بسم الله الرحمن الرحيم
سوال و جواب
کردستان کی علیحدگی کے ریفرنڈم کے پس پشت کیا ماجرا ہے؟
سوال:
برزانی نے کردستان کے علاقے کی علیحدگی کے لیے ریفرنڈم کروانے پر کیوں اصرارکررہا ہے جبکہ اس ریفرنڈم کو علاقائی اوربین الاقوامی منظوری حاصل نہیں ہے؟ موجودہ حالات میں ریفرنڈم کروانا کیا خود کردوں کے مفادات کے خلاف نہیں ہے؟ اور اگر ریفرنڈم کروایا گیا اور اکثریت نے اس کو منظور کرلیا تو کیا اس علاقے میں ایک علیحدہ کردریاست قائم کرنا ممکن ہے؟ جزاک اللہ خیراً
جواب:
کہاوت ہے کہ اگر حکمران اپنے ملک کےمفادکے خلاف کوئی فیصلہ کرتا ہےتو وہ ضرورکوئی ایجنٹ ہے اور یہ فیصلہ کسی اور ریاست کی جانب سے اس کے اپنے مفاد کی خاطر تھوپا گیا ہے۔۔۔۔۔ اور یہ کہاوت بڑی حدتک کردستانی علاقے کے حالات سے ملتی ہے، اس کی تفصیلی وضاحت کچھ اس طرح سے ہے:
1- کوئی بھی باخبر سیاستدان سمجھتا ہے کہ کردوں کے لیے یہ کتنا مشکل ہےکہ ان کی اپنی علیحدہ ریاست بنے، بلکہ موجودہ بین الاقوامی حالات میں کرد ریاست کے قیام کی کوشش کرد خطے کے مفاد کے لیے تباہ کن ہے اس میں نہ صرف سیاسی نقصان اوراخلاقی نقصان شامل ہے بلکہ مادی نقصان بھی ہے کیونکہ یہ مسئلہ صرف عراق کے کردوں کی ریاست کے قیام کا نہیں ہے بلکہ اگر ایسا ہوتا تو یہ قیام ممکن بھی ہوجاتا۔۔۔
امریکہ نے عراق پر قبضہ کر لینے کے بعد جس حکومت کو قائم کیا تھا اس کو بریمردستورBremer Constitution کہتے ہیں ،اس حکومت نے عراق کو مختلف علاقائی وفاقی خطوں میں تقسیم کردیا تھا جن کا مرکز سے نازک وبرائے نام تعلق تھا جب تک کرد علاقے کا اقتدارمظبوط ومستحکم نہیں ہوگیا حتی کہ وہ وقت آیا کہ انتظام اور حکومت کے حوالے سے مرکز یعنی بغدادسے بھی زیادہ طاقتور ہوگیا۔ کافر استعماری ممالک جب بھی مسلم ریاست پر قبضہ کرتے ہیں اس کو تقسیم کرنے کا بیج اور منصوبہ وہ اپنے ذہنوں میں بناکر چلتے ہیں اور صرف صحیح موقع و محل کی تلاش میں ہوتے ہیں اور یہ سب وہ اسلام اور مسلمانوں سے دشمنی و نفرت کی خاطر کرتے ہیں اور ہم نے اس سے قبل 12 اگست 2014 کو اس بات کو ایک سوال کے جواب میں یوں بیان کیا تھا کہ:
"امریکہ 2003 میں عراق پر قبضہ کی شروعات سے ہی عراق کو توڑنے کے منصوبے پر کام کرتا چلا آرہا ہے اور دستوروحکومت جس کو پال بریمر نےقائم کیا تھا فرقہ واریت اور مکاتب فکر کی تقسیم پر بنیاد تھا جس کے تحت مختلف فرقوں اور مکاتب فکر کے لیے ریزرویشن رکھا گیا تھا اور اس نے ان کو صدر، پارلیمنٹ کا قائد اور وزیراعظم کے عہدوں کے درمیان تقسیم کیا گیا تھا۔ چونکہ وزیراعظم کے پاس (ایگزیکٹو اتھارٹی) قوت نافذہ ہوتی ہے اور بریمر نے اس عہدے کو فرقہ واریت کے لیے بنا رکھا تھا چنانچہ یہ دیگر عناصر کو اشتعال دلانے اوربھڑکانے کا عہدہ بنا ہوا تھا اور دستور کی کاپی خود بیان کرتی ہے کہ مختلف علاقوں پرمشتمل وفاقی حکومت ہے اور علاقوں کے پاس مستحکم اختیارات ہیں۔چنانچہ امریکہ اس صورتحال کو پیدا کرنے میں کامیاب ہوا ہے جس کے نتیجہ میں عراق کے ٹکڑے کرنا آسان ہو جائے گا ۔۔۔"ختم
عملی طور پر یہ کرد علاقہ ایک ایسی ریاست ہے جس کے پاس دوسری ریاستوں کے سفارت خانے اور اقوام متحدہ کی رکنیت موجود نہیں ہے۔۔اور عملاً کردستان کا علاقہ ایک ریاست کے اندرواقع دوسری ریاست ہے اور مرکزی ریاست سے بے تعلق ہے کیونکہ عراق کو اس بات سےبڑی حد تک دورکردیا گیا ہےکہ وہ ایک متحدریاست کی شکل میں برقرار رہ سکے۔ چنانچہ ایسی صورتحال میں کرد علاقے کو عراق کے اندر ریاست بنے رہنے کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ خودعملی طور پر ایک ریاست ہے!۔۔۔اور جیسا کہ ہم نے پہلے بھی کہا ہے کہ عراق کی سرحدوں کے اندر کردستانی علاقے میں ریاست کا قیام مسئلہ نہیں ہے اور ایسا بھی نہیں ہے کہ عراق کے باہر دیگر کرد علاقوں سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ اگر اس علاقے میں کرد ریاست قائم ہوجائے گی تو یقیناً یہ واقعہ خطے میں واقع دیگر ممالک میں کردوں کو خودبخود ایک زبردست کردتحریک بپا کرنے کی طرف دعوت دے گا۔ چنانچہ کرد ریاست صرف کردستان کے علاقے تک محدود نہیں ہے۔ اگر ایسا کچھ واقع ہوا توشدید تکلیف کا باعث ہوگا بالخصوص امریکہ اور اس کے ترکی، ایران اور ملک شام میں موجود ایجنٹوں کے لیے، چنانچہ ہر ایک سیاستدان اس بات کو بخوبی جانتا ہے کہ کردریاست کا قیام کسی بھی طرح علاقائی اور عالمی صورتحال سےقابل قبول نہیں ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کرد سیاستدان ،جن میں البرزانی بھی شامل ہے، اس بات کو نہیں جانتے ہیں، بلکہ جیسا کہ اس سے قبل بیان ہوا کہ موجودہ حالات میں کرد ریاست کو قائم کرنے سے سوائے معاہدوں کو تبدیل کرنے اوربے قابو تحریکوں کے بپاء ہونے کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوگابالخصوص کردعلاقوں میں۔ ہم نے پہلے بھی کہا کہ نہ صرف کردوں کے لیے اخلاقی اور سیاسی طور پر تباہ کن ہوگا بلکہ مادی طور پربھی نقصان دہ ہوگا اوراسی وجہ سےموجودہ حالات میں برزانی کایہ فیصلہ خود اس کے ملک کے مفاد کے خلاف ہے۔۔اوریہ ہمارے بیان کا پہلا حصہ ہے۔
2۔جہاں تک اس بات کا سوال ہے کہ برزانی کے اس فیصلہ کے پیچھےکس ریاست کا ہاتھ ہے توان حقائق سے کہ یہ فیصلہ کس ریاست کے مفاد میں جاتا ہے تو اس کے واضح ثبوت موجود ہیں اور بتاناقطعی مشکل نہیں کہ یہ کون سی ریاست ہے۔ عراق سے علیحدہ ریاست کے قیام کے لیے امریکہ کے خلاف جاکر اس ریفرنڈم کا اعلان کرناجبکہ کردعلاقے کے اطراف امریکی پٹھو ریاستیں بھی مخالف ہیں تو یہ اعلان برزانی کی جانب سے ہرگز نہیں جاری کیا جاسکتا ہےاور وہ تنہاء علاقائی اور عالمی طاقتوں کی مخالفت کا سامنا کرنے کی طاقت نہیں رکھتا ہے سوائے اس صورت میں کہ کوئی بڑی ریاست اس فیصلے کے لیے برزانی کی پشت پناہی کررہی ہو ۔کردستان کا پوراعلاقہ ان ریاستوں کے سامنے کھڑے ہونے کے لیے نہایت کمزور ہے بالخصوص امریکہ کے سامنے جو پورے عراق کو کنٹرول کرتا ہے اور جیسا کہ ہم نے کہا کہ اس ریاست کی نشاندہی کرنا مشکل نہیں ہے تو یہ بڑی ریاست برطانیہ ہے جو اس کے پشت پر ہے اور اس کو یہ فیصلہ لینے پر ہدایت و تعاون دے رہا ہے۔ برزانی کے خاندان کے تعلقا ت برطانیہ کے ساتھ خلافت عثمانیہ کے دور سے رہے ہیں اور برزانی کو یہ رشتہ وراثت میں اس کے باپ مصطفی ملا برزانی سے حاصل ہوا ہے اور اس سے قبل اس کے چچا احمد برزانی اور ان دونوں سے قبل عبدالسلام برزانی جس نے عثمانی خلافت کے خلاف متشددمسلح بغاوت کی تھی جو 1909 سے 1914 کے درمیان برطانیہ کے کھلے تعاون سے ہوئی تھی۔ یوں اس خاندان کے برطانیہ سے پرانے تعلقات ہیں اور ہم اس ریفرنڈم کے حوالے سے موقف جانچنے کی کوشش کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ برطانیہ کا موقف اس ریفرنڈم کی حمایت میں تھا اور ظاہر تھا حالانکہ برطانیہ خفیہ مکاری اور دھوکے کے لیے جانا جاتا ہے۔مثال کے طور پر برزانی نے عراق میں برطانوی سفیر فرانک بیکر سے 24 اگست2017 کو ملاقات کی اور برطانوی سفیر نے اس کو اپنے تعاون فراہم کیا ۔ کرد ویب سائٹ"Rudaw" نے 24 اگست2017 کو ان ملاقاتوں کی خبر کو شائع کیا تھا:"برزانی کی عراق میں برطانوی سفیر سے ملاقات کے دوران ، مہمان سفیر نے بتایا کہ اس کا ملک کردستان کے لوگوں کے حقوق کوسمجھتا ہے اور کرد علاقے کے صدر کی جانب سے ریفرنڈم کروانے کے حوالے سے برطانوی موقف کو واضح کیا"۔ سفارتی زبان میں "سمجھنے" کا مطلب حمایت وتعاون ہے اور"برطانوی موقف کو واضح کیا" جبکہ دیگر کچھ ظاہرنہیں کیا گیا تو اس کا بھی مطلب تعاون ہے یعنی برزانی کے فیصلے کے متعلق برطانیہ کا موقف مثبت ہے بلکہ اس کے ساتھ تعاون کررہا ہے اور اس کو جمے رہنے کو کہہ رہا ہے حالانکہ امریکہ اورعلاقے کے دیگر امریکی نواز ممالک اس کی مخالفت میں ہیں۔۔
ایک اور مثال، کردعلاقے کے خارجی تعلقات کے افسر فلاح مصطفی نے کردستان 24 کو بتایا کہ"برطانیہ ریفرنڈم کے خلاف نہیں ہے اور کردستان کی امنگوں کی مخالفت نہیں کرتا ہے"۔ مصطفی کا خطاب برطانوی سکریٹری آف سٹیٹ فار مڈل ایسٹ اینڈ نارتھ افریقہ (وسط یشیاء اورشمالی افریقہ کے لیےبرطانوی سکریٹری) السٹئر برٹ کی اربل میں کرد افسران سے ملاقات کے بعد آیا ، اور یہ برطانوی سکریٹری اتوار کےروزاربل میں پہنچا تھا تاکہ کردستان کے افسران سے کئی موضوعات پر بات چیت کر۔کرد وں کا منصوبہ ہےکہ 25 ستمبر کو کرد علاقے کی عراق سے آزادی کے متعلق یفرنڈم منعقد کرایا جائے جو کرد علاقے کا خودمختار ریاست کے قیام کی سمت پہلا قدم ہوگا۔ (Kurdistan24 Arbil, 5/9/2017)
اس طرح برطانیہ ہی وہ ملک ہے جو برزانی کے اس ریفرنڈم کے متعلق کئے گئے فیصلہ کی پشت پر ہے
3۔ جہاں تک برطانیہ کے مفاد کا اس فیصلے سےتعلق ہے تو یہ ٹرمپ کے انتخاب اور برطانوی وزیراعظم تھریسا مے کا مبارک باد دینے کے لیے 26 جنوری2017 کو دوڑ کرواشنگٹن جانےکے بعد بننے والے صورت حال کے مطابق ہے۔ اس وقت ٹرمپ نے مےکی تعریف کی تھی جواب میں مے نے بھی ٹرمپ کی تعریف کی تھی البتہ دونوں کے اغراض ایک دوسرے سے الگ تھے۔جہاں تک ٹرمپ کی بات ہے تو وہ چاہتا تھا کہ برطانیہ یورپی یونین کو توڑنے کے لیے پورا زور لگائے اور کوئی مکاری دکھائے بغیر یورپ کے ساتھ اپنا تعلق توڑ لے اور اس کے ساتھ اپنی کوشش بھی کرے تاکہ یورپی یونین کے انتشار کا ماحول پیدا ہوجائے بالخصوص فرانس اور ہالینڈ میں جو اس وقت الیکشن کے قریب تر تھے۔ البتہ تھریسا مے صرف یہ چاہتی تھی کہ اس کو ٹرمپ کے ساتھ تجارتی معاہدے ہو جائیں جس سے وہ یورپی یونین پر دباؤڈ ال کر برطانیہ کے یورپی یونین سے باہر نکلتے وقت برطانیہ کےلیے رعایت حاصل کرسکے۔ اس دورے کے دوران ٹرمپ اور مے اپنے اپنے اغراض پر متوجہ رہے، مے نے برطانوی مکارانہ روایت کے مطابق اپنے پُرفریب طریقوں سے اپنے تجارتی اغراض کو چھپانے کی پوری کوشش کی لیکن ٹرمپ کی سفارتی ناتجربہ کاری اور اس کے افتتاحیہ بیان نے تھریسا مے کو اس اغراض کو چھپانے نہیں دیا۔
اس طرح جب یورپ کی حمایتی پارٹیاں ، ہالینڈ اور فرانس کے الیکشن میں جیت کر آگئیں اور اس کے ساتھ ہی جرمنی جو یورپی یونین کازبردست حامی ہے اور اس پر اپنی کافی توجہ دیتا ہے تو اس سے ٹرمپ کو اندازہ ہوگیا کہ برطانیہ کی دلچسپی صرف تجارتی معاہدوں کو حاصل کرنے میں تھی اور اس نے یورپی یونین کو توڑنے میں اپنی کوئی توجہ نہیں لگائی جیسا کہ ٹرمپ چاہتا تھا۔ ان سب کےنتیجہ میں ٹرمپ کا ردعمل سامنے آیا اور اس نے برطانیہ پر قطر میں"قطر کے خلیجی بائیکاٹ"کے ذریعے ضرب لگائی اور اس کے متعلق ہم نے اس سے قبل 23 جولائی 2017 کو ایک سوال کے جواب میں بیان کیا تھا کہ:
" برطانیہ کے حوالے سے: 21 جنوری 2017کو ٹرمپ کے آتے ہی برطانوی وزیراعظم تھریسا مئے کے 26 جنوری کوہونے والے امریکی دورے اور امریکہ کے ساتھ تجارتی معاہدے پر دستخط کرنے کی جلدی دیگر یورپین ممالک کے لیے برطانیہ کی طرح یورپین یونین سے باہر نکلنے کے لیے ترغیب کے طور پر ایک اہم ماڈل تھا اور اس طرح برطانیہ نے امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات استوار کرلیے تھے اور ٹرمپ انتظامیہ برطانیہ پر بڑی مہربان تھی۔ لیکن جیسے ہی یورپی یونین کو توڑنے کی امریکی امیدوں پر پانی پھر ا ،جیسا کہ فرانس اور ہالینڈمیں یورپی یونین کی حامی پارٹیوں کی انتخابات میں جیت سے ظاہر ہے ، تو ٹرمپ کی برطانیہ کےحق میں رائےختم ہونا شروع ہو ئی کیونکہ امریکہ چاہتا تھا کہ برطانیہ یورپی یونین کو توڑنے کےعمل کی قیادت سنبھالےاور جب برطانیہ کا بریکسٹBREXIT فرانس اور ہالینڈ میں نہیں دوہرایا گیا تو امریکہ دوبارہ برطانیہ کے بین الاقوامی مفادات کو بگاڑنے میں لگ گیا جو برطانیہ کے لیے دھچکا تھا۔ امریکہ لیبیاء میں برطانوی مفاد کو نظر انداز کرکے اپنےمصری ایجنٹ سیسی کو لیبیا میں ہفتر کی حمایت کے لیے اکسا رہا ہے اورمزید دھچکا دینے کے انداز میں امریکہ نے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے قطر پر دباؤ ڈالا جو عر ب اور مسلم خطے میں برطانیہ کا ہراول دستہ ہے"۔ختم
چنانچہ ان سب حالات نے ٹرمپ کو طیش دلایا اور پھر اس نے سعودی عرب کا دورہ کیا اور وہاں اس نے ریاض سربراہی اجلاس بلایا اور پھرقطر کےبائیکاٹ کے ذریعہ برطانیہ پر ضرب لگائی ۔
4۔ اب برطانیہ کے لیے ضروری ہوگیا تھا کہ اس خطے میں چند امریکی مفاد ات میں رکاوٹ ڈالی جائے چنانچہ برطانیہ نے فیصلہ کیا کہ برزانی کو دعوت دے کہ وہ ریفرنڈم کروائے تاکہ امریکہ اور اس کے ایجنٹوں کو پریشانی میں ڈالا جاسکے۔ برطانیہ صرف امریکہ کی راہ میں روڑے اٹکا سکتا ہے کیونکہ کھلے عام امریکہ کا سامنا کرنے کی اس میں استطاعت نہیں ہے البتہ وہ امریکہ کو طیش د لانے اور رکاوٹیں کھڑی کرنے کا کام کرسکتا ہے بالخصوص جب اس کومناسب سازگار حالات اور موزوں حربہ میسر آجائے جو کردستان کے ریفرنڈم کی شکل میں اس کے ہاتھ آیا۔ برطانیہ کی نظریں جمی تھیں کہ برزانی برطانیہ کے طے کردہ لائحہ عمل پر پوری طرح چلتا ہے کیونکہ موجودہ صورتحال امریکہ اور اس کے ایجنٹوں ترکی، ایران، ملک شام کے لیےگرم ونازک ہے کیونکہ وہاں مسلح کاروائیاں جاری ہیں۔ چنانچہ برزانی ریفرنڈم کے لیے اصرارکرتا رہا اور برطانیہ نے ریفرنڈم کی حمایت میں پروپیگنڈا چلایا کہ وہ کردوں کے لیے کردستان میں ایک آزاد ریاست حاصل کرکے رہے گا ، اوربرطانیہ نے یہ سب اپنے مفاد کے لیے کیا نہ کہ کردوں کے مفاد کے لیے جس طرح برطانیہ ہمیشہ مکاری اور دھوکہ دہی کرتا رہا ہے اور کردوں کے ساتھ اس کی مکاری و دوھوکہ دہی کی ایک پرانی تاریخ رہی ہے۔ اور ہم نے یکم اپریل 2009 کو ایک سوال کے جواب میں بیان کیا تھا کہ:
"برطانیہ نے محمود الحفیظ سے 1919 میں وعدہ کیا تھا کہ سلیمانیہ میں عثمانی فوجوں کے خلاف لڑنے کے عوض میں وہ ان کو ایک کرد ریاست بنا کردے گااور پھر الحفیظ کےلڑاکوں نے اپنے عثمانی بھائیوں کے خلاف لڑائی لڑی اور ان کو نکال باہر کیا البتہ بعد میں برطانیہ نہ صرف اپنے وعدہ سے مکرگیا بلکہ اس نے الحفیظ کو اپنی نوآبادیات ہندوستان میں جلا وطن کردیا تھا۔ دوبارہ سے پھر1920 میں سویرے معاہدہ (Sèvres treaty) میں برطانیہ نے عثمانی ریاست کے سامنے مانگ رکھی تھی کہ اس میں کردستان ریاست سے متعلق شق شامل کرے جس کا مقصدصرف خلیفہ وحیدالدین کی پریشانی بڑھانا تھا اوراس معاہدے میں خلیفہ کا وفد مذاکرات کررہا تھا۔ جب برطانیہ خلافت کا خاتمہ کرنے میں کامیاب ہوگیا اورپھر اپنے ایجنٹ مصطفی کمال کو اس نے اقتدار پر ریپبلک آف ترکی کے صدر کے طور پر بٹھا دیا اور اس کے ساتھ جب برطانیہ نے 1924 میں لوزین معاہدہLausanne treaty کیا تو برطانیہ نے کرد ریاست کی شق کو اس میں شامل کرنے سے انکارکردیا کیونکہ برطانیہ اب اپنے مقصد کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکا تھا جو بلاشبہ خلافت عثمانیہ کو تباہ کرنا تھا۔ چنانچہ اب وہ وعدہ اب اپنی وقعت کھو چکا تھا اور یہ برطانیہ ہی تھا جس نے کردستان کےقومی نعروں اور جذبات کو بھڑکایا تھا اور پورے خطے میں دیگر قومی اُمنگوں کو بھڑکانے کا کام کیا تھا اور یہ برطانیہ ہی تھا جس نے اپنے مقاصد کے لیے ان جذبات کو استعمال کیا اور ان کو اسلامی ریاست کی فوجوں کے خلاف لڑنے اور بغاوت کے لیے ابھارا تھا تاکہ برطانیہ کو اس کا مقصد حاصل ہو جائے۔ اس کے بعدبرطانیہ سے تعاون کرنے والے ایسے سارے عناصر کو اس نے اپنے ایجنٹ کے طور پر استعمال کیا اور ان کو مختلف علاقوں کے اقتدار پر حاکم اور سربراہوں کی طرح بٹھایا"۔۔۔۔ختم ۔ اس طرح برطانیہ ہمیشہ مکاری اور دھوکہ دہی کرتا آیا ہے۔
5۔برزانی نے 25ستمبر2017 کو ریفرنڈم کرانے پر اصرارکیا تاکہ ایک ریاست اس کے ہاتھ آجائے اور اس نے بین الاقوامی اور علاقائی مواقف کی پرواہ بھی نہیں کی جو ریفرنڈم کی نفی میں ہے بلکہ خود دیگر کردوں کی پرواہ بھی نہیں کی جو اس کے حق میں نہیں تھے بلکہ اس نے بیان دیا کہ:" کردستان کے علاقے نے بدھ کے روز دوبارہ پر زور طور پر 25 ستمبر کوطے شدہ عراق سے علیحدگی کے ریفرنڈم کو ملتوی یا منسوخ کرنے کو مسترد کیا ہے، باوجود یکہ عالمی اور علاقائی کاروائی جاری رہی تاکہ اربل کو ریفرنڈم کروانے سے روکے اور باوجود یکہ بغداد کی مرکزی حکومت نے اس ریفرنڈم اور اس کے نتائج کو منظور کرنے سے انکار کیا ہے "۔
کرد علاقے میں ریفرنڈم کی خاطر بنائی گئی سپریم کونسل کے ایک اجلاس میں بحث کے دوران وفاقی صدرمسعود برزانی نے ریفرنڈم کے موضوع پر کرد وفد کے دورہ بغداد کے نتائج پر گفتگو کی اورساتھ ہی پرسوں ماٹس کے ساتھ اربل میں ہوئی برزانی کی بات چیت کے نتائج پر گفتگو کی گئی، برزانی کے مشیر نے بتایا کہ: صدرمسعود برزانی نے کہا کہ ریفرنڈم کو کسی صورت میں ملتوی نہیں کیا جائے گا اور اس کے طے کردہ شیڈول کے مطابق 25 ستمبر یعنی 2 ذوالجہ 1438 ہجری کو کیا جائے گا- (24 August 2017 CE - Dubai – al-arabiya.net)۔ اور یہ اس کے باوجود ہے کہ ریفرنڈم کے تعلق سے بین الاقوامی اور علاقائی نامنظوری و مخالفت مکمل طور پر واضح ہوچکی تھی:
ا۔ امریکہ نے پہلے دن سے ہی ریفرنڈم کو نامنظور کر دیا تھا جب برزانی نے ریفرنڈم کروانے کا اعلان کیا تھا ، جب برزانی نے 7 جون2017 کو اعلان کیا تھا کہ 25 ستمبر کو آزاد خودمختار کرد ریاست کے قیام کے لیے عراق کے کرد علاقوں میں ریفرنڈم کروایا جائے گا ۔ امریکہ نے بین الاقوامی اتحاد کی جانب امریکی صدارتی سفیر برٹ میک گرک (Bert McGurk) کے ذریعہ اپنا ردعمل دیا : "ہم نہیں سمجھتے کہ ستمبر میں ریفرنڈم ہونا چاہیے کیونکہ یہ غیر مستحکم کرسکتا ہے، اتنے تیزرفتار ٹائم لائن میں متنازعہ علاقوں میں ریفرنڈم کروانا، ان کوبڑے پیمانے پر غیر محفوظ کرے گا"۔
(AFP, 8/6/2017)
حال ہی میں 11 اگست2017 کو امریکی سیکریٹری خارجہ ریکس ٹلرسن نےکردستان علاقہ کےصدر مسعود برزانی کے ساتھ فون پر بات چیت کرکے ظا ہر کیا کہ:"واشنگٹن کی خواہش ہے کہ علاقہ کی آزادی وخود مختاری کے ریفرنڈم کو ملتوی کیا جائے اور وہ حمایت کرتا ہے خطے اور بغداد کے درمیان بات چیت کو جاری رکھنے کی حمایت کرتا ہے"۔ امریکہ نے 22 اگست 2017 کو اپنے سیکریٹری دفاع جیمس میٹس کو بغداد روانہ کیا تاکہ عراقی وزیراعظم عبادی سے ملاقات کرے اور پھر اربل جاکر برزانی سے ملاقات کرے اور پھر ترکی جاکر انقرہ میں اردوان سے 23 اگست2017 کو ملاقات کرے جو خطے میں فعال امریکی ایجنٹ ہے اور اس کو حرکت میں لائے۔
ب۔ علاقائی ریاستیں جو امریکہ کی وفادارہیں انہوں نے بھی ریفرنڈم کو مستردکیا ہے۔۔۔۔عراقی وزیراعظم سعد الحدیثی کے ترجمان نے بتایا کہ"عراق کے مستقبل سے متعلق کوئی بھی فیصلہ دستوری عبارتوں کے لحاظ سے کیا جائے گا کیونکہ یہ عراق کے متعلق فیصلہ ہے، عراق کے دستور کے مطابق عراق ایک جمہوری، وفاقی اور مکمل خود مختار ملک ہے اور تمام عراقیوں کو اپنے مادروطن کے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کرنے کا پوراحق حاصل ہے اور کوئی بھی فریق دوسرے فریقوں کے بغیر اس کا مستقبل تنہا ء طے نہیں کرسکتا" ۔Free American 9/6/2017))
ترکی نے پہلے دن سے ریفرنڈم اور کردستان کے علاقے کی خودمختاری کے متعلق اپنی مخالفت کا اعلان کیا ہے چنانچہ ترک وزیر خارجہ نے ایک بیان جاری کیا اور اس میں صوبے کی صدارت کے فیصلے کو اس طرح بیان کیا: "ایک فاش غلطی اورجو عراق کے اتحاد اور علاقائی سالمیت کو خطرے میں ڈالتا ہے"(Free American 9/6/2017)۔ اردوان نے امریکی سیکریٹری دفاع جیمس میٹس کے ساتھ ملاقات کے بعد اعلان کیا کہ :"ریفرنڈم کا فیصلہ غلط ہے"(Al-Jazeera 24/8/2017)۔۔۔"اوراسی طرح ایران نےبھی 11 جون 2017 کوریفرنڈم کے اعلان کے فوراً بعد اپنا اعلان جاری کیا کہ وہ ستمبر میں عراق کے کردستان میں ہونے والے ریفرنڈم کی بھر پورمخالفت کرتا ہے اور زور دیا کہ ایران کا موقف عراق کی علاقائی سالمیت کے متعلق پوری طرح واضح ہے اور ایرانی خارجہ وزارت کے ترجمان بہرام قاسمی نے کہا کہ "یک طرفہ اور بڑاگہرااثر رکھنے والا فیصلہ ہے جو قومی اور قانونی میزان سے جڑا ہوا ہےاس سے مزید مسائل پیدا ہوں گے اور امن وتحفظ کی بدترین صورت حال کا خطرہ پیدا ہوگا" (15/6/2017 http://afkarhura.com)
دی فری آئیڈیا ویب سائٹ http://afkarhura.com/?p=6839 نے 7 ستمبر کو ایرانی شوری کونسل کے صدر کا ایک بیان جاری کیا جس میں انہوں نے کہا کہ "بین الاقوامی معاملات میں اسلامی شوری کونسل کے صدرحسین عامر عبداللہ عیان نے تصدیق کی کہ عراق کے کردستان میں ریفرنڈم نئے بحران پیدا کرے گا"۔
مزید یہ کہ امریکہ کے وفادار کردستان میں بھی موجود ہیں جس میں کرد غوران تحریک (the Change Party، تبدیلی کی تحریک) اور طالبانی کی نیشنل یونین پارٹی بھی شامل ہے۔غوران تحریک نے ریفرنڈم کی مخالفت کی ہے۔تحریک کے ممبر ہوشیار عبداللہ نے کردستان پارلیمنٹ میں کہا کہ "تبدیلی کی تحریک اب بھی اس رائے کی قائل ہےکہ ریفرنڈم کا وقت موزوں نہیں ہے اور یہ مسعود برزانی کا ذاتی اور طرفداری کا ایجنڈا ہے"اور اس پر زور دیا کہ" کردستان ڈیموکریٹک پارٹیKDPمہرا ہے کھلاڑی نہیں ہے "(Elaph, 5/8/2017)۔ مزید ریپبلک آف عراق کے صدرفواد معصوم نے بھی ریفرنڈم کو مسترد کیا ہے جو طالبانی کے نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی سے ہے اور کہا کہ:"صدارت کردوں کے کاندھوں اور ووٹ کے ذریعہ حاصل ہوئی ہےاور ان کےخون کے ایک قطرہ اوردی گئی قربانیوں کے برابر بھی نہیں ہے اور وہ"معصوم" کو اجازت نہیں دیں گے کہ اپنی ریاست قائم کرنے کے ان کے خواب کو توڑے اور ریفرنڈم کے دن بتادیں گے"۔ کردستان ڈیموکریٹک پارٹیKDPنے اپنا بیان جاری کر کے معصوم کے بیان کو بڑا خطرناک بیان قرار دیاجو دنیا کے ممالک کو غلط پیغام بھیجے گا اور ریفرنڈم کے نتائج کو بے وقعت اور اس کو گھٹائے گا، (پچھلے ذرائع سے) ۔
اس علاقائی اوربین لاقوامی مخالفت کے باوجودبرزانی نے ریفرنڈم کروانے پر اصرار کیا اور اعلان کیا کہ وہ اس کوایک منٹ کے لیے بھی ملتوی نہیں کرے گا جیسا کہ ہم نے اوپر بیان کیا اور یہ سب اس لیے ہوا کیونکہ اس ریفرنڈم کی لگام برطانیہ کے ہاتھ میں ہےجیسا کہ ہم نے صورت حال کے جائزہ لینے کے دوران اس کو ظاہر کر دیا ہے۔
6۔ اب جبکہ ہم نے ریفرنڈم سے جڑے حالات کا جائزہ اس پر اثرانداز مختلف عناصرکے ہمراہ لے لیا ہےتو ہم اب اس ریفرنڈم سے لگائی جانے والی امیدوں کے متعلق جواب دے سکتے ہیں، جوزیادہ متوقع ہےاور ہمارے بیان کی روشنی میں اس طرح ہے:
ا-کسی بھی صورت حال میں متوقع نہیں ہے کہ کردوں کی ایسی ریاست قائم ہو پائے گی جو قانونی طور پر ریاست کا درجہ رکھتی ہو کیونکہ عراق کے لیے موجودہ امریکی منصوبہ اس کو ایک وفاقی ریاست بنا کر رکھنا ہے جس میں وفاقی علاقے مرکز سے ایک کمزور تعلق سے جڑے ہوں جس کا مطلب ہے کہ عملی طور پردونوں کی حکومتی انتظامیہ کے درمیان علیحدگی ہوگی لیکن سرکاری طور پر عراق مختلف علاقوں پر مشتمل ایک وفاقی ریاست ہوگا اور 2003 سے اس پر قبضے کے بعد سےعراق کے لیے یہی امریکی منصوبہ رہا ہے اور اس دوران امریکہ اس کی تقسیم اور ٹوٹ پھوٹ کے بیج بوتا رہا ہے۔ فی الوقت سرکاری طور پر ا نہیں الگ ریاست قرارنہیں دیا جاتا ہے لیکن وقت آنے پر کیا جائے گا۔ پال بریمر نے، جو عراق کا امریکی گورنر تھا، اس کے بعد عراق کی وفاقی حکومت کے لیے دستور بنایا اور اس طرح مضبوط ریاست کا درجہ رکھنے والے مرکزی اقتدارکی عراقی ریاست کا خاتمہ کر کے ایک کمزور ریاست بنا دیا گیا جہاں وفاقی حکومت کومرکزی حکومت کے مقابلے مستحکم کیا گیا تاکہ عراق کومستقبل میں توڑپھوڑ کے لیے تیار کیا جاسکے جس کا وقت اور حالات امریکی مفادکے مطابق طے ہوگااور یوں امریکہ بھی عراق کو سرکاری طور پر مختلف ریاستوں میں تقسیم کرنے کے لیےتیارہے۔ جہاں تک موجودہ صورتحال ہے تو فی الوقت امریکہ عراق کو مرکز سے کمزور تعلق رکھنے والی وفاقی ریاست بناکر رکھنا چاہتا ہے۔
اس طرح موجودہ امریکی پالیسی عراق میں مختلف ریاستوں کی موجودگی نہیں بلکہ ایک وفاقی ریاست چاہتی ہے جو عملی طور پر منقسم ہو لیکن برائے نام ایک ریاست ہو۔ چنانچہ موجودہ حالات میں سرکاری طور پر عراق کی تقسیم غیر متوقع ہے البتہ بریمر پروجیکٹ کے مطابق عراق عملی طور پرمختلف وفاقی علاقوں میں تقسیم رہے گا اور وفاقی علاقوں کا اقتدار مرکزی حکومت سے زیادہ مستحکم رہے گا، کم ازکم نظر آنے والے مستقبل تک تو ایسا ہی نظرآتا ہے۔
ب- چونکہ ریفرنڈم کا اعلان ایک برطانوی منصوبہ ہے تاکہ جو کچھ برطانیہ کو قطر کے معاملے میں سہنا پڑا ہے اس کےلیے جال بچھایا جاسکے تاکہ امریکہ قطر کا بائیکاٹ ہٹانے میں تعاون کرے یا پھر کسی طور پر اس کے لیے آسانی پیدا کرسکے جس سے برطانیہ اپنا وقار بچا سکتا ہو تو اس کے عوض میں پھر ریفرنڈم کو منسوخ کردیا جائے گا ۔
ج- امریکہ چاہے تو ریفرنڈم کو خود ہی منسوخ کرواسکتا ہے کیونکہ عملی طور پر امریکہ ہی عراق پر کنٹرول رکھتا ہے خواہ یہ منسوخی براہ راست امریکہ کی جانب سے کی جائے یا پھر کردستان میں اس کے وفاداروں کے ذریعہ کرے یا پھر ترکی اور ایران کو کردعلاقے بلکہ برزانی کے خلاف متحرک کرے خواہ اس کے لیے مادی قوت کے استعمال سے دباؤ بنانے کی ضرورت ہی کیوں نہ پڑجائے۔ اسی دوران ایران کے چیف آف سٹاف محمد باقری نے ترکی کا دورہ کیا جو 1979 میں جمہوریہ ایران کے قیام کے بعد پہلا دورہ تھا اور یہ دورہ 15 جولائی 2017 کو کیا گیا جو تین دن تک چلا اور اس کے استقبال کے لیے انقرہ میں صدارتی کمپاونڈ میں اردوان نے ملاقات کی جو 50 منٹ تک چلی جیساکہ ترکی کی سرکاری اناطولیہ ایجنسی نے بتایا جو اس معاملے کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے۔ ایرانی افواج کے سربراہ کے ہمراہ ترکی کی زمینی افواج اوربارڈر گارڈ کے کمانڈر تھے جن کے ہمراہ کئی ایرانی ملٹری کمانڈر بھی تھے اور یہ سرکاری ایرانی نیوز ایجنسیIRNA نے بتایا۔ ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان بہر ام قاسمی نے ایرانی چیف آف سٹاف محمدباقری کے ترکی دورے کو دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی خاطر ایک بڑا اور ضروری قدم بتایا (مہر ایرانی نیوزایجنسی -12/08/2017)۔ چنانچہ متوقع یہی ہے کہ یہ دورہ اور ملاقات اس کرد علاقے میں کسی بھی مادی قوت کے استعمال کے لیےتعاون واشتراک کو طے کرنے کے لیے تھا جو ریفرنڈم کو منسوخ کرنے یا اس کے نتائج کو غیر موثر کرنے کے لیے درکار ہو تو استعمال کیا جاسکے اور اسے اس بات کو تقویت پہنچتی ہے کہ امریکی سیکریٹری دفاع کا ترکی کا دورہ ہوا جو 23 اگست2017 کو ایران کےچیف آف سٹاف کے ترکی دورے کے فوراً بعد ہوا تھا۔
د- اگر امریکہ کو اس بات کا خوف ہو کہ پچھلے نقطہ (ج) کے مطابق حالات خراب ہوں گے لیکن اس ریفرینڈم سے کوئی پُراثر اور با معنی نتائج سامنے نہیں آتے تو وہ ریفرنڈم کو روکنے کی کوشش نہیں کرے گا ۔اور یہ کہ ریفرنڈم کے بعد کوئی اقدام طے نہ کیا جاسکے جس کو آزادانہ طور پر لیا جاسکے۔
7۔ آخر میں یہ بڑا ہی دردناک ہے کہ اسلامی رشتہ جس کو مسلمان خواہ عرب ہو یا غیر عرب بڑے اعزاز کے طور پر دیکھتے ہیں، اس کو کافر استعمار مسلمانوں کی زندگی سے دور کرنے میں کامیاب ہوا ہے اور اس کو سڑے گلےبدبودارتعلق سے بدل دیا گیا ہے جو مسلمانوں کی بربادی اور ان کو حصے بکھرے کرنے میں استعمال کیا گیا۔ یہ ایک ہتھیار ہے اور یہ کہ ان کے درمیان جنگ رواں ہے لیکن اخوت موجود نہیں ہے۔
قومیت ہی وہ ہتھیار ہے جس کے ذریعہ امت کو ڈھا دیا گیا ہے جیسا کہ ماضی میں کل یہ اسلامی ریاست کو ڈھانے میں ہتھیار بنایا گیا تھا اور اب پھر سے کافر استعمار اس کو امت مسلمہ کی بچی کچی عمارت کو توڑنے میں ہتھیار بنا رہا ہے۔۔۔۔۔اور پھر مسلم ممالک کو بڑی طاقتوں کے لیے جنگ کا میدان بنایا جارہا ہےجس کے ذریعہ سے وہ خون مسلم کی ہولی کھیلتے ہیں اور بھائیوں کو آپس میں ایک دوسرے کی گردن مارنے پر اکساتے ہیں ۔ اسلام نے ان سب سے منع کیا ہے اور مسلمانوں میں اتحاد اور اخوت کو لازمی فریضہ قرار دیا ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنتُمْ عَلَىٰ شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَكُم مِّنْهَا كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ﴾
"سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور تفرقہ میں نہ پڑو، اللہ کے اُس احسان کو یاد رکھو جو اس نے تم پر کیا ہے ،تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، اُس نے تمہارے دل جوڑ دیے اور اس کے فضل و کرم سے تم بھائی بھائی بن گئے، تم آگ سے بھرے ہوئے ایک گڑھے کے کنارے کھڑے تھے، اللہ نے تم کو اس سے بچا لیا، اس طرح اللہ اپنی نشانیاں تمہارے سامنے روشن کرتا ہے شاید کہ اِن علامتوں سے تمہیں اپنی فلاح کا سیدھا راستہ نظر آ جائے"(سورۃ آل عمران: 103)۔
اور مزیداللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا:
﴿إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ﴾
"مؤمن تو ایک دوسرے کے بھائی ہیں"(سورۃ الحجرات: 10)
مزید اسلام نےمسلمانوں کے لیے عصبیت کی ہر ایک قسم کو حرام قراردیا ہےجس میں قوم پرستی ، وطن پرستی ، قبیلہ پرستی شامل ہے۔۔۔۔ عامر بن دینار نے بتایا کہ : میں نے جابر بن عبداللہ سے سنا ہے: ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ حالت سفر میں تھے مہاجرین میں سے ایک شخص نے انصارکے فرد کو لات ماری تو انصاری نے صداء لگائی ائے انصار،تو مہاجرین نے صداءلگائی ائے مہاجرین، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا تو فرمایا"«مَا هَذَا؟» یہ کیا ہے؟ " تو انہوں نے کہا کہ "ائے اللہ کے رسول ، مہاجرین میں سے ایک شخص نے انصار کےایک شخص کو لات ماری ہے تو انصاری نے صداء دی "ائے انصار" اور مہاجر نے صداء دی " ائے مہاجرین " تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «دَعُوهَا، فَإِنَّهَا مُنْتِنَةٌ» "اس کو چھوڑدو بدبودارسڑی گلی شئے ہے"( بخاری کی روایت)۔
اور ابی ملجازنے جند ب بن عبداللہ البجالی سے روایت کیا ہے جس نے بتایا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«مَنْ قُتِلَ تَحْتَ رَايَةٍ عُمِّيَّةٍ، يَدْعُو عَصَبِيَّةً، أَوْ يَنْصُرُ عَصَبِيَّةً، فَقِتْلَةٌ جَاهِلِيَّةٌ»
"جو کوئی اس طرح قتل ہوا کہ وہ جاہلیت کے جھنڈے تلے لڑرہا تھا، عصبیت کی طرف دعوت دے رہا تھا یاعصبیت کی مدد کررہا تھا تو وہ جاہلیت میں قتل ہوا ہے"(مسلم کی روایت)۔
اس دین کے وقار تلےاور اللہ کی نصرت کے ساتھ اوراسلام کی اخوت سے متحد رہتے ہوئےمسلمان کئی صدیوں سے رہتے چلے آئے ہیں چنانچہ اللہ کے نبی کے ساتھیوں میں ابو بکر ، عمر، عثمان و علی ، سلمان الفارسی، بلال حبشی تھے یہ سب اللہ کے بندے تھے جو آپس میں بھائی تھے اور اللہ کی راہ میں جدوجہد کرتے تھے۔۔۔توعمر القدس میں فاتح کی طرح داخل ہوئے، صلاح الدین ؒجو کرد تھے انہوں نے القدس کو صلیبیوں سے آزاد کرایا تھا اور عبدالحمید جو ترک تھے انہوں نے اس کو یہودیوں کے ہاتھوں ناپاک ہونے سے بچایا تھا ۔۔۔مسلمان عزت ووقاروالے ہوتے ہیں چنانچہ ہر اس شخص کو بھی ہونا چاہیے جو قلب رکھتا ہے اور جو سماعت و شعور کے ساتھ حاضر ہے۔اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا:
﴿إِنَّ فِي هَٰذَا لَبَلَاغًا لِّقَوْمٍ عَابِدِينَ﴾
"اِس (قران )میں ایک بڑی خبر ہے عبادت گزار لوگوں کے لیے" (سورۃ الانبیاء: 106)
18 ذی الحجہ 1438 ہجری
9 ستمبر 2017