بسم الله الرحمن الرحيم
ان لوگوں کو واضح جواب جو یہ کہتے ہیں کہ اقتدار تک پہنچنے اور ریاست کے قیام کے لیے رسول اللہﷺ کی سنت کی پیروی کرنا ہم پر فرض نہیں
سوال:
اسلام علیکم ۔۔۔ ہمارے شیخ۔۔۔۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ان لوگوں کے لیےمجھے ایک واضح جواب دیا جائے جو یہ کہتے ہیں کہ اقتدار تک پہنچنے اور ریاست کے قیام کے لیے رسول اللہ ﷺ کی سنت کی پیروی کرنا ہم پر فرض نہیں؟
احمد ابو عید
جواب:
وعلیکم اسلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ،
مختصراً اور واضح جواب درج ذیل ہے:
ان سے پوچھیں جو یہ کہتے ہیں کہ ہم پر اقتدار تک پہنچنے کے لیے رسول اللہ ﷺ کی سنت کی پیروی کرنا فرض نہیں ہے:
ان سے پوچھیں کہ وہ کون سے دلائل دیکھتے ہیں جب وہ وضو کرنا چاہتے ہیں؟ کیا وہ وضو سے متعلق دلائل دیکھتے ہیں؟ یا پھر مثال کے طور پر وہ حج کے حوالے سے دلائل دیکھتے ہیں؟ وہ آپ کو جواب دیں گے کہ وہ وضو سے متعلق دلائل دیکھتے ہیں۔۔۔
پھر ان سے پوچیں کہ جب وہ روزے کے احکام جاننا چاہتے ہیں تو کیا وہ روزے سے متعلق دلائل نہیں دیکھتے؟ یا وہ جہاد سے متعلق دلائل دیکھتے ہیں یہ جاننے کے لیے کہ روزہ کیسے رکھا جاتا ہے؟ وہ جواب دیں گے کہ جب انہیں روزے کے متعلق جاننا ہوگا تو وہ اس سے متعلق دلائل دیکھیں گے۔
پھر ان سے پوچھیں کہ کیا یہ درست نہیں کہ وہ نماز کے دلائل دیکھتے ہیں جب انہیں اس کے احکام جاننا ہوتے ہیں؟ یا وہ زکوۃ کے دلائل دیکھتے ہیں؟ وہ جواب دیں گے کہ وہ نماز کے دلائل دیکھتے ہیں۔
اب یہ واضح ہوچکا کہ وہ کسی بھی مسئلہ پر احکام جاننے کے لیے شریعت سے رجوع کریں گے۔
اب ان سے ریاست کے قیام کے متعلق پوچھیں، کیا وہ نہیں دیکھیں گے ان شرعی دلائل کو جو رسول اللہ ﷺ سے ہم تک پہنچے ہیں کہ ریاست کیسے قائم کی جائے؟ وہ نہیں دیکھیں گے، مثال کے طور پر، جہاد، نماز یا روزے کے دلائل ۔۔۔بلکہ وہ ریاست کے قیام سے متعلق دلائل دیکھیں گے، اور رسول اللہ ﷺ نے ایک ہی بار ریاست قائم کی جب انھوں نے تفاعل کے مرحلے میں نصرۃ طلب کی۔ لہٰذا ریاست کے قیام کا طریقہ طلبِ نصرۃ ہے۔
اب سوال یہ رہ جاتا ہے کہ کیا نصرۃ کا طلب کرنا فرض ہے، مندوب ہے یا مباح ہے؟
اگر نصرۃ طلب کرنا فرض ہے تو ہم پر اسی طریقے کے ذریعے ریاست کا قیام لازم ہے۔ اس مسئلے کی تحقیق کرنے سے ہم یہ جان پائے کہ:
نصرۃ طلب کرنا فرض ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نصرۃ طلب کرنے کہ وجہ سے پیش آنے والے شدید مشکلات و مصائب کے باوجود اس طریقہ کار کو تبدیل نہیں کیا۔ انہوں نے طائف سے نصرۃ طلب کی اور انہوں نے اس قدر برا جواب دیا کہ رسول اللہ ﷺ کے جوتے ان کے اپنے خون سے بھر گئے۔۔۔۔ اور رسول اللہ ﷺ نے طریقہ کار تبدیل نہیں کیا بلکہ آپ ﷺ نے قبائل سے نصرۃ طلب کرنے کے سلسلے کو جاری رکھا۔ آپ ﷺ نے بنی شیبان، بنی عامر اور کئی قبائل سے نصرۃ طلب کی، مجموعی طور پر دس بار طلب کی اور ہر بار جواب نفی میں آیا۔ اس کے باوجود آپ ﷺ نے کوئی دوسرا طریقہ کار اختیار نہیں کیا جبکہ اس طریقہ کار میں شدید تکالیف کا سامنا تھا۔ فقہ کے اصول میں مشکلات و تکالیف کے باوجود ایک ہی چیز کو بار بار دہرانا ، فرض کی نشاندہی کرتا ہے۔
لہٰذا نصرۃ طلب کرنا فرض ہے۔۔۔۔ اور ریاست کے قیام کے لیے رسول اللہ ﷺ نے صرف یہی طریقہ کار اختیار کیا، اور آپ ﷺ نے اس سلسلے کو جاری رکھا یہاں تک کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے انہیں انصار سے نواز دیا جنہوں نے عقبہ پر دوسری بیعت دی، جس کے بعد آپ ﷺ نے مدینہ ہجرت کی جہاں آپ ﷺ نے ریاست قائم کی۔
وہ شخص جس کا دل سنتا ہے اور گواہی دیتا ہے، اس کے لیے یہ مختصر جواب ہے۔ لیکن ضدی اس کا انکار کرے گا کیونکہ وہ وضو، روزہ اور نماز کے لیے شریعت کے دلائل سے مطمئن ہوتا ہے تا کہ وہ وضو، روزہ اور نماز پڑھ سکے، لیکن جو کام وہ نہیں کرنا چاہتا تو وہ اس کے دلائل نہیں دیکھتا اگرچہ وہ کام اس پر فرض ہے اگر وہ ہوش مندہے۔ اس پر لازم ہے کہ وہ ان دلائل کو دیکھے جو ریاست کے قیام سے متعلق ہیں اگر وہ اس کا قیام چاہتا ہے۔ ہمیں رسول اللہ ﷺ کے اقوال اور اعمال سے صرف ایک ہی دلیل ملتی ہے اور وہ ہے نصرۃ طلب کرنا، جو انہوں نے تفاعل کے آخری مرحلے میں کرنا شروع کیا۔۔۔اور یہ طریقہ فرض ہے۔ یہی مختصر اور مناسب جواب ہے اُس طریقہ کار کا جو ہم ریاست کے قیام کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
آخر میں آپ کو سلام پیش کرنا ہوں اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ آپ کے لیے خیر کے دروازے کھول دے۔
آپ کا بھائی،
عطاء بن خلیل ابو الرشتہ
2 جمادی الاول 1438 ہجری