بسم الله الرحمن الرحيم
سوال و جواب:
تصویر کشی کا شرعی حکم
سوال:
السلام علیکم، میرا نام احمد الھشلمون ہے اور میں حزب التحریر کا شاب ہوں۔ میرے کچھ سوال ہیں اور میں ان کے جوابات جاننا چاہوں گا :
1-نقش نگاری (تصویر کشی)(drawing) پر اسلام کے کیا احکام ہیں؟
2-انسانی اعضاء کی نقاشی سے متعلق احکام کیا ہیں؟
3- کیا مجسمہ سازی کے احکام نقاشی پر لاگوہوں گیں؟
جواب:
وعلیکم السلام و رحمۃاللہ و برکاتہ
ایسا لگتا ہے کہ آپ نے اُس سوال و جواب کو نہیں پڑھا جس میں آپ کے اٹھائے گئے سوال اور ان جیسے اور سوالوں کا جواب موجود ہے۔
تاہم جواب کا متن درج ذیل ہے:
ان سوالوں کے جواب سے پہلے کچھ نقاط کی وضاحت ضروری ہے،
اول: مذکورہ جواب نقش کشی یعنی ہاتھ سے نقش ونگار(خاکہ) بنانے سے متعلق ہے جس کا ذکر احادیث میں موجود ہے نہ کہ کیمرہ سے لی جانے والی فوٹوگراف۔ کیمرہ سے لی جانے والی فوٹوگراف جائز ہیں اور ان پران احادیث کا اطلاق نہیں ہوتا۔
دوئم: درج ذیل جواب تمام سطحی خاکوں کے بارے میں ہے نہ کہ ابھر ی ہوئی۔ یہ جواب مذکورہ سوال کی سیر حاصل بحث مہیا کرے گا۔
سوئم: جہاں تک تراش خراش سے بنی ہوئی صورتیں ہیں جیسے کہ بت یا مجسمے جن کو آپ نے اپنے سوال میں مجسمہ کے طور ذکر کیا ہے تو ایسی تمام اشیاء شریعت میں ممنوع ہیں۔ اس کی تفصیل اس سوال وجواب کے آخر میں ہے۔
اولاً: سپاٹ سطحی خاکے جن میں ابھار نہ ہوں یعنی یک جہتی ہوں اپنے مختلف موضوعات کے اعتبار سے:
سوال نمبر ایک اور دو کے حوالے سے:
-
فوٹوگراف کی تصحیح یا ترمیم جیسے کہ جھریوں کو حذف کرنا، آنکھوں کی رنگت کی یا پھر چہرے کے دوسرے خدوخال میں تبدیلی وغیرہ۔
-
لوگوں اور حیوانات کا ایسا خاکہ بنانا جو حقیقی نظر آئے۔۔۔۔
ان سوالات کا تعلق زندہ اجسام(ذی روح) کا خاکہ بنانے سے یا ہاتھ سے فوٹوگراف میں چہرے کے خدوخال میں تبدیلی سے ہے جیسے کہ جھریوں کا ہٹانا ۔ ان سب کا احاطہ اسی ممانعت کے تحت ہے جن کا ذکر نصوص میں آیا ہے قطع نظر اس سے کہ یہ تبدیلی ہاتھ سے کی گئی قلم سے یا پھر کمپیوٹر پر ماؤس سے۔ جب تک حاصل شدہ فوٹو/خاکہ کسی زندہ جسم سے متعلق ہے اور انسانی کاوش کا نتیجہ ہے تو ممانعت کے حکم کے تحت ہی آئیگا۔امام بخاریؒ نے ابن عباسؓ سے روایت کردہ حدیث استخراج کیا کہ رسول اللہ ﷺ سے روایت ہے:
« مَنْ صَوَّرَ صُورَةً فَإِنَّ اللَّهَ مُعَذِّبُهُ حَتَّى يَنْفُخَ فِيهَا الرُّوحَ وَلَيْسَ بِنَافِخٍ فِيهَا أَبَدًا »"
جس کسی نے خاکہ بنایا اس کو اس وقت تک اللہ ﷻ سے سزا ملتی رہے گی جب تک وہ اس میں جان نہیں ڈال لیتا اور وہ ایسا کبھی بھی نہیں کر سکے گا۔"
ایک حدیث جو کہ ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
« إِنَّ الَّذِينَ يَصْنَعُونَ هَذِهِ الصُّوَرَ يُعَذَّبُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يُقَالُ لَهُمْ أَحْيُوا مَا خَلَقْتُمْ »
"خاکوں کی تخلیق کرنے والوں کو روز قیامت عذاب میں مبتلا کیا جائے گا۔ ان سے کہا جائے گا کہ جان ڈالواس میں جن کی تم نے تخلیق کی۔"
سوال نمبر تین اور چار کی بابت:
پہلے سے موجود فوٹوگراف اور خاکوں کا طباعت میں استعمال:
-
تیار اور پہلے سے موجود فوٹوگراف، خاکے اور مارکہ استعمال کرتے ہوئے نئے design بنانا چہ جایئکہ خود بنائیں جائیں۔
اگرکسی اور کا بنایا خاکہ نقل (کاپی) کیا جا رہا ہے جس کے بنانے میں بذات خود کوئی کردار نہیں تو ایسی صورت کے تین پہلو ہیں:
۱- جب استعمال حرام ہے: اگر کاپی کیے گئے خاکہ کا استعمال عبادت گاہوں کے لیے یا عبادت کے لیے استعمال ہونے والی اشیاء کے لیے ہو جیسے کہ جائے نماز، یا مسجد کے اندر استعمال کے لیے پردے یا مسجد کے لیے اشتہاری مواد وغیرہ تو ایسے عمل کی ممانعت(حرام) ہے اور یہ جائز نہیں۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ،امام احمدؒ ابن عباس ؓ سے روایت کرتے ہیں:
« أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا رَأَى الصُّوَرَ فِي الْبَيْتِ يَعْنِي الْكَعْبَةَ لَمْ يَدْخُلْ وَأَمَرَ بِهَا فَمُحِيَتْ »
"جب رسول اللہ ﷺ نے گھر میں یعنی کعبہ میں تراشیدہ خاکے دیکھے تو آپ ﷺ اندر داخل نہیں ہوئے اوران کو ہٹا دیے جانے کا حکم دیا جس پر ان کو ہٹا دیا گیا۔"
اگر سوال کرنے والا ان خاکوں کوعبادت گاہوں میں استعمال کے علاوہ کسی اور استعمال کے لیے دوسروں سے کاپی کرتا ہے تو اس کے جائز ہونے کی دلائل یہ ہیں:
۲- کراہت کے ساتھ: اگرکاپی کیے گئے خاکے کوکسی جگہ کی تزئین اور زیبائش کے لیے استعمال کرنا ہے جیسے کہ گھر کے لیے پردے یا کسی ثقافتی مرکزکی توجہ طلبی کے لیے یا قمیض اور لباس پر، یا پھر اسکول اور کتب خانوں کے لیے، یااشتہاری مواد کے لیے جو کسی عبادت سے منسلک نہیں ،یا کمرے میں سب سے ممتاز آرائش یا کسی لباس کی خوبصورتی کو عیاں کرنے کے لیے ہو وغیرہ ایسے سب استعمال مکروہ ہیں۔
3- جب مباح ہو:جب ان خاکوں کا استعمال عبادت گاہوں اورایسا استعمال جس میں تعظیم و توقیرکا پہلو نہ ہو جیسے کہ گدیلے اور گاؤتکیے جن پر لوگ سوتے ہیں اور ٹیک لگاتے ہیں یا راستے میں پڑے قالین یا فرش پر جوکہ پاؤں کے نیچے روندے جاتے ہیں کے لیے ہو تو ایسا استعمال مباح ہے۔ اس کے لیے دلیل یہ ہے کہ، امام مسلمؒ نے ابو طلحہؓ سے روایت کیا کہ وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا:»لا تدخل الملائكة بيتاً فيه كلب ولا صورة« "فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتا ہو یا خاکہ ہو۔"
امام مسلم ؒ سے ہی ایک اور روایت میں»إلا رقماً في ثوب«"سوائے کپڑوں پر چھپائی کے" کا اضافہ ہے۔ یعنی کہ کپڑوں پر بنے خاکے اس حکم سے مستثنٰی ہیں اور ملائک جس گھر میں تصویر والے کپڑوں ہوں وہاں آتے جاتے ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ کپڑوں پر بنی تصاویر جائز ہیں کیونکہ ملائک ایسے گھروں میں آتے ہیں جن میں ایسے کپڑے موجود ہوں۔ اس بات کی اباحت کی وضاحت میں احادیث یہ ہیں، امام بخاریؒ نے امّ المؤمنین بی بی عائشہؓ سے روایت کیا :
«دَخَلَ عَلَيَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفِي الْبَيْتِ قِرَامٌ فِيهِ صُوَرٌ فَتَلَوَّنَ وَجْهُهُ ثُمَّ تَنَاوَلَ السِّتْرَ فَهَتَكَهُ»
"ایک بار رسول اللہ ﷺ گھر تشریف لائے جبکہ گھر میں ایک پردہ پر تصاویر تھیں ( کسی جانور کی) تو رسول اللہ ﷺ کا چہرہ مبارک غصہ سے سورخ ہو گیا اور پردہ کو لے کر اسے پھاڑ کر ٹکڑے کر دیے۔ "
اس حدیث میں پردہ کے لیے لفظ "قرام" استعمال ہوا ہے۔ اور یہ ایسے کپڑے کے لیے استعمال ہوتا ہے جو گھر کے دروازے پر پردہ کے طور استعمال ہوتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے چہرہ کا رنگ متغیرہو نا اور اس پردہ کے ہٹا دینے کا عمل اس بات کی طرف دلالت کرتا نظر آتا کہ جیسے گھر کے دروازے پر تصاویر والا پردہ ہٹا دینا کا حکم دیا جا رہا ہے۔ لیکن اس معمالہ کو جب فرشتوں کے ایسے گھر میں داخلہ جس میں تصویر والے لباس ہوں کے سیاق و سباق میں دیکھا جائے تو اس امر کی طرف دلالت ملے گی کے گھر کے دروازے پر سے پردہ ہٹا دینے کا عمل طلب جاذم کے زمرے میں نہیں آئے گا بلکہ ان دونوں احادیث کو اکھٹا دیکھنے سے ایسے پردے کی موجودگی مکروہ ٹھری۔ مزید برآں کیونکہ پردہ گھر کے دروازہ پر لٹکایا گیا تھا جو تعظیم و توقیر کی جگہ ہے اور ہٹا دیا گیا چنانچہ ہر تعظیم و توقیر والی جگہ پر تصویر کا آویزہ کیا جانا مکروہ ہے۔
ابو ہریرہؓ سے روایت کردہ حدیث جس کا استخراج امام احمدؒ نے کیا جو جبریل الامینؑ کا رسول اللہ ﷺ کے لیے کلام ہے:
« وَمُرْ بِالسِّتْرِ يُقْطَعْ فَيُجْعَلَ مِنْهُ وِسَادَتَانِ تُوطَآَنِ »
"ان سے کہہ دیجیے کہ اس پردہ کو کاٹ کر دو گدیلے بنا دیں جس پر پھر یہ بیٹھا کریں ۔"
اس طرح جبریلؑ الامین نے رسول اللہ ﷺ سے پردہ کو تعظیم والی جگہ سے ہٹا کربیٹھنے کے لیے دو گدیلے بنوانے کا کہا۔ یہ اس بات کا مباح ہونے کے لیے قرینہ ہے یعنی کسی اور کی بنائی تصویر کا ایسی جگہ استعمال جو تعظیم نہ رکھتی ہو مباح ہے۔
سوال نمبر پانچ اور چھ
-
رہنمائی کے لیے نشان کے طور استعمال ہونےوالی اشیاء میں ان خاکوں کا بنانا جن میں انسان یا جانور موجود ہوں جیسے کہ ٹریفک کی رہنمائی کے لیے نشانات مثلاً پیدل سڑک پار کرنے کی جگہ کی نشاندہی کرنے کے لیے علامت یا آگ کی صورت میں ہنگامی مخرج کی پہچان کے لیے نشان یا اسی طرح کسی جگہ کتا ٹہلانے کی ممانعت کے لیے نشان یا علامت۔
-
ایسے خاکوں کا بنانا جس میں انسانی یا حیوانات کے جسموں کے اعضاء کی عکاسی ہوتی ہو مثلاً اشارہ کرتی ہوئی انگلی یا ملاتے ہوئے ہاتھ یا گھوڑے کے سر وغیرہ
ان دو سوالوں کے جواب درج ذیل ہیں۔
اگر بنائے گئے خاکے کسی ذی روح جاندار کے ہیں تو ممنوع ہیں۔ یہ اس لیے کہ احادیث میں ذی روح جاندار کی تصویر کشی کے لیے ممانعت ہے اور اس ممانعت کا اطلاق سب پر ہے چاہے مکمل جسم کا خاکہ ہو یا جسم کے اوپری آدھے حصے کا یا سر کو دوسرے اعضاء جیسے کہ ہاتھ اور اس جیسے دوسرےاعضاء سے جوڑا گیا ہو جن کی ہیئت صاف اور واضح ہو۔
لیکن اگر یہ نشانات کسی زندہ وجود کی طرف دلالت نہیں کرتے جیسے کہ خالی ہاتھ کا خاکہ یا انگلی جوکسی چیز کی طرف اشارہ کر رہی ہویا ملتے ہوئے دو ہاتھ وغیرہ تو پھرخاکوں سے متعلق ممانعت کا اطلاق ایسے خاکوں پر نہیں ہوگا۔
جہاں تک صرف سر کا تعلق ہے جس کو واضح اعضاء کے ساتھ نہیں جوڑا گیا تو اس معاملے میں فقہاء میں اختلاف ہے۔ غالب رائے ایسے خاکے جن میں بغیردیگر اعضاءکے صرف سر بنایا گیا ہو کے جائز ہونے کی ہے۔ یہ اس لیے کہ احادیث میں بتوں کے سر ہٹا دینے کے احکام ہیں تاکہ وہ درختوں کی مانند ہو جائیں جیساکہ ابو ھریرہؓ سے روایت ہے جس میں جبریلؑ الامین نے رسول اللہ ﷺ سے کہا :»فمر برأس التمثال الذي في باب البيت فليقطع ليصير كهيئة الشجرة«" اگر بتوں کے سر کاٹ دیے جائیں توپھر ان کی موجودگی حرام نہیں۔ " گھر کے دروازے پر موجود بت کے سر کاٹ دینے کا حکم کیجیے تا کہ بس ایک درخت کی طرح رہ جائے " ۔
اور جیسے کہ ایک اور حدیث میں روایت کیا گیا :
«... فَمُرْ بِرَأْسِ التِّمْثَالِ يُقْطَعْ فَيُصَيَّرَ كَهَيْئَةِ الشَّجَرَةِ...»
"سر کاٹ دینے کا حکم کریں تاکہ یہ درخت کی مانند ہو جائیں" (امام احمدؒ نے استخراج کی)
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ صرف سر اور باقی جسم دو علیحدہ حکم رکھتے ہیں اور دونوں حرام نہیں ہیں۔
یہ استدلال نہیں کیا جا سکتا کہ یہ جواز صرف باقی ماندہ مجسمہ کے لیے ہے یعنی ایسا مجسمہ جس کا سر کاٹ دیا گیا ہو اور حرمت صرف اس سر کے لیے برقرار رہے۔ یہ اس لیے کہ جبریلؑ الامین نے رسول اللہ ﷺ سے سر کاٹ کر جدا کرنے کا فرمایا یعنی یہ کہ کاٹنا جائز ہوا چنانچہ اس کاٹنے کے عمل کا حاصل(یعنی سر اور تن) بھی جائز ٹہرا۔
یہ جان لینا بھی اہم ہے کہ حنبلی اور مالکی حضرات صرف سر کا خاکہ بنانے کے جواز کے قائل ہیں جبکہ شافعی حضرات اس معاملے میں اختلاف کرتے ہیں اور اکثر شافعی فقہاء سر کی خاکہ کشی کی ممانعت کے قائل ہیں لیکن ان میں کچھ اس کی اجازت بھی دیتے ہیں۔
سوال سات اور آٹھ
-
انسانوں اور جانوروں کے ایسے خاکے جو حقیقت پر مبنی نہ ہوں جیسے کارٹون
-
دیو مالائی کردارجو حقیقت میں وجود نہیں رکھتے ان کے خاکے
ان سوالوں کا جواب یوں ہے کہ اگر ان خاکوں میں کسی جاندار وجود(ذی روح) کو دکھایا گیا ہے بھلے حقیقت پر مبنی نہ ہوں تو ان کے لیے ممانعت کا حکم ہے جیسا کہ ممانعت والی حدیث میں مذکور ہے۔ ام المؤمنین بی بی عائشہؓ نے روایت کیا جسے امام مسلمؒ نے استخراج کیا:
« قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ سَفَرٍ وَقَدْ سَتَّرْتُ عَلَى بَابِي دُرْنُوكًا فِيهِ الْخَيْلُ ذَوَاتُ الْأَجْنِحَةِ فَأَمَرَنِي فَنَزَعْتُه »
" اللہ کے رسول ﷺ ایک سفر سے واپس تشریف لائے اور میرے دروازے پر ایسے کپڑے سے پردہ تھا جس پر پروں والے گھوڑوں کے نقش تھے۔ آپ ﷺ نے مجھے اسے اتار دینے کا حکم دیا اور میں نے اسے ہٹا دیا۔"
حدیث میں لفظ " دُرْنُوكًا" استعمال ہوا جو کے کپڑے کی ایک قسم کے لیے بولا جاتا ہے۔
ثانیاً: ان چیزوں کی بابت سوال جو تراش خراش سے بنے ہوں جیسے کہ بت۔
-
زندہ اشیاء کے مجسمے بچوں کے کھیلونوں کے:
دلائل یوں ہیں
امام احمدؒ نے ابو یریرہؓ سے روایت نقل کی: »أتاني جبريل عليه السلام فقال:
«إني كنت أتيتك الليلة فلم يمنعني أن أدخل عليك البيت الذي أنت فيه إلا أنه كان في البيت تمثال رجل... فمر برأس التمثال يقطع فيصير كهيئة الشجرة... ففعل رسول الله »
"جبریلؑ الامین میرے پاس آئے اور فرمایا کہ میں کل آیا تھا اور مجھےآپ ﷺ کے گھر میں داخل ہونے میں کوئی چیز مانع نہیں تھی بجزاس کہ کے دروازے پر ایک انسانی بت موجود تھا۔ اس بت کاسر کاٹ کر ہٹا دیں تاکہ درخت کی مانند ہو جائے۔اور رسولِ اکرم ﷺ نے ایسا ہی کیا۔"
اور ابن عباسؓ سے روایت کی ہے کہ ایک شخص ابن عباس ؓ کے پاس آیا اور کہا :
« كل مصور في النار، يُجعل له بكل صورة صورها نفس تعذبه في جهنم، فإن كنت لا بد فاعلاًفاجعل الشجر وما لا نفس له...»
" میں یہ خاکے بناتا ہوں ان کے بارے کیا حکم ہے۔ اس پر ابن عباسؓ نے کہا میرے قریب آؤ جس پر وہ شخص قریب آیا اور ابن عباسؓ نے ان کے سر پر ہاتھ رکھا اور کہا کہ میں تم سے وہ کہوں گا جو میں رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہر مصور(ذی روح وجود کے خاکے بنانے والا) آگ میں داخل ہو گا۔ ہر وہ خاکہ جو اس نے بنایا ہو گا اس میں روح ڈال دی جائے گی جو پھر آگ میں اس کو عذاب دیتے رہے گی۔ اگر تمہیں یہ ہی کرنا ہے تو پھر درختوں اور ان اشیاءکے خاکے بناؤجن میں روح نہیں۔"
عربی لغت میں"تصویر" کا مطلب کسی چیز کا خاکہ بنانا ہے اور اس میں مجسمے اور بت بھی شامل ہیں۔ کوئی خاکہ یا مجسمہ عربی میں "صورۃ" کہلاتے ہیں اور اس کی جمع "صور"ہے عربی لغت میں "تصاویر" بھی استعمال ہوا ہے اور اس کے معنوں میں بھی بت شامل ہیں۔
رسول اللہ ﷺ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ حضرت علیؓ کو ایک محاذ پر بھیجا اور فرمایا :»لا تذر تمثالاً إلا هدمته...«" ہر بت تباہ کر دو۔" (امام مسلمؒ)
چنانچہ ہرزندہ ذی روح کی تصویربنانا(ہاتھ سے) حرام ہے چاہے بت ہو یامجسمہ یا خاکہ اور چاہےاس کا سایہ بنتا ہو یا نہیں ۔
اس حرمت میں استثنا صرف ان تصاویر/خاکوں کے لیے ہے جو بچوں کے لیے ہیں جیسے بچوں کے لیے کارٹون یا خاکے یا خیالی تصاویر، یا جو ان بچوں کی تفریح کے لیے یا فرصت کے اوقات یا توجہ ہٹانے کے لیے استعمال ہوں۔ یہ سب جائز ہیں اور ان کے جواز کے لیے دلائل یوں ہیں،
ابوداؤدؒ نے ام المؤمنین بی بی عائشہؓ سے روایت کی :
« قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ غَزْوَةِ تَبُوكَ أَوْ خَيْبَرَ وَفِي سَهْوَتِهَا سِتْرٌ فَهَبَّتْ رِيحٌ فَكَشَفَتْ نَاحِيَةَ السِّتْرِ عَنْ بَنَاتٍ لِعَائِشَةَ لُعَبٍ فَقَالَ مَا هَذَا يَا عَائِشَةُ قَالَتْ بَنَاتِي...»
"جب رسول اللہ ﷺ غزوۃ تبوک یا خیبر سے واپس تشریف لائے توان کی کوٹھڑی کے دروازے پر لٹکا پردہ ہوا کے جھونکے سےہٹ گیا اور وہاں پڑیں گڑیاں ظاہر ہو گئیں۔ تو رسول اللہ ﷺ نے پوچھا اے عائشہؓ یہ کیا ہے؟ آپؓ نے کہا میری لڑکیاں(یعنی گڑیا)۔"
اور امام بخاریؒ نے ام المؤمنین بی بی عائشہؓ سے روایت کی کہ "میں رسول اللہ ﷺ کی موجودگی میں گڑیوں سے کھیلا کرتی تھی" یعنی آپؓ کھیلونوں سے کھیل رہیں تھیں جن کی شباہت لڑکیوں جیسی تھی۔
مزید برآں امام بخاریؒ نے ربیعَ بنتِ معوذ الانصاریؓ سے روایت نقل کیا:
«...وَنَجْعَلُ - وفي رواية مسلم ونصنع - لَهُمْ اللُّعْبَةَ مِنْ الْعِهْنِ فَإِذَا بَكَى أَحَدُهُمْ عَلَى الطَّعَامِ أَعْطَيْنَاهُ ذَاكَ حَتَّى يَكُونَ عِنْدَ الْإِفْطَارِ»
"ہم بنایا(جعلنا) کرتے تھے اور امام مسلمؒ سے روایت کردہ حدیث میں(نصنع) ہے کہ ہم اون سے لڑکوں کے لیے کھیلونے بنایا کرتے تھے اور جب کبھی یہ کھانا مانگنے کے لیے روتے تھے تو ان کو یہ کھیلونے دے دیتے تھے تا آنکہ روزہ کھلنے کا وقت ہو جائے۔"
یعنی روزہ کھلنے کے وقت تک کھیلونوں سے ان کا دل بہلانے کے لیے۔
یہ سب احادیث بچوں کے کھیلونوں کے جواز کے لیے دلیل ہیں بھلے یہ کھیلونے ایسی شکل و صورت رکھتے ہوں جو ذی روح جاندار کی ہوں۔تو پھرباب اولٰی کے اصول کے تحت سطحی سپاٹ تصاویرجائز ٹہریں۔
امید ہے آپ کو آپ کے سوالات اور ان سے متعلقہ امور کا جواب مل گیا ہو گا۔
آپ کا بھائی
عطاء بن خلیل ابو الرشتہ
20 جمادی الثانی 1438 ھ
19 مارچ 2017 ء