الثلاثاء، 24 جمادى الأولى 1446| 2024/11/26
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

طالبان کو لازمی طور پر ''ذلت آمیز مذاکرات‘‘کو مسترد اور پاکستان اور افغانستان میں خلافتِ راشدہ کے قیام کی حمائت کا اعلان کرنا چاہیے

گذشتہ ہفتے تحریک طالبان نے موجودہ دسمبر کے مہینے میں پیرس میں ہونے والی افغانستان کانفرنس میں شرکت کی تصدیق کی تاہم اس بات کا کوئی ذکر نہیں کیا کہ وہ افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کریں گے یا نہیں۔تحریک طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا''اس کانفرنس میں طالبان عالمی برادری کے سامنے اپنا موقف پیش کریں گے اورہم اپنے دو نمائندے بھیجیں گے ۔اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ اس کانفرنس میں کسی سے کوئی بات چیت نہیں کی جائے گی۔یہ ایک تحقیقی کانفرنس ہے ،طالبان کے نمائندے اس کانفرنس میں شرکت صرف دنیاکے سامنے ہمارا نقطہ نظر براہ راست پیش کرنے کی غرض سے کر رہے ہیں‘‘۔انہوں نے مزید کہا کہ تحریک کو لوگوں کی حمایت حاصل ہے اورامریکہ نے اس حقیقت کو تسلیم کر لیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ''طالبان کوئی چھوٹی موٹی تحریک نہیں بلکہ اس کی جڑیں عوام میں ہیں۔امریکہ طالبان کو ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کر چکا ہے‘‘(The International News 11/12/2012)۔

افغانستان کے حوالے سے یہ بین الاقوامی کانفرنس امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لیے پریشان کن صورت حال میں منعقد ہو رہی ہے،کیونکہ امریکہ اور اس کے اتحادی افغانستان کی دلدل سے نکلنے کے لیے حل ڈھونڈ رہے ہیں۔'' امن کے عمل کا روڈمیپ2015‘‘ کے نام سے اس منصوبے کے پانچ مراحل ہیں،یہ وہی تجاویز ہیں جو پاکستان اور افغانستان نے امریکہ کی سرپرستی میں پیش کیں تھیں۔اس منصوبے کا بنیادی مقصد طالبان اور ان سے منسلک دوسرے مسلح گروہوں کو مزاحمت سے مکمل دستبر دار ہونے کی شرط پر حکومتی ڈھانچے میں شامل ہونے کی طرف مائل کرناہے۔McClatchy News نے اس کا خلاصہ یوں بیان کیا ہے کہ''امن مذاکرات کے نتیجے میں افغان دستور کی قبولیت کا اعلان لازمی ہے۔۔۔اور مذاکرات کے نتیجے میں طالبان اور دوسرے مسلح گروپوں کو القاعدہ اور دوسری دہشت گرد تنظیموں سے مکمل قطع تعلق کرنا پڑے گااورممکن حد تک تشدد سے دستبرداری کا اعلان کرنا پڑے گا۔۔۔ امن کی کوششوں کے لیے علاقائی ممالک اور بین الاقوامی برادری لازمی حمائت کرے گی‘‘(افغانستان میں امن کا عمل اور 2015 کا روڈمیپ McClatchy News Online 13 دسمبر2012)۔

اگرچہ ہمیں معلوم ہے کہ طالبان کی قیادت کوئی ایک گروہ نہیں کررہالہذاکوئی ایک گروہ پوری تحریک کا نمائندہ ہونے کا دعوی بھی نہیں کرسکتا اور یہ بات بھی ہمارے علم میں ہے کہ سب نہیں تو تحریک کے اکثر گروہ استعماری مغربی ریاستوں سے ہر قسم کے مذاکرات کو رد کرچکے ہیں،تاہم یہ سمجھنا انتہائی مشکل ہے کہ وقت،سرمایہ اور لاکھوں لوگوں کا خون دینے یعنی اتنا کچھ قربا ن کردینے کے بعد بھی بعض طالبان اس قسم کے امن مذاکرات کے متعلق سوچنا بھی گوارا کریں گے۔ ہرلحاظ سے اس امن منصوبے کا واحد مقصد خطے میں امریکہ کی لڑکھڑاتی بالادستی اور افغان حکومت میں اس کی کٹھ پتلیوں کی حفاظت کرنا ہے ۔

لہذااس میں کوئی شک نہیں کہ یہ منصوبہ ان لاتعداد افغان شہریوں کے خون کی توہین ہے جنہوں نے اپنے دین اسلام کی محبت میں اپنی زندگیاں قربان کیں۔یہ ان ہزاروں شہداء اور مجاہدین کی بھی توہین ہے جنہوں نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جس کی وجہ سے وہ آج چہرہ چھپا کر نکلنے کا راستہ ڈھونڈ رہے ہیں۔اس لیے ان مذاکرات میں شرکت ، بات چیت کرنااوراس منصوبے پر دستخط کرنا جس میں افغان دستور کے احترام کو لازمی قرار دیا گیا ہو اللہ سبحانہ وتعالی،اس کے رسول ﷺ اور امت کے ساتھ خیانت ہے،اللہ تعالی کا ارشاد ہے

(فَلَا تَہِنُوا وَتَدْعُوا إِلَی السَّلْمِ وَأَنتُمُ الْأَعْلَوْنَ وَاللَّہُ مَعَکُمْ وَلَن یَتِرَکُمْ أَعْمَالَکُم)

''تم ہمت مت ہارواور صلح کی طرف مت بلاو ٗ تم ہی غالب رہو گے اللہ تمہارے ساتھ ہے اور تمہارے اعمال کو ہر گز برباد نہیں کرے گا‘‘(محمد :35)۔


اس قسم کے مذاکرات میں نہ صرف شرکت کرنا حرام ہے بلکہ یہ سیاسی نافہمی کی بھی انتہا ہے کیونکہ ان مذاکرات کے نتیجے میں صرف دشمن طاقتور ہوتا ہے اور کفار کو افغانستان پر بالادستی حاصل ہوتی ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالی فرماتے ہیں

( وَلَن یَجْعَلَ اللّہُ لِلْکَافِرِیْنَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ سَبِیْلا)

''اور اللہ کافروں کو ہرگز مسلمانوں پر غلبہ نہیں دے گا‘‘(النساء :141)۔

ہم حزب التحریر کامرکزی میڈیا آفس دین کے نصیحت ہونے کی بنیاد پر طالبان بھائیوں اور ان کے ساتھ جدوجہد کرنے والی دوسری جماعتوں کے سامنے یہ وضاحت کرتے ہیں:

افغانستان کا موجودہ دستور اور حالیہ افغان حکومت اور اس کا سیاسی ڈھانچہ غیر شرعی ہیں ۔ان کا اسلام سے کوئی واسطہ نہیں۔اس دستور کو استعماری طاقتوں نے اسلام کو نیچا دکھانے ، لوگوں کا استحصال کرنے اور اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے نافذ کیا ہے۔

1۔ واحد سیاسی ہدف صرف خلافت راشدہ کا قیام ہونا چا ہیے جس کے تحت خلیفہ کو اس بات پر بیعت دی جائے گی کہ وہ قرآن،سنت ،اجماع الصحابہ اور قیاس کی بنیاد پر حکومت کرے گا۔ اس کے علاوہ کسی بھی قسم کا سیاسی حل جو اس مقصد سے عاری ہو وہ غیر شرعی ہے۔
2۔ زندگی کے تمام شعبوں میں یعنی معیشت، سیاست،معاشرت اور خارجہ امور میں،صرف اسلام کا مکمل نفاذ ہونا چاہیے۔ اسلام کا جزوی نفاذ کسی بھی شکل و صورت میں مسترد کردینا چاہیے۔
3۔افغان حکومت کے کسی بھی عہدہ دار سے کسی بھی سمجھوتے کے لیے کسی قسم کے مذاکرات حق کو باطل کے ساتھ خلط ملت کر تا ہے،کیونکہ یہ افغانستان میں امریکہ کی ایجنٹ حکومت کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے۔ اگر ایسا ہے تویہ حق سے پیچھے ہٹنے اور باطل کی جانب پیروی کا پہلا قدم ہے،خواہ یہ پیرس میں''تحقیقی کانفرنس‘‘ میں شرکت کے پردے میں ہی کیوں نہ ہو جس میں افغان حکام اور طالبان کے نمائندے شرکت کر رہے ہیں۔اس قسم کی کانفرنسیں ہی خطرناک سیاسی گڑھے میں گرنے کی جانب پہلا قدم ہو تی ہیں۔۔۔
مذکورہ تجاویز کی پیروی کر کے طالبان بیک وقت دو پیغام دے سکتے ہیں:

پہلا:دنیا کو یہ پیغام جائے گا کہ طالبان حق پر ثابت قدم ہیں،وہ حق کے مقابلے میں کسی چیز پر راضی نہیں ہو ں گے۔دنیا یہ بھی جان لے گی کہ استعماری کفار کے منصوبوں سے طالبان کو دھوکہ دینا ممکن نہیں۔
دوسرا:امت مسلمہ کو یہ پیغام جائے گا کہ طالبان خلافت کے لیے کام کررہے ہیں تا کہ اسلام اور مسلمانوں کی کھوئی ہوئی عزت کو بحال کیا جائے۔

(ہَذَا بَلاَغٌ لِّلنَّاسِ وَلِیُنذَرُواْ بِہِ وَلِیَعْلَمُواْ أَنَّمَا ہُوَ إِلَہٌ وَاحِدٌ وَلِیَذَّکَّرَ أُوْلُواْ الأَلْبَاب)
''یہ لوگوں کے لیے واضح پیغام ہے اس سے ان کو ڈرنا چاہیے اور ان کو جاننا چاہیے کہ وہی اکیلا معبود ہے اور عقل والوں کو بھی نصیحت حاصل کرنی چاہیے‘‘۔(ابراھیم:52)

عثمان بخاش
حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے ڈائریکٹر

 

Read more...

خلافت کے داعی کا بیان سنگین مقدمات کے ذریعے شرمناک سیاسی انتقام حکمرانوں کے نظریاتی دیوالیہ پن کا منہ بولتا ثبوت ہے

السلام علیکم!

میرا نام محمد ارشد جمال ہے اور میں تین بچوں کا باپ ہوں۔ میں ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھتا ہوں، پیشہ کے اعتبار سے آئی ٹی کنسلٹنٹ ہوں اور گزشتہ دس برس سے معاشرے کی تعمیر میں اپنی صلاحیتوں کے ذریعے سے حصہ ڈال رہا ہوں۔

رواں سال 11 اگست 2012 کو مجھے ٹائون شپ تھانے کی حدود سے وہاں پر تعینات SHO نے اس وقت گرفتار کیا جب میں اپنی موٹر سائیکل چھڑوانے تھانے گیا تھا۔ تقریباَ 24 گھنٹے مجھے اسی تھانے کی ایک کوٹھڑی میں غیر قانونی حبسِ بےجا میں رکھا تا کہ ا مریکی جھولی میں بیٹھی سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں کے ماتحت ایجنسیاں اپنے ظرف کے مطابق مجھ پر طبع آزمائی کر سکیں۔ اس دوران جو دوست احباب مجھے ڈھونڈتے اس تھانے پہنچے ان سے میری موجودگی کے بارے میں جھوٹ بولا جاتا رہا اور انھوں نے اس گرفتاری کے واقعے سے لا تعلقی ظاہر کی۔

12 اگست 2012 کی شام میرے خلاف ایک عدد FIR درج کی گئی اور میرے چہرے پر نقاب ڈالے مجھے میڈیا کے سامنے اس انداز میں پیش کیا جیسے کسی کمانڈر کے قبضہ سے کوئی ٹینک برآمد ہوا ہو۔ اس FIR میں بغاوت اور دیگر دفعات کے علاوہ پاکستان آرمی ایکٹ کی وہ ناقابلِ ضمانت سنگین دفعہ (PAA Section ii (D) بھی شامل کی گئی کہ اگر کسی صورت حکام اپنا کوّا سفید ثابت کرنے میں کامیاب ہو جاتے تو میرے خلاف کورٹ مارشل تک کی کاروائی عمل میں لائی جا سکتی تھی جس کا ایک انجام یہ بھی ہو سکتا تھا کہ مجھے سزائے موت سنا دی جاتی۔ ابھی اس مقدّمہ کی کاروائی جاری تھی کہ مجھے ایک اور FIR کا مژدہ سنا دیا گیا جو اسی ہفتہ میں ڈیفنس کے ایک تھانے میں میرے خلاف درج کی گئی تھی جس میں شامل دفعات پہلے سے بھی زیادہ غضب ناک تھیں۔

یہ دو مقدّمات بھگتنے میں مجھے اڈھائی ماہ سے زائد کا عرصہ لگا اور بالآخر میں ان مقدّمات سے باعزت بری ہو گیا۔ میں اس انتقامی کاروائی کا محض ایک نشانہ ہوں۔ میرے خلاف یہ کاروائی اس رٹ کے جواب میں مجھے سبق سکھانے کے لئے عمل میں لائی گئی جو میں نے لاہور ہائی کورٹ میں ان حکام کے خلاف اس وقت دائر کی جب ان حکام کی طرف سے اغواء و تشدد اور قتل کی دھمکیوں کا وہ گھنائونا سلسلہ شروع ہوا جس میں عمران یوسفزئی جیسے باصلاحیّت نوجوانوں اور ڈاکٹر عبدالقیوم جیسے قابلِ احترام بزرگوں تک کو جبر و استبداد کا نشانہ بنایا گیا۔ ان جیسے کئی معزز شہریوں کی ایک فہرست موجود ہے جو ان حکام کے عتاب کا نشانہ بنے۔

ان کاروائیوں کی شرمناکی کی انتہا یہ ہے کہ ان حکام نے لوگوں کے گھروں کی چار دیواری کا تقدس پامال کرتے ہوئے بحث و مباحثہ کی ان نشستوں پر دھاوا بولنا شروع کر دیا جن میں ملکی و غیرملکی اہم سیاسی اور فکری موضوعات پر گفتگو کی جاتی اور قرآن و سنت کی روشنی میں مسائل کا حل پیش کیا جاتا۔ ان نشستوں کے شرکاء میں تاجر، اساتذہ، ڈاکٹرز، انجنئیرز، آئی ٹی ایکسپرٹ، پراپرٹی ڈیلرز، منیجرز، اکائونٹنٹ، طلباء اور معاشرے کے مختلف دھاروں سے تعلق رکھنے والے حضرات شامل ہوتے۔ ان حضرات کو گرفتار کر کے میڈیا کے سامنے ایک تحقیر آمیز میں پیش کر کے انکی عزتِ نفس کو مجروح کیا گیا۔ کسی کی ملازمت گئی تو کسی کو کاروباری نقصان ہوا اور کسی کی تعلیم کا حرج ہوا۔

معاشرے کے ان ذمہ دار افراد کو محض اس لئے ریاستی ظلم و جبر کا نشانہ بنایا گیا کیونکہ یہ معاشرے میں ایک حقیقی تبدیلی کے خواہاں ہیں اور جان چکے ہیں کہ یہ تبدیلی خلافتِ راشدہ کے بغیر ممکن نہیں اور اس خلافتِ راشدہ کے دوبارہ قیام کے لئے حزب التحریر جیسی اس نظریاتی جماعت سے وابستہ ہوئے کہ دنیا بھر کے حکمران ریاستی طاقت کے زورکے باوجود جس کے فکری و سیاسی چیلنج کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہیں۔ ایک ایسی پر امن جماعت جس پر محض امریکی خوشنودی کی خاطر جنرل مشرف نے 2003 میں پابندی لگا دی کیوں کہ حزب التحریر اس امریکی وفادار کی بزدلی اور خیانتوں کو بے نقاب کر رہی تھی۔ اس پابندی کی آڑ میں اس جماعت اور اس سے وابستہ افراد کے خلاف حکمرانوں کا قبیح پروپیگنڈا مسلسل جاری ہے۔ پہلے حربے کے طور پر اس پر مذہبی منافرت، فرقہ وارئیت اور اشتعال انگیزی پھیلانے کے بے سروپا الزامات لگائے گئے اور آخری حربے کے طور پر فوج جیسے ملکی سالمیت کے اہم ترین ادارے میں انتشار اور اسے کمزور کرنے کے مکروہ ترین الزامات لگائے جا رہے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ حزب التحریر وحدت پر مبنی ایک ایسی ریاست خلافت کے قیام کی طرف دیکھ رہی ہے جو مسلم ممالک کے درمیان ان مصنوعی سرحدوں کا خاتمہ کرے گی اور جس میں رنگ، نسل، مذہب اور علاقائی وابستگی سے قطع نظر تمام شہریوں کو یکساں حقوق حاصل ہونگے۔ پھر یہ ریاست ان آفاقی نظریات کو دنیاپر پیش کرے گی۔

حزب التحریر ایک ایسی ریاست کی سوچ دیتی ہے جس کی حکمرانی مضبوط ترین لیکن قابل ِگرفت ہوگی۔ جسکی معیشت غربت میں کمی نہیں بلکہ اس کا خاتمہ کرے گی۔ جس کا معاشرہ عزت و غیرت کا پیکر ہو گا۔ جس کی عدلیہ فوری انصاف فراہم کرے گی۔ جسکا تعلیمی ڈھانچہ دنیا کے قابل ترین افراد پیدا کرے گا اور جس کی خارجہ سیاست ایک New World Order کی بنا ڈالے گی اور جس کی فوج کشمیر، افغانستان، فلسطین اور تمام مقبوضہ مسلم علاقوں کو کفار کے شکنجے سے نجات دلائے گی۔ یہ تمام اقدامات امریکہ کی موجودہ سیاسی و اقتصادی چودھراہٹ کیلئے ناقابلِ برداشت دھچکا ہوں گے۔ یہ واضح خطرات ہی مغرب کے لئے وہ حقیقی چیلنج ہونگے جس سے پیشگی نمٹنے کے لئے حزب التحریر پر آج ہر اس ملک میں پابندی ہے جہاں سے حزب التحریر کے زیرِقیادت خلافتِ راشدہ کا دوبارہ احیاء ہو سکتا ہے۔ مغرب بالخصوص امریکہ آج سپین سے انڈونیشیا اور بنگلہ دیش سے مراکش تک ان خطرات کو بڑی شدّو مد کے ساتھ محسوس کر رہا ہے۔

پاکستان اسلام کی خاطرحاصل کیا گیاتھا امریکی مفادات کی خاطر نہیں۔ پاکستان کا مطلب کیا لا الٰہ الاللہ وہ نعرہ تھا جس کیلئے ہمارے اسلاف نے اپنی عزت، جان اور مال سمیت سب کچھ دائو پہ لگا دیا۔ اسکی جڑوں کو ہمارے اسلاف نے اپنے خون سے سیراب کیا تھا۔ تو پھر ایک ایسے ملک میں اسلام کے نفاذ کی بات کرنا جرم کیوں؟

ہمیں اس لئے اغواء و تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے کہ ہم حکام کو روزِ حشر کا وہ بھاری دن یاد کراتے ہیں جس دن بڑے سے بڑا غدار اپنے جھنڈے کی اونچائی سے پہچانا جائے گا۔ ہمیں اس لئے مقدمات کے ذریعے سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جاتا ہے کہ ہم سیاسی دیوالیہ پن کا شکار ان حکام کا کڑا محاسبہ کرتے ہیں۔ ہمیں اس لئے تحقیر کا نشانہ بنایا جاتا ہے کہ ہم اسلام سے محبت کرتے ہیں اور اسلام سے نفرت کرے والے سے نفرت کرتے ہیں۔

میں آپ سے پوچھتا ہوں کیا ایک ایسے ملک میں اسلام کے ان آفاقی تصورات، اسلام کے سیاسی نظام اور خلافت راشدہ کے دوبارہ قیام کے ذِکر پر پابندی ہونی چاہئے؟ کیا پاکستان میں مغرب بالخصوص امریکہ کے ساتھ گٹھ جوڑ اورپسِ پردہ سازشوں کے پردوں کو چاک کرنے پر پابندی ہونی چاہئے؟ یاان کی سازشوں میں شریک سیاسی و عسکری قیادت میں موجود غداروں کی خیانتوں کو بے باکی سے بے نقاب کرنے پر پابندی ہونی چاہیے؟

حزب التحریر یہ تمام کام پر امن سیاسی جدوجہد کے ذریعے کرتی ہے۔ کیا حزب التحریر پر پابندی ہونی چاہیے؟

اتمامِ حجت کے لئے میں مطالبہ کرتا ہوں۔

1. آج کے اس آزاد میڈیا سے کہ وہ حزب التحریر پر پابندی کے اس بودے پن کو بے نقاب کرے اور اسے بھی اپنے نظریات کو پیش کرنے کا پورا پورا حق دے۔

2. انسانی حقوق کی تنظیموں سے کہ وہ حزب التحریر پر پابندی کے خلاف بھی اپنے روائتی انداز میں مہم چلائیں کہ جس کی وجہ سے اس سے وابستہ افراد اپنے بنیادی شہری حقوق تک سے محروم کر دئیے جاتے ہیں۔

3. عدلیہ سے کہ وہ نہ صرف ان جھوٹے مقدمات کی عدالتی تحقیقات کا حکم دے بلکہ اس نوٹیفیکیشن کو کالعدم قرار دے جو حزب التحریر پراس غیر منصفانہ پابندی کا سبب ہے۔

4. میں قانون نافذ کرنے والے اور حساس اداروں کے اہلکاروں کو یہ یاد کراتا ہوں کہ اب جبکہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ عسکری وسیاسی قیادت میں موجود غدار امریکہ کی جھولی میں بیٹھی آپکو احکامات دے رہی ہے، روز حشر آپ کے کسی افسرِ بالا کا آرڈر اور نہ ہی ایسی کوئی وضاحت کوئی معنی رکھے گی کیونکہ ارشادِ نبوی ﷺ ہے۔

فإن أُمِرَ بمعصية فلا سمع ولا طاعة

اگر معصیت کا کام کرنے کا حکم دیا جائے تو وہ نہ تو سنے اور نہ ہی اطاعت کرے (اس حدیث کو مسلم نے روایت کیا)

اس وقت جب میں یہ تحریر رقم کر رہا ہوں۔ میرے اوپر بیٹھے بیٹھے کم از کم ایک اور مقدمہ کا انکشاف ہو چکا ہے۔ جو انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں چلایا جائے گا۔ اور اس تحریر کے شائع ہو جانے کے بعد اس حق گوئی کی پاداش مزید میں کتنے مقدمات میرے خلاف کھڑے کر دیئے جائیں گے معلوم نہیں۔

پاکستان میں حزب التحریر کا میڈیا آفس

Read more...

ترجمان کے اغوا کا مسئلہ خاندان کا نوید بٹ کی فوری بازیابی کا مطالبہ

السلام علیکم!

آج نوید بٹ کو اغواء ہوئے 7 مہینے سے زائد عرصہ ہو چکا ہے۔ اس دوران رمضان کا با برکت مہینہ گزرا، مسلمانوں کی دو عیدیں گزریں مگر ان ظالم حکمرانوں کو نہ رمضان کے تقدس کا خیال آیا اور نہ ہی عیدوں کا لحاظ کہ یہ رمضان اور یہ عیدیں نوید بٹ کے اہلِ خانہ اور ان کے بچوں کے لئے کیسی تھیں۔ نوید بٹ جو کہ ایک انجینئر ہیں انہوں نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے نظا مِ خلافت کے نفاذ کے لئے اپنی پوری زندگی وقف کر دی۔ جو لوگ بھی نوید بٹ کو جانتے ہیں اور ان سے مل چکے ہیں، چاہے ان کا تعلق میڈیا سے ہو یا سیاست سے، اچھی طرح اس بات کو جانتے ہیں کہ نوید بٹ کی جدوجہد صرف سیاسی اور فکری نوعیت تک محدود تھی اور وہ خلافت کے نفاذ کے لئے کام کرنے والی سیاسی جماعت کا عسکری جدوجہد کرنے کو نبی ﷺ کے طریقے سے متصادم سمجھتے تھے۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ نوید بٹ بہادری سے عصرِحاضر میں کلمہِ حق کو بلند کرنے میں کسی خوف کے بغیر مسلسل مصروف رہے اور اس دوران انہوں نے قلم اور تقریر کے سہارے اپنی جدوجہد کو جاری رکھا۔ اسلام کے اس داعی کو آج سے سات مہینے پہلے، اس کے بچوں کے سامنے اغواء کیا گیا اور تاحال ان کی خیریت کی کوئی خبر نہیں۔ مزید برآں، اب ان ہرکاروں نے ان کے خاندان کے لوگوں کو خاموش رکھنے کے لئے ان پر دبائو ڈالنا اور ان کو ہراساں کرنا شروع کر دیا ہے، یہاں تک کہ ان کے ایک بھانجے کو اغواء کرنے کی کوشش کی گئی اور ان پر گولیاں تک چلا دی گئیں، اور ایک بھانجے کے گھرپر ان کی والدہ اور بچوں کے سامنے چھاپہ مارا گیا۔

ہم، نوید بٹ کے قریبی اہلِ خانہ اور رشتہ دار اس افسوسناک صورتحال پر شدید غصہ کا اظہار کرتے ہیں اور اہلِ خرد اور احساس رکھنے والوں سے یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا اسلام کے نظام کے لئے بلانا اتنا بڑا جرم ہے کہ ایک جیتے جاگتے انسان کو مہینوں تک غائب کر دیا جائے؟ ہم انسانی حقوق کے علمبرداروں سے یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا حکمرانوں کا احتساب کرنا اور ان کے غلط فیصلوں پر ان سے سوال کرنا اتنا بڑا جرم ہے کہ اس ملک کے قانون سے بالاتر ہو کر ایک شخص کو اپنا وکیل کرنے جیسے بنیادی حقوق سے بھی محروم کر دیا جائے؟؟ اور ہم ان حکمرانوں سے سوال کرتے ہیں کہ کیا انہوں اللہ کا خوف نہیں؟ کیا وہ یہ ایمان نہیں رکھتے کہ اس مختصر زندگی کے بعد ایک دن انہیں اللہ کے حضور اپنے ان اعمال کا جواب دینا ہوگا؟ کیا وہ سمجھتے ہیں کہ نوید بٹ کو غائب کر کے وہ اللہ کے دین کے نفاذ کو روک لیں گے؟

ہم اعلان کرتے ہیں کہ نوید بٹ کی قربانی اور ان کے خلاف جو ناانصافی کی گئی ہے، اِس نے اُن سب کو جو نوید کو جانتے ہیں اور اُن سے محبت کرتے ہیں، خلافت کی جدوجہد کے لئے اور زیادہ متحرک کر دیا ہے اور ہم پہلے سے زیادہ مضبوطی سے ان تمام لوگوں کے ساتھ کھڑے ہیں جو خلافت کے قیام کے لئے دنیا بھر میں کام کر رہے ہیں۔ ہم شدید ترین مطالبہ کرتے ہیں کہ نوید بٹ کو فوری بازیاب کروایا جائے اور ان کو اغواء کرنے والوں کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے۔ ہم پاکستان کے مسلمانوں کو پکارتے ہیں کہ وہ ہمارے ساتھ کھڑے ہوں تاکہ مسلم امت دوبارہ اسلامی ریاست، خلافت کے ذریعے اپنا کھویا ہوا وقار حاصل کر لے اور انشاء اللہ اس دن مسلمان خوشیاں منائیں گے۔

(بِنَصْرِ اللَّهِ يَنصُرُ مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ Oوَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ)

"اور اُس روز مومن خوش ہو جائیں گے، اللہ کی مدد سے، وہ جسے چاہتا ہے مدد دیتا ہے اور وہ غالب اور مہربان ہے"

(الروم:4-5)

پاکستان میں حزب التحریر کا میڈیا آفس

Read more...

جمہوریت مسائل کی جڑ ۔ خلافت مسائل کا حل مغوی نوید بٹ کی کتاب کا انگریزی ترجمہ شائع ہو گیا ہے

پاکستان میں حزب التحریر کے ترجمان نوید بٹ کی کتاب "جمہوریت مسائل کی جڑ ۔ خلافت مسائل کا حل" کا انگریزی ترجمہ شائع ہو گیا ہے۔ اس کتاب کا انگریزی ترجمہ اس وقت شائع کیا جا رہا ہے جب نوید بٹ کو اغوا ہوئے تقریباً سات ماہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ خلافت کے خاتمے کے بعد مسلم دنیا میں استعماری کفار نے جمہوریت کو واحد نظام حکومت کے طور پر پیش کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ استعماری کفار نے اسلام کے نظام حکومت خلافت سے متعلق واضع احکامات کو مسلمانوں کے اذہان میں دھندلا دیا ہے۔ کفار اپنی اس کوشش میں اس حد تک کامیاب ہوئے کہ مخلص مسلمان علمائ، دانشور، مفکرین بھی جمہورت کو ایک اسلامی فکر تصور کرنے لگے۔ آج جبکہ پاکستان سمیت پوری دنیا میں جمہوریت نظام عوام کی ایک عظیم اکثریت کے بنیادی مسائل کو حل کرنے میں یکسر ناکام ہو چکا ہے لہذا لوگ ایک نئے نظام کی راہ تک رہے ہیں۔ نوید بٹ کی تحریر کردہ یہ کتاب مسلمانوں اور انسانیت کی رہنمائی میں ایک اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ اس کتاب کے چار حصے ہیں:

1 کیوں جمہوریت تمام مسائل کی جڑ ہے۔

2 فکری لحاظ سے جمہوریت کی حقیقت

3 کیوں 1973 کا آئین ایک سیکولر اور غیر اسلامی آئین ہے

4 ریاست خلافت کا ڈھانچہ

موجودہ صورتحال میں جب پوری مسلم دنیا میں بیداری کی لہر چل پڑی ہے، عوام استعماری نظام اور ان کے ایجنٹ حکمرانوں سے نجات حاصل کر رہے ہیں اور پاکستان میں عوام کو ایک بار پھر اس استعماری نظام سے امیدیں وابستہ کرنے کے لیے انتخابات کا ڈرامہ شروع ہونے والا ہے، یہ کتاب دانشوروں، تجزیہ نگاروں، مفکرین، بیوروکریٹس، ججز، سیاست دانوں، تاجروں، صنعتکاروں اور عوام کو موجودہ مسائل کو سمجھنے اور اس کے صحیح حل کی طرف بہترین رہنمائی فراہم کرتی ہے۔

میڈیا سے التماس ہے کہ اس کتاب کے حوالے سے فیچرز لکھیں اور پروگرام کریں، عوام کو اس اہم کتاب سے آگاہ کریں اور عوام کی صحیح رہنمائی کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔

پاکستان میں حزب التحریر کا میڈیا آفس

 

نوٹ: یہ کتاب مندرجہ ذیل انٹرنیٹ پتے پر دیکھی جا سکتی ہے۔

انگریزی ترجمہ:

Link-1

Link-2

 

اردو کتاب:

Link-1

Link-2

Read more...

پشاور ائرپورٹ، جمرود اور نوشہرہ چھاونی پر حملہ اسلام کے خلاف امریکی جنگ کو اپنی جنگ تسلیم کروانے کی ایک اور گھناونی کوشش

ہفتے کی رات تقریبا آٹھ بج کر تیس منٹ پر پشاور کے ہوائی اڈے پر دہشت گردوں نے راکٹوں سے حملہ کر دیا اور کچھ ہی دیر بعدکج رو سرکاری برطانوی میڈیا، بی بی سی نے یہ خبر دی کہ طالبان کے مبینہ ترجمان احسان اللہ احسان، جو کہ ایک غیر معروف اور خفیہ کردار ہے، نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کر لی۔ یہ خبر آتے ہی تقریبا تمام ٹی وی چینلز پر تبصرے شروع ہو گئے جن میں خطے میں جاری اسلام اور مسلمانوں کے خلاف امریکہ کی اس جنگ کو اپنی جنگ سمجھ کر قبول کرنے اور پاک فوج کے جوانوں کو مزید اس فتنے کی جنگ کا ایندھن بنانے کے مشورے دیے گئے۔ اس واقع کے بعد حکمرانوں نے پشتخرہ اور باڑہ روڈ کے علاقوں میں آپریشن کا فیصلہ کیا اور وزیر اطلاعات خیبر پختونخوا میاں افتخار حسین نے ایک بھر پور آپریشن کا مطالبہ بھی کر دیا۔

اس سے قبل امریکی سیکریٹری دفاع لیون پنیٹا نے 12 دسمبر 2012 کو اپنے دورہ کابل کے دوران کہا کہ "آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے محفوظ ٹھکانوں پر مزید دباؤ بڑھانے کے لیے رضامندی کا اظہار کیا ہے" اور آج ہی پینٹاگون نے کانگریس کو مطلع کیا ہے کہ "کولیشن سپورٹ فنڈ" کے تحت پاکستان کے لیے سات سو ملین ڈالر کی رقم جاری کی جا رہی ہے۔ لاہور میں امریکی قاتل ریمنڈ ڈیوس کے ہاتھوں دن دھاڑے دو پاکستانیوں کے قتل کے بعد سے پاکستان کے مسلمان یہ جان چکے ہیں کہ شہری و فوجی تنصیبات پر حملوں میں امریکی ریمنڈ ڈیوس نیٹ ورک ملوث ہے اور سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں نے امریکہ کی خفیہ فوجی اور نجی تنظیموں یعنی سی۔آئی،اے اور بلیک واٹر کو پاکستان کے قبائلی علاقوں میں بلخصوص اور پورے پاکستان میں بلعموم جاسوسی اور تخریبی کاروائیاں کرنے کی اجازت دے رکھی ہے۔ پاکستان کے عوام اپنے قبائلی مسلمان بھائیوں کے خلاف کسی صورت لڑنا نہیں چاہتے لیکن انھیں قائل کرنے کے لیے کہ قبائلی علاقوں میں مسلمانوں سے نہیں بلکہ کافروں سے لڑائی ہو رہی ہے کبھی یہ کہانی سنائی جاتی ہے کہ ان کے ٹھکانوں سے شراب کی بوتلیں برآمد ہوئیں یا جب ان کی لاشوں کا معائنہ کیا گیا تو ان کے ختنے نہیں ہوئے ہوئے تھے۔ لیکن اس کے باوجود لوگ غدار حکمرانوں کی چالوں کا شکار نہیں ہوئے تو اب ایک شیطانی ٹیٹو کو سامنے لایا گیا ہے اور اس لاش کی خوب تشہیر کی گئی ہے تا کہ سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غدار عوام کو یہ یقین دلا سکیں کہ ہم اپنے فوجیوں کو قبائلی علاقوں میں اپنے مسلمان بھائیوں سے نہیں بلکہ کفار سے لڑنے کے لیے بھیجنا چاہتے ہیں۔ غدار حکمرانوں نے اپنے امریکی آقا کے حکم پرایک غیر واضع ہدف ہونے کے باوجود پورے قبائلی علاقے کو پچھلے آٹھ سالوں سے میدان جنگ بنایا ہوا ہے جس کے نتیجے میں ہمارے ہزاروں شہری اور فوجی جوان شہید جبکہ لاکھوں قبائلی مسلمان اپنے ہی ملک میں ہجرت کرنے اور در بدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہو گئے ہیں اور پاکستان مزید بدامنی کا شکار ہو گیا ہے۔

میڈیا اور مختلف سابق فوجی اور سفارتی شخصیات کی جانب سے اس حقیقت کو آشکار کرنے کے باوجود کہ پاکستان کے بڑے شہروں اور فوجی چھاونیوں میں بلیک واٹر کے محفوظ ٹھکانے (Safe Houses) موجود ہیں، لیکن اس کے باوجود ان محفوظ ٹھکانوں کے خلاف آج تک کوئی کاروائی نہیں کی گئی۔ امریکی مفادات کی تکمیل کے لیے قبائلی علاقوں میں فتنے کی جنگ میں ہزاروں فوجیوں کو جھونک دیا گیا ہے لیکن ملک بھر میں موجود بلیک واٹر کے مبینہ ٹھکانوں کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی گئی۔

یہ طرزعمل اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہ حکمران بازاروں، فوجی تنصیبات ،پاکستان کے شہریوں اور افواج پاکستان پر ان حملوں کی روک تھام نہیں چاہتے بلکہ ان حملوں کو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف امریکی جنگ کی آگ کو مزید بھڑکانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اگر یہ حکمران مسلمانوں کے ساتھ مخلص ہوتے تو امریکہ کی ان نجی عسکری تنظیموں کو پاکستان میں داخل ہونے کی قطعاً اجازت نہ دیتے۔ مسلمانوں کے مصائب کی بنیادی وجہ یہ حکمران ہیں جب تک ان کو تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک کر ان کی جگہ ایک خلیفہ کی بیعت نہیں کی جائے گی مسلمانوں کی جان ومال اور عزت و آبرو محفوظ نہیں ہو سکتی، اسی خلیفہ کو اللہ کے رسول ﷺ نے امت کے لیے ڈھال قرار دیا ہے،

(إِنَّمَا الْإِمَامُ جُنَّةٌ يُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِهِ وَيُتَّقَى بِهِ)

"بے شک خلیفہ ایک ڈھال ہے جس کی قیادت میں جنگ لڑی جاتی ہے اور اسی کے ذریعے بچائو ہو تا ہے" (مسلم)۔

آج وہ ڈھال نہیں اس لیے مسلمان بھی محفوظ نہیں۔ اے مسلمانو! آپ اس خلافت کے قیام اور اس ڈھال کو دوبارہ حاصل کرنے کے اہم دینی فریضے کی ادائیگی میں حزب التحریر کی جدوجہد میں شامل ہو جائیں۔ اے پاکستان کے مسلمانو اور فوج میں موجود مخلص افسران! کیا آپ حزب التحریر کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر اپنے پیارے نبی ﷺ کی اس بشارت کے مستحق نہیں بننا چاہتے جس میں آپ ﷺ نے فرمایا:

(ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةً عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّة)

"پھر نبوت کے طرز پر خلافت قائم ہو گی" (مسند احمد)۔

 

پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان

شہزاد شیخ

Read more...

حزب التحریربین الاقوامی خواتین کانفرنس کا انعقاد کررہی ہے ''خلافت:خواتین کا غربت اور بے سہارگی سے تحفظ‘‘

حزب التحریرکا مرکزی میڈیا آفس حزب التحریرانڈونیشیا کے اشتراک سے ہفتہ 22دسمبر2012کوجکارتہ ،انڈونیشیا میں ایک یاد گار خواتین کانفرنس منعقد کررہا ہے۔ اس کانفرنس کا عنوان ہے:''خلافت:خواتین کا غربت اور بے سہارگی سے تحفظ‘‘۔ اس کانفرنس میں دنیا بھر سے پندرہ سو بااثر اور مقرر خواتین شرکت کریں گی اور مسلم دنیا میں اور عالمی سطح پر خواتین کو درپیش قابل مذمت غربت اور ان کے معاشی استحصال پر گفتگو کریں گی۔اس کے علاوہ خلافت کے نظام کو ایک ایسے حکومتی ماڈل کے طور پر پیش کیا جائے گا جو دنیا بھر کی خواتین کے مسائل کو حل کرسکتا ہے۔یہ کانفرنس حزب التحریرکی جانب سے پچھلے چند ہفتوں سے اس مسئلہ پر جاری عالمی مہم کا نقطہ عروج ہوگی۔

 

حزب التحریرکے مرکزی میڈیا آفس کی خاتون نمائندہ ڈاکٹر نظرین نواز نے کہا کہ ''پوری مسلم دنیا میں کڑوڑوں خواتین روزانہ معاشی بقأ کی جنگ لڑتی ہیں۔بے انتہا غربت نے کئی خواتین کو بیرون ملک ملازمت کی تلاش پر مجبور کردیا ہے اور اس دوران اکثر انھیں انتہائی برے سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اپنا اور اپنے خاندان کا پیٹ بھرنے اور سڑکوں پر بھیک مانگنے سے بچنے کے لیے اکثر خواتین کو ایسی ملازمتیں کرنی پڑتی ہیں جس میں ان کے ساتھ غلاموں جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔دراصل یہ ایک خودساختہ غربت ہے۔یہ خواتین مسلم دنیا کی بدعنوان اورنااہل حکومتوں کے ظلم کا شکار ہیں جنھوں نے اپنی ذاتی دولت میں اضافہ مسلم دنیا کے وسائل کو لوٹ کر کیا ہے۔ یہ خواتین اس خراب اور ظالم سرمایہ دارانہ نظام کا شکار ہیں جنھیں یہ حکمران اپنے ملکوں میں نافذ کرتے ہیں‘‘۔


انھوں نے کہا کہ ''اس زہریلے سرمایہ دارانہ نظام نے، جس کی بنیاد آزاد منڈیوں کی معیشت اور سود پر مبنی مالیاتی نظام پر ہے ،دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کو بے تہاشا فروغ دیا ہے جس کی وجہ سے دنیا بھر کی خواتین، جس میں مغربی ممالک میں رہنے والی کڑوڑوں خواتین اور زیادہ شرح پیداوار کو حاصل کرنے والے ممالک جیسے چین،بھارت،ترکی اور برازیل کی خواتین بھی شامل ہیں ،غربت اور معاشی غلامی کا شکار ہوگئیں ہیں۔مسلم دنیا میں مغربی ممالک نے گلوبلائزیشن،آزاد معیشت اور آئی۔ایم۔ایف اور عالمی بینک سے قرضوں کی سرمایہ دارانہ استعماری پالیسیاں تھوپی ہیں اور مسلم دنیا کی معیشتوں کو مغربی ممالک اور ملٹی نیشنلز کے مفادات کو پورا کرنے کے لیے استعمال کیا ہے جس کے نتیجے میں عام آدمی بے حال،مقامی منڈیاں تباہ اور لوگوں سے ان کی دولت اور وسائل کو چھینا گیا ہے‘‘۔


ڈاکٹر نظرین نواز نے کہا کہ ''اس کے ساتھ ساتھ اس تباہ کن مادی سرمایہ دارانہ نظریہ حیات نے،جو زندگی میں دولت کو تمام دوسری اقدار پر فوقیت دیتا ہے،خواتین کے ملازمت کرنے کے حق کو اس طرح پیش کیا ہے کہ جیسے ماں ہونے کی ذمے داری اور مرد اور ریاست کی جانب سے عورت کی معاشی سرپرستی اورنگہبانی کا تصور ایک فرسودہ سوچ ہے۔اس طرح یہ سرمایہ دارانہ نظام خواتین کو کام کرنے پر مجبور کردیتا ہے۔اس صورتحال نے خواتین پر ایک معاشرتی دباؤ کو جنم دیا ہے کہ وہ بھی ملازمت تلاش کریں تا کہ انھیں اپنی قدرو قیمت کا احساس ہو اور اس ظلم کو قبول کر لیں جس میں ایک ہی وقت میں وہ پیسہ کمانے اور گھر چلانے کی ذمہ دار ہوں اور اس کے نتیجے میں اپنے لازمی اور انتہائی ضروری ماں کے کرادر کو فراموش کردیں جس کے تحت انھوں نے مستقبل کی نسلوں کی پرورش اور کردار سازی کرنی ہوتی ہے۔اس نظام نے خواتین کو غیر انسانی کردار اپنانے پر مجبور کردیا ہے کہ وہ صرف ایک معاشی ضرورت کی چیز ہیں جس کے ذریعے ریاستیں معاشی فوائد حاصل کرتی ہیں اور جو خواتین یہ نہیں کرپاتیں انھیں اور ان کے بچوں کو بے آسرا چھوڑ دیا جاتا ہے‘‘۔


انھوں نے مزید کہا کہ ''یہ یادگار کانفرنس پوری دنیا سے خواتین کو اکٹھا کرے گی تا کہ خلافت کے حکومتی نظام کوایک ایسے نظام کے طور پر پیش کیا جائے جو اس قابل مذمت معاشی مشکلات اور استحصال کا خاتمہ کرسکتا ہے۔ اس نظام کی اس خوبی کو واضع کیا جائے گا کہ یہ انسانوں کی ضروریات کو معاشی فوائد پر فوقیت دیتا ہے اور خواتین کو ایک قابل عزت انسان کے طور پر دیکھتا ہے جنھیں ہمیشہ ان کے مرد رشتہ داروں اور ریاست کی جانب سے مکمل تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔ یہ نظام انھیں دولت پیدا کرنے کی مشین کے طور پر نہیں دیکھتا لیکن اس کے ساتھ ہی انھیں اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ اگر وہ چاہیں تو اپنی پسند کی ملازمت اختیار کرسکتی ہیں۔اس کانفرنس میں خلافت کی زبردست اور منفرد اسلامی معاشی پالیسیاں بھی پیش کی جائیں گی جو کہ غربت کے خاتمے اور معاشی تحفظ کی فراہمی کے لحاظ سے ثابت شدہ ہیں۔یہ ایک ایسی ریاست ہوگی کہ جسے دنیا بھر کی خواتین ایک ایسے ماڈل کے طور پر دیکھ سکیں گی جہاں وہ خود کو غربت اور استحصال سے محفوظ رکھ سکیں گی۔ہم ان تمام خواتین کو اس اہم کانفرنس میں شرکت کی دعوت دیتے ہیں جوایک ایسے حقیقی حل کی تلاش میں ہیں جو موجودہ معاشی جبر اور استحصال کا خاتمہ کرسکے‘‘۔


أَلَا یَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَہُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ
''کیا وہی نہ جانے جس نے پیدا کیا؟پھر وہ باریک بین اور باخبر بھی ہو‘‘(الملک:14)

ایڈیٹرز متوجہ ہوں:
1۔ معلومات کے لیے رابطہ کریں:media_info@hizbut-tahrir,or.id
2۔ مہم سے متعلق معلومات:http://women.hizb-ut-tahrir.info

 

ڈاکٹر نظرین نواز
مرکزی میڈیا آفس کی خاتون نمائندہ

 

ٹیلی فون/فیکس:009611307594
موبائل:0096171724043

Read more...

سی۔این۔جی کی مصنوعی قلت عوام کے ساتھ جمہوریت کا انتقام ہے خلافت امت کو توانائی کی مصنوعی قلت سے نجات دلائے گی

عوام جوپہلے ہی کئی بحرانوں کا سامنا کر رہے تھے ان پر اب سی۔این۔جی کی مصنوعی قلت کا بحران بھی تھونپ دیا گیا ہے۔ لوگوں کو گھنٹوں تک گاڑی میں گیس بھروانے کے لیے لائنوں میں کھڑا رہنے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔ لیکن اس مصنوعی بحران کو ختم کرنے کے بجائے عوام کو اس عذاب سے نکلنے کے لیے یہ مشورہ دیا جا رہا ہے کہ وہ مہنگی درآمدی ایل۔پی۔جی اور پیٹرول پر منتقل ہو جائیں یا مہنگی سی۔این۔جی خریدنے پر تیار ہو جائیں۔ تقریباً ایک عشرے قبل حکومت کی جانب سے سی۔این۔جی کو یہ کہہ کر متعارف کرایا گیا تھا کہ یہ ایک ملکی خزانہ ہے جس کے استعمال سے نہ صرف مہنگے درآمدی پیٹرول اور ڈیزل کے استعمال میں کمی آئے گی اور قیمتی زرمبادلہ کی بچت ہو گی بلکہ سستا ایندھن ہونے کی وجہ سے مہنگائی میں کمی واقع ہو گی، عوام کی قوت خرید میں اضافہ ہو گا اور اس کے ساتھ ساتھ صاف ایندھن ہونے کی بنا پر ماحولیاتی آلودگی کو بھی کم کرنے میں مدد ملے گی۔ کیا ان تمام سالوں میں کسی حکمران کو یہ نہیں معلوم تھا کہ ملک میں گیس کے ذخائر اس قدر موجود نہیں کہ گھریلو و صنعتی صارفین اور بجلی کے کارخانوں کی ضرورت کو پورا کرنے کے بعد ٹرانسپورٹ کی ضروریات کو پورانہیں کیا جا سکتا۔ درحقیقت یہ حکمران جھوٹ بول رہے ہیں۔

ملک میں توانائی کی کوئی حقیقی قلت موجود نہیں ہے جس کا ثبوت ملک میں جاری بدترین لوڈشیڈنگ میں پچھلے دو ماہ میں اچانک حیرت انگیز کمی ہے کہ کہاں شہروں میں دن میں بارہ بارہ گھنٹوں کی لوڈشیدنگ ہو رہی تھی جو اب گھٹ کر ایک یا دو گھنٹے رہ گئی ہے۔ اسی طرح سے ملک میں گیس کی بھی کوئی قلت نہیں ہے۔ 2 اکتوبر 2012 کو مشیر پیٹرولیم و قدرتی وسائل ڈاکٹرعاصم حسین نے اس بات کا اعتراف کیا کہ تیل و گیس کی کئی کمپنیوں نے پچھلے چند سالوں کے دوران گیس کے ذخائر دریافت کرنے کے باوجود نئے ذخائر کی دریافت کا اعلان نہیں کیا تھا کیونکہ انھیں اس کی کم قیمت مل رہی تھی۔ اور جب وزیر پیٹرولیم سے یہ پوچھا گیا کہ ان کمپنیوں کے خلاف کاروائی کیوں نہیں کی گئی تو ان کا جواب تھا کہ ان کمپنیوں کو سزا دینے کے بجائے حکومت کو حقیقت پسند ہونا چاہیے۔ لیکن پیٹرولیم پالیسی 2012 کے اعلان کے بعد یہ کمپنیاں نئے دریافت شدہ ذخائر سے نئی قیمتوں پر گیس کی پیداوار دینے کے لیے تیار ہو گئیں ہیں۔ اس ظالم حکومت نے 2012 کی پیٹرولیم پالیسی میں نئے دریافت ہونے والے ذخائر سے حاصل ہونے والی گیس کی قیمت 3.24 ڈالر MMBTU سے بڑھا کر 6 ڈالر MMBTU کر دی ہے۔ OGDCL (آئل اینڈ گیس ڈیولپمنٹ کارپوریشن لمیٹڈ)، جس کا پاکستان کی تیل کی پیداوار میں حصہ 58 فیصد اور گیس کی پیداوار میں 27 فیصد حصہ ہے، نے مالیاتی سال 2011-12 میں بعد از ٹیکس 91 ارب روپے کا خالص منافع کمایا ہے۔ اگر صرف ایک کمپنی کا ایک سال کا منافع اس قدر زیادہ ہے تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ باقی کمپنیاں بھی سالانہ اربوں روپے کما رہی ہیں اور اب نئی قیمتوں کے اطلاق کے بعد ان کے منافع میں مزید کئی گنا اضافہ ہو جائے گا۔ یہ ہے جمہوریت کا کمال جو انسانی اور ملکی ضرورت کی ایک انتہائی اہم چیز کی پیداوار صرف اس لیے نہیں لے رہی تھی کیونکہ چند کمپنیوں کو ان کی مرضی کا منافع حاصل نہیں ہو رہا تھا۔ اور اب ایک بار پھر گیس کی مصنوعی قلت کا یہ مجرمانہ اور ظالمانہ فعل اختیار کیا گیا جس کے نتیجے میں ہزاروں صنعتیں ہفتوں کے لیے بند ہیں، لاکھوں مزدور بے روزگاری کا شکار ہو کر فاقوں پر مجبور ہیں اور ملکی معیشت کو اس کے نتیجے میں کھربوں روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑے گا۔ اس کے علاوہ حکمرانوں کے مجرم ہونے کا ایک اور بڑا ثبوت سالوں گزر جانے کے باوجود تھر کے کوئلے کے عظیم ذخائر سے فائدہ نہ اٹھا نا ہے۔ مشیر پیٹرولیم کا بیان اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ جمہوریت اور آمریت دونوں صورتوں میں سرمایہ دارانہ نظام ہی نافذ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ اور استعماری طاقتیں مسلم ممالک میں آمر اور جمہوری دونوں طرح کے حکمرانوں کی حمائت کرتے ہیں کیونکہ دونوں صورتوں میں حکمران امریکہ اور مغربی طاقتوں کی مرضی کے مطابق پالیسیاں بناتے ہیں۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا کے کئی ممالک زبردست قدرتی وسائل رکھنے کے باوجود ان ممالک کے عوام غربت کی دلدل میں دھنسے ہوتے ہیں جبکہ ملٹی نیشنل کمپنیاں اور حکمران اس دولت سے اپنی تجوریاں بھر رہے ہوتے ہیں کیونکہ آمریت اور جمہوریت میں تیل، گیس اور معدنی وسائل کو آزاد معیشت کے نام پر نجی ملکیت میں دے دیا جاتا ہے۔

صرف خلافت ہی امت مسلمہ اور انسانیت کو اس ظلم سے نجات دلائے گی کیونکہ اسلام نے قانون سازی کا حق انسانوں سے لے کر ہمیشہ کے لیے کرپشن کے اس دروازے کو بند کر دیا ہے۔ اسلام تیل، گیس اور تمام معدنی وسائل کو امت کی ملکیت قرار دیتا ہے اس لیے خلافت ان وسائل پر نفع نہیں کمائے گی اور ان وسائل کو امت تک ان پر آنے والی لاگت کی قیمت پر پہنچائے گی۔ نبی ﷺ نے فرمایا:

((المسلمون شرکاء ف ثلاث ف الماء والکل والنارو ثمنہ حرام))''

"تمام مسلمان تین چیزوں میں برابرکے شریک ہیں: آبی ذخائر، چراگاہیں یا جنگلات اور آگ (توانائی کے وسائل)۔ اور اِن کی قیمت حرام ہے" (داود)۔

اسلام کے صرف اس ایک حکم کے نفاذ سے کھربوں روپے کا منافع جو اس وقت حکمرانوں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کی تجوریوں میں جا رہا ہے اس کا رخ عوام کی جانب مڑ جائے گا، امت کو سستی اور وافر توانائی کے وسائل میسر ہوں گے اور سستی توانائی کی بدولت صنعتیں زبردست ترقی کریں گی۔ حزب التحریر امت سے پوچھتی ہے اگر انتخابات کے بعد نئے چہروں پر مشتمل نئی حکومت نے بھی توانائی کے وسائل کی نجکاری کا سلسلہ جاری رکھا تو کیا ان کی زندگی میں کوئی تبدیلی آئے گی۔ نئی آنے والی حکومت بھی موجودہ حکومت کی طرح توانائی کے بحران کی ذمہ دار پچھلی حکومت کو قرار دیتی رہے گی جبکہ حقیقت میں اصل مسئلہ جمہوریت ہے جس میں انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین نافذ ہوتے ہیں۔ جمہوریت میں ایماندار حکمران بھی اسلام کو نہیں بلکہ انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین یعنی سرمایہ داریت کو ہی نافذ کرتا ہے۔ لہذا امت انسانوں کے بنائے ہوئے کفریہ جمہوری نظام کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہوئے قرآن و سنت کے نظام یعنی خلافت کے قیام کے ذریعے اس ظلم کے نظام کے خاتمے میں حزب التحریر کا ساتھ دیں اور اس نعرے کو بلند کریں "نئے چہرے، نیا نظام - حزب التحریر اور خلافت کا نظام"۔

پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان

شہزاد شیخ

Read more...

خلافت کے داعی کے لیے جیل جبکہ امریکی جاسوس اور قاتل کے لیے رہائی پاکستان میں حزب التحریر کی مرکزی رابطہ کمیٹی کے سربراہ کو کوٹ لکھپت جیل منتقل کر دیا گیا

پاکستان میں حزب التحریر کی مرکزی رابطہ کمیٹی کے سربراہ سعد جگرانوی کو کوٹ لکھپت جیل لاہور منتقل کر دیا گیا ہے۔ سعد جگرانوی کا قصور یہ ہے کہ وہ پاکستان میں اسلام کے مکمل نفاذ اور خلافت کے قیام کے لیے پر امن سیاسی جدوجہد کرتے ہیں۔ یہ انتہائی افسوس اور شرم کا مقام ہے کہ جو ملک اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا اور جس کے لیے لاکھوں مسلمانوں نے اپنی جانو ں کا نظرانہ پیش کیا آج اسی ملک میں اسلام کے مکمل نفاذ کے لیے پرامن سیاسی جدوجہد کرنے والے مخلص سیاست دان، پاکستان میں حزب التحریر کے ترجمان نوید بٹ کو کیانی کے غنڈوں کے ہاتھوں اغوا ہوئے چھ ماہ سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے اور پاکستان میں حزب التحریر کی مرکزی رابطہ کمیٹی کے سربراہ سعد جگرانوی کے خلاف دہشت گردی اور بغاوت کے مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ اب سعد جگرانوی کو ان الزامات کی بنا پر کوٹ لکھپت جیل، لاہور منتقل کر دیا گیا ہے۔ یہ وہی جیل ہے جہاں ایک امریکی جاسوس اور تین پاکستانیوں کے قاتل ریمنڈ ڈیوس کو بھی چند دنوں کے لیے رکھا گیا تھا۔ لیکن سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غدار زرداری اور کیانی نے ریمنڈڈیوس کو مقدمہ ختم کروا کر بحفاظت ملک سے باہر بھجوا دیا تھا جبکہ خلافت کے قیام کے لیے نبوت ﷺ کے طریقے پر چلتے ہوئے پرامن سیاسی جدوجہد کرنے والے سعد جگرانوی پر چار بے بنیاد اور جھوٹے مقدمات ڈال دیے گئے ہیں تا کہ وہ ایک لمبے عرصے تک جیل سے باہر نہ نکل سکے۔ ریمنڈ ڈیوس کو مختصر قید کے دوران فائیو سٹار ہوٹلوں والی سہولیات فراہم کی گئیں جبکہ اسلام کے نفاذ کی جدوجہد کرنے والے سعد جگرانوی کو دوران تفتیش ذہنی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

زرداری، کیانی اور ان کے ساتھی غداروں کا ٹولہ یہ جان لے کہ انھوں نے اسلام اور مسلمانوں کے دشمن امریکہ کی غلامی اور چاکری قبول کر کے دنیا اور آخرت کی بربادی کو اپنے لیے مقدر بنا لیا ہے۔ بن علی، قذافی اور حسنی مبارک دنیا میں امت کے غم و غصہ کا نشانہ بن چکے ہیں اور جلد ہی تم شام کے کذاب بشار کے خاتمے کی خبر سنوں گے۔ زرداری، کیانی اور ان کے ساتھی غدار یہ جان لیں کہ ان کی مہلت کا بھی جلد ہی خاتمہ ہونے والا ہے اور اس حقیقت کو ان کا آقا امریکہ بھی اچھی طرح جانتا ہے ۔تمھارا حزب کے شباب کا پیچھا کرنا، انھیں گرفتار کرنا، انھیں تشدد کا نشانہ بنانا کسی صورت خلافت کے قیام کو روک نہیں سکتا کیونکہ یہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا وعدہ ہے۔

حزب التحریر افواج پاکستان میں موجود مخلص افسران سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ کشمیر، فلسطین، افغانستان اور خصوصاً شامی مسلمانوں کے عزم و استقلال سے تحریک حاصل کریں اور آگے بڑھیں، سیاسی و فوجی قیادت میں موجود امریکی ایجنٹوں اور امت کے غداروں کو اکھاڑ پھینکیں، خلافت کے قیام کے لیے حزب التحریر کو نصرة فراہم کریں اور دنیا و آخرت کی عزت اور سربلندی کو اپنے نام کر لیں۔

نوٹ:میڈیا میں موجود محترم بھائی سعد جگرانوی سے انٹرویو کے لیے سینٹرل جیل کوٹ لکھپت ،لاہور،پاکستان میں رابطہ کرسکتے ہیں۔ کوٹ لکھپت جیل کا فون نمبر 99262159-(042)(0092)-ہے۔

پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان

شہزاد شیخ

Read more...

پاکستان میں امریکی جنگ کو ہوا دینے والوں پر مقدمہ چلایا جانا چاہیے لال مسجد آپریشن دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کا ہی حصہ تھا

سپریم کورٹ آف پاکستان نے لال مسجد پر حملے اور اس دوران ہونے والی اموات کے ذمہ داروں کے تعین کے لیے ایک عدالتی کمیشن بنانے کا اعلان کیا ہے۔ عدالت نے اس بات کو جاننے کے باوجود کہ اس وقت کے آئی۔ایس۔آئی کے سربراہ اور موجود آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے اپنے سابقہ سربراہ جنرل پرویز مشرف کے حکم پر لال مسجد سانحہ میں ایک اہم کردار ادا کیا تھا، اس کمیشن کے قیام کا حکم جاری کیا ہے۔ امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے کردار کے حوالے سے لال مسجد آپریشن ایک اہم موڑ تھا۔ سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں نے اس سانحہ کے بعد قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشنز شروع کیے اور پاکستان آرمی کو فتنے کی اس جنگ میں ملوث کیا۔ جس ظالمانہ طریقے سے یہ آپریشن کیا گیا اس نے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں غصے اور نفرت کی آگ لگا دی اور اس آپریشن نے سوات اور اور پھر فاٹا میں امریکی فتنے کی جنگ کو بھڑکانے میں اہم کردار ادا کیا۔

لال مسجد آپریشن کے فوراً بعد مشرف نے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں فوجیوں کی تعداد بڑھانے کا حکم دیا جس کے نتیجے میں ان علاقوں میں کشیدگی بڑھ گئی اور بڑے فوجی آپریشنز کرنے کی راہ ہموارکی گئی۔ 12 جولائی 2007 کو جنوبی اور وسطی ایشیائی امور کے لیے امریکہ کے اسسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ رچرڈ بائوچر نے لال مسجد آپریشن پر مشرف کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا: "یہ پاکستان کے مستقبل کا ویژن (vision) ہے، جو مشرف نے بیان کیا اور جو مشرف کے شمالی علاقوں میں طالبانائزیشن کے خاتمے اور شہری علاقوں جیسا کہ لال مسجد میں انتہاء پسندی کے خاتمے کے عزم کے اعادے سے ظاہر ہے۔ یہ امریکہ کے بہترین قومی مفاد میں ہے کہ پاکستان مستقبل کے اس ویژن (vision) کو پورا کرنے میں کامیاب رہے"۔

مشرف کے جانے کے بعد جنرل کیانی نے رچرڈ باؤچر کے ویژن کو آگے بڑھانے کی ذمہ داری اٹھالی اور پاکستان کی افواج کو سوات میں اپنے مسلمان بھائیوں کے خلاف آپریشن پر مجبور کیا جس کے نتیجے میں پاکستان کے قیام کے بعد سب سے بڑی اندرونِ ملک ہجرت کا واقع پیش آیا جس میں تقریباً چالیس لاکھ لوگوں کو اپنا گھر بار چھوڑنا پڑا۔ اس آپریشن کے بعد سے اب تک ہزاروں فوجی اور شہری اس جنگ کی نذر ہو چکے ہیں، وہ جنگ جس کو امریکی ڈالروں سے لڑا جا رہا ہے اور جس کا مقصد خطے میں امریکی مفادات کو پورا کرنا ہے۔ جس وقت سپریم کورٹ نے عدالتی کمیشن کے قیام کا حکم نامہ جاری کیا اس وقت بھی جنرل کیانی اور وزیر خارجہ حنا ربانی کھر براسلز میں اپنے مغربی آقاوں کو اپنی وفاداری اور رچرڈ باؤچر کے پاکستان سے متعلق ویژن کو جاری و ساری رکھنے کی یقین دہانی کرا رہے تھے۔

یہ ہے امریکہ کا پاکستان کے لیے ویژن جس کو پوری قوت سے امریکہ کے غلام جنرل مشرف نے نافذ کیا تھا اور اس کے جانے کے بعد پاکستان میں امریکی مفادات کا محافظ جنرل کیانی مسلسل اس ویژن کو نافذ کر رہا ہے۔ حزب التحریر پاکستان کے لیے ایک متباد ل ویژن رکھتی ہے اور اس بات کی طرف دعوت دیتی ہے کہ پاکستان کی فوج خطے میں امریکی مفادات کے تحفظ کے لیے نہیں بلکہ صرف اور صرف پاکستان کے عوام کے تحفظ کے لیے لڑے گی۔ ایک ایسے پاکستان کا ویژن جس کی فوج پشتون علاقوں میں اپنے بھائیوں کے ساتھ مل کر امریکہ کو خطے سے نکال باہر کرے گئی اور افغانستان، پاکستان اور وسطی ایشیأ کو ایک ریاست میں شامل کر کے دوسری خلافت راشدہ کو قائم کرے گی۔ وہ خلافت جو کشمیر کو ہندو ریاست سے آزادی دلوائے گی، اپنے شہریوں پر اسلام کو نافذکرے گی اور مسلم علاقوں کے وسائل کو اپنے شہریوں کے مفادات کو پورا کرنے کے لیے یکجا اور انھیں استعمال کرے گی۔ اے اہل قوت! ہم آپ سے پوچھتے ہیں آپ کس ویژن کی حمائت کرتے ہیں؟ جنرل کیانی کے ویژن کی یا پھر حزب التحریر کے ویژن کی؟

میڈیا آفس حزب التحریر ولایہ پاکستان

Read more...

اظہر یونیورسٹی ٹاون میں حزب التحریرکی مہم

حزب التحریرولایہ مصر نے ایک ماہ تک کامیابی سے اسلامی ریاست کے مجوزہ دستور کے خدو خال کو وضاحت سے پیش کرنے کی مہم چلائی۔ اس مہم کا نام ''مصر کا دستور لازماً اسلامی دستور ہی ہونا چاہیے‘‘ رکھا گیا تھا۔حزب کے شباب نے 7محرم1434،بمطابق12نومبر2012کو اظہر یونیورسٹی کے سامنے ایک کیمپ لگایا۔ الحمد اللہ بہت بڑی تعداد میں لوگوں نے اس کیمپ کا دورہ کیا اور ایک مثبت بحث میں شمولیت اختیار کی اور بہت سے سوالات پوچھے۔

حزب التحریرولایہ مصر

تصویرکے لئے یہاں پر کلک کریں

Read more...
Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک