الجمعة، 25 جمادى الثانية 1446| 2024/12/27
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

سوال و جواب

امریکی کانگریس کے انتخابات

 

سوال:

         ریپبلکن پارٹی نے 435 رکنی ایوانِ نمائندگان میں سادہ اکثریت کے ساتھ امریکی ایوانِ نمائندگان کا کنٹرول حاصل کر لیا، " BBC کے امریکی شراکت دار CBS نیوز کے اندازوں کے مطابق اُس (ریپبلکن پارٹی)نے کم از کم 218 نشستیں حاصل کیں۔۔۔" BBC) ، 17 نومبر 2022)۔ اور جہاں تک ڈیموکریٹس کا تعلق ہے، انہوں نے جشن منایا، "اتوار، جب پارٹی (ڈیموکریٹس)نے امریکی سینیٹ میں سادہ اکثریت برقرار رکھی۔۔۔" (الجزیرہ، 14 نومبر 2022)۔ دنیا کے بیشتر ممالک کا مقامی میڈیا امریکی کانگریس (ایوان نمائندگان اور سینیٹ) کے انتخابات کی خبریں دے رہا تھا۔

 

         آخر امریکہ کے مقامی واقعات دنیا بھر میں بڑاےواقعات کیسے بن جاتے ہیں، جبکہ دوسرے ممالک میں اسی طرح کے واقعات پر زیادہ توجہ نہیں دی جاتی؟یا یہ کیسے سمجھا جا سکتا ہے کہ امریکہ اپنے مؤکلوں اور اُس پرانحصار کرنے والوں کو اپنے (امریکی) اندرونی واقعات پر توجہ دینے کا مطالبہ کرتا ہے تاکہ اسے بین الاقوامی مسئلہ بنایا جا سکے جیسے برطانیہ کرتا ہے کہ برطانیہ پر انحصار کرنے والے میڈیا ادارے اس کے بادشاہوں، ان کی شادیوں، ان کے بچوں، اور ان کے بارے میں معمولی خبریں تک نشر کرتے ہیں؟ یا یہ کہ ان انتخابات کا دنیا بھر میں حقیقی اثر پڑتا ہے؟

 

 

جواب:

         جی ہاں، برطانیہ اپنے ایجنٹوں اور پیروکاروں سے کہتا ہے کہ وہ انگریزوں کی عظمت کے گہرے اور عظیم احساس کے ساتھ، برطانیہ میں ہونے والی معمولی باتوں پر توجہ دیں، گویا کہ ماضی کی وہ سلطنت جس پر ’’سورج غروب نہیں ہوتا‘‘، آج بھی موجود ہے۔جہاں تک برطانیہ کے معاملے ہے، تو وہ یہ عمل اس لیے کرتا ہے کہ اپنے ماضی کی عظمت کے احساس کو زندہ رکھ سکے،لیکن امریکہ کا معاملہ ا سے بالکل مختلف ہے۔ اس بات کی وضاحت کے لیے ہم درج ذیل نقاط پیش کرتے ہیں:

 

         1۔ بین الاقوامی میدان میں امریکہ میں ہونے والے داخلی واقعات کے اثرات کو سمجھنے کے لیے ہم اس بات کا حوالہ دیتے ہیں جو امریکی صدر بائیڈن نے کہی تھی، یہ واضح رہے کہ روس نے خرسن(یوکرین کے علاقے) سے انخلاء شروع کرنے سے پہلے امریکی کانگریس کے انتخابات کے نتائج کا انتظار کیا تھا (الجزیرہ ، 11/11/2022)۔        اور ہم سعودی عرب کے "اوپیک پلس"کے ذریعے تیل کی پیداوار میں 20 لاکھ بیرل یومیہ کمی کرنے کے فیصلے کا حوالہ بھی دیتے ہیں، یہاں تک کہ عالمی قیمتیں بڑھ گئیں اور امریکی شہری مقامی ایندھن کی قیمتوں پر بے چین تھے۔ لہٰذا انہوں نے ڈیموکریٹس کو منتخب کرنے سے گریز کیا اور ریپبلکن کو منتخب کرنے کے لئے گئے۔ اور اس لمحے تک اس بات کی تصدیق کرنا ممکن نہیں ہے کہ آیا کورونا وائرس کے بہانے چین کا اپنے شہروں کو بند کرنا حقیقی وجوہات کی بناء پر ہیں یا اُس نے امریکی صدر کی پارٹی بائیڈن کی انتخابی حمایت کے لیے ایسا کیا ہے، اور آنے والے دنوں میں یہ بات واضح ہو سکتی ہے۔

 

         خلاصہ یہ کہ 8/11/2022 کے وسط مدتی انتخابات ایک بڑے بین الاقوامی واقع کی نمائندگی کرتے تھے۔ اور یہ کہنا بھی کافی ہے کہ امریکہ کے اندر ہونے والی کوئی بھی انتخابی مہم دنیا کے دوسرے خطوں کو ہلا کر رکھ سکتی ہے۔ لہٰذا بین الاقوامی سطح پر ان امریکی انتخابات کی اہمیت کو کم کرنا مناسب نہیں۔ اس کی اہمیت کیسے ہے وہ بہت واضح ہے۔ سابق صدر ٹرمپ کی انتظامیہ نے امریکہ، عوام، حکومت، جماعتوں اور مالیاتی کمپنیوں کے اندر ایک بہت بڑی تقسیم کو واضح کیا۔ ان تمام باتوں کی وجہ سے دنیا دیکھ رہی تھی کہ امریکی کانگریس کے انتخابات کے نتائج سے  دنیا کی صورتحال میں کیا تبدیلی آئے گی۔

 

         2۔ دنیا کے سب سے ممتاز اور سب سے بڑے سرمایہ دار ملک امریکہ میں سیاسی نظام نے الیکشن کا مقابلہ صرف دو جماعتوں کے درمیان محدود کر دیا ہے اور دونوں جماعتیں سرمایہ دار کمپنیوں پر انحصار کرتی ہے! اور اس بات کا واضح اشارہ، کہ یہ جماعتیں لوگوں پر نہیں بلکہ بڑی سرمایہ دار کمپنیوں پر انحصار کرتی ہیں ، یہ ہے کہ امریکی کانگریس کے دونوں ایوانوں کےانتخابات کے لیے امیدواروں کی حمایت پر کمپنیوں نے اس سال تقریباً 17 ارب ڈالر خرچ کیے ۔ یہ رپورٹ کیا گیا کہ "امریکہ ہر موقع پر متضاد ماڈل پیش کرتا نظر آتا ہے، ایک ایسے وقت میں جب ملک تاریخی مہنگائی کا شکار ہے، وسط مدتی انتخابات کے لیے پروپیگنڈے پر اخراجات ریکارڈ سطح پر پہنچ گئے، ایک امریکی تنظیم نے انکشاف کیا کہ ریاست ہائے متحدہ میں 2022 کے وسط مدتی انتخابات کی لاگت 16.7 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئی ہے۔" (سکائی نیوز عربیہ، 11/13/2022)۔ یہ افریقہ اور دیگر علاقوں کے کچھ ممالک کے بجٹ کے برابر رقم ہے۔

 

         اور اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ امریکہ میں سرمایہ دار، بڑی کمپنیوں کے مالک ہیں، جو امریکی عوام کو ہدایت دیتے ہیں کہ وہ فلاں کو منتخب کریں اور فلاں کو منتخب نہ کریں۔امریکی انتخابات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ عوام خودمختار ہیں، لیکن درحقیقت بڑی کارپوریشنز خودمختار ہیں، جو صرف ایک مخصوص امیدوار کی حمایت کے لیے کروڑوں ڈالر خرچ کر سکتی ہیں۔ یہاں تک کہا جاتا ہے کہ امریکہ میں ووٹر سیاست دان کا نہیں بلکہ سیاست دان اپنے ووٹروں کا انتخاب کرتے ہیں۔یہ بات اس حقیقت سے ثابت ہوتی ہے کہ جو بھی اسقاط حمل کی آزادی کا نعرہ بلند کرتا ہے وہ چاہتا ہے کہ خواتین کی اکثریت اسے منتخب کرے، اور جو بھی امیگریشن کے دفاع کا نعرہ بلند کرتا ہے وہ اقلیتوں کو نشانہ بناتا ہے کہ وہ اسے منتخب کریں، اور جو بھی نسل پرستانہ نعرے لگاتا ہے وہ سفید فام امریکیوں کو نشانہ بناتا ہے تا کہ وہ اسے منتخب کریں ۔

 

         3۔ امریکہ میں فنانس اور کمپنیوں کا کنٹرول ہمیشہ سے ہی رہا ہے لیکن سابق صدر ٹرمپ کی انتظامیہ کے دور نے امریکہ کے اندر بڑی تبدیلیوں کا انکشاف کیا ہے۔ یہ تبدیلیاں بڑی کمپنیوں کے درمیان شدید مسابقت کی صورت میں سب سے زیادہ نمایاں طور پر دیکھی گئیں، جو ماضی کی طرح اب کھیلوں جیسا نرم مزاجی کا مقابلہ نہیں رہا۔ یہ مقابلہ گرم ہو رہا ہے۔ اس کا درجہ حرارت اس وقت تک بڑھ گیا ہے یہاں تک کہ یہ ابلتے ہوئے مقام تک پہنچ گیا، یا تقریباً پہنچ گیا ہے۔ سرمایہ داروں کا لالچ ان سرمایہ داروں کے درمیان متصادم مفادات کی روشنی میں پرامن بقائے باہمی کی اجازت نہیں دیتا۔ اس وقت کمپنیوں کے درمیان شدید سرمایہ دارانہ مقابلہ ان کمپنیوں کے مفادات کی نمائندگی کرنے والے سیاستدانوں کے درمیان ہڈیوں کو توڑنے والی حالت میں چلا گیا ہے۔ عمومی طور پر سرمایہ دار اب تک دو دھڑوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ ٹیکنالوجی کمپنیوں کا ایک دھڑا ہے اور اس کی نمائندگی امریکی ڈیموکریٹک پارٹی کرتی ہے۔ تیل اور توانائی کی کمپنیوں کا ایک اور دھڑا ہے اور اس کی نمائندگی امریکی ریپبلکن پارٹی کرتی ہے۔ اور یہ دونوں دھڑے اپنے اپنے مفادات  اور امریکی ریاست کے مفادکے مطابق اپنے اپنے امیداوار کھڑے کرتے ہیں اور معاشرے میں تقسیم کو آگے بڑھاتے ہیں۔ یہ واضح رہے کہ امریکی تیل اور توانائی کی کمپنیاں کئی دہائیوں تک امریکی سرمایہ داری کی نمائندگی پوری دنیا میں کرتی رہی ہیں۔لہٰذا تیل کی جنگیں اور ممالک کے درمیان پائپ لائنوں کو بڑھانے اور بڑے بڑے ٹینکرز بنانے کی پالیسیوں نے ان کمپنیوں کو زبردست اثر و رسوخ اور منافع بخشا۔

 

         تاہم، حالیہ دو دہائیوں میں، ٹیکنالوجی کمپنیوں نے نمایاں مقام حاصل کیا۔ ان کے سرمائے میں آسمان کو چھوتے ہوئے اضافہ دیکھا گیا یہاں تک کہ ان میں سے کچھ کا سرمایہ دو دہائیوں سے بھی کم عرصے میں، تیل اور توانائی کمپنیوں کے سرمائے سے تجاوز کر گیا، جسے انہوں نے تقریباً ایک صدی میں جمع کیا تھا۔اس مسئلے کی شدت میں اضافہ ہوا، جس میں کورونا وائرس کے دور میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ پھر لاک ڈاؤن کی پالیسی نے تیل کمپنیوں کو بہت زیادہ منافع سے محروم کر دیا، یوں تیل کی قیمت بعض اوقات منفی شرح تک پہنچ گئی۔ اسی دوران ٹیکنالوجی کمپنیوں کے منافع میں زبردست اضافہ ہونا شروع ہوا جب لوگ گھروں میں بیٹھ کر ایک دوسرے سے رابطے میں تھے، اور مواصلاتی آلات اور کمپیوٹر کے ذریعے اپنا کام کرتے تھے، ان کمپنیوں کے ذریعے تجارتی اور مالیاتی لین دین میں اضافہ ہوا، جیسا کہ امریکی کمپنی "ایمازون"جس نے تجارت کے بہت سے شعبوں کو کنٹرول کرلیا، اور سامان کی ہوم ڈیلیوری کے ساتھ انہیں الیکٹرانک کامرس میں تبدیل کردیا۔ٹیک کمپنیوں کی یہ زبردست ترقی ٹرمپ کے عروج کے ساتھ ملتی ہیں۔ اور یہاں ہارنے والی اور منافع بخش بڑی کمپنیوں کے درمیان تنازعات کی آگ بھڑکتی ہے، یہاں تک کہ اس کی شدت ایک دوسرے کی ہڈیاں توڑنے کی کوششوں تک پہنچ گئی۔ اور چونکہ یہ کمپنیاں سیاست دانوں کے ذریعے جو چاہتی ہیں اسے نافذ کرتی ہیں، اس لیے یہ سیاست دان تیزی سے تقسیم ہو چکے ہیں۔

 

         4۔ امریکی ریاستوں میں تقسیم بڑھ گئی ہے، اس لیے ڈیموکریٹس کے زیر کنٹرول ریاستوں نے تیل کمپنیوں کے خلاف قوانین بنائے۔ کیلیفورنیا نے صفر اخراج کی پالیسی جاری کی اور 2035 تک مکمل طور پر الیکٹرک کاروں پر انحصار کرنے کی پالیسی جاری کی، جبکہ ٹیکساس جیسی ریاستیں، جن پر ریپبلکنز کا کنٹرول ہے، اور ان کے پیچھے تیل کی کمپنیاں جو ریاست کو کنٹرول کرتی ہیں، بلیک لسٹ "گرین" کمپنیوں میں منتقل ہوگئیں، یعنی وہ اخراج کو کم کرنے کی پالیسی اختیار کریں۔ ایسی قانون سازی جس سے معاشرے میں موجود تقسیم میں مزید اضافہ ہو ، اس وقت سامنے آئی جب جب ریپبلکنز کے زیر کنٹرول ریاستوں نے انتخابی اضلاع کو تقسیم کرنا شروع کیا، اور آنے والے انتخابات میں ریاست پر اپنے کنٹرول کو یقینی بنانے کے لیے قوانین جاری کرنا شروع کیے، جیسے کہ ایسے قوانین جو ڈاک کے ذریعے ووٹنگ پر پابندی لگاتے ہیں، کیونکہ ڈاک کے ذریعے ووٹنگ کی ڈیموکریٹس کے حامی حمایت کرتے ہیں۔ اور اسی دوران ڈیموکریٹس کے زیر کنٹرول ریاستوں نے بھی انتخابی اضلاع کو تقسیم کرنا شروع کر دیا اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ ریپبلکنز کو ان ریاستوں تک رسائی حاصل نہ ہو، ڈاک کے ذریعے ووٹنگ کی سہولت فراہم کرنے جیسے قوانین جاری کرنا شروع کر دیے۔

 

         یہ تقسیم ثقافتی تقسیم کے علاوہ ہے۔ اس میں ریپبلکنز کے زیر کنٹرول ریاستوں میں اسکول کے نصاب میں "نسل کے نظریہ" کے کلچر کو شامل کرنا، اور وہاں امیگریشن اور تارکین وطن کے خلاف ثقافت کو پھیلانا شامل ہے۔دوسری طرف، اسقاط حمل کی آزادی کا کلچر ڈیموکریٹس کے زیر کنٹرول ریاستوں میں پھیلا ہوا ہے، یہ خیال رہے کہ یہ ریپبلکنز کے قدامت پسندانہ نظریے کے خلاف ہے۔ اس کے علاوہ ڈیموکریٹ ریاستوں میں تارکین وطن کو خوش آمدید کہنے کے کلچر کو فروغ دیاجاتا ہے۔اس طرح امریکی ریاستوں کو ریپبلکنز کے زیر کنٹرول "سرخ ریاستوں" میں تقسیم کیا گیا، جن پر سفید فام امریکیوں کا غلبہ ہے اور ڈیموکریٹس کے زیر کنٹرول "نیلی ریاستیں"، جو اپنے ساتھ زیادہ تر تارکین وطن کمیونٹیز کو اکٹھا کرتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تقسیم ایک نسلی کردار کو اختیار کرنے کی طرف بڑھی ہے۔ اور یہ تقسیم مستقل ہو گئی ہے۔ریاستوں میں سیاست دان زیادہ سے زیادہ متنازعہ مسائل کو اچھال رہے ہیں!

 

         5۔ امریکہ دنیا کی حکومتوں کے ساتھ مل کر امریکی کانگریس کے وسط مدتی انتخابات کے نتائج کو اپنے مفادات کے مطابق دیکھ رہا تھا۔ ایک طرف روس "ٹرمپ گروپ" کا انتظار کر رہا تھا کہ وہ بائیڈن انتظامیہ کی طرف سے یوکرین کو فراہم کی جانے والی زبردست امریکی حمایت میں رکاوٹ ڈالے، اگر یہ گروپ جیت جاتا۔۔۔ اور یورپ ، خصوصاً جرمنی اس حوالے سے پریشان تھا کہ اگر "ٹرمپ گروپ" جیت گیا توروس کے توسیع پسندانہ رجحانات کو پسپا کرنے کے لیے کیاامریکہ یورپ کے ساتھ کھڑا رہے گا۔۔۔چین کو چین کے خلاف امریکہ کے جارحانہ طرز عمل ، یا جنوبی کوریا اور جاپان کو جوہری ہتھیاروں سے مسلح کرنے کے حوالے سے بھی خوف ہو سکتا ہے۔۔۔ جہاں تک اسلامی خطے میں امریکہ کے ایجنٹوں کا تعلق ہے، تو اِن میں سے کچھ سعودی عرب کی طرح یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے لیے"ٹرمپ گروپ"،"بائیڈن گروپ" سے زیادہ بہتر ہے، جبکہ اِن میں سے کچھ اس کے برعکس یقین رکھتے ہیں۔یہ درست ہے کہ یہ انتخابات صدارتی نہیں ہیں لیکن انہیں صدارتی قرار دیا گیا۔ مزید یہ کہ وہ 2024 میں ہونے والے آئندہ صدارتی انتخابات کے لیے بہترین اشارہ ہے۔ امریکا میں ایندھن کی قیمتوں میں اضافے سمیت مہنگائی کی بلند شرح کی وجہ سے ریپبلکن پارٹی کے لیے انتخابات میں واضح کامیابی"کلین سویپ" حاصل کرنے کے لیے سازگار ماحول موجود تھا۔رائے عامہ کے جائزوں کی پیشن گوئی اور میڈیا میں اس کی تشہیر بھی یہی تھی۔ ایک حد تک، "بھر پورسرخ لہر"(ریپبلکن جماعت کا رنگ سرخ ہے) کی پیش گوئیوں نے ڈیموکریٹس کو خوفزدہ کر دیا تھا، یعنی انتخابی حالات مکمل طور پر ریپبلکنز کے حق میں تھے۔ تاہم، اب تک جو نتائج سامنے آئے ہیں وہ رائے عامہ کے جائزوں اور میڈیا آؤٹ لیٹس کے لیے ایک دھچکا ہیں، حالانکہ ان میں سے کچھ میڈیا آؤٹ لیٹس ڈیموکریٹس کے ساتھ تھے، جس کو توقع تھی کہ "بھر پور سرخ لہر" آئے گی۔ سابق صدر ٹرمپ ریپبلکن امیدواروں کی حمایت کے لیے ریاستوں کے درمیان ایسے سفر کر رہے تھے جیسے یہ صدارتی انتخابی مہم ہو۔ اور اس کے بدلے میں، ڈیموکریٹس نے موجودہ صدر بائیڈن، اور سابقہ صدور اوباما اور کلنٹن کو "سرخ لہر کو روکنے" کی امید میں استعمال کیا جس کے بارے میں ان کے خیال تھا کہ یہ ہو کر ہی رہے گا۔تاہم، یہ لہر عملی طور پر سامنے نہیں آئی۔ اس کے بجائے، انتخابی نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ ریپبلکن پارٹی نے 435 رکنی ایوان نمائندگان میں سادہ اکثریت سے امریکی ایوان نمائندگان کا کنٹرول حاصل کر لیا ہے، " بی بی سی کے پارٹنر امریکی ٹی وی سی بی ایس نیوز کے اندازوں کے مطابق،اس (ریپبلکن پارٹی)نے کم از کم 218 نشستیں جیتی ہیں، ۔ (بی بی سی، 17 نومبر، 2022)۔جہاں تک ڈیموکریٹس کا تعلق ہے، انہوں نے "اتوار کو جشن منایا کہ پارٹی نے امریکی سینیٹ میں سادہ اکثریت برقرار رکھی ہے۔۔۔ اور ڈیموکریٹس کے پاس اس وقت سینٹ میں 50 نشستیں ہیں، جبکہ ریپبلکنز کے نمائندوں کی تعداد 49 ہے۔ اس کے علاوہ امریکی نائب صدر کمالا ہیرس، جو سینٹ میں ایوانِ صدر کی سربراہ ہیں۔ریاست جارجیا میں 6 دسمبر کو سینٹ کی ایک نشست پر انتخاب ہونا ہے ، جس کے ذریعے ڈیموکریٹس اپنی اکثریت کو مضبوط کر سکتے ہیں۔" (الجزیرہ، 14/11/2022)۔ یہ نتائج تمام توقعات اور سروے کے برعکس ہیں!

 

         6۔ نتائج کی جانچ پڑتال کے بعد ہمارے سامنے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ وہ ریاستیں جو ریپبلکنز کے زیر کنٹرول ہیں، اور جن میں ریپبلکن گورنر ہے اور ریاست میں مقامی کانگریس اور سینیٹرز کی اکثریت ریپبلکن ہے، ایسی ریاستیں ریپبلکن ہی رہی ہیں۔ان ریاستوں میں ڈیموکریٹک پارٹی کوئی خاص اثر و رسوخ حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے، کچھ معمولی استثناء کے ساتھ، جیسے کہ جہاں تارکین وطن کی تعداد میں اضافہ ہوا، خاص طور پر ٹیکساس میں لاطینی امریکیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ، اور وہاں  کچھ ڈیموکریٹس کانگریس مین بن گئے، لیکن ان کی تعداد بہت کم ہے۔تاہم، ٹیکساس پر تقریباً مکمل کنٹرول ریپبلکنز کے پاس ہے۔ لیکن جن ریاستوں پر ڈیموکریٹس کا کنٹرول ہے وہاں ایسی صورتحال نظر نہیں آئی ۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ تقسیم گہری اور مضبوط ہے۔ یہ سب کچھ اس وقت ہورہاہے جب کچھ ریاستیں دو نوں جماعتوں کے درمیان تنازعہ کا موضوع بنی رہی ہیں اور انہیں "سوئنگ سٹیٹس" کہا جاتا ہے، جیسے جارجیا، ایریزونا، نیواڈا اور پنسلوانیا۔

 

         شاید انتخابات کا نتیجہ، جو تمام روایتی توقعات سے متصادم تھا، اور رائے عامہ کے جائزوں اور انتخابی عمل کے معمول کے تجزیے کی خلاف ورزی کرتا ہے، اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ واشنگٹن ڈی سی میں جمع ہونے والی امریکی ریاستیں اب وہ ریاستیں نہیں رہیں، جو ماضی میں تھیں۔دونوں جماعتوں کے پیچھے کھڑی بڑی کمپنیوں کے مختلف مفادات "سوئنگ سٹیٹس" میں تیزی سے گرم ہو سکتے ہیں کیونکہ ان انتخابات میں ان میں سے کسی پر ایک پارٹی کا کنٹرول ہے۔ان ریاستوں میں دوسرے فریق کے خلاف نئے قوانین کا نفاذ، اور دوسرے فریق کے کے کلچر کے برعکس  دوسرےکلچر کا پھیلاؤ ریاست کو دوسرے فریق سے مزید دور لے جائے گا۔ اور یہ ہارنے والی پارٹی کو شاید قبول نہ ہو۔تشدد کی چنگاریاں ان "سونگ سٹیٹس" سے پھوٹ سکتی ہیں، جو ملک کو مزید تشدد کی طرف لے جاسکتی ہیں، اس طرح ملک کی خارجہ پالیسی مزید الجھ سکتی ہے۔ درحقیقت، یہ الجھن پیدا ہوچکی ہے۔ تیل کی پیداوار میں کٹوتی کرنےکے حوالے سے سعودی عرب کا "ٹرمپ گروپ" کے ساتھ اتحاد اس رجحان کا خطرناک اشارہ تھا۔ یہ گہری تقسیم ان انتخابات سے ظاہر ہونے والا سب سے واضح معاملہ ہے، کیونکہ دونوں جماعتیں طاقت میں تقریباً برابر ہیں۔ نئے حالات، جیسے مہنگائی میں اضافہ، ان کی طاقت کو متاثر نہیں کرتی ہیں۔ انتخابات میں گھبراہٹ واضح تھی، کیونکہ "ٹرمپ گروپ" کے امیدواروں میں سے کچھ اپنے کندھوں پر بندوقیں لیے خواتین کی انتخابی مہم بھی چلا رہے تھے۔ شاید آنے والے دنوں میں مزید اختلاف اور ریاستوں کے درمیان قانون سازی پر اختلاف، اور ریپبلکن پارٹی کے زیر کنٹرول علاقوں سے غیر سفید فاموں کی بڑھتی ہوئی منتقلی کو ظاہر کرے گا ، جہاں "نسل کے نظریہ" کو فروغ دیا جاتا ہے۔

 

         7۔انتخابات میں جو کچھ ہوا اس کی بنیاد پر، امریکی کانگریس کے وسط مدتی انتخابات کے نتائج پر کچھ روشنی ڈالی جا سکتی ہے، جیسا کہ:

 

         7(ا)۔ اگرچہ امریکہ ایسے سمجھدار لوگوں سے خالی نظر آتا ہے جو واشنگٹن میں اقتدار پر دو متضاد جماعتوں کے درمیان موجود خلا کو پر کر سکتے ہو، اور جبکہ امریکی وفاداری اور سیاسی صف بندی کے حوالے سے زیادہ گھبراہٹ کا مظاہرہ کر رہے ہیں، صدر بائیڈن کی انتظامیہ اگلے دو سال کے عرصے میں مزید رکاوٹوں کا سامنا کرے گی۔ یہ رکاوٹیں ریپبلکن جماعت"سرخ ریاستوں" کے ساتھ ساتھ ایوانِ نمائندگان میں بھی کھڑی کر سکتی ہے، اور اس صورتحال کے نتیجے میں ریاست کو اپنی خارجہ پالیسی کی قیمت پر داخلی حالات پر زیادہ توجہ دینی پڑے گی۔

 

         جہاں تک ٹرمپ کا تعلق ہے تو انتخابات سے پہلے ایسا لگتا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے پوری ریپبلکن پارٹی پر اپنا تسلط جما لیا ہے، لیکن انتخابی نتائج کے اعلان کے بعد ایسا محسوس ہوا کہ ٹرمپ کے حمایت یافتہ امیدواروں میں سے کچھ ناکام ہو گئے، البتہ کچھ کامیاب بھی ہو گئے۔ اس سے ٹرمپ کے لیے انتخابات میں دشواری پیدا ہو سکتی ہے، اگر وہ امریکی صدر کے لیے دوسری بار ریپبلکن پارٹی کی ٹکٹ پر انتخاب لڑتا ہے۔۔۔

 

         7(ب)۔ چونکہ بڑی امریکی کمپنیاں، جو ریپبلکن پارٹی کے پیچھے کھڑی ہیں، ان کا بین الاقوامی سطح پر نمایاں اثر و رسوخ ہے، جس کا انکشاف سعودی عرب کے تیل کی پیداوار کو کم کرنے کے فیصلے سے ہوا، اس لیے امریکا کے بین الاقوامی اثر و رسوخ میں تقسیم کی علامات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ یہ امریکہ کو بین الاقوامی سطح پر کمزور کرتا ہے، اور یہ ایسی چیز ہے جس کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ یہ کمزوری اس سے پہلے اس وقت ظاہر ہوئی جب سابق سیکریٹری خارجہ جان کیری، جو ڈیموکریٹ ہیں، کے رابطوں نے ٹرمپ انتظامیہ کی ایران کے خلاف دباؤ بڑھانے کی پالیسیوں کو کمزور کیا۔ ریپبلکنز نے اس کا جواب دیا کہ انہوں نے، ڈیموکریٹک بائیڈن انتظامیہ کے دور کےدوران، سعودی عرب کو تیل کی پیداوار کم کرنے کے لیے اکسایا، جس نے روس پر بائیڈن انتظامیہ کا دباؤ کمزور کر دیا۔۔۔اس سے امریکہ کا بین الاقوامی اثر منقسم ہو جاتا ہے۔ اس کے بین الاقوامی مفادات ریپبلکن اور ڈیموکریٹس کے مفادات میں تقسیم ہیں۔ اگرچہ مشترکہ اسٹریٹجک مفادات کا ایک دائرہ باقی ہے، جیسے کہ روس اور چین کا مقابلہ کرنا، لیکن اس حوالے سے بھی اب ان مفادات کے حصول کے لیے طریقہ کار اور ذیلی پالیسیاں مختلف ہو سکتی ہیں۔

 

         7(ت)۔ بائیڈن انتظامیہ کے پاس یوکرین کے حوالے سے روس پر دباؤ ڈالنے کے لیے ابھی پورے دو سال باقی ہیں۔ یہاں تک کہ اگر امریکہ یوکرین اور روس کے درمیان مذاکرات کا دروازہ کھول دیتا ہے، تب بھی امریکہ روس پر دباؤ ڈالتا رہے گا کہ وہ مختصر مدت میں  یوکرین میں حاصل ہونے والے فوائد سے دستبردار ہو جائے۔ روس اس وقت تک خود پر عائد بھاری پابندیوں کے تحت رہے گا جب تک امریکہ کو یوکرین کے میدان سے باہر دیگر فوائد حاصل نہیں ہوجاتے، جیسا کہ اس بات کو یقینی بنانا کہ روس کے جوہری ہتھیار امریکہ کے لیے خطرہ نہ بنیں۔ ایسا لگتا ہے کہ بائیڈن کے دور میں یہی پالیسی ہے۔جب تک بائیڈن یہ اہداف حاصل نہیں کر لیتا ، روس مغربی دنیا اور اس کے انحصار سے الگ تھلگ رہے گا، اور اس کی معیشت ٹوٹ پھوٹ کا شکار رہے گی اور کھڑے ہونے کے قابل نہیں رہے گی۔

 

         7(ٹ)۔ بائیڈن انتظامیہ نے چین کو روس کی حمایت کرنے سے ڈرا یا، اس طرح چین کو روس سے عملی طور پر دور کرنے میں کامیابی حاصل کی، قطع نظر اس کے کہ ان کے تعلقات کی مضبوطی کے بارے میں چینی اور روسی بیانات حقیقی عزم سےخالی ہیں۔ایسے بیانات سے معاملے کی حقیقت نہیں بدلتی۔ چین اور روس کے درمیان دوری کا عمل ابھی تک مکمل نہیں ہوا ہے،اگرچہ روس کو شدت سے محسوس ہوتا ہے کہ چین نے اسے امریکہ اور نیٹو ممالک کے سامنے تنہا چھوڑ دیا ہے، جو یوکرین کو زبردست فوجی مدد فراہم کررہے ہیں، اور روس پر بھاری اقتصادی پابندیاں عائد ہیں۔

 

         7(ج)۔ مغربی یورپی ممالک ٹرمپ کی اقتدار میں واپسی کی کسی بھی شکل سے خوفزدہ تھے، چاہے اس کی دوبارہ صدارت میں واپسی ہو، یا کانگریس پر اس کے گروپ کے کنٹرول کے ذریعے واپسی ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ یہ پالیسی اپنا رہا ہے کہ نیٹو ایک فرسودہ اتحاد ہے، اور یہ کہ یورپ کی فوجی طاقت کمزور ہے اور روس کی توسیع پسندانہ پالیسی کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں ہے۔بائیڈن انتظامیہ کی یورپ میں واپسی سے مغربی یورپ خوش تھا۔ اس کے علاوہ، امریکی گیس کمپنیوں نے بائیڈن انتظامیہ کو اس وقت شرمندہ کیا، جب انہوں نے یورپ کو روسی گیس کے متبادل کے طور پر امریکی گیس ان کی امریکی قیمتوں سے چار گنا زیادہ قیمتوں پر فراہم کی، اور یورپی ممالک نے احتجاج کیا۔... اسی طرح صدر بائیڈن نے خود ان کمپنیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا جن کے بارے میں ان کے بقول یوکرین کی جنگ کے دوران آسمان کو چھونے والا منافع کمایا گیا۔ اس نے اِن کمپنیوں کے منافع پر اضافی ٹیکس لگانے کی دھمکی دی۔ بلاشبہ بائیڈن تیل کی قیمتوں میں اضافے پر ملکی سطح پر تنقید کر رہا تھالیکن یورپ میں قیمتوں میں اضافے کی اسے زیادہ فکر نہیں ہے۔ مزید برآں، جرمنی کے ساتھ ایک محور کے حوالے سے بائیڈن کی قیادت میں امریکی پالیسی، یورپ کو ٹکڑوں میں بانٹنے کا باعث بنتی ہے۔ یہ پالیسی سابق صدر ٹرمپ کی "بریگزٹ برطانیہ" جیسی ہے جہاں ٹرمپ نے برطانیہ کا ساتھ دیا تا کہ یورپیوں کے اتحاد پر ضرب لگائی جائے۔

 

         8۔ آخر میں، یہ دکھایا گیا ہے کہ کس طرح وسط مدتی امریکی کانگریس کے انتخابات کی بہت سی اندرونی اور بیرونی جہتیں اور مفہوم ہیں۔ یہ بھی دکھایا گیا ہے کہ کس طرح امریکہ کی بالادستی نے انتخابات کو ایک عالمی واقعہ بنا دیا ہے، جس کا دنیا کے بیشتر ممالک امریکہ کی خارجہ پالیسی پر اثرات کے لحاظ سے خیال رکھتے ہیں۔یہ برطانیہ کے اندرونی واقعات سے مماثل نہیں ہے، جہاں برطانیہ اپنی عظمت کی بھوک مٹانے کے لیے، اپنے ایجنٹ ممالک میں سے کسی سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اس کے اندرونی سیاسی معاملات کی میڈیا کوریج میں دلچسپی ظاہر کریں۔

 

         اس طرح سے ریاستوں کو "عظیم" کہا جاتا ہے۔ اس طرح ان کے داخلی واقعات کی اہمیت ظاہر ہوتی ہے۔ جب اللہ سبحانہ وتعالیٰ اسلامی ریاست کے قیام کی اجازت دے گا اور امت اسلامیہ دنیا پر اثر انداز ہونے کے لیے اپنا راستہ اختیار کرے گی، ان کی رہنمائی کرے گی، تو مسلمانوں کے درمیان کوئی بھی واقعہ ،خواہ چھوٹا ہو یا بڑا، کافر ممالک کے لیے سیاسی اور ابلاغی اہمیت کا حامل ہو جائے گا، اور وہ خود پر اس کے اثرات کا جائزہ اور تجزیہ کریں گے۔بہرصورت "عظیم" کافر ممالک اسلامی دنیا کے ہر چھوٹے بڑے معاملے کی پہلے ہی پرواہ کرتے ہیں۔ وہ اسلامی تحریکوں کے حوالے سے چوکنا ہیں۔ لہٰذا ان کے تابع میڈیا ان میں سے کچھ تحریکوں کو فروغ دیتا ہے، جنہیں وہ ’’اعتدال پسند‘‘ کہتے ہیں۔وہ مخلصانہ تحریکوں سے امت کو دور کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ یہ کافر ممالک مسلمانوں کی مخلصانہ طرز عمل کا بڑا حساب لیتے ہیں، اس لیے وہ ان کی نگرانی کرتے ہیں اور اپنے ایجنٹوں سے انہیں روکنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ یہ سب باتیں اسلامی ریاست یعنی خلافت کے قیام سے پہلے کی ہیں۔تو کفار کا کیا حال ہو گا جب امت اسلامیہ اور اس کی زبردست توانائیاں ایک مخلص اور باشعور قیادت کے زیر سایہ آجائیں گی، جو اپنے رب کو راضی کرنے اور اس کی امت کے مفادات کے لیے کام کرے گی؟ پھر امت اپنی شان و شوکت کی طرف لوٹ آئے گی، جبکہ ان نام نہاد "عظیم" ریاستوں کی کمزوری ظاہر ہو جائے گی۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،

 

﴿وَسَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنْقَلَبٍ يَنْقَلِبُون﴾

"ظالموں کو معلوم ہو جائے گا کہ وہ کس برے انجام سے دوچار ہوں گے۔"(الشوری، 26:227)

 

25 ربیع الثانی 1444 ہجری

19 نومبر 2022 عیسوی

Last modified onہفتہ, 10 دسمبر 2022 04:03

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک