بسم الله الرحمن الرحيم
شام ہر چیز کے لیے موزوں ہے سوائے اسلام کے، کیوں
خبر:
شام کی نئی انتظامیہ کے سربراہ احمد الشرع نے جمعہ کے روز دمشق میں "قصرِ الشعب" میں جرمنی کی وزیرِ خارجہ اینالینا بیربوک اور ان کے فرانسیسی ہم منصب جان نویل بارو سے ملاقات کی۔ یہ ملاقات ان دونوں وزراء کے شامی دارالحکومت کے دورے کے دوران ہوئی، جس میں انہوں نے اقتدار کی پرامن اور جامع منتقلی کی ضرورت پر زور دیا۔
احمد الشرع کی فرانسیسی اور جرمن وزرائے خارجہ کے ساتھ یہ ملاقات، معزول صدر بشار الاسد کے نظام کے خاتمے کے بعد کسی بھی مغربی عہدیدار کے ساتھ ان کی پہلی اعلیٰ سطحی ملاقات ہے۔ (الجزيرة نت، 03/01/2025م)
تبصرہ:
شام اپنی نئی عبوری حکومت کے ساتھ اسی ڈگر پر لوٹ آیا ہے جس پر وہ الاسد کے جانے سے پہلے تھا۔ یعنی یہودیوں کو کوئی جواب نہ دینا، مغربی ممالک کے ساتھ معاہدے کرنا اور اسلام سے متصادم بین الاقوامی نظام اور اس کی روایات میں مزید اطاعت اور انضمام اختیار کرنا۔ جب سے الاسد گیا ہے، احمد الشرع نے بہت سے مغربی اور عرب ممالک کے وفود کی میزبانی کی ہے تاکہ وہ مغرب کو یہ ثابت کر سکے کہ وہ ان کے ساتھ ہے اور ان کی مرضی کے مطابق کام کرنے کے لیے تیار ہے۔ وہ ہر ممکن کوشش کر رہا ہے کہ ان کے سامنے اپنی اہلیت ثابت کرے اور یہ کہ شام کے لیے ان کے منصوبے رائیگاں نہیں جائیں گے۔
جرمنی اور فرانس کے وزراء کے ساتھ ملاقاتیں، جن کا ہمیں نہیں معلوم کہ اسلامی ملک شام سے کیا تعلق ہے، اور امریکہ کی طرف سے احکامات اور شام میں امریکی فوجی اڈوں کا منصوبہ، جیسا کہ ٹی وی چینلز پر بتایا گیا ہے، اور یہودیوں کو یقین دہانی کرانا کہ شام ان کے لیے خطرہ نہیں ہے، یہ سب کچھ اس وقت ہو رہا ہے جب وہ ابھی تک دوسرے حکمرانوں کی طرح اقتدار میں مضبوط نہیں ہوا ہے۔ تو سوچیے اگر اس کا اقتدار مظبوط ہو گیا تو کیا ہو گا؟!
شام پر صدیوں تک اسلام کی حکمرانی رہی، یہاں تک کہ ان کافر ممالک کے ہاتھوں خلافت کی ریاست کو ختم کر دیا گیا جنہوں نے اسلام کے خلاف سازشیں کیں۔ اس دن سے امت ان حکمرانوں کے ہاتھوں مصیبتیں جھیل رہی ہے جنہیں مغرب نے ہماری گردنوں پر مسلط کیا ہے تاکہ اسلام کی ریاست کی واپسی کو روکا جا سکے۔ شام ان ممالک میں سے سب سے زیادہ متاثر ہوا اور اس کے لوگوں نے مجرم حافظ الاسد اور اس کے سفاک بیٹے بشار کے ہاتھوں خلافت کے خاتمے کی بھاری قیمت ادا کی۔ یہاں تک کہ اللہ نے ان پر فضل کیا اور بشار کو ہٹا دیا تاکہ وہ ذلت اور رسوائی سے نجات حاصل کر سکیں۔ تو کیا وہ ذلت کے بدلے ذلت قبول کریں گے؟! کیا شام میں ہمارے آزاد لوگ، دوبارہ مغرب اور مسلمانوں کے ساتھ ناانصافی کرنے والے مغربی قوانین کا غلام بننا قبول کریں گے؟
اور شام کی نئی حکومت کیوں یہ سمجھتی ہے کہ شام ہر چیز کے لیے موزوں ہے سوائے اسلامی ریاست بننے کے لیے؟!!
یہ تحریر حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے ریڈیو کے لیے لکھی گئی ہے۔
سوزان المجرات - مبارک سرزمین (فلسطین)