السبت، 21 جمادى الأولى 1446| 2024/11/23
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

سوال وجواب :

اسپین کے صوبے  قيطلونیہ Catalonia میں سیاسی ہل چل

سوال:

بی بی سی نے اسپین کے وزیراعظم ماریانو راجوئے کے آفس کے حوالے سے آج 19 اکتوبر2017 کو رپورٹ نشر کی کہ :” کابینہ  دستور کی دفعہ 155 کونافذکرنے کے لیے ملاقات کرے گی، جو اسے اس  خطے کے نظم ونسق کو اپنے ماتحت لینے کو جائز قراردیتی ہے۔۔۔ قیطلونیہ حکومت کے سربراہ Carles Puigdemont نے اسپین کی حکومت کوخط لکھ کر دھمکی دی ہےکہ  قیطلونی  خطے کی پارلیمنٹ خطے کی آزادی وخود مختاری کے ریفرنڈم کی منظوری دے دے گی اگر میڈرڈ کی طرف سے گفت وشنید بندکرنے کی کوشش اور جبر و سختی کو جاری رکھا گیا”۔ یکم اکتوبر 2017 کے ریفرنڈم کے بعد قیطلونی خطے کے صدر نے 10 اکتوبر2017 کو خطے کی پارلیمنٹ کے سامنے اسپین سے خطے کی علیحدگی کا اعلان کیا تھا  البتہ اس کے نفاذ کو گفتگو کے لئے کھلا بتایا تھا۔ سوال یہ ہے کہ اسپین  کی ریاست، اس کا بادشاہ،  اس کی حکومت اور دستوری عدالت سب کی مخالفت کے باوجود  خطے کے صدر نے کیوں ریفرنڈم کروایا تھا؟ اوراس کے متعلق بین الاقوامی موقف کیا ہے اور اس ریفرنڈم کےنتائج یعنی قیطلونی خطے کی آزادی کو نافذ کرنا کس حد تک ممکن ہے؟ جزاک اللہ خیراً

 

جواب:

تصویر کے صاف اور واضح نظر آنےاور اس سوال کا حقیقی جواب حاصل کرنے کے لئے ہم قیطلونیہ کی حقیقت  کا جائز ہ لیں گے اوراس کی علیحدگی پسند تحریکوں اور پھراس ریفرنڈم ، اس کے بعد ہم بین الاقوامی موقف کی طرف آئیں گےاوراس کے بعد ریفرنڈم کو نافذ کرنے کے ممکنات کی  جانچ کریں گے۔  

 

اول:  قیطلونیہ کے جغرافیائی اور تاریخی حقائق اس طرح ہیں : یہ خطہ اسپین کےشمال مغرب میں واقع ہے جس کا رقبہ 32.1 ہزارمربع  کلومیٹر ہےجو اسپین کے رقبے کا 8 فیصد ہےجس کا دارالحکومت بارسلونا ہے۔ قیطلونیہ میں چار صوبے ہیں بارسلونا (Barcelona)، جیرونا (Girona)، لیدا (Lleida) اورتاراگونا (Tarragona)۔ قیطلونیہ کی آبادی 75 لاکھ ہے جو اسپین کی کُل آبادی کا 16 فیصد ہے جس میں اس قسم کے17 خودمختار خطے شامل ہیں۔ 

اسلام نےاندلس (اسپین) کی فتوحات کے دوران قیطلونیہ کو 95 ہجری میں نوراسلام سے منور کردیا تھا  اور جب اسلامی حکومت کا خاتمہ ہواتو اس کے بعد بھی خطہ ایک آزاد خودمختار ریاست کے طور پر موجود رہا اور پھر 1714 عیسوی میں اسپین نے اس پر قبضہ کرکے الحاق کرلیا۔ خطے کے لوگوں نے اس قبضے کو قبول نہیں کیا اور اس قبضے کو ہٹانے کے لئے جدوجہد کرتے رہے ۔ 1930 میں مرکزی حکومت اور اس کے درمیان  ایک خانہ جنگی ہوئی  جس میں  حکومتی  اتحاد اور فرانکو آرمی  آمنے سامنے فریق تھے اور فرانکو آرمی کی جیت کے بعد قیطلونیہ کے باشندوں کو ہراساں کیا گیا، ان کی زبان کو خطے کی سرکاری زبان کے درجہ سے ہٹایا گیا اور اسکولوں کو قیطلونی زبان سکھانے سے روکا  دیاگیا اور قیطلونی  شناخت کاانکار کیا گیا۔ ظالمانہ فرانکو حکومت کےخاتم ہوجانے کے بعد ایک عوامی ریفرنڈم کروایا گیا تھا جس میں اسپین کے دستور کے حق میں 30 فیصد ووٹ آئے تھےجو اسپین کے اتحاد اورمختلف قومیتوں اوراقلیتوں کےمختلف خطوں میں خود مختاراقتدار کے حق کو تسلیم کرتا ہے۔ 1979 عیسوی میں قیطلونی عوام کو ایک مرتبہ پھر خو دمختارحکومت  کا حق حاصل ہوا اور اس کے نتیجہ میں قیطلونی اور ہسپانوی زبان کو خطے میں سرکاری زبانوں کا درجہ دیا گیا ۔

اس کے بعد قیطلونیہ میں علیحدگی پسندی کی تحریک دھیمی ہوگئی  تھی البتہ اس صدی کی شروعات سے اس تحریک  میں رفتہ رفتہ تیزی آئی ہے۔

 

دوم:  جدید قیطلونی تحریکوں  کے ادوار

1۔ یہ تحریکیں 2006 میں خطےکی حکومت میں خود مختاری  کے نئے قانون کے منظور ہونے کے ساتھ شروع ہوئیں  اور لوگوں نے اس کو ووٹ  کرکے اختیار کیا تاکہ  پورےخطے کو خودمختاری میں لیا جاسکے۔  اس قانون نے قیطلونیہ کو ایک قوم قرار دیا ۔ 2010 میں اسپین کی دستوری  عدالت نے اس قانون کو تبدیل کردیا جس کی مخالفت میں اس نعرے کے ساتھ مظاہرے کیے گئے کہ  “ہم ایک  الگ قوم ہیں اور ہم اپنا فیصلہ خود طے کرتے ہیں”۔ نومبر 2012 میں ایک علامتی ریفرنڈم کروایا گیا جس میں خطے کے 37 فی صد افراد شامل ہوئے تھے اور اسپین کی ریاست سے علیحدگی کے حق میں اپنی رائے دی تھی۔  جنوری 2015 میں قیطلونیہ کے وزیراعظم آرتھر ماس  نے اچانک اسی سال  ستمبر میں ریفرنڈم کی شکل میں انتخاب کا اعلان کردیا  اور جلد انتخاب کرائے گئے ۔ قومی علیحدگی تحریک نےاس کی مخالف پارٹیوں کے مقابلے73 سیٹوں کی  اکثریت یعنی 63 سیٹیں  جیت لیں تھیں۔ نومبر 2015 میں پارلیمانی  اکثریت قانون کو منظور کرانے میں کامیاب ہوگئی تاکہ “آزادقیطلونی ریاست کی علیحدگی کا عمل شروع کیا جاسکے”۔ اسپین کی حکومت نے اس بل کے خلاف دستوری عدالت میں اپیل کی جس نے اس  اپیل کو منظور کرلیا ۔

2۔ جب تحریک تیز اور مضبوط سمت میں آگے  بڑھنے لگی تو قیطلونیہ کے صدر کارلس نے 9 جون 2015 کو اعلان کیا کہ “خطے کی اسپین سے آزادی کے لئے یکم اکتوبر2017  کو ایک ریفرنڈم ہوگااور حکومت اس ریفرنڈم میں درج ذیل سوالات سامنے رکھے گی : کیا آپ قیطلونیہ کو ایک آزاد ریاست کی شکل میں دیکھنا چاہتے ہیں جو ریپبلک قسم کی  ہوگی؟”(Novosti, 9/6/2017)۔اس کے اگلے روز اسپین  کی حکومت نے اعلان کیا کہ وہ قیطلونیہ کی آزادی کی  کسی بھی کوشش میں رکاوٹ ڈالے گی۔6 سمتبر2017 کو قیطلون پارلیمنٹ نے ایک قانون منظورکیا جس کے تحت قیطلونیہ کے خطہ کی اسپین سے آزادی کی خاطرریفرنڈم کی بنیادی وجوہات کیا ہیں ان کوبیان گیا تھا۔ اسپین کے وزیراعظم  ماریانو راجوئے نے کہا:”اسپین کی حکومت اس کے دستوری اختیار کا استعمال کرتے ہوئےقیطلونیہ کی خود مختاری کو منسوخ کردے گی اور خطے کو اسپین سےٹوٹ کر علیحدہ ہونے سے روکا جائے گا”۔اسپین کی دستوری عدالت نے8 ستمبر2017 کو جواب میں ریفرنڈ م کواس وقت تک  کے لیےمنسوخ  کردیا جب تک وہ اس ریفرنڈم کی دستوری حیثیت کا تعین نہ کردے ۔

3- البتہ یکم اکتوبر2017 کو طے کردہ  وقت پر ریفرنڈم  کروایا گیا۔43 فیصد لوگوں نے  ووٹ ڈالاجن کی 90 فیصد اکثریت نے اسپین سے علیحدگی اور قیطلونیہ  کی خود مختاری کے حق میں ووٹ ڈالے۔ اسپین کے بادشاہ فلپ ششم نے 3 اکتوبر 2017 کوریفرنڈم کے بعد ایک تقریر کی  اوراس کو “غیر قانونی اور غیر جمہوری” قرار دیا، البتہ خطے کے گورنر نے کہا کہ ،”وہ اس ہفتے یا اگلے ہفتے کی شروعات میں خطے کی آزادی کا اعلان کردے گا”۔ اس نے  مزید کہا کہ : “بادشاہ نےاسپین کے دستور کے تحت  دئیے  گئے اس کےاعتدال پسند  کردارکو ٹھوکر ماری ہے”(BBC 3/10/2017)۔ ایسامحسوس ہوتا ہے کہ اسپین   کو ہزیمت اٹھانی پڑی ہے کیونکہ وہ ریفرنڈم کے عمل کو روک نہیں سکا  لہٰذا اس نے رخنہ ڈالنے کی غرض سے جو سرگرمیاں انجام دی اس کی وجہ سے سیکیورٹی فورس سے تصادم کے نتیجے میں893 افراد زخمی ہوئےتھے جوریفرنڈم میں ووٹ ڈالنے کی غرض سے آئے تھےاور اس وجہ سے عوامی غم وغصہ اسپین کے خلاف بھڑک اٹھا تھا، چنانچہ اسپین اس   خطے کی خودمختاری کے اعلان  کو روکنے کی غرض سے دیگر حربوں کو تلاش کررہا تھا۔ اسپین  نے خطے کے خلاف معاشی جنگ چھیڑدی اور بڑے مالیاتی اداروں اور کمپنیوں نے قیطلونیہ سے جانے کا اعلان کیا  اور اسپین کے تیسرے سب سے بڑے بنک CaixaBank نے 6 اکتوبر2017 کو اپنے ہیڈ آفس کو بارسلونا سے باہر منتقل کرنے کا فیصلہ کیا جو قیطلونیہ کا دارلحکومت ہے۔8 اکتوبر2017 کو اسپین نےقیطلونیہ کی علیحدگی  کے مخالف  افراد کولاکھوں کی تعداد میں روڈ پر لے آیا تاکہ قیطلونیہ میں علیحدگی کے خلاف ایک مخالف عوامی رائے قائم  کی جاسکے۔

4- قیطلونیہ خطے کے صدرکارلس نے 10اکتوبر2017 کو پارلیمنٹ کےسامنے قیطلونیہ کے خطے کی آزادی کا اعلان کیا  البتہ اس کے نفاذ کو موخر کردیا ، اس نے کہا :”میں قیطلونیہ خطے کے لوگوں کی رائے کوایک ریپبلک کی شکل میں آزاد ریاست بننے کے حق میں رائے شمار کرتا ہوں اور میں پارلیمنٹ سے اس آزادی کے اعلا ن کے نتائج کو چند ہفتوں کے لئے منسوخ کرنے کی درخواست کرتا ہوں تاکہ گفت وشنید کا دور شروع کیا جاسکے”۔ البتہ وہ اس حد تک نہیں گیا کہ علیحدگی کے اعلان کے لئے پارلیمنٹ کی حمایت کردے (یورو نیوز، رائٹرز10 اکتوبر2017)۔اس کا مطلب ہوا کہ آزادی کا اعلان کرکےوہ خود کو ہزیمت میں مبتلاء نہیں کرنا چاہتا تھا کیونکہ اس کو انجام تک پہنچانا کتنا مشکل ہے اس بات کا اسے ادراک تھا چنانچہ اس نے اسپین کی ریاست کے ساتھ ٹکراؤ  اختیار نہ کرتے ہوئے مذاکرات کی راہ کھلی رکھی ۔ خطہ اس  طرح اب بھی اسپین کے اندر ہی شامل ہےالبتہ خطے کا مسئلہ بدستور قائم ہےاور اسپین اور یورپی یونین کے رحم وکرم پر ہےکہ جب تک حالات موافق و سازگارنہیں ہوجاتےاورآزادی حاصل کی جاسکے۔

 

سوم:  قیطلونیہ کےمعاملے پر بین الاقوامی موقف: ہم اثرونفوذ رکھنے والے ممالک کے موقف کا ذکر کریں گے یعنی یورپی یونین  وامریکہ ا وراس کے علاوہ  اقوام متحدہ  کا موقف جوامریکہ کے موقف سے متاثر ہوتا ہے۔

1۔ یورپی موقف ،اس ریفرنڈم اور قیطلونیہ کی آزادی کے بالکل مخالف  تھا۔جرمنی فرانس اور یورپی یونین نے اسپین کی حکومت کے موقف کی حمایت و تائید کی۔جرمنی کے نائب وزیرخارجہ نے بیان دیا کہ “قیطلو نیہ کے  حالات نہایت تشویش ناک  تھے اور علیحدگی پسندی حل نہیں ہے اور علیحدگی پسندی کسی مسئلے کو حل نہیں کرتی ہے۔ ہر ایک یورپی یونین کے رکن کوسختی سے اصول وضوابط کا احترام کرنا ہوگا اور قانون و جمہوریت کی بالادستی کو تسلیم کرنا ہوگا۔۔سیاسی تنازعات کو مصالحت کےذریعہ طے کرنا ہوگا نہ کہ سڑک پر اترکرتشدد کا طریقہ اختیار کیا جائے” (Reuters, 2/10/2017)۔فرانس نے اپنے یورپی یونین افیئرزکے وزیر Nathalie Loiseau کے ذریعہ اپنے موقف کا اعلان کیا کہ “فرانس اسپین کے اس خطے کی یکطرفہ آزادی کے اعلان کو تسلیم نہیں کرتا ہے۔۔۔اور اگر آزادی کو تسلیم کیا گیا جو کہ زیر بحث  بھی نہیں ہے تواس کے نتائج کے طور پر قیطلونیہ فوراً یورپی یونین سے باہر ہوجائےگا” (Reuters, 9/10/2017) ۔یورپی یونین کمیشن کے صدر Jean-Claude Juncker نے یونین کا موقف “اسپین کی حکومت اور دستوری عدالت کے فیصلہ کا احترام کرنے کا مطالبہ”بیان کیا جبکہ یورپی کونسل کے صدر Donald Tusk نےٹوئیٹر پر2 اکتوبر2017 کو لکھا کہ “ان (اسپین کے وزیراعظم Mariano Rajoy) کی دستوری رائے کے ہمنوائی کرتے ہوئے میں اپیل کرتا ہوں کہ راستے نکالیں جائے تاکہ تنازعہ اور تشدد کو مزید بڑھاوا نہ دیا جائے”۔

2۔ جہاں تک ا مریکی موقف کا سوال ہے، تو یہ پتہ چلتا  ہے کہ قیطلونیہ کی حکومت اور اس کے صدر کی امریکہ نے حوصلہ افزائی کی ہے۔ امریکی دفتر خارجہ کے ترجمان  ہیتھر نورٹ Heather Nauert نے کہا کہ”امریکہ ریفرنڈم کو اسپین کے اندرونی معاملات کا حصہ گردانتا ہےاورہم  اس میں مداخلت کرنا نہیں چاہتے اور ہم اس کو وہاں کی عوام اور حکومت پر چھوڑتے ہیں تاکہ وہ کوئی راہ نکالیں اور ہم اس سے نکل کر آنے والی کسی بھی حکومت یا ریاست کے ساتھ  مل کر کام کرنے کو تیارہیں” (the Egyptian Al-Fajr, 16/9/2017) ۔ یہ آخری جملہ ریفرنڈم اور آزادی کی تائیدمیں  امریکہ کی حوصلہ افزائی ہےکیونکہ یہ کہتا ہے کہ “اور ہم اس سے نکل کر آنے والی کسی بھی حکومت یا ریاست کے ساتھ  مل کر کام کرنے کو تیارہیں” ۔ اس سے مراد ہے کہ اگر قیطلونیہ آزاد ہوجائے  تو ہم اس کوریاست  کے طور پر  تسلیم کرلیں گے۔ اسپین کے اخبار El País نے بیان کیا ہے کہ” قیطلونیہ خطہ کے صدر Carles Puigdemont نے امریکی ترجمان کے بیان سےیہ سمجھا ہے کہ امریکہ قیطلونیہ کے عوام کی رائےاور ریفرنڈم  کا احترام  کرتا ہے”۔ ہمیں یہ جانتے ہیں کہ امریکہ یورپی یونین کو توڑنا چاہتا ہے جیسا کہ امریکہ نے برطانیہ کے یورپی یونین سے اخراج Brexit پراس کی تائیدو حمایت کا اعلان  کیا تھا اوروہیں  دیگر یورپی ممالک کو اس کے لئے ابھارتا ہے یا کم ازکم یہ چاہتا ہے کہ یورپی یونین اپنے اندرونی معاملات اور علیحدگی پسند جماعتوں  کےساتھ الجھی رہے تاکہ بین الاقوامی معاملات میں وہ امریکہ کے ساتھ رسہ کشی نہ کرے اور اس کے کھیل نہ بگاڑے۔ اس طرح علیحدگی پسند جماعتوں کی حوصلہ افزائی کرنا امریکہ  کےاپنے مفاد میں ہےاور یہاں  اس کا موقف کردستان میں ہوئے ریفرنڈم اور آزادی کے حوالے سے اس کے موقف سےمختلف ہے جس کی اس نے زبردست مخالفت کی اور اس کومسترد کیا اورخطہ کے ممالک ایران وعراق سے لے کرترکی  تک کو اس نے متحرک کیا تاکہ اس کی مخالفت کریں اور اس کو مسترد کریں اور برزانی پر دباؤ ڈالیں کیونکہ موجودہ حالات میں یہ امریکہ کے مفاد میں نہیں ہےبالخصوص  چونکہ وہ عراق میں اثرونفوذ رکھتا ہے۔ جبکہ یہ برطانیہ تھا جس نے اپنے ایجنٹ برزانی کو اکسایا تھا تاکہ وہ یہ قدم  اٹھاکر امریکہ کا کھیل خراب کرے اور اس معاملے پرامریکہ سے لین دین کر کےامریکی پابندیاں  جو برطانیہ کے ایجنٹ قطر پر سعودی عرب اور مصر کی جانب سے لگائی گئی ہیں ان کو ہٹایا جائے۔

3۔ جہاں تک  اقوام متحدہ کی بات ہے جس پر امریکہ غالب ہےتو اس کا موقف  قیطلونیہ کی آزادی کے حوالے سے اس کی حوصلہ افزائی کرتاہے۔ اس کے سکریٹری جنرل Antonios Guterich نے کہا کہ”ہم امید کرتے ہیں کہ اسپین کے جمہوری ادارے قیطلونیہ علیحدگی پسندوں اور قومی ریاست کے درمیان  تنازعہ کا حل ڈھونڈ نکالیں گے”۔ اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کے 72 ویں اجلاس کے صدر کے  ترجمان نے اس بات پر زور دیا کہ “لوگوں کا خوداختیاری کا حق بنیادی حق ہےاور ساتھ ہی اس بات کی ضرورت پر زور دیا کہ ملک کی علاقائی سالمیت کو ضرب لگائے بغیراورشامل فریقوں کی رضامندی کےتحت اس حق  کو استعمال کرنا  چاہیے” (Associated Press, 3/10/2017)۔ اس سےیہ ظاہر ہوتا ہے کہ اقوام متحدہ قیطلونیہ کی آزادی کو تقویت پہنچارہی ہےجبکہ وہیں یہ کردستان کے ریفرنڈم اورآزادی کی مخالفت کرتی ہے کیونکہ اقوام متحدہ کی قراردادوں پر امریکہ کا غلبہ ہے۔

ان مواقف سےظاہر ہےکہ ریفرنڈم کو لے کر قیطلونیہ کی آزادی کی حالیہ تحریکیں امریکہ کی ترغیبات  سے حوصلہ پاکر کام کررہی ہیں کیونکہ امریکہ یورپ کو پریشان رکھنا چاہتا ہے بالخصوص ٹرمپ  کی صدارت کے دور میں، اوراس رائے کو اوپر آئےبیانات سے تقویت ملتی ہے۔

 

چہارم:  اس علیحدگی کےانجام تک پہنچنے کے امکانات کیا ہیں: اس علیحدگی کا واقع ہونا مشکل ہے، کم ازکم مستقبل قریب میں تو نظر نہیں آتاہے اور بلاشبہ امریکہ اس بات کو جانتا ہےاوراس کی جانب سےقیطلونیہ تحریک کی حوصلہ افزائی یورپ کی فضاء کو خراب کرنے  کےلئے ہے تاکہ یورپ خود میں الجھا رہےاور یہ یورپی یونین کو توڑنے کےطویل مدتی منصوبے کےلئے بنیادی اقدامات  کے طور پر ہے۔مزید اس کے علاوہ دیگر وجوہات ہیں  جن کی وجہ سے اسپین قیطلونیہ کی علیحدگی   کوکسی طرح تسلیم نہیں کرسکتا بالخصوص دو اہم وجوہات کی بناء پر:

1۔ اس خطے کا رقبہ کے لحاظ سے چھوٹا ہونے کے باوجود قیطلونیہ اسپین  کی قومی آمدنی کا 20 فیصد حصہ پیدا کرتا ہے اوراسپین کی بیرونی تجارت کے نقل و حمل اور مواصلاتی ترسیلات کا 70فیصد حصہ کنٹرول کرتا ہےاور اسپین کی صنعتی پیداوار کا ایک تہائی حصہ پیدا کرتا ہے۔اس حقیقت کی وجہ سے قیطلونیہ کی آبادی کا کہنا  ہے کہ جتنا ان کو حاصل ہورہا ہے وہ اس سے کہیں زیادہ دے رہے ہیں اوراسپین کی حکومت ان پر زائد ٹیکس عائد کرتی ہے جو خطے  کی پیداوار کا 10 فیصد ہےاور ان تمام کی وجہ سے علیحدگی پسندی اوراس کی پکار کو تقویت ملتی ہے۔ جبکہ دوسری جانب اسپین معاشی مسائل کا شکار ہے،کمزور عوامی بجٹ  اور بجٹ کا اونچا خسارہ اور بے روزگاری میں اضافہ پھرمزید اس پر کٹوتی کے اقدامات لیے گئے ہیں،اور قیطلونیہ کی معیشت اس معاشی مسائل کو حل کرنے کا اہم ذریعہ ہے۔

2۔ مزیدقیطلونیہ کی علیحدگی پسندی  اسپین اور دیگر علاقوں  میں یکے بعد دیگرے مزیدعلیحدگی کے راستے کھول دے گی کیونکہ قیطلونیہ کی آزادی اسپین کے باسکاتی علاقہBasque Country کی آزادی کو حوصلہ فراہم کرے گاجس نےاس سے قبل علیحدگی  کی مانگ کی ہوئی ہے۔ باسکاتی علاقہ نے قیطلونیہ کی آزادی کی حمایت کی ہےجو ظاہر کرتا ہے کہ ایک دفعہ پھر باسکاتی علاقہ اپنی آزادی کامطالبہ  رکھے گا کیونکہ اس کے علیحدگی پسندی کے جذبات  ابھی ختم نہیں ہوئے ہیں۔ ” پہلے ہی  سےباسکاتی علاقے نے اگلے سال کی شروعات سے اسپین سے علیحدگی کی اپنی خواہش کا اعلان  کررکھا ہے” (Siyasa Post 24/9/2017) ۔یہ وہ خطہ ہے جس نے تشدداور سیکڑوں افراد کی اموات کو جھیلا ہےجب ETA Movementعلیحدگی کے لئے کئی سالوں سے مسلح جدوجہد کررہی تھی اور تین سال قبل اس کی جنگ بندی ہوئی اور اس  خطے کوجب مزید اختیارات فراہم کئے گئے تھےتب وہ ہتھیارچھوڑدینے کے لئے راضی ہوئے۔ چنانچہ اسپین میں کسی بھی خطے کی آزادی کے  بعد مزید علیحدگیوں  کا سلسلہ شروع ہو جائےگااوراسپین کی عدلیہ کے وزیر نے اس کے خلاف متنبہ  کیا اوراس نے کہا کہ:”میں فکرمند ہوں کہ قیطلونیہ کی آزادی اسپین کی ریاست کے خاتمے کا باعث بن جائےگی، کیونکہ قیطلونیہ کی آزادی بلاک کے اندر ایک سلسلہ وارعلیحدگی کی شروعات کردےگی” (Al Jazeera, 2/10/2017)۔

چنانچہ اسپین کسی قیمت پر قیطلونیہ کے ٹوٹنے کو قبول نہیں کرے گابلکہ وہ خطے کی خود مختاری کو روکنے کے لئے آرٹیکل 155 کے نفاذ کی دھمکی  دیتا ہے اگر کسی بھی قیمت   پرقیطلونیہ کی علیحدگی کو روکنے میں ناکام ہوتا ہے جیسا کہ اسپین کے وزیراعظم  کے دفترکابیان سامنے آیا ہے جو بی بی سی نے 19 اکتوبر2017 کو رپورٹ کیا تھا۔

3۔ مزید، یورپین یونین ٹوٹ پھوٹ کے دہانہ پر پہنچ جائے گی اگرعلیحدگی پسندی مختلف علاقوں میں  اپنے ہاتھ پیر پھیلادے بالخصوص  جب قیطلونیہ کواگر یہ آزادی و علیحدگی حاصل ہوجائے ، کیونکہ فرانس میں بھی علیحدگی پسند تحریکیں موجود ہیں اور اسپین اور فرانس  کے علاقوں کے درمیان قیطلونیہ خطہ اور باسکاتی علاقہ تقسیم ہےاور فرانس کے علاقے  island of Corsica میں علیحدگی پسندتحریک موجود ہے جو فرانس سے علیحدگی چاہتی ہے اور اسپین میں قیطلونیہ خطے کی آزادی  کی کامیابی کا انتظار کررہی ہے۔اسی طرح اٹلی ، بیلجیم اور دیگر علاقوں میں علیحدگی کی تحریکیں موجود ہیں جو یورپی یونین کے اتحاد  کے لئے خطرہ ہےجس کو پہلے سے کئی خطرات اور قومی تحریکوں کی جانب سے بحران کا سامناہے جیسا کہ برطانیہ کے یورپی یونین کے اخراج کی وجہ سے ہوا ہے۔

اوران سب کی وجہ سے قیطلونیہ کی علیحدگی کا نفاذہونا  نہایت مشکل و غیر ممکن  نظر آتا ہے کیونکہ یہ نہ صرف اسپین کی ریاست کے وجود بلکہ یورپی یونین کے وجود کے لیے خطرہ بن جائے گی۔

ایسالگتا ہے کہ قیطلونیہ خطے کےصدر  نے اس بات کو محسوس کرلیا تھا کیونکہ خود خطے میں وہ تنہا ہوگیا تھا کیونکہ عوام کی ایک تعداد نے اس کے خلاف مظاہر ہ کیا تھا۔   چنانچہ اس کی جانب سےآزادی کا اعلان غیرمکمل رہا  اور  علیحدگی کے نفاذ کو مذاکرات کےانجام پانے تک موخر کیا تاکہ خطے کے لئے مزید بڑی  آزادی حاصل کی جاسکےاور مواقع پیدا کئے جاسکیں اور مستقبل میں  آزادی کے لئے موافق حالات کا انتظارکریں ۔ حتی کہ امریکہ جس نے اس کی حوصلہ افزائی کی تھی اس نےجب یورپی یونین کے ساتھ اسپین کی مظبوط پوزیشن کو دیکھا تواس نے اس کی اپنی حمایت  کم کردی  اور اسی لئے امریکی صدر ٹرمپ نے اسپین کے وزیر اعظم کے ساتھ ملاقات کے دوران کہا کہ “ہم ایک عظیم ملک کے ساتھ معاملات کررہے ہیں جس کا متحد رہنا ضروری ہے”  (Egyptian Ashorooq 27/9/2017) ۔ اوریوں قیطلونیہ  خطے کاصدرجان چکا ہے کہ ٹرمپ کا وعدہ شیطان کے وعدہ کی طرح ہے،

 

﴿يَعِدُهُمْ وَيُمَنِّيهِمْ وَمَا يَعِدُهُمُ الشَّيْطَانُ إِلَّا غُرُورًاا غُرُورًا)ٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌ

﴿يَعِدُهُمْ وَيُمَنِّيهِمْ وَمَا يَعِدُهُمُ الشَّيْطَانُ إِلَّا غُرُورًا

“وہ ان سے زبانی وعدے کرتا رہے گا ، اور سبز باغ دیکھاتا رہے گا، (مگر یاد رکھو!) شیطان کوجو وعدے ان سے ہیں وہ سراسر فریب کاریاں ہیں”(النساء:120)

 

البتہ امریکہ یورپی یونین کو دبانے کی کوشش کرتا رہےگااور ایسے لوگوں کو پالے گا جو اس کے وعدوں  پر لبیک کہیں گے۔

 

پنجم : اس طرح قومیت یعنی نیشنلزم ، کیپٹلزم کی آئیڈیالوجی  کےحقیقی آقاؤں کو کھوکھلا کرتی رہتی ہےبالخصوص قومیت ، اس وقت  یورپ  کو کھوکھلاکرکے اس کےسیاسی افعال  کو کمزور کیے جارہی ہے کیونکہ کیپٹلزم کی آئیڈیالوجی قومیت کے مسئلہ کو حل نہیں کرپائی ہےاور نہ ہی کرسکتی ہےاور یہ ایک ناکام آئیڈیالوجی ہےجو زندگی کو مذہب سےعلیحدہ کرنے کی وجہ سے اپنی جڑ سے ہی کھوکھلی ہےاور اس کی جمہوریت کی وجہ سےیہ مفسدوبدعنوان ہےجس پر اس کے سرمایہ داروں کا قبضہ وقابو ہوتا ہےجو جمہوریت کے نام  پراور اس کے قانون کےذریعہ عہدےاور مراعات واختیارات سب سمیٹ لےجاتے ہیں ۔ یہ جابرانہ ودبانے والی آئیڈیالوجی ہے جو مذہب اور اس کے ماننے والوں سے لڑتی رہتی ہےاورمزید اس لئے کہ بنیادی طور لوگوں کے درمیان ان کے مذہب اور نسل کی بناء پرامتیازپایا جاتا ہےجس کو یہ بڑھاوا دیتی ہےاور یہ  بات امریکہ و یورپ میں ظاہر ہےاور صاف نظر آتا ہےجس میں کوئی شک نہیں ہے۔

انسان کے بنائے تمام تر قوانین ان ناانصافیوں،  جبر واستبداد اور فساد سے پاک نہیں ہیں اور نہ ہی ملک وقوم  کو غلام بنانے سےپیچھے ہٹتے ہیں۔ یہ اسلام ہی ہے جو اللہ کے ذریعہ نازل کیا گیا ہے جو سارے جہانوں کا رب ہےاورجو حق  وانصاف کو لوگوں کے درمیان  قائم کرتا ہےاوران کے معاملات کودرست کرتا ہے۔

 

(أَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ)

“کیا وہی نہ جانے گا جس نے پیدا کیا ہے جبکہ لطیف و باخبر ہے”(الملک:14)

 

یہ اسلام ہے جو تمام لوگوں کو جوڑ کر ایک قوم میں ڈھال دیتا ہے اور قومیتی اور قبائلی تقسیموں اور رسہ کشی کا خاتمہ کرتا ہےجیسا کہ وہ تمام قومیتی جذبات اور عصبیت کی ہرایک شکل کو حرام قراردیتا ہےاور ان کے خلاف انتھک جنگ چھیڑدیتا ہے۔یہ اسلام ہے جو لوگوں کےمعاملات کی دیکھ بھال کرتے ہوئے ان کے درمیان  کسی قسم کا امتیاز کئے بغیر انصاف قائم کرتا ہے، امتیاز خواہ مذہب کا ہو نسلی یا رنگ و جنس یا کوئی اور بلکہ تمام لوگوں کویکساں ومساوی مانا جاتا ہےاورخلافت راشدہ کی  عدالت کے تحت ان کے ساتھ انصاف برتا جاتا ہے۔

امام احمد اپنی مسند میں روایت کرتے ہیں کہ  اسماعیل نے سعید الجبیری سے ابو ندرا کےحوالے سے روایت کیا جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایام تشریق میں فرماتےسنا کہ:  

 

«يَا أَيُّهَا النَّاسُ، أَلَا إِنَّ رَبَّكُمْ وَاحِدٌ، وَإِنَّ أَبَاكُمْ وَاحِدٌ، أَلَا لَا فَضْلَ لِعَرَبِيٍّ عَلَى عَجَمِيٍّ، وَلَا لِعَجَمِيٍّ عَلَى عَرَبِيٍّ، وَلَا أَحْمَرَ عَلَى أَسْوَدَ، وَلَا أَسْوَدَ عَلَى أَحْمَرَ، إِلَّا بِالتَّقْوَى أَبَلَّغْتُ»، قَالُوا: بَلَّغَ رَسُولُ اللَّهِ

“اے لوگوں ، تمہارا رب ایک ہےاور تمہارا باپ ایک ہےکسی عرب کو غیر عرب پراور کسی غیر عرب کو عرب پر کوئی فضیلت نہیں ہےاور نہ کسی سرخ رؤ کو سیاہ رؤ پراور نہ کسی سیاہ رؤ کو  سرخ رؤ پرفضیلت ہے سوائے تقوی کے،  کیا میں نے پیغام پہنچا دیا؟انہوں نے کہا  اللہ کے رسول  نے پیغام  کوپہنچا دیا”

اور یہی حق ہے:

(فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلاَّ الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ)

“حق کے بعد سوائے گمراہی  کے اور کیا ہوسکتا ہے تو کیا تم نے نہیں مانا”(یونس:32)

 

29 محرم 1439 ہجری

19 اکتوبر 2017 عیسوی

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک