نے طرابلس میں کوبلر کی پریس کانفرنس کے دوران اس کی اہانت کی۔ طبر ق حکومت کے لیبیا نیوز ایجنسی نے خبر دی کہ طرابلس حکومت میں غیر ملکی میڈیا ادارے کے سربراہ جمال زویبۃ نے اس پریس کانفرنس کا بائیکاٹ کیا جس کا انعقاد لیبیا کے لیے اقوام متحدہ ایلچی مارٹن کوبلر نےیکم جنوری2016 کی شام کو کیا تھا اور ان کو "ناپسندیدہ شخصیت" قرار دے کر فوراً ملک چھوڑنے کا مطالبہ کیا۔ اس کی دلیل یہ دی گئی کہ غیر ملکی میڈیا کے ادارے کے سربراہ کی حیثیت سے اس کی اجازت کے بغیر پریس کانفرنس نہیں کی جا سکتی۔ کوبلر اپنے وفد کے ساتھ غصے سے کانفرنس ہال سے چلا گیا اور سیدھے ائر پورٹ پہنچ کر اپنے پرائیویٹ طیارے میں بیٹھ کر ملک سے نکل گیا۔۔۔ طبرق پارٹی بھی کوبلر کی جانب سے معاہدے کو وقت پرحتمی شکل دینے کی اس کی کوشش سے راضی نہیں تھی وہ ا س میں التواء چاہتی تھی۔ طبرق پارلیمنٹ کے سیاسی مشیر احمد عبود نے کوبلر کے رویے پر تنقید کی اور کہا، " کوبلر کی جانب سے مخصوص وقت کے اندر قومی مفاہمتی حکومت کے قیام کے لیے لیبیا کے فریقین کو قائل کرنے کی کوشش غیرحقیقت پسندانہ اور غیر منطقی ہے" (الغد ٹی وی 6/1/2016)۔ یوں بین الاقوامی نمائندہ دباؤ ڈالنے کی بجائے خود دباؤ میں آگیا! کیونکہ یورپ یہی چاہ رہاتھا اور اسی کے پیرو کاروں کی اکثریت ہے، اور امریکہ کسی بھی موثرحل کو اس وقت تک موخر کرنا چاہتا ہے جب تک وہ اپنے پیرو کاروں پر مشتمل ایسا سیاسی میڈیم تیار نہ کرلے جو یورپی سیاسی میڈیم کے ساتھ رسہ کشی کرسکے چاہے اس کو شکست نہ بھی دے سکے ، اور یہ تمام صورتحال کوبلر کی پریشانی کا سبب بنی۔
7 ۔ امریکہ اور یورپ یہ سمجھتے ہیں، اسی لیے وہ حقیقی میدان میں اپنے ہاتھوں بنائی گئی صورتحال کی مناسبت سے عسکری مداخلت کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ امریکہ کی مداخلت تو واضح ہے۔ تیونس الرقیمۃ نے8 جنوری2016 کو خبر نشر کی کہ "افریقہ میں امریکی قیادت نے اپنے ان عزائم کا انکشاف کیا ہے کہ وہ لیبیا میں اپنے اعلان کردہ پانچ سالہ منصوبے کے تحت عسکری مداخلت کرنا چاہتا ہے جس کا مقصد افریقہ خاص کر لیبیا میں دہشت گرد تنظیموں کے گرد گھیرا تنگ کرنا ہے ۔ یہ اعلان جنرل روڈ ریگیز جوکہ افریقہ میں امریکی کمانڈر ہے اور امریکی میرینز چیف آف اسٹاف جوزیف فرنسیس ڈانفورڈ کے درمیان ملاقات میں کیا گیا۔ جنرل ڈیویڈ ایم کی جانب سے 2015 میں میں ترتیب دئیے گئے لائحہ عمل کے مطابق منصوبہ سازی کی جائے گی۔ 'افریکوم' کے قائد روڈریگاز کے پانچ بنیادی اہداف ہیں جس میں براعظم افریقہ میں امریکہ کے مدمقابل سیکیورٹی چیلنجوں سے نمٹنا بھی ہے۔۔۔"۔ لیبیا میں امریکی فوج کے اعلانیہ مداخلت کے بہانے میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر داعش کے خلاف جنگ سر فہرست ہے جو موجودہ دور میں امریکی عسکری مداخلت کا جانا پہچانا سبب ہے اگر چہ اصل مقصد سیاسی استعماری عملہوتا ہے جو کہ دہشت گردی کے موضوع سے زیادہ وسیع ہے۔ اسی لیے وہ مداخلت کی منصوبہ بندی کر رہا ہے، بلکہ امریکہ نے عملاً اپنے فوجی لیبیا بھیج دیے ہیں۔ بی بی سی عربی نے18 دسمبر2015 کو خبر دی کہ "پینٹاگون کے ترجمانلفٹیننٹ کرنل میشل بالڈانزا نے واضاحت کی کہ ' 14 دسمبر کو امریکی فوجی دستہ لیبیا پہنچا تا کہ تعلقات کو مضبوط اور لیبیا کے فوجی عہدہ داروں سے روابط کو مضبوط کیا جا سکے'"۔ اس نے مزید کہا کہ" لیبیا کی ملیشیا کے افراد نے امریکی فوجیوں سے فوراً ملک سے نکلنے کا مطالبہ کیا، اور کسی بھی تصادم سے بچنے کے لیے ، بغیر کسی حادثے کے، اہلکار وں نے ملک چھوڑ دیا ۔۔۔"۔ واضح بات ہے کہ فوج بھیجنے کا واقعہ17 دسمبر2015 کے الصخیرات معاہدے پر دستخط سے تین دن پہلےہوا تھا۔ اس تمام صورتحال کا یہ مطلب ہے کہ امریکہ سیاسی اقدام کو نا کام بنانے یا اس وقت تک اس کے نفاذ میں روکاوٹ بننے کی کوشش کر رہا ہے جب تک اسے سیاسی غلبہ حاصل نہ ہوجائے یا وہ اس قابل نہ ہوجائے کہ حفتر جیسے اپنے عسکری ایجنٹوں کو فیصلہ سازی میں اہم کردار دلواسکے۔ اس حالت میں السراج حکومت اگر تشکیل بھی پائی توفعال نہیں ہوگی، معاملات قابو میں نہیں کرسکےگی، اورامریکہ حفتر کے حملوں کے ساتھ ساتھ لیبیا میں کنٹرول حاصل کرنے کے لیے عسکری مداخلت کرے گا تا کہ لیبیا کے میدان کو کنٹرول کرسکے اور مزید ایجنٹ پیدا کرسکے ۔
جہاں تک یورپیمداخلت کی بات ہے تو یہ بھی ان کے بیانات سے ظاہر ہے۔۔۔ الوفد نے 23 دسمبر2015 کو کہا:"فرانسیسی اخبار 'لوفیگارو' نے کہا ہے کہ لیبیا میں دہشت گرد تنظیم داعش کی سرگرمیوں نے فرانس کو لیبیا میں مداخلت کے لیے بین الاقوامی اتحادتشکیل دینے پر مجبور کیا ہے"۔ اخبار نے کہا کہ ان خطرات کی روشنی میں فرانس لیبیا میں مداخلت کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی مارٹن کوبلر کی کوششوں کی حمایت کر تا ہے،اور اخبار نے کہا کہ دوسرا امکان بھی بعید از قیاس نہیں۔ وزارت دفاع میں موجود ذرائع کے مطابق لیبیا کے لوگوں کے درمیان ہونے والاسیاسی معاہدہ تعطل کا شکار ہوگیا ہےاورایسے حالات میں فرانس عسکری اتحاد تشکیل دینے کی کوشش کرتا رہے گا۔ اخبار نے اس طرف اشارہ کیا کہ حالیہ مہینوں میں اٹلی نے بھر پور سفارتی کوششیں کیں تا کہ لیبیا کے مذاکرات کو آگے بڑھایا جائے اور اُس نےاپنی اِس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ لیبیا میں فوج اور خصوصی دستے بھیجنا چاہتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ دہشت گرد تنظیموں کے خلاف عسکری کاروائیوں کے لیے اپنے عسکری اڈوں کو استعمال کرنے کی اجازت بھی دے گا"۔
بوابۃ افریقیا نے12 جنوری2016 کو برطانوی سوشلسٹ ورکرسائٹ کے حوالے سے نقل کیا کہ " کنزرویٹیو حکومت نے ایک ہزار برطانوی فوجی تیل کےان کنوں کی حفاظت کے لیے لیبیا بھیج دیے ہیں جن کو داعش کی پیش قدمی سے خطرہ ہے۔ اسی طرح برطانوی شاہی بحریہ کا ایک لڑاکابحری جہاز بھی شمالی افریقہ کے ساحل کی جانب روانہ ہو چکا ہے، جبکہ فضائیہ کو بھی لیبیا میں ٹھکانوں پر حملے کرنے کے لیے تیار رہنے کا حکم دیا گیا ہے"۔ برطانوی اخبار ڈیلی ٹلیگراف نے12 دسمبر2015 کو وزارت دفاع اور وزارت خارجہ کے ذرائع سے ایک رپورٹ شائع کی کہ " برطانیہ اپنے یورپی اتحادیوں کے تعاون سے دہشت گرد جماعتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے عسکری مداخلت کی تیاری کر رہا ہے، اور یہ کہ عسکری مداخلت عسکری امداد اور آلات لیبیا روانہ کرنے سے شروع ہو گی مگر ملک میں ہمہ گیر قومی اتحادی حکومت کا انتظار ہے"۔ ذرائع ابلاغ نے 12 دسمبر 2015 کو لیبیا میں برطانوی سفیر میلیل کا بیان نشر کیا کہ"ان کا ملک دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے لیبیا میں عسکری مداخلت کے لیے تیار ہے جس کے لیے آنے والی قومی وفاقی حکومت کا مطالبہ درکار ہے"۔ یعنی یورپ لیبیا میں ایسی حکومت تشکیل دینا چاہتا ہے جو یورپ سے عسکری امداد مانگے اور عسکری مداخلت کا مطالبہ کرے۔ فرانسیسی طیاروں نے گزشتہ مہینوں میں لیبیا کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے لیبیا پر پر وازیں کیں ہیں۔ برطانیہ اور فرانس نہیں چاہتے کہ امریکہ عسکری مداخلت کر ے اور وہ پیچھے رہ جائیں، کیونکہ اس کا مطلب میدان امریکہ کے لیے خالی چھوڑ نا ہے،اور اسی لئے ان دونوں نے امریکہ کا مقابلہ کرنے کے لیے عسکری مداخلت شروع کی ہے اور اس کو داعش کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کہہ رہے ہیں، اور اس میں ایک اور بہانے کا اضافہ کیا جائے گا جو یہ ہو گا کہ قانونی قومی حکومت کے مطالبے کو پورا کرنے کے لئے فوج بھیجی جارہی ہے! یہ سب حقیقت کا تھوڑا سا حصہ ہے مگر اصل حقیقت یہ ہے کہ استعماری ممالک ہمارے علاقوں،وسائل اور دولت کے لیے رسہ کشی کر رہے ہیں۔۔۔
8 ۔ اس بنا پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ حکومت موثر نہیں ہوگی کیونکہ الصخیرات معاہدے، پھر اس حکومت کی پر مشقت ولادت کے پیچھے طاقت کا توازن کسی ایک فریق کے حق میں نہیں، اس لیے بننے والی حکومت غیر مستحکم رہے گی۔ شاید یہ ایسی تیسری حکومت سے زیادہ کچھ نہیں ہوگی جو طبرق حکومت اور طرابلس حکومت کے پیچھے چلے گی چاہے ان دوحکومتوں کو ظاہری طور پر ختم بھی کردیا جائے،اور ان دونوں کی ڈوریاں ہلانے والے پس پردہ موجود رہیں گے۔۔۔الصخیرات معاہدے اور اس کی حکومت کے بارے میں بین الاقوامی بحران گروپ کے کلوڈیا جزینی کا اس معاہدے اور حکومت پر تبصرہ کرتے ہوئے یہ کہنا درست ہے کہ " کاغذ پر یہ اچھی خبر ہے۔ لیکن عملی پہلو سے لیبیا میں ہونے والے معاہدے کے لئے آنے والیجس حمایت کا انتظار ہے وہ غیر یقینی ہے، اورموجودہ دونوں پارلیمنٹس کی قیادتیں اس کی مخالفت کر رہی ہیں، اورہر ایک اپنے اپنے امن منصوبے بنانے میں شدیدمصروف ہے، اور یہبھی حقیقت ہے کہ اس نئی حکومت کا ملک کے بہت کم اہم حصوں پر کنٹرول ہو گا، اور یہ تمام باتیں کئی لوگوں کو اس حکومت کی افادیت کی حوالے سے شکوک کا اظہار کرنے پر مجبور کریں گی" ۔(http://blog.crisisgroup.org ، 18دسمبر 2015 ) ۔
جہاں تک لیبیا میں ان معاہدوں اور حکومتوں کی ناکامی کی بات ہےتو اس کے دو سبب ہیں، پہلا: رسہ کشی کی سر پرستی کرنے والے فریقین کے محرکات متضاد ہیں، ہر ایک اپنے مفاد کے لیے کام کر رہا ہے ، یہ فریق ہر آنکھ والے کے لیے واضح ہیں، یہ ایک طرف یورپ ہے اور دوسری طرف امریکہ ہے خاص کر برطانیہ اور کم درجے میں فرانس اور اٹلی۔۔۔ یہ دونوں فریق امریکہ اور یورپ اپنے اپنے استعماری مفا دات کے ضمن میں رسہ کشی کر رہے ہیں۔۔۔ دوسرا سبب: لیبیا کے بحران کو اس کے اپنے لوگوں کےہاتھوں حل نہیں کیا جا رہا بلکہ اس کو الصخیرات معاہدے کے مطابق حل کیا جا رہا ہے جس کا انتظام استعماری کفار نے کیا، حالانکہ یہ حل لازماً لیبیا کے لوگوں کے ہاتھوں ہونا چاہیے۔وہ مسلمان ہیں، اسلام میں ہر بحران کا واضح حل موجود ہے،اور مخلص اور بیدار لوگوں کو یہ حل معلوم ہے،
﴿إِنَّ فِي ذَلِكَ لَذِكْرَى لِمَنْ كَانَ لَهُ قَلْبٌ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ﴾
"بے شک اس میں نصیحت ہے اس شخص کے لیے جس کا دل ہے یا وہ سن لیتا ہے دیکھ لیتا ہے"(ق:37)
یہ دو اسباب ہیں کہ الصخیرات معاہدہ اور اس کی حکومت لیبیا میں امن و امان اور استحکام لانے میں ناکام رہیں گی ،اور اس بات کی توقع ہے کہ یہ نئی حکومت عسکری مداخلت کے لیےسرگرم ہو گی ، جس پر اس حکومت کے لوگ پھر نادم ہوں گے مگر اس وقت ندامت کا فائدہ نہیں ہو گا۔
افسوسناک بات یہ ہے کہ مسلمانوں کی سرزمین سیاسی سازشوں اور عسکری کاروائیوں کا میدان بنی ہوئی ہے جس کے نتیجے میں مسلمانوں کا مزید خون بہے گا۔۔۔ اس سے بھی بڑی مصیبت یہ ہے کہ مسلمانوں کے صفوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جو اسلامی علاقوں کے مسائل کو حل کرنے کے لیے استعماری کفار سے مدد مانگتے ہیں، یہ بھول جاتے ہیں یا نظر اندا ز کرتے ہیں کہ یہی لوگ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتے ہیں۔
﴿لَا يَرْقُبُونَ فِي مُؤْمِنٍ إِلًّا وَلَا ذِمَّةً وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُعْتَدُونَ﴾
"یہ (کافر)کسی مومن کے بارے میں رشتے کا پاس رکھتے ہیں نہ قرابت کا خیال، یہ ہیں ہی حد سے گزرنے والے"(التوبۃ:10)۔
اس سب کے باوجود اہل لیبیا میں خیر موجود ہے ، یہ قرآن کے حفاظ کی سرزمین ہے، یہاں مخلص اور سچے جواں مرد موجود ہیں جو اللہ کے اذن سے اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں کی سازشوں کو ناکام بنا نے کے اہل ہیں، اللہ زبردست غالب جس کی چاہتا ہے مدد کرتا ہے،
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَنْصُرُوا اللَّهَ يَنْصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ * وَالَّذِينَ كَفَرُوا فَتَعْسًا لَهُمْ وَأَضَلَّ أَعْمَالَهُم﴾
" اے ایمان والو اگر تم نے اللہ کی مدد کی وہ بھی تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں ثابت قدم کرے گا اور جو لوگ کافر ہیں ان کے لیے ہلاکت ہے اور ان کے اعمال ضائع ہیں"(محمد:8-7)۔
8 ربیع الثانی 1437 ہجری
بمطابق 19جنوری 2016
Latest from
- کشمیر کی آزادی کے لئے اقوام متحدہ اورنام نہاد بین الاقوامی برادری سے مدد کی التجائیں بے وقوف، بزدل اور غدار ہی کرسکتے ہیں
- صرف خلافت ہی کشمیر کو آزادی دلائے گی کشمیر کے مسلمان ہندو جارحیت کے خلاف افواج پاکستان کے جہاد کا انتظار کررہے ہیں
- امریکی راج ختم کرو، خلافت قائم کرو مسلمانوں اور اسلام کے خلاف راحیل اور اس کی غداری کی امریکہ تعریف کررہا ہے
- راحیل-نواز حکومت امریکہ کی غلامی سے نکلنا ہی نہیں چاہتی امریکہ کی بھارتی حمایت کے باوجود راحیل-نواز حکومت امریکہ سے وفاداری نبھا رہی ہے
- شام میں امریکہ،روس اور ایران کی دشواریاں